About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, September 5, 2011

خواہشات .... توقعات




ستمبر 4 ، 2011

خواہشات .... توقعات







آج :4 ستمبر ، 2011

خواہشات .... توقعات
فضل حسین اعوان
بے جا خواہشات اور توقعات مایوسی کے طوفانوں اور پریشانیوں کی داستانوں کو جنم دیتی ہیں‘ انسان دوسروں سے توقعات وابستہ کرتا ہے‘ پوری نہ ہونے پر مایوس ہو جاتا ہے۔ کیا خوب ضرب المثل ہے : ”نیکی کر دریا میں ڈال“ اگر انسان اس ضرب المثل کی تصویر بن جائے تو زندگی آسانیوں کے خواب کی تعبیر بن سکتی ہے۔ توقعات و خواہشات کو انسانی فطرت سے الگ تو نہیں کیا جا سکتا‘ البتہ اپنی ذات کی بھلائی کیلئے ان کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ 
کسی دانشمند کا قول ہے ”اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو تو کسی سے توقع نہ رکھو‘ کہ توقع کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں میں رہتا ہے۔“ کسی کو سلام کرکے جواب کی توقع نہ رکھو‘ کسی پر احسان کرکے شکریئے کی امید رکھنا دراصل معاوضہ کی خواہش ہے۔ یہی خواہشات انسان کو کردار کی بلندی سے پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں تک لے جاتی ہےں۔ اپنی ذات سے وابستہ خواہشات و توقعات پر غور کیا جائے تو زندگی میں امڈ آنےوالی پریشانیوں کا شمار بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ آج کا معاشرہ خواہشات و توقعات کے تابع ہو کر فسادات کا باعث بن چکا ہے۔ یہ توقعات کی فرمانبرداری ہی تو ہے جس نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا‘ ساس بہو کا روایتی جھگڑا گھر کے سکون کو جہنم بنا دیتا ہے۔ یہ توقعات کا بگاڑ ہی تو ہے جس نے ہماری سیاست‘ سیاسی کارکن‘ پارٹی اور قائد کو مصائب و مشکلات کے سامنے لاکھڑا کیا‘ جو سسٹم کی بہتری چاہتے ہیں‘ انہیں صرف کامیابی سے غرض ہوتی ہے‘ جو اپنی محنت اور قربانیوں کے صلے میں خواہش اور توقع رکھتے ہیں‘ پوری نہ ہونے پر دل ویراں لئے پھرتے ہیں۔ 
محترمہ شہید ہوئیں تو کئی امیدواروں نے وزیراعظم بننے کی امید لگالی‘ کئی من مرضی کی وزارت کے خواستگار بن گئے‘ توقعات پوری نہ ہوئیں تو کوئی بددلی سے ساتھ رہا‘ کوئی اِدھر گرا‘ کوئی اُدھر گرا۔ مسلم لیگ نون میں بھی کئی صاحبان توقعات کے مارے ہوئے ہیں۔ جاوید ہاشمی تو بعض اوقات ایسی مبہم باتیں کر جاتے ہیں کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی پارٹی کے اندر ہیں، یا باہر۔ ان کی بہکی بہکی باتیں پریشان کر دیتی ہیں۔ ن لیگ کے اہم لیڈر ہیں لیکن حریف تحریک انصاف کے دھرنے میں بھی اُگ آتے ہیں۔ ایک مرتبہ بلوچستان کے حالات کے ضمن میں فرمایا میں بلوچی ہوتا تو علیحدگی کا اعلان کر چکا ہوتا۔ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کر چکے ہیں۔ ایک مرتبہ اسمبلی ہال میں مطالبہ کیا کہ نواز شریف جنرل ضیاءکی حمایت پر قوم سے معافی مانگیں۔ اب فرمایا ہے کہ صوبے نہ بنائے تو لاہور کے حالات کراچی جیسے ہو جائیں گے۔ یہ سب ہاشمی صاحب کی طرف سے توقعات پوری نہ ہونے کے باعث اپنی ہی ن لیگ پر خودکش حملے ہیں۔ سیاست میں اختلاف ہو جاتا ہے ہونا بھی چاہئے تاہم اظہار کے لئے پارٹی پلیٹ فارم ہونا چاہئے سر بازار پریشر ککر کی ”ڈھمری یا ویٹ“ اٹھا دینا دانشمندی ہے؟ اگر سیاستدانوں کے لئے ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی تو ہاشمی صاحب یقیناً اس عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ خواہش ہی تو تھی جو چودھری نثار علی خان روٹھ کر لندن جا بیٹھے تھے‘ وہ نون لیگ میں اس کھڑکی کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ہر آنےوالا اس میں سے جھک کر گزرے۔ 
ہمارے سیاسی لیڈروں کی خواہشات کی بہتات نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب کچھ لوگ ملک کے معاملات‘ بالخصوص جلتے ہوئے کراچی کے حالات کے سدھار کیلئے فوج سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ 
بہتر نہیں کہ ہم، بالخصوص آج کے حالات میں ہمارے سیاسی لیڈر و قائدین اپنی خواہشات کو لگام دیں اور ایک دوسرے سے توقعات سے پرہیز کریں۔ معاملات آئین اور قانون کے مطابق چلنے دیں‘ اپنے مفادات کی خواہش کو جلا کر راکھ کر دیں‘ جو شاید ان کیلئے دل گردے کا کام ہو گا۔ سکون چاہیے‘ امن اور آسودگی چاہیے تو انہیں ملک و قوم کی خاطر‘ کم از کم ان حالات میں جن سے آج پورا ملک بری طرح دوچار ہے‘ اپنی خواہشات کی گٹھڑی اور توقعات کی پوٹلی کو دہکتے الاﺅ میں پھینک کر کراچی کی آگ کو ٹھنڈا کر دیں۔

No comments:

Post a Comment