About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, January 30, 2013

آرٹیکل 62-63 آفت یا عفریت نہیں



کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
آئین کی دفعہ 62-63کے ان کی روح کے مطابق اطلاق کی گونج سے بلا تخصیص اور بلا امتیاز ہر سیاسی پارٹی کے اندر کہرام، طوفان اور افراتفری کی کیفیت ہے ۔عمران خان جو ، اس شق کے اطلاق کے بڑے حامی تھے ،انہیں بھی اب اس آرٹیکل کے غلط استعما ل سے انتقام کی بو آرہی ہے ۔ پہلے اس کے عدم نفاذ کا رونا ، اب جبکہ یہ عمل میں آنے کوہے تو انتقام کا واویلا! 62-63 کے ممکنہ اطلاق سے اس کی زد میں آنیوالوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ان کی اگلے پانچ سال تک حکمرانی کی خواہش کے غبارے سے ہوا سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد نے یہ کہہ کر نکال دی کہ” 62-63 کا اطلاق ہوا تو موجودہ اسمبلیوں کے 70 فیصد ارکان نااہل ہو جائیں گے“۔چار سو پارلیمنٹیرینز کی ڈگریاں ابھی چیک ہونی ہیں ، دہری شہریت والے بھی اسی کی زد پر آئیں گے۔
ہمیں مسائل ، مصائب اور مشکلات کے الاﺅ میں صرف کرپشن کے جن نے پھینک رکھا ہے۔اس کو بوتل میں صرف اور صرف جمہوریت اپنے اصل روپ میں آکر ہی بند کرسکتی ہے ،وہ اسی صورت ممکن ہے کہ جمہوریت باکردار، ایماندار اور اہل لوگوں کے ہاتھ میں آجائے ۔ اس کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا حقیقتاً نفاذہو ۔ اس کی زد میں جو بھی آئے اسے راندہ درگاہ بنا دیا جائے۔کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے ضرورت ہو تو مدت دو ماہ بھی کی جاسکتی ہے۔ایک ایک امیدوار کی اس طرح چھان بین کی جائے کہ اس کے کردار پر کسی کے لئے انگلی اٹھانے کی گنجائش نہ رہے۔ امیدوار کے حلقے کے کسی بھی فرد کو اس پر اعتراض کا حق بھی دے دیا جائے تومزید تطہیر ممکن ہے۔
ہمارے پاس دنیا کے بہترین میں سے ایک آئین موجود ہے، جس کو مروجہ سسٹم کی کوکھ سے جنم لینے والے عزت مآب پالیمنٹیرینز موم کا پتلا سمجھتے ہیں۔جسے جب جیسے چاہا وہ اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال لیا۔ 62-63کوئی آفت یا عفریت نہیں ہے جس سے سیاستدان گھبرائے ہوئے ہیں۔پاکستان میں اس قدر بھی قحط الرجال نہیں کہ قیادتوں کو اس پر پورا اترنے والے لوگ نہ مل سکیں ۔یوں تو یہ آرٹیکل لمبا چوڑا ہے تاہم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اس کا نچوڑ پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیے؛ ” پارلیمنٹ کے رکن کا کردار اچھا ہو، وہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی شہرت نہ رکھتا ہو۔(زور شہرت پہ ہے ،چھپ چھپا یہ نہیں) اسلامی تعلیمات کا علم رکھتا ہو اور گناہوں سے بچتا ہو، سچا ایماندار اور امین ہو اور فضول خرچ نہ ہو۔ کسی غیر اخلاقی جرم میں سزا نہ پائی ہو اور پاکستان کی آئیڈیالوجی اور اتحاد کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث نہ رہا ہو“۔دہری شہریت نہ رکھتا ہو،وغیرہ وغیرہ۔
آج ڈاکٹر طاہر القادری آرٹیکل 62-63 کے اطلاق کی علمبرداری بڑے جوش وولولے سے کر رہے ہیں ۔نظر آتا ہے کہ انہوں نے اس شق کی رسی کو بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے۔ لیکن کب تک؟ انہوں نے تو تین سال کے لئے عبوری حکومت کا نعرہ لگایا تھا۔ اسلام آباد تخت الٹنے کا دعویٰ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے راجہ جنٹل کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تو شیخ الاسلام نے سجدہ ¿شکر بجا لاتے ہوئے فرمایا ”آدھا کام آج ہو گیا ،باقی کل ہو جائے گا“ شکرانے مبارک بادیں کہاں گئیں؟۔ 20بائیس سال قبل ”شاعر انقلاب“ مظفر وارثی کو لاوارث چھوڑا، 17 جنوری کو دھرنے کے لاکھوں شرکاءکو۔ دوستوں کی محفل میں چودھری محمد صفدر اقبال اسلم گوندل صاحب(یہ ایک ہی شخص کا نام ہے، تاہم منہاجیوں کے، قائدِ مطلق، شیخ الاسلام، ڈاکٹر، پروفیسر، علامہ مولانا محمد طاہرالقادری کے نام جتنا بہرطور طویل نہیں ) نے خوبصورت تبصرہ کیا ”آئین کی شق 62-63 اور ڈاکٹر صاحب کی آرٹیکل62-63 میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ثواب کے لئے آمین بالجہر کہنے یا صلوٰة پڑھنے اور دوسرے مسلک کو چڑانے کی نیت سے پڑھنے کا۔
جمہوریت دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ ہمارے ہاں ٹھگوں کے ہتھے چڑھی تو کملا گئی اور گہنا گئی۔ آج عوام جمہوریت سے مایوس ہیں ۔ اس میں قصور جمہوریت کا نہیں اسے اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرنے والے مجرم ہیں۔ان کا محاکمہ و محاسبہ ہونا چاہئے۔ ایک طرف عوام مشکلات کے قلزم میں غوطے کھا رہے ہیں، بجلی ہے نہ گیس نہ پانی، پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں آسمان پر‘ مہنگائی اس سے بھی ذرا اوپر‘ بیروزگاری سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ لاقانونیت کا عفریت پھن پھیلائے ہوئے۔ دہشت گردی کا طوفان مچا ہے۔ اقربا پروری رشوت ستانی‘ سفارش کلچر اپنے عروج پر‘ کراچی جل رہا ہے‘ بلوچستان الا¶ بن گیا۔ حکمرانوں پر دَھن کی دُھن سوار ہے۔ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ڈیڑھ درجن فیصلے جمہوریت ماروں کے پا¶ں تلے کچلے گئے۔ چیف جسٹس صاحب کو اسی جمہوریت کو بچانے کی فکر ہے۔ آج پھر ایک کیس میں فرما دیا حالات کچھ بھی ہوں جمہوری عمل جاری رکھا جائے۔ محترم المقام اپنے وہ فیصلے گنیں جن پر اسی جمہوریت کے پروانوں نے عمل نہیں کیا؟ جنرل کیانی نے اگر مارشل لاءکیلئے حالات سازگار اور سیاستدانوں کے فراہم کردہ بہترین جواز کے باوجود بھی اقتدار پر قبضہ نہیں کیا اس کا مطلب یہ نہیں ان کو عدلیہ کا خوف تھا۔ ماشاءاللہ! جنرل کیانی وکھری ٹائپ کے فوجی ہیں۔ ان کو فوج کے وقار سے کتنا لگا¶ہے۔ اس کا اندازہ میمو کیس کے بدستور بھنور میں گھمن گھیریاں کھانے سے ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ برملا جرنیل صاحب کے بھائی کو نیٹو سپلائی کے ٹھیکے لینے پر جزبز ہیں۔ بحرانوں کی دلدل میں دھکیلنے اور قومی وقار‘ سالمیت اور خود مختاری کا سودا کرنے والوں کو گھورتے بھی نہیں۔ کون کہتا ہے جمہوریت کو ڈی ریل کیا جائے البتہ جمہوریت کو کسی سلیقے اور طریقے سے رواں رکھنے میں ہر کسی کو اپنا کردار تو ادا کرنا چاہئے۔
 آج جمہوریت ایک تماشہ بنی ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن کراچی کے چھن جانے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا بیان خوفناک اندوہناک اور سب سے بڑھ کر شرمناک ہے۔ یہ حالات ہی کیوں پیدا ہونے دئیے گئے۔ ایڈمرل فصیح بخاری کا بڑا احترام تھا۔ وہ چیئرمین نیب بنے تو دیانتداری کے بجائے اپنے آقا¶ں کی خوشنودی کے لئے فیصلے کرنے لگے۔ کس چیز کی کمی تھی ان کے پاس؟ آخری عمر میں چٹے جھاٹے میں راکھ ڈال لی۔ جمہوری ملکوں میں کیا ایسے ہی قومی خزانے کے رکھوالے ہوتے ہیں؟۔
پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان انتخابات میں میچ پڑنے والا ہے‘ عمران خان کی پی ٹی آئی خود کو دونوں کا مقابل اور متبادل قرار دیتی ہے۔ چند ہفتے رہ گئے یہ گھوڑا اور یہ میدان ہو گا۔ البتہ آج ووٹر کے سامنے کوئی آئیڈیل پارٹی نہیں ہے۔ لوگ پھر جماعت اسلامی کے پرانے فلسفے چھوٹی اور بڑی برائی کے درمیان معلق ہوں گے۔ ن لیگ ہر کسی کو خریدنے میں مہارت رکھتی ہے تو پی پی سب کچھ بیچنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ پی ٹی آئی ابھی پختگی کے مراحل طے کر رہی ہے۔ این ایل مقبولیت کی رپورٹیں بھی مرتب کرا لیتی ہے اور کرپشن کی منظرعام پر آنے والی رپورٹیں واپس بھی کرا لیتی ہے۔ آئی آر آئی نے اسے مقبولیت میں سب پر سبقت دلا دی ۔پی ٹی آئی دوسرے اور پی پی تیسرے نمبر پر لائی گئی۔ ماہرین اسے فراڈ سروے قرار دیتے ہیں۔ قطع نظر اس سروے کے حقیقت یہ ہے کہ تھوڑے سے اگر مگر کے ساتھ انتخابات ہوئے تو میدان ن لیگ کے ہاتھ ہی رہے گا۔ پی پی سے دوسرا نمبر کوئی نہیں چھین سکتااتحادیوں میں اضافہ ہوا وہ مقناطیس کی طرح چمٹے رہے تو دوسروں کو پچھاڑ بھی سکتے ہیں۔ البتہ 62-63کے نفاذ سے پارلیمنٹ میں بہت سے نئے چہرے بھی ہوں گے۔ 62-63کا اطلاق ہوتا بھی نظر آتا ہے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر غیر جانبدار اور عدلیہ فعال ہے۔







انتخابات کیوں نہیں ہوں گے؟



مسلم لیگ ن نے نگران وزیر اعظم کے لئے چھ نام دیئے ہیں؛ عاصمہ جہانگیر‘ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد‘ شاکر اللہ جان‘ عطااللہ مینگل‘ محمود خان اچکزئی اور جسٹس (ر) اجمل میاں۔ سرسری جائزہ لیا جائے تو اسے مسلم لیگ (ن) کی غیر سنجیدگی اور معصومیت کہاجا سکتا ہے ۔ن لیگ شائد کچھ ناموروں کو خوش کرنے کے لئے طویل لسٹ بنادی ۔ عاصمہ جہانگیر کے فوج اور عدلیہ خصوصی طور پر جسٹس افتخار محمد چودھری پر برسائے گئے طعن وتشنیع کے زہر میں بجھے تیر ریکارڈ پر ہیں ۔ ان کا نام دے کرن لیگ نے بھول پن میں اپنے اصل عزائم کا اظہار کر دیا۔۔دسمبر کے آخر میں میڈیا میں یہ خبریںآچکی ہیں کہ صدر زرداری نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہدکو نگران وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنے وزیر اعظم راجہ کو ہدایت کی کہ چودھری نثار سے اسی نام پراتفاق رائے حاصل کیا جائے ۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کا نام پاکستان میں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے ۔انہوں نے مشرف کے ابتدائی دورمیںپی سی او پر حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کے جج کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا۔جب ن لیگ اور پی پی پی میں بیک ڈور چینلز ، جسے عرف عام میں مک مکا کہا جاتا ہے، کے ذریعے اتفاق رائے ہو چکا ہے تو پھر چھ نام دینے کے ڈرامے کی ضرورت؟۔ 
نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ہوں یا کوئی اور عبوری مدت کے لئے کسی سے بھی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کی توقع عبث ہے ۔نگران حکومت کا مینڈیٹ یقینا منصفانہ الیکشن کے انعقاد میں الیکشن کمیشن سے تعاون ہے ،جس کے سربراہ فخرالدین جی ابرہیم جیسی بااصولی شخصیت ہیں۔جن کے اختیارات اٹھارہویں ترمیم کے بعد محدود ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر کے پاس ویٹو کا اختیار تھا جو اب محض ایک ووٹ میں بدل گیا ہے ۔چار سیاسی پارٹیوں کے نامزد ممبران کی طرح چیف الیکشن کمشنر کا بھی ایک ہی ووٹ ہوگا ۔ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سیاسی ممبران کی خواہشات کا یرغمال بن جائے گا ۔یہ ممبران مشرف سے زیادہ طاقتور نہیںہوسکتے ،وہ اپنی پوری کوشش اور مکمل پلاننگ کے باوجود بھی 2008 ءکے انتخابات کے دوران اپنی پارٹی کی جھولی میں جیت ڈالنے میں قاصر رہے تھے۔بیشک نگران سیٹ اپ کے اوپر آصف علی زرداری صدر ہونگے لیکن وہ مشرف کی طرح طاقتور ہونے کے بجائے ،فضل الٰہی چودھری اوررفیق تارڑ صاحب کی طرح بے اختیار ہوچکے ہیں۔ ناصر اسلم زاہدکو نگران وزیر اعظم بنانا ان کے اوپرکسی کاکوئی احسان نہیں، یہ ان پر ڈالی جانیوالی آئینی ذمہ داری ہوگی ۔انہیں اپنے مفادات کی پروا ہوتی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھالیتے۔ ان کوکوئی بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔ان کو نگران وزیر اعظم بنانے والے اور نہ ہی وہ جن کو پسِ پردہ قوت کا منبع گردانا جاتا ہے۔ ان کا کام منصفانہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت اور عبوری دور میں ملکی امور کو آئین اور قانون کے مطابق چلاناہوگا۔
جو لوگ انتخابات کے التوایا عدم انعقاد کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں، ان کو بھی بلاجواز قرار نہیں دیا جاسکتا۔آئین میں ایک سال تک اسمبلیوں مدت میں اضافے کی گنجائش کو ملکی حالات سے مشروط کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت ایسے حالات کے پیدا ہونے کا یقین کئے ہوئے ہے ۔ اسی لئے وہ انتخابات کا شیڈول دینے سے گریز کررہی رہے ۔ وزیر خارجہ کےلئے ایسے حالات پیدا کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔آج تک انہوں نے جو کہا کر دکھایا ،سوائے طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنے میں خود کش حملوں کا یقین ظاہر کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کراسکے ،شائد ان کے ہاتھ صدر آصف علی زرداری نے چودھری شجاعت کی طرف سے اپریشن کی شدید مخالفت کے بعد باندھ دیئے تھے۔اگر عبوری حکومت بنتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ حالات واقعتا ایسا رخ اختیار نہیں کر لیں گے جن کے باعث انتخابات کراناممکن نہ رہے۔ آج کرپشن جس نہج پر ہے اور اس میں جس طرح ہائی پروفائل شخصیات ملوث ہیں نگران سیٹ اپ سے یقینا ان کے احتساب کے مطالبات ہو نگے ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو نگران کوئی اہمیت نہ دیں لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ نگران آل اِن آل نہیں ہوں گے پسِ منظر میں وہ قوتیں بھی کارفرماہوں گی جن کا آئین میں کردار نہ ہونے کا باوجود بھی ایک مسلمہ کردار ہے ۔ نگران ان کی بات ماننے پر مجبور ہوں گے اگر اصول آڑے آئے تو ان میں سے کچھ استعفیٰ دے کے چلے جائیں گے ،اس کے بعد اس قوت کا کام مزید آسان ہو جائے گا۔آپ اسے بھی ایک مفروضہ سمجھ لیںلیکن مجوزہ نگران سیٹ اپ اپنے کام سے کام رکھنے کی جتنی بھی کوشش کرے، بہت سے معاملات میں اسے نہ چاہتے ہوئے بھی ملوث ہونا پڑے گا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بہت سے فیصلے تشنہ تعمیل ہیں،جن کی راہ میں آج کے حکمران رکاوٹ بنے رہے ۔ایک معاصر کے تجزیہ نگار کی نظر میں وہ فیصلے کچھ یوں ہیں؛
 این آئی سی ایل اسکینڈل، حج کرپشن اسکینڈل، پاکستان اسٹیل مل کیس، ریٹائرڈ افسران کو دوبارہ ملازمت پر رکھنے کا کیس، سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات میں ایماندار تفتیشی افسران کو بار بار تبدیل کرنے کا کیس، پنجاب بینک سکینڈل کیس، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے صدر مملکت کو دو عہدے رکھنے سے روکنے کا کیس، ڈی جی ایف آئی اے ظفر قریشی کو بحال کرنے کے احکامات کا کیس، انیتا تراب کے معاملے میں بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا کیس، رینٹل پاور پروجیکٹ کیس، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کا کیس، سی این جی کی قیمتوں کا کیس، اوگرا چیف توقیر صادق کی گرفتاری کا کیس جس میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ ، وزیرداخلہ رحمٰن ملک اور جہانگیر بدر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے ۔نگران سیٹ اپ کے لئے عدالتی فیصلوں پر عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ فیصلوں پر عمل ہوا توبہت کچھ ہوگا اور جو بھی ہوگا ملک وقوم کے لئے بہتر ہوگا۔
عبوری حکومت کی مدت میں کسی بھی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے تو اس پر ہر پارٹی احتجاج کر سکتی ہے سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے ۔ صدر زرداری کی مدتِ صدارت اگست 2013 ءمیں پوری ہو رہی ہے ۔پارلیمنٹ کے مکمل ہونے تک وہی صدر رہیں گے۔جب تک وہ صدر رہیں گے ان کی پارٹی کو احتجاج کی کیا ضرورت ؟۔اس سال بہت کچھ بدلنے والا ہے، جنرل کیانی نومبر جبکہ جنرل خالد شمیم وائیں ان سے بھی ایک ماہ قبل ریٹائر ہونگے۔جسٹس افتخار کو دسمبر کے وسط تک منصف اعلیٰ کے منصب پر تعینات رہنا ہے۔نئی پالیمنٹ کی عدم موجودگی میں تعناتیوںکے بڑے بڑے فیصلے عبوری حکومت کو ہی کرنا ہوں گے۔
اگر انتخابا ب بروقت ہو جاتے ہیں تو پہلی بار یہ امید پیدا ہوئی کہ دیانت دار لوگوں کی اکثریت پارلیمنٹ میں پہنچ پائے گی۔غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ فعال سپریم کورٹ کا کردار بھی اہم ہوگا۔گو گریجوایشن کی شرط ختم ہو چکی ہے لیکن ماضی میںجس نے بھی جعلی ڈگری پر الیکشن لڑاوہ آئندہ انتخابات کے لئے نااہل ٹھہرے گا ۔کچھ کو الیکشن کمیشن اور کچھ کو عدلیہ نا اہل قرار دے دیگی۔جعلی ڈگری پکڑنے کا بڑا آسان سا طریقہ ہے ۔الیکشن کمیشن کے پاس گزشتہ دو انتخابات میں حصہ لینے والوں کی ڈگریاں موجود ہیں ۔کراچی اور لاہور کے رہنے والے نے آزاد کشمیر اور اندرون سندھ سے حاصل کردہ ڈگری لگائی ہے تو اس کی سکروٹنی کر لی جائے۔ایسے بھی ہیں جو مذہب سے تو دور ہیں لیکن ڈگریاں مدرسوں لے کر الیکشن لڑتے رہے۔یہ کام اگر سیاسی جماعتیں خود کرلیں تو کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران سبکی سے بچ سکتی ہیں۔



دسمبر تا جنوری کے کالم












































......................................
22-1-13
بھارت کو دوٹوک جواب
کالم نگار | فضل حسین اعوان

میڈیا میں لائن آ ف کنٹرول پر پاکستان بھارت محاذ بڑا گرم دکھائی دیتا ہے۔ اس کی تازہ ترین شروعات 6 جنوری کو بھارتی فوج کی اڑی سیکٹر میں دراندازی اور فائرنگ سے ہوئی جس میں ایک جوان لانس نائیک اسلم شہید اور اس کا ایک ساتھی زخمی ہو گیا۔ پاکستان نے بھارتی قائمقام ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج کیا۔ پاکستان پوسٹ پر فائرنگ کا جواز بھارتی فوج کے ایک ترجمان کرنل پانڈے نے یہ پیش کیا کہ پہلے پاکستانی فوج نے فائرنگ کی جس کے جواب میں ہلکے ہتھیاراستعمال کئے گئے۔ کرنل پانڈے کا یہ جواز یا اعتراف بڑا اہم ہے۔

 پاکستان کو نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے میں بھارتی حکومت، سیاستدان اور میڈیا ہمیشہ نہ صرف ایک پیج پر رہتے ہیں بلکہ انتہا پسندوں کے ہاں سرخرو ہونے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں بھی کوشاں رہتے ہیں۔ ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو چند ایک کے سوا پاکستان کے حوالے سے ہر ہندو انتہا پسند نظر آتا ہے۔ ان کو تو کھیل میں پاکستان کی جیت برداشت نہیں۔ پاکستان نے کرکٹ سیریز کیا جیتی ، پورے ہندوستان میں ایک آگ سی لگ گئی۔ پاکستان کے ہاکی کھلاڑیوں کو نکال دیا گیا۔ کنٹرول لائن پر دراندازی، فائرنگ کے واقعات اور اشتعال انگیزی میں یکطرفہ اضافہ کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہم پاکستانی بھارت کے معاملے میں ب ±ری طرح تقسیم ہیں۔میڈیا، سیاستدان حتیٰ کہ خود کو مذہبی کہنے والے لوگ اور جماعتیں بھی اپنی اپنی بولی بول رہی ہیں۔

