About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, September 29, 2013

پیر

پیر

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
26 ستمبر 20131
Print  
پیر
اچھا خاصا چلتا ہواکاروبار خسارے میں چلا گیا۔ نوبت فاقوں تک آتی دیکھ کر بڑے قرض کا قصد کیا۔ بنک گارنٹی موجود نہیں تھی تو ایک دوست کو ساتھ لے کر یہ علاقے کے معروف سیٹھ کی چوکھٹ پر حاضر ہو گیا۔ اس نے پرتپاک استقبال کیا۔ اپنے گھر اور در تک آنے کی وجہ سے وہ واقف تھا۔ اس لئے ضرورت پوچھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے وہ ناصحانہ انداز میں گویا ہوا” میں سود پر رقم دینے سے پہلے کچھ حقائق آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔“ اس کے ساتھ ہی دودھ کے 2 گلاس منگوائے اور یہ کہتے ہوئے ہمیں پیش کئے کہ میں قرض دینے سے قبل اپنے کلائنٹس کا من دودھ پلا کر پاک کرتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ کہا وہ سود پر پیسے دینے والے عموماً نہیں کہا کرتے۔ اس کا کہنا تھا ”بنک سے آپ سود پر پیسے لیں تو وہ اگلے ماہ سے قرض کی سود سمیت واپسی قسطوں میں شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا طریقہ ذرا مختلف ہے۔ ہم قرض اپنی رقم کی واپسی کے لئے نہیں دیتے صرف سود کی وصولی کے لئے دیتے ہیں۔ سود کی رقم قرضدار کو یکمشت لوٹانی ہوتی ہے ،جب بھی اس کے پاس ہو۔ اس وقت تک اسے ہر ماہ سود ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران جتنے ماہ سود کی ادائیگی نہ ہو وہ رقم بھی قرض میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس شکنجے سے صرف جائیداد بیچ کر ہی کوئی نکل سکتا ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی جائیداد ہو تو۔ میرا تو یہ کاروبارہے، اس کی اونچ نیچ سے آپ کو آگاہ کر دیا۔ اب بتاﺅ کتنا قرض چاہئے؟ بہتر ہے کہ ایک دو دن مزید سوچ لو“
قرض کی حسرت لے کر سود خور کے در پر آنے والے دوستوں نے آخری فقرے کو زیادہ اہمیت دی اور وہاں سے اٹھ آئے۔ خراد کی ورکشاپ کے مالک کو سود پر قرض کے سوا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا ۔سوچا اگلے دن پھر اسی آستاں پر چلا آئے گا۔ اس کے ساتھی نے کہا کہ آﺅ تمہیں ایک اللہ کے نیک بندے سے ملاﺅں، شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ اب دونوں ایک بڑی کوٹھی کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ بیل دی، گیٹ ملازم نے کھولا اور بغیر کچھ پوچھے دونوں کو ڈرائنگ روم میں لا کر بٹھا دیا۔ چند لمحوں میں صاحب خانہ تشریف لے آئے۔ حالات کے ستائے ہوئے شخص نے ان کو پیر سمجھتے ہوئے عرض کی کہ کاروبار میں گھاٹے پر گھاٹا پڑ رہا ہے۔ ۔۔بابا جی نے ہاتھ کے اشارے سے مزید بات کرنے سے منع کیا۔ اس دوران دو تین مزید مرید قسم کے لوگ بھی وہاں چلے آئے۔ ملازم نے سب کو ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس دوران ایک جھٹکے میں بجلی بند ہوئی دوسرے میں جنریٹر چلا اور ڈرائنگ روم پہلے کی طرح پھر جگمگا اٹھا۔ فریادی کہتا ہے اس موقع پر اسے یہ شعر بے طرح سے یاد آیا ....
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اس کے خیالات کا تانتا بزرگ کے ان الفاظ سے ٹوٹا ”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ مدد کرے گا۔ یہ عہد کرو کہ جھوٹ نہیں بولو گے اور کبھی سود پر قرض نہیں لو گے“ اس نے صدق دل سے عہد کیا۔ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ اگلے روز ورکشاپ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہی روٹی روزی کا اڈا تھا جو اب ویران ہو کر کھانے کو دوڑتا تھا۔ بڑے حوصلے سے گھر سے نکلا ہی تھاکہ موبائل پر دس لاکھ کا آرڈر مل گیا۔ پارٹی نے دو لاکھ ایڈوانس لے جانے کو کہا یوں وہ دو لاکھ وصول کرکے ورکشاپ گیا اور شام کو اسی دوست کو ساتھ لے کر پیر صاحب کے دولت خانے پر مٹھائی اور 5 ہزارکے ساتھ حاضر ہوا اور نذرانہ پیش کرتے ہوئے ماجرا سنایا ۔ پیر صاحب نے فرمایا تمہیں تو خود پیسوں کی ضرورت ہے،ایہیں اپنے پاس رکھو۔ مٹھائی اپنے بچوں، عزیزوں اور دوستوں کو جا کر کھلاﺅ۔۔ پیر صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ 25 مربعے کے مالک بڑے زمیندار ہیں۔ نذر نیاز قبول نہیں کرتے۔ لوگوں کو سچائی کا درس دیتے ہیں ۔یہی ان کا مشن ہے۔
آج پیری مریدی ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اصل اور نقل میں پہچان نہیں رہی۔ اب تو پیر صاحبان ٹی وی پر آ کر بھی اپنی رونمائی کرتے ہیں۔ کالموں میں تذکرے ہوتے ہیں۔ہم پھونکیں مارنے والوں اور کرامات دکھانے کے دعویداروں ہی کو پیر سمجھتے ہیں۔پیر وہ بھی ہے جو راہِ راست دکھا دے ،لوگوں کو گمراہی کی تاریکی سے نکال دے اور کامیاب زندگی کا گُر بتا دے ۔ پیر کی تلاش میں کئی لوگ عموماً ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
ایک پیر کی روداد ایک بڑے صحافی نے سرمحفل سنائی۔ ”عمران خان لفٹر سے گرے تو ان کی ریڑھ کی ہڈی کے اپریشن کے لئے ڈاکٹروں کی متضاد رائے تھی۔ کچھ ڈاکٹروں کا اپریشن کرنے پر اصرار تھا۔ عمران خان کو اس تذبذب سے ایک فون کال نے نکالا ”اپریشن نہ کرانا“ فون کرنے والے کا آدمی بھی تھوڑی دیر بعد پہنچ گیا جس نے دوا پہنچائی شاید کوئی ورد بھی بتایا ۔ ڈاکٹر اور میڈیکل سائنس عمران خان کے ٹیسٹوں کے بعد کہتی تھی عمران کو نارمل زندگی کی طرف آنے میں دوتین سال لگیں گے۔ عمران خان تو چار پانچ ہفتے بعد ہی کمر پر بیلٹ باندھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ مزید علاج کے لئے لندن گئے۔ ڈاکٹروں نے وہاں چیک اپ کیا ٹیسٹ لئے اور ہسٹری دیکھی۔ عمران خان کے اپنے ہسپتال کے ٹیسٹوں نے مہروں میں جو نشاندہی کی تھی لندن کے ٹیسٹوں میں اس کا نام و نشان نہیں تھا۔ لندن میں ڈاکٹروں نے اپنے ٹیسٹوں کی بنیاد پر کہا کہ پاکستان سے آئی رپورٹوں میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہوتا تو عمران کو عام زندگی کی طرف لوٹنے میں طویل عرصہ چاہیے تھا۔ ہمارے ٹیسٹوں کے مطابق ایسا کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیلٹ کو غیر ضروری قرار دے کر اسے اتروا دیا“
 عمران کا پیر جہلم میں رہتا ہے نام اور پتہ کیا ہے شاید مجیب الرحمن شامی صاحب بتا سکیں۔ یہ روداد انہوں نے گوجرانوالہ میں فاروق عالم انصاری کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر لاہور سے جانے والے صحافیوں کو سنائی جو میزبان کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق وہاں پہنچے جو دراصل قبل از وقت تھا۔ اجمل نیازی کے قافلے میں، میں اور حامد ولید شامل تھے شادی کے عین موقع پر وہاں پہنچے اور یہ روداد سننے سے محروم رہے جو امتیاز تارڑ اور غلام نبی بھٹ نے سنائی ۔

