About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, June 30, 2011

روشنی کا سفر


جمعرات ، 30 جون ، 2011



روشنی کا سفر
فضل حسین اعوان
اس افراتفری، خودغرضی اور مکر و فریب کے دور میں دنیا سے خیر اٹھی ہے نہ انسانوں اور انسانیت کے خیر خواہ معدوم اور مفقود و لاموجود ہوئے ہیں۔ صدق و صفا کے چراغ ظلمتِ شب میں حق و صداقت کی راہوں کو منور کئے ہوئے ہیں۔ چراغ سے چراغ جل رہا ہے، شمع سے شمع فروزاں ہو کر نور بکھیر رہی ہے۔ کہیں انسان کی اتنی اونچی اڑان ہے کہ تڑپتی بلکتی سسکتی انسانیت پر اس کی نظر ہی نہیں پڑتی۔ کہیں انسان، انسانیت کو کرب، زندگی و موت کی حرب میں دیکھتا ہے تو اس کے ضبط و برداشت کے تمام بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ شدت غم و الم اسے انسانیت کی دیوانہ وار خدمت پر مائل کر دیتی ہے۔ انسانیت کو مصائب کے بھنور سے نکالنے کا جذبہ لامحدود وسائل سے بہرمند اور محض اپنی ضروریات پوری کرنے پر کاربند، کسی بھی شخص کے دل میں موجزن ہو سکتا ہے۔ بے وسیلہ انسان بھی خلق خدا کی خدمت کا عہد کرے تو ذاتِ باری تعالیٰ اس کی نیت کو ثمربار کر دیتی ہے۔ ہم سے ہر کوئی صاحبِ ثروت ہو یا تصویر عسرت و غربت، اپنے حصے کی شمع روشن کر سکتا ہے۔ راستے سے پتھر اٹھا دینا، نابینا کو راستہ دکھا دینا، معذور کی ڈھارس بندھا دینا، کچھ نہ ہو سکے تو دوسروں کیلئے نیک جذبات رکھنا اور دعا دے دینا بھی سراسر خیر ہے۔ روشنی کا سفر ہے۔جب بندہ ¿ خدا، خدا کے بندوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے کمر باندھ لیتا ہے تو خدا بھی اس کے مشن کو خود تھام لیتا ہے۔ پھر کامیابیوں کا سفر، کامرانیوں کا سفر اور روشنی کا سفر شروع، بندہ ¿ خدا روشنی کا سفیر بن جاتا ہے۔
تاریخ انسانیت کے خدمت گاروں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آج ہم ذکر کریں گے شادباغ لاہور میں محمدی آئی کیئر سنٹر کا۔ یہ شمع 1979ءمیں محمد شفیق جنجوعہ نے روشن کی جو آج مینارہ ¿ نور بن کر روشنی کی کرنیں پورے ملک میں بکھیررہی ہے۔ محمدی آئی کیئر سنٹر شفیق جنجوعہ اور ان کے صاحبزادگان کی شبانہ روز کاوشوں کے باعث اب آئی کمپلیکس کا روپ دھار گیا ہے جہاں نہ صرف امراضِ چشم بلکہ امراض قلب سمیت دیگر امراض کا علاج بھی ہوتا ہے۔ غریب لوگوں کیلئے بالکل فری، سفید پوش اور امراءاپنے اخراجات خود برداشت کریں تو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ غریب ہو ، سفید پوش یا امیر کبیر، سب کی عزت نفس کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ایسا سسٹم ہے کہ جو مفت علاج کراتے ہیں اس کا علم علاج کرانے والے اور خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ محمدی آئی کیئر سنٹر (میک) کی خدمات کو اہل علاقہ نے سراہا، اپنا کردار ادا کیا اور استفادہ کیلئے لوگ کھنچے چلے آئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اس کمپلیکس کی تنگ دامانی اس میں توسیع کی متقاضی ہے۔ اس کے پیش نظر میک کیلئے 40 مرلے کی دو منزلہ عمارت خریدی گئی ہے جس میں جدید ترین مشینری کی تنصیب، آپریشن تھیٹرز کی تعمیر اور دیگر ضروریات کیلئے 10 کروڑ روپے کے اخراجات متوقع ہیں۔ محمد شفیق جنجوعہ اور ان کی ٹیم کو یقین محکم ہے کہ یہ اخراجات بھی پورے ہو جائیں گے، کہاں سے؟ جہاں سے اب تک پورے ہوتے آئے ہیں۔ 
جنجوعہ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے انسانیت کےلئے اپنی خدمات کو صرف علاج معالجے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے مشن کو ہمت ٹرسٹ کا نام دے کر دیگر شعبوں تک بھی پھیلادیا ہے۔ مستحق طلباءو طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے سکالرشپ دے رہے ہیں، خواتین کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ ہے۔ پشاور میں 2001ءمیں لڑکیوں کے پرائمری سکول کی بنیاد رکھی، آج یہ سکول ڈگری کالج بن چکا ہے۔ 2005ءکے قیامت خیز زلزلے کے بعد ہمت ٹرسٹ نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کو گھروں کی تعمیر کیلئے مٹیریل فراہم کیا۔ تعمیر متاثرین نے ایک دوسرے سے مل کر خود کی۔ کئی سال سے قربانی پراجیکٹ کے تحت غرباءمیں گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ روزگار سکیم بڑی کامیابی سے جاری ہے جس میں خواتین میں سلائی مشینیں تقسیم کی جاتی ہیں اور مردوں کو مالی امداد کے ساتھ کاروبار کرنے کیلئے رہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ روشنی کا سفر کبھی تمام نہیں ہوتا۔ جاری رہتا ہے۔آپ کے سامنے بھی روشنی کا سفر ہے۔ آپ بھی روشنی کے سفیر بن سکتے ہیں۔ آپ جس حیثیت میں بھی ہیں اپنے حصے کی شمع روشن کر سکتے ہیں، چھوٹی سی تنظیم بنا سکتے ہیں، بہت بڑا ٹرسٹ بنا سکتے ہیں۔ انسانی خدمت کے مواقع اور راستے بیشمار ہیں۔ کسی قیدی کو چھڑوا سکتے ہیں، کسی بیگناہ کی ضمانت کرا سکتے ہیں، کسی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرا سکتے ہیں، کسی کو قرض سے نجات دلا سکتے ہیں، کسی کے کفن دفن کا اہتمام، کسی کو موت کے منہ میں جانے سے روکنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ! آپ کے پاس وقت محدود اور راستے مسدود ہیں تو ہمت ٹرسٹ کو اپنے عطیات دے کر اسی روشنی کے سفیر بن سکتے ہیں۔رابطے کیلئے فون نمبر ہے۔ 042-37285841,35512742, 0333-4217818اکاﺅنٹ نمبر 0221-01002270 بنک الفلاح شادباغ لاہور



Wednesday, June 29, 2011

کڑا احتساب

بدھ ، 29 جون ، 2011



کڑا احتساب
فضل حسین اعوان
ہم پاکستانی بیک وقت اچھائی اور برائی کی انتہاﺅں پر ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں پاکستانیوں سے بڑھ کر رفاعی، فلاحی اور بہبودی کام ہوتے ہوںگے۔ خیراتی اداروں کا کوئی شمار قطار نہیں۔ مزاروں درگاہوں اور خانقاہوں پر ہمہ وقت لنگر کھلے رہتے ہیں۔ کھربوں کے اثاثوں کا مالک بلقیس ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ لوگوں کے عطیات پر چلتا ہے۔ عمران خان کے شوکت خانم ہسپتال کے سالانہ اڑھائی تین ارب روپے کے اخراجات بھی اہل ثروت پورے کرتے ہیں۔ ملک میں ہزاروں ویلفیئر ٹرسٹ انفرادی یا اجتماعی کوشش اور کاوش سے چل رہے ہیں۔ دوسری طرف دغا فریب جھوٹ فراڈ اور جعل سازی میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ گذشتہ روز شہباز شریف نے مری میں پارکوں کی غیر معیاری اور ناقص تعمیراتی کام کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کے احکامات جاری کئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے پی آئی اے پارک مری کے ٹھیکیدار کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود اسے گرفتار نہ کرنے پر ایس ایچ او مری کو معطل کر دیا۔ معطلی بھلا کونسی سزا ہے؟ دو چار دن بعد بحالی۔ تین سال میں شہباز شریف نے اوپر سے نیچے تک بہت لوگوں کو معطل کیا۔ اگر یہ دوسروں کے لئے سبق کا سامان بنے ہوتے تو کوئی اصلاح نظر آتی۔ جن الزامات پر معطلی ہوتی ہے۔ اس کی انکوائری ہو۔ جرم ثابت ہونے پر اس کے مطابق سزا ملے۔ ہتھکڑیاں، قید اور برطرفیاں۔ تو یقیناً دیکھنے اور سننے والے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ شکایت کا موقع نہ دیں یہی اصلاح ہے۔ بعض حکام اور اہلکار تو معطلی کو ریسٹ سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں۔ معطلی کی سزا کو یہ لوگ جزا سمجھتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں آخر معیار رہ کہاں گیا ہے؟ سرکاری خزانے سے بننے والی سڑکیں عمارتیں پل، گلیاں نالیاں سیوریج پارکیں وغیرہ۔ پانی کے بلبلے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ نوازشریف نے سچ کہا کہ ہم نے موٹروے بنا دی۔ جی ٹی روڈ برسہا برس سے بن رہی ہے اس کی تعمیر کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی۔ طویل سڑکوں کی بات کُجا چند کلومیٹر سڑک ایک طرف مکمل ہوتی ہے دوسری طرف اس کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ پھر نیا ٹھیکہ اور پرانے ٹھیکیدار۔ سڑک کے اوپر سڑک۔ بازاروں اور گلیوں سے پرانا ملبہ اٹھائے بغیر نئی تعمیر۔ چند سال میں گھر دکانیں اور کاروباری عمارتیں ”کھوہ“ بن جاتی ہیں۔ بارش اور سیوریج کے پانی کو نکاس کے لئے راستوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں رہتی.... استعمال کی کونسی چیز ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ ہر چیز جعلی بناوٹی اور ملاوٹی۔ اشیائے خورد و نوش سمیت۔ ملاوٹ کرنے والے جہاں اپنی عاقبت برباد کر لیتے ہیں وہیں استعمال کرنے والوں میں بیماریاں بانٹتے اور ان کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ اکثر جعلسازوں کو قدرت دوسروں کے لئے عبرت بناتی ہے لیکن ہمیں موت تو یاد ہی نہیں۔ جنازے اٹھتے دیکھتے ہیں تو سمجھ لیا جاتا ہے۔ اساں بلھیا مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور۔ مرکزی اور صوبائی سطح پر متعدد بار ملاوٹ کے خلاف بڑے طمطراق سے مہمیں شروع ہوئیں۔ جو ملاوٹ مافیا کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ تجاوزات کے خلاف کیا کبھی کوئی آپریشن کامیاب ہوا؟ چند روزہ غلغلے کے بعد خاموشی اور پھر پسپائی.... معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ عزم و ارادے اور کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔ جو اب تک تو کہیں نظر نہیں آیا۔ سخت احتساب کے بغیر معاملات درست قطعی نہیں ہو سکتے۔ ایک واقفِ حال نے نوائے وقت کو مراسلہ بھجوایا۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔ 
ایک سابق وفاقی وزیر نے پھر وفاقی وزیر بنتے ہی دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ پوسٹنگ، ٹرانسفر فی آفیسر لاکھوں روپے تک وصول کئے گئے ہیں۔ اپنے دفتر کی خصوصی مرمت بغیر ٹینڈر دوست کو ایک کروڑ سے زائد کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ اپنی ذاتی اور اپنے بہنوئی کی کوٹھی واقع کراچی کی خصوصی مرمت پی ڈبلیو ڈی کے افسران کر رہے ہیں اور موصوف کے اپنے گاﺅں میں پی ڈبلیو ڈی کے افسران فارم ہاﺅس تعمیر کر رہے ہیں۔ 1988ءمیں موصوف جب ممبر قومی اسمبلی بنے تو انہیں پیپلز ورکس پروگرام کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے دست راست کو ڈائریکٹر جنرل مقرر کروایا اور خوب مال کمایا۔ حکومت ٹوٹنے کے بعد سارا ریکارڈ نذر آتش کر دیا گیا اور موصوف غیر ملک کو فرار ہو گئے۔ اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ 
بدعنوانی، کرپشن، بے ایمانی اور بددیانتی کے حوالے سے شاید ہر تیسرے وزیر مشیر کا ایسا ہی تاریخی ریکارڈ ہے۔ پہلی کرپشن پر گرفت ہو جائے تو کرپشن کا سدباب ممکن۔ ڈھیل مل جائے تو بے ایمان لوگ مزید شیر ہو جاتے ہیں۔ لوٹ مار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حل ایک ہی ہے پائی پائی کا حساب اور کڑا احتساب۔ سلسلہ اوپر سے شروع کر کے نیچے تک لایا جائے۔