9 جنوری 2013ئ کو بھارتی میڈیا کی پاکستان دشمن فطرت نے انگڑائی لی اور واویلا شروع کر دیا کہ منڈھیر سیکٹر میں پاکستانی فوج نے کنٹرول لائن عبور کی اور بھارتی چیک پوسٹ میں گھس کر دو بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر کے ان کا سر قلم کیا اور سر ساتھ لے گئے۔ بھارتی میڈیا یہ واقعہ 9 جنوری کو یہ کہہ کر بیان کرتا رہا کہ یہ وقوعہ 6 جنوری کو ہوا تھا۔ بالکل اسی روز جب بھارتی فوجیوں نے لانس نائیک اسلم کو شہید کیا اور کرنل پانڈے نے دعویٰ کیا تھا پاکستان کی فائرنگ کے جواب میں فائرنگ کی گئی تھی۔ اگر 6 جنوری کو واقعی دو بھارتی فوجیوں کے سر قلم ہوئے تھے تو تین دن تک یہ خبر کیسے چھپی رہی؟ بھارتی میڈیا نے یہ خبر مقامی فوجی ترجمان کے حوالے سے چلائی جس کا نام تک نہیں بتایا گیا۔ بھارتی چینلز پر خبر چلتے ہی ایک کہرام مچ گیا۔ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں حکمران، سیاستدان اور فوجی حکام سبھی شامل ہو گئے، خبر کی تصدیق کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی حتیٰ کہ وزیر داخلہ سلمان خورشید پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کر رہے تھے۔ ان کا بیان ہی حقیقت سے پردہ اٹھانے کیلئے کافی تھا کہ ان کو ایک فوجی کے سر قلم کرنے کی خبر ملی ہے، کتنی شرم کی بات ہے کہ وزیر خارجہ خبر کی بنا پر سیخ پا ہو کر دو ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں ان کو تو مکمل رپورٹ اورتفصیلات حاصل کر کے ردعمل دینا چاہئے تھا۔ دہلی میں وزارتِ خارجہ نے مبہم بلکہ جھوٹی خبر کی بنیاد پر پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیر کو طلب کر کے بلاجواز احتجاج کیا۔ اگلے روز بھارتی ناردرن کمانڈ کے ترجمان کرنل کالیا کی سٹیٹمنٹ نے جھوٹ کا پول کھول دیا کہ سر قلم کرنے کا سرے سے کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا۔ بھارتی میڈیا، حکمران، سیاستدان اور فوجی حکام اس کے باوجود مشتعل ہیں۔ بھارتی ائر چیف این اے کے برا?نی اور آرمی چیف جنرل بکرم اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ من موہن سنگھ بھی غصے میں بھوتنی کی طرح سٹپٹا تے ہوئے فرماتے ہیں کہ پاکستان نے کنٹرول لائن پر غیر انسانی کام کیا۔ایک وقوعہ لاموجود کو جواز بنا کریہ سب پاکستان پر برس رہے ہیں ،اس کا بدلہ لینے کیلئے بار بار فائرنگ کی گئی جس سے مزید شہادتیں ہوئیں۔ بھارتی میڈیا بدستور ا ±لٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف پاکستان ہی کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔

 بھارت کے حوالے سے اگر کوئی طبقہ ایک پیج پر ہے تو وہ ہمارے حکمران ہیں جن کو بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ طبقہ بھارت کے ساتھ تعلقات، دوستی اور تجارت میں مزید فروغ کیلئے کمربستہ ہے۔ان کو بھارت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر بات کرنے یا جواب دینے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ بھارت پاکستانی فوجیوں کی لاشیں گر ا رہا ہے، پاکستان پر بھونڈے ،بے بنیاد اور لغو الزامات لگا کر دھمکا رہا ہے، یہ بھارت کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے کیلئے بے قرار ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خلاف آنکھیں دکھا کر اور بھارت کو کھری کھری س ±نا کر اپنا کردار ادا کر دیا۔

 سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اس حوالے سے ایمبسیڈر ایٹ لارج کا صحیح معنوں میں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی ٹی وی چینل ”ٹائمزنا?“ Times Now کو انٹرویو کے دوران بھارت کو مکمل دلائل کے ساتھ ایکسپوز کر کے رکھ دیا۔ وہ کہتے ہیں یہ پاک فوج کا کلچر ہی نہیں کہ نعشوں کو مسخ کرے اور سر قلم کر کے ساتھ لے جائے۔ ”ٹائمزنا?“ کے اینکر نے کارگل ایڈونچر کے دوران کیپٹن سروب کی نعش کو مسخ کرنے، کان ناک اور ہونٹ وغیرہ کاٹنے کا الزام دہرایا تو مشرف نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارتی فوج اور ”را“ کی کارستانی قرار دیا جو ایسی حرکتیں اور سازشیں پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ کیا ہم پاگل ہیں کہ لاش کومسخ کریں اور دشمن کو پیش کر دیں کہ وہ پوری دنیا میں ہمیں بدنا م کرے؟ اینکر نے طاہر القادری کی حمایت میں ان کے بیان کہ پاکستان میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، میں کیانی کی جگہ ہوتا تو تبدیلی آ چکی ہوتی، کے بارے پوچھا تو انہوں نے سوال کے دوسرے حصے کی سختی سے تردید کی تبدیلی کی ضرورت کی حمایت کرتے ہوئے اینکر کو کہا یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے بھارت کو اس معاملے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔ حافظ سعید پر دہشت گردی کے الزامات اور مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی حمایت جیسے سوالات کا بھی مشرف نے ٹھوس اوردوٹوک جواب دیا۔ ان کا اینکر سے بڑی جارحیت کے ساتھ سوال تھا تم بال ٹھاکرے گروپ کیخلاف کیوں کارروائی نہیں کرتے۔ مشرف نے بھارتی چینل پر پاکستان کا مقدمہ بڑی خوبصورتی، مکمل دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ لڑا۔ بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بالآخر سچ اگلنے کے لئے اپنی پارٹی کانگریس کے پلیٹ فارم کا انتخاب کرتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے انتہا پسند ہندو?ں کو عسکری تربیت دینے کا بھانڈا پھوڑ ا ہے۔ انہوں نے کہا ” سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد بم دھماکہ، مالی گا?ں میں دھماکہ شیوسینا اور بی جے پی کا کارنامہ ہے اور دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کا الزام بعد میں پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔

 بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس انتہا پسند عناصر کی ٹریننگ کر رہی ہے، یہ دونوں انتہا پسند تنظیمیں لوگوں کو بھرتی کررہی ہیں اور ملک میں ہندو دہشت گردی کے کیمپ چلا رہی ہیں۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی بڑھانے کے کیمپس موجود ہیں جن میں انتہا پسندی کی تربیت دینے کا انکشاف ہوا ہے“۔ بھارتی وزیر داخلہ نے جس محفل میں ہندو انتہائ پسندی پھیلنے کی بات کی اس میں وزیراعظم منموہن سنگھ اور حکمران جماعت کانگرس کے رہنما راہول گاندھی بھی موجود تھے۔ اگر یہ بات وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کی ہوتی تو ہندو?ں کے تعصب کا شکار ہو کر وزارت سے نکالے جا چکے ہوتے۔بہرحال پاکستان کو شندے کے اعتراف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہئے۔ بھارت جس شد و مد سے پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے سرگرداں ہے پاکستان کو کہیں بڑھ کر اپنا کیس اٹھانا چاہئے۔ خدا کیلئے شندے کے اس اعتراف کے بعد تو حکمران، سیاستدان میڈیا اور دیگر تمام طبقات متحد ہو کر یک زبان ہو جائیں۔ بھارت کو مشرف والے مذکورہ سخت، دوٹوک اور غیر لچکدار لہجے میں جواب دیں۔
.....................

دھرنا .... آفٹر شاکس
کالم نگار | فضل حسین اعوان
20-1-13
کسی کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کا خمار اور کسی کو بخار تھا۔ کسی کی نیند حرام اور کسی کی جذبات کے عروج میں کوسوں دور تھی۔ ”دھرنا ا مذاکرات اور کنٹینر ڈیکلریشن“ کے بعد دھرنا طوفان تھما۔ ڈیکلریشن کو فریقین نے اپنی اپنی جیت قرار دیا۔ شرکائ دھرنا نے اپنا سامان سمیٹا، فتح و نصرت کے نعرے لگاتے اور شادیانے بجاتے پاکستانی ”تحریر سکوائر“ سے چل دیے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تازہ تحریک کا آغاز مروجہ جمہوری سسٹم میں اصلاحات کے لئے تین سالہ عبوری حکومت کے قیام کی تجویز سے کیا۔ انہوں نے ”سیاست نہیں ریاست بچا?“ کا اصول اپنایا اور ”پہلے اصلاحات پھر انتخابات“ کا نعرہ لگایا۔ لانگ مارچ اور دھرنا تعداد کے حوالے سے سمندر اور نظم و ضبط کا حسیں شاہکار تھا۔ واقعی ایک پتہ تک نہ ٹوٹا۔ پہلے دن سے آخری لمحات تک مجمع کے پائے استقلال میں کوئی لرزش نہ تھی۔ کھلا آسمان، شدید سردی اور پھر بارش ، شرکا کے عزم و ہمت کے سامنے بے بس ہو گئی۔ شرکائ میں بچے عورتیں بوڑھے اور جوان بلاامتیاز ان کے پیشے اور مسلک کے شامل تھے۔ نماز کی ادائیگی کے وقت یکجہتی کے مناظر نے حیران کر دیا۔ کوئی ہاتھ باندھے اور کوئی چھوڑ کے نماز پڑھ رہا تھا۔ قومی پرچموں کی بہار تھی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری عزم راسخ کی دیوار اور مینار بنے ہوئے تھے۔ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل ،جس میں سرفہرست تخت کا تختہ کرنا تھا، کے لئے آخری، بلکہ کسی بھی حد تک جانے کا ارادہ باندھے بیٹھے تھے۔ نہ جانے بارش اور سردی میں ٹھٹھرتے بچوں اور خواتین کی حالت سے ان کا دل پسیجا یا اپوزیشن جماعتوں کے میاں نواز شریف کے آستانے پر حاضری اور جمہوریت کو ڈی ریل نہ ہونے دینے پر اتفاق نے خدشات پیدا کئے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ایجنڈے کو محدود اور مطالبات کو مسدود کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ کنٹینر ڈیکلریشن کی تان بالآخر اس پر ٹوٹی؛” قومی اسمبلی 16 مارچ 2013ئ سے قبل کسی بھی وقت تحلیل کر دی جائے گی جس کے تحت عام انتخابات 90 روز کے اندر منعقد ہو سکیں گے۔ امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے ایک ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدوار کی پری کلیرنس کے بغیر امیدوارکو انتخابی مہم شروع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کا فیصلہ الیکشن کمشن کرے گا دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان عوامی تحریک حکومتی اتحاد سے مکمل اتفاق رائے سے دو نام نگران وزیراعظم کے لئے تجویز کرے گی بعد ازاں آئینی طریقہ کار کے تحت نگران وزیراعظم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا الیکشن کمشن کی تشکیل نو کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس سلسلے میں آئینی مشکلات ہیں آئینی ماہرین سے اس بارے میں مزید مشاورت کی جائے گی۔ چوتھے نکتہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے فیصلے پر 100 فیصد عملدرآمد ہوگا۔ سپریم کورٹ کے 8 جون 2012ئ کے فیصلہ کی روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

دیکھئے حکومت ان مطالبات پر عمل کرتی ہے یا یہ اس کا علامہ کے لئے چکر ثابت ہوتاہے۔ بہرحال ڈاکٹر طاہرالقادری کی اس شو سے عالمی سطح پر بھی ایک ساکھ بن گئی ہے گو انہوں نے معاہدہ ایسے لوگوں سے کیا جو کہتے ہیں معاہدے قرآن و حدیث نہیں اور گارنٹر بھی وہ جو پہلے بھی گارنٹیاں دے کر بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بنے نظر آئے تھے بہرحال طاہرالقادری کا ایجنڈا تو تشنہ تکمیل رہا البتہ انہوں نے پھر بھی کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کیا ہے جسے موجودہ حالات میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ طاہرالقادری کے پیچھے امریکہ، فوج یا اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن ان کے پیچھے تو کچھ بھی نہ نکلا سوائے اس کچرے کے جو شرکائے دھرنا ڈی سکوائر میں چھوڑ آئے۔ جن کو کاغذ چننے والے بچے ا ±ٹھاتے رہے۔کم از کم ان بچوں کے لئے دھرنا ایک نعمت ثابت ہوا۔

دھرنے کے بعد اس پر تبصروں اور ردعمل کا ایک پٹارہ کھل گیا ہے۔میاں نواز شریف نے دھرنے کے اختتام پرکہا ”سیاست نہیں ریاست بچا? کا نعرہ لگانے والے بمشکل عزت بچا کر واپس آئے۔ البتہ انہوں نے جو کہا تھا کہ پلے نہیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ صاحب نے ثابت کیا کہ ان کے پلے دھیلا بھی تھا اور انہوں نے میلا بھی خوب لگا لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ میلہ لوٹ کسی اور نے لیا۔

کنٹینر ڈیکلریشن میں بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ مقدمات واپس ہوں گے اور کوئی کارروائی نہ ہو گی۔ قمرالزمان کائرہ نے علامہ کی نقل اتارنے پر معذرت کی تاہم ڈیکلریشن میں ”کہا سنا معاف “کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے طاہرالقادری حکمرانوں کو یزیدیت جیسے جو خطابات دیتے رہے رحمن ملک کو شیطان ملک، بے شرم جھوٹا اور .... کہتے رہے جواب میں حکومتی شخصیات نے جوابی القاب دئیے ان کو سکہ رائج الوقت سمجھا جائے؟

جو لانگ مارچ سے سہمے ہوئے تھے جن کو دھرنے کے خوف نے میاں نواز شریف کی چوکھٹ چومنے پر مجبور کیا وہ دھرنے کے بعد طعن، تنقید اور دشنام تک کے تیر برسا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے فرمایا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا۔ مولانا نے سائز کے بارے میں نہیں کہ کتنا فربہ تھا اور کس کی طرح کا تھا؟ بہرحال دھرنے کے حوالے سے، اس کے اختتام پر کہیں شرمندگی نمودار ہو رہی ہے اور کہیں اس کے خوف سے خوشی کی پھوار پھوٹ رہی ہے۔ نواز شریف فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے کو گالی دینے والے اب اتحادی ہیں۔ اس کی تو تحسین کی جانی چاہئے کیا گالی دینے والے ایک دوسرے کے گلے پڑ جائیں، گلے مل جانا اچھا نہیں؟ زرداری نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی مروجہ سیاست کے گ ±رو ہیں اور باقی سیاستدان خود کو چیلے بھی ثابت نہیں کر پائے۔ رحمن ملک نے اس معاملے کو لال مسجد کی طرح حل کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ وہ زرداری صاحب کی مداخلت پر باز رہے۔ خیر سے جماعت اسلامی کی قیادت بھی تبصرے میں پیش پیش ہے۔ ایک تجزیہ نگار کی رائے ہے کہ لیاقت بلوچ لاہور کی سیٹ کی خاطر منور حسن صاحب کو نواز شریف کی درگاہ پر لے گئے تھے۔ ویسے سیاست جماعت اسلامی کے بس کی بات نہیں۔ کیا قیامت تک دوسرے کندھوں پر سوار ہو کر ہی اقتدار کی منزل سر کی جاتی رہے گی۔ اصولی طور پر بھی اس جماعت کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ یہ جب قیام پاکستان کے موقع پر سیاست سے لاتعلق رہی تو اب تعلق کیوں۔ کیا فلاح، اصلاح اور جہاد کا میدان محدود ہے کہ سیاست کے میدان میں اپنی صلاحیتیں برباد کی جائیں۔

چند ہفتوں میں جو نگران حکومت بنے گی اس میں طاہرالقادری صاحب سے مشاورت کی جائے گی۔ اپوزیشن سے بھی مشورہ ضروری ہے۔ یہ کوئی ایسا معرکہ نہیں ہے جو سر نہ ہو سکے۔ پاکستان میں غیر جانبدار ایماندار اہل اور صاف ستھرا سیاسی پس منظر رکھنے والی شخصیات موجود ہیں۔ان میں سے کسی پر اتفاق رائے آسانی سے ہو جائے گا لیکن نگران وزیراعظم کے لئے نام لینے اور نام دینے والوں کی نظریں سابق ججوں پر آ کر ہی ٹھہرتی ہیں۔ نگران وزیراعظم نے صرف انصاف کا ترازو ہی نہیں تھامے رکھنا ،دو تین ماہ تک امور مملکت چلانے ہیں۔ اس کی درک زیادہ سے زیادہ امور میں ہو تو بہتر ہے۔ پاکستان میں فخر امام، حامد ناصر چٹھہ جیسے تمام پارٹیوں کے لئے قابل قبول لوگ موجود ہیں۔ رضا ربانی پر کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ پھر اے این پی کے افراسیاب خٹک اور زاہد خان ہیں۔ جاوید ہاشمی پر آسانی سے اتفاق ہو سکتا ہے۔ راجہ ظفرالحق سب کے لئے محترم ہیں لیکن یہ لوگ شاید انتخابی سیاست سے الگ نہ رہ سکیں جیسا محمود خان اچکزئی معذرت کر چکے ہیں۔ قیوم نظامی ایک عرصہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات رہے ان کی غیر جانبداری مسلمہ ہے۔ سیاسی حلقوں میں ملک معراج خالد اور محمد خان جونیجو جیسی شرافت کی شہرت رکھتے اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ آج کل وہ کسی پارٹی میں نہیں ہیں فی الوقت انتخابی سیاست سے دور ہیں ان کے نام پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے نگران وزیراعظم بہرحال کسی سیاستدان ہی کو بنایا جانا چاہئے۔



دھرنا....عدالت اور راجہ
کالم نگار | فضل حسین اعوان
17-1-13 THURSDAY
 مقصد مبہم ہونے کے باوجود شیخ الاسلام کا لانگ مارچ کامیاب رہااوردھرنا بھی اسی مرحلے سے گزر رہا ہے۔شرکائ پ ±ر جوش اور جو بھی ان کو مقصد بتایا گیا ہے اس کی تکمیل تک اسلام آباد کے سرد موسم کا سامنا کرنے کیلئے پ ±رعزم ہیں۔علامہ نے ان کی ڈھارس تاریخی واقعات کا حوالہ دیکر اور ان کے جذبات کو ابھا کر بندھائی۔ اس ہجوم عاشقاں کو لاٹھی،آنسو گیس اور گولی منتشر نہیں کرسکتی۔ البتہ بارش ہی ایک حیلہ ہے جس سے لوگ تتر بتر ہوسکتے ہیں لیکن یہ ہتھیار قدرت کے پاس ہے۔زرداری کے رحمن ملک کے پاس نہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنا پی پی ن لیگیوں کے پیٹ میں یکساں سنگباری اور سنگساری کر رہا ہے۔ جس تیزی سے ان کو جمہوریت ڈی ریل ہوتی نظر آتی ہے وہ اسی شدت سے پھنکار رہے ہیں۔ خود کو کنگ میکرگرداننے والے اینکرز شیخ الاسلام کا مذاق اڑا رہے ہیں۔لاہور سے کارواں ،رواں ہواتو رحمن ملک بھی اسے مٹھی بھر منہاجیوں کادستہ سمجھے اور ان کے اندر کا سویا ہوا مسخرہ بھی جاگ گیا لیکن ان کی” مسخراہٹ اور جوکراہٹ “اسلام آباد میں پہنچنے والے اجتماع کو دیکھ کر تمبی ہی میں خطا ہوگئی۔ طاہر القادری کی ٹوپی کو پوپ کی ٹوپی سے مماثل قرار دیتے ہوئے 13جنوری کی شام ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی وہ 15جنوری منگل کے روزطاہر القادری کے خطاب اور سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم راجہ اور دیگر 19 ”رینٹالوجسٹوں“ کے حکم کے بعد جھلاہٹ اور گھبراہٹ میں بدل گئی تھی۔ فاروق ایچ نائیک دور کی کوڑی لائے ،کہہ رہےہیں کہ سپریم کورٹ نے تو راجہ پرویز اشرف کا نام ہی نہیں لیا۔کائرہ نے تو سرے سے فیصلے کو ہی مشکوک قرار دیدیا کہ ہمیں یہ فیصلہ موصول ہی نہیں ہوا۔ چیئر مین نیب فصیح بخاری جن کا یہ چڑھایا ہوا چن تھا وہ بھی ہر کارے کے منتظر تھے جو ان کی خدمت میں فیصلہ لا کر پیش کرے جس کے بعد اس پر کوئی کمنٹس دیں۔کائرہ اور کئی اس فیصلے کو طاہر القادری کے دھرنے سے منسلک کرتے رہے۔عاصمہ جہانگیر خدا جانے حب علی میں آگ بگولہ تھیں یا بغض معاویہ میں۔البتہ طاہر القادری نے اس فیصلے کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل سے تعبیر کرنے کی کوشش کی۔انکی تقریر کے دوران اچانک جوش و خروش نے چونکا دیا۔ انہوں نے جذباتی انداز میں سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کردئیے۔ٹی وی کے ناظرین کو تو فوری اطلاع ہوگئی کہ سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف کی رینٹل کرپشن کیس میں گرفتار ی کا حکم دیا ہے۔اس سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری حکومت اور حکمرانوں پر گرج برس رہے تھے۔ان کے کان میں کارندے نے پھونک ماری تو انہوں نے اچھلتے، لپکتے،چہکتے اور لہکتے ہوئے نعرہ مستانہ بلند فرمایا۔”سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم دیدیا ہے۔مبارک ہو، مبارک ہو“۔ ”تحریر چوک“ کے موجودگان کے موبائل جام ہیں،ان کے پاس ریڈیوہے نہ ٹی وی تک رسائیہے۔ان کے لئے مسندہے شیخ الاسلام کا فرمایا ہوا۔راجہ کی گرفتاری کے حکم کو مجمع نے اپنے دھرنے کا کمال سمجھا اور شاید اب تک سمجھ رہے ہوں۔ ساتھ ہی حضرت نے فرمادیا کہ میری آدھی تقریر ہوئی ہے اور آدھا مقصد حاصل ہوگیا۔آدھی تقریر کل کروں گا اور باقی مقصد بھی پورا ہوجائیگا۔ یہ پیش گوئی اور” بشارت“ ہنوز پوری نہیں ہوئی۔حاضرین کی اکثریت دھرنے کی آدھی کامیابی پر سجدے میں گر گئی۔ خواتین شرم و حیا کا دامن تھامے خوشی کا اظہار کررہی تھیں۔ روایتی سیاست میں ایسی کامیابی باور کرانے پر خواتین دوپٹے اڑا کرآنچل پھیلا کر اور بازو لہرا کر رقص کناں ہوتی دیکھی گئی ہیں۔ اِن کے ا ±ن اظہار مسرت کا اتنا ہی فرق ہے جتنا پائل اور پازیب میں۔