Wednesday, September 25, 2013

’پاکستانی سیاست اور طاقت‘‘

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق





’’ڈاکٹر مبشر حسن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ہم نے دوسری گاڑی بھیج دی ہے‘‘ زبیر شیخ کے یہ الفاظ ٹیک کلب میں بیٹھے لوگوں پر بجلی بن کر گرے۔ اس وقت تقریب کے مہمان خاص غلام مصطفی کھر اپنی فیملی کے ساتھ ہال میں آچکے تھے۔ تقریب کے نقیب نے مزید کہا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ ڈاکٹر صاحب پانچ سات منٹ میں پہنچ جائیں گے۔ سنگل پسلی ڈاکٹر صاحب تشریف لائے تووہ ہشاش بشاش تھے۔ اس عمر (پیدائش 22 جنوری 1922ئ) میں ہوا کا تھپیڑا لگ جائے تو اسے بھی ایکسیڈنٹ ہی کہا جاتا ہے شاید یہی انکے ساتھ بھی ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سے انتظامیہ نے خطبہ استقبالیہ ’’ کھر کا تعارف‘‘ کے نام پر پہلے مقرر کے طور پر ہی دلوالیا البتہ وہ کھر صاحب کی تقریر کے دوران اور بعد بھی مائیک کے سامنے آتے جاتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کا روسٹرم پر آتے ہی ٹمپرامنٹ لوز تھا۔ جوں جوں تقریب کی کارروائی آگے بڑھی بڑے احترام کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کئی ’’پیچ‘‘ بھی ڈھیلے محسوس ہوئے۔ البتہ مجموعی طور پر ان کی تقریر معلوماتی، اثر انگیز اور حب الوطنی کے جذبے سے معمور تھی۔ وہ کرپشن اور بیڈ گورننس سے کسی بھی درد دل رکھنے والے پاکستانی سے زیادہ پریشان تھے۔ انہوں نے اس امریکی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا کہ صرف 415 پاکستانیوں کے سوئس بنکوں میں 83 ارب ڈالر یعنی 83 کھرب روپے پڑے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوست کھر کا تعارف زبردست طریقے سے کرایا اور کہا کہ اگر کھر نہ ہوتے تو ذوالفقار علی بھٹو صدر نہ بن سکتے۔
قیوم نظامی صاحب ٹیک کلب کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں۔ آج ان کے پرانے ساتھی آئے تو وہ غائب تھے، شاید ان کے ساتھ نہ بنتی ہو۔ انتظامیہ نے تقریب کی کارروائی شروع ہوتے ہی سوالات کے حوالے سے حاضرین سے درخواست کی کہ ذاتیات کے حوالے سے سوال نہ کیا جائے تاہم غلام مصطفی کھر نے کہا کہ حاضرین سیاست سے لیکر میری ذاتی زندگی پر جو چاہیں سوال کریں۔ ایک بزرگ نے جو ڈاکٹر مبشر کے ہم عصر لگتے تھے انہوں نے تقریب کے باقاعدہ اختتام کے بعد جب حاضرین چائے اور’’ ایک ایک ‘‘بسکٹ کیلئے اٹھ رہے تھے، روسٹرم پر آ کر تمہید باندھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’میرا کہتی ہے کہ اس کا باپ غلام مصطفی کھر ہے۔‘‘ کھر صاحب جواب کیلئے روسٹرم پر آیا چاہتے تھے کہ انتظامیہ نے اس سوال کو مسترد کر دیا۔ کھر صاحب پھر بھی آگے بڑھے کہ ڈاکٹر مبشر نے ’’دبکا مارا‘‘ ایسے فضول سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
کھر صاحب کی تقریر ذرا طویل تھی۔ ایسے میں انٹ شنٹ بھی لگ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’سیاستدان فوج بیوروکریسی اور عدلیہ مل کر ملک کو بچا سکتے ہیں۔ فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کو سیاستدانوں کی قیادت میں متحد ہونا ہو گا‘‘ ۔۔۔ عدلیہ کیوں فوج اور بیوروکریسی کے ساتھ بیٹھے۔ کیا وہ فیصلے ان سے پوچھ کر کرے؟ فوج اور بیوروکریسی حکومت کی چھتری تلے تو متحد ہوتے ہیں تو حرج نہیں۔ عدلیہ اپنا کردار ادا کرے۔ جس طرح آج آزاد عدلیہ ہے اسے کسی کی چھتری اور سپروژن کی ضرورت نہیں بلکہ فوج اور خصوصی طور پر بیوروکریسی اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرے تو تمام دلدّر دور ہو سکتے ہیں۔
کھر صاحب نے مہنگائی کے خاتمے اکسیر نسخہ بتایا کہ سیاست سستی تو ہر چیز سستی ہو سکتی ہے۔ ایک امیدوار انتخابی مہم پر ایک کروڑ خرچ کرتا ہے۔ کئی پانچ کروڑ بھی کر دیتے ہیں۔ وہ حکومت میں آ کر کم از کم تین گنا اکٹھے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا سسٹم ہو کہ عام آدمی بھی الیکشن لڑ سکے۔ انتخابی اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوں یعنی سیاست میں مہنگائی ختم ہو جائے عام آدمی کو بھی مہنگائی سے نجات مل سکتی ہے۔
کھر صاحب ملکی حالات پر دل گرفتہ ہیں۔ وہ بھٹو کے دور میں گورنر پنجاب رہے۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کے دور کو کالاباغ دور سے مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ کالاباغ اور ان جیسا گورنر پہلے آیا نہ کبھی آئندہ آئے گا۔ وہ بینظیر بھٹو کے دور میں وزیر پانی و بجلی رہے۔ اس دور میں بھی حکومتی سطح پر کرپشن کے چرچے تھے۔
بینظیر بھٹو کی دو بار حکومت انہی الزامات کے باعث ہی توڑی گئی۔ کھر صاحب نے تقریب میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے کرپٹ ذہنیت کے حوالے سے بتایا کہ ان دنوں امریکہ سے ایک وفد پاکستان میں بجلی کے معاہدوں کیلئے آیا تھا۔ اس میں ایک ہندو رکن کانگریس بھی تھا۔ اس نے مجھ سے الگ ملنے کی خواہش کی۔ میں نے اس کی بات سنی۔ وہ پاکستان میں کرپشن پر بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا کرپشن بڑے ممالک میں بھی ہے، بھارت میں بھی کم نہیں۔ پاکستان میں یہ کسی اور ہی شکل میں ہے۔ امریکی وفد بھارت گیا دس دن تک ان کے سیاستدان اور بیوروکریٹ لڑتے رہے کہ بجلی کی قیمت کم کرو۔ ہم کم از کم سطح پر قیمت لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے کمشن کی بات کرو جس پر ہم ششدر رہ گئے۔ ان کا جواب تھا ہم اپنے ملک کے مفاد کو زک نہیں پہنچا سکتے۔ کمشن بھی ضرور لیں گے اور آپ سے لیں گے۔ ادھر پاکستان میں سات دن سے ہم بیٹھے ہیں کسی نے بجلی کی قیمت کم کرنے کی بات نہیں کی سب کہتے ہیں کہ ہمارا کمیشن بڑھائو۔




تقریب کے اختتام پر بہت سے سوالات ہوئے۔ ایک خاتون نے پوچھا کہ آپ کسی پارٹی میں مستقل مزاجی سے نہیں رہے۔ اس پر کھر صاحب نے یہ واقعہ دہرایا کہ میں نے وزیر بجلی و پانی کی حیثیت سے محترمہ سے ملاقات کیلئے وقت مانگا انہوں نے نوازش کی، اپنے گھر لنچ پر بلا لیا۔ میں نے کہا کہ آج کل کابینہ میں کرپشن کے بڑے تذکرے ہیں۔ زرداری صاحب ہم سے بھی پیسے مانگتے ہیں۔ ہم آپ کی بات مانیں یا آصف صاحب کی؟ اس پر بینظیر بھٹو نے کہا آصف صاحب کی!!! کھر کا حاضرین سے سوال تھا کہ کیا میں ان لوگوں کے ساتھ چل سکتا تھا؟

سمت

22-9-2013
کالم نگار  |  فضل حسین اعوان





مہنگائی، بیروزگاری، رشوت ستانی اور لاقانونیت جیسی خرافات کے خاتمے کی جو امیدیں عوام نے حکومت سے وابستہ کی تھیںجلتے خوابوں کی مانند اب ان سے دھواں اُٹھ رہا ہے۔ عوام کے ارمانوں، آرزوﺅں اور تمناﺅں کے تاج محل زمین بوس کوہیں۔ عوام نے مسلم لیگ (ن) کے گلے میں اقتدار کی مالا اسے اپنی حفاظت کی چھت ،چھتری اور سائبان سمجھ کرپہنائی جو عوام کے مقدر کی زنجیر بنا دی گئی۔ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عوامی مسائل کے حل، ملک کی ترقی و خوشحالی کا بڑا نسخہ کیمیا دریافت کر کے عوام پر افشاءکیا اور کامیابیوں و کامرانیوں کا میدان مار لیا۔ کرپٹ بیورو کریسی اور سیاستدانوں کی کرپشن سے بنائی دولت کی پائی پائی وصول کر کے قومی خزانے میں لانے کی قسمیں کھائی گئیں۔ یہ اربوں ڈالر اور کھرب ہا روپیہ اگر خزانے میں واپس آ جائے تو قوم و ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی ضرورت رہے گی نہ امریکہ عرب ممالک سے بھیک کی۔ اب تک سامنے آنے والی صورتحال کے مطابق تو لگتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں لوٹ مار کرنے والوں کو معاف کر دیا گیا تاکہ وہ حکومتی مدت مکمل کرانے میں وہی کردار ادا کریں جو نواز لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن بن کر گزشتہ دور میں ادا کیا۔ کرپشن کے پیسے کی واپسی سے جو وسائل مہیا ہونے تھے وہ اب عوام پر ٹیکس لگا کر، ٹیکسوں میں اضافہ کر کے اور بجلی و تیل کی قیمتیں بڑھا پیدا کئے جا رہے ہیں۔ عوام کا تیل نکلے گا تو وہ چیخ و پکار ہی کر سکتے ہیں، سو وہ کر رہے ہیں۔ جن کو پکار رہے ہیں ان کے بم پروف محلات اور بُلٹ پروف گاڑیوں کے اندر تک تو ہَوا داخل نہیں ہو سکتی صدا کیسے پہنچے گی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے پاﺅں مضبوطی سے جما کر فیصلہ کن لائحہ عمل اختیار کرے اور اس کیلئے عوام کو سرِ دست اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی جاتی تو ممکنہ طور پر شکنجے میں آنے والے جمہوریت کا کھیل بگاڑنے پر ہی تُل جاتے۔ حکومت بہرحال بہت کچھ نہیں تو کچھ نہ کچھ کرتی نظر آرہی ہے ۔
وزیراعظم نواز شریف نے چین، سعودی عرب اور ترکی کے دورے کر لئے، یہی ہمارے بہترین دوست ہیں۔ سب نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کرنے کا یقین دلایا۔ ترقی و خوشحالی کا خواب امن کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا جو ملک سے ناپید ہو چکا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ہر تین ممالک کے حکمرانوں اور وہاں کی تاجر برادری و سرمایہ کاروں کو پاکستان میں انوسٹمنٹ کی دعوت دی۔ یہ ایسے ہی کہ حامد کرزئی کسی ملک سے ریلوے سیلون درآمد کرنے کا معاہدہ کر لیں ۔ آزاد کشمیر حکومت بحری بیڑے کا آرڈر دیدے۔ نہ امن نہ انرجی ،آپ کے سرمایہ کار تو وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک جا رہے ہیں ۔جہاں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ --- یہ سوال نہایت اہم ہے ۔مسلم لیگ ن کی کی پوری توجہ اس طرف ہے ۔ نواز لیگ حکومت ملک سے دہشت گردی، لاقانونیت اور بدامنی ختم کرنے کیلئے پُرعزم نظر آ رہی ہے۔ اس میں لغزش و لرزش نہ آئی یہ سیاسی دباﺅ،اندرونی و بیرونی مصلحتوں کا شکار نہ ہوئی تو یقیناً حالات سازگار ہو جائیں گے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ فوج کو طالبان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات پر آمادہ کرنا بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ طالبان کی شرائط سرِ دست بڑی کڑی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ مذاکرات کی میز پر آئے تو درمیانی راستہ ضرور نکلے گا۔ طالبان کے گروپوں کی تعداد 70 کے لگ بھگ ہے ۔سارے کے سارے مذاکرات کی حمایت اور مخالفت میں یکسو نہیں۔ ان میں آدھے بھی مذاکرات کے بعد معاہدے کے بندھن میں بندھ گئے تو باقی کا مقابلہ کرنا آسان ہو گا اور پوری قوم یکجا و یکتا بھی ہو گی۔ خدانخواستہ مذاکرات ناکام ہوئے تو تباہی کا سلسلہ یو نہی جاری رہے گا اورقوم بھی بٹی رہے گی۔ مذاکرات کا دم بھرنے اور کرنے والے ان کو ناکام بنانے کیلئے آگے نہیں بڑھ رہے وہ بہت سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں جن میں غیر محسوس انداز اور غیر اعلانیہ پیشرفت ہورہی ہے ۔
کراچی میں بدامنی اپنے عروج کو چھو کر مُڑی ہے۔ فوجی اپریشن تو نہیں ہُوا ،جو ہُوا بہتر ہُوا۔ پہلی دفعہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جسے مرکزی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ کراچی میں اجلاس کے دوران وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ڈی جی رینجرز سے پوچھا تھا ” کراچی کتنے دن میں امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔“ ان کا جواب تھا۔” اختیارات دئیے جائیں تو تین دن میں۔ “وزیر داخلہ اس پر چونکے ، شاید یقین نہیں آیا اور حیرانی سے پوچھا۔” ذرا پھر سے کہنا۔“ ان کا مصمم ارادے سے جواب تھا۔” تین دن صرف تین دن۔“ اب حکومت رینجرز کو مکمل اختیارات دے رہی ہے تو ان شاءاللہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ کابینہ کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کا مسودہ منظور کیا گیا ہے جس کے مطابق تحقیقاتی ادارے تفتیش کےلئے ملزموں کو 30 کے بجائے 90 روز تک حراست میں رکھ سکیں گے اور یہ حراست کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مسلح افواج، سول فورسز، خفیہ اداروں اور ایس پی عہدے کے پولیس افسر پر مشتمل ہو گی، تحقیقاتی ٹیم ایف آئی آر کے اندراج کے 30 روز کے اندر ٹرائل کورٹ میں مقدمہ پیش کرےگی۔ پیرا ملٹری فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزاحمت کی صورت میں شدت پسندوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں ملوث افراد کو وارننگ دینے کے بعد گولی مارنے کا بھی اختیار حاصل ہو جائے گا۔ دہشت گردی میں ملوث افراد اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے افراد کو بھی گولی مارنے کا اختیار رکھیں گے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت 30 روز میں کیس کا فیصلہ کرےگی ۔




