آج : منگل ، 07 جون ، 2011
جھانواں۔۔ دا¶د گیلانی سے ڈیوڈ ہیڈلی
فضل حسین اعوان
ہنود، یہود و نصاریٰ ازل سے اسلام اور اہلِ اسلام کے درپے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ملتِ اسلامیہ کو کبھی انفرادی طور پر اور کبھی باہم مل کر نقصان پہنچایا۔ عثمانی اسلامی سلطنت کبھی اُس برطانوی عمل داری جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا سے بھی وسیع تر تھی۔ جِسے اہل کفر نے سکیڑ اور بکھیر کر رکھ دیا۔ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ کفر اسلام پر غالب نہیں آ سکتا۔ پھر یہ سب کیا ہے کہ اسلامی مملکتیں الٹائی جاتی رہیں، مسلمان ذلت کا شکار ہوتے رہے۔ یقیناً کفر نے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا لیکن ذرا تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کو صدمات سے دوچار کرنے میں ملت کے غداروں کا کردار اہم ترین رہا۔ دشمن نے اتنی توجہ اپنی فوجوں کی تربیت اور اسلحہ پر نہیں دی جتنی مسلمانوں کے اندر سے غداروں کو ڈھونڈنے اور خریدنے پر دی۔ ہیمفرے اور لارنس آف عریبیہ جیسے جاسوسوں کو ملت فروشوں کی تلاش میں بیسیوں سال لگ گئے۔ دشمنوں کو آج بھی اپنے کام کے بندوں کی ضرورت رہتی ہے۔ آج ان کو بیسیوں سال انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا جدید دور ہے۔ کڑی سے کڑی ملا کر اوباما اور ڈیوڈ ہیڈلی جیسے مرتد اور منافق آسانی سے تیار کر لئے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی وطن فروشوں کی کمی نہیں لیکن محب وطن طبقہ ان کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ملکی مفادات کی سب سے بڑی نگہبان مسلح افواج ہیں۔ دشمن ان کو کمزور کرنے کی بے پایاں خواہش رکھتا اور سازش بھی کرتا ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن، مہران حملہ دشمن کی انہی سازشوںکا شاخسانہ اور آئی ایس آئی اس کا خصوصی نشانہ ہے۔ امریکہ اور بھارت نے آئی ایس آئی کو مزید دفاعی پوزیشن پر لانے کے لئے ڈیوڈ ہیڈلی کے نام کا مہرہ تلاش کر لیا ہے۔ یہ امریکہ میں زیر حراست ہے اپنے عدالتی بیانات میں اس نے الیاس کشمیری سے رابطوں اور اس کے ساتھ مل کر حضور نبی کرم کے خاکے بنانے والے ڈنمارک کے اخبار پر حملے کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں خود کو ملوث قرار دیا ہے۔ وہ آئی ایس آئی کے بارے میں وہی کہہ رہا ہے جو اس کے آقا اپنے مخصوص مفادات اور مذموم مقاصد کے لئے کہلوانا چاہتے ہیں۔ وہ آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کے بارے میں اوٹ پٹانگ اور اول خول بکے جا رہا ہے۔ شکاگو کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران ہیڈلی نے گواہی دی کہ اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے دو اہلکاروں کی جانب سے تعاون حاصل رہا اور اس حوالے سے ان اہلکاروں نے اس کی رہنمائی بھی کی تھی۔ مجھے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس دوران امریکہ، پاکستان اور بھارت کے مابین کئی مرتبہ سفر کیا اور معلومات اکٹھی کیں۔ یہ تمام تر تفصیلات اس نے اپنے بچپن کے دوست تہور رانا اور اس کارروائی میں ملوث دیگر افراد تک پہنچائیں۔ ہیڈلی کے بقول اس کی ملاقات پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ افسر میجر اقبال سے ایک مسجد میں کرائی گئی۔ تمام جہادی گروپ آئی ایس آئی کی سرپرستی میں ہی کام کرتے ہیں۔ ہیڈلی کا مقدمہ ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے، جب پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات تناﺅ کا شکار ہیں۔ ہیڈلی نے عدالت کو بتایا کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لڑنا چاہتا تھا لیکن اسے بتایا گیا کہ اس کے لئے کسی اور کام کا انتخاب کیا گیا ہے اور نتیجہ ممبئی حملوں کی صورت میں نکلا۔ ہیڈلی کے بقول اسی وجہ سے اسے نام تبدیل کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں، جس کے بعد وہ داﺅد گیلانی کے بجائے ڈیوڈ ہیڈلی کہلانے لگا۔
