About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, June 15, 2011

اولگا

ب، 14 جون ، 2011



اولگا
فضل حسین اعوان 
17 مئی 2011 کو خروٹ آباد کوئٹہ میں ایف سی اور پولیس اہلکاروں کی سفاکی اور بربریت پر آسمان رویا ضرور ہو گا۔ پھٹا کیوں نہیں۔ اس میں شاید قدرتِ کاملہ کی کوئی حکمت ہو۔ بدترین دشمن کے بارے میں بھی حکم ہے کہ پناہ مانگے، خود کو حوالے کرنے پر آمادہ ہو تو اس کی جان بخشی کر دی جائے۔ خروٹ آباد میں گولیوں کی بوچھاڑ کے دوران خواتین رحم کی بھیک مانگتی رہیں۔ شاید ان کی زبان اجنبی ہو۔ لیکن فائرنگ تھمی تو کلمہ طیبہ پڑھتے اللہ اکبر کہتے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر خدا کو پکارتے تو وہاں موجود عام آدمیوں نے بھی دیکھا۔ دو مردوں اور تین خواتین پر رحم کھانے کے بجائے اہلکاروں کی آنکھوں میں پھر خون اترا اور سب کے ٹھنڈا ہونے تک فائرنگ کرتے رہے۔ ایک طرف انسان دم توڑ رہے تھے تو دوسری طرف انسانیت۔ یہ پانچ افراد آپس میں رشتہ دار نہیں تھے۔ ان کا آپس میں محمد رسول اللہ کے کلمے کا رشتہ تھا۔ ان کا یہی رشتہ ہم سترہ کروڑ پاکستانی مسلمانوں سے بھی تھا۔ وہ اسی رشتہ کے زعم میں ایران جانے کے لئے پاکستان چلے آئے تھے۔ جہاں انہیں کئی چیک پوسٹوں پر اپنے ساتھ اصل دستاویزات ہونے کے باوجود رشوت دینا پڑی۔ جب مزید رشوت دینے کے قابل نہ رہے تو کلمہ گو بھائیوں نے جان کی صورت میں ان کے پاس جو آخری متاع تھی وہ بھی لوٹ لی۔ یہ خزاں رسیدہ بتوں کی طرح لاوارث قافلہ ٹھہرا۔ گولیوں کا برسٹ جسم میں اترنے سے قبل جو خاتون ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے پروردگار کو پکار اور بندوق برداروں کو لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلا رہی تھی اس کی اولگا نام سے شناخت ہوئی ہے۔ اس نے عیسائیت اپنا خاندان اور وطن روس چھوڑ کر تاجک نوجوان نعمان سے شادی کی تھی۔ نعمان کے والد گزشتہ روز تاجکستان سے کوئٹہ پہنچے۔ یہاں بولان میڈیکل کالج میں شہیدوں کے جسدِ خاکی کو شناخت کیا۔ تاجک میاں بیوی شہید بیٹے اور بہو کی چھلنی نعشیں دیکھ کر سکتے میں آئے اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ماں اپنے لختِ جگر کو اس حالت میں پہلی اور آخری بار دیکھ کر چہرے کو بوسے دیتی رہی۔ اولگا ہی وہ ”دہشت گرد“ تھی جس کے پیٹ میں 7 ماہ کا بچہ تھا۔ اولگا کا گھرانہ بدستور عیسائی ہے۔ جو کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اولگا کے ساتھ ہوا۔ اس مسیحی گھرانے کے پاکستان اور اسلام کے بارے میں کیا احساسات و خیالات ہوں گے۔ خصوصی طور پر جبکہ عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے دہشتگرد ہونے کا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے؟ خروٹ آباد میں کربلا برپا کرنیوالوں نے جھوٹ کے طومار باندھ دئیے۔ ایک دو دن میں ہی جھوٹ بے نقاب و بے حجاب ہو گیا۔ لیکن حکومت کی طرف سے کوئی سخت نوٹس نہ لینے کے باعث کراچی میں رینجرز اہلکاروں نے 7 جون 2011 کو خروٹ آباد سانحہ سے ملتی جلتی قیامت ڈھا دی۔ پاکستان خصوصی طور پر کراچی اور بلوچستان میں تعینات فورسز حالتِ جنگ میں ہیں۔ حالت جنگ کمیٹیاں اور کمشن اور ٹریبونل نہیں بنتے۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوتے ہیں۔ 65ءکی جنگ میں جنرل ٹکا خان نے اوپی کو اپنی ہی پوزیشنوں پر گولہ باری کراتے دیکھا۔ اسے واپس بلایا گیا۔ وہ جرم کی صفائی نہ دے سکا۔ بلنڈر کی معافی مانگی۔ ملزم سے اعتراف سننے کے بعد جنرل ٹکا نے ٹینک اوپر چڑھانے کا حکم دیدیا۔ رینجرز اہلکاروں پر شاید سادات کا ناحق خون بہانے کا قہر ٹوٹا ہو۔ ورنہ پولیس اور رینجرز کا ایسے کارنامے انجام دینا معمول ہے۔ کیا ایسی کارروائیاں رینجرز اور پولیس سربراہوں کے علم نہیں نہیں؟ اگر نہیں تو ان کو اپنی نااہلیت تسلیم کرتے ہوئے۔ اگر ہیں تو نظرانداز کرنے پر سرنڈر کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ان صاحبان کو تین دن میں عہدے چھوڑنے کی مہلت دی تھی۔ جس پر حکومت سندھ تو نظرثانی کی اپیل کرنا چاہتی تھی تاہم اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ فیصلے پر عمل کریں گے لیکن کب؟ سپریم کورٹ کی دی مہلت تو گزر چکی ہے۔ اب دیر کیوں؟ آئندہ ایسے دلدوز اور سفاکانہ واقعات کی روک تھام کا یہی ایک حل اور علاج ہے۔ سندھ حکومت کا اپنے فرائض سے بجاآوری کے عزم کا اندازہ کر لیجئے۔ جن لوگوں نے جرم کیا ان کو تو سزا ملے گی ہی۔ جن کے ایما پر سب کچھ ہوا وہ کیوں اپنے عہدوں پر رہیں۔ سندھ حکومت افسروں کو بچانے کی چارہ جوئی کر رہی ہے اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ صوبائی حکومت کے احکامات اور ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ سید سرفراز شاہ کا قتل بھی پولیس اور رینجرز کو دئیے گئے بے لگام اختیارات کا شاخسانہ ہے۔ کوئٹہ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ کوئٹہ کراچی کے سانحات کے مجرموں کو چھوڑا گیا تو نہ صرف ایسے واقعات ہوتے رہیں۔ بلکہ ادارے شدید عوامی نفرت کا نشانہ بنیں گے۔ حالانکہ جرائم اداروں نے نہیں کئے۔ انفرادی طور پر ہوئے ہیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر اداروں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنے والوں کے منہ بھی بند ہو جائیں گے۔ کیا ہم نعمان اولگا اور سرفراز شاہ کی شہادتوں جیسے سانحات کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ سوچئے ذرا سوچئے۔ کیا ہم چاہیں، صدر وزیراعظم آرمی چیف، رینجرز، پولیس اور ایف سی کے سربراہان چاہیں گے کہ ان کے بچے بہن بھائی نعمان اولگا اور سید سرفراز جیسے انجام سے دوچار ہوں۔ جواب یقیناً نہیں ہے۔ تو ایسے سانحات کے وقوع پذیر ہونے کی راہ میں اپنے اپنے اختیارات کے مطابق بندھ باندھئیے ابتدا اوپر سے کرنے کی ضرورت ہے۔


No comments:

Post a Comment