About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, December 29, 2011

صدر کا خطاب.... حسرتیں، نصیحتیں، وضاحتیں

جمعرات ، 29 دسمبر ، 2011

صدر کا خطاب.... حسرتیں، نصیحتیں، وضاحتیں....
فضل حسین اعوان ـ 
صدر آصف علی زرداری کا اپنی اہلیہ محترمہ کی برسی پر گزشتہ برسوں کے برعکس لہجہ دھیما تھا۔ وہ دھیرے انداز میں بھی بہت کچھ کہہ گئے، ان کے خطاب میں ”کاش عدلیہ میرے ماتحت ہوتی“ جیسی حسرتیں۔ ”بلوچ لڑائی ہم سے سیکھیں“ جیسی نصیحتیں۔ ”ٹیلر جمہوریت نہیں چلنے دیں گے“ جیسی قسمیں۔ ”جس سے چاہیں تجارت کریں گے“ جیسی دشمن سے محبتیں۔ جسٹس افتخار سے پوچھتا ہوں، بینظیر کیس کا کیا بنا، جیسے طعنے۔ سب کو دوست قرار دینے جیسی الفتیں ”میرا بھی مسل پُل ہوا“ جیسی شرارتیں، شامل تھیں۔ صدر صاحب کا کہنا کہ پاکستان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم سب کے دوست ہیں، کسی کے دشمن نہیں، جس سے چاہیں گے کاروبار کریں گے.... بلاشبہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، جس میں کوئی ملک اکیلا نہیں چل سکتا، مگر سب کے ساتھ یکساں دوستی ہو سکتی ہے، نہ سب کو مخالف بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن جس کے ساتھ دشمنی ہے، دشمنی کی وجوہات ختم کیے بغیر، اس سے دوستی ہونا تو درکنار، اس ے دشمنی بھی کم نہیں ہو سکتی۔ صدر صاحب نے فرمایا کہ جس سے چاہیں گے گیس لیں گے، صدر کے اس فرمان کا روئے سخن اگر امریکہ کی طرف ہے تو خوش آمدید۔ امریکہ یہی چاہتا ہے کہ پاکستان ایران سے گیس نہ لے، اس کی بجائے چھ ہزار کلو میٹر دور ترکمانستان سے لائن بچھا کر درآمد کرے۔ جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایران سے معاہدے کے مطابق گیس کا حصول مہینوں نہیں دنوں کی بات ہے۔ سب سے دوستی کی بات شاید صدر نے نادانستگی میں یا سرسری انداز میںکر دی ہو۔ انہوں نے دوستوں کی صف میں بھارت کو شامل نہ کیا ہو۔ اگر وہ بھارت کو بھی دوستوں کی صف میں شمار کرتے ہیں تو صدر پاکستان کی طرف سے قوم کے ساتھ اس سے بڑھ کر ظلم نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف آپ فوج کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر امریکہ کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف اسی امریکہ کے دباﺅ پر بھارت کو خطے میں تھانیدار بنانے کی پالیسیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ پوری دنیا سے تجارت کریں، کاروبار کریں، سوائے آپ کی نسلوں کے دشمن بھارت سے۔ اس وقت تک جب تک وہ پاکستان کی شہ رگ سے انگوٹھا اٹھا نہیں لیتا۔ خارجہ پالیسی کو مروجہ سیاست پر منطبق نہ کریں، جس میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہاں قاتلوں کو اپنی طاقت بڑھانے یا کسی کو نیچا دکھانے کیلئے گلے لگا لیا جاتا ہے۔ ہندو لاکھوں مسلمانوں کا قاتل ہے، اس نے قتل و غارت گری کا سلسلہ ہنوز اور بدستور جاری رکھا ہوا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے صدر زرداری اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایک ہی سوال پوچھا ہے۔ جسٹس افتخار کہتے ہیں بینظیر بھٹو اتنی بڑی لیڈر تھیں، ان کے قتل کی اب تک کیا تحقیقات ہوئی۔ صدر صاحب کہتے ہیں چیف جسٹس سے پوچھتا ہوں، بینظیر کیس کا کیا بنا؟ چیف جسٹس کا سوال حکومت سے۔ صدر کا براہ راست چیف جسٹس سے ہے۔ محترمہ کا کیس روٹین میں چل رہا ہے۔محترمہ کے قتل کو پانچواں سال شروع ہو گیا، ان کے قتل کے تین ماہ کے اندر پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی تھی۔ اس کا جتنا زور این آر او فیصلے سے راہ فرار اختیار کرنے اور استثنیٰ پر رہا، اس سے آدھا اپنی عظیم قائد کی تحقیقات پر ہوتا تو آج بینظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب ہو چکے ہوتے۔ یہ کیس ابھی ابتدائی سٹیج خصوصی عدالت میں ہے۔ جسٹس افتخار کی عدالت میں پہنچنے تک کئی مراحل ہیں۔ وہ جواب تو تب دیں، جب کیس ان کی عدالت میں ہو، یہ کیس اسی سست روی سے آگے بڑھتا رہا تو ہو سکتا ہے فیصلے کے وقت نہ یہ حکومت ہو اور نہ ہی سپریم کورٹ میں افتخار محمد چودھری موجود ہوں۔ دونوں کی آئینی مدت 2013ءمیں ختم ہو رہی ہے۔
بینظیر قتل کیس میں مشرف اشتہاری ہیں، ان کو پاکستان لانا کس کی ذمہ داری ہے، کیا حکومت نے انٹر پول سے رابطہ کیا؟ صدر زرداری کہہ چکے ہیں، ان کو قاتلوں کا پتہ ہے۔ پھر نامزد کیوں نہیں کرتے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کہتے ہیں، قاتل پکڑ لیے ہیں، قیادت نے نام بتانے سے روک رکھا ہے۔ قتل کی سازش تیار کرنے والوں تک پہنچ چکے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے کل کہا کہ بینظیر قتل کیس کی تحقیقات مکمل لیں۔ زرداری خود کہتے ہیں قاتلوں کو جانتا ہوں، ایسا ہے تو ملبہ چیف جسٹس پر کیوں؟
خود پارٹی کے اندر سے پارٹی رہنماﺅں پر قتل کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہاں لمبی چوڑی بحث کے بجائے بینظیر بھٹو کے ڈرائیور کا بیان ملاحظہ کیجئے۔ یہ بی بی کا دوسرا ڈرائیور تھا، جو ان کے آگے گاڑی لے جا رہا تھا۔ اس گاڑی میں رحمن ملک اور بابر اعوان بیٹھے تھے۔ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ جب بلاسٹ ہوا تو رحمن ملک نے کہا، گاڑی دوڑاﺅ، ڈرائیور نے کہا، بی بی پچھلی گاڑی میں ہے۔ رحمن ملک نے کہا ”تمہیں جو کہہ رہا ہوں کرو، کچھ آگے جا کر گاڑی روک دی اور کہا بی بی کی گاڑی نظر نہیں آ رہی، رحمن ملک نے کہا میں تمہیں کہہ رہا ہوں، گاڑی بھگاﺅ، وہ گاڑی چلاتے ہوئے فیض آباد پہنچا تو گاڑی پھر روک دی تو اس پر ملک صاحب نے بہت سختی سے ڈانٹا کہ تم گاڑی چلاﺅ اور اسے زرداری ہاﺅس لے چلو۔ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر شاہین کا کہنا ہے کہ بابر اعوان اور رحمن ملک نے بی بی کے ڈرائےور کو تھپڑ مارے۔رحمن ملک اور بابر اعوان بار بار کہتے ہیں، ہم موت سے نہیں ڈرتے، ہم شہادتوں سے نہیںگھبراتے، کیا ان کے کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ بھٹو خاندان موت اور شہادت سے نہیں ڈرتا۔ اگر یہ موت اور شہادت سے نہیں ڈرتے تو گاڑی بھگا کر کیوں لے گئے۔ ان کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ جان بچا کر بھاگے تھے، نہیں تو پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں میں وزن ہے کہ محترمہ کے ساتھی بھی ان کے قتل میں ملوث تھے۔
آصف زرداری کی یہ حسرت کہ کاش عدالتیں ان کے ماتحت ہوتیں، ایسا ہوتا تو آج این آر او جائز ہوتا۔ سٹیل مل، ریلوے اور پی آئی اے بک چکے ہوتے۔ نواز شریف، شہباز شریف اندر، پنجاب میں پیپلز پا رٹی کی حکومت ہوتی۔ میمو اپنی موت مر گیا ہوتا۔