Tuesday, June 28, 2011

اتحاد....اتفاق ....اور انقلاب

 منگل ، 28 جون ، 2011



اتحاد....اتفاق ....اور انقلاب
فضل حسین اعوان
صلیب اور ہلال کے مابین معرکہ آرائی اور پنجہ آزمائی صدیوں پر محیط ہے۔ صلیبی جنگیں ہمیشہ مسلم و نصا ریٰ کے درمیان لڑی گئیں۔ آج لڑی جانیوالی جنگ میں ہنود و یہود صلیبیوں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں۔ آج کی صلیبی جنگ یقینا معرکہ حق و باطل ہے۔ ہم نے سن رکھا ہے۔ مشاہدہ بھی ہے اور اپنے اسلاف کا تجربہ بھی، کہ حق ہمیشہ باطل پر غالب رہا لیکن موجودہ حالات میں ممکن نہیں کہ تاریخ خود کو دہرا دے۔ اس لئے نہیں کہ باطل طاقت ور ہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ طاغوتی شیطانی اور ابلیسی قوتیں متحد ہو گئی ہیں۔ اس لئے کہ اہل اسلام بھی صلیبیوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ ایک پنجابی ڈائیلاگ بڑا مشہورہوا تھا ۔ ”مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا“۔ بالکل ایسے ہی مسلمان کو مسلمان نہ مارے تو مسلمان بھی نہیں مرتا۔ صلیبیوں کا ساتھ دینے والوں کو آپ منافق کہیں، غدار، دین فروش، ملت فروش یا وطن فروش اس سے فرق نہیں پڑتا حقیقت اور اٹل حقیقت یہی ہے کہ اکثر اسلامی ممالک کے حکمران معرکہ حق و باطل میں حق کے ساتھ نہیں ہیں۔ سامراج و استعمار نے عراق، افغانستان کو ملیا میٹ کیا۔ پاکستان کی تباہی اور لیبیا کی تا راجی جاری ہے۔ دنیا میں قیا م امن، جمہوریت کے فروغ اور آمریتوں کے خاتمے کے دعویداروں، علمبرداروں اور تھانیداروں کو قبرص، شمالی تیمور اور جنوبی سوڈان میں عیسائی آبادی کے انسانی حقوق تو یاد آ گئے۔ فلسطین میں یہود، کشمیر میں ہنود کی بربریت اور سفاکیت کی پروا نہیں۔ یہاں ہر روز انسانیت بلکتی اور سسکتی ہے۔آج اسلام اور اہل اسلام مشقِ ستم ہیںرسول اللہ کے خاکے بنا کر، قرآن جلا کر اور فاطمہ و زینب کے حجاب و نقاب اوڑھنے پر پابندیاں لگا کر ہمارے قلب و جگر شق کئے جا رہے۔ اہل ایمان کو مشکلات، مصائب، آلام اور ظلم و جبر کی چکی میں پستے دیکھ کر دل پھٹتا اور جگر کھٹتا ہے۔ عالم اسلام میں اتفاق کے بجائے انتشار اور نفاق پر دل کُڑھتا ہے۔ مسلمان ایک ہو جائیں۔ اقوام متحدہ کی طرز پر اسلامی اقوامِ متحدہ بنا لیں۔ یورپی یونین کی طرز پر یونین ترتیب دیں لیں۔ جی ٹونٹی، ڈی ایٹ شنگھائی اور سارک تنظیم جیسے پلیٹ فارم کی تشکیل کر لیں تو غیروں کی غلامی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسلام پھر سے سپر پاور بن سکتا ہے۔ ضرورت اہل اسلام میں اتحاد و اتفاق کی ہے۔ہم عالمی سطح پر اسلامی ممالک کے اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ ہم خود بطور خاندان، معاشرہ، مذہبی اور سیاسی حوالے سے کتنے متحد ہیں؟ فرقہ ورایت اور سیاسی عدم برداشت معاشرے میں ناسور کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ مملکت خدا داد پاکستان لااِلہ الااللہ کے نام پر حاصل کی گئی تھی۔ عام آدمی کی حسرت اور تمنا ہے کہ اس میں لااِللہ کا ہی دور دورہ ہو۔ 1997ءمیں نظام مصطفی تحریک اور 2002ءکے انتخابات سے قبل مجلس عمل کے قیام سے نفاذ اسلام کی کرن نوید سے نومید دلوں میں ایک روشنی ہی پھوٹی لیکن حتمی نتیجہ ظلمت اور تاریکی کے سائے کی صورت میں سامنے آیا۔ ہمارے ہاں مذہبی عدم برداشت انتہا پر ہے جو فرقے اور مسالک ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہیں تھے وہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر آئے تو ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہو گئے۔ یہ مذہبی رواداری کا عروج تھا لیکن پھر بکھر گئی مجلس عمل۔ حضرت مولانا فضل الرحمن امریکہ کی اشیر باد سے سولو فلائٹ کی کوشش کر چکے ہیں۔ امریکہ ان کو اقتدار دلا بھی دیتا ہے تو ان کے مخصوص خاندانی مسلکی اور سیاسی پس منظر کے باعث وہ اکثریتی آبادی کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتے لیکن مجلس کے پلیٹ فارم پر بسم اللہ۔ آج سب سے زیادہ ٹکڑوں میں مسلم لیگ بٹی ہوئی ہے۔ اس کے بعد مذہبی جماعتیںمسلم لیگیں متحدہ ہونی چاہئیں۔ مذہبی جماعتوں کا ایک دوسری کے ساتھ اور خود ہر مذہبی جماعت کے اندر بھی اتحادہونا چاہیے۔ گزشتہ روز مولانا سمیع الحق لاہور میں تھے۔ وہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کا ذمہ دار ثبوتوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کو ٹھہرا رہے تھے۔ بکھری ہوئی مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ان کو جو تلخ تجربات ہوئے وہ دہرانے پر آمادہ نہیں لیکن ان کے پاس مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا کوئی اور نسخہ بھی نہیں۔ بہتر ہے کہ وہ پھر سے کڑوا گھونٹ بھریں۔ حضرت مولانا سمیع الحق دل بڑا کریں جمعیت کے اتحاد کی پہلی اینٹ رکھیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کو جو وہ چاہتے ہیں دے دیں۔ منبرو محراب کی طرہ داری، خلعت، جبہ ودستار کی وضعداری، مساجد کی بھی خدمت گاری، مدارس کی سرداری، ڈیزل کے دو چار ٹینکر اور اپنے پاس جمع شدہ ریز گاری۔ پھر مجلس عمل کو بحال کریں۔ ہر پارٹی ایثار کا جذبہ لے کر اتحاد میں شامل ہو تو اتحاد بھی یقینی جیت اور اقتدار بھی یقینی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن اخلاص کا دامن تھام لیں، دیگر جماعتوں کے ایثار کی طرح۔ قائد اعظم کے پاکستان نے ان کو سب کچھ دیا۔ اس میں سے کچھ تو لوٹا دیں۔ پیسوں کی صورت میں نہیں۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور استحکام کی جدوجہد کی صورت میں۔ آزادی کشمیر کے لئے بے باکانہ کردار کی صورت میں۔ تو پاکستان میں انقلاب آ سکتا ہے سبز انقلاب اور اسلامی انقلاب، جس کا خواب حضرت قائد اعظم نے دیکھا تھا۔ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کا!


Sunday, June 26, 2011

آزادکشمیر الیکشن

 اتوار ، 26 جون ، 2011

آزادکشمیر الیکشن
فضل حسین اعوان 
دلربا ہواﺅں، پربہار فضاﺅں میں لہراتے، جھولتے چناروں، فلک بوس پہاڑوں، حسین سبزہ زاروں، مہکتے چمن زاروں، ابلتے چشموں، بل کھاتی ندیوں کی سرزمین وادی جنت نظیر، خطہ ¿ آزادکشمیر میں آج عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ وہی وادی جسے صوبہ سرحد کے قبائل نے بھارت کے پنجہ استبداد سے آزادی دلائی۔ قائداعظم نے قبائل کو بے جگری، دلیری اور شجاعت سے لڑنے پر پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کا لقب دیا تھا۔ قائداعظم کے خطاب یافتہ بازوئے شمشیر زن آج زیر عتاب ہیں۔ ان پر حکمران مہربان ہونے کے بجائے قہرمان بن گئے۔ ان پر ایک طرف ان کی اپنی فوج کی یلغار اور دوسری طرف امریکی ڈرون حملوں کی بھرمار ہے۔ لاشیں گر رہی ہیں۔ اعضا کٹ رہے ہیں۔ دھرتی خون رنگ ہے، درختوں پودوں کی کونپلوں سے بھی خوں رس رہا ہے۔ جس پر بارود برستا ہے ان کی زندگی کا ہر لمحہ قیامت کا لمحہ اور صدیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ ان کو تو دس سال سے قیامت خیز، اذیت ناک اور کربناک لمحات کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ”قبائلی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں تو فوج واپس چلی جائے گی“ قبائلی علاقوں میں امریکی جنگ تو چند سال قبل مسلط ہوئی اس سے قبل قبائل ہی ان علاقوں کی حفاظت کر رہے تھے اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ آج ہم نے ان میں محب وطن اور غیر محب وطن کی تفریق پیدا کر کے ان کو بھی باہم دست و گریباں کر دیا۔ جنرل کیانی فوج واپس لے جائیں تو قائداعظمؒ کے قرار دئیے ہوئے بازوئے شمشیر زن اپنے علاقوں سے را، موساد اور سی آئی اے کے ایجنٹوں سے نمٹ لیں گے۔ حکومتِ وقت ان پر قائداعظم جیسا اعتماد کرے تو یہ آج بھی 63 سال قبل کی تاریخ دہراتے ہوئے آزادکشمیر کی سرحدوں میں توسیع کر سکتے ہیں۔ کیانی صاحب نے جو کہا فوزالمراد یعنی اس کا مقصد بھی وہی ہے تو اس پر فوری عمل کر گزریں۔ اس اعلان یا فیصلے کا حشر بھی پارلیمنٹ کی قراردادوں اور عمائدین حکومت اور اکابرین عساکر کے دعوﺅں جیسا نہ ہو کہ ”اب ڈرون حملے برداشت نہیں کریں گے“
بات وادی کشمیر میں الیکشن کی ہو رہی ہے جس میں 22 پارٹیوں کے 421 امیدوار میدان میں ہیں کل نشستیں 41 ہیں۔ پاکستان اور آزادکشمیر میں آج سیاست کا ایک سا چلن اور بانکپن ہے۔ الزام، دشنام ہنگامہ، دھینگا مشتی، نورا کشتی، انسانوں کی سوداگری، لوٹ مار اقربا پروری اور اور اور.... سب کچھ .... یہاں کی ”رول ماڈل“ جمہوریت وہاں بھی آزمائی جا رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے جنم کا سلسلہ جاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی خاطر ہزار سال جنگ لڑے کا عزم کیا تھا۔ لیکن جس جنگ کے بعد وہ اقتدار میں آئے اس میں پاکستان دو نیم ہو چکا تھا۔ وہ آزادکشمیر میں بھی پیپلز پارٹی کا تخم بونا چاہتے تھے۔ ان کے دل کی بات زبان پر آئی۔ اس پر عمل سے قبل نظامی صاحب نے ملاقات کر کے ان کو قائل کر لیا کہ کشمیریوں کو ان کی سیاست کرنے دی جائے۔ بھٹو صاحب مان گئے لیکن 91ءمیں ان کے جاں نشینوں نے آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈال دی۔ مسلم لیگ ن سردار عبدالقیوم کی انتخابی مہم کا سائبان رہے۔ سردار قیوم اپنے بیٹے آج کے وزیراعظم آزادکشمیر سردار عتیق کو ساتھ لے کر ن لیگ کی انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔ اب ان کے درمیان نجانے وہ کونسے اختلافات ہوئے کہ میاں صاحب نے وہاں الیکشن میں مسلم لیگ ن اتار دی۔ دنیا دو پارٹی سسٹم کی طرف آ رہی ہے ہم 22 پارٹی سسٹم لا رہے ہیں۔ بہرحال انتخابی مہم بڑی زوردار رہی۔ نوازشریف اور شہباز شریف نے بڑی سرگرمی دکھائی۔ سردار عتیق بھی پیچھے نہ رہے، الطاف حسین فون پر سرگرم تھے۔ آصف علی زرداری نے گیلانی اور منظور وٹو پر تکیہ کیا۔ انہوں نے بھی خوب فٹیگ نبھائی۔ نوازشریف، سردار عتیق اور الطاف حسین اپنی اپنی پارٹی کی کامیابی کے لئے سرگرداں رہے، گیلانی اور وٹو زرداری کی پارٹی کا خود کو جتنا بیکراں ثابت کر سکتے تھے کر دیا۔ ماروی کی طرح اگلا الیکشن کسی اور پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھی لڑ سکتے ہیں۔ آج جس مقام پر ہیں مسکراہٹ کے ساتھ یہ گنگناہٹ لبوں پر ضرور رقصاں رہتی ہو گی۔ جس میں ان کے مطلب کی بات بھی ہے۔ 
حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں پیر دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کتی مرے فقیر دی، جیڑی چوں چوں نت کرے
پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے



Saturday, June 25, 2011

پلاننگ....کشمیر اور پاک بھارت تجارت


ہفتہ ، 25 جون ، 2011


پلاننگ....کشمیر اور پاک بھارت تجارت
فضل حسین اعوان 
قدرت نے اپنا ایک نظام قائم کر دیا۔ زمین آسمان، چاند سورج، ستارے، سیارے، کہکشائیں خلائیں فضائیں، سب خودکار سسٹم کے تحت کام کر رہے ہیں۔ کوئی اپنی جگہ ساکت، کوئی متحرک ہے۔ انہیں تیل کی ضرورت نہ ڈرائیور کی۔ خدا نے کُن کہا تو کائنات وجود میں آ گئی۔ اب ربِّ ذوالجلال کے حکم پر نظام چل رہا ہے۔ انسان کو خود مختار بنایا گیا۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر اُسے وہی ملے گا جس کے لئے کوشش کرے گا، تگ و دو کرے گا اور سرگرداں ہو گا۔ زندگی میں پلاننگ بڑی اہمیت رکھتی ہے، انفرادی زندگی میں اور قوموں کی زندگی میں بھی۔ کامیابی کے لئے پلاننگ کے ساتھ اس پر عمل کے لئے محنت ناگزیر ہے۔ عروج انہی قوموں کا مقدر بنا جنہوں نے بہترین پلاننگ کی، اس پر عمل کیا اور جہد میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قرنِ اول کی کامیابیاں، سلطنت کا پھیلا ¶ بہترین منصوبہ بندی اور اس پر عمل پیہم و جہدِ مسلسل کا انعام تھا۔ برطانیہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہ بھی اسے بیٹھے بٹھائے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں مل گئی تھی اس کے پیچھے صدیوں کی منصوبہ بندی اور سازشیں کارفرما تھیں۔ دولت عثمانیہ کسی دور میں برطانیہ کے عروج کے دور سے بھی بڑی مملکت تھی اسے سکیڑنے اور بکھیرنے کے لئے برطانیہ نے صدیوں پلاننگ کی۔ ہیمفرے کو 1720ءمیں جاسوسی کے لئے بھجوایا گیا۔ اس سے قبل 1710ءمیں پانچ ہزار گورے ترک سلطنت میں سرایت کر چکے تھے، لارنس آف عریبیہ اِنہیں جاسوسوں کا تسلسل تھا۔ برطانوی بالآخر 1924ءمیں سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 
قائداعظم نے اپنی جان کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے جان لیوا بیماری کے باوجود دن رات ایک کر کے ہمیں پاکستان لے کے دیا۔ پاکستان نے ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر پہلا قدم ہی رکھا تھا کہ قائداعظم اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس کے بعد سے پاکستان آٹو پر ہے۔ شاید ہمارا قدرت اور اس کے خودکار سسٹم پر زیادہ ہی یقین ہے۔ زمین اپنے مدار میں گھوم رہی ہے۔ ہم نے بھی اپنے اپنے مفادات کو محور بنا لیا ہے ان کے گرد رقصِ کناں ہیں۔ قومی معاملات اور مفادات گردش اور گھن چکر میں ہیں۔ ہم سے 63 سال میں کشمیر کے حصول کی پلاننگ نہیں ہو سکی۔ اس پر عمل اور پھر کوشش کی بات تو بعد کی ہے۔ سالانہ کروڑوں کی مراعات پر ہاتھ صاف کرنے والے طبقے کا ایک اور کارنامہ ملاحظہ فرمائیے، گزشتہ سال یورپی یونین نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر ترس کھا کر پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر تین سال تک 75 مصنوعات کو ڈیوٹی فری برآمد کرنے کی اجازت دی جس سے پاکستان کی برآمدات میں 90 کروڑ یورو سالانہ اضافہ متوقع تھا۔ یورپی یونین کی اس پیشکش پر عمل کے لئے 153 ممالک کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی منظوری ضروری تھی۔ 150 ممالک نے پاکستان کے حق میں رائے دی، بھارت اور بنگلہ دیش نے کھل کر مخالفت کی، سری لنکا نیم دلی سے ان کے ساتھ تھا۔ بھارت کے ویٹو کرنے پر معاملہ بگڑ گیا اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو دی گئی رعایت م ¶خر کرنا پڑی۔ یورپی یونین کی رعایت کا معاملہ گزشتہ سال اکتوبر سے چل رہا تھا۔ اس کے بعد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اہم ممالک کو اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کے لئے ہماری وزارت نے کیا کوئی کوشش کی؟ اس کا جواب بنگلہ دیش اور سری لنکا کی مخالفت اور بھارت کی ویٹو کی صورت میں سامنے ہے۔ رواں سال 27، 28 اپریل کو اسلام آباد میں پاکستان بھارت تجارت کے سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ راہول کھلر اور ان کے پاکستانی ہم منصب ظفر محمود دلوں میں ایک دوسرے کے ملک کو تجارت کے لئے پسندیدہ قرار دینے کے دیپ جلائے بیٹھے تھے۔ اس پر تو پیشرفت نہ ہو سکی تاہم یہ عقدہ ضرور کُھلا کہ دونوں ممالک کے مابین 1946 اشیاءکی تجارت ہو رہی ہے۔ کشمیریوں کے خون میں ڈوبی ہوئی دوطرفہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر ہے۔ پاکستان بھارت کو 30 کروڑ ڈالر جبکہ بھارت پاکستان کو ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ ہے کوئی توازن تجارت میں؟ تجارتی وفود کے مابین بڑی پیار بھری باتیں ہوئیں جیسی آج نروپما را ¶ اور سلمان بشیر کے درمیان ہو رہی ہیں۔ اُس موقع پر ہماری وزارتِ تجارت اس امر سے کیوں بے بہرہ رہی کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں بھارت کا اہم کردار ہے اسے پاکستان کے خلاف جانے سے روکا جائے۔ اس وقت کیوں نہ پلاننگ کی گئی۔ یہ معاملہ بھی آٹو یہ چھوڑ دیا گیا۔ بھارت کو دیکھئے اس نے ایک اسلامی ملک کو جو 1971ءتک خود پاکستان تھا اسے اپنا ہم نوا بنا لیا۔ بھارت نے اپنی فطرت کے مطابق پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا۔ اس کے باوجود خسارے کی تجارت جاری رکھنا حکام کیلئے شرمناک اور عوام کیلئے اذیت ناک ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو صرف حکمرانی کا مرض، بیورو کریسی کو اپنی نوکری سے غرض ہے؟ قومی معاملات آٹو پر۔! یہی روش رہی تو عوامی خوشحالی کی نا ¶ منجھدھار میں اور ملکی ترقی کا خواب گردشِ لیل و نہار میں رہے گا۔ ہمارے کرتا دھرتا ¶ں سے کتنے بہتر اور مخلص برسلز میں موجود پاکستانی ہیں جو کشمیر کاز کو ایک پلاننگ کے تحت آگے بڑھا رہے ہیں، 11مئی 2011 کو انہوں نے یورپی پارلیمنٹ سے ایک قرارداد منظور کرا لی جس میں یورپی یونین نے بھارت کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔



مردِ حُر، مردِ پھُر اور ان کے میراثی


آج ، 24 جون ، 2011

مردِ حُر، مردِ پھُر اور ان کے میراثی
فضل حسین اعوان
جلاوطنیاں کاٹنے، جیلیں بھگتنے، ٹھوکریں کھانے اور پھانسی کے پھندے کی زیارت کے باوجود ہمارے ”سیاسی مجاہدین“ پختہ کار ہوئے نہ اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا اور نہ ہی تاریخ سے سبق حاصل کیا۔ موجودہ اہم سیاسی لاٹ میں میاں نوازشریف جہاندیدہ اور نسبتاً عمر رسیدہ سیاستدان ہیں۔ انتقامی سیاست کا نشانہ بننے میں نوازشریف اور آصف زرداری میں انیس بیس کا فرق ہے۔ دونوں پر قوم کا بڑا قرض ہے۔ صوبہ سرحد کو خیبر پختونخواہ کا نام دینے کی حمایت، مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے پل بننے کے بجائے اتحاد کے راستے میں پلصراط بنا دینا اور آزادکشمیر میں بھی مسلم لیگ ن کی زچکی کا ستم ڈھا دینا یہ کارہائے میاں صاحب کے نامہ اعمال میں سیاسی گناہوں کے طور پر لکھے جا چکے ہیں۔ آج کل میاں صاحب آزادکشمیر میں نوزائیدہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم پر ہیں۔ ان کی دھواں دھار جذبات کو بھڑکا دینے والی اور لہو گرما دینے والی تقریریں صدر آصف زرداری سے شروع ہو کر پاک فوج اور پاک فوج سے شروع ہو کر آصف زرداری کے ذکرِ خیر پر ختم ہوتی ہیں۔ 
آصف زرداری خود کو مفاہمت کا خوگر سمجھتے، صبر تحمل اور برداشت کا پیکر قرار دیتے ہیں۔ نوازشریف کو بارہا بھائی کہا ان کی کڑوی کسیلی باتیں بڑے حوصلے سے سنتے ہیں لیکن شہیدوں کے مزار پر نہ جانے ان کے جسم میں کس کی روح حلول کر جاتی ہے کہ وہ جوش میں اپنے ہوش سے جیسے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ کہاں کا بڑا بھائی۔ کہاں کی مفاہمت، تحمل اور برداشت، سب چھومنتر۔ اب بھی محترمہ کی 58ویں برسی کے موقع پر وہ خوب گرجے اور برسے۔ نوازشریف کے کرپشن کے الزامات کا جواب ایسے ہی الزامات لگا کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی بہت سی باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ مثلاً انہوں نے یہ کہا کہ برطانیہ میں بھی بجلی جاتی ہے تو وہاں کا میڈیا نہیں دکھاتا۔ گویا حکومت ترقی یافتہ ممالک کی تقلید میں بجلی بند کرتی ہے۔ کیا وہاں کئی علاقوں میں 10 بارہ گھنٹے بھی بجلی بند رہتی اور بندش کی وجہ بجلی کی کمی نہیں بلکہ ایڈونچر کے لئے کمپنیوں کو ان کے بقایات کی ادائیگیاں اور بعض پاور پلانٹس کو تیل کی فراہمی روک دی جاتی ہے؟ حکومت یہ ایڈونچر کرتی ہے تو میڈیا ایڈونچرازم کی تلاش میں کیوں نہیں ہو گا۔ زرداری صاحب بلاول بیٹا سے پوچھیں جہاں وہ پڑھ رہے ہیں وہاں کبھی بجلی گئی ہے جو لوگ وہاں یعنی لندن میں پانچ سال رہ چکے ہیں ان کا کہنا ہے نہ کبھی بجلی گئی نہ کبھی بلب فیوز ہوا۔ زرداری صاحب نے جوشِ خطابت میں یہ بھی فرما دیا کہ ”میرے 35 ہزار بچے مر گئے نوازشریف کہتے ہیں یہ ہماری جنگ نہیں“۔ اس جنگ کو صرف نوازشریف ہی نہیں پوری قوم امریکی جنگ قرار دیتی ہے۔ سوائے ان چند کے جو ڈالروں کی آلائش کو زیبائش سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ہماری جنگ ہے تو امریکی ڈکٹیشن کیوں۔ کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی امداد کے لئے بے صبری، وار سپورٹ فنڈ کی طلب اور وصولی کس لئے؟ ہلیری، گیٹس، مولن، پیٹریاس، جان کیری اور دیگر امریکی عہدیداروں کے وقفے وقفے سے دوروں کا مطلب؟ سٹرٹیجک مذاکرات کس مقصد کے لئے؟ 35 ہزار جانوں کا نذرانہ اس لئے دیا کہ امریکی جنگ کو اپنی جنگ بنا لیا جائے؟ 35 ہزار بچے تو راہی عدم سفر ہو گئے باقی کروڑوں بچے حکومت کی پالیسیوں، بدامنی، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے ہاتھوں موت کی طرف رختِ سفر باندھے ہوئے ہیں ان کو تو بچا لیں۔ آپ اپنی جنگ لڑتے رہیں۔ امریکہ کو اس جنگ سے دور کر دیں۔ ڈرون حملے ہی بند کروا دیں تو پارلیمنٹ کی قرارداد کی کچھ عزت رہ جائے گی۔ یہ جنابِ صدر آپ کا اپنے بچوں کے لئے بھی عظیم تحفہ ہو گا۔ 
زرداری صاحب نے یہ بھی طعنہ دیا کہ نوازشریف کے سیاسی گُرو نے مجھے مردِ حُر قرار دیا۔ نظامی صاحب نے اس کی وضاحت کر دی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا:”میں کسی کا سیاسی گرو نہیں اور نہ ہی مجھے کوئی سیاسی گرو مانتا ہے۔ میں نے جب زرداری صاحب کو صرف لمبی جیل کاٹنے کی وجہ سے ”مردِ حر“ قرار دیا تھا تو میاں صاحب جدہ کے سرور پیلس میں سُرور لے رہے تھے.... جب سرور پیلس کے ڈائننگ ٹیبل پر میاں صاحب نے طنزاً کہا کہ آپ نے زرداری کو ”مردِ حر“ قرار دے دیا ہے؟ تو میں نے جواب دیا اگر آپ بھی یہاں سُرور نہ لے رہے ہوتے جیل میں ہوتے تو اس سے پہلے میرے ”مردِ حر“ ہوتے۔ میں ”مردِ حر“ کا خطاب واپس نہیں لوں گا۔“ نوازشریف کے سیاسی گُرو تو جنرل غلام جیلانی خان ہیں جو نوازشریف کو اپنی گورنری کے سائے میں سیاست میں لائے۔ ایک فوجی جو سیاست کے رموز سکھا سکتا ہے سکھائے۔ میاں صاحب کے مہا گُرو جنرل ضیاءالحق تھے۔ جن کے ملائی کردار کے باعث زرداری صاحب نے مہا گُرو اور ان کے چیلے کو مولوی قرار دیا ہے۔ بڑوں کی بیان بازی کے باعث سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج پر ہے۔ جو موجودہ حالات میں ملک، قوم، سیاست، جمہوریت اور خود بیان بازوں کے اپنے مفاد میں بھی نہیں۔ مردِ حُر یا مردِ پھُر۔ کوئی جذباتی بیان دیتے ہیں تو اس سے گرما گرمی ضرور ہوتی ہے لیکن چنگاری کو بھانبھڑ بنانے میں ان کے میراثی اور قصیدہ گو یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ گھٹنوں کے بل اُٹھ اُٹھ کے اپنے لیڈر کی قصیدہ بیانی اور حریف کی ہجو رسانی کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ آجکل کے اخبارات ملاحظہ فرمائیے۔ سب واضح ہے۔ 
اگلے سال مارچ میں سینٹ کے الیکشن ہونگے۔ پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اس سے قیامت نہیں آ جائے گی۔ لیکن وہ سماں قیامت سے کم نہیں ہو گا جب پی پی حکومت کا تختہ، سینٹ الیکشن سے قبل الٹا دیا جائے گا۔ میاں صاحب نے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے تین سال فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سن کر نکال دئیے۔ پیپلز پارٹی کا اپنی حکومت الٹائے جانے پر ابال اور اشتعال اگلی حکومت کے قیام کے پہلے دن سے سوا نیزے پر ہو گا۔ پھر آپا دھاپی کا سلسلہ ہمیں 80 اور نوے کی دہائی میں لے جائے جب نوازشریف اور بینظیر بھٹو کی دو دو حکومتیں محض 10 سال میں گرا دی گئی تھیں۔ ویسے تو پیپلز پارٹی نے اپنے ناپسندیدہ اقدامات اور مسلم لیگ ن نے بلا جواز الزامات سے مہم جوﺅں کے لئے در وا کر دئیے ہیں جو 90دن میں حالات سدھار کر واپس جانے کا عہد کر کے مُکر جاتے ہیں اور پھر دس بارہ سال تک چل سو چل۔ مہم جوئی کے راستے بند کرنے کی چابی بھی ہمارے سیاسی قائدین اکابرین اور عمائدین کے ہاتھ میں ہے۔اپنے اندر اتحاد پیدا کریں۔ حوصلے، 
تدبر اور تحمل سے کام لیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔


Thursday, June 23, 2011

ترقی و خوشحالی کا انقلابی منصوبہ اور نسخہ کیمیا

جمعرات ، 23 جون ، 2011


ترقی و خوشحالی کا انقلابی منصوبہ اور نسخہ کیمیا
فضل حسین اعوان
پاکستان کو خوشحال بنانے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کا کامل منصوبہ اور نسخہ کیمیا وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھ آگیا۔ اس منصوبے پر فوری طور پر عمل اور نسخہ کیمیا کا بڑی دانشوری سے استعمال بھی شروع کر دیا۔ اب چند دن کی بات ہے ہر پاکستانی کے سر سے غربت کے بادل چھٹ جائیں گے۔ پریشانیوں کے سائے ہٹ جائیں گے۔ وزیراعظم کے انقلابی اعلان اور جادوئی فرمان پر عمل کے ساتھ ہی رحمت کی برکھا برسنے لگے گی۔ غم خوشیوں میں ڈھل جائیں گے۔ نامہرباں مہربانوں میں بدل جائیں گے۔ ستم شعاروں کے ستم ان کے منہ پر دے مارے جائیں گے۔ ستم رسیدوں کی آہیں اور سسکیاں نقرئی قہقوں کا روپ دھار لیں گی۔ ہر انسان پر زمیں مہرباں ہو گی آسماں مہرباں ہو گا۔ دھرتی جگ مگ کرکے جھلملاتی نظر آئے گی۔ آسمان سے نور برسے گا۔ بدلیاں تک نغمہ زن ہو جائیں اور شاعروں کو اپنی محبوبہ یاد آجائے تو ان کے پاس یہ دہرانے کے سوا چارہ نہ رہے۔ 
گنگناتی ہوئی فلک سے آتی ہیں بوندیں
کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے
اب وزیراعظم کا اعلان اور فرمان ملاحظہ فرما لیجئے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ کابینہ کے خصوصی اجلاس میں واپڈا اور پیپکو اور دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کو مفت بجلی‘ پی آئی اے ملازمین کو فری ٹکٹ‘ پی ٹی سی ایل ملازمین کو فری کالز اور سوئی گیس ملازمین کو مفت گیس کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر فوری عملدرآمد کیا جائے گا۔ حکومت نے یہ اقدام مالی بحران کو کم کرنے کے لئے کیا ہے۔ دیکھئے اس سے حکومت کو کتنی بچت ہوتی ہے اور ملک معاشی بحران پر کس حد تک قابو پا سکتا ہے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ حکومت کی طرف سے دی گئی سہولتوں کا اکثر ملازمین بری بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔ واپڈا اور پیپکو ملازمین کو فری یونٹس کی مد میں 3 ہزار یونٹس سے 30 ہزار یونٹس تک سالانہ دئیے جاتے رہے ہیں۔ پی آئی اے ملازمین کو تین‘ ان کے بچوں کو ایک انٹرنیشنل اور 2 ڈومیسٹک ٹکٹ مفت ملتے تھے‘ پی ٹی سی ایل ملازمین کو 700 تک کالز فری تھیں جبکہ سوئی گیس کمپنی کے چھوٹے ملازمین کو 8 سے 9 ہزار روپے کا گیس کا بل فری تھا۔ 
واپڈا ملازمین اپنی سہولتیں ختم ہونے کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔ ہڑتالوں‘ مظاہروں تالا بندیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں گرڈ سٹیشنوں کی بجلی بند کر دینے کی دھمکی دی۔ گویا لوڈشیڈنگ کے ستم سے جو بجلی بچ نکلتی ہے۔ وہ مظلوم ملازمین کے جبر کا نشانہ بن جائے گی۔ پتھر کا دور ہو گا چند دن بعد۔ بجلی کے محکمے میں سب کرپٹ نہیں ایمان دار اور دیانت دار لوگ بھی یقیناً ہیں لیکن جن کے ساتھ عام آدمی کا ”واہ“ پڑتا ہے ان کی اکثریت ایسی ہے جیسا ان کے بارے میں عمومی تاثر ہے۔ اہلکاروں کی مرضی کے بغیر بجلی چوری نہیں ہو سکتی۔ میٹروں کو ریورس گیئر نہیں لگ سکتا۔ میڈیا میں خبریں چلتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ ملازم نے کئی گھروں کو اپنے میٹر سے بجلی فراہم کر رکھی تھی۔ عموماً ریلوے ملازم کے رشتے دار اور واقف کار بھی اس کے ووچر پر فری سفر کرتے ہیں ریلوے کی طرح پی آئی اے کے دیوالیہ پن کی وجوہات میں ملازمین کی ہیرا پھیریاں بھی شامل ہیں۔ سوئی گیس ملازمین کے خلاف شکایات نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن ان کو بھی زمانے کی ہوا لگ گئی ہے۔ بلاشبہ حکومت کا ایسی سہولتیں ختم کرنے کا فیصلہ اطمینان بخش ہے جن کا کچھ لوگ غلط اور بے جا استعمال کر رہے تھے۔ اب کچھ لوگوں کی بے ایمانی کا خمیازہ ایماندار ملازمین کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ حکومت کے پیش نظر اگر واقعی سہولتوں کا غلط استعمال ہو رہا تھا تو ملازمین کو بجلی کے یونٹوں پی آئی اے ریلوے کی ٹکٹوں کی صورت میں جو سہولت دی جاتی تھی اس کے برابر الاونس دے دیا جائے۔ اس میں یونٹوں اور کرایوں میں اضافے کے برابر اضافہ ہوتا رہے۔ اس تجویز سے ایماندار افسروں اور اہلکاروں کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ 
وزیراعظم کے اس اقدام سے مذکورہ محکموں کے اندر پائی جانے والی بے ضابطگیاں کسی حد تک کنٹرول ہو جائیں گی لیکن اس کا ملک کے مالی بحران پر کسی قسم کا مثبت اثر نہیں پڑنے والا۔ مالی اور معاشی بحران صرف اور صرف ان کے خاتمے کی کمٹمنٹ اور نیک نیتی سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ موجودہ بجٹ میں وزیراعظم ہاوس‘ ایوان صدر وزیروں مشیروں اور بیورو کریسی کے اخراجات کتنے کم کئے گئے ہیں؟ 100 رکنی کابینہ ایک چوتھائی کرکے بچت کی گئی پھر اس میں ق لیگ اور ایم کیو ایم کو شامل کرکے خزانے پر پھر بوجھ بڑھا دیا گیا۔ ان پارٹیوں کے جتنے وزیر بنائے اپنی پارٹی کے اتنے فارغ کر دئیے جانے چاہئیں تھے۔ غیر ملکی دورے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ اور کبھی 100افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وزیر‘ مشیر گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرتے ہیں۔ جو سہولتیں واپڈا‘ پی ٹی سی ایل‘ سوئی گیس کمپنی‘ پی آئی اے اور ریلوے ملازمین سے واپس لی گئی۔ ان پر صدر وزیراعظم‘ گورنرز‘ وزرائے اعلیٰ‘ وزیروں مشیروں اور عوامی نمائندوں کا بھی کوئی استحقاق نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی رضاکارانہ ان سہولتوں سے دستبردار ہو جائیں۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ 58 ارب ڈالر جبکہ پاکستانیوں کے بیرون ممالک اثاثوں کی مالیت 80ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اگر یہ اثاثے وطن لائے جائیں ساتھ ملکی وسائل بھی بروئے کار لائے جائیں تو بلاشبہ ملک خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ یہی وطن کو خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کا انقلابی منصوبہ اور نسخہ کیمیا ہے۔



