About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 8, 2011

انسانیت کے سوداگر

جمعرات ، 08 ستمبر ، 2011


انسانیت کے سوداگر
فضل حسین اعوان 
اگست کے آخر میں امریکہ نے وزیرستان میں القاعدہ رہنما عطیہ عبدالرحمن کو ڈرون حملے میں قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی مجاز حکام اس کی تصدیق کرنے کے لئے تیار نہیں۔ عطیہ عبدالرحمن مبینہ طور پر مارے گئے تو کہا گیا کہ لیبیا سے تعلق رکھنے والے اس مجاہد کو القاعدہ میں اسامہ بن لادن کے بعد دوسری پوزیشن حاصل تھی۔ ایسا کہنے والوں کی نظر میں ایمن الظواہری کا کیا مقام ہے؟ گرفتاری یا ہلاکت کے بعد القاعدہ اور طالبان کا ہر رہنما اہم ترین ہو جاتا ہے۔ کسی کو پہلے درجے کا، کسی کو دوسرے اور تیسرے درجے کا رہنما قرار دیا جاتا ہے۔ اپنی کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ہماری حکومتیں بھی امریکہ سے کچھ پیچھے نہیں۔ جس اعلیٰ سطح کے القاعدہ طالبان رہنماﺅں کی ہلاکتوں اور گرفتاریوں کے دعوے کئے گئے ہیں اگر ان میں صداقت ہوتی تو اب تک القاعدہ اور طالبان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔
گزشتہ روز امریکی اور پاکستانی حکومتوں کی طرف سے ایک بار پھر مشترکہ دعویٰ، کامیابی، کامرانی اور شادمانی کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ: ”آئی ایس آئی اور ایف سی بلوچستان نے امریکی تعاون سے مشترکہ آپریشن کے دوران کوئٹہ سے یونس الموریطانی سمیت القاعدہ کے تین اہم کمانڈروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ کوئٹہ کے نواح سے گرفتار القاعدہ رہنماﺅں میں عبدالغفار الشمسی اور میثار الشمسی شامل ہیں۔ آئی ۔ایس۔ پی۔ آرکے مطابق یونس الموریطانی القاعدہ کے بین الاقوامی آپریشنوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کا انچارج تھا اور امریکہ میں گیس پائپ لائن اور ڈیمز کو نشانہ بنانے سمیت عالمی پانیوں میں آئل ٹینکرز کو سپیڈ بوٹس سے دھماکہ خیز مواد کے ذریعے نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ آپریشن امریکی خفیہ ایجنسیوں کی تکنیکی معاونت کے ساتھ کیا گیا۔ آئی ایس آئی اور امریکی انٹیلی جینس ایجنسیز کے درمیان مضبوط اور تاریخی تعلقات ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں کی سیکورٹی بڑھانے کے لئے باہمی تعاون جاری رکھیں گے“۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی بدولت نہ صرف پاکستان اور امریکہ بلکہ باقی دنیا میں بھی دہشت گردی کی کئی بڑی کارروائیوںکو روکنے میں مدد ملی ہے۔ دوسری طرف وائٹ ہاﺅس نے گرفتاریوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی اور سیکورٹی فورسز کی کارروائی قابل ستائش ہے۔ وائٹ ہاﺅس کے ترجمان جوز ارنسٹ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ کارروائی پاکستان اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو طرفہ کثیر الجہتی تعاون کی مثال ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ ٹومی ویٹر نے بھی کہا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جینس اور سیکورٹی فورسز کی کارروائی کو سراہتے ہیں۔ گرفتاریاں پاکستان امریکہ پارٹنر شپ کی اچھی مثال ہے۔