Sunday, December 25, 2011

قائداعظمؒ.... اور آج کا پارٹی بدل کلچر

 اتوار ، 25 دسمبر ، 2011





قائداعظمؒ.... اور آج کا پارٹی بدل کلچر
فضل حسین اعوان 
آج عمران خان کی سیاست کے ستارے کی چمک دمک کے سامنے دیگر سیاسی جماعتوں کے ستارے ماند پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔عمران کی سیاسی مسافت پندرہ سولہ سال تک کچھوے کی رفتار سے رینگتی رہی آج سگِ تازی کی طرح قلانچیں بھرتی برسوں کا سفر دنوں میں طے کر رہی ہے۔مروجہ سیاست کے شہسوار قطار اندر قطار ان کی پارٹی میںشامل ہورہے ہیں۔ وہ بھی جن کا بڑا نام ہے۔وہ بھی جن کا نام بدنام ہے۔ عمران کے دروازے سب پر کھلے ہیں۔ بلاشبہ گُڈ اور بیڈ گورننس کا انحصار اعلیٰ قیادت پر ہے جب اوپر صالح قیادت ہوگی تو نیچے تک کرپشن کے دروازے بڑی حد تک بند ہوجائیں گے۔ کرپٹ اور لوٹ مار میں شہرت رکھنے والے تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں تو جہاں سیاسی حریفوں کو انگلی اٹھانے اور تنقید کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہیں بعض غیر جانبدار سیاسی و غیر سیاسی حلقے بھی اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ عمران کا استدلال ہے کفار اور مشرکین اسلام قبول کرنے کے بعد راہِ راست پر آگئے تھے.... اچھی بات اور خوش کند امید ہے کہ کرپٹ سیاست دان عمران کے دامن سے وابستہ ہوکر اقتدار میں آئیں گے تو پکے مسلمان بن چکے ہوں گے۔ عمران خان کے دامن سے لپٹنے والوں کو لوٹے کا طعنہ بھی دیا جاتا اور مرغِ بادنما کہاجاتا ہے جو عمران خان کی مقبولیت دیکھ کر پارٹی بدل رہے ہیں۔ اس اعتراض کا توڑ عمران نے اس استدلالِ باکمال سے کیا کہ قائداعظم بھی پارٹیاں بدلتے رہے ۔یہ کوئی جرم نہیں، ایسی بات کوئی روایتی سیاستدان یا جعلی ڈگری ہولڈر پارلیمنٹرین کرتا تو اس کا قومی سطح پر شاید سخت نوٹس نہ لیاجاتا یہ بات چونکہ پاپولریٹی کی معراج کو چھونے جارہے لیڈر نے کی ،اس لئے اس پر اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ شدید مذمت بھی کی جارہی ہے ۔ 
عمران کی سیاست کرکٹ کی مثالوں سے شروع ہوکر کرکٹ کی مثالوں پر ختم ہوتی ہے۔ کرکٹ ہی ان کی زندگی حاصل ہے۔انہوں نے تاریخ پڑھی ہوتی تو ایسی بات کبھی نہ کرتے۔بہت سے دیگر بھی اپنے جواز بلا جواز کو درست ثابت کرنے کیلئے تاریخ سے کمزور دلائل پر تکیہ کرتے ہیں۔بعض تو تاریخ کو مسخ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جب عوامی نمائندوں کی جعلی ڈگریوں کا معاملہ چل رہا تو صدر زرداری صاحب نے فرمایا کہ قائداعظم بھی گریجوایٹ نہیں تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ قائداعظم بیرسٹر تھے۔ گریجوایٹ نہیں تھے۔یہ ایسے ہی جیسے کہہ دیاجائے کہ وزیراعظم گیلانی نے ماسٹرز کیا ہے وہ گریجوایٹ نہیں ہیں۔
عمران خان قوم کو بتائیں کہ قائداعظم نے کتنی پارٹیاں بدلیں۔ وہ بیک وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن تھے۔ انہوں نے کانگریس کو خیر باد کہا اور ہمیشہ کیلئے مسلم لیگ کے ہوگئے اور پھر بانی پاکستان بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ آج ثابت یہ کیاجارہا ہے کہ باقی سب کاموں میں قائداعظم کے پیروکار ہیں ایک پارٹی تبدیل کرنے کا کام رہ گیا وہ بھی ان کی پیروی میں انجام دیاجارہا ہے۔ کہاں قائداعظم،کہاں یہ مفادپرست ہو ا کا رُخ دیکھ کر پارٹی پہ پارٹی بدلنے والے سیاست دان! چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ مکے لہرا کر، چیخ چنگاڑ کر چڑیل کو پری ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ سبحان اللہ کیا استدلال ہے! کیا قائداعظم اسی طرح پارٹیاں بدلتے تھے جس طرح آج کے مداری اور بازی گر سیاستدان بدلتے ہیں۔آج تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں شمولیت کی وبا کی طرح ہوا چلی ہے۔ایک دوکی پارٹی بدل ترتیب ملاحظہ فرمائیے۔پیپلزپارٹی سے ن لیگ۔ن لیگ سے ق اور اب تحریک انصاف۔ پیپلز پارٹی سے ملت پارٹی، ملت سے ق اور اب تحریک انصاف۔ایسے تو بے شمار ہیں جو ن سے ق میں گئے۔گنگااشنان کیا اور اب پھر بہتی گنگا میںہاتھ دھونے کی خواہشوں کے چراغ جلائے نواز شریف کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں۔اصولوں کی خاطر پارٹی بدل لینے میں شاید حرج نہ ہو لیکن اس اقدام کو درست ثابت کرنے کو قائد کی پیروی باور کرانا تاریخ مسخ کرنے کے مصداق ہے۔
عمران خان نے تو تاریخ سے لاعلمی کی بنیاد پر کہہ دیا کہ قائداعظم بھی پارٹیاں بدلتے رہے لیکن یہاںایک بے غیرت برگیڈ کے نام ایک طبقہ موجود ہے اپنے لئے بے غیرت برگیڈ کا نام اس طبقے نے خود چُنا ہے اس کا سرغنہ نظریہ پاکستان کی بڑی ڈھٹائی سے مخالفت کرتا ہے۔ وہ نظریہ پاکستان کو یحییٰ دور کی پیداوار قرار دیتا ہے۔اس کے شتونگڑے بھی نظریہ پاکستان اور بانی پاکستان پراتہام سے گریز نہیں کرتے بعض تو دشنام تک بھی چلے جاتے ہیں۔یہ قائد کو سیکولر اور اسلامی اقدار سے نابلد قرار دیتے ہیں۔ ایک نے تو گزشتہ دنوں قائد کے اُردو کو قومی زبان قرار دینے کوحماقت قرار دیا۔ وہ نہرو کو قائدسے بڑا جمہوری لیڈر کہتے ہیں۔اس65 سالہ خبطی کے ریمارکس پر علامہ ملک خادم حسین رضوی کا فون آیا وہ کہتے ہیں کہ ایسے دانشوروں کو گریبان سے پکڑ کر بھارتی سرحد پر کھڑا کرکے اُدھر دھکا دیدیاجائے۔ان صاحب نے ہی صوبہ سرحد حکومت کے خاتمے کے قائداعظم کے اقدام کو آمرانہ قرار دیا ہے۔ نوجوان نسل کے سامنے ایسی باتیں آتی ہیں تو نوجوان اپنے قائد کے کردار کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتے ۔ بڑے بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ذہن کو خبث باطن رکھنے والوں کے بے ہودہ خیالات سے متاثر ہونے سے بچانے کیلئے جس اقدام کو موصوف نے آمرانہ قرار دیا وہ عین جمہوری تھا جسے واضح کرنے کیلئے آج کے دور میں تاریخ پاکستانی پر اتھارٹی مانے جانے والے ڈاکٹرصفدر محمود صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس سارے شکوک وشہبات دور کردیتا ہے۔ البتہ میں نہ مانوں کی رٹ لگانیوالوں کے ذہن صرف قدرت ہی بدل سکتی ہے۔
” یہ ان دانشوروں کیلئے آمرانہ اقدام ہی ہے جو نہ اس فیصلے کے پس منظر اور سیاسی جواز سے آگاہی رکھتے ہیں نہ ہی قائد اعظم کی شخصیت کو سمجھتے ہیں جو سرتا پا آئین اور قانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔آمرانہ اقدام وہ ہوتا ہے جو آئین اور قانون سے ماوراءہو جبکہ صوبائی حکومت کا خاتمہ اس وقت کے آئین کے تحت گورنر جنرل کا اختیار تھا۔رہا سوال یہ کہ سرحد کی حکومت کے خاتمے کا جواز کیا تھا؟ صوبہ سرحد کی یہ اسمبلی 50ممبران پر مشتمل تھی۔1946ءکے انتخابات کے بعد30اراکین کی حمایت سے ڈاکٹر خان صاحب نے حکومت بنائی۔ عبدالغفار خان اور ان کے بھائی اور خاندان کٹر کانگریسی تھے۔انہوں نے ڈٹ کر مسلم لیگ اور قیام پاکستان کی مخالفت کی۔1947ءمیں صوبہ سرحد کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے ریفرنڈم کروایا گیا۔اکثریتی عوام نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے جو کہ دراصل مسلم لیگ کے حق میں ووٹ تھے۔ خود ابوالکلام آزاد ”انڈیا ونز فریڈم“ میں تسلیم کرتے ہیں کہ 1946ءکے انتخابات کے بعد صوبہ سرحد میں خان برادران کی سیاسی ساکھ اور مقبولیت تیزی سے تنزل پذیر ہوئی تھی جن 30ممبران کی خان حکومت کو حمایت حاصل تھی ان میں 12ممبران کا تعلق مذہبی اقلیت سے تھا کیونکہ صوبہ سرحد میں اگرچہ غیر مسلمان چھ فیصد تھے لیکن انہیں اسمبلی میں 24فیصد نمائندگی دی گئی تھی۔ باقی بارہ ممبران میں سے دو کا تعلق جمعیت علمائے ہند سے تھا۔خان برادران کی کانگریس نے 38 مسلمان نشستوں میں سے صرف 16 نشستیں جیتی تھیں۔
ریفرنڈم کے بعد سرحد میں کانگریسی حکومت کا اخلاقی و سیاسی جواز ختم ہوچکا تھا چنانچہ مسلم لیگ نے قیام پاکستان سے قبل ہی وائسرائے سے خان حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔وائسرائے کا کہنا تھا کہ انہیں اسمبلی میں اکثریت حمایت حاصل ہے۔پاکستان بنا تو ڈاکٹر خان صاحب کانگریسی وزارت نے پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیا۔یہ تھی ان کی پاکستان سے محبت اور وفاداری؟ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے کوئی تادیبی کارروائی نہ کی۔اسی دوران گیارہ اقلیتی اراکین اسمبلی ہندوستان ہجرت کرگئے جس سے خان صاحب کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔ جمعیت علمائے ہند کے دو اراکین اور دوسرے دو کانگریسی اراکین اسمبلی(میاں جعفر شاہ اور فقیراخان) پہلے ہی خان حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوچکے تھے۔ان حالات میں جبکہ صوبہ سرحد کی کانگریسی حکومت اکثریت کی حمایت سے محروم ہوچکی تھی اور اس کی نوزائیدہ مملکت سے وفاداری بھی مشکوک تھی تو اس کی بقاءکا کون سا جواز باقی رہ گیا تھا؟ ظاہر ہے کہ قائداعظم کے اس اقدام کو وہی لوگ آمرانہ قرار دیں گے جو قائداعظم کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ بد قسمتی سے سیکولر اور دین بیزار عناصر نے قائداعظم اور پاکستا ن کی نظریاتی بنیاد کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے۔مارچ1948ءمیں ڈھاکہ کے جلسہ عام میں قائداعظم نے ایسے ہی عناصر کے خلاف قوم کو ہوشیار کیا تھا جوبیرونی امداد لیکر قوم کی صفوں میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔قائداعظم نے 64 برس قبل ان کیلئے ففتھ کالمسٹ اور کمیونسٹ کے الفاظ استعمال کئے تھے جبکہ کچھ عرصے سے انہوں نے سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔“

Friday, December 23, 2011

قائد کے بارے نجس خیالات

 دسمبر, 22، 2011

قائد کے بارے نجس خیالات
فضل حسین اعوان ـ 
نجم سیٹھی کی چڑیا ان کو بہت کچھ بتاتی ہے لیکن سب کچھ نہیں۔ ”پہلے بات کو تولو پھر بولو“ یہ تربیت والدین، اساتذہ اور معاشرے کے صالح افراد کی صحبت سے ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ جہاں موصوف کی تربیت میں کہیں کمی رہ گئی تو وہیں انکی چڑیا بھی ان کو یہ نہیں بتاتی کہ کس بات سے وہ سرخرو ہونگے اور کونسی بات سے منہ کالا ہو گا۔ اگر یہ سب ہوتا تو وہ قائداعظم سے متعلق دریدہ دہنی نہ کرتے۔ صحافت کی دنیا میں خیر سے وہ 75 برس کے ہو گئے اس لئے شمار بزرگ صحافیوں میں ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنی بزرگی کا ادراک نہیں کرتے تو کوئی دوسرا احساس کیوں کرے گا۔ جو شخص قائداعظم اور ان کے پاکستان کے خلاف منہ کھولے گا وہ محب وطن پاکستانیوں کے لئے ابو الکلام آزاد اور باچا خان کی طرح راندہ درگاہ ٹھہرے گا ۔ گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں قائد اور ہندو لیڈروں کا تقابل کرتے ہوئے نجم سیٹھی کے خیالات کچھ یوں تھے ”قائداعظم کے خیالات آمرانہ تھے۔ نہرو جمہوریت پسند تھا، قائداعظم مرکزیت کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے گورنر جنرل اور آئین ساز اسمبلی کی چیئرمین شپ کے اختیارات اپنے پاس رکھے۔ وہ خود کو عقل کُل سمجھتے تھے اس لئے بغیر مشاورت کے فیصلے کر لیا کرتے تھے جبکہ نہرو مشاورت سے کام لیتا تھا۔“ جمہوری رویے کے حوالے سے سیٹھی صاحب نے نہرو کی شخصیت کو زیادہ اہم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ آگے چل کر ان کا قائد کے حوالے سے تعصب اور خبثِ باطن واضح ہو جاتا ہے۔ ”ڈھاکہ میں قائد نے یکطرفہ اعلان کر دیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی حالانکہ ملک میں بنگالی بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ نجم سیٹھی نے اپنے الفاظ میں اسے حماقت قرار دیا ہے۔ 
ان حالات میں جب انگریز اور ہندو کا مسلمانوں کے بارے میں رویہ متعصبانہ تھا۔ ہندووں کے پاس گاندھی، نہرو اور پٹیل جیسے سیاسی و سازشی گرو موجود تھے، مقابلے میں صرف ایک محمد علی جناح تھا۔ قائداعظم کا ہر ساتھی ان کی طرح ہر قسم کا دباو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ قائد کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مشاورت نہیں کرتے تھے ایک الزام ہے۔ وہ مشاورت ضرور کرتے تھے البتہ فیصلہ حالات و واقعات کے مطابق خود کرتے تھے۔ 6 نومبر 1946ءکو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد فرماتے ہیں‘ ” میں بھی انسان ہوں‘ مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو اختیار ہے کہ میرے کام کے بارے میں مشورے دے اور اس پر تنقید کرے۔“
قائد اپنے ساتھیوں کا اعتماد تو لے کر چلتے تھے لیکن ہر پالیسی ان کی رائے کا ماخذ نہیں ہوتی تھی۔ اگر قائد ساتھیوں کی رائے کے اسیر ہو جاتے تو پاکستان کبھی وجود میں نہ آ سکتا۔ پھر قائد کے ساتھیوں کی اہلیت کا اندازہ قائداعظم کی رحلت کے بعد ان کے ہاتھ معاملات آنے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اُس وقت قائد کی سطح کا علامہ اقبال جیسا ایک لیڈر بھی ہوتا تو قائد یقیناً اس کی رائے کو مقدم سمجھتے۔ افسوس قائد کی جیب میں جو بھی تھے کھوٹے سکے تھے اس لئے قائد کو بہت سے فیصلے خود کرنا پڑے اور بہت سے اختیارات اپنے پاس رکھنا پڑے۔ قائداعظم کا جن حالات میں انتقال ہوا اسے قتل قرار دیا جائے تو قائد کے خون کے چھینٹے اس وقت کی قیادت کے دامن پر ہی ہوں گے۔ نجم سیٹھی کو ایک گلہ یہ بھی ہے انڈیا نے ماونٹ بیٹن کو گورنر جنرل برقرار رکھا پاکستان میں قائداعظم اس عہدے پر براجمان ہو گئے۔ جب ہندوستان سے الگ ہو کر نئی ریاست وجود میں آ گئی تو اس کے معاملات بھی نئی قیادت کے ہاتھ میں آ جانے چاہئیں تھے۔ بھارت نیا ملک نہیں تھا وہاں پاور کی منتقلی (Trasition of Power) ضروری تھی۔ ایک الگ ریاست کے لئے نہیں۔ 
جہاں تک اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کی بات ہے تو اس پر مشرقی بنگال میں آوازیں تو اُٹھیں لیکن قائد کا راسخ موقف سامنے آنے پر خاموشی طاری ہو گئی۔ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں ہندو بنگالیوں نے بنگالی زبان کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ مسلمان بنگالی‘ ہندووں کے چکمے میں اس لئے آ گئے کہ اردو کی قائداعظم کی طرح کسی سیاسی رہنما نے وکالت نہ کی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ قائد اور ان کے خاندان سے نہیں مغربی پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت سے نفرت کرتے تھے جنہوں نے اکثریتی آبادی کے صوبے کو بُری طرح نظر انداز کیا تھا۔ قائد نے اردو کو قومی زبان قیام پاکستان کے وقت قرار دیا تھا۔ اگر بنگالی اس اقدام پر ناخوش ہوتے تو وہ 1965 کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی مغربی پاکستان سے زیادہ پذیرائی نہ کرتے۔ 
نجم سیٹھی پاکستان کا کھاتے اور گُن کسی اور کے گاتے ہیں۔ جس کا نام امریکہ ہے جس کا غلام بھارت ہے۔ ہمیں ان کی طرف سے قائد کے حوالے سے لفظ ”حماقت“ استعمال کرنے پر انتہائی دکھ‘ افسوس ہوا اور اس پر شدید اعتراض ہے۔ وہ نجم ہیں خود کو نجم ثابت کریں۔ وہ ایسے نجس خیالات سے نوجوان نسل کا ذہن پراگندہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ایسی حرکتیں کرکے وہ خود کو ”نجس سیٹھی“ کیوں کہلانا چاہتے ہیں؟ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے یہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ جس علاقے میں رہتے تھے وہ پاکستان کے حصے میں آیا اس لئے پاکستانی کہلائیے، ان کو پاکستان نے بہت کچھ دیا حتیٰ کہ قائداعظم کے پاکستان کے وزیر بھی رہے۔ ان کو اگر بااصول اور جمہوریت پسند لیڈر کہیں اور نظر آتے ہیں تو آج ان کے بس میں ہے کہ وہ وہاں جا بسیں۔!