Wednesday, June 22, 2011

مذاکرات کا ایک اور پاکھنڈ

 بدھ ، 22 جون ، 2011


مذاکرات کا ایک اور پاکھنڈ
فضل حسین اعوان
پوری دنیا کا احاطہ کیجئے۔ ایک ایک ملک کا جائزہ لیجئے۔ پاکستان ایسا ایک بھی نہیں ملے گا۔ جس میں اتحاد کا فقدان‘ انتشار سر میدان اور قائدین دست و گریبان ہوں۔ ہمارا ایک ہی بڑا قضیہ ہے۔ تنازع کشمیر۔ باقی تمام مسائل اور تنازعات نے اسی ایک مسئلہ کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ہم اس کے حل کیلئے بھی متفق نہیں ہیں۔ اس مسئلہ کے ہوتے ہوئے وطن عزیز میں ٹھنڈی ہوا ¶ں کے خوش کن جھونکوں کی امید عنقا ہے۔ صرف سرخ آندھیاں اور جسموں کو جھلسا دینے والی لو ہی چل سکتی ہے۔ جس کے تھپیڑوں کا آج ہمیں سامنا ہے.... برطانوی دنیا کے جس خطے میں بیٹھا ہو اس کا اٹل موقف ہے۔ آئر لینڈ ہمارا ہے۔ جس یہودی نے کبھی اسرائیل دیکھا بھی نہیں وہ بھی فلسطین پر اپنی ملکیت کا دعویدار ہے۔ فلسطینی بچہ بچہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سربکفن ہے۔ بھارت یو این میں کشمیریوں کے لئے استصواب کی تجویز پر دستخط کر کے آیا۔ اس کے باوجود بھارتی لیڈر شپ تو ایک طرف دنیا کے دوسرے کونے میں بھی بیٹھا ہندو اٹوٹ انگ کی رٹ لگائے ہوئے اور اکھنڈ بھارت کا پکھنڈ رچائے ہوئے ہے۔
پاکستان کا دیرینہ موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ اس موقف پر عام پاکستانی اور کشمیری تو کمٹڈ ہے۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ہے یارہی ہے وہ قومی عزم و ارادے کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر پر ہزار سال جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کیا۔ ان کے یہ الفاظ بھی عوام کی سماعتوں سے جوش و ولولہ بن کر ہمیشہ سے ٹکراتے رہے ہیں کہ گھاس کھا لیں گے ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ آج خود کو بھٹو کا جاں نشیں قرار دینے والے کشمیر کو پانی بجلی گیس اور پٹرول جیسے مسائل کی طرح مسئلہ سمجھتے ہیں نہ ان مسائل کی طرف دھیان نہ مسئلہ کشمیر توجہ کا مرکز‘ قوم نے گھاس کھایا یا نہیں ایٹم بم بن گیا۔ جس نے ہماری حفاظت کرنا تھی آج ہم اس کی حفاظت کےلئے سرگرداں ہیں۔ بچا ہوا اس لئے ہے کہ اسے بیچ کھانا ناممکن ہے۔ سیاچن پر بھارتی قبضے پر جنرل ضیاءالحق کہتے تھے وہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی۔ ملکی سرزمین کے چپے چپے کے دفاع اور حفاظت کا حلف اٹھانے والا ہزاروں مربع کلو میٹر پر دشمن کے قبضے کو مذکورہ الفاظ میں جائز قرار دے ڈالے تو اس کی کشمیر پر کمٹمنٹ کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جنرل مشرف مسئلہ کشمیر کے ”الو باٹا“ حل تجویز کرتے رہے وہ تو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے پر بھی تیار تھے۔ بھارت پورے کشمیر کو ساتھ لے جانے کا مدعی ہے۔ نواز شریف کو واجپائی سے کشمیر کی آزادی کی امیدیں وابستہ تھیں۔ وزیراعظم گیلانی خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ انہوں نے منموہن سنگھ کو مسئلہ کشمیر کے حل پر قائل کر لیا ہے۔ اس میں قطعاً قطعاً شک کی گنجائش نہیں کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ ہے لیکن کن شرائط پر؟ وہ چاہتا ہے آزاد کشمیر بھی بھارت کا حصہ بن جائے۔ وہ بلتستان کو بھی کشمیر کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس نے اپنے آئین میں مقبوضہ وادی کو بھارتی صوبہ قرار دے رکھا ہے۔ پاکستان نے بلتستان کو الگ صوبہ بنایا تو بھارت اس اقدام کے خلاف واویلا کر رہا ہے۔ اگر آپ نے بھارتی شرائط پر مسئلہ کشمیر حل کرنا ہے تو ایک دن میں حل ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہے تو مذاکرات کے ذریعے قیامت تک حل نہیں ہو سکتا۔ 
آج بھارتی سیکرٹری خارجہ تمام تر‘ بندوآنہ کروفر‘ ابلیسی ایجنڈے‘ مکارانہ سوچ کے ساتھ اسلام آباد آرہی ہیں۔ گذشتہ سال سیکرٹری خارجہ دہلی میں ملے تھے تو نروپمارانی نے پورے سیشن کے دوران کشمیر کا ذکر تک نہ ہونے دیا۔ اب سنا ہے مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ایجنڈے کا اہم پوائنٹ ہے۔ کیا بھارت اٹوٹ انگ کا موقف چھوڑنے پر تیار ہے؟ اگر نہیں تو مذاکرات کا فائدہ؟ مسئلہ کشمیر پر اگر کہیں پیشرفت کی امید ہے تو اسے احمقانہ سوچ کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ مذاکرات لاحاصل ہیں۔ نروپما رانی آپ کو مزید چکر دے گی۔ بہتر ہے مدھانی جی کی ٹہل سیوا کی جائے۔ شکرپڑیاں‘ مری‘ ناران کاغان کی سیر کرا دی جائے۔ اٹوٹ انگ کی ضد کا علاج مذاکرات نہیں‘ صرف اور صرف جنگ ہے۔ ہماری حکومت بھی مذاکرات مذاکرات کھیل سے خلاصی حاصل کرکے مسئلہ کشمیر کا جو حقیقی حل ہے اس طرف توجہ دے۔ پہلے قوم میں اتحاد پیدا کیا جائے۔ سب کو ساتھ ملایا جائے۔ سرحدی گاندھی کے پیروکاروں کو بھی ہم نوا بنایا جائے۔ جس بم کی ہم حفاظت کےلئے مضطرب ہیں اب شاید وقت آگیا ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ کشمیر کو ہندو بنئے کے آہنی بنچوں سے نکال لائے۔ ہماری سرزمین زرخیز کو ریگستان میں تبدیل کرنے کی ذلیل خواہش کو ترک کرا دے۔ پاکستان کے حصے کا پانی واگزار کرا دے۔

Tuesday, June 21, 2011

بینظیر کی سالگرہ پر بینظیر تحفہ

 منگل ، 21 جون ، 2011

بینظیر کی سالگرہ پر بینظیر تحفہ
فضل حسین اعوان
آج ہماری آزادی، خودداری، خودمختاری، عزت اور وقار سامراج اور استعمار کے سامنے گروی رکھا جا چکا ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ہمارا یہ تفاخر نیلام ہو چکا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وہی ٹولہ جو کبھی آمریت کے بھیس میں اور کبھی جمہوریت کے فیس میں قوم و ملک پر مسلط ہو جاتا ہے۔ یہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کاوش کے بجائے انہیں صدقِ دل سے چوم کر گلے کا ہار بنا لیتا ہے۔ محض ذاتی مفادات، طوالت اقتدار اور مال و زر کے انبار کے لئے۔ رعایا پر کیا گزرتی ہے، اس کی کوئی فکر اور پروا نہیں۔ وطن فروش اور ضمیر بردوش اور کِسے کہتے ہیں۔ نوکریاں افسریاں اداروں کی سربراہی اور شاہی برائے فروخت۔ قوم نہیں بگڑی کچھ طبقات بگڑے ہیں۔ ان میں فنکارائیں اور فنکار ہیں جو اپنے جسم اور ادائیں بیچ دیتے ہیں۔ ریاکار عابد اور زاہد اپنی دعائیں بیچ دیتے ہیں۔ امریکیوں کا روئے سخن انسانوں کے بیوپاریوں، انسانیت کے سوداگروں، عزتوں اور لاشوں تک کے تاجروں کی طرف ہے کہ ڈالروں کے عوض یہ مائیں بھی بیچ دیتے ہیں۔ بلا امتیاز آمریت و جمہوریت بدنظمی، بدعملی اور بدچلنی کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ ظلمت کو ضیائ، صَرصَر کو صبا اور کرگش کو ہما کہا جا رہا ہے۔ لاقانونیت سی لاقانونیت ہے۔ ایک غدر مچا ہے۔ میرٹ کا جنازہ اُٹھ چکا۔ غربت کے ماروں کے لاشے اُٹھ رہے ہیں۔ پرائی جنگ میں وطن کے روئیں روئیں سے خون رس اور ٹپک رہا ہے۔ انصاف کی فراہمی کے رواں دریا کو گدلایا جا رہا ہے۔ عدالتیں بے لاگ فیصلے کرتی ہیں تو ان کو گنبدِ بے در میں پھینک دیا جاتا ہے۔ زمامِ اقتدار جن کے ہاتھ ہے ان کے ماضی کو کریدنے اور کھنگالنے کی ضرورت نہیں۔ اچٹتی اور سرسری نظر سے سب کچھ عیاں اور نمایاں ہو جاتا ہے۔ ان کا بس چلے تو وطن کی ہوائیں فضائیں دن رات، دھوپ اور چھائیں بھی بیچ ڈالیں۔ آج ایک طرف امریکہ کی یلغار و پھنکار اور دوسری طرف ازلی دشمن بھارت کی للکار ہے۔ ایسے موقع پر ضرورت پوری قوم کے متحد ہونے کی ہے۔ قوم کو سیاستدان متحد کر سکتے ہیں لیکن وہ خود انتشار کا شکار ہیں۔ قومی ایشوز پر مفاداتی سیاست کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ ایٹمی اثاثوں کو خطرے کی بات سب کرتے ہیں۔ حفاظت پر متفق نہیں۔ امریکی جنگ کے نقصانات و مضمرات کو سب جانتے اور مانتے ہیں۔ اس سے نکلنے کی حکمت اپنانے پر تیار نہیں۔ نظریات میں اگر ہم آہنگی ہے تو اقتدار کی دوڑ میں شامل ہونے کی۔ مراعات میں اضافے کی، اقتدار کی تفویض اور طوالت کے لئے امریکہ کے سامنے سر جھکانے کی۔ انسان کو طاقت نہیں اس کی جرا ¿ت، اعلیٰ کردار اور حب الوطنی کے جذبات زندہ رکھتے ہیں.... آج پیپلز پارٹی اپنی شہید رہنما کی سالگرہ بڑی دھوم دھام اور تزک و احتشام سے منا رہی ہے۔ 1990 میں سی آئی اے، موساد اور را نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کی سازش تیار کی۔ پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں اس خبر نے بھونچال اُٹھا دیا۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کی میٹنگ بلائی جس کے فیصلے کے تناظر میں 23 جنوری 1990 کو وزیر خارجہ یعقوب علی خان کو اس پیغام کے ساتھ دہلی بھجوایا گیا ”پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کیا گیا تو ہم بھارت کے خلاف کارروائی کریں گے۔ حملہ خواہ کسی بھی جانب سے ہو“۔ جنرل اسلم بیگ نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم آئی کے گجرال نے وزیر خارجہ یعقوب علی خان کے دورے اور خصوصی پیغام لانے کا تذکرہ اپنی کتاب Matters of Discrition میں کیا ہے۔ اس پیغام کے بعد شیطانی اتحاد ثلاثہ کی تمام تر ابلیسی پلاننگ راکھ کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ آج حالات 90 کی نسبت کہیں زیادہ مخدوش و دگرگوں ہیں۔ کون ہے جو دعویٰ کر سکے کہ وہ محفوظ و مامون ہے۔ جیالوں کی بھٹوز سے محبت لازوال ہے۔ بات محترمہ کے جاں نشینوں کی ہے جن کی محترمہ کے خون کی ندی میں اقتدار کی بے منزل ناﺅ رواں دواں ہے۔ وہ ناﺅ کی روانی کی دوامی کی سعی جاری رکھیں۔ اس کی کوئی منزل تو طے کر لیں۔ اپنے آپ محترمہ جیسی جرا ¿ت پیدا کریں۔ اُن کے قاتل کے گریبان تک ہاتھ لے جانے میں شاید کوئی مصلحت ہو۔ ان کی سالگرہ کے موقع پر قوم کو غیرت وقار، خودداری اور خود مختاری کا تحفہ تو دیا جا سکتا ہے۔ پہلے اور حتمی اقدام کے طور پر امریکہ کو بڑے احترام کے ساتھ اس کی جنگ لوٹا دی جائے۔ یہی بینظیر کی سالگرہ پر قوم کے لئے بینظیر تحفہ ہو گا!

