About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, September 30, 2011

آزاد فلسطین کا قیام نا ممکن نہیں


آزاد فلسطین کا قیام نا ممکن نہیں
فضل حسین اعوان ـ 18 ستمبر ، 2011



 اسرائیل‘ فلسطین ہی نہیں‘ پوری مسلم امہ کے بدن پر ناسور بن چکا ہے‘ یہاں انسانیت سسک رہی ہے‘ عالمی سطح پر انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے دعویدار ہی یہاں انسانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم‘ انکے خون سے کھیلی جانیوالی ہولی‘ بچوں کے بیدردی سے قتل عام اور خواتین کی بے حرمتی کے ذمہ دار ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن میں خوارو دربدر کردیا گیا۔ آج فلسطینیوں کو امن‘ سلامتی‘ عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ ایک وطن کی بھی تلاش ہے۔ یہ وطن ان کو کون دلائے گا؟ وہ کیسے آزاد ہونگے؟ اسرائیل کے پنجہ استبداد سے ان کو کیسے چھٹکارا ملے گا؟ ان سوالات کا جواب تو بڑا سیدھا سا ہے کہ اقوام متحدہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کرے اور عالمی برادری اس پر عمل کرادے۔ جیسے شمالی تیمور کو انڈونیشیا اور جنوبی سوڈان کو سوڈان سے الگ کیا گیا ہے۔ آج تقریباً پوری دنیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حامی ہے۔ بشمول برطانیہ کے جو ہر اچھے برے کام اور اقدام میں امریکہ کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر رکھتا ہے۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں آج صرف اسرائیل اور امریکہ حائل ہیں۔ تیسرا ملک بھارت ہو سکتا ہے لیکن عرب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے وہ کھل کر سامنے نہیں آرہا۔
اگلے ہفتے اقوام متحدہ میں فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دلانے کیلئے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش ہو رہی ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ قرارداد پیش ہی نہ ہو‘ اس نے واضح کر رکھا ہے کہ قرارداد پیش ہوئی تو وہ اسے حسب سابق ویٹو کر دیگا۔ لیکن اس بار شاید امریکہ کیلئے ویٹو کرنا پہلے کی طرح اتنا آسان نہ ہو۔ ایران تو پہلے ہی اسرائیل کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے کی خواہش رکھتا ہے‘ اسکے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی ہے یا نہیں لیکن جو کچھ بھی ہے اسکے راکٹ‘ میزائل‘ توپ و تفنگ‘ سب کا رخ اسرائیل کی جانب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی بندوق کی نالی ایران کی طرف اٹھتی اور پھر نیچے ہو جاتی ہے۔ تاہم امریکہ کو اقوام متحدہ میں ایران کی اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کی حمایت کی اتنی پروا نہیں‘ امریکہ کیلئے فکر مندی کی بات ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کےلئے کھڑے ہو جانا ہے۔ محصورین غزہ کی امداد لے کر جانیوالے فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کرکے اسرائیل نے 18 افراد کو مار ڈالا تھا اس پر ترکی نے شدید ردعمل کا اظہار اور محصورین کی آزادی کا عزم ظاہر کیا تھا۔ حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی کارروائی کو حق بجانب قرار دیا تو ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام معاہدے معطل کر دیئے۔ اسرائیلی سفارتکاروں کو ملک سے نکال کر اپنے سفارت کار اسرائیل سے واپس بلا لئے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم طیب اردگان نے قاہرہ میں عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ جرات مندانہ اعلان بھی کیا کہ ”فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جانا‘ ایک آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے‘ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی پرچم اقوام متحدہ پر لہرایا جائے اور یہ پرچم مشرق وسطیٰ میں امن و انصاف کی علامت بنا دیا جائے“۔ دیکھئے طیب اردگان کے اس جذباتی خطاب اور دل کی آواز پر عرب وزرائے خارجہ کی غیرت اور ضمیر کس حد تک جاگتے ہیں۔ البتہ سعودی شہزادہ ترکی الفیصل نے نیویارک ٹائمز میں چند روز قبل شائع ہونیوالے آرٹیکل میں امریکہ کو باور کرایا ہے کہ اگر امریکہ نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی اقوام متحدہ میں مخالفت کی تو عرب دنیا میں اسکی رہی سہی ساکھ کا جنازہ بھی نکل جائیگا۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے مزید کہا کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ پہلے کی طرح تعاون جاری نہیں رکھ سکے گا‘ انکے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: 