 دہشت گرد واقعی انسانیت کے دشمن ہیں اگر حکومت ان کے خاتمے کیلئے جرا¿ت مندانہ اقدام، مصلحتوں اور سیاسی دباﺅ سے بالاتر ہو کر رہی ہے تو کم از کم دہشتگردی کے خاتمے کے لئے یہی درست سمت ہے ۔پوری قوم کو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔

شام ۔۔۔ملی وقومی غیرت


شام ۔۔۔ملی وقومی غیرت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
19 ستمبر 2013 2
امریکی ادارے قومی سلامتی ایجنسی کے عہدیدار ایڈور ڈ سنوڈن نے پوری دنیا کو بتادیا کہ امریکی حکومت اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کرتی ہے۔ یہ کام اس کے فرائض میں بھی شامل تھا۔اس کے بعد جان بچانے کےلئے وہ امریکہ سے فرار ہوا۔ چین اور ہانک کانگ سے ہوتا ہوا روس جاپہنچا۔ سنوڈن نے 21ممالک سے پناہ کیلئے رابطہ کیا لیکن امریکہ کے خوف سے کہیں سے خیرات نہ ملی البتہ روس نے اسے قبول کرلیا۔ امریکہ نے زبردست دباﺅ ڈالا لیکن روس ناں ،ہاں میں بدلی ۔ دونوں کے مابین قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بھی موجود ہے ۔اسی معاہدے کے تحت امریکہ میں پکڑی جانیوالی روسی خوبرو جاسوسہ اینا چیمپئن واپس آئی تھی جس نے روس میں ماڈلنگ شروع کردی۔اب اینا نے سنوڈن کو شادی کی دعوت دی ہے۔ سنوڈن کو روس میں باقاعدہ پناہ دیدی گئی ہے۔ صدرپیوٹن نے امریکہ کو جواب دیا روس پنا ہ لینے والوںکبھی واپس نہیں کرتا۔ حالیہ دنوں میں روس کی طرف سے سپر پاور امریکہ کی یہ پہلی سبکی تھی۔ دوسری تب ہوئی جب روس نے امریکہ کی شام پر حملے کی خواہش اور تیاری کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔
شام کو باغیوں کے خلاف مہلک گیس اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر سبق سکھانے کیلئے اوباما نے تلوار سونپ لی اور کیری نے کمان پر تیر چڑھا لیا تھا۔پل بھر میں شام عراق اور افغانستان کی طرح کھنڈرات میں تبدیل ہوتا نظر آرہا تھا۔اوباما کی سیماب صفت طبیعت جو شائد ان کی جبلت، سرشست، فطرت اور خصلت کا حصہ ہے، کے سامنے اقوام متحدہ کیا خود اپنی کانگریس بھی ہیچ نظر آئی۔ ایک موقع پر فرمایا کہ شام پرحملہ کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی اجازت کی ضرورت نہیں، صرف امریکی کانگریس سے منظوری لی جائے گی پھر عزم باندھا کہ کانگریس نے منظوری نہ دی تو بھی حملہ کردیاجائے گا۔ اوباما کی حملے کی ہٹ دھرمی میںروس اور چین کی سخت مخالفت کے بعد نرمی آئی خصوصی طورپر روس کی یہ دھمکی کام کرگئی کہ امریکہ نے شام پر حملہ کیا تو روس سعودی عرب پر چڑھائی کردے گا۔ شام پر حملے کیلئے عرب ممالک زیادہ پھرتیاں دکھاتے ہوئے بشارالاسد کا پتہ کٹوانے کیلئے بے قرار تھے۔ انہوں نے امریکہ کو جنگ کے اخراجات اٹھانے کی پیش کش بھی کی۔
شامی حکومت اور باغیوں کی جنگ میں انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ بشار الاسد اپنے اقتدار کو بچانے اور باغی اسے چراغ کو بجھانے کیلئے سرگرداں ہیں۔اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں دونوں نے بربریت بپا کر رکھی ہے اور اس میں بیرونی دنیا نے اپنے حصے کا تعین کرکے جنگل کے قانون کے تحت اس کے حصول کی پلاننگ کی تو عوامی سطح پر ہر ملک میں مخالفت ہوئی ۔چند ممالک دنیا کی واحد سپر پاور کے سامنے کھڑے بھی ہوگئے۔ایسا کبھی تو ہونا تھا۔ امریکہ کی بے کنار ہوتی طاقت، پوری دنیا پر غلبے کی خواہش اور توسیع پسندانہ عادت کے سامنے بند تو باندھا جانا تھا۔سو اب بندھ گیا ہے اور دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ یہ سب کچھ پُر امن طریقے سے ،بغیر کسی بڑی تباہی بلکہ ایک اور عالمی جنگ کے ہوگیا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دنیا کے چند با اثر ممالک اگرٹھان لیں تو سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کے مسائل بھی پُر امن طریقے سے حل ہوسکتے ہیں۔ شاید ان ممالک کے مسئلہ کشمیر اور فلسطین سے اُس طرح کے مفادات وابستہ نہیں ہیں جس قسم سے شام پرحملے کی حمایت اور مخالفت سے وابستہ تھے یا پھر پاکستان اور عرب ممالک کشمیر اورفلسطین کے کیس صحیح طورپر دنیا کے کے سامنے پیش نہ کرسکے ۔
 شام نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں جو اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف سدِ جارحیت کیلئے ہیںوہ باغیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوئے جبکہ دوسرا فریق مُصر ہے کہ کیمیائی ہتھیار حکومت نے استعمال کئے ،ایسا ہی باغیوں کے بارے میں کہاجارہا ہے۔تحقیق سے قبل ہی امریکہ نے شام کا گھیراﺅ کرلیا۔ ہوسکتا ہے اس کو ایک بار پھر گمراہ کیا گیا ہو۔صدام کے پاس تباہ کن ہتھیار ہونے کی گواہی عراقی حکومت سے الگ ہونے والے جاسوس رافض احمد السعوان الجنابی اور عراقی خفیہ ایجنسی کے سابق افسر میجر حارث نے دی تھی۔
دونوں نے اپنے طورپر نوکریوں سے نکالے جانے کا انتقام لینے کیلئے یہ ڈرامہ رچایا۔صدام کا وزیر خارجہ ناجی صابری بھی سی آئی اے کا مخبر تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان جاسوسوں کے جھوٹ کا پول کھل گیا لیکن اس وقت تک لاکھوں عراقی موت کی لکیر پار کر چکے تھے ۔شام میں بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے جاسوس ہی اپنا کام دکھا رہے ہوں۔
روس کے سپر پاور ہونے کا بھرم افغان جنگ میں ٹوٹ گیا لیکن اس نے اپنی انا اور قومی غیرت پر سودے بازی نہیں کی۔ امریکہ و روس کی ایک دوسرے کے خلاف دوستی نفرت اور جاسوسی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔روس نے امریکہ کی مطلوب افراد اس کے حوالے کرنے کی خواہش کبھی پوری نہیں کی۔ہم عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ مجرموں کی رہائی کا معاہدہ نہیں ہے۔ایمل کانسی کا امریکہ میں اور ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان میں کیا گیا جرم ایک جیسا تھا۔ اس نے ایمل کانسی کو یہاں سے لے جا کر مقدمہ چلایااورسزا موت پر عمل کرکے لاش پاکستان کے حوالے کردی ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو زندہ امریکہ کے حوالے کردیا جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی کام کر رہا تھا۔کیا قومی و ملی غیرت اس کا نام ہے؟۔ہم تو لاطینی امریکہ کے ممالک نکاراگوا اور وینزویلا سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ ان ممالک نے سنوڈن کو پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ 