Sunday, December 18, 2011

میمو۔ صدر، فوج اور امریکہ

اتوار ، 18 دسمبر ، 2011

میمو۔ صدر، فوج اور امریکہ
فضل حسین اعوان
منصور اعجاز جھوٹا،مکار،عیار،بد فطرت،بدطنیت،اسلام دشمن، پاکستان مخالف، بھارت و اسرائیل کا دوست،امریکہ کا شہری ووفادار،عبداللہ بن ابی جیسا منافق، عمر بن حشام سے بڑا جاہل اور ابو لہب کے درجے کا کافر ہے۔اس سب کے باوجود یہ حقیقت پوری دنیا پر آشکار ہوچکی ہے کہ جس شہرہ آفاق میمورنڈم سے ہماری حکومت کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ وہ منصور اعجاز نے ہی جنرل(ر) جیمز جونز کو ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کیلئے دیا تھا۔ جنرل جیمز نے پہلے تو ایسے کسی میمو کی وصولی کی تردید اور کچھ دن بعد تصدیق کردی۔اب سوائے صدر کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت تمام فریقین جواب داخل کرادیا ہے جن کو سپریم کورٹ نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ حکومت شروع دن سے اسے بے بنیاد اور جمہوری حکومت کیخلاف سازش قرار دے رہی ہے۔اب تو باقاعدہ مشتعل اور چراغ پابھی ہے۔ فوجیوں کے جمع کرائے گئے بیانات حکومتی موقف کے قطعی برعکس ہیں۔میمو سازش ہے یا پلاننگ۔ اس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے جس کے بارے میں وفاق کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ کو اس کیس کی سماعت کا اختیار ہی نہیں۔ اسے یہ اعتراض بھی ہے کہ نواز شریف یہ معاملہ سپریم کورٹ کیوں لے گئے؟ نواز شریف نے میمو سکینڈل کی گرد اُٹھتے ہی حکومت سے دس دن میں معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کمشن تشکیل دینے کا پُر زور مطالبہ کیا تھا لیکن وہ تیسرے دن ہی سپریم کورٹ چلے گئے۔ وہ اپنے ہی ٹائم فریم کو لات مار کر عدالت کیوں گئے؟ اپنی عقل آزمانے پر یا کسی کے اُکساتے ہوئے میمو کے زور دار ہونے کی یقین دہانی کرانے پر ؟ ایک دو فریقوں کے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے جوابات ملاحظہ کرنے سے صورت حال اظہر من الشمس ہوجاتی ہے۔
میمو کا ملبہ حکومت خود اپنے سرڈال رہی ہے۔سپریم کورٹ نے تعین یہ کرنا ہے کہ میمو لکھنے اور لکھوانے والا کون ہے؟ اگر یہ منصور اعجاز کی کارستانی ہے تو کسی بھی سطح کی تحقیقات پر حقانی کو اعتراض ہوناچاہئے نہ گیلانی اور ان کے باس کو۔ سپریم کورٹ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کابہترین فورم ہے لیکن میمو سکینڈل میں سپریم کورٹ کا نام آنے پر حکمران جماعت کے پر جلنے لگتے ہیں۔اس کا پورا زور پارلیمنٹ سے تحقیقات کرانے پر ہے۔اس نے قومی سلامتی کی کمیٹی کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ دی۔ کمیٹی سربراہ رضا ربانی کے پاس معاملہ آیا تو انہوں نے کہا محرم کے بعد پیشرفت ہوگی سپریم کورٹ نے کارروائی شروع کی تو کمیٹی کی دُم کو بھی جیسے تیلی لگ گئی اس نے بھی محرم سے قبل ہی اجلاس طلب کرلیا۔اس کے بعد پھر خاموشی طاری ہوگئی۔اتنا بڑا کیس،یا حکومت کے بقول سازش اس کی تحقیقات ایسی پارلیمنٹ کے ارکان انصاف کے تقاضوں کے مطابق کیسے کرسکتے ہے جس کے نصف ارکان جعلی ڈگری ہولڈر ہیں۔پھر ان ارکان کا ایسی تحقیقات کا کتنا تجربہ ہے؟ جس کیس میں صدر آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ جیسی با اثر اور با اختیار شخصیات کو طلب کیا جانا مقصود تھا کیا کمیٹی کے پاس ایسے لوگوں کی طلبی کے اختیارات ہیں؟ کوئی آتا نہ آتا۔کمیٹی کسی کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟ معاملہ استثنیٰ استثنیٰ کی راگنی پر گول ہوجانا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج وسیع تر تجربہ اور کسی کو بھی طلب کرنے کے مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ صدر نے اب پھر استثنیٰ کی بات کی ہے۔جو این آر او فیصلے میں ختم ہوچکا ہے۔ بعید نہیں کہ 19ستمبر کو سپریم کورٹ صدر صاحب کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دے دے۔ آئندہ چند مہینوں نہیں چند دنوں میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔کسی کی مونچھ نیچی ہوگی کسی کی پگڑی اچھلے گی۔کسی کا تاجِ سلطانی چھنے گا کوئی اوندھے بل گرا ہوگا۔آج اپنے انجام کو دیکھ کر ہی بازو سر پر رکھ کر آہ وزاری ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے زرداری گیلانی کے پاﺅں میں کانٹا چبھتا تو تکلیف سے اتحادی دوہرے ہو ہوجاتے تھے اب وہ خاموش اور نئی منزل کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔امریکہ پاک فوج کی سبکی چاہتا ہے۔اس لئے کہ ہمارے نیو کلیئر اثاثے فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ وہی اس کی مکمل اور واحد محافظ ہے۔امریکہ کی نظر ان اثاثوں پر ہے ۔سیاسی قیادت شاید اب تک کرنل قذافی کی طرح سب اُٹھا کر امریکہ کے حوالے کرچکی ہوتی۔ ایسی سازشوں کی راہ میں فوج رکاوٹ ہے۔اسی لئے امریکہ کی ہٹ لسٹ پر ہے۔
پاک فوج امریکہ کو اس لئے بھی پسند نہیں کہ وہ مشرف کی طرح ہر معاملے پر اس کے سامنے سر نہیں جھکاتی۔ اس نے شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے امریکی دباﺅ یکسر مسترد کردیا۔ پاکستانی قوم اور فوج یہ کس طرح برداشت کرسکتی ہے کہ امریکہ افغانستان میں 5اڈے قائم کرکے یہاں مستقل قیام کرلے اور ساتھ ہی بھارت کا کردار بھی افغانستان میں بڑھادے۔30ہزار بھارتی ٹرینز 3لاکھ افغان فوج کو تربیت دیں گے۔پاکستان میں تو 96امریکی ٹرینروں نے اودھم مچا رکھا تھا۔30ہزار بھارتی فوجی فاٹا اور بلوچستان میں کیا کچھ نہیں کریں گے! پاک فوجی امریکہ کی اس ساری منصوبہ بندی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔
زرداری صاحب تو ایک بار وزیراعظم امریکہ کی مرضی کا لاناچاہتے تھے۔ حقانی کو پہلے قومی سلامتی کا مشیر پھر وزیراعظم بنانا مقصود تھا وہ اسی لئے امریکہ میں سارے پاپڑ بیلتے رہے۔ان کے نامہ اعمال میں سب سے بڑا جرم میمو نہیں ساڑھے سات سوامریکی غنڈوں کو ویزوں کا اجرا تھا جنہوں نے پاکستان آکر دہشت پھیلادی۔ حقانی نے اپنے قریبی حلقوں کو تین بار باور کرایا کہ وہ وزیراعظم بننے والے ہیں۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے راستے میں بھی فوج دیوار بنی رہی۔حقانی وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھتے دیکھتے اب جیل میں چکی پیسنے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ امریکہ کی دھمکی پر سیاسی قیادت کی ٹانگیں کانپتی اور ڈالروںکی جھلکی پر چہرہ تمتا اُٹھتا ہے لیکن وہ عسکری قیادت کے قومی مفادات پر مبنی موقف کے برعکس ظاہری طورپر کوئی بات نہیں کرسکتی۔ گویا پاک فوج امریکہ اور زرداری حکومت کی چھیڑ بن چکی ہے۔ فوج پر اب تک حکمرانوں کی کرپشن کے خاتمے کیلئے بھی دباﺅ رہا ہے۔فوج کی کوشش کے باوجود کرپشن کے حوالے سے سیاستدان کہیں بریک لگانے پر تیار نہیں ۔سپریم کورٹ کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے یہاں تک کہا گیا سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل ہماری لاشوں سے گزر کر ہوگا۔اس سب کے باوجود بھی مارشل لا کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں ہے۔میمو کیس میں اگر کوئی قصور وار نہ ہواتو اقتدار کے ایوانوں میں موجود حکمرانوں کے چہرے جگمگ جگمگ کرتے رہیں گے۔ اگر کوئی قصور وار ہوا تو بھی بہت بڑی تبدیلی اور جمہوریت تلپٹ نہیں ہوگی قصو ر وار چہرہ بدل جائیگا۔نئے چہرے کے ساتھ یہی ساتھی ہوں گے یہی اتحادی ہوں گے۔
٭٭٭