دھرنے اور راجہ کی گرفتاری کے حکم کوکائرہ ایک پلاننگ سمجھتے اور ذہنی طورپر جمہوریت کا بستر لپیٹے جانے کا سامان سمجھ رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کو فیصلے کی ٹائمنگ پر اعتراض ہے۔لانگ مارچ،دھرنا اور پھر شیخ الاسلام کا خطاب اور اس دوران فیصلہ،شیخ الاسلام کا خطاب ہما شما سن رہے تھے۔فیصلہ سنانے والے جج اپنا کام کررہے تھے۔ کیا وہ راجہ یا ماہرین کو پوچھ کر فیصلے کی درست ٹائمنگ کا انتخاب کرتے؟ جب حکومت کا وزیر قانون کہتا ہے کہ گرفتاری کیلئے راجہ کا نام نہیں تو حکومت کو پریشان نہیں ہوناچاہئے ، اس نے بانہہ سر پر رکھی ہوئی ہے۔اجلاس پر اجلاس ہورہے ہیں۔ صدر نے ساحل سمندر پر اپنا قیام یوں بڑھا لیا کہ کراچی کے دارالحکومت ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

طاہر القادری کا لانگ مارچ اور دھرنا حکومت اور اپوزیشن نے مل کر کامیاب بنایا۔پونے پانچ سال میں عوام پر ستم ٹوٹتا رہا۔مرکزی حکومت ستمگر،عوام ستم رسیدہ اور اپوزیشن تماشائی تھی۔ن لیگ بجلی و گیس کی قلت کو سیاسی مفاد کیلئے کیش کراتی رہی۔اس نے بجلی و گیس خصوصی طورپر سی این جی کی بندش کے خلاف احتجاج کیا ہوتا، لانگ مارچ نکالا ہوتا تو یقینا گیس و بجلی کی قلت ہوتی نہ ان کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ اور نہ ہی لوگوں کو کسی مسیحا کی تلاش ہوتی، جو ان کو کبھی عمران خان اور کبھی طاہر القادری کے روپ میں نظر آتا ہے۔عمران خان،طاہر القادری کے ایجنڈے کا جھنڈا تھامنے پر نیم آمادہ ہیں۔انہوں نے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو دھوکہ اور فریب نہیں دیں گے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں کی منزل الگ الگ ہے۔ایک جمہوریت کو مصیبت اور دوسرا اسے مصائب کا حل سمجھتا ہے۔اعتزاز احسن پھر وہی دلیل لائے ہیں جو زرداری اور گیلانی کے حق میں استعمال کرتے رہے۔حالانکہ راجہ کے کیس میں تو انہوں نے ایک روپیہ بھی فیس نہیں لی اور ان کو وزیر بھی نہیں بنایا گیا۔ فرماتے ہیں وہ جیل ہوگئے تو بھی وزیراعظم رہیں گے۔چودھری صاحب! ایسے ہلا شیری دینے کی بجائے انہیں سمجھائیں کہ ایسا کام ہی نہ کریں کہ جیل جانا پڑے۔

طاہر القادری نے انگریزی میں بھی تقریر کی۔اس کو بھی کچھ لوگ تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر 1971 میں حلف برداری کے بعد قوم سے خطاب انگلش میں ہی کیا تھا جو بھٹو کے مخاطبین تھے وہی 42 سال بعد طاہر القادری کے ہیں۔ ویسے انگریزی وہی بولے گا جسے آتی ہو۔ قائدِ انقلاب نے اردو میں حکمرانوں کو للکارا،انگریزی میں دہشت گردی کی جنگ کے وارثوں کو پکارا،عدلیہ کی کارکردگی کو سراہااورفوج کی جرات و بہادری کو ابھارا، تاثر یہ بنا کہ ”میں ہوں ناں“

جمہوری سسٹم میں خامی نہیںاس کو ان لوگوں نے بدنام کیا جو اس کو صرف اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک دلیل دی جاتی ہے کہ جس کا دل چاہے گا وہ اسلام آبادپر یلغار کردے گا۔ان سے ہی سوال ہے بلکہ یہ میرا مجھ سے بھی سوال ہے کہ اگر جمہوریت اس کی روح کے مطابق رائج ہوتی ،عدلیہ کے احکامات مانے جاتے،ملک میں بجلی گیس اور تیل کی فراوانی ہوتی،مہنگائی اور بے روزگاری کا جن بوتل سے باہر نہ نکلتا،قومی وقار اور خود مختاری ڈرون حملوں سے پامال نہ ہوئی ہوتی،کرپشن کہانیاں عروج پر نہ ہوتیں،ایک وزیراعظم کرپشن کو تحفظ دینے کی بنا پر نکالا گیا ،دوسرے کیلئے جیل کے دروازے کھل رہے ہیں یہ سب کچھ نہ ہوتا تو کیا عمران خان اور طاہر القادری اس کے باوجود بھی لاکھوں لوگوں کواکٹھا کرسکتے تھے ؟نہیں کبھی نہیں!۔طاہر القادری اپنے مقصد میں بامراد ٹھہرتے ہیں یا نامراد،البتہ ان کے لانگ مارچ اور دھرنے کا اقدام مستقبل کے حکمرانوں کیلئے ایک سبق اور درس ضرور ہوگا وہ غیر جمہوری انداز اور رویہ اپنانے سے قبل کئی مرتبہ سوچیں گے۔


قادری کا ”تخت الٹا?“ ایجنڈہ
کالم نگار | فضل حسین اعوان
15-1-13 ۔۔۔منگل
ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی بوکھلاہٹ سب سے زیادہ وزیر داخلہ رحمن ملک کے چہرے سے عیاں ہے۔ وہ میڈیا کے ساتھ بہکی بہکی اور جگلروں جیسی باتیں کرتے ہیں۔ تحت پنجاب کی جس بدتہذیبی پر وہ ان پر چڑھائی کیا کرتے تھے‘ آج اسی کا خود بھی ارتکاب کر رہے ہیں۔ ”کسی کو بدمعاشی نہیں کرنے دیں گے، قادری کی پوپ جیسی ٹوپی“ جیسے واہیات فقرات انکے عہدے کے شایانِ شان نہیں۔ اس سے قبل انکی طرف سے ایسے الفاظ کا استعمال بھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا۔ لانگ مارچ روکنے یا اسے ناکام بنانے کے لئے بڑے بے ڈھنگے طریقے اختیارکئے گئے۔

 لانگ مارچ کے اگلے روز تک لاہور میں موبائل سروس بند رہی۔ سی این جی سٹیشن تو پنجاب بھر میں پہلے ہی بند تھے۔ پٹرول پمپوں پر سیل بھی ممنوع قرار دے دی گئی۔ کنٹینرز کا استعمال بھی اسی حکومت کی دریافت ہے۔جنکے پیچھے چھپ کر بہادر رحمٰن ملک قادری کو للکار رہے ہیں۔27دسمبر 2007ئ کو”ملک ِ اعظم“ اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو خون میں لت پت چھوڑ کر جس طرح بھاگے، قادرلشکر کے پہنچنے پر اسلام آبادیوں کو تنہا و لاوارث چھوڑ کر کراچی میں مورچہ بند اپنے باس کی پناہ میں چلے جائیں۔ کنٹینرزکی پکڑ دھکڑ ظلم ہے، اسلام آباد میں پکڑے جانے والے ستم رسیدہ ٹرک ڈرائیور شکوہ کناں ہیں ایک تو ان کی سات آٹھ دیہاڑیاں ماری گئیںدوسرے حکومت وعدے کے مطابق نہ صرف ادائیگی کرنے پر تیار نہیں بلکہ پولیس ان کی جیبیں بھی ٹٹول رہی ہے۔ رحمن ملک کی پولیس دس ہزار کا چڑھاوا چڑھانے والوں مہربان رہی۔ انکی بادشاہی میں یہی کچھ ہو گا!

حکومت اگر آصف علی زرداری کا نام ہے تو حکومت نے لانگ مارچ کو فرینڈلی بنانے کے لئے ایم کیو ایم اور ق لیگ کو ”جماں جنج نال “کردیا۔ طاہرالقادری کو ان کی طرف سے حمایت کرنے پر تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ متحدہ نے عین اس موقع پر منہاجیوں سے تائید واپس لے لی جب اسے یقین تھا کہ ایسا کرنے سے لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ چودھری لانگ مارچ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل تک بھی حضرت صاحب کو مناتے رہے اور اپنے ساتھ ملک ریاض حسین کو بھی لے گئے۔ طاہرالقادری نے ملک ریاض کی موجودگی میں مذاکرات، ملاقات سے انکار کیا تو چودھری برادران نے انکی سوجھ بوجھ کی دل کھول کر تعریفیں کیں۔ انکی سخاوت اور دریا دلی کا تذکرہ کیا۔ کیا پوری ق لیگ اور پی پی کے ہاں سوجھ بوجھ کا اس حد تک قحط ہے کہ ایک غیر سیاسی اور متنازعہ شخصیت کو ساتھ لانا پڑ گیا؟ اگر دریا دلی اور سماجی خدمات میرٹ ہے تو عبدالستار ایدھی کا زیادہ حق بنتا تھا۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ملک صاحب” منہاجی فنڈ“ کے لئے لایا گیا چیک واپس لے گئے۔

طاہرالقادری کو مرشد کا درجہ دینے والے بےشمار ہیں۔ان پر جھوٹ اور دغا و فریب کا الزام لگانے والوں کی بھی کمی نہیں، الزام الیہان خود بھی اسی قماش کے ہیں۔ ابھی قادری قافلہ لاہور سے نکلا نہیں تھا کہ مخالفین نے اسے پچاس بسوں پر مشتمل قرار دیا۔ ایک نے کہا چند سو لوگ ہیں دوسرے نے کہا پچاس بسیں ہیں جو اندر سے خالی ہیں۔ ان کو میاں صاحب نے جو عینک پہنا دی‘ پارٹی بدلنے تک اسی سے دیکھیں گے۔ قادری مخالفین کے درباری لاکھوں کے جلسے کو جلسی اور قادری کے حواری دولاکھ کو چار ملین بنا کر پیش تو کریں گے۔

 علامہ صاحب مبالغہ آرائی میں بھی شہرہ رکھتے ہیں۔ زیبِ داستاں کے لئے حقائق کو موم کا پتلا بنا لینے میں قباحت نہیں سمجھتے۔ خدا جانے ان کو کس نے کہہ دیا کہ اسلام آباد میں تیزاب سے بھرے ٹرک کھڑے کر دئیے گئے ہیں اور خندقوں میں بارود بھر دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت اس لانگ مارچ کو مرکز اور مرکز والے پنجاب کے لئے مضرت رساں سمجھ رہے ہیں۔ وفاق والے چاہتے ہیں طاہرالقادری کے ساتھ جو کچھ بھی ہو ، پنجاب میں ہو اور پنجاب والوں کی خواہش ہے کہ وہ بخیریت پنجاب سے نکل کر اسلام آباد پہنچ جائیں پھریہ جانیں یا وہ۔ ڈاکٹر صاحب دونوں پر لانگ مارچ میں رکاوٹیں ڈالنے اوراسے ناکام بنانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام لگاتے رہے۔ پنجاب حکومت چاہتی تو لانگ مارچ کا قافلہ ماڈل ٹا?ن میں سے نہ نکلتا۔

 حضرت صاحب نے ایک موقع پر فرمایا کہ ایک اوپر اور ایک نیچے والے کو جیل بھیج دیا جائے تو دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ پتہ چلا کہ اوپر والا شخص رحمن ملک اور نیچے والا رانا ثنائ اللہ ہے۔ دونوں کے تعلقات شیر اور بکری یا بلی و چوہے جیسے ہیں لیکن علامہ صاحب کے معاملے میں وہ ایک ہی صف میں بغیر امام کے کھڑے ہو گئے ہیں۔ رانا ثنائ اللہ کا حکم پنجاب میں چلتا ہے رحمن ملک کو کئی علاقوں میں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ان علاقوں میں بھی دہشت گردی ہوتی ہے۔ آج پورا پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے ، بلا امتیاز اس کے کہ کس علاقے میں رانا ثنائ یا ملک کا قانون چلتا ہے۔

 طاہرالقادری کے مخالفین الزام لگاتے ہیںکہ خود تو بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھے ہیں‘ عام لوگ بسوں کی چھتوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ خدا کے بندو! کیا طاہرالقادری ٹرک کی چھت پر سوار ہوتے اور راستے میں ریڑھیوں سے نان ٹکی خرید کر اپنی بھوک مٹاتے نظر آتے ، تمہارے لیڈروں نے کیا ٹریکٹروں پر بیٹھ کر لانگ مارچ کئے تھے۔ غلام احمد بلور کہتے ہیں کہ لانگ مارچ میں 50 افراد بھی مارے گئے تو مارشل لا لگ جائے گا۔ آخر مارشل لائ لگانے والوں کو پچاس آدمیوں کے خون کی کیوں ضرورت ہے؟ وہ چاہیں تو بلاکسی جواز کے ٹرپل ون کو حرکت میں آنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں نے تو ان کو آخری حد تک مجبور بھی کیا لیکن وہ ان کے بہکاوے میں نہیں آئے۔

 اقتدار کی کشتی میں اپنے قد سے بھی بلند زقند بھر کے سوار ہونے کی خواہش رکھنے والے شیخ رشید جیسے لوگوں نے فوج کو ” ستو پی کر سونے اور ہومیوپیتھک جرنیل ہونے“ کے طعنے دے کر مشتعل کرنے کی بے سود کوشش کی۔فوج نے اپنے کام سے کام رکھا ، اب بھی اس کی طرف سے مداخلت کا خدشہ نہیں ہے۔البتہ حکومت اگر خود بھاگ جائے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔طاہرالقادری نے اعلان کیا ہے کہ تخت الٹ کر ہی اسلام آباد سے واپس آئیں گے۔ اب تو پتہ چل گیا کہ قادری ایجنڈہ کیا ہے!۔اس کی تکمیل کی خود حکمرانوں نے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کر کے راہ ہموار کردی ہے۔کیا پورے پاکستان میں حالات بلوچستان جیسے نہیں ہیں؟ اگر ہیں توپھر دہرا معیار کیوں ؟آج شیخ الاسلام یہ سوال ضرور اٹھائیں گے۔



تجاہل ِعارفانہ و تغافلِ رندانہ کا رویہ ہمیں لے ڈوبے گا
کالم نگار | فضل حسین اعوان
اتوار...13-1-13
سری لنکا میں باغی25 سال تک اسلحہ لہراتے، امن کی دھول اڑاتے اور معصوم افراد کا خون بہاتے رہے۔تامل ٹائیگرز نے23جولائی 1987ئ کو ہتھیار اٹھائے۔ حکومت میں جو آیا، بغاوت کرنے والوں کے حوالے سے پالیسی یکساں رہی۔ ان کی سرکوبی کے لئے جہاں سری لنکن عوام حکومت کے شانہ بشانہ رہے وہیں حکومت نے دوسرے ممالک سے تعاون بھی حاصل کیا۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جو آج سری لنکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ شورش کا شکار ہے۔ بالآخر 2009ئ میں باغی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ جہاں ملک کے ہر کونے میں بارود کی بو پھیلی ہوئی تھی ،آج وہاں امن کے پھولوں کی خوشبو مہک رہی ہے۔۔۔

اٹلی مافیاز کی لپیٹ میں آیا۔ منشیات، اسلحہ، بلیک میلنگ، بدمعاشی نے عروج حاصل کر لیا۔ انڈر ورلڈ کی سرگرمیوں سے حکومتی امور بری طرح متاثر ہوئے۔ ڈان، ڈرون بن کر جہاں چاہتے تباہی مچاتے۔ ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں رہا تھا۔ حکومت ایک عزم لے کر اٹھی عوام نے ساتھ دیا تو شرپسندوں کا صفایا کر دیا گیا۔ مجرموں کا ٹرائل جیلوں کے اندر ہوتا اور جج نقاب اوڑھ کر مقدمات کی سماعت کرکے اور سزائیں دیتے تھے۔

آج ہمارے حالات بدامنی کی بدترین سطح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی نہیں کہیںبھی محفوظ نہیں۔ ججوں، جرنیلوں اور جرنلسٹس کو مافوق الفطرت سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ محفوظ ہیں؟ اگر جرنیل چھا?نیوں اور قلعہ بند ،جی ایچ کیو میں بھی محفوظ نہیں تو کوئی بھی پاکستانی کہیں بھی محفوظ نہیں۔ جج قتل ہوتے دیکھے گئے جرنلسٹ مارے گئے۔ علمائ، ڈاکٹر، وکلا، تاجر سیاستدان اور کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کا خون بہتا چلا جا رہا ہے۔

دہشت گردی لسانی ہو یافرقہ وارانہ ہو یا اس نے شدت پسندی سے جنم لیا ہو۔ حکومت اور قوم کے متحد ہوئے بنا اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ حکومت جس پہ ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے وہ پھنکارتا ہوا اپنے محفوظ ٹھکانے میں پہنچ جاتا ہے۔ پولیس دہشت گرد کو اٹھاتی ہے تو بڑے افسر کا بیٹا غنڈے کے تھانے پہنچنے سے پہلے ہی اغوا ہو چکا ہوتا ہے۔ ڈان کے ڈیرے پر ریڈ سے قبل پولیس اور ایجنسیوں میں موجود اس کے مخبر اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں۔ جج فیصلہ سنانے کے لئے گھر سے عدالت نہیں پہنچتا کہ بیٹی کے اغوا کی اطلاع اس کے اصولوں اور انصاف کے تقاضوں کا جنازہ اٹھا دیتی ہے۔ کوئی سر پھرا، وزیر، افسر یا جج مجرموں کی ماں جیسے مجرم پر شکنجہ کسنے کا عہد کرتا ہے۔ جس کے لئے پاکستان میں زمین تک محسوس ہوتی ہے تو حکام اس کی چوکھٹ پر سفری دستاویزات پیش کرکے اسے ملک ہی سے فرار کرا دیتے ہیں۔

حکومتی شخصیات دہشت گردوں پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کرتی ہیں۔ ایسا کرنے والوں بھی کیا اعتبار کہ وہ کسی کے پروردہ نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے ہر طبقے، حلقے، گروپ اور گروہ کی اپنی اپنی تحقیق، دلیل اور تاویل ہے۔ ہم لسانی، مذہبی، مسلکی اور سیاسی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسی تقسیم کی موجودگی میں قیامت تک بھی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ گروہ اور گروپ متحد ہو کر قوم بن جائیں تو دہشت گردوں، تخریب کاروں، شدت پسندوں اور مجرموں کا عرصہ حیات تنگ ہو جائے گا۔ ان کو کہیں چھپنے کی جگہ نہ ملے گی۔

بیرونی طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔وہ اس” کارِخیر“ کے لئے استعمال تو پاکستانیوں ہی کو کرتی ہیں، استعمال ہونے والوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگ خوف کھاتے ہیں۔ جس نے اطلاع دی، اس کی خیر نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تخریب کاروں تک پہنچیں نہ پہنچیں، دہشت گرد اطلاع دینے والے تک ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ یہیں سے ہوتی ہے۔ وہ سامانِ تخریب یہیں سے خریدتے اوراسمبل کرتے ہیں اور محفوظ بھی ہیں۔ کراچی کے بھتہ مافیا پر ہاتھ ڈالنے کے لئے بتائیے کس سائنس کی ضرورت ہے؟۔ حکومت، حکام اور عوام نے اگر تجاہلِ عارفانہ اور تغافلِ رندانہ کا رویہ ترک نہ کیا تو اس کی سزا نسل در نسل بھگتنا ہو گی۔ ہمیں جان بوجھ کر انجان اور غافل بننے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے کسی بھی سطح پر کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت زیرو ٹالرسنگ کی پالیسی اختیار کرے۔

 ایک بار حکمت عملی ترتیب دے کر پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ گروپوں اور گروہوں کو ایک قوم بنانے کی کوشش کی جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر سے مجرموں کے مخبروں کا صفایا اولین ترجیح ہو۔ ایماندار حکام اور جج حضرات کو مکمل تحفظ فراہم ہو تو معاملات درست سمت میں خود بخود چلتے جائیں گے۔ اٹلی کی طرح مجرموں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے، اطلاع دینے اپریشن کرنے اور فیصلہ سنانے والے ہر فرد کی شناخت کو مخفی رکھا جائے تو دہشت گرد، تخریب کار اور مجرم بے بس ہو جائیں گے۔