The United State must support the Palestinian bid for statehood at the United Nation this month or risk losing the little credibility it has in the Arab world. If it does not, American influence will decline further, Israeli security will be undermined and Iran will be empowered, increasing the chances of another war in the region. Moreover, Saudi Arabia would no longer be able to cooperate with America in the same way it historically has. With most of the Arab world in upheaval, the "special relationship". between Saudi Arabia and the United State would increasingly be seen as toxic by the vast majority of Arabs and Muslims, who demand justice for the Palestinian people.
اچھی بات ہے ترکی اور شہزادہ ترکی الفیصل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے ہر مسلمان کی خواہشات کی امنگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ترکی الفیصل سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف اور امریکہ و برطانیہ میں سفیر رہ چکے ہیں‘ آجکل کنگ فیصل سنٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈی کے چیئرمین ہیں۔ وہ جرات اظہار کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے صدر باراک اوباما کو خبردار کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات خطرے میں ہیں۔ جب تک امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کیلئے فوری اقدامات نہیں اٹھاتی‘ اس وقت تک امن عمل‘ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات اور خطے کا استحکام خطرے میں رہیں گے۔ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں قائدانہ کردار ادا کرتا رہے اور اپنے سٹرٹیجک اتحادیوں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ خصوصی تعلقات جاری رکھے تو اسے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق اپنی پالیسیوں کو ازسرنو مرتب کرنا ہو گا۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے سعودی فرما نروا شاہ عبداللہ کو خط بھیجا ہے‘ جس میں سعودی عرب پر اسرائیل کیخلاف جہاد یا ایک مقدس جنگ کی قیادت پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو سعودی عرب ایسے ارادوں کی مزاحمت کرتا رہا ہے تاہم ہر آنے والا دن اس روک کو مزید دشوار بنا دیتا ہے۔“ امریکہ کے ایبٹ آباد میں اپریشن کے بعد شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا تھا‘ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ افغانستان سے فوری طور پر اپنی فوجیں واپس بلالیتا۔ مصر‘ جہاں سے طویل عرصہ تک اسرائیل کی حمایت میں آوازیں اٹھتی رہیں‘ ہفتہ دس دن قبل وہاں اسرائیل کیخلاف زبردست مظاہرے ہوئے‘ مظاہرین نے اسرائیلی سفارت خانے پر بھی دھاوا بولا۔ 
ترکی امریکہ کا اصل اتحادی جبکہ پاکستان کو امریکہ نے اعزاز ی اتحادی کا درجہ دے رکھا ہے۔ ترکی آزاد فلسطین کے کاز کی خاطر اٹھ کھڑا ہوا ہے‘ تو پاکستان کو بھی اسلامی ممالک میں اسلام کا قلعہ سمجھنے کے باعث اور مسلم امہ کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ میں سعودی عرب‘ ترکی‘ مصر اور ایران کی مخالفت کی وجہ سے امریکہ کیلئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت بہت مشکل ہے۔ پاکستان کا امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں اہم کردار ہے‘ امریکی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتا‘ اگر پاکستان بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب اور مصر کے شانہ بشانہ ہو جائے تو امریکہ کیلئے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مخالفت ناممکن ہو جائےگی۔ اگر امریکہ پھر بھی اسرائیل کی بے جا حمایت جاری رکھتا ہے‘ تو شاید ترکی الفیصل شاہ عبداللہ کو احمدی نژاد کی دعوت قبول کرنے پر قائل کرلیں۔ جس میں شاہ عبداللہ سے اسرائیل کیخلاف جہاد کی قیادت کرنے کو کہا گیا تھا۔ دیگر اسلامی ممالک اس جہاد کی عملی حمایت میں بے شک نہ اٹھیں لیکن لب کشائی ہی کر دیں تو امریکہ و اسرائیل کی خود سری اور تکبر و تفاخر کے غبارے سے ہوا نکل جائیگی۔



No comments:

Post a Comment