اب ذرا ڈیوڈ ہیڈلی کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں کہ واقعی یہ اس اعلیٰ کردار اور اوصاف کا مسلمان تھا کہ جہاد کشمیر کے لئے چل نکلا۔ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کا اہم کردار رہا۔ یا یہ ایک جھانواں ہے۔ اس کا اصل نام داﺅد گیلانی یہ ریڈیو پاکستان کے ایک معروف ڈائریکٹر جنرل سید سلیم گیلانی مرحوم کا بیٹا ہے۔ سلیم گیلانی نے اس وقت ایک امریکی خاتون سے شادی کی تھی جب وہ وائس آف امریکہ ریڈیو کے لئے امریکہ میں کام کر رہے تھے۔ داﺅد 1960ءمیں واشنگٹن میں پیدا ہوا۔ اس کے کچھ دن بعد سلیم گیلانی اپنے خاندان سمیت پاکستان چلے آئے لیکن یہ شادی چلی نہیں اور ساٹھ کی ہی دہائی میں بیوی کو طلاق دیدی۔ داﺅد گیلانی حسن ابدال کیڈٹ کالج میں پڑھا۔ سکول کے بعد وہ اپنی ماں کے پاس امریکہ چلا گیا جس کے بعد اس کا پاکستان میں خاندان سے بہت کم تعلق رہا۔ تیرہ سالہ داﺅد امریکہ میں بھی صورتحال سے سمجھوتہ نہ کر سکا۔ وہ کالج کی تعلیم بھی پوری نہ کر سکا اور منشیات کے چکروں میں پڑ گیا۔ 1998ءمیں داﺅد گیلانی کو منشیات سمگل کرنے کے کیس میں قصوروار پایا گیا اور تقریباً ڈیڑھ سال تک جیل میں رہا۔ 2006ءمیں وہ امریکہ کے شہر شکاگو منتقل ہوا۔ 2005ءیا 2006 میں اپنا نام تبدیل کر کے داﺅد گیلانی سے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی بن گیا۔ ہیڈلی اس کے ننھیال کا نام ہے۔
خود فیصلہ کیجئے کہ ایسے کردار کا حامل منحوس اور ”کھڑتوس“ جو چرسی اور چرس فروش بھی ہو۔ تعلیم ادھوری چھوڑنے والاجس کا دین سے تعلق بھی مشکوک ہو کس ٹائپ کا مردِ مجاہد ہو گا؟ اُس ٹائپ کا جو امریکہ اور بھارت کو درکار تھا اور انہیں مل گیا۔ اسی ”مردِ میدان“ کے بیانات کے برتے پر بھارت پاکستان پر الزام در الزام لگائے جا رہا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع برائے مملکت ایم پالم راجو نے تازہ ترین دھمکی میں کہا ہے کہ ”ممبئی حملوں جیسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما ہوا تو جوابی کارروائی پر مجبور ہوں گے۔ ہیڈلی کے اعتراف کے بعد تحمل کا مظاہرہ کرنا مشکل ہے“۔ بھارت پاکستان کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ تاہم ہماری خاموشی اور معاملات فراموشی ہمیں مجرم ثابت کر دیتی ہے۔ مہران بیس حملہ کے کرداروں کی شکل و شباہت اور جسمانی خدوخال ان کے غیر مسلم ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے وزیر داخلہ کی بھٹکی ہوئی سوئی کہیں اور اٹکی ہوئی ہے۔ بالکل کھوپڑی کے بجائے ٹخنوں میں لٹکی ہوئی فہم و فراست اور عقل و دانش کی طرح۔انہوں نے کل پھر کہہ دیا نیول بیس حملے میں ریٹائرڈ افسر ملوث ہو سکتے ہیں۔ ملوث کوئی بھی ہو اصل کارروائی کس نے کرائی؟ وزیر داخلہ کے ہندو بنیئے کا نام لیتے ہوئے کان کیوں سرخ ہوتے اور زبان کیوں سڑتی ہے۔ یہ تو محب وطن ہیں۔ پکے مسلمان ہیں۔ سورہ اخلاص کے مکمل حافظ ہیں۔ ہیڈلی کی طرح جھانواں تو نہیں ہیں۔
No comments:
Post a Comment