Sunday, June 19, 2011

“حکمرانی اور ”قبرستانی

 اتوار ، 19 جون ، 2011


حکمرانی اور ”قبرستانی
فضل حسین اعوان ـ 10 گھنٹے 21 منٹ پہلے شائع کی گئی
ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان فہیم کے لواحقین نے دیت میں ملنے والی کروڑوں روپے کی رقم سے سمندری میں محل نما کوٹھی خریدی جس کو میڈیا میں نمایاں کیا گیا۔ لوگ اس پُرشکوہ عمارت کو دیکھ کر انگشت بدنداںہیں۔ اس وسیع و عریض، خوبصورت اور دلکش عمارت کی قیمت 57 لاکھ بتائی گئی ہے۔ یہ پرانی خبر ہے جس کا موازنہ نئی خبر سے مقصود ہے۔ مسلم لیگ ق کے رہنما فیصل صالح حیات آج کل وزیر ہا ¶سنگ اور تعمیرات ہیں۔ اس وزارت کا حلف اٹھائے ان کو زیادہ عرصہ نہیں صرف دو ماہ ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں ان کے دفتر کی تزئین و آرائش پر سوا کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یہ انکشاف کسی اور نے نہیں خود ان کی پارٹی کے ایک اور رہنما ریاض فتیانہ نے قومی اسمبلی کی پبلک اکا ¶نٹس کمیٹی کی میٹنگ کے دوران کیا۔ اندازہ کیجئے کہ 57 لاکھ میں محل نما کوٹھی خریدی جا سکتی ہے اس سے دگنا سے بھی زیادہ رقم سے ایک دفتر کی محض تزئین و آرائش، چہ معنی دارد۔ یہ وہی صالح فرزندِ ق لیگ ہیں جو کل تک راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور پلانٹس میں اربوں کے گھپلوں کے ثبوت اٹھائے پھرتے تھے۔ سپریم کورٹ تک میں ببانگِ دہل ثبوت پیش کئے، میڈیا میں مناظرے کرتے رہے۔ سپریم کورٹ میں کیس مدعی فیصل کے بیٹھ جانے سے لاوارث ہو گیا۔ کیا واقعی سوا کروڑ روپیہ دفتر کی خوبصورتی پر خرچ کر دیا گیا؟ یا یہ بھی رینٹل پاور پلانٹس میں گھپلوں کا جیسا گھپلا ہے۔ اگر دفتر میں سونے کی لڑیاں اور ڈائمنڈ کی گھڑیاں لگانے پر سوا کروڑ لگا بھی دیا گیا ہے تو یہ قوم و ملک کے کتنے مفاد میں ہے؟ کیا اپوزیشن میں بیٹھ کر ہی قوم کے مفاد کی باتیں یاد آتی ہیں، گنگا کنارے پہنچ کر قوم یاد نہ وطن یاد، بے خود ہو کر نہ صرف اس میں ہاتھ دھونے پر تیار بلکہ چھلانگ لگا دینے کے لئے بے تاب۔ 
ق لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک اور صاحب عازم منزلِ اقتدار ہوئے اپنا مشن چھوڑ کر۔ رضا حیات ہراج نے پاکستان میں دوہری شہریت رکھنے والے کسی شخص کو عوامی اور سرکاری عہدے کے لئے نااہل قرار دینے کے بارے میں 18 اپریل کو آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو قوم کی ایسے پارلیمنٹرین سے خلاصی ہو جائے گی جو حکمرانی کرنے کے لئے ہی پاکستان آتے ہیں۔ امریکہ برطانیہ یا دیگر ممالک کے بھی شہریت یافتہ ہونے کے باعث حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنے اصل وطن لوٹ جاتے ہیں۔ 
ایک نظر امریکہ اور برطانیہ کی شہریت کے حلف نامے پر ڈالئے پھر اندازہ کیجئے کہ یہ لوگ کس کے ساتھ زیادہ مخلص ہیں۔ 
امریکی شہریت کا حلف 
میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں امریکی شہریت اختیار کرنے کے بعد امریکہ کے علاوہ کسی بھی ملک، حکومت یا ریاست کے ساتھ کسی قسم کی وابستگی نہیں رکھوں گا اور یہ کہ میں کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت سے دستبردار ہو جا ¶ں گا۔ یہ کہ میں امریکی ریاست، آئین اور قانون کا اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے تحفظ کروں گا اور ان کا ہر قیمت پر دفاع کروں گا۔ یہ کہ میں امریکی ریاست، آئین اور قانون کا ہمیشہ وفادار رہوں گا۔ یہ کہ میں قانون کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ کے دفاع اور تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھا ¶ں گا۔ یہ کہ میں قانون کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکی افواج میں غیر فوجی خدمات کی ادائیگی کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوں گا۔ یہ کہ میں سول حکومت کی ہدایت پر ہر قسم کا قومی فریضہ سرانجام دینے کے لئے دستیاب ہوں گا۔ (حسین حقانی یہ فریضہ بڑی خوش اسلوبی اور دیانت سے ادا کر رہے ہیں) ۔ یہ کہ میں بقائمی ہوش و حواس اپنی آزادانہ مرضی سے یہ حلف اٹھا رہا ہوں اور اس حلف کے مندرجات سے پہلو تہی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ خدا میرا حامی و ناصر ہو۔ 
برطانوی شہریت کا حلف 
میں پوری سنجیدگی اور خلوص نیت سے حلف اٹھاتا ہوں کہ برطانوی شہریت اختیار کر کے میں برطانوی قوانین کی پاسداری میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم اور شاہی خاندان کا وفادار رہوں گا۔ میں برطانوی ریاست کا وفادار رہوں گا اور اس کے حقوق و فرائض اور آزادی کی عزت، حفاظت اور احترام کروں گا۔ میں برطانیہ کی جمہوری روایات کو مقدم اور سربلند رکھوں گا۔ برطانوی شہری کی حیثیت سے میں برطانوی قوانین پر مکمل عملدرآمد کروں گا اور اپنے فرائض غفلت کا مرتکب نہیں ہوں گا۔ 
دوہری شہریت کے حوالے سے قانون سازی رضا حیات ہراج کی بہترین کاوش، عوامی امنگوں کے عین مطابق تھی۔ وہ اب زرداری صاحب کے ”کُھچڑ“ چڑھ گئے ہیں۔ اپنی تحریک کو تو پایہ ¿ تکمیل تک پہنچاتے۔ اب بھی اس بل کو پاس کرانے میں ان کے راستے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں تاہم کسی کی ناراضی کا کوئی خدشہ ہے تو ان کا اپنا وہم ہو سکتا ہے۔ اس وہم کو دور کریں۔ اگر ان کو وزارت بھی چھوڑنا پڑے تو ملکی و قومی مفاد میں یہ مہنگا سودا نہیں۔ ضروری ہے کہ پاکستانی صرف پاکستانی ہو۔ ایک ہی وقت میں پاکستانی اور امریکی و برطانوی نہ ہو۔ حکومت پاکستان میں کرتے ہیں جا کر بیرون ملک مرتے ہیں، دفن پاکستان کرنے کی وصیت کی ہوتی ہے۔ کیا پاکستان صرف حکمرانی اور قبرستانی کے لئے رہ گیا ہے۔ دوہری شہریت والوں کے لئے اگر صرف پاکستان کی شہریت رکھنے کا قانون نہیں بن سکتا تو یہ قانون آسانی سے بن سکتا ہے کہ مرنے کی صورت میں دوہری شہریت والے اُسی ملک میں دفن ہوں جس کی شہریت لے رکھی ہے۔



Saturday, June 18, 2011

”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے “

 ہفتہ ، 18 جون ، 2011


”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے “
فضل حسین اعوان 
اڑھائی تین درجن نوجوان بڑے جذباتی انداز اور والہانہ پن سے نعرہ زن تھے ”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے، دین بچا لو ملک بچا لو، اللہ اکبر....!“ دو چار نے ہاتھ میں بیس بال کے بیٹ پکڑے ہوئے، میدان پنجاب یونیورسٹی نہر والی سڑک کے عین درمیان، جہاں سڑک کی تنگ دامانی کے باعث عموماً ٹریفک رک رک کر اور رینگ رینگ کر چلتی ہے۔ اس میں سڑک کا قصور نہیں، ٹریفک ہی شہر میں ٹڈی دل کی طرح نازل ہو گئی ہے۔ بعض اوقات گاڑی میں اڑھائی تین کلومیٹر کا کیمپس ایریا کراس کرنے میں آدھ پون گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ اکثر موٹر سائیکل سوار نوجوان فٹ پاتھ کی پشت پر کاٹھی ڈال کر اپنی منزل آسان بنا لیتے ہیں۔ 
ٹریفک کے اژدھام کی وجہ سے جیل روڈ انڈر پاس سے ایف سی کالج انڈر پاس اور پھر اس سے آگے کیمپس انڈر پاس سے شاہ دی کھوئی انڈر پاس تک سڑک چوڑی کرنے کا منصوبہ بنا۔ حمید نظامی ہال میں اس کے حامی اور مخالف مدعو کئے گئے۔ ناظم لاہور میاں عامر سڑک کی توسیع کے منصوبے، تعمیر کے حق میں بھرپور دلائل اور بریفنگ دینے کیلئے انجینئروں کے ساتھ آئے۔ دوسری طرف بھی کم تیاری نہ تھی۔ بالآخر فریال گوہر نے یہ کہا کہ سڑک کی توسیع و تعمیر کے لئے جس درخت کی طرف آرمی کا رخ ہوا ہم اس سے چمٹ جائیں گے۔ سڑک کشادگی کے مخالفین کا موقف ہے کہ درخت کٹنے سے آلودگی میں اضافہ ہوگا۔ ان مقامات پر ٹریفک جام ہوتی ہے تو آلودگی کی تمام حدیں عبور ہو جاتی ہیں۔ پٹرول گیس کا ضیاع اور انسان الگ سے ہلکان ہوتے ہیں۔ ان مقامات پر ٹریفک جوں کی رفتار سے اور سڑک کی توسیع کا معاملہ عدالتی سٹے پر چل رہا ہے۔ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے کہ درخت انسان کی ضرورت ہے انسان درختوں کی نہیں! ایک درخت کے بدلے ہزار لگائے جا سکتے ہیں۔ انسان کیا انسان کی زندگی کا گزرا ایک لمحہ بھی واپس نہیں لایا جا سکتا۔ یہاں تو ہزاروں لاکھوں کروڑوں لمحات ضائع ہو جاتے ہیں ع
علاج اس کا کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں 
نہر جہاں ٹریفک عموماً پھنس پھنس کر چلتی ہے، آج بھی پھنسی۔ دو چار منٹ معمول کی بات، آٹھ دس منٹ میں تو لمبی لائن لگ جاتی ہے۔ پندرہ منٹ بعد بے چینی اور بےقراری قدرتی امر تھا۔ 16 جون کا نام لے دینے سے ہی گرمی کی شدت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اب لوگ گاڑیوں سے نکل کر پسینہ خشک کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاہم چند ایک بڑی گاڑیوں کے اے سی رواں تھے۔ موٹر سائیکل پہلے تو سرعت کے ساتھ فٹ پاتھ سے گزرتے رہے۔ چند منٹ بعد ان کی سپیڈیں دھیری ہوئیں پھر فٹ پاتھ بھی جام....! تھوڑا آگے روشن آنکھوں، نورانی چہروں والے نوجوان رقصِ درویشاں میں مصروف تھے۔ ان سے کہا گیا آپ کا احتجاج ریکارڈ ہو گیا، 20 منٹ سے ٹریفک جام ہے اب جانے دیں۔ ان کا جواب تھا ”زندہ ہے جمعیت زندہ ہے“۔ مسئلہ پوچھا تو ایک نوجوان نے جواب دیا ”ہوسٹلوں کی بجلی بند ہے انتظامیہ آئے گی تو ٹریفک چلنے دیں گے“۔ ایک سے وی سی صاحب کا موبائل نمبر لیا، بات کی۔ دوسری طرف یونیورسٹی کے آر او جاوید سمیع تھے۔ انہوں نے بتایا کہ فالٹ دور کر دیا گیا ہے اب بجلی کی سپلائی جاری ہے، میں ذرا دور ہوں چند منٹ میں سکیورٹی والے پہنچنے والے ہیں۔ جمعیت کا موقف تھا کہ آج کی بندش کی بات نہیں امتحان ہونے والے ہیں، بجلی اکثر بند رہتی ہے، انتظامیہ اس کا کچھ کرنے کی یقین دہانی کرائے۔ چند منٹ بعد واقعی پولیس آئی۔ اسے دیکھ کر نوجوانوں کے نعروں میں مزید گرمجوشی آگئی جس پر پولیس بھی فٹ پاتھ پر کھڑے لاچار تماشائی مسافروں کا حصہ بن گئی۔ ٹی وی کیمرے آئے تو نوجوانوں کی تعداد سو سے زائد ہو چکی تھی۔ میڈیا کو دیکھ کر گماں ہوتا تھا کہ نوجوان محاذ جنگ پر ہیں اب ہاتھ اوپر اٹھا کر نعرہ بازی دیدنی تھی۔ میڈیا نے اپنا کام کیا اور چلتے بنے۔ اب نہر کی دوسری جانب بھی ٹریفک جام کر دی گئی۔ یونیورسٹی کی جانب جانے والے تمام گیٹ بھی بند کر دیئے گئے۔ پونے چھ سے سوا سات بجے یک رنگ و ہم آہنگ دھمال میں زندہ ہے جمعیت زندہ کا نعرہ مستانہ گونجتا رہا۔ خدا بھلا کرے ایک بابا جی دس منٹ تک روئے پیٹے چیخے چلائے جس پر جمعیت کو ترس آیا لیکن اپنے ہی بچوں کی بات سننے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ نہ آئی۔
جب انتظامیہ کو ادراک ہی نہیں کہ اصل مسئلہ کیا، اس کا حل خاک نکلے گا؟ پنجاب یونیورسٹی چھوٹی چیز ہے نہ غریب ہے، حکومت تو بے حس ہے یونیورسٹی بے بس نہیں۔ اس کا الیکٹریسٹی کا کوئی متبادل بندوبست ہونا چاہئے۔ کلاسوں کیلئے تو عموماً جنریٹر موجود ہیں ہوسٹلوں میں لگائے جائیں۔ بچے بھی سمجھیں کہ اب عام آدمی کو پریشان کر کے مطالبات منوانا دانشمندی ہے نہ جرا ¿ت و بہادری۔ جہاں ٹریفک پولیس کی کارکردگی صفر رہی، اشارہ بند ہو تو ٹریفک رواں دواں رکھنے کیلئے میٹرک پاس سپاہی ہی کافی ہے۔ گریجوایٹ وارڈنز سے اچھی پلاننگ کی توقع کی جاتی ہے۔ سوا گھنٹہ ٹریفک رکی رہی ان کو ڈائی ورژن لگانے کے ساتھ ٹریفک ریورس کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے تھا۔

Thursday, June 16, 2011

اب آتش تاثیر بھی!