مزید جوتے ماروں کی ضرورت!
کالم نگار | فضل حسین اعوان
10-1-13جمعرات
پا?ڈریوں کو بھوک لگی تھی، نشہ بھی ٹوٹ رہا تھا، تینوں میں سے ایک کے پاس سو روپیہ تھا۔ ایک نے روٹی کھانے کی تجویز دی۔ دوسرے نے تائید کی۔لیکن عمل تیسرے کی تجویز پر ہوا۔ اس نے اپنی دلیل سے باقی دو کو قائل کر لیا۔ اس نے کہا کہ روٹی کا وعدہ اللہ نے کر رکھا ہے پا?ڈر کا نہیں۔ روٹی وہی دے گا۔ یوں انہوں نے پ ±ڑیاں خرید لیں۔ اس دوران قریب سے ایک نوجوان نے موبائل سنتے ہوئے ان سے پوچھا ”بھئی روٹی کھا? گے، کڑاہی نان اور ساتھ جمبو بوتل بھی ہے“۔ اس شخص نے نشی?ں کی ہاں کا انتظار کئے بغیر بتایا کہ” فلاں فیکٹری میں منیجر کے مہمان آئے تھے۔ مجھے کھانے کے لئے بھیجا گیا اب منیجر کا فون آیا ہے کہ مہمان چلے گئے ہیں کھانا ضرورت مندوں کو دے دو....“ وہ بے شک نشئی تھے البتہ توکل کے قائل تھے۔ کسی جھلے نے توکل کا سنا تو جنگل میں ایک درخت پر چڑھ کے بیٹھ گیا۔ بھوک نے ستایا لیکن عزم کئے بیٹھا رہا کہ خدا یہیں پر رزق پہنچائے گا تو کھا?ں گا۔ اس دوران چند لوگ جنگل سے گزرتے ہوئے اسی درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ انہوں نے دسترخوان بچھایا ‘ کھانا سجایا اور تناول ماحضر کا عمل شروع کر دیا اوپر صاحب ایمان‘ توکل علی اللہ کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ بھوک بھی زوروں پر۔ نیچے والوں کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کھانے پر ہاتھ صاف ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ دسترخوان سمیٹ کر قافلہ روانہ ہو جاتا۔ تارک دنیا زاہد اپنی موجودگی باور کرانے کے لئے کھنکارا۔ کھانے میں مصروف افراد نے اوپر دیکھا توکہا، چودھری! آ? ابھی کھانا باقی ہے کھا لو! اس نے سیر ہو کر کھایا اور خود کلامی کرتے ہوئے کہا ”روٹی تو خدا ہی دیتا ہے لیکن کھنگورہ مارنا پڑتا ہے“۔

آج دیکھئے ہم کس بحران، مصیبت اور مشکل میں گرفتار نہیں ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی کمی ہے نہ گیس کی۔ لیکن یہ عوام کی پہنچ سے دور، بہت دور ہے۔ سردیوں میں بجلی کا استعمال کم ہو جاتا ہے۔ آج شدید سردی کے موسم میں گرمیوں کی طرح 16سولہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ پچھلے دو ہفتے کے دوران ایک لاکھ سے زائد فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو گئے۔ سردیوں میں استعمال بڑھ جانے سے گیس کی کمی ہو جاتی ہے۔ سلطانی جمہور کے بعد یہ کمی ذرا زیادہ ہی اپنا رنگ روپ دکھا رہی ہے۔ گذشتہ سال سے سی این جی سٹیشن تین دن بند رکھے جا رہے تھے تاکہ گھریلو صارفین کم سے کم متاثر ہوں۔اب کے پورے پنجاب میں جنوری میں ایک دن بھی سی این جی سٹیشن نہیں کھلے۔ صنعتوں کی گیس بھی بند ہے گھریلو صارفین کہیں گیس کی مکمل بندش اور کہیں پریشر کی کمی کا رونا رو رہے ہیں۔ گیس گئی کہاں!۔۔۔چینی کا بحران اسی حکومت کے دوران پیدا ہوا۔ سپریم کورٹ نے 45 روپے قیمت مقرر کی۔” کھنڈ مافیا“ نے سپریم کورٹ کے حکم کی پروا نہ کی،” لاگت بڑھ گئی ہے“کا جواز پیش کرتے ہوئے سو روپے کلو تک بھی فروخت کی گئی۔ اب ریٹ 55,50 ہے۔ کیا ان کی لاگت اب کم ہو گئی ہے؟ سپریم کورٹ نے سی این جی صارفین کو اوگرا اور سی این جی مالکان کی لوٹ مار سے بچانے کے لئے 90 روپے سے 54 روپے کلو قیمت مقرر کی، اس پر بھی مکمل عمل نہ ہوا۔ حکومت نے صارفین اور سپریم کورٹ کو سبق سکھانے کے لئے پنجاب میں سی این جی سٹیشنوں کی سپلائی مکمل طور پر بند کر دی۔ اوگرا پر لپکنے اور جھپٹنے والے جج صاحبان نے مکمل سکوت اختیار کر لیا ہے۔ ویسے پارلیمنٹ کی سپرمیسی کے دعویدار حکمران، عوام اور عدلیہ کو تو لمبے ہاتھوں لیتے ہیں مگر جرنیلوں کے سامنے نہیں ک ±سکتے۔ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیا گیا تو”رحمن ملک خوش ہوا “لیکن یہ خوشی فوج کے انکار پر کافور ہو گئی۔ کیری لوگر بل میں فوج نے پابندیوں کو مسترد کر دیا تھا پھر میمو سکینڈل میں دو جرنیل سپریم کورٹ گئے، اب مک مکا پر یہ معاملہ انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ نواز شریف نے بھی زرداری سے حلف لینا ہے اس لئے وہ بھی نیویں نیویں ہو کے انتخابی عمل کے لئے میمو کیس میں سنجیدگی نہیں دکھا رہے۔

حکمرانوں کے ہاتھوں عدلیہ کا احترام سامنے ہے۔ امن و امان کی صورتحال ڈھکی چھپی نہیں۔ کرپشن لوٹ مار، بے ایمانی، رشوت، اقربا پروری کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ مجرم جیل سے اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں براجمان کردیئے جاتے ہیں۔ جس کو رینٹل پاور منصوبوں میں ملزم قرار دیا اسے وزیراعظم بنا دیا گیا۔ چیئرمین اوگرا 80 ارب روپے اپنی پشت پر لاد کر گرفتاری کے احکامات کے باوجود ملک سے فرار ہو گیا۔ اب واضح ہو گیا کہ کس نے فرار کرایا لیکن دونوں محفوظ ہیں، مفرور بھی اور فرار کرانے والا۔ کئی منافع بخش ادارے دیوالیہ ہو گئے، کئی سسک رہے ہیں۔ قومی خود مختاری اور وقار بھی دا? پر لگا ہے۔ بدترین دشمن کو پسندیدہ قرار دے کر بانیان پاکستان کی روح کو تڑپایا جا رہا ہے۔ کشمیر کاز کو شدید نقصان پہنچا کر کشمیریوں کے الحاق پاکستان کے عزم کو مایوسیوں میں بدلا جا رہا ہے۔

شدید بحرانوں مشکلات اور مصائب میں گھری قوم کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ گیس اور بجلی مکمل بند ہو جائے تو 18 کروڑ عوام میں سے چند ایک سڑکوں پر نکل کر چائے کی پیالی میں طوفان کی سی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں صورتحال باسی کڑھی میں ابال سے آگے نہیں بڑھتی۔ روٹی کا ذمہ تو اللہ نے لے رکھا ہے۔ بجلی گیس پا?ڈر اور نسوار کا نہیں، اس کے لئے کھنگورہ تو مارنا پڑتا ہے۔

ہم کہتے ہیں گذشتہ دور میں تین گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اب سولہ گھنٹے کیوں؟۔ چلو پانچ چھ گھنٹے ہو جایا کرے۔ گیس کے پریشر اور بندش پر گذشتہ سال کی سطح پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ چلو 90 روپے ہی سہی گیس دستیاب تو ہو۔ ہفتے میں دو تین دن ہی دے دی جائے۔ کیوں، آخر کیوں؟ قوم کے سپوتو! سوچو، ہم کیوں کہیں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے۔ بجلی اور گیس مفت ملتی ہے نہ خیرات میں۔ اس کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وہ ذمہ داری پوری نہ کرے ورنہ تو وہی ہونا چاہئے جو طاہرالقادری کرنے جا رہے ہیں۔ گو وہ بھی ہر پاکستانی کے لئے قابل اعتبار نہیں ہیں لیکن وہ دو پارٹیوں کے مک مکا کے خاتمے کی بات کرتے ہیں۔ یہی بات عمران خان، الطاف حسین اور بہت سی دیگر جماعتیں تنظیمیں اور شخصیات بھی کرتی ہیں۔ طاہرالقادری پسند نہیں تو کسی اور کو مسیحا بنا لیں۔ گھروں سے نکلیں تو سہی۔ یہ تاثر نہ دیں کہ جوتے ماروں کی تعداد بڑھا دی جائے۔ طاہرالقادری شیر کی طرح لانگ مارچ کے لئے دھاڑ رہے ہیں۔ ”وزیر تحقیقات“ کی پوں اور چیں بول رہی ہے۔ وہ ڈراوا دے رہے ہیں کہ طالبان خودکش حملہ کر سکتے ہیں۔ طالبان نے ایسے کسی پروگرام کی تردید کی ہے۔ اب لگتا ہے کہ رحمن ملک کو اپنا کیا سچ کر دکھانے کے لئے حملہ آوروں کی تلاش ہے۔ ویسے سچائی جاننا مشکل نہیںہے۔ وزیر تحقیقات کے قول میں کتنی سچائی ہے۔ اس کا اندازہ شہباز شریف کے اس قول زریں ”رحمن ملک جھوٹوں کا آئی جی ہے“ سے آسانی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے۔ ذوالفقار مرزاچھوٹے وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا تھا۔

93ئ میں بے نظیر لانگ مارچ کریں تو جائز، نواز شریف 2009ئ میں کریں تو مباح، 2013ئ میں طاہرالقادری ناکارہ اور فرسودہ نظام کے خلاف لانگ مارچ کریں تودونوں پارٹیوں کے لئے حرام ہے! شاباش ہے ایسی اصول پسند ی کے اور ویل ڈن قوم کے اس مروجہ جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا غم کھائے جا رہا ہے جو ان کے بچوں کارزق کھا گئی، ہزاروں لاشیں گرا گئی۔ جعلی ڈگری والوںاور غیر ملکیوں کو حاکم بنا گئی۔ معیشت کو ڈبو گئی۔ اپنا خزانہ خالی کرکے دوسرے ممالک کے بنکوں کو بھر گئی۔کیا ہمیں مزید جوتے ماروں کی ضرورت ہے؟؟؟ جمہوریت زندہ باد، نواز شریف زندہ باد، زرداری زندہ باد۔


اگر فلیگ سٹاف ہا?س کی خستہ حالی .... شرمناک
کالم نگار | فضل حسین اعوان
اتوار 6-1-13
بانی ¿ پاکستان کی کراچی کی رہائش گاہ کی خستہ حالی کی خبر قائداعظم اور انکے پاکستان سے محبت کرنے والوں کیلئے سوہانِ روح بن گئی ہے۔ یہ وہ عمارت ہے جو قائد نے 1943ئ میں ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے میں خریدی تھی۔ بانی ¿پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ اور پاکستانیوں کیلئے تاریخی اہمیت کی حامل عمارت فلیگ سٹاف ہا?س کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کیلئے اب فنڈزکی فراہمی اور ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی میں انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فلیگ سٹاف ہا?س کی دیکھ بھال کیلئے سالانہ رقم میں گزشتہ کئی سال سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ محض پانچ ہزار روپے سے اس تاریخ عمارت کی دیکھ بھال کا کام انجام دیا جا رہا ہے۔ ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی میں بھی اکثر دو سے تین ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہاں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی قیام پذیر رہیں۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لائ کے دوران وہ قصر فاطمہ (مہتہ پیلس) منتقل ہوگئی تھیں۔ فلیگ سٹاف ہا?س میں قائداعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال رہنے والی روزمرہ استعمال کی اشیائ سمیت ممبئی کی رہائش گاہ میں زیراستعمال رہنے والی اشیائ کو بھی محفوظ کیا گیاجنہیں دیکھنے کیلئے ہر سال بڑی تعداد میں لوگ فلیگ سٹاف ہا?س آتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح کا بمبئی میں گھر گورنر ہا?س کے بعد سب سے بڑا گھر تھا۔ دہلی میں انکے گھر کا شمار چار پانچ بڑے گھروں میں ہوتا تھا۔ لاہور میں آرمی ہا?س، گورنمنٹ ہا?س کے بعد سب سے بڑی عمارت ہے۔ یہ قائداعظم کی ذاتی پراپرٹی ہے جو انہوں نے فوج کے نام کی تھی۔ قائداعظم نے شاہانہ زندگی گزاری۔ اس دور میں جب پورے لاہور میں چندکاریں ہوا کرتی تھیں‘ قائداعظم کے ہر گھر میں سات آٹھ گاڑیاں بمعہ ڈرائیوروں کے موجود ہوتی تھیں۔ چار پانچ باورچی، ڈرائیور اور تمام محافظ مسلمان تھے۔ وہ بڑے دولت مند تھے انہوں نے ایک ایک پیسہ محنت اور دیانتداری سے کمایا تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ نے آپ کو وکیل کیا۔ مہاراجہ نے تمام فائلیں آپ کے سامنے رکھیں۔ جناب جناح نے کہا میں کیس کی سٹڈی کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔ جس کیلئے 5 سو روپے روزانہ کے طے پائے۔ مہاراجہ نے 20 ہزار روپے ادا کر دئیے تیسرے دن قائداعظم نے کیس کا مطالعہ کرنے کے بعد 15 سو روپے کاٹ کر باقی رقم واپس کر دی۔

قیام پاکستان کے بعد حضرت قائداعظم نے اپنی ساری جائیداد پاکستان کے نام وقف کر دی۔ تاہم اپنی بیٹی کے سوا تمام رشتہ داروں کا ماہانہ مقرر کر دیا۔ پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس کنالوں ایکڑوں نہیں میلوں پر محیط ہے‘ تحصیل اچھرہ ضلع لاہور کے ریکارڈ کے مطابق یہ رقبہ قائداعظم نے جامعہ کے نام کیا تھا۔ اسلامیہ کالج پشاور، اسلامیہ کالج لاہور، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، سندھ مدرستہ الاسلام اور کئی بڑی بڑی جائیدادیں آپ نے دیگر اداروں کے نام بھی کیں۔ گورنر ہا?س سے اگر انہوں نے کھانا کھایا یا چائے پی تو اس کا بل اپنی جیب سے ادا کیا۔ انکے سر پاکستان کا ایک پیسہ بھی نہیں جبکہ پاکستان اور پاکستانیوں کے سر قائداعظم کا بہت بڑا قرض موجود ہے۔ قائداعظم نے اپنی آخری سانس تک پاکستان کیلئے دنیا سے قرض اور امداد کے نام پر ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا۔

قائداعظم کی پوری زندگی اصولوں اور نظم وضبط سے عبارت ہے۔ انہوں نے زندگی میں جو بھی خریداری کی اس کا ریکارڈ آج تک موجود ہے۔ بنیان جراب اور ٹائی تک جو بھی خریدا، اسکی رسید حاصل کی اور ادائیگی بذریعہ چیک کی۔ ناشتے، لنچ اور ڈنر میں کیاکھایا پیا۔ درمیان میں چائے اور مشروب پیا۔ سب کچھ تحریری طور پر موجود ہے۔ہمیں ایک دن پہلے کا کھایا پیا یاد نہیں ہوتا قائداعظم نے زندگی بھر کیا کھایا اور کتنا کھایا اس کا حساب کتاب موجود ہے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد کسی کو دکھانا مقصود نہیں تھا۔ وہ ہر کام قاعدے اور ضابطے کے تحت کرنے کے عادی تھے اس لئے ریکارڈ بنتا گیا۔قائداعظم کے زیراستعمال فرنیچر اور دیگر اشیائ کے ساتھ رسیدوں کے الگ الگ بنڈل یا فائلیں بھی موجود ہیں۔ ہر بنڈل میں ایک ہی نوعیت کے آئٹمز کی خریداری کی رسیدیں لگی ہیں مثلاً سوٹوں کی خریداری کی رسیدوں کی الگ اور جوتوں کی رسیدوں کی الگ فائل ہے۔ کوئی قائداعظم کی زندگی کا تجزیہ کرنا چاہے تو ان فائلوں اور بنڈلوں سے استفادہ کرسکتا ہے۔

قائداعظم نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کمایا لیکن سب کو قوم کے نام کردیا۔قائداعظم مختصر عرصہ کیلئے گورنر جنرل رہے۔ جتنا بھی عرصہ رہے کبھی تنخواہ نہیںلی۔ گورنر ہا?س میں چائے بھی پی تو اس کی ادائیگی کی۔ گورنر ہا?س میں رنگ برنگی ڈشوں، سوپز اور رنگین محفلوں کے انعقاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حضرت قائداعظم ڈھاکہ جانا چاہتے تھے۔ بتایا گیا کہ ڈکوٹا کو ہندوستان اتر کر تیل لینا پڑے گا۔ قائداعظم نے ہندوستان اترنے کا آپشن یکسر مسترد کردیا۔ لیاقت علی خان نے چارٹرڈ طیارے کا اہتمام کرنے کی اجازت طلب کی، ”نوزائیدہ مملکت اس قدر اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی“ قائداعظم نے یہ کہہ کر طیارہ چارٹرڈ کرنے سے منع کردیا انجینئروں اورٹیکنیشنوں کو ڈکوٹا میں ہی بڑا فیول ٹینک لگانے کی ہدایت کی۔ گویہ خطرناک تھا ‘قائداعظم نے اسی جہاز میں ڈھاکہ کا سفر کیا۔

قائداعظم نے اپنی تمام کی تمام جائیداد اپنی زندگی میں ہی تقسیم کر دی تھی۔ اس کا زیادہ حصہ پاکستان کے نام رہا۔ بانی پاکستان نے اپنی جائیداد کی طرح اپنی جان بھی پاکستان پر نچھاور کر دی۔ افسوس کہ آج ہم انکی رہائش گاہ کی بھی ڈھنگ سے حفاظت نہیں کر سکتے۔ اس سے بڑھ کر اور محسن کشی کیا ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں قائداعظم کے چاہنے والوں کی کمی نہیں‘ اگر حکومت عظیم ترین اور انتہائی اہم قومی اثاثے اور ورثے کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے تو یہ کسی محب وطن این جی او یا غیرسرکاری ادارے کے حوالے کر دے‘ کم از کم بحیثیت قوم ہم یہ کہنے کے قابل تو ہوں کہ ہم اپنے محسن کے ورثے حفاظت کرنا جانتے ہیں۔


انقلاب کی دھمک
کالم نگار | فضل حسین اعوان
3-1-13جمعرات
فرانس میں مراعات یافتہ اور استحصال زدہ طبقات کے درمیان تفادت انتہا کو پہنچا تو خونیں انقلاب کی راہ ہموار ہو گئی۔ ایران میں انقلاب خون کی ندیاں بہائے بغیر برپا ہوا۔ ایران میں آئین بھی تھا ،قانون بھی اور شہنشاہی جمہوریت بھی تھی جس میں خمینی جیسے انقلاب کی گنجائش نہیں تھی پھر بھی انقلاب نے اپنا راستہ بنا لیا۔ انقلاب کی راہ میں آئین اور قانون کی وہی حیثیت ہو جاتی ہے جو جنرل ضیاالحق نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دے کر باور کرائی تھی۔

آج پاکستان میں ایسے ہی حالات ہیں جیسے فرانس میں انقلاب سے قبل تھے۔ ویسے ہی دو طبقات کا وجودجہاں بھی ہے۔ ایک بنیادی سہولیات سے یکسر محروم اور دوسرا وسائل سے مالا مال۔ جمہوری اور فلاحی مملکت میں صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مملکت اسلامی بھی ہو تو یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اپر، مڈل، لوئر مڈل اور پسماندہ طبقات دراصل دو ہی طبقات ” اپر اور لوئر“کے مختلف نام ہیں۔ اپر کلاس کیلئے پاکستان ہی یورپ، امریکہ، سوئٹزرلینڈ دبئی اور انگلینڈ ہے۔ ہر سہولت میسر، بجلی و گیس کی سرکاری سہولیات سے مبرا، ریلوے میں سفر کی ضرورت نہ کسی ائیر لائن میں، اپنے جہاز اپنی دنیا پاکستان میں۔ پاکستان میں امیر ترین افراد کی لسٹ میں میاں منشا اوّل آصف علی زرداری دوسرے نمبر پر ہیں۔ میاں منشائ کی دولتمندی سے کسی کو سروکار نہیں، ان کی طرح جس نے بھی محنت، اہلیت اور ایمانداری سے دولت کمائی اور جائیداد بنائی، ماشائ اللہ۔ قابل نفرت وہ ہیں جو عوام کی رگوں سے خون کاآخری قطرہ اور جیب سے ٹکا ٹکا نکال کر دولت کے انبار لگا چکے رہے ہیں۔ ان کو ہی لوئر کلاس اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ آج جمہوریت بھی انہی کے ہاتھوں یرغمال بنی نظر آتی ہے۔ جمہوریت بہترین نظامِ حکومت ہے لیکن غیر جمہوری سوچ کے باعث یہ مطعون ٹھہرا۔ لوگوں کیلئے یہ جمہوریت ناقابل قبول بنا دی گئی۔ اس میں جمہوریت کا کوئی قصور نہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جو جمہوریت خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی وہ عام آدمی کا تحفظ کیسے کرے گی؟ لوگ واقعی آجکل مایوس ہیں۔ ”سلطانی جمہور“ کے دوران کی زندگیاں تلخ ہوئیں، پریشانیوں میں اضافہ ہوا، مسائل و مصائب کا عفریت انسانوں اور انسانیت تک کو نگل رہا ہے۔ وسائل ہونے کے باوجود مسائل میں اضافہ کیا جا رہا ہے، ایسے میں لوگوں کو ایک مسیحا کی تلاش ہے۔ایک ایسے لیڈر کی جستجو ہے جو ان کو گرداب سے نکالے۔ حالات تو انقلاب کیلئے سازگار ہیں لیکن کوئی مددگار نہیں ہے۔ایسے میں عمران خان ا ±ٹھا اسے کسی حد تک پذیرائی ملی، وہ جمہوری طریقے سے انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔ آج ڈاکٹر طاہر القادری نے ا ±ڑان بھری ہے وہ مروجہ جمہوریت کو عوام کے دکھوں کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ آج ان کی بڑی پذیرائی ہو رہی ہے البتہ ان پر تنقید کرنے اور طعن و تشنیع کے تیر برسانے والے بھی کم نہیں، وہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔© دیکھئے ہوتا ہے کیا قطرے کو گہر ہونے تک۔