Friday, December 16, 2011

سقوط ِ مشرقی پاکستان کا انتقام باقی ہے

جمعۃالمبارک ، 16 دسمبر ، 2011

سقوط ِ مشرقی پاکستان کا انتقام باقی ہے
فضل حسین اعوان 
سقوطِ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971ءکا سیاہ دن تاریخ میں ہماری ذلت کی داستان کے طور پر رقم ہوچکا ہے۔ اس دور میں زمامِ اقتدار فوج کے سپرد تھی۔ شرابی کبابی جرنیل اعظم نے اُمہ کے ماتھے پر ایسا بدنما داغ لگا دیا جو قیامت تک دھل سکتا ہے نہ مٹ سکتا ہے۔ کچھ جاگیرداروں کے اپنی جاگیروں سے محرومی کے خدشے اور اقتدار کے رسیا سیاستدانوں کی مشرقی بنگال میں لگائی ہوئی آگ یحییٰ خان اور اسکے حواریوں نے پٹرول سے بجھانے کی کوشش میں مزید بھڑکا دی جس سے وطن عزیز کا آدھا حصہ خاکستر ہوگیا۔ 1971ءمیں جرنیلوں کے ہاتھوں پاکستانی قوم اور اسلامی تاریخ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذلت کے سائے، دلدوز یادیں، درد اور کرب بدستور موجود ہے۔ اس روز قائداعظم کا خون جگر و دل دیکر بنایا ہوا پاکستان دولخت ہو گیا، 90 ہزار فوجی ازلی و ابدی دشمن کی قید میں چلے گئے۔شکست کھیل اور الیکشن کا لازمی جزو ہے۔ جنگ میں شکست کا تصور نہیں، جنگ صرف اور صرف فتح و نصرت کے لئے لڑی جاتی ہے طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا کر درس دیا جنگ کا انجام فتح یا موت ہے، اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ شکست کی ذلت سے عزت و غیرت کی موت کہیں بہتر ہے۔ ہمیں اسلامی تاریخ کے سقوط یاد دلاتے اور باور کراتے ہیں کہ شکست تسلیم کرنے والوں کا انجام ہمیشہ دردناک اور عبرت ناک ہوا۔10 فروری 1258ء میں منگول سردار ہلاکو نے حملہ کرکے بغداد کو فتح کیا۔ شہر کو آگ لگا دی لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خون مسلم سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا۔ ہلاکو کے سامنے آخری عباسی خلیفہ المستعصم بااللہ کو پیش کیا گیا۔ خلیفہ فاقے سے تھا ہلاکو نے اس کے سامنے ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات پلیٹ میں رکھ کر کھانے کیلئے پیش کئے۔ خلیفہ نے کہا یہ میں کیسے کھا سکتا ہوں؟ ہلاکو نے طیش میں آکر کہاتو ان کو اکٹھا کرنے کے بجائے دشمن کے ساتھ لڑنے کا انتظام کیوں نہ کیا، ایسا کیا ہوتا تو آج یوں بے بس نہ ہوتا… اس کے ساتھ ہی اسے قالین میں لپیٹ کر زمین پر پھنکوایا اور اوپر سے گھوڑے دوڑا دئیے۔
2 جنوری 1492ءاسلامی تاریخ کا ایک اور شرمناک اور عبرت انگیز دن ہے۔ اس دن اَندلُس میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ دن مسلمانوں پر بھاری تھا۔ یہ سقوط اَندلُس کی پہلی شام تھی جو مسلمانوں کیلئے طویل ترین تاریک رات کا آغاز ثابت ہوئی۔ اس کی تاریکی اب تک نہیں چَھٹ سکی۔ اس شام پہلی بار مسجدوں سے مغرب کی اذان سنائی نہیں دی۔ اس کے بجائے ہر طرف مسلمانوں کی چیخ پکار سنائی دیتی تھی۔ بے لباس خواتین عزتیں بچانے کیلئے بھاگ رہی تھیں لیکن کہاں جاتیں، بے غیرتی کی انتہا کہ غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ بابِ دل معاہدے کے تحت شہر کی چابیاں ملکہ ازابیلا اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اپنی ذلالت و زذالت کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا جا رہا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے ابو عبداللہ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد اور امرا زرق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ان کے زرہ بکتر سونے چاندی کی لڑیوں سے چمک دمک رہے تھے۔ پھر ہمارے سامنے سقوط مشرقی پاکستان کی حقیقت ہے جس نے اسلامی تاریخ کو گہنا دیا۔ غرناطہ کی چابیاں ابو عبداللہ نے دشمن کے حوالے کیں تو اس کے ہم نام امیر عبداللہ نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا آدھا حصہ ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ وہی ہندوستان جو مسلمانوں کا ہزار سال غلام رہا تھا۔ ہمارے امیر عبد اللہ ملی بے حمیتی اور اخلاقی پستی میں ابو عبداللہ سے بھی چند قدم آگے نکل گئے۔ کلف لگی وردی اور سبزکلغی میں اروڑہ کا استقبال کرنے ائر پورٹ گئے۔ اجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے بڑے تفاخر سے سرنڈر کیا۔ اس سے قبل دستاویزات کی تیاری کیلئے اروڑہ کا نمائندہ آیا تو اس کو فحش لطیفے سناتے اور خوش گپیاں کرتے رہے۔ ابو عبداللہ کے تو سقوط غرناطہ کے بعد آنسو بہہ نکلے تھے جنرل امیر عبداللہ نیازی کو پوری زندگی اُمہ کی عزت و آبرو مکار دشمن کے سامنے گروی رکھنے کا افسوس نہ ہوا بلکہ کہتے رہے 90 ہزار فوجیوں کو زندہ سلامت نکال لایا ہوں۔ جنرل نیازی بھارتی جنرل کو اپنا پستول پیش کر رہے تھے تو ایک بنگالی نے ان کے سر پر جوتے مارتے ہوئے کہا اگر تم میں غیرت ہوتی تو مر جاتے، اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار نہ پھینکتے۔ کاش یہ بنگالی جنرل نیازی کو گولی مار دیتا، جنرل نیازی ہتھیار پھینکنے کا جواز یہ پیش کیا کرتے تھے کہ ”حاکم وقت کا حکم تھا اسلام میں امیر کی اطاعت واجب ہے تاریخ میں امیر کی حکم عدولی کی مثال نہیں ملتی۔“ بات غیرت کی ہے۔ ان میں غیرت ہوتی تو تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ 
جنرل انامی کورے چیکا جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے جاپان کو ایک اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے رکھی تھی، بادشاہ نے جرنیلوں کی جنگ جاری رکھنے کی تجویز سے اتفاق نہ کیا اور اپنے طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اپنے کزن سے اس موقع پر کہا ”ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے“.... 14 اگست 1945ءکو انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن جو کچھ اس کے بعد انامی نے کیا نیازی وہ نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز جنرل انامی نے خودکشی کر لی۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے باوقار موت کا انتخاب کیا۔ کاش جنرل نیازی ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے۔”جو ہوا سو ہوا“ یہ کہہ کر ہم 71ءکے سانحہ کو بھول نہیں سکتے۔ اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہندو بنئے سے انتقام بھی ہم پر فرضِ عین کی حقیقت رکھتا ہے۔ اُس وقت ہماری پالیسیوں اور بے بصیرتی نے بنگالیوں کو ہم سے متنفر کیا اور اپنی مکتی باہنی کے ذریعے بنگلہ دیش بنایا۔ آج ہم امریکی جنگ میں کود کر قبائلیوں کو ناراض کر رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہمارا اتحادی دوسری طرف بلوچستان میں اسکا کردار مکتی باہنی جیسا ہے۔ 24 پاکستانیوں کی شہادت سے عسکری قیادت نے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے سخت موقف اپنایا، اسی پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ سے شمسی ائربیس خالی کرا لیا گیا، باقی تنصیبات سے بھی اسکو لاتعلق کر دیا جائے۔ سیاسی و عسکری قیادت کے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کے بعد جہاں ڈرون حملے بند ہوئے وہیں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بھی رک گئی ہیں۔ بنگالی تو فوج کی بات سُنتے تھے نہ انتظامیہ کی۔ عسکریت پسند خود مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں۔ آج انکو اعتماد میں لینے اور امریکہ سے جان چھڑانے کا بہترین موقع ہے جو کسی لالچ، دھونس اور دباﺅ کے باعث ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا اصلی، ازلی و ابدی دشمن بھارت ہے جو مشرقی پاکستان کی طرح پاکستان میں ایک اور سقوط کیلئے سرگرم ہے۔ نہ صرف اسکی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے بچنا ہے بلکہ اس سے کشمیر کو آزاد کرانا، سیاچن کا قبضہ چھڑانا اور پاکستان کا ایک بازو کاٹ ڈالنے کا انتقام بھی لینا ہے۔ یہ ناممکن نہیں، قوم کو صالح قیادت مل جائے تو سب ممکن ہے۔

Thursday, December 15, 2011

! معافی غلطی کی ہوتی ہے بدمعاشی کی نہیں

15-12-2011


!معافی غلطی کی ہوتی ہے بدمعاشی کی نہیں
فضل حسین اعوان 
پہلی جنگ عظیم پولینڈ کے شہزادے فرڈی ننڈ کے قتل کے باعث شروع ہوئی جس مےں تین کروڑ انسان زندگی یا زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہوگئے۔ غیرت مند قومیں اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے سے گریز اور دریغ نہیں کرتیں۔ پاکستانی قوم بھی ایک غیرت مند اور خوددار قوم ہے لیکن اس کی تقدیر کے فیصلے ایسے لوگوں کے ہاتھ مےں ہےں جو مال، دولت و دنیا اور زر و جواہر کو ہی اپنی دنیا و عاقبت سمجھ رہے ہےں۔ مشرف دور سے اب تک کے حکمرانوں کی امریکی غلامی پر قوم تلملا رہی ہے، جس کی حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں۔ 25 اور 26 نومبر کی شب امریکیوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 24 پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا تو پاک فوج کی طرف سے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ فوری طور پر نیٹو سپلائی بند کر دی گئی اور شمسی ایئربیس خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو 11 دسمبر کو خالی کر دیا گیا، لیکن یہ سب کافی نہیں ہے۔ نیٹو کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی جرات اس لئے ہوئی کہ گذشتہ سال اس نے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر کے دو پاکستانی فوجی شہید کر دیئے تھے جس پر پاکستان کی طرف سے احتجاج ہوا اور نیٹو سپلائی روک دی گئی، پھر جلد معاملات معمول پر آئے اور سپلائی کھل گئی۔ پاک فوج نے جو موقف آج اپنایا وہ اس وقت اپنایا ہوتا تو مہمند مےں یہ سانحہ ہوتا نہ ڈرون حملوں مےں سینکڑوں بے گناہ پاکستانی مرتے۔ گذشتہ سال کا المیہ شاید غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہو لیکن 25 نومبر والے حملہ مےں غلطی اور غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فوج بار بار کہہ رہی ہے کہ نیٹو کا حملہ ارادی تھی، ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل خورشید ندیم نے کابینہ کے اجلاس اور مسلح افواج کے کمانڈر جنرل خالد شمیم وائیں نے سفیروں کے اجلاس میں پاک فوج کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ حادثہ تھا نہ غیر ارادی فعل بلکہ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ 
پاک فوج کو امریکہ کے ارادی حملے کا اس حد تک یقین ہے تو امریکہ کے ساتھ تعلقات مےں جزوی کیوں؟ مکمل لاتعلقی کیوں نہیں؟.... بعض حلقے تو خون کے بدلے خون کا مطالبہ کر رہے ہےں۔ وہ ممکن نہیں تو کم از کم امریکہ اور اس کی جنگ سے نجات تو حاصل کی جا سکتی ہے۔ معافی غلطی کی ہے بدمعاشی کی نہیں۔ امریکہ تو بدمعاشی پر بھی معافی مانگنے کو تیار نہیں۔ ایک طرف پاک فوج نے سخت موقف اپنا رکھا ہے تو دوسری طرف سیاسی قیادت کی ٹانگیں کانپ رہی ہےں۔ زبان سے نکلی باتیں دل کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ وزیر دفاع نے سانحہ کے ایک دو روز بعد کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے معافی مانگنے تک سپلائی بحال نہیں ہوگی۔ میاں نواز شریف کا موقف بھی یہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی صاحب نے دو روز قبل فرمایا سپلائی جلد بحال ہونے کا امکان نہیں۔ کل سفیروں کی کانفرنس مےں فرمایا کئی پریشان کن سوال سامنے آئے ہےں جن کا امریکہ اور نیٹو سے مکمل جواب چاہتے ہےں۔ دوسری طرف امریکہ نے پہلے تو معافی مانگنے سے انکار کیا لیکن عسکری قیادت کے سخت موقف کے باعث اب کہا جا رہا ہے کہ سینٹ کام کمیٹی کی تحقیقات کے بعد معافی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ہماری سیاسی قیادت کے رویے مےں لچک کو بھانپتے ہوئے امریکہ سپلائی کی بحالی کےلئے معافی بھی مانگ لے گا‘ کیا ایسے بھیانک اقدام پر معافی دی جا سکتی ہے؟ معافی غلطی کی ہوتی ہے ارادی اقدام کی نہیں۔ ارادی اقدام کی سزا ہوتی ہے۔ سزا کا فیصلہ کرنے کیلئے حملہ کرنے اور کروانے والے پاکستان کے حوالے کئے جائیں۔ افغانستان مےں اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل ایلن نے کہا ہے کہ مہمند ایجنسی جیسی کارروائی کا اعادہ ہو سکتا ہے۔ گو پاک فوج نے افغان سرحد پر دفاعی سسٹم مضبوط بنا کر وہاں تعینات دستوں کو جارحیت کا جواب دینے کی اجازت دے دی لیکن جنرل ایلن کے بیان سے امریکیوں کی رعونت اور پاکستان کو کمتر سمجھنے کی ذہنیت واضح ہوگئی ہے۔ وزیراعظم گیلانی کا سفیروں کی کانفرنس کے دوران کہنا انتہائی شرمناک ہے ”قومی اور ملکی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ملکی خودمختاری کی پامالی ہر گز قابل قبول نہیں۔“ کل تک جو ڈرون حملے ہوتے رہے کیا وہ ملکی خودمختاری کی پامالی نہیں تھی۔ حکمران کس منہ سے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے رہے! یہ تو اڑتے ہی پاکستان کی حدود سے تھے۔ شمسی ائربیس کی حفاظت کون کرتا تھا؟ تاریخ مےں غداروں کی فہرست بنے گی تو ڈرون حملوں کی اجازت دینے والوں کا نام بھی اس مےں شامل ہوگا۔ ڈرون حملوں مےں تین ہزار کے لگ بھگ لوگ مارے گئے جن مےں 97 فیصد بے گناہ تھے۔ ان کا خون امریکہ کے ساتھ ساتھ ان ذمہ داروں کے سر بھی ہے جو ان کی اجازت دیتے رہے۔ اب عسکری حکام نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ہر قسم کے طیارے کو مار گرانے کا حکم دے دیا ہے۔ ضرورت ان احکامات پر کاربند رہنے کی بھی ہے۔ اب کوئی مصلحت کوئی لالچ آڑے نہ آئے۔ اس کے ساتھ آج امریکہ کی جنگ سے نکلنے کا بہترین موقع ہے۔ افغان جنگ کے حوالے سے امریکہ اور نیٹو کو دی گئی تمام سہولتیں اور تعاون واپس لے لینا چاہئے۔