جمعرات ، 16 جون ، 2011


اب آتش تاثیر بھی
فضل حسین اعوان 
1999ءکو جولائی کے شروع میں واشنگٹن پوسٹ، یو ایس اے ٹو ڈے، دی ٹائمز لندن اور ایک دو دیگر جرائد نےThe Army of Pakistan is a Rogue Army( بدمعاش پاکستانی فوج) کے عنوان سے فل پیج کا اشتہار شائع کیا۔ یہ وہ دورہ تھا جب کارگل کی مہم جوئی کے بعد سیاسی اور عسکری قیادتوںکے مابین سردجنگ جاری تھی۔وزیراعظم میاں نواز شریف سانحہ کارگل پر اپنے حلقہ یاراں میں کھسر پُھسر تو کر رہے تھے لیکن آرمی چیف جنرل مشرف کے خلاف ایکشن لیا نہ کمیشن بنانے کی ایسی گرم جوشی نظر آئی جیسی ایبٹ آباد میں امریکی اپریشن پرکمیشن تشکیل دینے کے حوالے سے اب دکھا رہے ہیں۔ دنیا کے معروف جرائد میں پاک فوج کےخلاف اشتہار شائع ہوا تو کچھ پاکستانی مہربانوں نے مخصوص حالات ،نواز شریف کے جرنیلوں کے ساتھ سرد اور زرد تعلقات کے پیشِ نظر مسلم لیگ ن کی ہیوی مینڈیٹ کی حامل حکومت کے کھاتے میں ڈالا لیکن عقدہ کھلا کہ یہ اشتہار بھارت کی غیر سیاسی شخصیت آروی پنڈت نے وزیراعظم اٹل بہار واجپائی کو اعتماد میں لیکر شائع کرایا پنڈت کے بقول اس معاملے سے ایل کے ایڈوانی،جسونت سنگھ اور برجیش مشرا بھی آگاہ تھے۔ واجپائی نے آر وی پنڈت کو تاکید کی کہ اس میں بھارتی حکومت کا نام نہیں آنا چاہئے ۔ (Panditrv.com پرتفصیلات موجود ہیں)۔ اب آتش تاثیر نے بھی پاک فوج کے بارے میں وہی زبان استعمال کی جو بھارت نے 12 سال قبل استعمال کی تھی۔ آتش تاثیر، سلمان تاثیر کا تلوین سنگھ کے بطن سے چند روزہ رومانس کا ”تحفہ“ ہے۔ غیر منکوحہ تلوین نے نومولود کو کوڑے کے ڈھیر پرپھینکنے کے بجائے پال پوس کر اس کے باپ کے مقابل لا کھڑا کیا جواب پاک فوج کے مقابل آکر اسے بدمعاش فوج قرار دے رہا ہے۔آتش نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آبادمیں پاک فوج کا مہمان تھا۔جو آتش نے اسامہ کے بارے میں کہا امریکی بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ان کی وزارتِ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ہلیری نے آئی ایس آئی کو کلین چٹ نہیں دی۔ ہلیری اور مولن پاک سرزمین پر کھڑے ہوکر کہہ گئے کہ حکومتی سطح پر ایبٹ آباد میں کسی کو اسامہ کی موجودگی کا علم نہیں تھا لیکن کچھ لوگوںکو ضرور علم تھا۔ حکومت ان کے بارے میں آگاہ کرے۔ میاں نواز شریف ایک بات بار با ر دھمکیوں کے ساتھ دہرا رہے ہیں کمشن تشکیل دیاجائے۔ ایبٹ آباد اپریشن کے ذمے داروں کو جانا ہوگا۔ ایبٹ آباد اپریشن کے حوالے سے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا قوم سے معافی مانگ چکے ہیں انہوں نے خود کو پارلیمنٹ کے سامنے سرنڈ ر کردیا تھا۔ میاں صاحب مجوزہ کمشن سے کیا چاہتے ہیں کہ میاں صاحب کو جن جرنیلوں کی شکلیں پسند نہیںاور جو امریکی مطالبات اور ڈومور کے تقاضوں کی کچھ مزاحمت کررہے ہیں ان کو پھانسی لگا دیا جائے؟ امریکہ پھانسی تو نہیں شمالی وزیرستان میں اپریشن کی راہ میں رکاوٹ بننے والے جرنیلوں صے خلاصی ضرور چاہتا ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ کمشن کی تشکیل کیلئے اضطراب میاں صاحب کے اندر کی آواز ہے۔ جو میاں صاحب کے ساتھیوںکو آٹو میٹک چڑھ گئی۔ میاں نواز شریف کی مشرف کے متبادل چوائس جنرل ضیاءالدین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کو مشرف نے امریکہ سے ڈالر بٹورنے کیلئے چھپا رکھا تھا۔ وہ ڈی جی، آئی ایس آئی رہے ان کی بات کو عالمی سطح پر بے وزن قرار نہیںدیاجاسکتا ۔سوال اٹھتا ہے کہ اسامہ کو اگر مشرف نے چھپایا تھا تو جاتے ہوئے جیب میں رکھ کر ساتھ تو نہیں لے گئے کسی کے حوالے تو کر کے گئے ہوں گے۔ کس کے حوالے کرگئے اس کا جواب جنرل(ر) ضیاءالدین دیں۔ جنرل صاحب نے ایسا کسی کو خوش کرنے کیلئے کیا یا بے وقوفی میں اپنے اس ادارے کو بد نام کردیا جس کی سربراہی ہاتھ میں آکر ان کی اپنی ”بد “تدبیری اور بے حکمتی کی وجہ سے مچھلی کی طرح پھسل گئی۔
آج فوج کو امریکہ اور بھارت کی طرف سے شدید الزامات کا سامنا ہے۔ انہی کے کچھ مہرے یہاں بھی دشمن کی بولیاں بول رہے ہیں۔تنقید، الزام اور دشنام میں فرق ہے۔ ایبٹ آباد اپریشن اور سانحہ مہران بیس سے فوج کی غفلت اور کوتاہی کُھل کر سامنے آگئی۔ایبٹ آباد اپریشن پر فوج نے قوم سے معافی مانگ لی۔یہ باب یہیں بند ہوجاتا ہے۔جن لوگوں کو اس کے باوجود تحفظات ہیں وہ جنرل جاوید اقبال کی سربراہی میں حکومت کی طر ف سے قائم کی گئی کمیٹی کی رپورٹ سے دور ہوجائیں گے۔ ایف سی نے جو کچھ خروٹ آباد،رینجرز نے کراچی میں کیا انٹی نارکوٹیکس میں تعینات دو میجروں کو ایک نوجوان کی زیر حراست ہلاکت پر گوجرانوالہ سیشن کورٹ نے گرفتار کرایا تو وہ فرار ہوگئے۔ ایسے واقعات کو کچھ لوگ فوج کی بد معاشی کے زمرے میں لاتے ہیں۔ میڈیا میں فوج کی طرف سے پولیس اہلکاروں کو پھینٹی کے واقعات بھی دیکھتے سننے اور پڑھنے میں آتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی کسی سطح پر ستائش نہیں کی جاسکتی لیکن ان واقعات کو پوری فوج کے کردارپر منطبق نہیں کیاجاسکتا دس لاکھ فوجیوں میں سے چند سو اگر کالی بھیڑیں ہیں ان سے فوج کو پاک کردیناچاہئے۔ کراچی سانحہ میں ڈی جی رینجرز کو ہٹا دیا گیا۔ مفرور میجر بھی پکڑ لئے گئے فوج سے ایسے ہی کردار کی توقع ہے۔ ایسے اقدامات سے فوج کو دشنام دینے والوں کی تسلی ہوجانی چاہئے مزید یہ کہ فوج خود کو عوامی معاملات سے الگ تھلگ کرلے۔ ایف سی اور رینجرز کا جو کام ہے وہ کرے۔ قانون نافذ کرنا پولیس کا کام ہے۔ جرنیل حضرات اپنے پروفیشن تک محدود رہیں۔ جائیدادوں اور کاروبار کرنے کی کہانیاں میڈیا میں آنے پر نقادوں کو کروڑ کمانڈر کہنے کا موقع ملا۔ فوج کا اصل کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے ان سرحدوں کو اگرکوئی اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا دماغ درست کرنا بھی فوج کی ذمہ داری میں ہی آتا ہے۔ غدار کی کوئی معافی نہیں، وہ جرنیل ہو، جج ہو سیاستدان یا صحافی۔ ملک دشمنوں کااسی طرح دماغ درست ہونا چاہئے جیسے رحمن ملک کا ڈاکٹر قدیر خان نے فوج سے کرایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی زبانی سنیئے ”میں رحمان ملک کو تقریباً پندرہ برس سے بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کے خاندانی پس منظر سے بھی پوری طرح واقف ہوں۔ جب انہوں نے پیٹھ پیچھے سازش کی اور عدالت سے مجھ پر پابندیاں لگوائیں تو مجھے تعجب نہیںہوا۔ پندرہ سال پیشتر یہ جب ایڈیشنل ڈی جی ،ایف آئی اے تھے اور میرے داماد اور اسکے بھائی( ایڈمرل ضمیر احمد مرحوم کے صاحبزادے) کو بلیک میل کررہے تھے تو میں نے جنرل عبدالوحید کاکڑ(جو میرے داماد کی والدہ کے عزیز ہیں) اور ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل نسیم رانا سے ان کا دماغ ٹھیک کرادیا تھا۔“ ٹھیک ہے، رحمن ملک کا دماغ درست ہوا لیکن کیا یہ فوج اور آئی ایس آئی کے کرنے کا کام تھا؟ آئی ایس آئی اس پرہاتھ ڈالے جس کی ملک دشمنی مسلمہ ثابت ہوجائے۔شکوک اور سفارش کی بنیاد پر نہیں۔

Wednesday, June 15, 2011

اولگا

ب، 14 جون ، 2011



اولگا
فضل حسین اعوان 
17 مئی 2011 کو خروٹ آباد کوئٹہ میں ایف سی اور پولیس اہلکاروں کی سفاکی اور بربریت پر آسمان رویا ضرور ہو گا۔ پھٹا کیوں نہیں۔ اس میں شاید قدرتِ کاملہ کی کوئی حکمت ہو۔ بدترین دشمن کے بارے میں بھی حکم ہے کہ پناہ مانگے، خود کو حوالے کرنے پر آمادہ ہو تو اس کی جان بخشی کر دی جائے۔ خروٹ آباد میں گولیوں کی بوچھاڑ کے دوران خواتین رحم کی بھیک مانگتی رہیں۔ شاید ان کی زبان اجنبی ہو۔ لیکن فائرنگ تھمی تو کلمہ طیبہ پڑھتے اللہ اکبر کہتے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر خدا کو پکارتے تو وہاں موجود عام آدمیوں نے بھی دیکھا۔ دو مردوں اور تین خواتین پر رحم کھانے کے بجائے اہلکاروں کی آنکھوں میں پھر خون اترا اور سب کے ٹھنڈا ہونے تک فائرنگ کرتے رہے۔ ایک طرف انسان دم توڑ رہے تھے تو دوسری طرف انسانیت۔ یہ پانچ افراد آپس میں رشتہ دار نہیں تھے۔ ان کا آپس میں محمد رسول اللہ کے کلمے کا رشتہ تھا۔ ان کا یہی رشتہ ہم سترہ کروڑ پاکستانی مسلمانوں سے بھی تھا۔ وہ اسی رشتہ کے زعم میں ایران جانے کے لئے پاکستان چلے آئے تھے۔ جہاں انہیں کئی چیک پوسٹوں پر اپنے ساتھ اصل دستاویزات ہونے کے باوجود رشوت دینا پڑی۔ جب مزید رشوت دینے کے قابل نہ رہے تو کلمہ گو بھائیوں نے جان کی صورت میں ان کے پاس جو آخری متاع تھی وہ بھی لوٹ لی۔ یہ خزاں رسیدہ بتوں کی طرح لاوارث قافلہ ٹھہرا۔ گولیوں کا برسٹ جسم میں اترنے سے قبل جو خاتون ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے پروردگار کو پکار اور بندوق برداروں کو لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلا رہی تھی اس کی اولگا نام سے شناخت ہوئی ہے۔ اس نے عیسائیت اپنا خاندان اور وطن روس چھوڑ کر تاجک نوجوان نعمان سے شادی کی تھی۔ نعمان کے والد گزشتہ روز تاجکستان سے کوئٹہ پہنچے۔ یہاں بولان میڈیکل کالج میں شہیدوں کے جسدِ خاکی کو شناخت کیا۔ تاجک میاں بیوی شہید بیٹے اور بہو کی چھلنی نعشیں دیکھ کر سکتے میں آئے اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ماں اپنے لختِ جگر کو اس حالت میں پہلی اور آخری بار دیکھ کر چہرے کو بوسے دیتی رہی۔ اولگا ہی وہ ”دہشت گرد“ تھی جس کے پیٹ میں 7 ماہ کا بچہ تھا۔ اولگا کا گھرانہ بدستور عیسائی ہے۔ جو کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اولگا کے ساتھ ہوا۔ اس مسیحی گھرانے کے پاکستان اور اسلام کے بارے میں کیا احساسات و خیالات ہوں گے۔ خصوصی طور پر جبکہ عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے دہشتگرد ہونے کا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے؟ خروٹ آباد میں کربلا برپا کرنیوالوں نے جھوٹ کے طومار باندھ دئیے۔ ایک دو دن میں ہی جھوٹ بے نقاب و بے حجاب ہو گیا۔ لیکن حکومت کی طرف سے کوئی سخت نوٹس نہ لینے کے باعث کراچی میں رینجرز اہلکاروں نے 7 جون 2011 کو خروٹ آباد سانحہ سے ملتی جلتی قیامت ڈھا دی۔ پاکستان خصوصی طور پر کراچی اور بلوچستان میں تعینات فورسز حالتِ جنگ میں ہیں۔ حالت جنگ کمیٹیاں اور کمشن اور ٹریبونل نہیں بنتے۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوتے ہیں۔ 65ءکی جنگ میں جنرل ٹکا خان نے اوپی کو اپنی ہی پوزیشنوں پر گولہ باری کراتے دیکھا۔ اسے واپس بلایا گیا۔ وہ جرم کی صفائی نہ دے سکا۔ بلنڈر کی معافی مانگی۔ ملزم سے اعتراف سننے کے بعد جنرل ٹکا نے ٹینک اوپر چڑھانے کا حکم دیدیا۔ رینجرز اہلکاروں پر شاید سادات کا ناحق خون بہانے کا قہر ٹوٹا ہو۔ ورنہ پولیس اور رینجرز کا ایسے کارنامے انجام دینا معمول ہے۔ کیا ایسی کارروائیاں رینجرز اور پولیس سربراہوں کے علم نہیں نہیں؟ اگر نہیں تو ان کو اپنی نااہلیت تسلیم کرتے ہوئے۔ اگر ہیں تو نظرانداز کرنے پر سرنڈر کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ان صاحبان کو تین دن میں عہدے چھوڑنے کی مہلت دی تھی۔ جس پر حکومت سندھ تو نظرثانی کی اپیل کرنا چاہتی تھی تاہم اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ فیصلے پر عمل کریں گے لیکن کب؟ سپریم کورٹ کی دی مہلت تو گزر چکی ہے۔ اب دیر کیوں؟ آئندہ ایسے دلدوز اور سفاکانہ واقعات کی روک تھام کا یہی ایک حل اور علاج ہے۔ سندھ حکومت کا اپنے فرائض سے بجاآوری کے عزم کا اندازہ کر لیجئے۔ جن لوگوں نے جرم کیا ان کو تو سزا ملے گی ہی۔ جن کے ایما پر سب کچھ ہوا وہ کیوں اپنے عہدوں پر رہیں۔ سندھ حکومت افسروں کو بچانے کی چارہ جوئی کر رہی ہے اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ صوبائی حکومت کے احکامات اور ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ سید سرفراز شاہ کا قتل بھی پولیس اور رینجرز کو دئیے گئے بے لگام اختیارات کا شاخسانہ ہے۔ کوئٹہ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ کوئٹہ کراچی کے سانحات کے مجرموں کو چھوڑا گیا تو نہ صرف ایسے واقعات ہوتے رہیں۔ بلکہ ادارے شدید عوامی نفرت کا نشانہ بنیں گے۔ حالانکہ جرائم اداروں نے نہیں کئے۔ انفرادی طور پر ہوئے ہیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر اداروں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنے والوں کے منہ بھی بند ہو جائیں گے۔ کیا ہم نعمان اولگا اور سرفراز شاہ کی شہادتوں جیسے سانحات کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ سوچئے ذرا سوچئے۔ کیا ہم چاہیں، صدر وزیراعظم آرمی چیف، رینجرز، پولیس اور ایف سی کے سربراہان چاہیں گے کہ ان کے بچے بہن بھائی نعمان اولگا اور سید سرفراز جیسے انجام سے دوچار ہوں۔ جواب یقیناً نہیں ہے۔ تو ایسے سانحات کے وقوع پذیر ہونے کی راہ میں اپنے اپنے اختیارات کے مطابق بندھ باندھئیے ابتدا اوپر سے کرنے کی ضرورت ہے۔