ایک طرف ہم مسیحا کی تلاش میں دوسری طرف ہم چاہتے ہیں کہ مسیحائی وہی کرے جس پر ہم اپنا ہاتھ رکھ دیں۔ یوں کسی کا ہاتھ زرداری پر ہے کسی کا نواز شریف پر، کوئی الطاف حسین کو نجات دہندہ سمجھتا ہے تو کوئی اسفند یار ولی کو، کسی کی آنکھ کا تارا عمران ہے تو کسی کا طاہر القادری ہے۔ ہم ہر کسی کی مسیحائی دیکھ کر پھر بھی اسی کی چوکھٹ کو تھامے ہوئے ہیں۔

انقلاب کیلئے ماحول سازگار تھا طاہر القادری نے اسے گرما کر مزید سازگار بنا دیا۔ ان کی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تیاری ہے، 14 جنوری کو دھرنے کا عزم ہے، قافلے ابھی سے تیار ہو رہے ہیں۔ ایم کیو ایم دل و جان سے ساتھ دینے کا یقین دلا چکی ہے۔لاوارث لیگ اصلاحات کی حمایت کر رہی ہے۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے کو کامیاب بنانے کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پورا زور لگا دیا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کی ضروریات سے زیادہ صلاحیت ہے لیکن اسے بروئے کار نہیں لایا جا رہا ہے۔ گیس موجود ہے لیکن عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ دونوں کی نایابی اور قیمتوں میں اضافہ در اضافہ سوہان ِروح ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی باری لے لی اب ان کی بلا سے کوئی بھی آئے لیکن وہ نہ آئیں جو ازل سے حریف اور عرف عام میں شریف ہیں۔ حکومت نے عوام کا ناطقہ اس حد تک بند کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

طاہر القادری کا اپنے پروگرام کی پذیرائی تک اسلام آباد میں دھرنے کا ارادہ ہے۔ 14 جنوری بہت دور بہت ہی دور ہے، لمحہ لمحہ گننے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنا دور ہے اس دوران بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ طاہر القادری کی انقلابی سوچ بھی یرغمال ہو سکتی ہے۔ اس کی کہیں نہ کہیں منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہو گی۔ ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے بھی شاید اسی ایجنڈے پر کسی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہوں۔ ایم کیو ایم ہَوا کا ر ±خ دیکھنے میں ماہر اور ہَوا?ں اپنی مرضی کا ر ±خ دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ہوا?ں کا وہی ر ±خ ہو گا جو وہ چاہے گی۔ کسی کو شہرت کی بلندیوں تک لے جانے کا ہنر اور زمین پر لانے کا گ ±ر بھی وہ جانتی ہے۔بڑے بڑے ذہن علامہ کے ایجنڈے کے روئیں روئیں کا جائزہ لے رہے ہوںگے۔ ڈاکٹر صاحب باہر سے انقلاب کی نوید لے کر آئے۔ان کی تدبیر اور تجویز سے ان کے بغیر بھی انقلاب کی دیگ چڑھ سکتی ہے وہ انقلاب کی دیگ چکھے بغیر ”باہرالقادری“ بھی ہو سکتے ہیں

طاہر القادری کا اصلاحاتی و انقلابی ایجنڈا کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے یا نہیں، البتہ اب تبدیلی کی راہیں ہموار ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ 14 جنوری، اس سے قبل یا ایک آدھ روز بعد کچھ نہ کچھ ہونے ضرور جا رہا ہے۔ جو بھی ہو وہ موجودہ قیامت خیز حالات سے بہتر ہی ہو گا۔ اگر عوام کو ان بحرانوں سے دوچار کرنے والوں سے مستقل نجات مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ یہی وہی لوگ ہیں جو ہر روز 14 ارب روپے کی کرپشن کرتے ہیں۔ کیا ان سے کسی کو ہمدردی ہے؟۔ اگر نہیں تو پھر آنے دیں فرانس جیسا انقلاب ،جس کی سب سے بڑی ایجاد گلوٹین ہے۔


بلاول کی بسم اللہ....
کالم نگار | فضل حسین اعوان
اتوار...30-12-12....
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کی برسی پر تقریر کا آغاز بسم اللہ سے کیا، اس کے ساتھ ہی ان کی سیاست قیادت کی بھی بسم اللہ ہو گئی۔ بعض لوگوں کے نزدیک بلاول کی اپنی تقریر کی شروعات بسم اللہ سے کرنا بھی شاید انہونی تھی کہ اس کو بھی خبر بنا دیا گیا۔ ویسے برسی کے موقع پر کئی انہونیاں بھی ہوئیں۔ تقریب میں چہل پہل سے سالگرہ کا گمان ہوتا تھا۔ اجتماع عام کے روح رواں باپ بیٹے کا ایک دوسرے کو بوسا دینا اچھا لگا، جس سے لگتا تھا کہ شاید دونوں عرصہ بعد سٹیج ہی پر ایک دوسرے کو ملے ہیں۔ برسی کے شرکائ کے چہروں پر افسردگی کے بجائے بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ رقص کرتی بھی دکھائی دی۔ ایک موقع پر میزبانِ اعظم کا ہاسا نکلتے بھی دکھایا۔ صدر زرداری نے اپنے خطاب میں گذشتہ برسیوں کی طرح برسنے سے احتراز کیا۔ بلاول گرجے بھی اور برسے بھی۔ سید یوسف رضا گیلانی اپنے خیالات کے اظہار کے دوران مخدوم سے زیادہ مزاراتِ بھٹو کے مجاور نظر آئے۔ ان کی تقریر میں وزارت عظمیٰ سے محرومی کی تڑپ چھلک رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کا بے ساختہ رونا نکل جائے گا۔ ان کا اپنا مستقبل مبہم ٹھہرا، البتہ وہ اپنی اولاد کے آنے والے کل کو روشن بنانے اور چمک دمک سے ہمکنار کرنے کے لئے ایک بار پھر جھکٹے ہوئے دامن سے لپٹ گئے ہیں۔

آصف علی زرداری نے شرکائ جلسہ کو بتایا کہ بلاول نے اپنی تعلیم مکمل کر لی، اب وہ قوم کی قیادت کے لئے تربیت حاصل کرے گا۔ اس پر پنڈال کی” موجودات “نے والہانہ پن کا بے تابانہ اظہار کرکے خود کوگویا بلاول کے ہاتھ پر بیعت کے لئے پیش کردیا۔ سیاست میں بلاول کی رسم بسم اللہ کے لئے معقول اجتماع کا اہتمام تھا۔ ہمارے ہاں سیاسی و غیر سیاسی اجتماعات کےلئے مقبولیت شرط اولین سے آخرین بن چکی ہے۔اب حکمران سرکاری وسائل سے جلسوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔حکومت کے باہر کے سیاستدان، نیم سیاستدان اور غیر سیاستدان سرمایا لگا کر اپنے جلسوں کو گرماتے ہیں۔

 پیپلز پارٹی کی قیادت کا تاج بلاول کے سر پرسجا کر صدر آصف علی زرداری نے شاید دو عہدوں کے حوالے سے فیصلے کو سوئس حکام کو خط لکھنے جیسی پذیرائی بخشی ہے۔ سنا کرتے تھے کہ بہترین آمریت سے لولی لنگڑی جمہوریت بہتر ہے۔ بہترین آمریت تو کبھی دیکھنے کو نہیں آئی البتہ لولی لنگڑی جمہوریت کا آج تجربہ ہو رہا ہے۔ اس لولی لنگڑی اور پولیوزدہ ”ڈ ±ڈی“ جمہوریت کو بیساکھیاں عدالتوں نے فراہم کی ہیں ورنہ یہ بے چاری کب کی خاک نشیں اور اس کو ایسے انجام سے ہمکنار کرنے والے زنداں نشیں ہو چکے ہوتے۔ عدلیہ کا ممنون ہونے کے بجائے اس کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ مطلب شناس، اپنے گرو کا مزاج موڈ اور رنگ ترنگ بھانپ کر اس کے ٹارگٹ پر لپکتے اور جھپٹتے ہیں۔ ان کا نشانہ بڑی عدالتوں کے بڑے جج بنتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ماموں، چاچوں اور تایوں کے بارے میں تو کوئی بات نہ کی منصفِ اعظم کو اپنی والدہ محترمہ کے قتل کے ملزموں اور مجرموں کو پھانسی نہ لگانے کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ کائرہ کہتے ہیں کہ ایک قاتل تو محترمہ کے ساتھ ہی مارا گیا، باقی جیل میں ہیں۔ جس کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لانے کی دہائی دی جاتی ہے اس کا کیا قصور ہے؟ بینظیر بھٹو نے جن لوگوں سے اپنی زندگی کو خطرہ قرار دیا تھا، وہ آج کہاں ہیں؟ بلاول کو عدلیہ کے حوالے مس گائیڈ کیا گیا، یہ سوچے سمجھے اور پرکھے بغیر کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ کی سیاست اور سیاسی حیثیت پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔

 سیاست میں موروثیت شجر ممنوعہ نہیں۔ کرپٹ قائدین کی والدین کے نقشِ قدم پر گامزن اولادوں کو دھن دولت اور اثر رسوخ کے ذریعے سیاست کے ناخدا بنا دینے سے محب وطن طبقوں اور حلقوں میں بے چینی و بے قراری پیدا ہونا فطری امر ہے۔ مادرِ ملت کی سیاسی تربیت قائداعظم نے کی لیکن آپ نے محترمہ کو اپنا سیاسی جاں نشیں نہیں بنایا۔ آج کی سیاست کا منظرنامہ مختلف ہے۔ ملکی و قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والے ایسی ہی تربیت اپنی اولاد کو دے کر سیاسی میدان میں لاتے ہیں۔ آج پاکستان میں سب سے بڑے عہدے پر براجمان شخص کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ اہلیہ محترمہ بھی مبرا نہیں تھیں تاہم بلاول، بختاور اور آصفہ کے دامن پر کم از کم کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ بلاول پیپلز پارٹی کے سربراہ تو محترمہ کے قتل کے چند دن بعد بنا دئیے گئے تھے البتہ پارٹی کی زمام اور لگام ان کے ہاتھ میں زرداری صاحب نے اب تھمائی ہے۔ بلاول کی تقریر میں اپنے نانا اور اماں کے انداز کی جھلک موجود تھی۔ اب الیکشن سر پر ہیں، ملک میں امن امان کی فضا بھی ابر آلود سے زیادہ گرد آلود ہے۔ دہشت و وحشت کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ کیا بلاول اپنے شہید ماں اور نانا کی طرح انتخابی جلسوں کو گرما پائیں گے؟

 بڑی پارٹی کے سربراہ ہونے کے ناطے بلاول کے ٹرینروں کو خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی شخصیت کم سے کم متنازعہ بنے۔ چالاکی فریب اور دغا بازی سے پاک مفاہمت کو فروغ دیں۔ اب تک انہوں نے خود کو کاروبار سے الگ رکھا ہے آئندہ بھی الگ رہیں تو ان کی سیاست کے لئے سودمند ہو گا۔ سیاست چلانے کے لئے ان کے والدین کی جائیداد اور کاروبار اگلی کئی نسلوں کے لئے کافی ہے۔ ان کا ہیڈ کوارٹر سیاسی لاہور قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی ان کی آزمائش ہو گی۔ نانا کی بات اور تھی نواسے کی بات اور ہے!



یومِ قائد اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈہ
کالم نگار | فضل حسین اعوان
منگل 25-12-12
آج قوم یومِ قائد ان حالات میں منا رہی ہے کہ پاکستان کے وجود کے روئیں روئیں سے خون رس رہا ہے۔ ملک کا کوئی حصہ دہشت گردی اور بارود کی ب ±و سے محفوظ نہیں۔ ایک طرف ڈرون پاکستان کی حدود میں گھس کر پاکستانیوں کا خون بہا رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ کراچی، بلوچستان اور فاٹا سلگتے سلگتے بھڑک ا ±ٹھے اور اب بدامنی اور قتل و غارتگری کا الا¶ بن چکے ہیں۔ گذشتہ دور میں پاکستان کو غیروں کی جنگ میں جھونک دیا گیا تو موجودہ حکومت اس سے بھی بڑھ کر اس جنگ میں حقِ نمک ادا کر رہی ہے، خمیازہ معصوم بچوں اور خواتین سمیت امن کی خواہش رکھنے والے بے گناہ افراد کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حکومتی سطح پر اصلاح کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ معاملات جس طرح چل رہے تھے ا ±سی طرح آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے مکھی پہ مکھی ماری جا رہی ہے۔ خارجہ معاملات کے ساتھ ساتھ داخلہ امور بھی مثالی نہیں۔ بجلی و گیس کی قلت کے باعث معیشت انحطاط پذیر، بیروزگاری کا دور دورہ، مہنگائی کا ا ±منڈتا ہ ±وا طوفان، لاقانونیت کا عر وج‘ کھلی اقربا پروری، کرپشن کو ا ±صول اور قانون بنا لیا گیا۔ ایک مخصوص طبقہ دھن دولت سمیٹ کر مسرور، غریب اولادیں فروخت کرنے اور خودکشیوں پر مجبور، ملکی سالمیت و سلامتی داو¿ پر لگی ہے۔ قومی وقار نابود، ملکی سلامتی کے ذمہ دار اپنے مفادات تک محدود، ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدود، پاکستان کی بقا کے دشمن کے ساتھ تعلقات و دوستی کا فروغ، تجارت کا خبط، وہ بھی خسارے کی، اب اسے پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے کا عزم و ارادہ، اس میں کس کو خسارہ کس کا فائدہ؟یہ دیکھ کر قائداعظم? کی روح تڑپ رہی ہو گی۔ پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کے بجائے اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

قائداعظم وادی¿ کشمیر طاقت کے ذریعے آزاد کرانے کا عزم رکھتے تھے آج کے کرتا دھرتاو¿ں نے اس معاملے سے آنکھیں پھیر لیں۔ اگر کشمیری ایسی بے حسی کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل لیں الحاق پاکستان کے عزم کو عملی شکل دینے کے ارادے سے رجوع کر لیں تو پاکستان کا وجود ہمیشہ کیلئے ادھورا رہ جائے گا۔ شہ رگ دشمن کے انگوٹھے کے نیچے ہو تو زندگی کا دار و مدار دشمن کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، وہ سانس لینے دے یا نہ لینے دے۔ آزاد، خود مختار اور باوقار قومیں کیا ایسے حالات میں اپنے اکابرین کا دن مناتی ہیں؟ کہنے کو تو آج کے دور کو سلطانی جمہور کا دور کہا جاتا ہے جمہوریت کے سلطان تو نظر آتے ہیں جبکہ جمہوریت کو دیکھنے کیلئے جادوئی نظروں کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کے فوائد ڈاکٹر طاہر القادری نے شمار کراتے ہوئے اسکی افادیت بھی بتا دی۔ جمہوریت کا مطلب قوم کو یرغمال بنانا نہیں، ان تک جمہوریت کے ثمرات پہنچانا ہے۔ ملک اور قوم کے ساتھ جمہوریت کے نام پر کیا کچھ نہیں ہو رہا؟۔ کیا یہ وہی جمہوریت ہے جس کا دور دورہ بانی پاکستان چاہتے تھے ،ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اہلیت، میرٹ، ہو تو موروثی سیاست میں قباحت نہیں۔ نالائق، کرپٹ اور عیاش اولاد کو سیاسی وارث بنا دینا قائد و اقبال کے پاکستان کی جڑیں ہلا دینے کے مصداق ہے۔ آج اس طرح کی سیاست نے کچھ زیادہ ہی عروج حاصل کر لیا ہے۔ ایوان صدر کو پیپلز پارٹی اپنی سیاست کیلئے استعمال کرتی ہے۔ نون لیگ کم و بیش ایسے ہی مقاصد کیلئے پنجاب ہا?س کو استعمال کر رہی ہے۔ قومی وسائل ہر پارٹی اپنے مفادات اور بے جا تشہیر کیلئے لنڈھا رہی ہے۔ ہر پارٹی اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنے اوپر اپوزیشن کا لیبل بھی سجا رہی ہے۔ اپنی پارٹی کے نکتہ نظر کو سامنے رکھ کر عدالتی فیصلوں کی تحسین اور تضحیک کی جاتی ہے۔ ایسے میں واقعتاً جمہوریت کو ریفائن اور پیوری فائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دلدل اور کنویں سے نکلنے کیلئے بیرونی عوامل بروئے کار لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھنور سے کشتی کو قدرتِ کاملہ ہی نکال سکتی ہے۔ ہماری جمہوریت دلدل میں دھنس اور بھنور میں پھنس چکی ہے ،اس سے قدرتِ کاملہ نکالے یا اس سے بیرونی عوامل کوئی تدبیر کریں جو دھنسے اور پھنسے ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتے اور خصوصی طور پر جب ذمہ دار بھی وہی ہوں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جمہوریت کی کشتی کو دلدل اور بھنور سے نکالنے کی تجاویز دی ہیں جو قابلِ عمل بھی ہیں۔

طاہر القادری آئے اور چھا گئے۔ وہ جس قسم کا اجتماع اور احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے وہ اس میں کامیاب رہے۔ مینار پاکستان کا جلسہ حاضرین اور ڈسپلن کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ نہیں تو لاہور کا سب سے بڑا اجتماع ضرور تھا۔ سیاسی مفادات کی عینک سے دیکھنے والوں نے طاہر القادری کے خیالات و تجاویز اور اسلام آباد کی طرف 4 ملین کے لانگ مارچ کے اعلان پر تنقید ضرور کی ہے۔ حاضرین کی تعداد سے کسی نے انکار نہیں کیا‘ بعض دانشور بلا سوچے سمجھے بولے۔ ایک کو کچھ اور نہیں سوجھا تو ڈاکٹر صاحب کے لہک لہک اور اچھل کود کے بجائے پ ±روقار انداز میں کرسی پر براجمان ہو کر خطاب کرنے کے عمل اور ان کی شیخ الاسلامی کیپ کو حرفِ تنقید بنایا۔ تحریک انصاف کو شاید اس اجتماع پر باہمی مشاورت کا وقت ہی نہیں ملا تو اس پارٹی کے ترجمان کی تنقیدی پارٹی کے سربراہ کی تحسینی لائن سامنے آئی۔ بڑی پارٹیوں نے بہرحال تنقید ہی کرنا تھی جو کی اور ہوتی رہے گی۔ ایم کیو ایم البتہ بڑی خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔ ملین مارچ کی کامیابی میں ایم کیو ایم کا واضح ساتھ اور تحریک انصاف کی طرف سے فی الوقت نرم گوشہ اور چند دنوں میں ایک ہی پلیٹ فارم پر آنے کا امکان اہم عنصر ہو گا۔ جماعت اسلامی بھی اس ایجنڈے کا حصہ بن سکتی ہے۔ طاہر القادری کی عوامی قوت اور لانگ مارچ کے مقصد و ارادے کے پیش نظر ”مقتدر قوتیں“ بھی یقیناً سر جوڑ لیں گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری خود کو سیاست سے دور رکھ کر سیاست کی طہارت کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ سیاست سے نابلد نہیں اور سیاست میں کوئی حرفِ آخر بھی نہیں ہوتا۔ انکو سیاست میں کودنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہ ±وا تو دو بڑی پارٹیوں کے متبادل ایک تیسری قوت کھڑی کی جا سکتی ہے یا ہو سکتی ہے، جس میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، دفاع پاکستان کونسل‘ ایم کیو ایم اور طاہر القادری کی پرانی عوامی تحریک یا کسی اور نام سے جنم لینے والی پارٹی شامل ہو گی --- بہرحال قائداعظم کا یومِ ولادت، قوم سے وطن عزیز کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کا متقاضی ہے جس میں جمہوریت اسی طرح کارفرما ہو جس طرح قائداعظم چاہتے تھے۔ آخر میں ہم وطنوں کو قائد کا یومِ ودلات مبارک، کرسچین برادری کو کرسمس اور ن لیگ کے متوالوں کو میاں نواز شریف کی سالگرہ مبارک ہو۔