Sunday, December 11, 2011

زرداری یاروں کا یار

 دسمبر ,11، 2011

زرداری یاروں کا یار!
فضل حسین اعوان 
آصف علی زرداری کے حوالے سے پھیلنے والی یا پھیلائی گئی افواہوں نے عام آدمی کے دماغ کو گھما کے رکھ دیا۔ بندہ کس کی سنے کس کی نہ سنے۔ کس کی بات کو مانے کس کی بات کو رَد کر ے، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ وزیر اعظم سمیت اہم حکومتی بزرجمہر ان افواہوں پر شدید ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے وضاحتیں کرتے رہے لیکن یہ وضاحتیں بھی مزید افواہوں کی شکل دھارتی رہیں۔ افواہ سازوں نے جرمن کے گوئبلز اور یونان کے مسٹر پروپیگنڈہ کو بھی مات دے دی۔ سوال یہ ہے کہ افواہوں کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ ابتداءبلاول بھٹو کے ماموﺅں نے کی۔ کسی نے کہا صدر صاحب کو دل کی معمولی تکلیف ہوئی تھی۔ کوئی گویا ہوا وہ معمول کے چیک اَپ کے لئے گئے ہیں۔ کسی نے گلفشانی کی کہ بچوں کو ملنے گئے ہیں۔ کسی نے انکشاف کیا کہ ان کی انجیوپلاسٹی ہوئی ہے۔ کسی نے بتایا دو دن میں واپس آئیں گے، کوئی بولا ڈاکٹروں کے مشورے کے بعد واپسی ہو گی۔ گویا جتنے ماموں اتنی باتیں۔ ہر کوئی خود کو صدر زرداری کے قریب ترین ہونے کا تاثر دیتے ہوئے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کر رہا تھا۔ 
زرداری صاحب کے حوالے سے کچھ بھی کہنے کی ذمہ داری ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کی ہونی چاہیے۔ خوابیدہ ترجمان نے پہلے زرداری صاحب کے دبئی روانگی کی تردید کی، پھر تصدیق کر دی۔ حکومتی زعما اور پارٹی اکابرین کے بیانات ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ آصف زرداری کے بیان کے بعد اب افواہوں کا گردوغبار اور قیاس آرائیوں کے بادل چھٹنے شروع ہو گئے ہیں لیکن ایک کنفیوژن بدستور ہے کہ صدر صاحب کو ہانگ کانگ سے ایئر ایمبولنس منگوا کر دبئی روانہ کیا گیا تھا یا پاک فضائیہ کے طیارے میں لے جایا گیا تھا۔ گو اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ صدر صاحب ایئر ایمبولنس میں گئے یا فضائیہ کے طیارے میں۔ لیکن یہ بھی ایک لاحاصل افواہ تھی۔
اگر صدارتی ترجمان یا وزیر اعظم خود صدر زرداری کی صحت اور دبئی روانگی کے حوالے سے ایک بیان جاری کر دیتے تو کسی کے لئے خوش کن اور کسی لئے مایوس کن افواہوں اور قیاس آرائیوں کی نوبت نہ آتی.... اپنوں کی اڑائی ہوئی دھول اپنوں کے ہی سر میں پڑتے دیکھی تو وہ اینکر اور صحافی بھی میدان میں کود پڑے جن کو خود کے سب سے بڑا باخبر ہونے کا دعویٰ ہے۔ اسی اعزاز کو برقرار رکھنے کے لئے ان سے جو بن پڑا انہوں نے کیا۔ اس کے ساتھ ہی جلتی پر تیل کا کام فارن پالیسی میگزین نے یہ کہہ کر کیا کہ زرداری میموگیٹ سکینڈل پر شدید دباﺅ کے باعث استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میمو کیس میں صدر زرداری کی طلبی این آر او کیس نظر ثانی کی اپیل کا مسترد ہو نا، بون کانفرنس میں پاکستان کی شرکت اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے لئے امریکی دباﺅ، کڑی سے کڑی بن کر قیاس آرائیوں اور تجربوں کی بنیاد کو مضبوط بناتا رہا۔ حکمران حسب سابق اپنی نااہلی، بدنظمی اور بدعملی کو چھپانے کے لئے میڈیا پر برس رہے ہیں۔ اگر انہوں نے محاسبہ کرنا ہے تو ابتدا اپنے گھر سے کی جائے۔
بلاشبہ آصف زرداری پر کرپشن سمیت کئی الزامات ہیں۔ملک میں بحرانوں، مہنگائی، بیروز گاری، لاقانونیت کے حوالے سے بھی بطور حکومتی پارٹی کے سربراہ کے ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں بہت سی منفی باتیں ہوتی ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ ایک بہادر شخص ہیں۔ انہوں نے جیل جس پامردی سے کاٹی اس پر ہی نظامی صاحب نے انہیں مردِ حُر اور پھر جس طریقے سے 2008ءکے انتخابات کے بعد ق لیگ کے سوا مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے تو مرد راہوار کا خطاب دیا تھا۔ جواب میں انہوں نے جو کچھ کیا بہت کم لوگ جانتے ہیں اور اس کا تعلق کالم کے عنوان نہیں ہے بلکہ برعکس ہے۔ زرداری 1996ءمیں مقدمات کا سامنا کرنے کیلئے لندن سے پاکستان آئے اور سیدھے جیل پہنچا دیئے گئے۔ گو جیل جانا ان کے کرموں کا ہی نتیجہ تھا، وہ واقعی بھاگنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا میرا سب کچھ پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں پیدا ہوا، پاکستان میں ہی مروں گا، بھاگنے والا نہیں۔ ”میرا سب کچھ پاکستان میں“ ہے اس کے سوا ان کے دیگر اقوال پر یقین کر لینا چاہیے۔
صدر زرداری یاروں کے یار ہونے کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ زندگی میں جو ان کے کام آیا، ایماندار تھا یا چور اُچکا، اس کو انہوں نے نوازنے میں کنجوسی نہیں دکھائی، سوائے جناب مطلوب وڑائچ کے جو سوئٹزر لینڈ میں اپنے خرچے پر ان کے کیس لڑتے رہے، وہ چار سال سے کنارے پر بیٹھے ساتھیوں کا گنگا جل میں اشنان دیکھ رہے ہیں۔ شاید زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ کم از کم ایک شخص تو ضمانتیں کرانے کے لئے محفوظ رہ جائے۔ عدالت کسی عہدیدار کو سزا یافتہ، کرپٹ یا بدعنوان کے الزام کو فارغ کرتی ہے حکومت ایسا ہی کوئی اور لا بٹھاتی ہے۔ ان میں سے کوئی زرداری کا یار اور کوئی گیلانی کا وفادار ہوتا ہے۔ اب جبکہ حکومت کے چل چلاﺅ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ویسے بھی آئینی مدت ختم ہونے میں سال، سوا سال بچا ہے۔پاکستان نے زرداری پر کسی بھی شخص سے بڑا احسان کیا ہے۔ وہ سب سے بڑے عہدے پر تعینات ہیں، اب ایک سال پاکستان سے یاری اور وفاداری نبھا دیں۔ جیب سے قوم کو کچھ نہ دیں۔ صرف انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر دیں تو ملک سے کرپشن نابود بدعنوانی ولاقانونیت مفقود ہو سکتی ہے۔پاکستان صحیح معنوں میں امن خوشحالی کا گہوارہ اور اسلامی و فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔

Monday, December 5, 2011

جھوٹ میں بھی عروج

4 دسمبر ، 2011

جھوٹ میں بھی عروج
فضل حسین اعوان ـ 
امریکہ آج دنیا کی واحد سپرپاور ہے‘ جدت‘ ترقی اور حتٰی کہ بدمعاشی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ جھوٹ فریب ‘ اور مکاری میں بھی کوئی ملک اس کا ہمسر نہیں ہے۔ گوئبلز کے مطابق اتنا زیادہ جھوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔ آج نہ صرف امریکہ پورے شدومد کےساتھ گوئبلز کے فارمولے پر عمل پیرا ہے بلکہ جھوٹ پہ جھوٹ پے در پے جھوٹ بول کر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر دکھانے میں امریکی میڈیا بھی اپنی سرکار سے پیچھے نہیں۔ پاکستان کے حوالے سے تو آج جھوٹ کے طوفان اٹھائے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین ”مہم جوئی“ وال سٹریٹ جرنل نے یہ کہہ کر کی ہے کہ ”نیٹو حملہ سے قبل پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا تھا‘ پاکستانی حکام سلالہ چیک پوسٹوں پر اپنی فورسز کی موجودگی سے بے خبر تھے۔“ پاک فوج کا موقف قطعی درست ہے‘ یہ حملہ ارادی طور پر کیا گیا.... کیوں کیا گیا؟ یہ ایک اور راز معمہ تھا جس سے جنرل اسلم بیگ نے پردہ اٹھا دیا ہے‘ وہ کہتے ہیں: 
” 25/26 نومبر کی درمیانی رات سلالہ کے مقام پر واقع پاکستانی چوکی پر متعین فوجیوں نے پاکستان تحریک طالبان ولی الرحمن اور فضل اللہ گروپ کے پچاس کے لگ بھگ ایسے عسکریوں کو گھیرے میں لے لیا تھا جو پاکستان دشمن کارروائیوں میں مصروف تھے۔نیٹو اور امریکی طیارے انہیں چھڑانے کیلئے تیزی سے حرکت میں آئے اوردوپاکستانی چوکیوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔اس پر سلالہ چوکی پر متعین کمانڈر نے ایساف سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ انکے طیارے پاکستانی چوکی کو نشانہ بنا رہے ہیںاور یہ حملہ فوری طور پر بند کیا جائے لیکن ان کا پیغام نظر انداز کر دیا گیا اور دو گھنٹے تک یہ حملہ جاری رہا‘جب تک کہ عسکریت پسندوں کو رہا کراکے افغانی علاقے میں پہنچا نہ دیا گیا“۔ 
کیسی سنگ دلی ہے‘ امریکہ اس پاکستانی فوج کو مار رہا ہے‘ جو امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے اسکے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھ کر مار رہی ہے اور پھر امریکی بدمعاشی کہ اپنے جارحانہ اور بہیمانہ اقدام کی مذمت‘ نہ معافی۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں بھی کھلا جھوٹ بولا گیا‘ وہ بھی اعلیٰ سطح تک۔ صدر اوباما نے ریمنڈ کی گرفتاری پر اسے سفارتکار قرار دیکر پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی‘ بعدازاں اسی ریمنڈ کو امریکی میڈا نے سی آئی اے کا اہم عہدیدار قرار دیا تھا۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ پینٹاگون نے بڑی ڈھٹائی سے کہا تھا کہ شمسی ایئربیس پر کوئی امریکی موجود نہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف شمسی ایئربیس خالی نہ کرنے کیلئے پوری دنیا سے پاکستان پر دباﺅ ڈلوایا جا رہا ہے۔ امریکی وعدہ خلافیاں پاکستانی کبھی نہیں بھول سکتے۔ 1962ءمیں رن آف کچھ میں ہندوستان کے ساتھ سرحدی جھڑپ ہونے سے امریکہ نے پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ جب 1965ءمیں پاکستان نے بھارت کی جارحیت کیخلاف معاہدے کی پابندی کرنے کی بات کی تو الٹا امریکہ نے ہمیں اس جنگ کو شروع کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور پاکستان کی معاشی اور فوجی امداد بند کردی۔ 71ءمیں پاکستان کی مدد کیلئے بھیجا جانےوالا بحری بیڑہ کبھی پاکستان کے ساحلوں کے قریب نہ پہنچ سکا۔ اپنے مذموم اقدام پر ڈھٹائی اور معافی نہ مانگنے کی ہٹ دھرمی امریکیوں کا وتیرہ رہا ہے۔ وہ ذیل کے واقعہ سے مزید نمایاں ہوتا ہے۔ پشاور ایئربیس سے امریکی پروازیں روسی فضا میں داخل ہو کر اپنا کام کرتی رہیں‘ پھر یکم مئی 1960ءکو امریکی یوٹو روس نے گرا لیا لیکن اسکی خبر جاری نہ کی۔ 4 مئی کو جاسوسی طیارہ مار گرانے کا اعلان کیا تو امریکہ نے کہا‘ اسکا ترکی سے اڑنے والا موسمی طیارہ لاپتہ ہوا ہے۔ پائلٹ نے آخری بار آکسیجن کا مسئلہ درپیش آنے کی کال کی تھی۔ ہو سکتا ہے وہی طیارہ راستہ بھٹک کر روس کی حدود میں جا گرا ہو۔ اسکے ساتھ اسی قسم کے ایک جہاز کو ناسا کا رنگ و روغن کرکے اور مونو لگا کر میڈیا کو دکھا دیا گیا۔ 7 مئی کو امریکیوں کے جھوٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا‘ جب روسی وزیراعظم خروشیف نے کہا کہ پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا گیا ہے اور وہ صحت مند و تندرست ہے۔ اس سے روسی کرنسی 7500 روبل‘ خواتین کے زیورات اور اسلحہ ملا ہے جبکہ جہاز کے اندر سے جاسوسی کیمرے اور حساس مقامات کی تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آئزن ہاور نے معافی مانگنے سے انکار کیا جس کے باعث خروشیف پیرس میں ایسٹ ویسٹ سمٹ ادھوری چھوڑ کر چلے آئے۔ آج پاکستان کو بھی ان حالات کا سامنا ہے جیسا یوٹو گرانے پر روس کو تھا۔ امریکہ اب پاکستان سے معافی مانگنے پر تیار نہیں ہے۔ ایسے میں بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بروقت اور احسن ہے۔ امریکہ اور اسکے میڈیا سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ پاک فوج میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے جو اسکے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ پاک فوج اور محب وطن حلقوں کو امریکی کارستانیوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی اور اسکی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا ہو گا‘ اسی طرح اس جھوٹے جمہوریت کے علمبردار‘ عیار اور دوست نما دشمن سے محفوظ رہا جا سکے گا۔