یونس الموریطانی کی القاعدہ میں اہمیت اور امریکہ و مغرب کے لئے خطرناک ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے۔ اُن کا نام امریکہ کو مطلوب افراد کی لسٹ میں شامل تھا نہ اُن کے سر کی کوئی قیمت رکھی گئی تھی۔ یہ لوگ کوئٹہ میں بیٹھ کر بین الاقوامی آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ جرم ٹھہرا ان کا۔ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے شاید ان کی سوچ پر پہرے بٹھا رکھے تھے۔ یہ الزام کسی پر کسی بھی وقت لگ سکتا ہے۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہترین انٹیلی جینس شیئرنگ ہو رہی ہے۔ یہ بھی ثابت کر دیا کہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان مضبوط اور تاریخی تعلقات ہیں۔ کل تک امریکہ اور اس کی ایجنسیاں پاکستان اور اس کی ایجنسیوں پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ اس واقعہ نے امریکیوں کو مطمئن کر دیا، وہ شاباش دے رہے ہیں۔ کب تک؟ شاید کل تک ۔ اس کے بعد پھر الزام اور الزام سے بڑھ کر دشنام طرازی شروع ہو جائے گی۔ ایسی ہی مزید گرفتاریوں کے مطالبات ہوں گے۔ حقانی نیٹ ورک پر قابو پانے پر دباﺅ ڈالا جائے گا۔ کوئٹہ میں موجود خیالی طالبان شوریٰ کے خلاف آپریشن کے لئے زور ڈالا جائے گا۔
پہلے خبر آئی تھی کہ موریطانی اور ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اب لیون پنیٹا کا بیان سامنے آیا ہے کہ ہم یونس الموریطانی اور اس کے ساتھیوں تک رسائی کی کوشش کریں گے۔ یونس الموریطانی اور اس کے ساتھیوں نے امریکہ کے خلاف کوئی جرم نہیں کیا۔ ان کو امریکہ کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہیں؟ ان کی پاکستان میں موجودگی غیر قانونی ہو سکتی ہے۔ ان کی سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کے لئے خطرناک نہیں ہو سکتیں۔ ان کا پاکستان میں ہی ٹرائل ہونا چاہئے۔ سزا دی جائے اور ان کو ان کے ملک کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کوئٹہ میں چھپے ہوئے تھے یا چھپائے گئے تھے۔ بہرحال امریکہ کو کوئٹہ میں ڈرون حملوں کا ایک اور جواز فراہم کر دیا گیا۔ جس کا وہ مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ الموریطانی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا تو یہ انسانوں اور انسانیت کی سوداگری کی ایک اور مثال ہو گی۔
انسانوں کی سوداگری کا سلسلہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت سے شروع ہوا جب رمزی یوسف کو 1995ءمیں امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ ان پر 1993ءکے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان کو زندگی بھر قید کی سزا سنائی گئی۔ مئی 1997ءمیں نواز شریف دور میں ایمل کانسی کو سردار فاروق خان لغاری کے شہر ڈی جی خان سے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ فاروق لغاری ان دنوں صدر مملکت تھے۔ مشرف دور میں انسانوں کی سوداگری اور تجارت زوروں پر رہی۔ انہوں نے خود امریکہ کے ہاتھ پاکستانیوں کی فروخت کا اعتراف کیا۔ ایمل کانسی کو امریکہ نے سزائے موت سنائی اس پر عمل کیا اور میت پاکستان کے حوالے کر دی۔ مقدمہ کے دوران امریکی وکیل نے کہا تھا ”پاکستانی ڈالروں کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں“۔ جس کا پاکستان میں شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ تاہم مشرف اور ان کی حکومت نے عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کرکے ثابت کر دیا کہ کم از کم حکمرانوں کی حد تک پر امریکی وکیل کا تجزیہ درست تھا۔ دیکھئے الموریطانی اور ساتھیوں کو ہمارے حکمران امریکہ کو فروخت کر دیتے ہیں یا خود مختاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ان کے آبائی ممالک کے حوالے کرتے ہیں؟ تمام تر خرافات کی موجودگی کے باوجود موجودہ حکومت نے ساڑھے تین سال میں کوئی بھی فرد امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔ یہ ریکارڈ نہ ٹوٹے تو بہتر ہے۔



No comments:

Post a Comment