ظالمو! قادری آگیا
23-12-12اتوار

آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری موجودہ اور مروجہ سسٹم کے اندر سے نیا سسٹم تخلیق کرنے کے دعویدار اور اپنے دعوے کو سچ ثابت کر دکھانے کے لئے تن، من اور دھن کے ساتھ کوشاں ہیں، دھن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی۔کسی نے یہ بھی ا ±ڑا دی کہ اسلام آباد سے کسی ادارے نے 14کروڑ روپے کا نذرانہ دیا ہے۔آپ کی زنبیل میں بہت کچھ ہے،ہر مرض کی دوا اور ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔کچھ پتے تو وہ شو کرا چکے ہیں، بہت سے آج کی مینار پاکستان پر تقریر کے لئے چھپا رکھے تھے۔ اس جلسہ میں شرکت کے لئے ملک کے دور و نزدیک سے شیخ الاسلام کے پیروکار‘ پرستار اور فلسفے کے حامی لاہور پہنچ چکے ہیں۔ مینار پاکستان کے اردگرد ہجوم عاشقاں ہے۔ آج لاہور کی مینار پاکستان کی طرف جانے والی ہر شاہراہ‘ بازار اور گلی مروجہ سسٹم سے بیزار اور نئے سسٹم کے خواستگاروں سے معمور ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بھرپور پذیرائی نظر آرہی ہے۔ وہ جمہوریت کے خلاف ہیں نہ انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کے موقف کے حامی۔ کبھی نعرہ تھا پہلے احتساب پھر انتخاب، ان کا سلوگن ہے پہلے اصلاحات پھر انتخابات۔ اصلاحات کے لئے اگر دو تین سال بھی لگ جائیں تو وہ اس میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ خود اپنے ایجنڈے کی کامیابی سے کس حد تک مطمئن ہیں۔ اس پر ان کا موقف تھا کہ” جہاں تک احتجاج ریکارڈ کرانے کا تعلق ہے تو یقیناً آج کے اجتماع میں کم از کم ایک ملین لوگ تو ضرور شامل ہوں گے۔ بے نظیر بھٹو کا 1986ئ میں والہانہ استقبال ہوا‘ عمران خان کا گذشتہ سال لاہور میں جلسہ بھی بہت بڑا تھا۔ میں خود ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں شریک ہوتا رہا ہم ان شائ اللہ ان سب جلسوں اور اجتماعات سے کہیں بڑھ کر لوگوں کو لاہور لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ میں ان انتظامات اور شواہد کی روشنی میں کہہ رہا ہوں جو میرے سامنے ہیں۔ پاکستان کے کس حصے سے کتنے لوگ آرہے ہیں اور کس ذریعے سے آرہے ہیں وہ تفصیلات اور معلومات میرے پاس موجود ہیں۔ اتنے بڑے احتجاج پر متعلقہ ادارے کیا رائے رکھتے ہیں ،کیا سوچتے ہیں اور کیا نوٹس لیتے ہیں، اس بارے میں فیصلہ انہوں نے کرنا ہے“۔

2002ئ کے مشرفی انتخابات میں طاہر القادری کی عوامی تحریک اور عمران خان کی تحریک انصاف نے بھرپور حصہ لیا۔دونوں صرف اپنی اپنی واحد سیٹ جیت سکے ،وہ بھی اپنے اپنے آبائی حلقوں سے۔آج عمران کی سیاست کے اندر اور طاہر القادری کے سیاست سے باہر رہتے ہوئے بڑی پذیرائی ہو رہی ہے حالانکہ دونوں کی سوچ‘ پالیسی اور فلسفے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ اس پذیرائی کی اکلوتی وجہ جمہوری حکمرانوں کا عوامی توقعات کا حشر نشر کر دینا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل روزانہ پاکستان میں کئی سو ارب روپے کے ہیر پھیر کی رپورٹ مرتب کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بعض رپورٹیں ”Paid“ ہوتی ہیں اور وہ ہماری انتظامیہ کی طرح اچھا ریٹ لگنے پر جاری ہونے والی اپنی ہی رپورٹوں کو واپس بھی لے لیتی ہے۔ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ خود اس کے اداروں کی رپورٹوں سے لیا جائے تب بھی ہر سو تاریکیاں پھیلی اور چھائی ہوئی نظر آتی ہیں۔چیئرمین نیب وفاقی اور صوبائی سطح پر روزانہ بارہ سے چودہ ارب روپے کی لوٹ مار کے اعداد و شمار منظرعام پر لائے ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی ہر ماہ قومی خزانہ سے 800 ارب روپے لوٹے جانے کی بات کرتی ہے۔ اس لوٹ مارسے عام آدمی مہنگائی‘ بیروزگاری‘ توانائی کی قلت کی صورت میں براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ ایسی ظلمت میں روشنی کی کرن نظر آئے تو عام آدمی اس طرف کیوں نہیں لپکے گا؟۔ جب یاس وناامیدی میں ڈاکٹر قادری اور عمران خان نے امیدوں کے چراغ جلانے کی کوشش کی تو جہاں ان کو بجھانے والے جھپٹے وہیں امیدوں کی شمع کو فروزاں رکھنے والے بھی میدان میں کود پڑے۔ مفادات کے اسیر سیاستدانوں کے ہاتھوں ملک اور قوم کے ساتھ بہت ہو گئی! کوئی قائداعظم ثانی اور کوئی قائد عوام کا نام اپنی کامیابی کے لئے استعمال کرتا رہا۔ عوام کوان حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو خود پیدا کئے تھے۔ جمہوریت بے ضمیروں‘ لوٹوں اور نیت کے فقیروں کے ہتھے چڑھی تو داغدار نظر آنے لگی۔ اس کے نام نہاد نگہبانوں، پاسبانوں اور پشتیبانوں کو عوام سے دلچسپی نہیں خواص سے لگا¶ ہے۔ ترقیاتی کاموں پر 100روپیہ لگا کر ہزار کی تشہیر کرتے ہیں۔ جن سے ووٹ لیتے ہیں ان کے در پر جھکتے باقیوں کی حالت زار کی پروا نہیں کرتے۔ ملالہ کے معاملے میں ملال اپنے ”بیرونی حاکموں“ کو خوش کرنے اور اپنے محکوموں کی آنکھ کا تارا بننے کے لئے دکھایا گیا۔ اپنے مفاداتی علاقوں میں زیادتی یا قتل کا واقعہ ہو جائے تو ہیلی کاپٹر اڑا دئیے جاتے ہیں۔ معصوم پولیو ورکرز کو بڑی سفاکی سے قتل کر دیا گیا ،وہاں صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ، گورنر مشیراور وزیر نام کی کوئی چیز افسوس کے لئے نہ پہنچی۔ حکومتوں میں موجود سیاستدانوں کی کارکردگی سے مایوس لوگ کیاکریں؟ پرفریب نعروں کے جھانسے میں آکر ایک بار پھر آزمائے ہو¶ں پر اعتماد کریں، متبادل تلاش کریں یا سسٹم کو ری فائن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں؟ ڈاکٹر طاہر القادری سسٹم کو پیوری فائی کرنے کا ایجنڈہ لے کر اٹھے ہیں۔ آج کے جلسہ میں ان کی سنتے اور دیکھتے ہیں کہ” وہ“ کتنی سنتے ہیں جن پر سن کر عمل کرنے کا تکیہ ہے۔ اگر انہوں نے سن لی تو پاکستان کی سیاست میں طوفان تو اٹھے گا۔ باری لینے والے اور باری کے منتظر پریشان تو ہوں گے ،ہونا بھی چاہئے کیوں کہ طاہر القادری آگیا ہے۔ حالات بھی ان کے ایجنڈے کے لئے سازگار ہیں ،جن کو ایم کیو ایم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مزاحمت کا اعلان کرکے مزید سازگار بنا دیا ہے۔ خداقوم کی حالت پر رحم فرمائے۔ملک کو لوٹنے اور عوام کو گمراہ کرنے والی لیڈرشپ سے نجات دلائے۔


ہمارے بچوں کے مرنے پر بھی ا ±ن کو صدمہ ہوتا ہے؟
کالم نگار | فضل حسین اعوان
18-12-12 منگل
دہشت گرد کا کوئی مذہب‘ مسلک اور قومیت نہیں ہوتی۔ دنیا اب تک دہشت گردی کی تعریف پر متفق نہیں ہو سکی تاہم بلاوجہ ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ کر حراساں کرنے سے لے کر کسی کی بغیر معقول وجہ کے جان لے لینا دہشت گردی کے زمرے میں آنا چاہئے اور دہشت گردی کی سزا بھی جرم کی نوعیت کے مطابق ہو، جو شاید اکثر ممالک میں آج بھی موجود ہے۔ عالمی طاقتوں کا چونکہ اپنا اپنا ایجنڈہ ہے جس کی تکمیل کے لئے وہ ہر طریقہ‘ ذریعہ‘ سلسلہ اور رابطہ بروئے کار لاتی ہیں۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا بھی بعض قوتوں کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، اس میں دہشت گردی کا شائبہ تک نہیں۔ البتہ دین کی خاطر اہل ایمان اپنی جان دینے سے گریز نہیں کرتے جو ایک کاز اور مقصد کے لئے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے پر مائل ہوں وہ نیک‘ اعلیٰ و ارفع مقصد کے لئے دوسروں کی جان لینے سے دریغ کیوں کر کریگا۔ جہاں جہاد ہمیں یہی درس دیتا وہیں جہاد اور فساد میں فرق روا رکھنے کی ان الفاظ میں تلقین بھی موجود ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

دہشت گرد کسی بھی معاشرے میں جنم لے سکتا لیکن اس کی دہشت گردی کی پہلی واردات جس میں معصوم انسانوں کا خون بہایا جائے‘ کے بعد اس کا کسی مذہب، مسلک اور مہذب قومیت سے تعلق نہیں رہتا۔ اس کی قومیت‘ مذہب اور قومیت بلاامتیاز اس کے ظاہری عقائد کے ”دہشت گرد“ قرار پاتی ہے۔ یہ ہر معاشرے کے لئے قابل نفرت اور تحقیر آمیز ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے پیچھے ایک مخصوص ذہنیت کار فرما ہے۔ آج فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بالترتیب یہود و ہنود کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ آج دنیا میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والی ذہنیت حریت و آزادی کی خاطر اپنی جانیں دینے والوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے اور دہشت گردوں کو کچھ بھی کرنے میں آزاد سمجھتی ہے۔

دہشت گردی مسلمانوں کے گھر میں کبھی پیدا ہوئی نہ پلی اور بڑھی۔ اس کی پیدائش اور پرورش دوسروں کے ہاں ہی ہوئی ہے۔سرسری جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گرد کہاں پیدا ہوتے رہے، ان کی کس نے اور کیسے آبیاری کی اور ان کا سرپرست کون ہے؟ اس سے پردہ بھارتی صحافی سوامی ناتھ ایار نے اپنے کالم میںا ±ٹھایا ہے جس پر جنرل ملک عبدالقیوم نے بھی تفصیل کے ساتھ لکھا جس کا اجمالاً تذکرہ کئے دیتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں ساٹھ لاکھ یہودی گیس چیمبرز میں ڈال کر جلا دئیے گئے۔ جلانے والے کون تھے؟۔ بہرحال وہ مسلمان نہیں تھے۔جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر معصوم بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور بے گناہ لوگوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرناکیا معمولی دہشتگردی ہے،کیا اس کے پیچھے کوئی ایک بھی مسلمان تھا؟ ؟1881ئ میں روس کے حاکم الیگزینڈر دوئم کو اکیس ساتھ کھڑے لوگوں سمیت ہلاک کر دیا گیا۔ 1901ئ امریکی صدر میکِنلے اور اٹلی کے بادشاہ ہمبرٹ کو قتل کیا گیا، 1914ئ میں آسٹریا کے آرکڈیوک فرڈینیڈ کی جان لے لی گئی ،جس سے پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ان میں سے کسی کا قاتل کوئی مسلمان نہیں تھا۔ انگریز راج میں آزادی کی جنگ لڑنے والے چندرا سیکر اور بھگت سنگھ کو انگریزوں نے دہشت گرد کہا یہ بھی مسلمان نہیں تھے۔دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد فلسطین پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ یہودی انتہا پسند اپنی آزاد بستی بنانے کیلئے انگریزوں پر بموں سے حملے کرتے تھے۔ ہوٹل تباہ اور لوگوں کو قتل کرتے۔ انگریز ان کو دہشت گرد کہتے تھے۔ اس وقت کے مشہور یہودی دہشت گردوں میں موشے دایان‘ رابن‘ بیگن اور شیرون جیسے لوگ شامل تھے جو بعد میں اسرائیل کے وزیر دفاع وزیراعظم اور صدر بنے۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے فلسطینیوں کو دہشت گرد کہہ کر چن چن کر مارنا شروع کر دیا۔جرمنی میں 1968ئ سے لیکر 1992ئ تک مین ہوفگینگ نے بہت سے لوگ قتل کئے۔ اٹلی کے ریڈ برگیڈ نے وزیراعظم مورو ایرڈو کو ہلاک کیا۔ جاپان میں ریڈ آرمی نے قتل و غارت کی اسی طرح ایک اور گروپ نے 1995ئ میں ٹوکیو میٹرو کے اندر زہریلی گیس چھوڑ کر لوگوں کو ہلاک کیا۔ یورپ میں آئرلینڈ کے کیتھولک دہشت گردوں نے تباہی مچائی اور انگلینڈ میں سینکڑوں لوگ ہلاک کئے۔ افریقہ کے اندر دہشت گردی روز کا معمول ہے۔ سپین اور فرانس میں ETA اور Basgne دہشت گردوں کا راج ہے۔ یوگنڈہ کی سالویشن آرمی بچوں کو دہشت گردی کیلئے تربیت دیتی ہے۔خودکش حملوں کا رواج سری لنکا کے ہندو تامل ٹائیگرز نے ڈالا اور انہوں نے 2003ئ سے 2007ئ تک 400 خودکش حملے کرکے افغانستان اور عراق کو بھی مات کر دیا، پنجاب کا جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور آسام کے یونائیڈ لبریشن فرنٹ اور ناگاز کے علاوہ جن ما? دہشت گردوں کا ہندوستان کے 600 اضلاع میں سے 150 اضلاع پر کنٹرول ہے، سب غیر مسلم لوگ ہیں۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو بڑی بے رحمی سے ذبح کیا جارہا ہے، اسے عالمی برادری دہشتکری قرار دیتی ہے نہ اسے روکنے کے اقدامات کرتی ہے۔ امریکہ میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں ایک آدھ کے سوا باقی تمام میں جو لوگ ملوث پائے گئے ان کا اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تازہ ترین واقعہ میں ایک شقی القلب نے پرسکون علاقے کے سکول میں داخل ہو کر فائرنگ کرکے 20 معصوم بچوں سمیت 27 افراد کو خون میں نہلا دیا۔ ایڈم لیزا نامی قاتل، ہم مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئے اتنا ہی قابل نفرت اور مکروہ الکردار ہے جتنا خود امریکیوں کے لئے۔ ان پانچ سے دس سال کے معصوم اور فرشتہ صورت و سیرت بچوں کے مرنے پر ہمیں اتنا ہی صدمہ رنج اور دکھ ہے جتنا ڈرون حملوں میں مارے جانے ہمیں اپنے بچوں کا۔ کیا اپنے بچوں کی ہلاکت پر رونے والے اوباما کو بھی ڈرون حملوں میں مرنے والے ہمارے معصوم اور پھول سے بچوں کا بھی کوئی دکھ اور صدمہ ہوتا ہے؟۔ اگر ہوتا ہے تو وہ ان حملوں کو بند کیوں نہیں کروا دیتے جن میں خود امریکی حکام کے مطابق بچوں اور خواتین سمیت 97 فیصد بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں؟


متحدہ پاکستان ممکن کیوں نہیں!
کالم نگار | فضل حسین اعوان
۱توار 16-12-12..
سولہ دسمبر 1971ئ کی طرح،2 جنوری 1492ئ بھی اسلامی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔ اس دن اندلس میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ شام ِ غم اَند ±لس کے مسلمانوں کیلئے طویل ترین تاریک رات کا آغاز ثابت ہوئی۔ اس شام صدیوں سے سنائی دینے والی اذان کی آواز پہلی بار مسجدوں سے سنائی نہیں دی۔ اس کے بجائے ہرطرف مسلمانوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی۔ بے لباس خواتین عزتیں بچانے کیلئے بھاگ رہی تھیں لیکن کہاں جاتیں۔ بے غیرتی کی انتہا کہ غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ بابِ دل معاہدے کے تحت شہر کی چابیاں ملکہ ازابیلہ اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ذلت و رسوائی کی اس تقریب میں شرکت کیلئے ابو عبداللہ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد اور امرا زرق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ان کے زرہ بکتر سونے چاندی کی لڑیوں سے چمک دمک رہے تھے۔ جب چابیاں ملکہ ازابیلا کو تھما دی گئیں تو ابو عبداللہ بابِ دل، شدت غم سے آنسو بہانے لگا۔ غرناطہ کی چابیاں ابوعبداللہ نے دشمن کے حوالے کیں تو ڈھاکہ میں اس کے ہم نام امیر عبداللہ نے پاکسان کا آدھا حصہ دشمن کے حوالے کردیا۔ ہمارے امیر عبداللہ نے اجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے بڑے تفاخر سے سرنڈر کیا۔ اس سے قبل دستاویزات کی تیاری کیلئے اروڑہ کا نمائندہ آیا تو اس کو فحش لطیفے سناتے اور خوش گپیاں کرتے رہے۔ ابوعبداللہ کے تو سقوط غرناطہ کے بعد آنسو بہہ نکلے تھے جبکہ جنرل امیر عبداللہ نیازی کو کوئی پشیمانی نہیں تھی۔16دسمبر1971کو پاکستان دولخت ہوا،جنرل نیازی کی سربراہی میں90 ہزار سے زائد پاکستانی جنگی قیدی بنالئے گئے ان میں فوجی نیم فوجی اداروں کے افراد سرکاری وغیر سرکاری اہلکار شامل تھے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی رسوائی کبھی نہیں ہوئی۔جنرل نیازی نے اپنی موت سے چند ہفتے قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ فوج کے سسٹم کا ایک چھوٹا سا حصہ تھے۔ انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے احکامات پر عمل کیاحالانکہ پاکستانی فوج مزید لڑ سکتی تھی۔

جنرل نیازی کے سامنے احکاماے مانتے ہوئے ذلت و رسوائی سے بچنے کا ایک راستہ موجود تھا،وہی راستہ یا اس سے ملتا جلتا جو جاپان کے وزیر جنگ نے چنا تھا؛۔ ہیروشیما میں 2 لاکھ اور ناگاساکی میں 70 ہزار انسان مارے گئے تھے۔ جاپانی فوج کا اس کے باوجود حوصلہ نہ ٹوٹا لیکن بادشاہ اپنے عوام کی مزید ہلاکتوں پر تیار نہیں تھا۔ جنرل انامی کورے چیکا جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرینڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے جاپان کو ایک اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے رکھی تھی، بادشاہ نے جرنیلوں کی جنگ جاری رکھنے کی تجویر سے اتفاق نہ کیا اور اپنے طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اپنے کزن سے اس موقع پر کہا ”ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے“۔۔۔ 14 اگست 1945ئ کو انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔

 سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز جنرل انامی نے خودکشی کر لی۔جنرل نیازی اگر برسرِ پیکار رہنے پر آمادہ تھا تو مشرقی پاکستان سے جان چھڑانے کی جلدی اور بے قراری و بے چینی کس کو تھی؟ ہم اپنے طور پر، اپنی دانست کے مطابق کسی نہ کسی کو ذمہ دار تو قرار دیتے ہیں لیکن اس سانحہ کو نصف صدی ہونے کو ہے، قومی سطح پر پاکستان کو دولخت کرنیوالے کرداروں کاتعین نہیں ہوسکا۔ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی حمود الرحمن کمشن تشکیل دینے کے احکامات جاری کئے۔اس کمشن کو صرف مشرقی پاکستان میں فوج کے ہتھیار ڈالنے کے اسباب تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔حمود الرحمن کمشن نے بڑی عرق ریزی سے رپورٹ مرتب بھی کی لیکن اس کو سرکاری طورپر کبھی منظر عام پر نہ لایاگیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کا تعین نہ کرکے ہم نے ایسے ہی مزید سانحات کے راستے کھلے چھوڑ دئیے۔ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تاریخ پاکستان کے وجود کو دولخت اور پاک فوج کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کردے گی۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میںغلطیاں دونوں طرف سے ہوئیں۔ ان غلطیوںکو سدھارا نہ گیا تو غلط فہمیوں کا ہمالہ کھڑا ہو نے سے قائد? کا پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا الزام آتا ہے، انہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرکے دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام کی ابتداکی، وہ شاید اس الزام کا مداوا کشمیر کی آزادی کی صورت میں کرناچاہتے تھے ،پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر بھارت کے ساتھ تنازعات طے کرنا انکا مطمعِ نظر تھا۔ جنرل ضیائ،نواز شریف،بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے ادوار میں بنگلہ دیش کے ساتھ اختلافات کو کم سے کم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں ان کاجواب عموماً مثبت رہا ،سوائے مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے ادوار کے۔ وہ اپنے باپ کے قتل کا د ±کھ بھول نہیں سکی حالانکہ اس قتل میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا مجیب کو تو ان لوگوں نے قتل کیا جو پاک فوج سے غداری کرکے بھاگے تھے۔ حسینہ پاکستان سے معافی کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں، اسی سبب وہ ڈی ایٹ کانفرنس میں بھی شریک نہیں ہوئیں۔ معافی کس کو مانگنی چاہئے، بغاوت کرنیوالے کو یا جس کے خلاف بغاوت کی گئی؟ بغاوت تو بنگالیوں کو بھڑکانے والوں نے کی۔ تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل اور تین لاکھ خواتین کے ریپ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ایسے واقعات ضرور ہوئے ہوں گے لیکن ان کی تعداد سینکڑوں سے کسی صورت زیادہ نہیں اور ایسی زیادتیاں بھی دونوںطرف سے ہوئیں۔قتل اور ریپ کی حقیقت جاننے کیلئے پاکستان اور بنگلہ دیش اقوام متحدہ یا کسی دوسرے عالمی فورم پرتحقیقات کراسکتے ہیں پھر جوبھی زیادہ قصور وار ٹھہرے وہ دوسرے سے معذرت کرکے یا معافی مانگ لے۔ ہمیں ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل بھی ترتیب دیناچاہئے۔