Friday, December 2, 2011

بنگلہ دیش میں ملت کے پاسباں پھر زیر عتاب

 جمعۃالمبارک ، 02 دسمبر ، 2011



بنگلہ دیش میں ملت کے پاسباں پھر زیر عتاب
فضل حسین اعوان 
دبئی میں ایمرٹیس ایئر لائن کے سٹاف نے ایئر پورٹ سے ہمیں گاڑی میں ہوٹل کے لئے روانہ کیا تو میرے ساتھی صحافی شبیر سرور نے ڈرائیور سے انگریزی میں کہا کہ میوزک اگر ہے تو لگا دے، ملٹی نیشنل سٹی ہونے کے باعث یہاں کی مشترکہ زبان انگلش ہے۔ ڈرائیور نے عاطف اسلم کا گانا چلا دیا۔ اس کے بعد انگریزی بولنے کے تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے پوچھا ”بھائی کہاں کے رہنے والے ہو“۔ 35چالیس سال کے پیٹے شخص نے مختصر جواب دیا ”بنگلہ دیش“۔ ہم پاکستانیوں کو ساتھ بٹھا کر اسے تو شاید کوئی تعجب نہ ہوا ہو لیکن میرے سامنے بچپن کی یادوں کے سیاہ سائے لہرانے لگے۔ اخبارات کی چیختی چنگھاڑتی اور دلدوز ہیڈ لائنز ”ڈھاکہ میں قومی پرچم جلا دیا گیا۔ جنرل نیازی نے ہتھیار پھینک دیئے۔ ہزاروں فوجیوں کو بھارت نے قیدی بنا لیا“ کوشش کے باوجود ذہن سے محو نہیں ہوتیں۔ ہم ایئر پورٹ سے پانچ سات منٹ میں ہوٹل پہنچ گئے۔ اس لئے بنگلہ دیشی نوجوان سے تفصیلی بات چیت تو نہ ہو سکی البتہ اس نے بنگلہ لہجے میں اردو بولتے ہوئے جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے ”اِدھر اور اُدھر کے اقتدار پرستوں نے پاکستان کے دو حصوں کے درمیان نفرت کی اونچی دیوار چن دی“۔ بنگالیوں میں آج بھی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کی بنگلہ دیش میں ہمیشہ پذیرائی ہوتی ہے۔ بھارت میں جو حال ہوتا ہے، وہ سب پر عیاں ہے ۔ اس لئے کہ ہندو بنیا پاکستان اور پاکستانیوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔ بنگلہ دیش میں پاکستانی جاتے رہتے ہیں۔ اب تو بہت سے صنعتکار اپنا کاروبار بھی وہاں سے لے گئے ہیں لیکن کسی بھی شعبے کی شخصیت کے ساتھ وہاں توہین آمیز سلوک نہیں ہوا۔ جبکہ بھارت کے انتہا اور شدت پسند ہندو پاکستانی کھلاڑیوں، فنکاروں کی تواضح جوتوں سے کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر قیدیوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے موت سے ہمکنار کر دیا جاتا ہے یا معذور بنا کر پاکستان بھجوا دیا جاتا ہے۔ بھارت میں حکومتی اور عوامی سطح پر پاکستانیوں سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان پاکستان یا پاکستانیوں سے پیار کا اظہار کربیٹھے تو اسے اس کے کاروبار سمیت جلا ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں دکانوں، ہوٹلوں حتیٰ کہ بعض گھروں میں بھی بھارتی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ بھارتی مسلمان پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی تصویر صرف اپنے دل میں سجا سکتے ہیں۔ ہوٹل، دکان اور کاروباری مقام پر ہر گز نہیں۔ بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر پاکستانیوں کے لئے والہانہ پن موجود ہے۔ حکومتی سطح پر گرم سرد کا انحصار حکمران جماعت پر ہے۔ وہاں بھی پاکستان کی طرح حکومت کے لئے خالدہ ضیاءاور حسینہ واجد کی باری لگی ہے۔ خالدہ ضیاءحکومت میں ہوں تو پاکستان بنگلہ دیش تعلقات میں تنوع اور حسینہ واجد کی حکمرانی میں تناﺅ ہوتا ہے۔71ءکا جانکاہ سانحہ جہاں بہت سے غداروں کو بے نقاب کر گیا، وہیں غلط فہمیوں کی بھی فصل بو گیا جس نے نفرتوں کا روپ دھار لیا۔ بنگلہ دیش اور پاکستان بچھڑے ہوئے دو بھائی اور اسلامی ممالک بھی ہیں۔ دونوں کو کسی بھی معاملے میں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں۔ اب تک تو نفرتیں ختم ہو جانی چاہئیں تھیں لیکن حسینہ واجد غلط فہمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان نفرتوں میں اضافے کی کوشش کرتی ہیں۔ مجیب الرحمن کی قیادت میں بنگالیوں کے مختصر گروہ نے اپنی چرب زبانی اور حقائق کو مسخ کرکے بنگالیوں کی سوچ کو یرغمال بنایا اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی مدد سے پاکستان کو دو لخت کراکے ایک حصے کی حکمرانی حاصل کر لی۔ پاکستان سے غداری کس نے کی؟ اس نے جس نے بھارت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پاکستان توڑنے میں اپنا بھیانک کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود پاکستان سے باعزت رہا ہو کر بنگلہ دیش کا حکمران بن گیا۔ آج بنگلہ آزاد اور خود مختار ملک ہے لیکن حسینہ اپنے باپ کی طرح بھارت کی داسی بنی نظر آتی ہے۔ منموہن کو سونے میں تولا جا رہا ہے۔ سونیا کے کہنے پر یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کی تجارت کو ویٹو کیا گیا ہے اور 71 میں پاکستان کے حامیوں پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ مجیب الرحمن کو پاک فوج نے نہیں بنگلہ فوج نے قتل کیا۔ پاکستان میں یہ معاملہ ہوتا تو حسینہ کی پاکستان کی مخالفت کا کوئی جواز تھا۔ وہ پاک فوج پر 30 ہزار بنگالیوں کے قتل کا بے بنیاد الزام لگاتی ہیں۔ سات آٹھ ماہ میں اس قدر قتل و غارت ہوئی تو ہر گلی لاشوں سے اَٹی ہوئی تھی، عالمی میڈیا اس کو طشت ازبام کرنے سے کبھی باز نہ رہتا۔ پاک فوج کی 35 ہزار کی نفری کیا صرف اس ایک کام پر لگی تھی؟ حسینہ واجد ان فرضی مقتولین کی قبریں گنوا دے۔ ان کے جھوٹ کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج نصف صدی ہونے کو ہے کہ مقتولین کی لسٹ ہی نہیں بن پائی۔ وہ اقوام متحدہ کو مقتولین کی لسٹ دیں آج میڈیا بڑا ایڈوانس ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی جانچ پڑتال سے قبل ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گا۔حسینہ واجد کی حکومت کو آج چالیس سال بعد ان لوگوں کی تلاش ہے جو 71 ءمیں پاکستان سے علیحدگی کے مخالف تھے۔ ان میں سے کئی کو گرفتار کرکے ان پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر ”مجرموں“ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ 89 سالہ غلام اعظم کو گرفتار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ طرفہ تماشا ہے۔ ملت کے غدار ملت کے پاسبانوں پر غداری کے مقدمات چلائیں گے۔پاکستان کی تحریک آزادی میں جماعت اسلامی کا کردار قابل تعریف نہیں ہے تاہم 71ءمیں اس نے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جس کی پاداش میں بنگلہ دیش میں اس کے رہنماﺅں اور کارکنوں کو اذیتوں اور مصائب و آلام کا سامنا رہا اور وہ آج بھی زیر عتاب ہیں۔ جماعت اسلامی کا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے خلاف سٹینڈ بھی اہم ہے۔ پاکستان میں عمران کی تحریک انصاف سمیت ہر قابل ذکر سیاسی جماعت بھارت کے ساتھ تعلقات، تجارت اور دوستی کے گن گا رہی ہے، ایسے میں جماعت اسلامی، جماعت الدعوہ اور دیگر مذہبی جماعتوں کا کردار واقعی مثالی ہے۔ جماعت اسلامی کے ایسے اقدامات سے تحریک آزادی میں ”کردار“ کا کافی حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔



Thursday, December 1, 2011

وقتی ابال

جمعرات ، 01 دسمبر ، 2011


وقتی ابال!
فضل حسین اعوان ـ 
نیٹو ہیلی کاپٹروں کی بمباری سے پاکستان فوج کے 28سپوتوں کی شہادت کے بعد پوری قوم مشتعل ہے، دلوں میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات کا لاوا زبان سے اظہار کی صورت میں اُبل رہا ہے۔ اس موقع پر حکمران قومی جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے تلاطم خیز بیانات اور جنون آمیز اعلانات سے لگتا ہے کہ نیٹو کے اس بدمعاشی کے اقدام وہ دکھی غمزدہ مضطرب اور شدید غصے میں ہیں جس پر پوری قوم ان کے دل کی بات کرنے والے حکمرانوں کی پشت پر متحد ہو کر کھڑی ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ مثل مشہور ہے گھر میں پیدا ہونے والوں کے دانت گننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمرانوں نے امریکی اقدام کے خلاف جو طوفان اٹھایا ہوا ہے۔ اس کی حیثیت منافقت، دھوکے اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے جوش و خروش سے لبریز بیانات اور اعلانات کڑھی سا ابال اور پیالی میں طوفان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اگر ان کی زبان دل کا ساتھ دے رہی ہوتی تو اس کارروائی پر جس پر امریکہ معافی مانگنے پر بھی تیار نہیں، امریکی سفارتخانہ بند، سفیر ملک بدر کیا جا چکا ہوتا۔ اسلام آباد میں قائم سی۔ آئی۔ اے کا دنیا میں سب سے بڑا سٹیشن بند کر دیا جاتا۔ کوئی فوج کو مطمئن رکھنے کے لئے امریکہ سے دوری کا راگ الاپ رہا ہے تو کوئی عوام کے غضب سے بچنے کے لئے شمسی ایئر بیس خالی کرانے کی بین بجا رہا ہے۔ 
نیٹو کی فوجی چوکی پر ایک ہی وقت میں بمباری سے 50 فوجی خاک اور خون میں مل گئے۔ اس کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔آج پاکستان مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، لاقانونیت، رشوت ستانی، اقربا پروری جیسی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے قاتل، پہلے راشی، پہلے ڈاکو، چور، رہزن، پہلے رشوت خور اور پہلے ریپ کے ملزم کو سزا مل جاتی تو آج پاکستان بحرانوں کا شکار نہ ہوتا۔ پہلے فوجی باغی کو لٹکا دیا جاتا تو قوم مزید تین فوجی بغاوتوں سے بچ جاتی۔ نیٹو بمباری سے کل شہید ہونے والے فوجیوں سے قبل ایسے ہی واقعات میں 50 اہلکار جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ عسکری قیادت آج جس شدید ردّ عمل کا اظہار کر رہی ہے نیٹو حملوں میں پہلے فوجی کی شہادت پر اس رویے کا اظہار کیا جاتا تو دوسرے فوجی کی شہادت کی نوبت نہ آتی۔ ڈرون حملوں کے خلاف میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاتا رہا ہے۔ بڑی کارروائی کی صورت میں قوم بھی وقتاً فوقتاً میڈیا کی آواز میں آواز ملا دیتی ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے کبھی دھرنا دیدیا تو کسی نے مذمتی بیان۔ سیاسی اور عسکری قیادت کے بیانات آئندہ ایسے حملے برداشت نہیں کریں گے، مذاق بن کر رہ گئے۔ یہ بیانات حکمرانوں کی زبان سے مکمل طور پر ادا بھی نہیں ہوتے کہ نیا حملہ ہو جاتا ہے۔ اگر پاکستانیوں کو ہٹ کرنے والا پہلا ڈرون مار گرایا جاتا تو کیا دوسرا اسی مقصد کے لئے مادر وطن کی حدود میں داخل ہو جاتا؟ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ امریکہ بار بار کہہ چکا ہے کہ ڈرون حملے پاکستانی حکام کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ اس میں شک کی بھی گنجائش نہیں۔ ڈرون تواڑتے ہی ہماری حدود سے ہیں۔ آج ایک سابق سی آئی اے عہدیدار نے کہہ دیا ہے کہ شمسی ایئر بیس خالی بھی کر دیا گیا تو بھی ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ قوم نے ایسے حکمرانوں سے امیدیں باندھ لی ہیں کہ امریکہ کے سامنے سر اٹھا کر بات کریں گے۔ یہ مشکل نہیں، ناممکن ہے۔ امریکہ کے نمک خوار اس سے بے وفائی نہیں کر سکتے۔ یہ کل بھی امریکہ کے کاسہ لیس تھے، آج بھی ہیں۔ زبان امریکہ کے خلاف عوام اور فوج کو تسلی دینے کے لئے شعلے اگل رہی ہے، دل امریکہ کی الفت سے لبریز ہے، خوابیدہ قوم 28 فوجیوں کی شہادت پر انگڑائی لے کر اٹھی اور امریکہ کے خلاف طوفان برپا کر دیا۔ ڈرون کیا پھول برساتے ہیں؟ ڈرون حملوں میں تین ہزار پاکستانی شہید ہوئے۔ کیا وہ کاغذ کے انسان تھے؟ ان کے والدین، بچے اور عزیز رشتہ دار نہیں تھے، جرنیل اور سیاست دان سویلین کی شہادتوں پر جوش میں کیوں نہیں آتے۔ قوم نے بھی شدید ردّ عمل کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ چلو قوم اب جاگی ہے تو نہ خود سوئے اور نہ جرنیلوں اور سیاستدانوں کو سونے دے۔ حکمران پھر سے عوام کی خوابیدگی کے منتظر ہیں۔ یہ پھر امریکہ کے چرنوں میں بیٹھنے کے لئے بے قرار ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی قرار دیا اور اس پر ستم بھی ڈھائے۔ پاکستان کو امریکہ کی جنگ کو لات مارنے کا کئی بار جواز ملا لیکن حکمرانوں کی طولِ اقتدار کی خواہش اور ڈالروںپر فریفتگی آڑے آئی اور دونوں آرزﺅں کی بدستور تشنگی برقرار ہے۔ امریکہ جو کچھ کر رہا ہے اس کا اصولی جواب تو اینٹ کا جواب پتھر نہیں تو اینٹ تو ہونا چاہیے۔ علامہ نے شاید ایسے ہی مواقع کے لئے کہا تھا: لڑا دے ممولے کوشہباز سے اور مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ہم چونکہ کمزور ایمان واقع ہوئے ہیں اس لئے حکمرانوں کو ممولے کو شہباز سے لڑانے کا کوئی مشورہ نہیں دیتا۔ کشتی کو طوفان میں اتارنے کے لئے کوئی نہیں کہتا۔ تاہم خود کو امریکہ کی جنگ سے الگ تو کیا جا سکتا ہے۔ امریکی حکام کئی مرتبہ امداد کی بندش کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ہمارے حکمران کہہ دیں کہ آپ اپنی امداد پاس رکھیں، ہمیں معاف کر دیں۔ ہم تمہاری جنگ سے تائب ہوئے اور باز آئے۔ آپ اس کی امداد کو ٹھکرادیں گے تو وہ بھی آپ کو اپنی غلامی پر آمادہ کرنے کی کوشش نہیں کریگا۔ذرا یہ کرکے تو دیکھیں۔



Sunday, November 27, 2011

شاہ کے وفادار

 اتوار ، 27 نومبر ، 2011


شاہ کے وفادار

شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کا اظہار کرنیوالے دراصل شاہ کی ذات سے زیادہ اپنی ذات کے وفادار اور اپنے مفادات کے پرستار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی چالاکیوں‘ عیاریوں‘ مکاریوں اور چرب زبانی و چاپلوسی سے جہاں اپنا گھر بقعہ نور بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں‘ وہیں ضرورت پڑنے پر کسی دوسرے کی ذات پر گند اچھالنے اور اسکے آشیاں پر بجلیاں گرانے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن جب خدا کا بے آواز کوڑا برستا ہے تو خود کو عقل کل سمجھنے والے اوندھے منہ گرے‘ عبرت کا ساماں اور ذلت کا نشاں بنے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے افراد ہر شعبے اور ادارے میں آسانی سے دریافت ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں دریافت کرنے کی ضرورت نہیں‘ اپنے کردار‘ اعمال‘ افعال اور اپنے آقا کیلئے جانثاری و جانبازی سے بھرے ریاکارانہ جذبات کے باعث ایسے لوگ نمایاں ہوتے ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے جس سے آسانی سے واضح ہو جاتا ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے اور اپنے راستے سے کانٹے ہٹانے کیلئے کہاں تک چلے جاتے ہیں۔ 
”بادشاہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو کچن کیبنٹ کے ایک ممبر نے عرض کیا کہ حضور قبر میں ماں جی پر کڑا وقت آسکتا ہے‘ وہ فرشتوں کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے پائیں گی‘ کیوں نہ فلاں صاحب کو (جو کچن کیبنٹ کے دوسرے بارسوخ ممبر اور انکے حریف تھے) ماں کے مزار میں ساتھ بٹھا دیا جائے‘ تاکہ یہ ماں جی کی جگہ فرشتوں کے سوالات کے جواب دے دیں۔ بادشاہ سلامت کو تجویز پسند آئی اور حکم شاہی صادر فرما دیا جس پر دوسرے ممبر نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے بادشاہ سے عرض کیا کہ حضور ماں جی کے ساتھ مزار میں چلے جانا میرے لئے اعزاز ہے‘ آپ کو علم ہے کہ علم و فضل میں یہ صاحب مجھ سے برتر ہیں۔ مجھ سے لغزش ہو سکتی ہے‘ ان سے نہیں۔ لہٰذا یہ ساتھ جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا اور ماں جی کی منزل سہل ہو جائیگی۔ بادشاہ سلامت نے دوسرے مشیر کی رائے کو زیادہ صائب جانا اور والدہ محترمہ کے ساتھ پہلے مشیر کو مزار میں بٹھا کر اردگرد بغیر دروازے اور کھڑکی کے دیوار چنوا دی۔“ 
ماضی قریب اور حال کا جائزہ لیں تو بہت سے وفادار مطلب نکل جانے پر عیار کے روپ میں نظر آئینگے۔ بھٹو کے کتنے ہی وفادار‘ ضیاءکے حبدار بن گئے‘ ضیاءالحق کی تراشی ہوئی‘ مسلم لیگ کہیں نہ کہیں لڑکھڑاتی پھرتی ہے لیکن جنرل ضیاءکے سامنے کورنش بجا لانے والوں میں سے منزلِ مراد کی تلاش میں کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا۔ آج پاکستان میں صرف انکی اولاد ہی ان کی نام لیوا ہے۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے تو نورتنوں میں گھرے رہتے تھے۔ مشرف نے شب خون مارا تو سب رتن دبک گئے۔ پھر کچھ مشرف کے دامن سے لپٹے اور کچھ تیل اور تیل کی دھار اور مارشل لاءکی نرمی دیکھ کر نواز شریف کی حمایت میں سرگرم ہو گئے۔ مشرف کو دس بار باوردی صدر منتخب کرانے کے دعویدار بھی انکی کمر خالی چھوڑ گئے۔ یوں مشرف آج دربدر، کبھی اس کے گھر، کبھی اس کے گھر ہیں۔آج حسین حقانی کو ایک کربلا اور ابتلا کا سامنا ہے‘ میمو کی تحقیقات بھی ہونا ہیں‘ اس میں وہ بے قصور بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ بڑے شاطر قسم کے انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں‘ میمو کے معاملے میں ایسے پھنسے کہ استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ کسی کو بھی چکر دیکر اپنا موقف منوانے کا ملکا رکھتے ہیں۔ وہ 88ءمیں سیاست کے آسماں پر طلوع ہوئے پھر اپنی عیاریوں اور مکاریوں سے سیاست کے آسمان پر چھاتے چلے گئے۔ کبھی اپنی چرب زبانی سے میاں نواز شریف کے مصاحبوں میں شامل ہوتے تو کبھی چاپلوسی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں۔ 88ءسے 97ءتک حکومتوں کی شکست و ریخت اور تبدیلی کی طرح انکی وفاداریاں بھی بازیاں لگاتی رہیں۔ 2008ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو امریکہ میں پاکستان کی سفارت ان کی قسمت میں آئی۔ یہاں وہ آج تک شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کا اظہار کرتے رہے۔ انکے بیک وقت شاہ بھی دو تھے۔ پہلا امریکہ‘ دوسرا جس نے انہیں امریکہ میں سفیر تعینات کیا۔ کیری لوگر بل میں پاک فوج کے گرد شکنجہ کسنے کا مشورہ بھی شاید انہیں کا تھا۔ پاکستان میں امریکہ کی مداخلت انہیں کی پالیسیوں سے بڑھی۔ بغیر تحقیق کے ہزاروں امریکیوں کو ویزے بھی موصوف نے جاری کئے۔ یہ امریکی آج بھی پاکستان کی گلیوں میں گھومتے پھرتے خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ اپنی وفاداری کا یقین دلانے کیلئے آج حقانی بھٹوز کے مزاروں کا مجاور تک بننے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ کل کیا ہو گا؟ وہی جو ہماری سیاست میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ مرغِ بادنما۔ بابر اعوان بھی اپنی وفاداریاں جتانے اور اپنے دلائل کے ذریعے دن کو رات ثابت کرنے کی بے پایاں صلاحیت رکھتے ہیں‘ ایسے میں بڑے قانون دان ہونے کے باوجود عدالتوں کا احترام بھی بھول جاتے ہیں۔ لیکن کب تک؟ کیا جب تک زرداری کے سر پر تاجِ سردارا ہے؟ پارٹیوں کے سربراہان ذہن میں رکھیں‘ جو کل آپکے مدمقابل تھے‘ آج آپکے ساتھ ہیں‘ کل کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہاں میاں نواز شریف کا تاریخی جملہ موقع محل کے مطابق ہے ”آپ کہتے تھے قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے قدم بڑھایا‘ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا۔