پی آئی اے ۔۔۔ وڑائچ طیارہ

پی آئی اے ۔۔۔ وڑائچ طیارہ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
15 ستمبر 2013 0
عوام نے زرداری حکومت کی کارکردگی پر جھولیاں اٹھا کر ”دعائیں“ دیں اور نواز لیگ کی قیادت کی پر ایمان لا کر اس کا دامن ووٹوں سے بھر دیا۔ اسے مشکلات اور مسائل کا ایک بحرِ بیکراں ورثے میں ملاجس کا سبب اعلیٰ سطح پر انتہائی کرپشن اور لوٹ مار تھی۔مسائل کے حل اور مصائب سے نجات کیلئے وسائل کی ضروت ہوتی ہے ۔ نواز شریف اور شہباز شریف عوام کو یقین دلاتے رہے کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے قومی خزانے سے لوٹی گئی پائی پائی واپس لائیں گے۔ انہوں نے کہا اور عوام نے صدقنا کہہ دیا۔لوٹی گئی رقوم کی مالیت کھربوں روپے اور اربوں ڈالر میں ہے۔ اس سے 90 ارب ڈالر کے قرض چکا کر باقی رقم ملک کی تعمیر و ترقی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر خرچ ہو سکتی ہے۔ کل کی اپوزیشن نے قوم کو یہی بتایا تھا۔ اختیار کی رکاب پر پاﺅں اور اقتدار کی باگ پر ہاتھ رکھا تو گویا عوام کی گردن پر انگوٹھا رکھ دیا گیا جو وسائل لوٹ مار کے پیسے کی ریکوری سے پیدا ہونے تھے وہ بجلی گیس پٹرولیم قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے سے اکٹھے کرنے کی کوشش کی گئی۔ لوٹ مار کرنے والوں کی بانہوں میں بانہیں ڈالے حکمران عوام کی سادگی اور بے بسی بلکہ بے وقوفی پر قہقہے لگاتے نظر آتے ہیں۔ لٹیروں کے احتساب کی امیدیں دم توڑ گئیںسپریم کورٹ کو بھی کہنا پڑا ”کرپشن کا خاتمہ حکومتی ایجنڈے پر نہیں‘ وہ اس معاملے میں کلیئر ہوتی تو کئی لوگ جیلوں میں ہوتے۔ میگا سکینڈلز کی تحقیقات نہیں ہو رہی“۔ سپریم کورٹ نے 13 ستمبر تک چیئرمین کی تقرری کا حکم دیا تھا‘ اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ 4 سال تو ان کو عوام کی پروا نہیں۔ آخری سال میٹرو قسم کی شعبدہ بازی دکھا کر 4 سال کی ستمگری کی پردہ پوشی کر دی جائیگی۔ عوام کی رگوں سے ٹیکس نچوڑ کر بھی اخراجات پورے نہیں ہو رہے تو آئی ایم ایف اور عالمی بنک کی چوکھٹ پر سر تسلیم خم کر لیا۔ ترکی کے دورے پر کل وزیراعظم نواز شریف صاحب تشریف لے جا رہے ہیں۔ ایک معاہدے کے تحت ترکی کا ایکسپورٹ کریڈٹ بنک پاکستان کو 300 ملین امریکی ڈالر قرضہ فراہم کریگا۔ایسے قرض چکانے کیلئے بھی عوام کی چمڑی ادھیڑی جائیگی۔
بلا شبہ ملکی معیشت کی زبوں حالی کی ذمہ دار مسلم لیگ ن نہیں لیکن جو ذمہ دار ہیں ان کیلئے الفت و التفات سے نواز لیگ کے ووٹر، سپورٹر حتیٰ کہ رعیت کا بھی دل کٹتا ہے۔ بالخصوص جب زرداروں کے اعمال کی شامت کا نتیجہ ان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمالیہ جیسے بحرانوں اور طوفانوں سے نمٹنے کے جس کمٹمنٹ اور خداداد صلاحیت اور اہلیت کی ضرورت ہے اسکے فقدان کے باوجود نئی حکومت جو اب نو دن کی نہیں رہی سو دن کی ہو گئی ہے ،ہاتھ پاﺅں ضرور مار رہی ہے۔ بعض اداروں کی تنظیم نو کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ ریلوے، پی آئی اے، واپڈا اور سٹیل مل جیسے ادارے خسارے سے نکل سکتے ہیں لیکن کل آنیوالے حکمران ان اداروں کی بیوروکریسی سے مل کر پھر ان کو یاجوج ماجوج کی طرح چاٹ جائینگے۔ ان اداروں کے کرتا دھرتا سونے کی مرغی ذبح کرنے پر تلے ہوں تو اصلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ وزیراعظم نواز شریف نے پی آئی اے کی 26 فیصد نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ جن لوگوں نے پی آئی اے کو کھربوں کے خسارے کے قلزم میں ڈبو دیا ان سے کون ہمدردی کریگا؟ 22 جہاز چلانے کیلئے 21 ہزار کا عملہ!!!۔۔۔ ملک میں پرائیویٹ ائر لائنز موجود ہیں قوم ان پر تکیہ کر ے۔ پی آئی اے والے اپنے آشیاں پر خود ہی بجلیاں نہ گراتے تو آج جہازوں کی تعداد سینکڑوں ہوتی اس کیلئے عملہ تیس ہزار بھی ہوتا تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ اب بارہ تیرہ ہزار ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ دینے کی تجویزہے۔ لاکھوں میں تنخواہیں لینے والوں کو گولڈن شیک ہینڈ کی رقم بھی کروڑوں میں ملے گی۔ اس رقم سے ملازمین مل کر اپنی ائر لائن کھول سکتے ہیں جس کے خسارے میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو اس منصوبے میں شامل نہ ہونا چاہیں طیاروں سے نسبت جوڑے رکھنے کیلئے وڑائچ طیارے خرید کر خود اس کے پائلٹ بن جائیں۔ع
حافظ خدا تمہارا راکٹ چلانے والے
خسارے میں جانے والے دیگر اداروں کے ملازمین پی آئی کی نجکاری سے سبق حاصل کریں۔ کراچی کے امن کو برباد کرنے والوں کیلئے بھی اس میں درس ہے ۔ نواز لیگ کراچی میں کھل کر اپریشن سے گھبرا اور ہچکچا رہی ہے لیکن روشنیوں کے شہر کے متبادل شہر بنانے کی کوشش کررہی ہے ۔اسلام آباد کے بالمقابل ایک اور اسلام آباد بسایا جا رہا ہے۔ جس کو معاشی ہب بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائیگی۔
25 ہزار ایکڑ پر مشتمل بارہ ارب ڈالر کی لاگت کے حامل ”ڈریم پروجیکٹ“ پر کام کا آغاز ہوچکاہے۔ اس حوالے سے دبئی کے تجارتی اور سیاحتی علاقے شیخ زاید ایونیو کی طرز پر کثیرالمنزلہ کمرشل عمارتیں تعمیر کی جائینگی۔ اس بڑے پروجیکٹ میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان دو رنگ روڈ زاور راولپنڈی کے علاقے روات میں ایک نیا ایئرپورٹ بھی تعمیر کیا جائیگا۔نئے اور پرانے اسلام آباد کو ایک سرنگ کے ذریعے جوڑا جائیگا۔
 کراچی میں امن نہ ہوا تو یہ ایک بار پھر مچھیروں کی بستی بن کر رہ جائیگی۔ روات سے نئے اسلام آباد تک 8 رویہ سڑکوں کی طرح گوادر جیوانی اور گڈانی تک شاہراہیں بنا دی جائیں اور بلٹ ٹرین چلا دی جائے تو کراچی پورٹ کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ کراچی کا پُر امن ہونا خود اسے برباد کرنے والوں کے مفاد میں ہے۔ واپڈا ریلوے اور دیگر خسارے میں جانیوالے ادارے پی آئی اے کی نجکاری سے عبرت پکڑیں کل نجکاری کا برا وقت ان کو بھی آواز دے سکتا ہے ان کیلئے تو گولڈن شیک ہینڈ بھی نہیں ہوگا۔ پی آئی اے اپنے ماٹو باکمال لوگ لاجواب سروس پر کاربند رہتی تو کسی کو اس کی نجکاری کا خیال تک نہ آتا۔