کیا ایسا ممکن نہیںکہ پاکستان پھر سے مکمل ہوجائے؟ متحدہ پاکستان۔۔۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ایسا ہوسکتا ہے اگر دونوں طرف کے سیاستدان ایثار کا مظاہرہ کریں۔لیکن فی الوقت ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ سیاستدانوں میں ایثار نام کی کوئی چیز ہوتی تو پاکستان دو ٹکڑے ہی کیوں ہوتا! البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کنفیڈریشن بنالیں ان کے معاملات اپنے اپنے ہوںآج کی طرح۔۔۔ نام ایک ہو”پاکستان“ پہلے کی طرح۔ پاکستان،مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ ویزے کی پابندی نہ ہو۔کراچی میں آج بھی لاکھوں بنگالی موجود ہیں،بنگلہ دیش میں بہت سے پاکستانی اپنا کاروبار لے گئے ہیں۔دونوںکے مابین ایک دفاعی معاہدہ ہوجائے کہ ایک حصے پر حملے کو دوسرے پر بھی حملہ تصور کیاجائیگا۔ایسی کنفیڈریشن پر کسی کو اعتراضات ہونگے اور نہ اقتدار میں آنے اور باریاں لینے والوں کو تحفظات ہوںگے۔


Print
Share
وسائل کی کمی یا نیتوں میں فتور؟
کالم نگار | فضل حسین اعوان
13-12-12....جمعرات
ملک میں آج ہر طرف توانائی ،توانائی، توانائی کی پکار ہے کاروبار چلانے کیلئے ضرورت کے مطابق بجلی ہے نہ گاڑیاںدوڑانے اور گھروں میں جلانے کیلئے گیس۔ تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔حکمرانوں سے پوچھا جائے جو اس جملہ کی تصویر بنے ہوتے ہیں کہ ہماری تگ و دو یعنی پھر تیاں دیکھو۔صدر اور وزیر اعظم سمیت ہر حکومتی کارندہ ملک میں توانائی کی فراوانی کے لئے اپنی اپنی استطا عت کیمطابق دوڑدھوپ کرتا دکھائی اور اس کو باور کراتاسنائی دیتا ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے رینٹل پاور پلانٹس کی ایسی تنصیب کرائی کہ ان کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ صدر صاحب بھی پاکستان کو توانائی کے بحران نجات دلانے اور اسے ایشائی ٹائیگر بنانے کی جدوجہد میں ملک ملک اپنی آنیاں جانیاں دکھا رہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جاری کردہ خبر کے مطابق 8دسمبر سے اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز ایران سے کرنا تھا جس کی ایران میں مکمل تیاریاں تھیں۔ اس دورے میں گیس پائپ لائن معاہدے میں پیشرفت ہونا تھی جس دن صدر صاحب نے ایران پہنچنا تھا ا ±س روز وہ برطانیہ میں پائے گئے‘ اس موقع پر سرکاری ذرائع سے کہلوایا گیا کہ ایران کا دورہ شیڈول میں شامل نہیں تھا۔ آج ایرانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ دورہ پاکستان کی درخواست پر موخر کیا گیا۔حقیقت کیا ہے ؟ یہ جاننے کیلئے دانش سقراط اور حکمتِ بقراط کی ضرورت نہیں۔ جس روز صدر صاحب ایران جانے کی تیاری کر رہے تھے عین اس موقع پر امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایل این جی کی درآمداورتوانائی منصوبوں میں تعاون کا اعلان کیا گیا، بھاشا ڈیم کی تعمیر سمیت انرجی کرائسز سے نمٹنے کے800 ملین ڈالر یعنی 80 ارب روپے کے انبار کی جھلک بھی دکھائی گئی۔ 80 ارب روپے تو اوگرا کا ایک چیئر مین لے اڑا تھا جو آج سپریم کورٹ کو مطلوب ہے۔بھاشا ڈیم کو حکومت کالا باغ ڈیم کا متبادل سمجھ رہی ہے یہ مکمل کب ہوگا، جس کی ہنوز تعمیر کا آغاز نہیں ہوسکا۔حکومت نے اسکی تعمیر کیلئے گزشتہ دو سال میں زیادہ سے زیادہ 14 ارب روپے مختص کئے وہ اپنی جگہ موجود بھی ہیں یا ایمن طیب اردگان کے نیکلس کے کسی کے گلے کی زینت بننے کی طرح کسی پیٹ میں اتر گئے؟ حکومت اگر ہر سال 10ارب روپے بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے مختص کرتی رہی تو اس کی تعمیر 120سال میں مکمل ہوگی۔امریکہ کی طرف سے 20ارب روپے مل گئے تو 118سال میں۔ وہ بھی اس صورت میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہ ہوا تو۔ امریکی سفیر اولسن نے قائداعظم کے مزار پر حاضری کے موقع پر برملا کہا کہ امریکہ کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر تحفظات ہیںاسکے بعد مزید کچھ کہنے اور سننے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ صدر زرداری ایران جاتے جاتے برطانیہ کیوں پہنچ گئے؟ برطانیہ کے بعد وہ فرانس گئے فرانسیسی صدر اولاند سے صدر صاحب کی ملاقات بڑی خوشگوار رہی جس میں اولاند نے یقین دلایا کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے پاکستان کیساتھ تعاون کرینگے۔ ہمارے صدر کا کہنا تھا کہ جنگ زدہ پاکستان کو یورپی منڈی تک رسائی دی جائے۔ فرانس کے حوالے سے پاکستان کی بڑی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فرانس نیو کلیئر پلانٹ کی فراہمی کا معاہدہ کرکے مکر گیا تھا یہ پلانٹ توانائی میں خود کفالت پیدا کرنے کیلئے منگوایا جارہا تھا۔اب فرانس توانائی کے بحران سے نکالنے کیلئے پاکستان کی کیا مدد کرسکتا ہے؟ وہ بجلی کی تاریں پہنچانے اور گیس پائپ لائن بچھانے سے تو رہا کیا وہ بیرونی دبا? کو مسترد کرکے پاکستان کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی پر تیار ہے ؟قانونی لحاظ سےصدر آصف علی زرداری کا دامن اختیارات سے خالی ہے اسکے باوجود ملک کی تقدیر کے فیصلے انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اسکی وجہ ان کی پارٹی پر مضبوط گرفت ہے۔ آج حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے تو اس کا سبب بھی زرداری صاحب کا پارٹی پر مکمل کنٹرول ہے‘ اس لئے انہوں نے 58ٹوبی کے اختیارات کو اپنے پاس رکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔اگر پارٹی انکے کنٹرول سے ذرا بھی باہر ہوتی تو حشر کب کا مالی کے وزیراعظم مودی بو دیارا جیسا ہوچکاہوتا جس کا فوج نے تختہ الٹ کر استعفیٰ لیا اور کہہ دیا کہ صدر اپنی جگہ کام کر رہے ہیں۔ دو عہدے غیر قانونی سہی لیکن پاکستان کی مروجہ سیاست میں اور زرداری صاحب کا کردار دیکھتے ہوئے بلا جواز نہیں ہیں۔ صدر صاحب نے یورپی منڈیوں تک رسائی مانگی ہے۔ کس لئے؟ پیداوار کیلئے آپ کے پاس بجلی ہے نہ گیس۔پروڈیوس کیا کریں گے اور ایکسپورٹ کیا کریں گے؟ گزشتہ چار سال سے مسلسل حکومت برآمدات کا ہدف پورا نہیں کرسکی۔ پاکستان میں اگر بجلی و گیس کی قلت ہے تو اس کی وجہ بد نظمی اور کرپشن کے سوا کوئی دوسری نہیں ہے۔ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ضرورت سے زیادہ ہے اگر اسے بروئے کا ر ہی نہ لایا جائے تو قصور کس کا ؟ تیل اور گیس وطن کی سرزمین کی کوکھ میں وافر مقدار میں موجود،حکمران شایددھرتی ماںکا اس کا سینہ چاک کرکے گیس اور تیل نکالنے سے اس لئے کترا رہے ہیں کہ اسے تکلیف نہ پہنچے۔ ایران گیس بجلی اور تیل ارزاںنرخوں اور ادھار پر فراہم کرنے کی بار بار پیشکش کر چکا ہے کچھ حصہ خیرات میں دینے کو بھی تیار ہے، ایران کی دوستی اور غریب پروری سے استفادہ نہیں کیا جا رہا کیونکہ ڈالروں کڑک ریال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو توانائی کا بحران وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں نیتوں میں فتور کے باعث نظر آتا ہے ، جب بھی یہ فتور ختم ہوگیا یا” اہل فتور“ کا خاتمہ ہو گیا تو اگلے روز یہ بحران بھی ختم ہو جائے گا۔


”سیاست نہیں ریاست بچا
کالم نگار | فضل حسین اعوان
منگل 11-12.12
ڈاکٹر طاہر القادری تازہ اعلان کے مطابق اور نئے ایجنڈے کے ساتھ 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر وقوع پذیر ہونے والے ملیئنز کے جلسہ عام میں ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ ان کے ایجنڈے ”سیاست نہیں ،ریاست بچاو¿“ نے بڑے بڑوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ملکی سیاست میں ”کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے“ کی سی کیفیت ہے۔ رن کانپنے سے یاد آیا کہ مولانا عبدالستار خان نیازی حلف برداری کیلئے قومی اسمبلی میں داخل ہوئے تو کسی جیالے نے پورا مذکورہ مصرع دہرا دیا جس پر حضرت مولانا نے برملا کہا تھا یوں کہو ”رن کانپ رہی ہے“۔ ڈاکٹر طاہر القادری چند سال کیلئے عبوری قومی حکومت کے قیام کیلئے کوشاں ہیں۔ جو ہر قسم کا سیاسی گند صاف کرکے قومی سیاست کو درست سمت میں گامزن کر دے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست سے دور رہتے ہوئے اس مجوزہ عبوری حکومت کا حصہ بننے کے خواہاں نہیں ہیں وہ اس ایجنڈے کا پرچم ملک و قوم کی بھلائی کیلئے اٹھا اور لہرا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ڈاکٹر صاحب کی یہ ادا ان سیاستدانوں کو تو پسند نہیں آئیگی، جو اسی سیاست میں پلے بڑھے ہیں جو آج سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈہ پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کو کیسے وارے میں آسکتا ہے جو اتحاد کے بل بوتے پر مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنانے کا زعم رکھتی ہے۔ مسلم لیگ ن ضمنی الیکشن میں 9 میں سے 6 نشستیں جیت کر آئندہ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے حصول کی دعویدار ہے۔ ضمنی الیکشن کے نشے میں بے سدھ ہو کر ن لیگی قیادت اور متوالے بے خود سے ہو رہے ہیں۔ مخالفین پنجاب حکومت پر ایک طرف دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف کائرہ قوالی کر رہے ہیں کہ ن لیگ نے اپنی ہی سیٹیں جیتی ہیں بہرحال ن لیگ کی ضمنی الیکشن میں کامیابی سے دوسری پارٹیوں کے ہوا کا رخ دیکھ کر سیاست کا تعین کرنے والے امیدواروں کی نظریں اب ن لیگ کا شکار کرنے یا ہونے پر گڑ چکی ہیں۔ عمران خان کو قومی معاملات سدھارنے کیلئے چونکہ کچھ کر گزرنے کا عزم رکھنے والے 100 لیجنڈز کی تلاش ہے۔وہ تو ”100 نامی گرامیوں“ کی بات کرتے ہیں جس کو سونامی یعنی سمندری طوفان سے تعبیر کر لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی بھی ملک میں سیاسی ہلچل مچانے پر یقین رکھتی ہے اس کو بھی ڈاکٹر صاحب کے ایجنڈے سے اتفاق نہیں ہو سکتا۔چند سال کی عبوری حکومت یا سیاست نہیں ریاست بچا? ایجنڈا، ڈاکٹر طاہر القادری کا اپنا ہے یا کسی طرف سے ان کے کان میں پھونکا گیا ہے، کچھ محب وطن حلقوں کی نظر میں یہ عین قومی و عوامی امنگوں کے مطابق ہے تاہم مخالفت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ جو براہ راست اس سے متاثر ہوتے ہیں ‘ وہ طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں۔ کچھ یہ کہہ کر بھڑاس نکال رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے نامِ نامی میں طوالت در طوالت ہو رہی ہے۔ پوچھا کیا طوالت ہے تو فرماتے ہیں، محمد طاہر القادری اصل نام ہے جو آج شیخ الاسلام ڈاکٹر پروفیسر علامہ طاہر القادری ہو گیا۔ بشارت پر امام دوراں بھی کہلا سکتے ہیں اس کے بعد.... ہمیں شیخ الاسلام کے نام میں طوالت پر اعتراض نہیں‘ اس سے لمبے نام بھی پڑھے اور سنے ہیں۔ برادرم وڑائچ صاحب نے 25 سال کی عرق ریزی سے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ اس کی محض پروف ریڈنگ پر چھ سات سال لگے ہیں۔ اس پرمترجم کا نام یوں تحریر ہے۔ اعلٰحضرت شہنشاہ الفاظ سلطان المعانی، تاجدار سخن، علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ۔۔۔ نام کی طوالت سے یاد آیا انگریز دور میں گوالیار کی ریاست کے مہاراجہ کا لقب تھا۔ ”ہزہائی نس۔ مہاراجہ مختیار الملک‘ عظیم الاقتدار‘ رفیع الشان والا شکوہ‘ مہتہ شام دوراں‘ عمدة الامرائ‘ مہادیوراجا عالیجاہ‘ حسام السلطنت‘ جارج جیواجی را? سندھیا بہاقدر‘ شری ناتھ منصور الزمان‘ فدوی حضرت مالک عظیم‘ رفیع الدرجات انگلستان‘ مہاراجہ آف گوالیار“۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے عین انتخابات کے انعقاد کی دہلیز پر سیاست نہیں‘ ریاست بچا? کا نعرہ بعض حلقوں کے نزدیک معنی خیز ہے۔ اس سے ان لوگوں کے دعوے کو بھی تقویت ملتی ہے جو باصرار کہتے ہیں 2013ئ میں انتخابات نہیں ہوں گے۔ معذرت سے ساتھ‘ ڈاکٹر صاحب کے اس نعرے کہ سیاست نہیں ریاست بچا? سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا‘ ریاست کے ساتھ ساتھ سیاست بھی بچ جائے تو حرج ہی کیا ہے؟ سیاست نہیں ریاست بچا? ، سے تاثر ملتا ہے کہ جیسے اس نعرے کا خالق جمہوریت کی ل ±ٹیا ہی ڈبونا چاہتا ہے۔ جمہوری نظام اسلام کے شورائی نظام سے قریب تر ہے جس کا حصہ ڈاکٹر صاحب خود بھی رہے ہیں۔ آپ جمہوریت کو سنوارنے کی کوشش ضرور کریں تھوڑی سی بے احتیاطی سے یہ ڈی ریل ہوئی تو دہائی ڈیڑھ دہائی کی آمریت مسلط ہو سکتی ہے، ویسے ہمارے سیاست دانوں کے اندازِ حکمرانی نے اس میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے سے قبل تمام پارٹیوں کو ایک جگہ بٹھا کر تین سال کے عبوری حکومت کے قیام پر متفق کرنے کی کوشش کرکے دیکھ لیں۔اگر بات نہیں بنتی تو اپنے گھوڑے ضرور دوڑا دیں۔


پلاننگ سے عاری
کالم نگار | فضل حسین اعوان
6-12-12جمعرات
 چار لاکھ کی آبادی ،بارہ سو جزیروں پر مشتمل،مالدیپ دھیرے دھیرے سمندر ب ±رد ہو رہاہے۔ان جزائر کا مجموعی رقبہ 90ہزار مربع کلو میٹر ہے۔مالدیپ، سیاحوں کیلئے ہمیشہ سے پ ±رکشش رہا ہے۔مالدیپ دنیا میں سطح سمندر سے سب سے کم بلندی پر ہے۔سطح سمندر سے کسی بھی جزیرے کی اونچائی دو میٹر سے زیادہ نہیں، بعض توسمندر سے محض ڈیڑھ فٹ اونچے ہیں۔ اوسط بلندی ایک میٹر بتائی جاتی ہے۔تابکاری گلوبل وارمنگ میں اضافے کا ذریعہ بنی جس نے سب سے زیادہ مالدیپ کو متاثر کیا، اس حد تک کہ اس کا وجو دہی دنیا کے نقشے سے محو ہونے کو ہے۔دنیا کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اسلحہ سازی اوراس کے بے پناہ استعمال سے ہوا،ان جنگوں کے بعداگر درجہ میں اضافہ نہیں ہوا تو کمی بھی نہیں ہوئی جس کے باعث گلیشیر تیزی کے ساتھ پگھلنے سے سمندر اپنی حدود سے باہر آرہے ہیں۔چند برس میں سمندروں کی سطح میں20سینٹی میٹر اضافہ ہوا ہے۔یہ اضافہ اسی تواتر سے جاری رہا تو مالدیپ کے ڈوبنے میں صدیاںنہیں لگیں گی۔اس کا مالدیپ کے لوگوں کو احساس ہے۔حکام پوری دنیا سے رابطے میں ہیں کہ ممکنہ حد تک گلوبل وارمنگ پر قابو پایاجائے۔ دنیا اس حوالے سے جو بھی مہربانی کرے ،اس سے درجہ حرارت کے اضافے میں کمی تو ہوسکتی ہے اس پر مکمل قابو نہیں پایاجاسکتا گویا دنیا کے بھرپور تعاون سے مالدیپ کے ڈوبنے کی رفتار میں کمی ہوسکتی ہے، اسے ڈوبنے سے نہیں بچایاجاسکتا، اس کے پیشِ نظر حکام اپنے ملک کو برقرار رکھنے کیلئے پڑوسیوں بھارت،سری لنکا اور آسٹریلیا سے زمین خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیاملک خریدنے کیلئے مالدیپ میں سیاحت سے حاصل ہونیوالی آمدنی کا ایک حصہ مختص کیاجارہا ہے۔مالدیپ کو کوئی ملک اپنی سرزمین فروخت کرتا ہے یا نہیں البتہ مالدیپ نے اپنی بقا اور ملک کا وجود روئے زمین سے مٹنے سے بچانے کیلئے طویل تر پلاننگ ضرور کی ہے۔ صدیوں قبل روم نے تین سو میل دور سے پانی اونچائی کی طرف بہاتے ہوئے استنبول میں پہنچایا۔پانی استعمال سے پہلے ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ یہ ذخیرہ شہر کے وسط میں زیر زمین دس لاکھ مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔گہرائی 18فٹ ہے۔یہ شہر کی آبادی کے محاصرہ کی صورت میں ایک سال کی ضروریات کیلئے کافی تھا۔ پلاننگ اسی کو مدِنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ جن ممالک کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں وہ اپنی ضروریات کے پیش نظر دسیوں، بیسیوں اور بعض حالات میں پچاس اور سو سال کی بھی پلاننگ کرتے ہیں۔ڈاکٹر عبید اللہ نے اپنی تحقیق میں لکھاہے کہ ”برطانیہ اور فرانس کے درمیان سمندر کے نیچے ایک سرنگ نکالنے کیلئے پہلے یہ دیکھا گیا کہ برطانیہ سے فرانس یا یورپ جانے والوں کی تعداد کیا ہے اور کس رفتار سے سالانہ بڑھتی ہے۔ اسکے بعد آئندہ پچاس سال کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر سرنگ کی چوڑائی اور دونوں سروں پر سٹیشنوں کے سائز متعین کئے گئے۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر آج تک ان کے ہاں انڈر گراو¿نڈ ریلوے کام کررہی ہے اور لاکھوں مسافروں کو روزانہ سروس فراہم کرتی ہے۔ اسکے برعکس ہماری حکومتیں مستقبل کا خیال تو چھوڑیں کسی ایک سہولت کی دیکھ بھال تک کا منصوبہ نہیں بناتیں۔ انگریز جب اس ملک سے چلے گئے تو مغربی پاکستان میں غالباًکم و بیش چھ ہزار کلومیٹر ریلوے لائنیں چھوڑ گئے۔ آج ریلوے جس خستہ حال میں ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن اس پر مستزاد یہ کہ ان چھ ہزار کلومیٹروں کی لائنیں بھی ہم سنبھال نہ سکے اور اب وہ گھٹتے گھٹتے چار ساڑھے چار ہزار تک رہ گئی ہیں“۔۔۔ہم ہیں کہ دس پندرہ سال کی پلاننگ تو ایک طرف سال دو سال کی بھی نہیں کرتے بلکہ معاملہ سر پر آن پڑے پھر بھی دم بخود رہتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح نے بہترین پلاننگ سے ایک ملک،چند سال کی جدوجہد سے قائم کردیا۔ قائد کے بعد ہمارے حکمران منصوبہ ساز سے زیادہ نعرے اور ڈرامہ باز ثابت ہوئے۔قائداعظم نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بہترین منصوبہ بندی کی۔ گریسی نے کشمیر کی آزادی کیلئے طاقت سے گریز کیا تو دوسرا گ ±ر آزماتے ہوئے مجاہدین کے ذریعے ایک بڑا حصہ آزاد کرالیا جن کو قائد ? نے پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا۔ اگر قائدمحترم کو زندگی نے مہلت دی ہوتی تویقینا پورا کشمیر آزاد ہوچکا ہوتا۔ قائد کے بعدایک بھی ایسا رہنما نہ ملا جو کشمیر کی آزادی کے حوالے سے پیشرفت جاری رکھ سکتا۔64 سال سے کشمیر قضیہ جہاں تھا وہیں ہے۔ ہم سے بہت بعد میں آزاد ہونے والے اور کہیں کم وسائل رکھنے والے ممالک ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے دنیا کی رہبری اور رہنمائی کر رہے ہیں۔وہاں ذہانت،منصوبہ بندی اور قومی سوچ کی بہتات ہمارے ہاں فقدان ہے۔ ذہانت خداداد صلاحیت ہے اس کی کمی محنت اور جہد مسلسل سے پوری کی جاسکتی ہے، اس معاملے میں بھی ہماری قیادتیں تہی دامن رہی ہیں۔بجلی ، گیس اور پانی کیلئے انحصار قدرتی ذرائع اور ارتقا پر رہا۔بجلی و گیس جس قدر درکار تھی اتنی بنالی اور نکال لی۔ پانچ دس سال کی ضرورت کیلئے کبھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔اسلئے اس ان کاقحط کبھی دور نہ ہوسکا۔ بجلی اس طریقے سے پیدا کی گئی کہ ایک بلب روشن کرنے کی قیمت شیر کے روغن سے چراغ جلانے سے بھی زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ آج بجلی و گیس کی شدید قلت ہے۔ عاقبت نا اندیش مشورے دیتے ہیں فلاں، فلاںجگہ ان کا استعمال بند یا کم کردیاجائے۔۔۔یہ خیرات نہیں ہے۔ ہر صارف سے خرچ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ وصولی کی جاتی ہے ،اس کی وافر مقدار میں فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے جو” ریاستدان“ پوری کرنے سے قاصر ہیں۔کالا باغ ڈیم بنانے سے انکاری، غیروں کے بھکاری بننے میں دلداری سمجھتے ہیں۔ ایران سے گیس بجلی اور تیل حاصل نہیں کیا کہ ڈالروں خیرات بند ہوجائیگی۔کسی بھی معاملے میں کوئی بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار نہیں۔شیر شاہ سوری کہلانے کا شوق ہے، ویسا ذوق نہیں، شیر شاہ سوری صرف بڑے شہروں کا ہی شاہراہ ساز نہیں تھا۔ شہروں کی بھی سنیئے سڑکیں رش سے جام پیک ہوجاتی ہیںتو ان کو آج کی ضرورت کے مطابق کشادہ کردیاجاتا ہے، آنیوالے کل کے بارے میں نہیں سوچا جاتا ، دوسرے سال انہی سڑکوں پر پھر ا ±سی طرح گھٹن اور حبس ڈیرے ڈالے ہوتی ہے۔ موٹر وے اچھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔اس کی بھی مخالفت ہوتی رہی۔مخالفین اتنے خرچے میں پورے ملک کی سڑکوں کی کارپٹنگ کا رونا روتے رہے۔ہونا یہ تھا کہ موٹر وے نہ بنتا تو یہ رقم بھی بڑی توندوں کے تندور میںاتر جاتی۔لاہور کی ریپڈ بس سروس منصوبہ شفاف ہے یا نہیں،البتہ کارآمد ضرور ہے خدا کرے یہ دیرپا ثابت ہو۔کراچی اور لاہور کے ایسے فلائی اوور ہوا کے جھونکوں سے بھی گرتے دیکھے گئے۔آپ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی صف میں ہرگز، ہرگز شامل نہیںہوسکتے جب تک مستقبل کو مدِنظر رکھ کر پلاننگ نہیں کی جاتی۔پانچ سال کیلئے منتخب ہونیوالی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا ہی یقین نہیں ہوتا۔حکمران دیہاڑی دار کی طرح ڈنگ ٹپا? پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے خاندان کے مستقبل کو روشن بنانے کی حکمت عملی پر کاربند رہتے ہیں۔ اس طرح ایک ایک دن مہینوںاور برسوں میں بدلتے اور سات دہائیوں میں ڈھل چکے ہیں۔آگے بڑھنے کے بجائے ہماری ترقی کو ریورس گیئر لگا ہوا ہے۔ہمارے کریڈٹ پر ایٹمی قوت بننے کے سوا کوئی کریڈٹ نہیںہے وہ بھی جس نے اس کی بنیاد رکھی اس پر پاکستان کو دولخت کرنے میں کردارادا کرنے کا الزام ہے۔کوئی ایک دن کیلئے بھی حکومت میں آئے وہ ملک کے مستقبل کو سنوارنے کا عہداور کوشش، کا وش اور جدوجہد کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک و قوم ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہ ہوسکے۔