Sunday, June 12, 2011

ہاشمی صاحب! یہ فوج کے کڑاکے نکالنے کا موقع نہیں

 اتوار ، 12 جون ، 2011







ہاشمی صاحب! یہ فوج کے کڑاکے نکالنے کا موقع نہیں
فضل حسین اعوان
میاں نواز شریف فوج کے جس طرح کڑاکے نکالنا چاہتے ہیں ان کے ساتھی شہنشاہ ¿ جذبات و دافع بلیات جاوید ہاشمی نے 9 جون کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران نکال کر دکھا دئیے۔ وہ رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں ایک نوجوان کے مارے جانے کے واقعہ کو لے کر فوج پر خوب برسے۔ خود روئے اور ساتھیوں کو بھی رُلا دیا۔ اسمبلی سے ان کو بلا امتیاز داد ملی۔ اپنی دھواں دار تقریر میں فرمایا ”ہماری زندگی میں وہ بدقسمت دن نہ آئے کہ جس میں ہماری فوج کی وردی کی وہ توہین ہو جو بنگلہ دیش میں ہوئی تھی۔ ہم نہیں چاہتے کہ اب مزید کوئی پلٹن میدان سجے۔ اگر تم قوم کی عزت پامال کرو گے تو کون تمہاری لاشوں کو روئے گا، کون ملک کی گلیوں میں تمہاری عزت کرے گا۔ قوم کے مالک تم نہیں پہاڑوں میں رہنے والے غریب عوام ہیں، قوم کو ایجنٹ مت بنا ¶، تم ہمارے سر ریزہ ریزہ کر دو ہمارا انداز یہی رہے گا۔ فوج اتنا ظلم نہ کرے کہ کل ان کی لاشوں پر رونے والا کوئی نہ ہو۔ فوج قوم سے جنگ نہیں لڑ سکتی۔ اگر ایسا ہوا تو فوج ہار جائے گی۔“ 
ماضی بعید نہیں، قریب کی بات ہے صرف 27 روز قبل بھی جاوید ہاشمی نے بڑا جذباتی خطاب کیا تھا۔ 9 جون کی طرح انہوں نے 13 مئی کو بھی میلہ لُوٹا تھا لیکن جو آج کہا اُس دن اس کے بالکل برعکس گویا ہوئے تھے۔ اُس دن ظلمت کو ضیاءکہا یا آج صرصر کو صبا کہہ رہے تھے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران جب فوج اور آئی ایس آئی کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جاوید ہاشمی نے اپنے مخصوص جذباتی انداز میں کئے گئے خطاب میں فوج اور آئی ایس آئی کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ”پوری قوم کو پاک فوج اور آئی ایس آئی پر فخر ہے، ملک کے دفاع اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے فوج کے ساتھ ہے۔ آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں کیا جاتا ہے اور کئی مواقع پر آئی ایس آئی نے پاکستان اور ایٹمی پروگرام کے خلاف دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ ایک فوجی آمر نے مجھے جیل میں ڈال کر جھوٹے مقدمے میں سزا دلوائی، اپنے تمام ذاتی گلے شکووں اور شکایات کے باوجود مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کہ مجھے اپنی فوج اور آئی ایس آئی پر فخر ہے۔ بھارت ہو یا امریکہ کسی نے اگر پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر وار کرنے کی کوشش کی تو پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ ہو کر اپنی سرحدوں کا دفاع کرے گی۔“ 
ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں ہاشمی صاحب گھومے یا مخدوم کی سوچ گھوم گئی۔ وہ گرداب سے نکل آئے یا بھنور میں پھنس گئے؟ کایا پلٹ سوچ کہاں سے نازل ہو گئی۔ یہ ایسا معمہ نہیں جس کے بارے میں کہا جائے کہ نہ سلجھنے کا ہے نہ سلجھانے کا۔ مخدوم کا ایک اور چودہ طبق روشن کر دینے والا خطاب ملاحظہ فرمائیے۔ یہ 21 اپریل اور قومی اسمبلی کا پلیٹ فارم ہے۔ جاوید ہاشمی کی پارٹی کے قائد لندن میں بسترِ علالت پر ہیں۔ مخدوم اس روز بھی جذباتی ہوئے۔(جاری ہے)
اس روز ان کے خطاب پر والہانہ پن بلا امتیاز نہیں، ن لیگ کی بجائے پیپلز پارٹی کی طرف سے تھا۔ چند فقرے نذر قارئین ہیں۔ ”اگر ہم نے اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی نہ مانگی تو ملک ٹوٹ جائے گا، سب سے پہلے میں اپنی غلطیوں پر قوم، ایوان اور آنے والی نسلوں سے معافی مانگتا ہوں، نواز شریف بھی اپنی غلطیوں پر معافی مانگیں۔ ملکی تاریخ میں بھٹو سے بڑا لیڈر پیدا نہیں ہوا، اُن کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ ضیاالحق کی کابینہ میں شمولیت پر شرمندہ ہوں۔ میں اپنے ماں باپ کی موت کے بعد بینظیر بھٹو کی شہادت پر رویا۔ پارٹی ٹکٹ کے لئے سچ بولنا نہیں چھوڑوں گا، قوم کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو قوم کے لئے سر کٹوا سکے۔ رائے ونڈ کی ایک سڑک پر 10 ارب روپے خرچ کر دئیے جائیں گے تو جنوبی پنجاب کے لئے کیا بچے گا۔ سچ کہتا رہوں گا بے شک پارٹی مجھے آئندہ الیکشن کے لئے ٹکٹ نہ دے۔“ اس خطاب سے لگتا ہے کہ مخدوم شریفوں کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں اور سیاست کے لئے ان کی نظریں کسی اور گدی کی متلاشی ہیں۔ جاوید ہاشمی کو ترکی بہ ترکی جواب نواز شریف نے دیا نہ شہباز شریف نے۔ میاں صاحب لندن سے لوٹے، ملاقات ہوئی۔ مخدوم کی سوچ ایک جھٹکے کے ساتھ پلٹ گئی۔ 28 مئی 2011ءکو یومِ تکبیر کے موقع پر ایوانِ اقبال میں نواز اور مخدوم بھی مدعو تھے جہاں ایک بار پھر ہاشمی کے جذباتی خطاب نے ن لیگ کی لیڈر شپ اور کارکنوں کے دل فگار جذبات کو موم میں بدل دیا۔ ان کی باتوں سے ثابت ہو گیا کہ مخدوم نے اپنی قیادت کے بارے میں جو کہا وہ معاملہ ”رات گئی بات گئی“ ہو گیا تھا۔ جاوید ہاشمی کہتے ہیں انہوں نے حق کہا اور سچ کہا۔ نواز شریف کی خوشامد اور چاپلوسی نہیں۔ ان کے الفاظ اور جذبات کیا کہتے ہیں مختصراً ملاحظہ فرمائیے:۔ 
”آج پھر نواز شریف کو 28 مئی والا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ میں ہمیشہ اپنے دل کی بات کرتا ہوں، جس دن میں نے خوشامد کی وہ میری زندگی کا آخری دن ہو گا۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ملک کو صرف ایک شخص اور لیڈر شپ بچا سکتی ہے اور وہ میاں نواز شریف ہیں، مجھے اس وقت ان سے بڑا کوئی لیڈر نظر نہیں آتا۔“ 
مخدوم صاحب بہت بڑے سیاستدان ہیں انہوں نے ڈیڑھ ماہ میں جو م ¶قف بدلے اس پر افسوس سے زیادہ دکھ ہوتا ہے۔ آج امریکہ نے فوج اور آئی ایس آئی کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ بھارت اس کا ہم نوا ہے، پاکستان میں بھارتی لابی بھی ہم نوا ہے‘ ضرورت فوج کے شانہ بشانہ ہونے کی ہے نہ کہ امریکہ اور اس کے ہم نوا ¶ں کی سوچ کو بڑھاوا دیا جائے۔ سیاستدانوں، سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے فوج اور آئی ایس آئی کے حوالے سے یقیناً کچھ تحفظات ہوں گے لیکن فوج اور آئی ایس آ ئی کو آڑے ہاتھوں لینے کا یہ موقع نہیںجب ملک دشمن اسے تنہا کرنا چاہتے ہیں۔ آج فوج اور قوم کے مابین یکجہتی و ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ آج کل فوج کے بارے میں چند ٹی وی چینلز میں جو فوٹیج دکھائی جا رہی ہیں، کالم پہ کالم لکھے جا رہے ہیں، تجزیہ کاروں کے فوج کے خلاف بول بول کر حلق خشک ہو رہے ہیں، تضحیک اور تذلیل پر مبنی خبریں نشر اور شائع کی جا رہی ہیں۔ اس کا مقصد، فوج اور عوام کے مابین نفرت کی دیوار کھینچ دینا اور حقارت کی خلیج پیدا کر دینا نہیں؟ کیا ہم خود معاملات دانستہ یا نادانستہ پلٹن میدان کی طرف نہیں لے جا رہے ہیں۔ امید ہے کہ مخدوم ایک اور جذباتی خطاب سے فوج اور قوم کے مابین دوریاں پیدا کرنے کی سازش کو بے نقاب کر دیں گے۔ ان کے چاہنے والوں کی خواہش ہے کہ وہ مخدوم رہیں کسی کا خادم بن کر کسی کے کڑاکے نہ نکالیں۔ کڑاکے نکالنے ہی ہیں تو ازلی دشمن کے نکالیں۔ جس نے بھارت ماتا یا گ ¶ ماتا کی تقسیم یا ٹکڑے کرنا قبول نہیں کیا‘ پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔




Saturday, June 11, 2011

مراعات کی جنت

 ہفتہ ، 11 جون ، 2011


مراعات کی جنت
فضل حسین اعوان 
خوں آشام ہَوائیں، زرد خزائیں، شعلہ بار گھٹائیں، جاں لیوا بلائیں وبائیں اور ابتلائیں ہمیں چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔ وطن کے بدن کا رواں رواں شعلہ بار، جوڑ جوڑ بیقرار، ہر عضو خوں بار ہے۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر محبِ وطن طبقات بے بسی کی تصویر، بے کسی کی تعبیر بنے اشک بار و سوگوار ہیں۔ یہ ہماری شامتِ اعمال ہے، کسی کی بددعائیوں کا نتیجہ یا آزمائش خداوندی کہ ہر طرف گھٹا ٹوپ تاریکی، وحشت، دہشت، بربریت، سفاکی اور لاقانونیت ہے۔ خون کی موجیں لہو کے قلزم میں ڈھل گئیں۔ انسان کی قدر ہے نہ انسانیت کی اہمیت۔ میرا وطن غیروں کی لڑائی میں مقتل بن گیا۔ جہاں خون بہہ رہا ہے تو اپنوں کا۔ لاشیں گر رہی ہیں تو اپنوں کی۔ اعضا کٹ رہے ہیں تو اپنوں کے۔ غارت گر بگولوں، ستمگر طوفانوں کی زد میں ہیں تو سب اپنے، اپنے پاکستانی۔ پاکستانیوں کا سکون چھن چکا، اضطراب بڑھ رہا ہے۔ مایوس چہرے منحوس حالات کا عکس ہیں۔ جس دہشت کے بھنور اور وحشت کے سمندر نے عام آدمی پر سکوتِ مرگ طاری کر دیا، اسے ہر شے کی گرانی محض خون کی ارزانی کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہر غم سے آزاد اور خوش و خرم مطمئن ہے۔ آسودہ حال روشن آنکھیں، شگفتہ چہرے، یہ سب ان کی زرد آرزو ¶ں اور سرد احساسات و جذبات کا کمال ہے۔ انہیں فکر نہیں کہ ہم وطن کس حال و وبال میں ہیں۔ جب برق گرتی ہے ہم وطنوں کے آشیانوں پر تو ڈالروں کی برکھا برسنے لگتی ہے ان کے کاشانوں پر۔ شکم، شکمِ جہنم ہے کہ بھرتا نہیں۔ ھل من مزید کی گردان جاری رہتی ہے، وطن فروشی پر ندامت نہ بیٹے بیٹیوںکی سوداگری پر احساسِ اہانت۔ 
اب ایک اور بے صبری ملاحظہ فرمائیے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے سابق ارکانِ پارلیمنٹ کو پنشن سمیت وی آئی پی مراعات دینے کی سفارشات کی منظوری دیدی ہے۔ ممبری کے دوران لاکھ، مدتِ ممبری ختم ہونے پر سوا لاکھ کے ہو جائیں گے۔ الیکشن لڑ کر آنے والے اکثر ارکان 15 لاکھ خرچ کرنے کی اجازت کی آڑ میں کروڑوں لگاتے اور اربوں کماتے ہیں۔ سینٹ میں ایک روپیہ خرچ نہیں ہوتا پارٹی سربراہ کی نظرِ کرم درکار ہوتی ہے۔ پارٹی سربراہ اسمبلی الیکشن ہار کر خود کو سینٹر بنانے اور کسی کے بھی سر پر ہُما بٹھانے پر قادر ہے۔ بعض جماندرو سینٹرز بھی ہیں ایک بار سینٹر بنے تو بار بار بنتے جا رہے ہیں۔ عوامی مسائل سے غرض نہ عوام کی پروا۔ وہ بھی سابقون ہوں گے تو مراعات کی جنت ساتھ لئے پھریں گے۔ ایسی ہی مراعات پر حق خصوصی نشستوں کے حاملین کا بھی ہو گا۔ سینٹ اور خصوصی نشستوں کی رکنیت کو پارٹی نوازش بنا دیا گیا۔ خصوصی نشستوں والیاں وزیر اور سینٹر اپنی رکنیت کے بل بوتے پر صدر تک بن جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مراعات، صدقات و خیرات میں پورا حصہ وصول کرنے والا یہ طبقہ بھی الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں آئے ع
علاج اس کا کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں



Friday, June 10, 2011

”کاکے عمران! سیاست سِکھ لے“





جمعۃالمبارک ، 10 جون ، 2011
”کاکے عمران! سیاست سِکھ لے“
فضل حسین اعوان
چاچے ماکھے کی دکان کے تھڑے پر جمنے والی محفل یوں تو بزرگوں کی ہے لیکن اس میں نوجوانوں کی شرکت پر بھی پابندی نہیں۔ یہ محفل دیکھ کر یقین مزید پختہ ہو گیا کہ علم کسی کی میراث نہیں۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں پڑھنے والوں کی بھی نہیں۔ اگر ہوتی تو 80 سالہ بابا غلام قادر علم و دانش کا دریا نہ ہوتا۔ جس کی علمیت، فہم و فراست سے نئی نسل سیراب ہو رہی ہے۔ ابھی اخبار نہیں آیا تھا۔ ایک نوجوان نے سوال کیا ”بابا عموماً اخباری مضامین میں جامِ جم کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ کیا ہے“ بابا کا مختصر جواب تھا ”ایرانی بادشاہ جمشید کو جادوگر شراب کے بہت بڑے پیالے میں مستقبل کی تصویر دکھا دیتے تھے۔ اس برتن کا یعنی جام کا نام جامِ جم ہے“۔ دوسرے نوجوان نے کہا ”بابا مجھے جام و سنداں کھیل کے بارے میں نہیں پتہ“۔ ”یہ بھی ایرانی بادشاہوں کے دربار میں پیش کیا جانے والا کھیل ہے۔ ماہر بازیگر ایک ہاتھ پہ بھرا ہوا جام دوسرے پہ لوہے کا گولہ (سنداں) رکھ کر دونوں کو اس طرح اُچھالتا کہ جام، گولے والے ہاتھ میں اور گولہ جام والے ہاتھ پر آ جاتا۔ پھر اس میں اس قدر تیزی آ جاتی کہ جام اور گولے کا فرق مٹ جاتا حتیٰ کہ بادشاہ اور درباریوں کو ایک دائرہ سا لہراتا دکھائی دیتا۔ اس دوران مجال ہے کہ ایک قطرہ ¿ شراب بھی جام سے نیچے گر جاتا۔“ بابا قادر شاید بات آگے بڑھاتا کہ اتنے میں رشید فوجی چنگ چی جِسے موت کا سیارہ بھی کہتے ہیں سے اخبار لہراتا ہوا اترا۔ پچھلے دو رکشوں سے 9 دس کالجئے اتر کر بھی تھڑا مجلس میں شامل ہو گئے۔ رشید فوجی سے زیادہ اہل مجلس کی توجہ اخبار پر تھی۔ شرکاءمیں سے ایک نے قدیم جیالے کی طرف طنزاً دیکھتے ہوئے رشید سے پوچھا ”بتاﺅ آج بونگی شاءنے کیا کیا فلسفہ بھگارا ہے!“ آج بونگی شاءکو چھوڑیں۔ نوجوانوں کی آنکھ کے تارے نے جو پرسوں کہا تھا کہ یقین سے کہتا ہوں کہ اگلی حکومت ہم بنائیں گے۔ آپ سب نے کہا تھا مشکل ہے کچھ اسے ناممکن اور کچھ اسے دیوانے کی بڑ قرار دیتے تھے۔ آج انہوں نے جو کچھ کہا یقین آ گیا کہ آئندہ الیکشن کے بعد تاجِ شاہی عمران خان کے سر پر ہی سجے گا“۔ اب محفل کی توجہ کا مرکز اخبار نہیں اخبار بردار تھا۔ بیک وقت آدھی درجن آوازیں بلند ہوئیں ”کیسے؟“ رشید فوجی نے سیکنڈ ائر کے طالب علم کو اخبار تھما کر کہا ”یہ خبر پڑھو“۔ خبر یہ تھی ”عمران خان نے برمنگھم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی احترام پر مبنی تعلقات قائم کریں۔ ہم اقتدار میں آ کر بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں گے۔ جو دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند ہوں گے۔ جس سے پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خوشحال ملک بن جائے گا“ خبر ختم ہوئی تو ایک آواز اُبھری ”اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان الیکشن جیت کے اقتدار میں آ جائے گا“ جواب رشید کے بجائے کسی اور نے دیا کہ ”اسلام آباد کو صرف ایک راستہ وایا واشنگٹن جاتا ہے۔ واشنگٹن کا حکم ہے کہ بھارت سے تعلقات بہتر بناﺅ۔ دونوں ممالک باہم شیر و شکر ہو جائیں یہی وجہ ہے کہ ہر پارٹی کی بڑی پارٹیوں پی پی پی اور ن لیگ سمیت واشنگٹن کی طرف حسرت بھری نظریں لگی ہیں۔ عمران خان اس میدان میں ذرا پیچھے تھے سو وہ بھی کود کر سامنے آ گئے۔“ 
عمران نوجوانوں کی امید اور نوجوان عمران کا اثاثہ ہیں۔ رکشے سے اترنے والے دس میں سے 8 نوجوانوں نے کہا کہ ”ہم عمران کے ووٹر ضرور ہیں عمران کے ایڈونچرازم کے اسیر نہیں۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود عمران خان امن کے دیپ جلانے کی بات کریں گے تو ہم ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔“ ایک اور آواز گونجی ”عمران کو سیاسی پختگی کے لئے مزید ربع صدی کی ضرورت ہے۔ وہ ڈکٹیٹر مشرف کے دامن سے لپٹے رہے لوگوں نے یہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا کہ وہ سیاست میں نووارد تھے۔ الطاف حسین نے جرنیلوں کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دی تو عمران حمایت میں خم ٹھونک کر سامنے آ گئے۔ یہ پختہ کار سیاستدان کا وتیرہ نہیں اور اب بھارت کے ساتھ تعلقات کا شوق؟ بھارت کے ساتھ تعلقات 18 کروڑ پاکستانیوں کے خون کی لکیر عبور کر کے ہی قائم ہو سکتے ہیں۔“ ایک اور نوجوان بولا ”عمران خان اگر لوگوں کے دلوں سے اترنا، الیکشن جیتنے کی فضا کو مکدر کرنا اور عام آدمی کی نفرت کا نشانہ بننا چاہتا ہے تو بے شک بھارت کے ساتھ احترام پر مبنی اور اچھے تعلقات قائم کرنے کی باتیں کرتا رہے۔“ بابا غلام قادر کی اس بات کے ساتھ محفل برخاست ہو گئی ”پاکستان کی سیاست جام و سنداں کا مشکل کھیل نہیں بڑی آسان ہے۔ عوامی جذبات اور توقعات کو مدِنظر رکھیں تو کامیابی قدم چوم لیتی ہے۔ عمران خان کو بتا دو کاکے! سیاست سِکھ لے“



Wednesday, June 8, 2011

میرٹ ڈی میرٹ: اور ڈاکٹر اے کیو خان













بدھ ، 08 جون ، 2011 
میرٹ ڈی میرٹ: اور ڈاکٹر اے کیو خان
فضل حسین اعوان
میرٹ کا جنازہ جس دھوم اور شان سے ہمارے ہاں نکلتا ہے شاید اس زور شور، غلغلے اور شوکت و شکوہ سے کہیں باراتیں بھی نہ چڑھتی ہوں۔ میرٹ، ڈی میرٹ ہونے سے امیدوں کے چراغ اور یقیں افروز شمعیں فروزاں ہو کر گرد و پیش کو بقعہ نور بنانے کے بجائے بے تیل دئیے کی طرح بجھتے ہوئے مایوسیوں کے سائے پھیلا دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں کس چیز کی کمی ہے؟ وسائل سے بھرپور ملک، جفاکش افرادی قوت، مایہ ناز ماہرین ہیں۔ بدقسمتی سے وسائل سے استفادہ کیا جاتا ہے نہ ماہرین کی خدمات سے۔ وزیر مشیر اہلیت کی بنیاد پر نہیں بنائے جاتے شاید قرعہ اندازی کی جاتی ہے۔ یہی معاملات دیگر شعبوں میں تعیناتیوں کے ہیں۔ میرٹ ڈی میرٹ کی حقیقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قلمی تحریروں کے عکس پر مبنی کتاب ”عراضہ“ دیکھ کر نظروں کے سامنے گھومنے لگی۔ گو ڈاکٹر خان صاحب کے جاں نشینوں نے اُن کے جاں نشیں ہونے کا حق ادا کر دیا تاہم نوائے وقت کے ان کی بہترین خدمات اور پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے کارنامے پر دئیے گئے محسن پاکستان کے خطاب کے حامل ڈاکٹر خان کو وہ مرتبہ و درجہ نہ مل سکا جس کے وہ سزاوار تھے۔ فوجی آمر نے امریکہ کے خوف سے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ امریکہ کے حوالے کرنے کی تیاری تھی۔ پھر گھر میں نظربند کر دیا۔ موجودہ حکمرانوں کے سر پر بھی امریکی گرز لہرا رہا ہے۔ ان کے جدِ امجد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب دیکھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے محدود وسائل اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود اس خواب کو حسین تعبیر دیدی۔ آج پاکستان میں بجلی کی شدید کمی ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک ایٹمی ٹیکنالوجی کو جدید تقاضوں سے ہمکنار اور استوار کر رہے ہیں۔ وہ یہ کام جاری رکھیں۔ ”عراضہ“ ان کی بڑے شعرا غالب، فیض، داغ دہلوی، حفیظ جالندھری، جگر مرادآبادی، ساغر نظامی، کرنل مجید ملک، طباطبائی، مرزا سودا، مجاز، ولی دکنی اور دیگر شعرا کے کلام کے خوبصورت قلمی عکس پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر غزلیں، نظمیں اور قطعات اردو اور کچھ فارسی میں ایک آدھ عربی میں بھی ہے۔ انتساب کمال کا ہے۔ تصاویر کے ساتھ۔ بانی پاکستان کے نام۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا خواب دیکھنے والے کے نام۔ ذوالفقار علی بھٹو.... ایٹمی قوت کی تکمیل کرنے والے کے نام۔ جنرل ضیاءالحق.... ایٹمی قوت کی تعمیر کرنے والے کے نام۔ ڈاکٹر قدیر خان.... اس خواب کو تعبیر دینے والے کے نام۔ نوازشریف.... کتاب جبار مرزا نے مرتب کی۔ پبلشر علامہ عبدالستار عاصم کا کہنا ہے کہ کتاب کی تمام آمدنی ڈاکٹر خان کے فلاحی کاموں پر خرچ کی جائے گی۔ تو پھر کالم نویسی کیوں؟ کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے حضرت یوسفؑ کی مختصر ترین داستان سنانے والے کے لئے انعام رکھا۔ مستحق وہ ٹھہرا جس نے چند الفاظ لکھ کر سب کو دنگ کر دیا۔ ”حضرت یوسف اپنے والد سے بچھڑے اور پھر مل گئے“ ڈاکٹر قدیر خان پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن ”عراضہ“ میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں مختصراً لکھ کر کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے چیدہ چیدہ نکات ملاحظہ فرمائیے۔ 6 اپریل 1998ءکو غوری 1، 1500 کلومیٹر (بلاسٹک میزائل) تجربہ کے موقع پر جنرل پرویز مشرف کور کمانڈر منگلا کے طور پر مدعو تھے لیکن حواس میں نہیں تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ ہم آیت الکرسی کا ورد کر رہے ہیں۔ ادھر خانہ کعبہ میں حج ہو رہا ہے اور آپ کس حالت میں آ گئے۔ یہاں سے ان کا جنرل مشرف سے اختلاف پیدا ہوا۔ بعد ازاں بدقسمتی سے جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو بن گئے اور اختلافات قائم رہے۔ مئی 2000ءمیں جب غوری III (4000 کلومیٹر رینج) پر پچاس فیصد کام مکمل تھا کہ چیف ایگزیکٹو نے یہ کہہ کر فنڈز جاری نہ کئے کہ ”اسرائیل تباہ کرنا چاہتے ہو؟“ پھر جنرل مشرف نے جنوری 2004ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ڈی بریفنگ شروع کر دی۔ فروری 2004ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے زبردستی اعترافی بیان دلوایا گیا پھر انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے سی 130 جہاز تیار کر کے کھڑا کر دیا گیا کہ عین موقع پر اس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی نے ایگزٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جان تو بچ گئی مگر جمالی مشرف اختلافات کا آغاز ہو گیا انہی اختلافات کی بناءپر آگے چل کر 26 جون 2004ءکو امریکہ کے ایماءپر جمالی کو وزارت عظمٰی سے علیحدہ کر دیا گیا۔ ایک تبصرے میں ڈاکٹر اے کیو خان نے نے کہا کہ میاں محمد شریف کو پاکستان اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بہت عزیز تھا۔ ایٹمی دھماکوں سے پیشتر ایک مرتبہ میری ملاقات ان سے مدینہ منورہ میں اوبرائے ہوٹل میں ڈنر کے دوران ہوئی۔ میاں نوازشریف نے میرا تعارف کرایا اور کہا ابا جی یہ ڈاکٹر صاحب ہیں جنہوں نے ایٹم بم بنایا ہے۔ میاں صاحب نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد انہوں نے لاہور میں مجھے ملنے کی دعوت دی یہ ملاقات جاتی امرا میں ہوئی (اس ملاقات کا اہتمام جناب مجید نظامی نے کرایا تھا) میاں صاحب نے باہر آ کر مجھے خوش آمدید کہا اور گلاب کے ہار پہنائے۔ (ڈاکٹر صاحب یہاں معذرت کیساتھ) غلط بیانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وہ مجید نظامی کے پاس آئے کہ مجھے رائے ونڈ لے چلیں۔ یہ ملاقات دھماکے سے پہلے ہوئی بعد میں نہیں۔ اس ملاقات کے بعد غلط فہمیاں دور ہوئیں)۔ باتوں باتوں میں، میں نے ان سے کہا کہ میاں نوازشریف نے ایک نہایت بدکردار شخص (مشرف) کو آرمی چیف بنایا ہے یہ ان کا تختہ الٹے گا جس پر میاں صاحب نوازشریف پر ناراض ہوئے اور میرا کہا بعد میں سچ ثابت ہوا۔ 
ڈاکٹر صاحب کی پاکستانی سیاست پر بھی گہری نظر ہے۔ اپنے ایک مضمون میں دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کے بارے لکھتے ہیں:
امید تھی دس سال کی جلاوطنی اور لاتعداد لوگوں سے ملاقاتوں اور بحث و مباحثہ کے بعد میاں نوازشریف ایک نہایت پختہ اور سمجھدار سیاستدان کے طور پر واپس آ کر ملک کی اور عوام کی خدمت کرینگے اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دینگے مگر نہ صرف میں بلکہ لاتعداد دوست و احباب اور شہری ان کے اعمال سے سخت مایوس ہوئے۔ انہوں نے مصدقہ راشیوں، چوروں کے ساتھ اپنا مقدر وابستہ کر لیا اور اس وہم کا شکار ہو گئے کہ وہ جمہوریت اور ملک کے نجات دہندہ ہیں اور راشیوں اور نااہلوں کی ڈھال بن کر ملک بچا رہے ہیں۔ تین سال سے زیادہ وقت ضائع کرنے کے بعد اب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور اب موجودہ حکمرانوں کے خلاف کچھ باتیں کر رہے ہیں۔ میرا مشورہ ان کو یہ ہے وہ اب میاں شہباز شریف کو قومی سطح پر سیاست کرنے دیں، انہیں کھلا ہاتھ دیں اور خود بزرگ سیاستداں کے طور پر پیچھے رہ کر بوقت ضرورت مشورہ دیدیا کریں۔ حالات جس قدر تیزی سے بگڑ رہے ہیں اگر انہوں نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو اگلے الیکشن کے بعد وہ صرف صنعتکار ہی رہ جائینگے۔







9-6-11
میرٹ ڈی میرٹ: اور ڈاکٹر اے کیو خان
فضل حسین اعوان 


 گزشتہ سے پیوستہ
ڈاکٹر خان نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ میاں نواز شریف کو میرا یہ مشورہ ہے وہ اب میاں شہباز شریف کو قومی سطح پر سیاست کرنے دیں، انہیں کھلا ہاتھ دیں اور خود بزرگ سیاستداں کے طور پر پیچھے رہ کر بوقت ضرورت مشورہ دیدیا کریں۔ حالات جس قدر تیزی سے بگڑ رہے ہیں اگر انہوں نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو اگلے الیکشن کے بعد وہ صرف صنعتکار ہی رہ جائینگے۔ آئیے آپ کو ایک نہایت ہی عزیز اور عالم عرب دوست کا ہمارے لیڈروں کے بارے میں تجربہ بیان کرتا ہوں۔ ایک روز میں نے ان سے دریافت کیا کہ ان کا ہمارے حکمرانوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ میرا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں مگر میرے اصرار پر کہا کہ آپ کے اس سوال نے مجھے اپنے علاقہ کے ایک نہایت خوبصورت عام منظر کی یاد دلا دی ہے کہ ریگستان میں اونٹوں کی قطار جا رہی ہے ایک کے پیچھے ایک، بہت ہی خوبصورت قافلہ، سب سے پچھلے اونٹ کی نکیل اگلے اونٹ کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور اسکی نکیل اس سے اگلے اونٹ کی دُم سے، اس طرح یہ سلسلہ جاری ہے مگر جب میں سب سے اگلے اونٹ کے پاس جاتا ہوں تو تعجب اور حیرت کا شکار ہو جاتا ہوں کہ اُس کی نکیل ایک گدھے کی دُم سے بندھی ہوئی ہے اور وہ ان کا لیڈر اور رہنما ہے۔ انہوں نے کہا مجھے آپ کے ہاں ہمیشہ یہی خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک گلہ ضرور ہے کہ انہوں نے کالم نگاری کیلئے ایسے ادارے کو منتخب کیا جس کے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں منفی خیالات و جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اسی ادارے نے گورڈن کوریرہ کی شاپنگ فار بمز کی ڈاکٹر خان کی تضحیک، تذلیل پر مبنی کتاب کا بڑے اہتمام کے ساتھ ترجمہ شائع کیا۔ ڈاکٹر صاحب انمول ہیں وہ اتنے سستے نہیں انہوں نے اپنی قیمت بہت کم لگوائی۔مجید نظامی صاحب سے اشارةً بھی بات کرتے تو وہ ان کی انا کبھی مجروح نہ ہونے دیتے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں بتائے بغیر کیچڑ کے کنویں میں چھلانگ لگا دی اور یہ خیال نہ کئے کہ نوائے وقت نے ان کی رہائی کے لئے کروڑوں کے اشتہار لگائے اور جو حکومتیں مرکزی یا صوبائی ان اشتہارات کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ ان کے اشتہار اپنے لئے بند کروائے۔