بے ضرر اے پی سی

بے ضرر اے پی سی

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
12 ستمبر 2013 0

ابہام، تضادات اور خدشات کے دائرے میں گھومتی آل پارٹیز کانفرنس کو ناکام قرار نہیںدیا جا سکتا۔ اس کانفرنس کا مقصد ایسا لائحہ عمل طے کرنا تھا جس پر عمل کرکے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ مشترکہ لائحہ عمل یہ طے ہوا کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائینگے لیکن یہ لائحہ عمل ماضی کے اعلانات‘ بیانات اور اقدامات کے تناظر میں سوالیہ نشان ہے۔ حکومت نے شاید کوئی ہوم ورک کر رکھا ہو۔حکومتی سطح پر بتایا گیا ہے کہ شدت پسندی‘ انتہا پسندی اور فرقہ واریت میں69 گروہ یا گروپ ملوث ہیں۔ طالبان کے بھی کئی گروپ ہیں۔سب کے ساتھ تو مذاکرات نہیں ہونگے۔ ان میں ہر ایک خود کو اتنا ہی اہم سمجھتا ہے جتنا اعجاز الحق اور شیخ رشید جن کو اے پی سی میں نہیں بلایا گیا توانکی زبان انگارے برسا رہی ہے۔ یہ صرف زبان میں استعمال کر سکتے ہیں ، جبکہ شدت پسندوں کے پاس تو بندوق گولیاں اور گولا بارود بھی ہے۔ اے پی سی میں 12 جماعتوں کے 28 رہنما شریک ہوئے۔ مخدوم امین فہیم بائیکاٹ نہ کرتے تو رہنماؤں کی تعداد 29 ہوتی۔ مخدوم صاحب کو گلہ تھا کہ وہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہیں۔ ان کو وزیراعظم کے ساتھ بٹھایا جائے۔ انکی سیٹ امتیاز شیخ اور حیدر عباس رضوی کے درمیان رکھی گئی تھی۔ اس سے ایک روز قبل مخدوم صاحب ناراض ہو رہے تھے کہ ان کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ مخدوم صاحب بلاشبہ پی پی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہیں۔ یہ پارٹی خانہ پُری کیلئے بنائی گئی اور اسکے عہدیداروں کی حیثیت پارٹی کے اصل قائدین کے نزدیک کاغذی شیر جیسی رہی ہے۔ ایسا ہی دوسری پارٹیاں سمجھتی ہیں البتہ مخدوم صاحب کا ذاتی حیثیت میں بڑا نام، مقام اور احترام ہے۔۔۔عالمی بنک کے ایک ڈائریکٹر محمد شعیب کو ایوب خان نے درآمد کرکے وزیر مالیات لگادیا تھا۔انہوں نے وزیر بننے کے باوجود عالمی بنک کی نوکری نہ چھوڑی‘ وہ ایوب کے ساتھ غالباً آسٹریلیا کے دورے پر گئے۔ وہاں کشتیوں میں سیرو تفریح کا پروگرام ترتیب دیا۔ وزیر خزانہ محمد شعیب کو پچھلی نشستوں پر جگہ دی گئی جس پر انہوں نے مخدوم صاحب کی طرح بیچ تاب کھائے۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ان کی کیفیت کو بھانپ کر انتظامیہ نے کہا کہ ان کو عالمی بنک کے ڈائریکٹر کا پروٹوکول دیا گیا۔
پاکستان میں کئی معاملات میں بے شمار اے پی سیز ہو چکی ہیں۔ ان میں مشہور زمانہ 14 اپریل 1988ء کے جنیوا معاہدے سے قبل قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے محمدخان جونیجو نے مارچ میں بلائی تھی۔ محمدخان جونیجو کمزور حکومت کے طاقتور وزیراعظم تھے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی پسند اور ان گملے کی غیر جماعتی انتخابات کی آبیاری کی پیداوار تھے۔ وزیراعظم جونیجو نے ایک موقع پر جرأت مندانہ بیان دیا کہ جمہوریت اور مارشل لاء ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء تو ہٹایا لیالیکن انہوں نے 58 ٹو بی کی تلوارمیان میں ڈال کر اپنے پاس رکھ لی تھی ۔ جنیوا معاہدہ امریکہ‘ روس‘ پاکستان اور افغانستان کے مابین ہوا۔ جنرل ضیاء فوری معاہدے حق میں نہیں تھے جبکہ جونیجو کی سوچ اور پالیسی اسکے برعکس تھی۔ جونیجو نے صدر اور آرمی چیف کی بات سننے کے بجائے آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی جس میں بے نظیر بھٹو اور شاہ احمد نورانی جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں۔ بینظیربھٹو اس کانفرنس میں اس شرط پر شامل ہوئیں کہ جنرل ضیا کو نہیں بلایا جائیگا۔ مولانا نورانی نے جونیجو صاحب سے اس اجلاس میں برملاکہا تھا کہ پانی پاک کرنا ہے تو پہلے کتے کو کنویں سے نکالیں۔ جنرل ضیاء پہلے ہی ناراض تھے‘ لہٰذا نورانی صاحب کی بات تو گویا ان کو لڑ گئی ۔ معاہدے سے چار روز قبل اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہو چکا تھا‘جونیجو اس سانحہ کا ذمہ دار بعض دوسرے جرنیلوں کو سمجھ رہے تھے اور ان کیخلاف ایکشن کی تیاری کررہے تھے کہ ضیاء الحق انکے ارادے بھانپ گئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا جمہوریت کا پودا اکھاڑ پھینکا۔ جونیجو حکومت کیلئے یہ گول میز کانفرنس مضر ثابت ہوئی۔ میاں صاحب نے بڑی دانشمندی سے کام لیا‘ اے پی سی میں 12 سیاسی اور تیرہویں ’’فوجی جماعت ‘‘کو شرکت کی دعوت دی۔یہ اے پی سی،حکومت ،سیاسی پارٹیوں، فوج اور طالبان سمیت ہر کسی کیلئے بے ضررہے اور کئی حوالوں سے کامیاب بھی رہی۔ سب سے بڑی کامیابی سیاسی اور فوجی قیادت کے مابین ہم آہنگی اور یکجہتی ہے۔ سیاسی قیادت کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ فوج کو طالبان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کیلئے آمادہ کر لیا۔ کچھ پارٹیاں بشمول عمران ، دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھنے پر آمادہ نہیں تھے۔ فوج کی بریفنگ سے وہ اسے اپنی اور پاکستان کے مفاد کی جنگ ماننے پر مائل ہو گئے۔ تمام پارٹیوں نے فوج پر اعتماد کا اظہار بھی کر دیا‘ جبکہ ان میں فوج کیخلاف زہر اگلنے والے بھی شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ 22 اگست کو وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی میٹنگ میں شدت پسندوں سے مذاکرات کیلئے ہتھیار پھینکنے کی شرط رکھی گئی تھی‘ اس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے‘ اے پی سی میں غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔ یقیناً شدت پسندوں کو ہتھیار چھوڑنے کو کہا جائیگا تو ایسا ہی مطالبہ وہ فوج سے بھی کرینگے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ فاٹا میں فوج بھیجنے سے ملک میں بدامنی کی آگ لگی… امن کے قیام کا بظاہر آسان ساحل یہ ہے کہ فوج کو فاٹا سے واپس بلا لیا جائے‘ اس طرح طالبان بھی اپنے گھروں کو لو ٹ جائینگے‘ لیکن یہ جتنا سوچنا آسان ہے ‘شاید کرنا اتنا آسان نہ ہو۔
دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے مذاکرات اپنی جگہ‘ سب سے بڑھ کر حکمرانوں کے عزم و ارادے اور حوصلے کی بھی ضرورت ہے۔ فرقہ واریت اورفاٹا سے جنم لینے والی شدت پسندی کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں آپس میں ملتے ہیں۔ فرقہ ورانہ شدت پسندوںکا حکومت کو بخوبی علم ہے، انکی سرپرستی ہمارے عزیز ترین مسلم ممالک کرتے ہیں۔ کیا ان شدت پسندوں کے ساتھ بھی مذاکرات کرنے ہونگے؟ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو کیا ان کیخلاف حکومت اسی طرح کا اپریشن کرنے کی جرأت کریگی جیسا کہ دہشت گردوں کیخلاف مذاکرات کی خدانخواستہ ناکامی پر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ؟