پیر محمد کرم شاہ الازہری?
کالم نگار | فضل حسین اعوان
منگل 4-12-12
پیر محمد کرم شاہ الازہری? دینی و دنیوی تعلیمات سے یکساں مزین تھے۔ آپ نے سید المرسلین کے فرمان کے مطابق تعلیم کیلئے چین سے بھی آگے کا سفر کیا۔ تبلیغ دین حنیف کی خاطر دنیا کے کونے کونے تک گئے۔ آپ باعمل عالم، صوفی باشریعت اور پیر طریقت تھے۔ وکی پیڈیا سے دستیاب معلومات کے مطابق ضیا¿الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری? ایک عظیم صوفی و روحانی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مفسر، سیرت نگار، ماہر تعلیم، صحافی، صاحب طرز ادیب اور دیگر بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ تفسیر ضیا¿القرآن، سیرت طیبہ کے موضوع پر ضیا¿النبی صلی اللہ علیہ وسلم، 1971 سے مسلسل اشاعت پذیر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور،شاہکار کتاب س ±نت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔پیدائش جولائی 1918ئ سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ خاندانی روایت کے مطابق آپکی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا۔ محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول کا آغاز 1925ئ میں ہوا۔ پرائمری سکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھیں اس لحاظ سے اس سکول میں آپکی تعلیم کا سلسلہ 1925ئ سے 1929ئ تک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ئ میں گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپ? نے حضرت مولانا محمد قاسم بالا کوٹی سے فارسی کتب کریما، پندنامہ، مصدر فیوض، نامِ حق پڑھیں اور صرف و نحو اور کافیہ بھی پڑھیں۔ اسکے بعد مولانا عبدالحمید صاحب سے الفیہ، شرح جامی، منطق کے رسا ئل، قطبی، میر قطبی، مبزی، ملا حسن اور سنجانی جیسی کتابیں پڑھیں۔ دیگر کئی علما سے بھی آپ نے علم دین کی بعض دوسری مشہور و معروف کتابیں پڑھیں۔ 1941ئ میں اورینٹیل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کے حکم پر حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی سے 1942ئ سے 1943ئ تک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔ 1945ئ میں جامعہ پنجاب سے بی اے کا امتحان اچھی پوزیشن سے پاس کیا۔ ستمبر 1951ئ میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایم اے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایم فِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔ یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔ 1981ئ میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کئے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔آپ کی تصانیف میں، ضیا¿القرآن : 3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل ہے، یہ تفسیر آپ نے 19 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کی۔

جمال القرآن : قرآن کریم کا خوبصورت محاوراتی اردو ترجمہ جسے انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ ضیا¿النبی : 7 جلدوں پر مشتمل عشق و محبتِ رسول سے بھرپور سیرت کی یہ کتاب عوام و خواص میں انتہائی مقبول ہے۔ س ±نتِ خیر الانام : بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل یہ کتاب سنت اور حدیث کی اہمیت اور حجیت کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کی پہلی کاوش ہے جو آپ نے جامعہ الازہر میں دورانِ تعلیم تالیف کی۔ 1971ئ میں آپ نے ماہنامہ ضیائے حرم کا اجرائ کیا جو تاحال مسلسل شائع ہو رہا ہے۔

آپ کو کثیر تعداد میں قومی و عالمی اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں ستارہ امتیازسے حکومت پاکستان نے 1980ئ میں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔ نت الامتیاز مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ئ میں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے میں دیا۔ سندِ امتیاز حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ئ میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں دی۔ الدائرہ الفخری ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے جامعہ الازہر کا یہ سب سے بڑا اعزاز آپ کو دیا۔

 9 ذوالحجہ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ئ بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔ آپ? کے وصال پر پورے عالمِ اسلام سے امت مسلمہ کے عوام و خواص نے جس محبت و عقیدت کا اظہار کیا وہ ایک ضرب المثل بن گیا۔ آپ کی تربت آپ کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ حضرت امیر السالکین میں آپ کے دادا جان حضرت پیر امیر شاہ کے بائیں جانب کھودی گئی۔ وصال سے چند ماہ بعد 12 ما رچ بروز جمعتہ المبارک سے مرزا محمد آصف صاحب نے دربار عالیہ میں موجود تینوں قبور کا مشتر کہ تخت بلند کر کے انہیں بہترین قسم کے پتھر سے پختہ کر دیا۔ پیر صاحب کا عرس ہر سال 19، 20 محرم کو ہوتا ہے۔ اسی مناسب سے آپ کی دینی ملی اور قومی خدمات اور شخصیت کے مختلف پہلو¶ں کو اجاگر کرنے اوران سے رہنمائی لینے کیلئے سالانہ سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہفتہ یکم دسمبر2012 بمطابق 16محرم الحرام1434 ہجری کو لاہور کے آواری ہوٹل میں 7ویں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا اہتمام نوائے وقت میں نورِ بصیرت کے تخلیق کار رضائ الدین صدیقی صاحب نے حسبِ سابق کیا۔ رضائ الدین صدیقی نے اپنے رہبر و مرشد کی اجازت سے زاویہ فا¶نڈیشن لاہور کی بنیاد رکھی جس نے نہ صرف تصوف کی معتبر کتب کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا بلکہ ضیا¿الامت جسٹس پیر محمد کرم الازہری کی یاد میں علمی و روحانی تصوف سیمینارز کا انعقاد کر کے خانقاہی نظام اور صوفیا کے متعلق ا ±ٹھنے والے شکوک و شبہات کا شافی و کافی ازالہ کیا ہے۔ یہ سیمینار علم، عشق اور گداز سے معمور ہوتے ہیں جن میں شرکت کرنےوالے اخلاص، ادب، علم اور عشق کی سوغات لےکر جاتے ہیں اور پورا سال اس سیمینار کے انعقاد کے منتظر رہتے ہیں۔ علمی و روحانی سیمینار کی صدارت پیر محمد امین الحسنات شاہ نے فرمائی۔ کمپیئرنگ کی ذمہ داری زاویہ فا¶نڈیشن کے چیئرمین رضا ئ الدین صدیقی نے سرانجام دی۔آغاز قاری عبدالواحد کی مسحور کن تلاوت سے ہوا۔ مہمانانِ گرامی و مقررین میں سرگودہا یونیورسٹی کے شعبہ انگلش کے معروف پروفیسر صاحبزادہ احمد ندیم رانجھا، جامعہ الازہر کے ا ±ستاذ ڈاکٹر حافظ محمد منیر الازہری،سابق ڈائریکٹر مذہبی امور محکمہ اوقاف پنجاب، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ، خواجہ محمد یار فریدی گڑھی اختیار خان، رحیم یار خان کے گدی نشین خواجہ قطب الدین فریدی اورجناب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین شامل تھے۔چیئرمین زاویہ فا¶نڈیشن رضائ الدین صدیقی نے بتایا کہ ایک شخص نے مجھ سے فون پر رابطہ کر کے اعتراض کیا کہ شخصیت پرستی کب ختم ہو گی؟ اس شبہ کے ازالہ کیلئے صدیقی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک یہودی نے امام محمد کا شہرہ س ±نا تو حاضرِ خدمت ہوا، سوال و جواب کئے، متانت، خلوص اور تاثیر دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ اگر چھوٹا محمد اتنا خوبصورت ہے تو بڑا محمد کتنا خوبصورت ہو گا جن کا یہ غلام ہے۔ بزرگوں کی یاد میں سیمینار منعقد کرنا شخصیت پرستی نہیں بلکہ شخصیت شناسی ہے اور اس طرح حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ مشکوٰة نبوت سے اکتساب نور کرنے والے کتنے حسین ہوا کرتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ضیا¿الامت کی شخصیت دیکھ لو

۔ ہم تو دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جلوہ گر ہوتی ہے اس کے وجود میں حسن سمٹ آتا ہے۔ سیمینار کے صدر نشین، ضیا¿الامت کے جانشین پیر محمد امین الحسنات شاہ (چیئرمین متحدہ علمائ بورڈ پنجاب) نے اپنے خطاب میں فرمایا پہلے پروردگار نے دشمنوں کی زبان سے صادق و امین کہلوایا پھر اعلان نبوت کروایا، گویا جسے منصب ملے وہ صادق و امین ہونا چاہئے۔ ضیا¿الامت بھی صادق و امین تھے، جب آپ خواجہ محمد شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ) کی دعوت پر تشریف لے گئے تو کسی نے آپ کو سید کرم شاہ کہا تو آپ نے کھڑے ہو کر نہایت عاجزی سے کہا کہ لوگو! میں سید نہیں ہوں ،میں سادات کا غلام ہوں۔ میرا خاندان ہاشمی ہے۔ ساری سعادتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین کے صدقہ ہیں۔ والد گرامی نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی بنیاد ایک کمرے سے رکھی، آج سینکڑوں بلڈنگیں اور ادارے اسی ایک کمرے کی خیرات ہیں۔آپ نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ ضیا¿الامت اپنے بیٹوں کو اکٹھا کر کے نصیحت فرماتے : دو باتوں (-i امانت -ii بے تدبیری سے گریز) کی تم گارنٹی دو تیسری بات (کہ تمہیں کبھی کمی نہیں آئے گی) کی میں گارنٹی دیتا ہوں۔ قبلہ پیر صاحب نے فرمایا کہ امانت ممکن ہے لیکن بے تدبیری سے بچنا ازحد مشکل ہے۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ دنیا کے پاس سب کچھ ہے لیکن کردار نہیں ہے اور کردار صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے پاس ہے، اس حوالے سے آپ نے نیویارک میں مقیم ایک مسلم طالب علم کا واقعہ بھی س ±نایا کہ ا ±س نے ایک خاتون کا پرس، جو اس کی ٹیکسی میں بھول گئی تھی جس میں ہزاروں ڈالر تھے، کسی طرح اس تک واپس پہنچایا اور جب ا ±س نے انعام دیا تو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میرے کنٹریکٹ کا حصہ تھا، میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔یہ بات نیویارک میں پھیل گئی جب یہ بات مئیر کو معلوم ہوئی تو اس نے بلایا اور ایک نئی ٹیکسی کا اس کیلئے مفت اعلان کیا تو ا ±س مسلمان طالب علم نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہمارے پیارے نبی نے صداقت و امانت بیچنے سے منع فرمایا ہے۔


سائبر کرائم
کالم نگار | فضل حسین اعوان
2-12-12اتوار
کمپیوٹر میں ایسی سہولتیں بھی موجود ہیں‘ اگر آپ ماہر ہوں تو گھر بیٹھے روزانہ سینکڑوں‘ ہزاروں ڈالر اور روپے جائز طریقے سے کما سکتے ہیں۔ ایسے ماہر بھی ہیں جو اپنی مہارت اور کمپیوٹر کا مجرمانہ استعمال کر کے لاکھوں کی دہاڑی لگا لیتے ہیں اور کسی کے ہاتھ بھی نہیں آتے۔ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کے ایک ایسے ہی ماہر نے پورے ملک کی اے ٹی ایم (Automatic Teller Machine) پر کمپیوٹر کے ذریعے ہر ٹرانسیکشن پر تین سینٹ کی کٹوتی کا ڈیٹا فیڈ کر دیا۔ ملک میں روزانہ اے ٹی ایم کا استعمال لاکھوں بار ہوتا ہے۔ ہر بار تین سینٹ کٹنے سے رقم کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ اگر روزانہ 50 لاکھ ٹرانسیکشنز ہوں تو اس ماہر کے اکا¶نٹ میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ اور ماہانہ 45 لاکھ ڈالر منتقل ہوتے رہے۔ اس نے یہ سلسلہ کئی ماہ چلایا کئی سال‘ تین سینٹ اتنی معمولی رقم ہے کہ کسی کا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ بالآخر کسی دمڑی دمڑی کا حساب رکھنے والے کی رقم سے تین سینٹ حساب کتاب سے کم ہوئے تو اس واردات کا انکشاف ہوا۔ اس سے ہوا یہ کہ فراڈیے کا طریقہ کار تو پکڑا گیا وہ خود قانون کے ہاتھ نہ آ سکا۔ وہ شاید اربوں اور کھربوں ڈالر کا مالک بن گیا ہو لیکن اس کے فراڈ سے ملکی خزانہ کو کوئی نقصان پہنچا نہ کسی کا انفرادی طور پر بڑا نقصان ہوا۔ بہرحال یہ ایک جرم تو ہے ہی۔ کمپیوٹر کے ذریعے کی جانے والی بے ضابطگی اور جرائم کو سائبر کرائم کا نام دیا جاتا ہے۔ سائبر کرائم ترقی یافتہ ممالک میں تو اپنے عروج پر ہیں، یہ وبا اب پاکستان میں بھی پھیل رہی ہے۔ سائبر کرائم کا شکار ہونے والوں میں پڑھے لکھے اور اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے والے بھی شامل ہیں البتہ زیادہ نقصان لالچ میں آنے والے ،سادہ لوح اور فراڈیوں کی مجرمانہ ذہنیت سے نابلد لوگ بنتے ہیں۔ موبائل فون پر ”آپ کا انعام نکلا“ میسج پڑھ کر یا کال سن کر لوگ لالچ میں آ کر انعام کی وصولی کا طریقہ پوچھتے ہیں۔ جواب میں تین چار سو کا بیلنس منگوا کر فون ہمیشہ کیلئے بند ملتا ہے۔ بیرون ممالک سے ای میل آتی ہی، آپ کا لاکھوں پا¶نڈ‘ یورو یا ڈالر کا انعام نکلنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ لاٹری نکلنے کا خوش کن پیغام موصول ہوتا ہے۔ جہاں بھی لوگ لالچ میں آ کر ل ±ٹ جاتے ہیں۔ رابطہ کرنے پر 10 لاکھ ڈالر کی وصولی کیلئے چار پانچ ہزار ڈالر بھجوانے کی شرط رکھی جاتی ہے۔ جب دس لاکھ ڈالر وصول ہونے کی نوید پر یقین ہوتا ہے تو رات جاگتی آنکھوں سے حسین سپنے دیکھنے میں گزر جاتی ہے۔ پوری دنیا ہتھیلی پر نظر آتی ہے۔ لمبی گاڑی‘ بڑی کوٹھی اور نئی دلہن۔ ایسے خواب سے نکلنے کو دل نہیں کرتا۔ پھر چار پانچ ہزار ڈالر ادھار مانگ کر متعلقہ اکا¶نٹ میں جمع کر کے رشتہ داروں اور دوستوں کو فون پہ فون کر کے اپنی قسمت کے دھنی ہونے کے دعوے دہراتے ہوئے وہ دن آ جاتے ہیںکہ احباب و قرابت داروں میں شہرت ”بے وقوف اور لالچی“ کی ہو جاتی ہے۔ ہم سب کیلئے یہ سبق ہے کہ جب لاٹری کا ٹکٹ ہی نہیں خریدا تو لاٹری نکل کیسے آئی؟ جو آپ کو دس لاکھ دینے کیلئے بے قرار ہیں، ان سے کہیں 5 ہزار ڈالر ان دس لاکھ میں سے کاٹ کر باقی رقم بھجوا دیں۔ گذشتہ دنوں پروفیسر اختر شمار صاحب کی مصر سے ای میل موصول ہوئی کہ ان کی سفری دستاویزات اور پاس نقدی کھو گئی ہے۔ ان کو تین ہزار ڈالر کی اشد ضرورت ہے وہ فوری طور پر دیئے گئے اکا¶نٹ میں جمع کرا دیں تاکہ ایک تکلیف سے نجات ملے۔ ایسی ای میلز دیگر نہ جاننے والے لوگوں کی طرف سے بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔ اختر شمار صاحب کی ای میل پڑھ کر کوئی حیرانی و پریشانی نہیں ہوئی تاہم تھوڑی دیر بعد ان کا فون بھی آ گیا کہ ان کا ای میل ایڈریس ہیک ہو گیا تھا اور یہ پیغام ہیکر کی کارستانی تھی۔ایسی واردات ای میل کا کوڈ لیک ہونے سے ہوتی ہے۔ عموماً کوڈ یا پاس ورڈ اس وقت لیک ہوتا ہے جب کچھ ڈا¶ن لوڈ کرنے کیلئے ای میل ایڈریس اور کوڈ انٹر کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا ضروری ہو تو کوڈ فوری طور پر تبدیل کر دینا چاہئے بلکہ کوڈ تبدیل کرتے رہنا بہتر ہے۔ ملاحظہ فرمایئے! میں نے کالم اس مرحلے پر ایک نظر ای میلز پر ڈالی تو تانیہ شرما‘رشما ڈیسائی اورکویتا کی میلیں موصول ہوئیں۔ الگ الگ میل سے ایک ہی ملازمت کی پیشکش کی گئی ہے۔یقینا یہ پیشکش ہزاروں لوگوں کو کی گئی ہوگی جس میں رابطے کے لئے کہا گیا ہے۔ یہ خواتین کہاں کی ہے انکے پاس نوکری کیسی ہے اس کا کوئی ذکر ہی نہیں۔اب دیکھئے اس جال میں کتنے لوگ پھنستے ہیں۔اے ٹی ایم مشین جہاں ہمیں سہولت فراہم کرتی ہے ‘وہیں اس کے ذریعے فراڈ بھی ہوتے ہیں۔ اے ٹی ایم مشین میں جعلساز ایک الیکٹرو میگنیٹک چپ فٹ کر کے کارڈ میں درج معلومات حاصل کر کے آپ کے بیلنس پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔اس طریقہ داردات کو سکمنگ SKIMMING کہتے ہیں۔ بعض صورتوں میں بنک ملازم بھی مجرموں سے ملے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی واردات سے آپ پوری عقل و دانش استعمال کر کے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے البتہ قسمت اچھی ہو تو اپنی ہی کسی غلطی سے چور پکڑا جائے تو آپ کا نقصان پورا ہو سکتا ہے۔ شاپنگ کے بعد کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کے دوران دکاندار یا جو بھی وصول کنندہ ہے وہ بڑی آسانی سے آپ کے کارڈ کی نقل بنا کر اس سے اصل کام لے سکتا ہے۔اس طرح کی حرکت اور حکمتِ عملی کو سپو فنگ ) (SPOOFINGکا نام دیا جاتا ہے۔آپ کی غیر محتاط گفتگو اور میسجز بھی آپ کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں‘ خیال رہے دوسرے سرے پر ریکارڈنگ اور لا¶ڈ والیوم کی سہولت موجود ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں سائبر کرائم میں ترقی ہوئی ہے تو ان میں مجرموں پر قابو پانے کیلئے قوانین بھی بنا دیئے گئے ہیں۔ ہمارے ہاںسائبر کرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ قوانین ابھی ابتدائی اور ارتقائی مراحل میں ہیں۔