Tuesday, September 10, 2013

لارڈ نذیر، شہباز اور پُل

 لارڈ نذیر، شہباز اور پُل لارڈ نذیر، شہباز اور پُل

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
10 ستمبر 20131
Print  
لارڈ نذیر، شہباز اور پُل
”صداقت کی گونج“ سے ذہن میں پہلا اور فوری دھماکہ یہی ہوتا ہے کہ یہ کسی فلم، ڈرامے یا” موسمی جریدے“ کا نام ہے۔ جس ”صداقت کی گونج “ کا زیر نظر کالم میں ذکر ہے وہ لارڈ نذیر احمد کے خطبات، خطابات اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے جن کو عمران چودھری نے ترتیب دیا۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی میں عمران چودھری نے دعوت دی ‘تاکید بلکہ زوردار تاکید نواز کھرل نے کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی شہباز شریف اور صدر مجلس لارڈ نذیر احمد تھے۔ اتوار کی شام یہ مجلس پانچ سے آٹھ بجے تک سجی رہی۔ شہباز شریف تشریف لائے جن کے پاس ایسی تقاریب میں شرکت کا عموماً وقت نہیں ہوتا، وہ لارڈ نذیر کی محبت میں چلے آئے ۔ لاہوریوں کو چاہئے کہ ایسے مواقع پر شہباز کو ڈسٹرب نہ کیا کریں۔ نواز شریف کے پاس بہت وقت ہے۔ ہفتہ اتوار وہ لاہور میں ہوتے ہیں۔ کوئی ناگزیر سرکاری مصروفیت نکل آئے تو اسلام ا ٓباد نہیں جاتے ،جاتی عمرہ کو اسلام آباد بنا لیتے ہیں۔ اے پی سی کی تیاری کے حوالے سے ہفتہ 7 ستمبر کو فوج ،ایجنسیوں اور کئی وزارتوں کے سربراہان جاتی عمرہ میں بلائے گئے تھے ۔ بہرحال شہباز شریف نے ”صداقت کی گونج“کیلئے سوا گھنٹے کا اچھا یا برا وقت نکال لیا۔ تقریب میں بہت کچھ ہوا لیکن کتاب کی رونمائی کا تکلف دیکھنے میں نہیں آیا۔
”صداقت کی گونج“کی قیمت کیا ہے‘ صفحے کتنے ہیں، اس کا علم کتاب دیکھنے پر ہو گا۔ ایک موقع پر نواز کھرل سے کہا کہ کتاب دکھا تو دیں انہوں نے کہا ”ہن ای دینا“ (ابھی دیتا ہوں) تقریب کے اختتام تک انکی ”ہن ای“ نہ آئی۔تقریب کے نقیب کھرل صاحب نے ساتھ آٹھ مقررین کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی تو ہال میں ایک بھگدڑ کی سی کیفیت کا منظر تھا۔ حاضرین کرسیوں سے زیادہ تھے۔ مقررین گرامی سٹیج کی طرف بڑھے تو خود کو بڑا سمجھنے والے انکی خالی کردہ کرسیوں کی طرف لپکے‘ جہاں کرسی میں ایک خاص کشش نظر آئی۔ پروٹوکول کی دلکشی بھی قابل دید تھی۔ شہباز شریف ہال میں داخل ہوئے تو ان کے محافظ اور پروٹوکول کیساتھ ساتھ کئی ”جماں جنج نال“ بھی تھے۔ شہباز کو بھی تقریریں سننے کے کشٹ سے گزرنا پڑا۔ انکے آگے اور دائیں بائیں تو حفاظتی عملہ تھا‘ پیچھے پی اے اور پی ایس قسم کے جانباز کرسیوں پر براجمان تھے۔ شہباز نے تین چار بار پیچھے دیکھے بغیر ہاتھ سے اشارہ کیا تو بیک وقت چار افسر جھپٹنے کے انداز میں اٹھتے جو زیادہ پھرتی دکھاتا وہ اپنا کان مہمان خصوصی کے قریب کر دیتا۔
 صوفیہ بیدار، اسلم گھمن، مجاہد کامران، راجہ انور، حامد سعید کاظمی، عمران چودھری، مجیب الرحمن شامی اور صدر مجلس و مہمان خصوصی نے خطاب کیا۔ نستعلیق سے لیکر دھکا سٹارٹ اور دھپہ مار اردو سننے کو ملی۔ اکثر خطباءنے شہباز شریف کے کارناموں کو مزید اجاگر کیا۔ میٹرو کو سراہا گیا۔ انڈر پاسز اور پلوں کی تعمیر پر لہجے دھمالیں ڈال رہے تھے حالانکہ تقریب لارڈ نذیر کے اعزاز میں تھی۔ ایک کے سوا سارے مقررین پل باندھتے نظر آئے۔
حامد سعید کاظمی جو برطانیہ میں لارڈ نذیر کی مہمانداری انجوائے کر چکے ہیں نے فرمایا کہ اگر عمران چودھری نے ہوتے تو ہم لارڈ نذیر کے کارناموں، کردار اور اوصاف حمیدہ سے محروم رہتے۔ شامی صاحب نے اپنی باری پر گرہ لگائی کہ سید یوسف رضا گیلانی نہ ہوتے تو ہم حامد سعید کاظمی کی خدمات سے محروم رہتے اور حضرت سید آصف علی زرداری نہ ہوتے تو سید یوسف رضا گیلانی کے جوہر کھل کر سامنے نہ آتے۔ شامی صاحب نے لارڈ نذیر کی پاکستان ، اسلام اور انسانیت کیلئے خدمات کابڑی خوبصورتی سے تذکرہ کیا۔اسکے بعد چراغ سے چراغ روشن ہوتا چلا گیا پہلے ”پل کی تعمیر “پر شہباز شریف نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا ”کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑے ہیں“ تو شامی صاحب نے فرمایا نوکری پکی کر رہا ہوں۔ کسی نے آواز لگائی۔” اپنی بھی“ ۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر میں قوم کو صابر اور سخت جان کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے بڑی جوانمردی سے انتہائی کرپشن، بیڈ گوورننس اور بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کیا۔ خدا خیر کرے، حکمرانوں غلط فہمی یا خوش فہمی میں قوم کا مزید صبر آزمانے کی پلاننگ تو نہیں کر رہے ۔ لارڈ نذیر کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ میں ان سے میاں عامر کے گیسٹ ہاﺅس میں کوئی چھ سات سال قبل ملا تھا۔ اب وہ قدرے سمارٹ ہیں۔وہ وہیں قیام پزیر تھے ۔ میاں عامر نے تقریر تو نہیں کی البتہ سٹیج پر موجود تھے۔ لارڈ صاحب نے ان سے معذرت کی کہ وہ کتاب میں دیگر میاں صاحبان کے ساتھ انکی تصویر لگانا بھول گئے یہ کسر آئندہ نکال دیں گے۔انہوں نے کان میں کہنے والی بات بھری بزم میں کہہ دی۔
 لارڈ نذیر نے بتایا کہ انکے نانا نمبر دار تھے ان کو لارڈ بنایا گیا تو اسکے بڑے چرچے ہوئے۔ میرے کزن نے میری والدہ سے پوچھا کہ نذیر کیا بن گیا ہے جو اس قدر مشہوری ہو رہی ہے؟ تو والدہ نے کہا کہ میرا خیال ہے وہ تحصیلدار لگ گیا ہے۔ اخبارات میں خبر آئی کہ Queen appointed a pakistani as peer. ایک مسجد کے خطیب نے اس پر شدید اعتراض کیا کہ ملکہ کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی کو پیر نامزد کرے ۔ ( پیئر peer کا مطلب ڈیوک ، نواب،لارڈ وغیرہ بھی لیاجاتا ہے )
نواز کھرل نے شہباز شریف کے خطاب کے اختتام پرحاضرین سے کہا کہ اب آپ تناول ماحضر فرمائیں۔ لوگ اٹھے، لپکے اور پلیٹوں پر جھپٹے تو بتایا گیا کہ ابھی کھانا نہیں لگا۔ یہ کارخیر آدھ پون گھنٹے کی تاخیر سے انجام پایا۔ مقررین کو پانچ چھ منٹ اور پھر چار پانچ منٹ تک وقت کی کمی کا کہہ کر محدود کیا گیا تھا لیکن جہاں تو ہر فرد وقت کے حوالے سے خود کفیل لگ رہا تھااور وقت گزاری کیلئے مصروفیت درکار تھی۔ اسکے دوران محسن گورایہ، خواجہ نصیر، اختر شمار، سعداللہ شاہ، مبین رشید اور محمد مصدق سے علیک سلیک اور گپ شپ ہوئی۔

دل کا نگردل کا نگر

دل کا نگر


08 ستمبر 2013

 دل کا نگر
آصف علی زرداری بڑے شاہانہ جاہ وجلال اور تنومند و توانا اپنی پیپلز پارٹی ساتھ ایوانِ صدر داخل ہوئے۔پانچ سال پورے کرنے پر تاجِ صدارت تج کرصدارتی محل کو چھوڑا تونیم جاں پارٹی کندھے پر تھی۔پانچ سال میں بہت کچھ بدلامگر سیاستدانوں کی جبلت اور عوام کی قسمت نہیں بدلی۔عمران خان چلّاتے رہے کہ ” زرداری شریف “آپس میں ملے ہوئے ہیں۔لوگوں نے اسے اتنی ہی اہمیت دی جتنی امریکہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے احتجاج کو دیتا ہے ۔5ستمبر 2013ءکو نواز شریف کا آصف زرداری کے اعزاز میں ظہرانہ اوردونوں کے ایک دوسرے کیلئے پیار بھرے جذبات اور نیک خواہشات اس امر کا علانیہ اظہار تھا کہ ” ہم ایک ہیں“۔نواز شریف نے ظہرانہ دیا تو اس میں قُرب کی باتیں کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔یہ پانچ سالہ عوامی کَرب کا رونا رونے کا سماں نہیں تھا۔عوام کے کَرب اوران پر روا رکھے جانے والے پانچ سالہ جبر کا احساس ہوتا تو ظہرانے کا اہتمام ہی نہ کیا جاتا۔آپس کے تعلقات اگر اس قدر خوشگوار تھے تو پبلک پلیٹ فارم پر زرداری صاحب کوچور،ڈاکو، لٹیرا،علی بابا چالیس چور،زربابا اورتمام بحرانوں کا ذمہ دار قرار دے ان کے پیٹ سے قومی خزانے سے لوٹی ہوئی پائی پائی برآمد کرنے کے گلاپھاڑ نعروں اور مائیک توڑ دعووں کی کیا ضرورت تھی؟
نواز شریف اور بے نظیر بھٹوبھائی بہن بن گئے تھے۔نواز شریف اورزرداری نے بھی بھائی بھائی بن کے دکھا دیا۔دونوں میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔اپنے محلات کی زیبائش عوامی صبر کی آزمائش،اپنی زندگی میں آسائش قوم سے کڑوی گولی نگلنے کی فرمائش۔ خارجہ معاملات میںبھارت کی دھمکیوں پر ”دَڑ وَٹ“ پالیسی،ڈرون حملوں پر”نِچھ مار ڈپلومیسی“ ، دہشت گردوں کی للکارپرٹانگوں میں لرزش اور قانون بدلنے پر آمادگی، اپنے سمیت خاندانوں کی اوباما طرز کی حفاظت ” ایک دن کی زندگی پر سو سالہ زندگی کو ترجیح دینے پر ایمان کی دلیل ہے۔
پی پی قائدین نے معاملات پر گرفت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ان کے جاں نشینوں کے قابو میں نہیں آرہے ۔کارکردگی کی خوشبو پھیلانے کے لئے نو دن ہی کافی ہوتے ہیں‘ جبکہ ان کو اقتدار میں آئے سو دن ہوگئے اس دوران عوام کے دکھوں کا کیا مداوا ہوا؟ دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت ” جو بچا ہے سب سمیٹ لو“ کے کلیے پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ اعلیٰ قیادت پیشروﺅں کے نقشِ قدم پر چل نکلی تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔عوامی عدالت تو پانچ سال بعد لگے گی۔ اس وقت تک عوام احتساب کرنے جوگے ہی نہیںہوں گے۔زرداری صاحب نے کہا ” پانچ برس سیاست نہیں ہوگی۔“ زرداری صاحب پابندی کے باوجود ایوانِ صدر میں بیٹھ کر بھی سیاست کرتے رہے۔ سیاست نہیں کرنی تو لاہور میں ڈیرے لگانے کا عزم بالجزم کیسا؟دلوں میں گھر بنانے کیلئے کسی شہر یا علاقے میں ڈیرے ڈالنے کی نہیں‘ بلکہ دلوں کے نگر آباد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد اس کے صدر نے بھی اپنی مدت پوری کرلی‘ یہی اس پارٹی کا سب سے بڑا کریڈٹ ہے جس میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیں۔آج پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے بڑے تذکرے ہیں۔ اس خبر پرشاید کسی کی نظر نہیں کہ تنویر زمانی نے زرداری صاحب سے شادی کا دعویٰ کرکے اس کی دھومیں مچا دی تھیں۔ زمانی کی عمر اس وقت یعنی فروری 2011ءمیں 40سال تھی ۔ ۔میڈیا نے شادی کے حوالے سے تردید یا تصدیق کرنے کو کہا تو امریکہ میں مستقلاً مقیم زمانی نے فرمایا۔ ”میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہوں گی۔“
دلوں کے نگر اُجاڑنے والی حکومت کوفرینڈلی اپوزیشن میاں نواز شریف اور جنرل کیانی نے نہیں گرنے دیا۔اب زرداری نے نواز شریف ہی کاقول زریں دہرا دیا ہے ”حکومت کو گرنے نہیں دیں گے ۔“ ممکن ہے اس وعدے کو وہ قرآن و حدیث سمجھ لیں۔ کوئی نئے حکمرانوں کے کان میں پھونک نہ ماردے کہ اپنے سر پر تاج سجائے ،عوام کو سبز باغ دکھائے اوران کے سروں پر مہنگائی لاقانونیت و لوڈشیڈنگ کی تلوار لہرائے رکھنے کیلئے جنرل کیانی کے عہدے میں توسیع کرتے رہیں کیونکہ وہ آزمودہ اورپیشہ ور سپاہی ہے۔
نئے حکمران شیر ہیں۔ ایسا شیر جو صرف جھاڑی پھلانگ سکتا ہے لیکن عوام اس سے قدیم برگد کی دوسری جانب کود جانے کی توقع کر رہے ہیں۔کمٹمنٹ میں زرداری سا طرز عمل ہے ۔کیبنٹ ڈیفنس کمیٹی کی میٹنگ میں طے کر کے اُٹھے کی شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ان کے ہتھیار پھینکنے پر ہی ہوں گے اب اس معاملے پر اے پی سی بلا لی ہے ۔کراچی میں امن کی بحالی کیلئے لاﺅ لشکر کے ساتھ گئے۔آئی جی کو بدلنے کے اعلان کیا‘شرجیل میمن کی ایک للکار ہی بھاری پڑ گئی ۔ تبادلے اور پھر اسکی منسوخی کا مشورہ کس نے دیا؟فاروق ستار کو کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی دعوے کس کے کہنے پر دی گئی اور پھر کس کے کہنے پر واپس لے لی گئی ۔جن کیخلاف اپریشن ہونا ہے‘ ان سے مشورہ کیا جارہا ہے ۔اب وہی رینجر ز ہوگی‘ وہی پولیس، 86سالہ ”مردِآہن“ کی زیر کمان عزم قدیم کے ساتھ جدید ہتھیاررکھنے والوں کیخلاف اپریشن کریگی۔نتیجہ کیا ہوگا ؟وہی جو حلقہ پی پی 150میں دوبارہ گنتی کا ہوا۔ عمران خان کا امیدوار دوبارہ گنتی میں پہلے سے بھی زیادہ مارجن سے ہار گیا۔۔۔سیاست اسی ڈگر پر رواں رہی،نواز ،زردای بھائی بھائی بن کر بھی عوام کے دلوں کا نگر آباد نہیں کر سکیں گے۔اگلے الیکشن ضروری نہیں کہ پانچ سال بعد ہی ہوں۔جب بھی ہوئے عوام ضمنی ا لیکشن کی تاریخ دہرا دیں گے ۔جس میں نواز لیگ نے 33فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ 11مئی کے انتخابات میں چپڑ کناتیوں کی سیٹیں اور بن بلائے باراتیوں کو ملا کر کامیابی کی شرح60 فیصد کے قریب تھی ۔عمران کی اہلیت اور مقبولیت میں مزید اضافہ نہ بھی ہو پی پی پی کی طرح ن لیگ کی بھی زیرو ہوگئی جس کا وہ پوری ایمانداری سے اہتمام کررہی ہے تو فائدہ کس کو ہوگا؟میاں صاحب بشکیک میں ہونے والی شنگھائی کانفرنس میں شاید لاہور میں ویک انڈ منانے کے شوق میں روسی حکام کے پُر زوراصرار پر بھی خود شرکت نہیں کررہے۔حکمرانی میں طرز خسروی واکبری یونہی رہا توعوامی غضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔۔۔اور پھر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاو¿گے، سنو ہو، یہ بستی ا±جاڑ کر
پنجاب اور لاہور کسی دور میں پیپلز پارٹی کی سیاست کا گڑھ تھا ۔مسلم لیگ کے کرتا دھرتا یہ ذہن میں  کر نہیں مارا جا رکھ کر سیاست کریں کہ میدان ہمیشہ ایمپائروں کو ساتھ ملاسکتا۔

افراد کے ہاتھوں میں

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق


ںقومیں اور ادارے افراد سے بنتے ہیں ۔ ملکوں اور اداروں کو افراد ہی چلاتے ہیں ....
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یہ افراد کی نیت اور اہلیت پر منحصر کہ ملک اور ادارے کو بام ِعروج پر پہنچا دیں یا پسماندگی کی پستیوں میں گرا دیں۔اہلیت کا مداوا اور ازالہ محنت سے اور تمام تر صلاحیتیں بروئے کا ر لاکر بڑی حدکیا جا سکتا ہے،نیت میں کھوٹ کا کو ئی علاج نہیں۔اہلیت اور قابلیت خدا داد صلاحیت جبکہ بد نیتی خود ساختہ لعنت ہے ۔بدنیتی لالچ حرص، ہوس،اپنے حصے سے بڑھ کر حصول کی خواہش سے جنم لیتی ہے ۔اسکے شواہد وطن کی درماندگی اور اداروں کی پسماندگی کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکابرین کی نیک نیتی نے ہمیں آزاد وطن دلایا ۔ زمام اقتداربدنیتوں کے دستِ خانہ خراب میں آئی توملک نہ صرف ٹوٹا بلکہ بچے ہوئے ملک کی سلامتی پر حرف بھی آیا، وقار خاک میں ملا اور آج ہم بحرانوں کی دلدل میں دھنسے اور مشکلات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ادارے بد نظمی سے زیادہ ذمہ داروں کی بد دیانتی کے باعث سسک اور انسان بھوک و افلاس سے بلک رہے ہیں مگر ملک اور اداروں کو چلانے والے اکثر افراد خوش ،خوشحال اور خود کواعلیٰ و ارفع مخلوق سمجھتے ہیںلیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ سب بہاریں اس گلشنِ پاکستان اور اسکے اداروں کی مرہونِ منت ہیں۔ جس شاخ پر بیٹھے اس کو کاٹنے کے مظاہر قوم نے کئی بار ملاحظہ کئے۔عبرت تو عقل والوں کیلئے ہے‘ جو اب بھی وہی عمل دہرا رہے ہیں ان کا انسانیت سے تعلق ہے نہ عقل و دانش انکے قریب سے گزری ہے۔
ملک میں G T Sکے نام پر سرکاری مسافر بسیں چلا کرتی تھیں۔ اس محکمے کو چلانے والوں نے یہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ذبح کرڈالی ۔آج اس محکمے کے کئی ملازم بھیک مانگتے یا ریڑھی لگانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے شائد گھپلے نہ کئے ہوں لیکن انہوں نے کسی لٹیرے کا ہاتھ بھی نہیں روکا۔ہر ضلع کی حد اور شہر کے اندر موصول چونگیاں ہوا کرتی تھیں۔اسکے اکثر ملازم ستم گر تھے۔ انکے روئیں روئیں میں بے ایمانی سمائی ہوئی تھی۔ ملازم دیانت سے کام کرتے تو یہ محکمہ آج بھی برقرار اور انکی روٹی روزگار کا ذریعہ بھی قائم رہتا۔ان لوگوں نے بھی ایک جھٹکے ہی میں ”سون مرغی“ ذبح کر ڈالی اور آج اکثر در بدر ہیں۔
 آج ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل، واپڈا اور پی ٹی اے سمیت بہت سے ادارے ماضی کے دھندلکوں میں گُم ہوجانے والی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی طرح کھٹارا بن چکے ہیں۔ ان کی بربادی میں کرپشن ہی اوّلین و آخرین وجہ ہے۔ وزیرریلوے کے بقول مشر ف دور میں چین سے 69 غیر معیاری انجن منگوائے گئے۔ ۔۔اگلے دور میں ریلوے کو کنگال ہی کردیا گیا۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے قومی اسمبلی کو بتایا ” پی آئی اے کے پاس 22 طیارے اور 6 سو پائلٹ ہیں جبکہ عملہ کی تعداد 19 ہزار ہے، وزیراعظم نے پی آئی اے کو اپنے خراب طیارے قابل استعمال بنانے کیلئے 12 ارب 70 کروڑ روپے کا پیکیج دیا ہے۔اس موقع پر وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے ایوان کو یقین دلایا کہ پی آئی اے سے پیپلز پارٹی سے وابستگی کی بنا پر کسی کو ملازمت سے برخاست نہیں کیا جائے گا۔“ویسے تو پی آئی اے کے پاس پچاس سے زائد طیارے ہیں‘ ان میں صرف 22 اپریشنل باقی خراب ہوکر ”دھرنے“ پر بیٹھے ہیں۔ آج ایک جہاز اڑانے پر27 پائلٹوں سمیت عملے کے 900 افراد تعینات ہیں۔یہ تعداداپریشنل جہازوں کیمطابق مقرر کردی جاتی رہے تو یقیناً ایک جہاز بھی گراﺅنڈ نہ ہو۔ 80کی دہائی میں دبئی نے پاکستان سے دو جہاز لیز پر اور عملہ مستعار لے کر ایمریٹس ائیر لائنز تشکیل دی‘ وہ آج دنیا کی ہزاروں ائر لائنز میں دوسرے اور پی آئی اے شایدکارکردگی،گھاٹے اور معیار کے حوالے سے آخر میں دوسرے نمبر پر ہو۔ پی آئی اے ہی کی سسٹر آرگنائزریشن کی کرپشن کی لافانی مثال سامنے بھی آئی ہے۔ اس کی طرف سے کراچی میں غیرقانونی کارگو اتارنے اور اربوں روپے کی خورد برد کا انکشاف ہوا ہے۔ پاک فضائیہ کی ائر انٹیلی جینس کی رپورٹ کے مطابق سی اے اے کے ڈائریکٹر آپریشنز، ڈائریکٹر ائر ٹرانسپورٹ، جی ایم بلنگ، ائر ٹریفک کنٹرولر اربوں کے گھپلوں کے ذمہ دار ہیں۔ فضائی حدود سے گزرنے اور پاکستان آنے والی پروازوں کے ریکارڈ میں نمایاں فرق ہے۔ کراچی میں نیٹو طیاروں سے کارگو اتارا اور لوڈ کیا جاتا تھا۔
 اس سے قبل بندرگاہوں سے اسلحہ سے بھرے 19 ہزار کنٹینر بھی غائب ہوگئے تھے۔ اس سے پورٹس اینڈ شپنگ کا عملہ لا علم نہیں ہوسکتا ۔ واپڈا کو چور اور اندر کے ”رسہ گیر“ لے ڈوبے۔ پی ٹی اے خسارے میں جاتی دیکھی تو یہ آدھی فروخت کردی گئی۔اس کی کارکردگی ہنوز اطمینان بخش نہیں ہے۔شاید اسکے پورے حصص اتصالات فروخت کردئیے جائیں۔سٹیل مل ایک بار کوڑیوں کے بھاﺅ فروخت ہوئی۔سپریم کورٹ نے بروقت نوٹس لیکر اسے بچالیا یہ پھر دریدہ ہاتھوںاور بریدہ دامن میں ڈال دی گئی تو اس کا گرنا اور بکھرنامقدر تھا۔



آخر حکومت کب تک خسارے میں جانیوالے اداروں کی خدمت کرتی رہے گی؟ شاید حکومت میں ادارے ڈبونے والوں کی قماش کے با اثر افراد کی موجودگی تک۔۔۔ لیکن ایک دن تو ان کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسی جہان میں!۔۔۔ ادارے منافع میں رہیں تو ملازمین کا تحفظ ترقی اور خوشحالی بھی یقینی ہے۔ یہ ڈوبے تو بربادی یا نجکاری کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔اس صورت میں عملے کی وہی حالت ہوگی جو جی ٹی ایس اورچونگیات کے ملازموں کی زندگی جہنم بن کر ہوئی۔بہتر ہے کہ آسمان سے ٹوٹ کر بکھرنے والے ستارے کے بجائے ملت کے مقدر کا ستارہ بنتے ہوئے ہوئے اداروں کو خسارے سے نکالنے اور انہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے عملہ اپنا کردار ادا کرے۔ جہاں بدعنوانی،اقربا پروری نظر آئے اس کے ذمہ دار کے گریبان پر ہاتھ ڈالے جس طرح یونین والے اپنے حقوق کیلئے انتظامیہ سے بھِڑ جاتے ہیںاسی جذبے سے ادارے کے مفادات کا تحفظ کرنے کا عزم کرلیں تو یقینا ادارے خسارے سے نکل کرترقی کی معراج اور اوجِ ثریاتک پہنچ سکتے ہیں۔

Wednesday, September 4, 2013

پناہ گزین، تعلیم اور تہذیب

پناہ گزین، تعلیم اور تہذیب

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
03 ستمبر 20130
پناہ گزین، تعلیم اور تہذیب
مہاجرین کا 20جون کوعالمی دن بھی منایاجاتا ہے ۔ آج دنیا کے بڑے مسائل میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ ان کی تعداد میں کمی کے بجائے مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ چند ماہ میں مصر اور شام سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد نصف کروڑ کے قریب جا پہنچی ہے ۔ اس ہاٹ اشو بحث و مباحثہ کے لئے اگلے سال جون تک کے انتظار کے بجائے عصرِ حاضر کے تقاضے کے مطابق حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیاگیا۔ نظامت کے فرائض ابصار عبدالعلی نے ادا کئے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے مجید نظامی صاحب کی ان کو پاکستان لاشنے کی کوششوں کو سراہا۔ سیمینار سے اوریا مقبول جان‘ گورنمنٹ کالج ٹاو¿ن شپ کے پرنسپل ڈاکٹر محمد عارف نے خطاب کیا۔مجھے بھی نوائے وقت کے ممبر ایڈیٹوریل کی حیثیت سے تجزیہ کے لئے بلایا گیا تھا۔ حاضرین میں سید شعیب الدین ،منور بٹ،پروفیسر مظہر عالم ،عزیز ظفر آزاد، نیئر صدف اور دیگر کے علاوہ گورنمنٹ ٹاو¿ن شپ کالج کے طلبا ءطالبات بھی شامل تھے ۔ اس کالج کا معیار واقعی اعلیٰ اور بلندوبالاہے ۔میرے بیٹے طاہرفضل حسین اعوان نے اسی کالج سے ایف ایس سی کے بعد دوماہ قبل پنجاب یونیورسٹی سے بی سی ایس میں ڈگری مکمل کی۔ فائنل سمسٹر کے پیپر ہورہے تھے کہ اس کی ڈیمانڈ کی سیلری پر جاب مل گئی۔
 اقوام متحدہ کی 1951ءمیں وضع کی جانے والی تعریف کی رو سے پناہ گزیں ایسا شخص ہے جو نسل، مذہب، قومیت، کسی معاشرتی گروہ میں شمولیت، سیاسی رائے، جس وجہ کے باعث اذیت پہنچائے جانے کے حقیقی خوف سے اپنے ملک سے باہر ہو اور اسی خوف کے باعث اس ملک کی حفاظت حاصل کرنے سے قاصر ہو یا نہ حاصل کرنا چاہتا ہو۔
لیاقت بلوچ نے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا میں ساڑھے چار کروڑ افراد مہاجرین اپنے گھروں سے بے گھر ہیں۔ فلسطین کے 40 لاکھ شامل کرکے یہ تعداد 5 کروڑ ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں روس کے افغانستان پر حملے کے وقت سے افغان مہاجرین موجود ہیں۔ امریکہ اور نیٹو فورسز کے 2014ءمیں افغانستان سے انخلاءکے بعد جو ممکنہ خانہ جنگی ہوگی‘ اس کی وجہ سے مہاجرین کا نیا ریلا آئے گا۔ لیاقت بلوچ نے بہاریوں کو پاکستان لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نوائے وقت کو خراجِ تحسین پیش کیا جس نے ان پاکستانیوں کے لئے باقاعدہ فنڈ قائم کر رکھا ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ مہاجر کے معنی ہی اقوام متحدہ نے بدل دیئے۔ اسلام کے تحت تو یہاں جس ملک کے بھی لوگ آجائیں زمین ان کیلئے اپنی بانہیں وا کر دیتی ہے۔ 2025ءمیں یورپ کی شکل بدل جائے گی۔ وہاں انسان اللہ کے قانون کی نفی کر رہا ہے۔ ایک بزرگ فرد کے مقابلے میں 5 نوجوان ہونے چاہئیں وہاں دو معمر افراد پر صرف 3 نوجوان ہیں۔ دنیا کے حصے بخرے کئے گئے۔ آج یورپ سرحدیں ختم کر رہا ہے۔ جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ایک طرف مکمل افراد دوسری طرف مکمل اسلام ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ دنیا میں دہشت گردی کی جڑیں مہاجرت سے بھی جڑتی ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد سے اسلحہ‘ منشیات کلچر آیا۔ ان افغان مہاجرین میں سے بیشتر اب پاکستانی پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ اب تو امریکی فوجوں کی واپسی پر ہی ان کی واپسی ممکن ہے‘ لیکن اگر یہ واپس نہ گئے تو جو ب±رے اثرات ہمارے معاشرے پر پڑے وہ برقرار رہیں گے۔۔۔
میرے مطالعہ کے مطابق عراق سے لاکھوں افراد امریکی حملے کے بعد گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ممالک چلے گئے ‘کشمیریوں اور فلسطینیوں کی تیسری نسل مہاجروں اور پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہی ہے۔ مصر کے حالات خرا ب ہوئے تو لاکھوں مصریوں کے بھی پڑوسی ممالک میں مہاجر کیمپ آباد ہو گئے۔ شام میں حالات بگڑے تو 20 لاکھ افراد کو جانیں بچانے کے لئے اپنے ملک سے بھاگنا پڑا۔ عالمی مہاجرین کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب ہے‘ ان میں سے 90 فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ مہاجر کہیں بھی ہو ستم رسیدہ ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے میانمار کے مسلمان دنیا کے مظلوم ترین لوگ ہیں۔ ان پر بودھ ستم ڈھائے چلے جا رہے ہیں‘ ان کو کوئی ملک قبول کرنے پر تیار نہیں۔ بنگلہ دیش کی طرف بے سروسامانی کے عالم میں قافلے بڑھے تو سکیورٹی فورسز نے ان کوواپس دریا میں پھینک دیا۔ ان حالات میں اقوام کو میانمار کے پڑوسی ممالک پر زور دینا پڑا کہ وہ میانمار سے آنے والوں کو پناہ دیں۔ہم مہاجرین کے مسائل کے حل کی بات کر رہے ہیں۔ اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ کسی بھی شخص کے مہاجر بننے کی نوبت ہی کیوں آتی ہے؟ مہاجر یا پناہ گزین بننے کی وجوہات کا خاتمہ ہو جائے تو دنیا میں کوئی بھی مہاجر نہ ہو۔ کسی طاقتور طبقے کی عدم برداشت کے باعث ہی کسی کے لئے ہجرت کی نوبت آتی ہے۔ عدم برداشت اورتعصب کو عقل ودانش ، دانائی اور مذہب نہیں، جہالت جنم دیتی ہے۔افغانستان‘ عراق‘ فلسطین اور شام کے لوگوں کی غریب الوطنی کے پیچھے، امریکہ‘ روس ، یورپ اور اسرائیل جیسے ممالک کا ہاتھ ہے جو خود کو تہذیب اور تعلیم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز سمجھتے ہیں۔ میانمار میں بودھ مت کے پیروکار و رہنما مسلمانوں پر ستم ڈھا رہے ہیں‘ ان کی تو تعلیم ہی انسانیت کی خدمت ہے‘ پھر بھی انسانیت سوز کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ مادی ترقی انسانیت کی معراج ہے نہ عقل و دانش اور تعلیم کا معیار‘ اصل ضرورت ان ممالک کو تہذیب سکھانے کی ہے جوپائیدار علم سے ہی آتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے اندر کی جہالت اور تعصب دور ہو جائے تو دنیا کے پانچ کروڑ مہاجر اپنے اپنے وطن جاکر آباد ہو سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو انسانیت کون سکھائے اور تعلیم کون دلائے؟