Friday, November 25, 2011

دبئی چلیں؟

 نومبر ،24 ,2011


دبئی چلیں؟
(گزشتہ سے پیوستہ)
شہر کے اہم مقامات کی اہمیت سے آگاہی کیلئے نوجوان اسد گائیڈ کے طورپر ہمارے ساتھ تھا۔ اس کا تعلق سوات سے ہے۔پاکستان کے حالات دیکھ کراس کو بھی دکھی دیکھا۔ اُسے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تاہم بعض اوقات شرمندگی سے بچنے کیلئے اسے اپنی قومیت چھپانا پڑتی ہے۔
ٹور کے آخر ی روز سب سے اہم ایونٹ انجینئرنگ شعبے کا وزٹ تھا۔ بس اسی مقام کیلئے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کو کہا گیا تھا۔ہم وہاں بروقت پہنچ گئے۔ایک کیبن کے سامنے کھڑے تھے اندر بیٹھے نوجوان نے کہا لائن بنا کر پاسپورٹ جمع کرا کے وزٹنگ کارڈ حاصل کرلیں۔ لسٹ اس نے تھام رکھی تھی ۔سات آدمی لائن میںکھڑے ہوئے تو اس نے پہلے جس کو پکارا وہ چھٹے نمبر پر تھا دوسرا چوتھے پر۔لائن بنوانے کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد ہمیں امریکہ جیسی سیکورٹی کیلئے کہا گیا۔جوتے اور بیلٹ اتارو! جو آگے کھڑے تھے انہوں نے انکار کردیا اور کہا ایسی بے عزتی نہیں کرائیں گے۔واپس جائیں گے۔ دوسرے کولیگز کے کہنے پر وہ تیار ہوگئے۔کیمرے تو پاسپورٹ کے ساتھ ہی رکھ لیے گئے تھے۔یہاں موبائل جوتے اور پنسل وغیرہ لکڑی کے ڈبے میں رکھ کر مشین سے گزرنے کیلئے رکھ دئیے گئے۔ میٹل ڈیٹیکٹر واک تھرو گیٹ سے گزر کر اپنا سامان اٹھا کر ایک صحافی آگے جانے لگا تو ایک بد مزاج عورت بڑی رعونت سے گویا ہوئی ” او مین ڈبہ واپس ریلنگ پر رکھو“۔عورت کے تحکمانہ لہجے پر میرے کولیگ نے جواب دیا ”آپ لوگ یہاں کس لیے بیٹھے ہیں“؟ دنیا میں کہیں ایسا نہیں کہ باسکٹ سے سامان اٹھانے والا باسکٹ یا ڈبہ واپس رکھ کر آئے۔ نوجوان کے جواب پر پولیس کا عملہ چلانے لگا۔ بات ان کے سنہری کراﺅن لگے افسر کے پاس پہنچی تو وہ بھی عملے کی طرح بد دماغ نکلا۔ ہماری بات ہی نہ سنی۔اس پر ہم سب نے مل کر جواب دیا کہ ہم وزٹ نہیں کریں گے واپس جاتے ہیں۔جس صحافی کے ساتھ عملے نے بد معاشی کی یہ وہی صاحب تھے جنہوں نے جوتے نہ اتارنے والوں کو سمجھایا تھا۔ ایسے صلح جو قسم کے انسان کے ساتھ پولیس کا رویہ انتہائی نامناسب تھا۔ اس کے بعد ہم نے کارڈ جمع کرا کے پاسپورٹ مانگے تو ہمیں بیس منٹ تک پاسپورٹ نہ دئیے گئے اس دوران پاسپورٹ ضبط کرنے کا تاثر اور ہم میں سے کچھ کو گرفتار کرنے کا عندیہ دیا گیا۔اس کے باوجود ہم وزٹ سے انکاری رہے۔ بہرحال ہمیں پاسپورٹ مل گئے۔ہوٹل کے راستے تک ہم نے باقی مصروفیات ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ بد تمیز عملے کا ایمریٹس ائر لائن سے تعلق نہیں یہ دبئی پولیس ہے۔اس تاثر کے بعد کچھ کی رائے تھی کہ باقی پروگرام جاری رکھاجائے۔ ہم ہوٹل پہنچے تو کو آرڈی نیٹر شبھان وہاں پہنچ چکی تھی جس نے معذرت کی اور باقی پروگرام جاری رہا۔ اس میں ایک تو ایمریٹس کے سوا دو کلو میٹر پر پھیلے کچن اور کیٹرنگ کا د ورہ تھا دوسرے انڈین اوشن اور ویسٹ ایشیا کے کمرشل اپریشن کے سینئر نائب صدر شیخ ماجد المعلیٰ سے انٹرویو۔ ایگزیکٹو شیف مکیش کا تعلق بھارت سے تھا جس نے لسی سمیت پاکستانی کے لذیذ کھانے بنائے تھے مکیش بات بات پر ماشاءاللہ کہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ سال میں ایک مرتبہ اجمیر شریف خواجہ چشتی کی درگاہ پر حاضری ضرور دیتا ہوں۔ شیخ ماجد معلیٰ سے انٹرویو ہمارے ٹور کا آخری ایونٹ تھا جو بہت اچھا رہا۔شیخ تیس 35سال کے ہوں گے لیکن ان کو اپنے شعبے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ہمارے ہر سوال کا تشفی جواب دیا یہاں بھی ایک تھوڑی سی بد مزگی ہوئی۔ ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ ایمریٹس کے حوالے سے خبروں کی پریس ریلیز کسی ایونٹ کے چار روز بعد پہنچتی ہے۔جس پر شیخ ماجد کا جز بُز ہونا قدرتی امر تھا اور وہاں سی ایم سی کی افسر مس انعم موجود تھیں۔البتہ شیخ نے شدید ردّعمل کا اظہار نہیں کیا بظاہر انہوں نے اسے سرسری انداز میں نظر انداز کردیا تاہم سی ایم سی کیلئے یہ پریشان کن امر ضرور ہے ۔ہمارے ساتھی نے نہ جانے یہ بات کیوں کردی جس سے ہماری کوآرڈینیٹر کی سبکی ہوئی۔ جس پرانعم نے وضاحت کی کہ ائیر شو کی خبریں سی ایم سی ریلیز کرتی رہی جو ہر اخبار میں بروقت شائع ہوئیں۔ ثبوت کیلئے انہوں نے ریفرنس بھی دئیے۔


یہ خبر نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع کی گئی ہے اس تارخیح کا سارا پیپر پھرنے کے لیے.جہاں کلیک کر

Wednesday, November 23, 2011

دبئی چلیں

 بدھ ، 23 نومبر ، 2011

دبئی چلیں
فضل حسین اعوان 
کراچی بیسڈ کارپوریٹ اینڈ مارکیٹنگ کمپنیCMC کی طرف چار دن کیلئے دبئی ٹور کی دعوت تھی۔ جناب مجید نظامی صاحب نے ڈیلی نیشن اور نوائے وقت کی طرف سے مجھے نامزد کیا جس پر ادارے کی طرف سے اسے کرم فرمائی پر خوشی توبھی بہت ہوئی مگرایک خوف بھی محسوس ہوا۔خوف پی آئی اے میں ممکنہ سفر کا تھا۔آج پی آئی اے کی وہ حالت ہوچکی ہے جس کی عکاسی ایک سکھ کے جہاز پر سوار ہوتے ہوئے ائیر ہوسٹس سے مکالمے میں ہوتی ہے۔ سکھ نے پوچھا تھا کہ جہاز میں تیل تو پورا ہے۔ائیر ہوسٹس نے حیرانی سے ہاں کہا۔سردار جی کا دوسرا سوال ہوا کے پورا ہونے اور انجن کے ٹھیک ہونے سے متعلق تھا۔ ائیر ہوسٹس نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا سردار جی آپ کو یہ پریشانی کیوں ہے۔اس پر سردار صاحب نے کہا تھا اس لئے پوچھا کہ کہیں راستے میں دھکا لگانے کو نہ کہہ دینا ! کرپشن اور اقربا پروری نے پی آئی اے کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔جہاز کا بروقت محوِ پرواز ہونا اور بغیر ایمر جنسی کے منزلِ مقصود پر پہنچ جانا آج معجزے سے کم نہیں....!
سی ایم سی کی طرف سے ٹور کی نوعیت کے حوالے سے تفصیلات روانگی سے ایک روز قبل بتائی گئیں۔ سی ایم سی امیج میکنگ اور ایڈورٹائزنگ کی بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نے اپنے ایک بڑے کلائنٹ امارات ائیر لائن کی دعوت پر فیملرائزیشن ٹور ارینج کیا تھا۔ہمیں ایمر یٹس ائیر لائن پر ہی سفر کرنا تھا۔دیگر ساتھیوں میں دی نیوز کے سلیم قاضی، فرنٹئر پوسٹ کے جلیل آفریدی، پاکستان آبزرور کے گوہر زاہد ملک،ڈیلی ٹائمز کے شبیر سرور، بزنس ریکارڈ رکے محمد علی اور ایکسپریس ٹربیون کے فصیح منگی شامل تھے۔شبیر سرور اور میں نے لاہور سے دیگر نے کراچی،اسلام آباد اور پشاور سے جانا تھا۔ سی ایم سی کی طرف سے کو آرڈینیٹر کے طورپر مس انعم بدھیلیہ اوردبئی میں ایمر یٹس ائیر لائن کی طرف سے مس شبھان برڈٹ کوآرڈینیٹر تھیں۔
لاہور سے دبئی ائیر پورٹ اور پھر لی میریڈین گرہوڈہوٹل تک امارات ائیر لائن نے بڑے پروٹوکول کے ساتھ پہنچایا۔ہوٹل استقبالیے پر موجود نوجوان نے بتایا کہ آپ کی 17نومبر سے بکنگ ہے۔اس وقت صبح کے 4 بجے تھے۔یعنی 17 تاریخ کو شروع ہوئے 4گھنٹے ہوچکے تھے۔نوجوان نے یہ بتا کر ہماری نیم خوابیدہ آنکھوں سے نیند اڑا دی کہ ہوٹل کے قانون کے مطابق اگلی تاریخ دن بارہ بجے شروع ہوگی اور ہمیں کمرے دوبجے بعد از دوپہر ملیں گے۔ پروٹوکول دینے والے جاچکے تھے۔خو ش قسمتی سے استقبالیئے پر تعینات نوجوان عماد ناصر کا تعلق پشاور سے تھا جس نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور ہمیں اسی وقت کمروں میں شفٹ کردیا گیا۔ صبح دس بجے تک باقی ساتھی بھی پہنچ گئے۔ اسی روز ہمیں ایمر یٹس کے کیبن کریوز کے ٹریننگ سنٹر جانا تھا۔ یہیں پہ حامد فیض صاحب سے ملاقات ہوئی وہ سینئر ترین پاکستانی پائلٹ ہیں A380جہاز اڑاتے ہیں جو دنیا کا شاید سب سے بڑا مسافر بردار طیارہ ہے.... امارات ائیر لائنز نے پاکستان سے دو جہاز لیز پرلے کراکتوبر1985 میں سفر کاآغازکیا۔ آج اس کے پاس 164 جدید ترین طیارے ہیں۔2016 تک وہ اس تعدادکو280 تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ آج ایمر یٹس دنیا کی تیسری بڑی ائیر لائن ہے۔خوشی ہوئی کہ متحدہ عرب امارات کی ایک ریاست نے اتنی تیزی سے ترقی کی ساتھ ہی یہ سوچ اور دیکھ کر دل کٹ کے رہ گیا کہ جس پی آئی اے نے ایمریٹس ائیر لائن کو قیام میں مدد دی وہ آج پستی کی گہرائیوں میں جاگری ہے۔کیا پاکستان میں اہلیت و صلاحیت کی کمی ہے؟ ہرگز نہیں۔ نہ صرف ایمر یٹس کے وجود میں آنے میں پاکستان کا کردار ہے بلکہ آج پاکستانی ایمریٹس ائیر لائن میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ایمر یٹس کے ہرشعبے میں پاکستانیوں کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر ہے۔مثلا کیبن کریوز کی تعداد14 ہزار ہے۔ان میں 25پائلٹوں سمیت 124پاکستانی ہیں جبکہ انجینئرنگ کے شعبے میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ ان میں سے اکثر پاکستان آناچاہتے ہیں لیکن کرپشن ان کے راستے کا قلزم بن چکا ہے۔ ہما خواجہ 17سال سے ائیر ہوسٹس کے طورپر کام کر رہی ہیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کے دورے کا سنا تو اپنی چھٹی کے باوجود چلی آئی وہ بڑے فخر سے پاکستانی گرین پاسپورٹ دکھا رہی تھیں۔
دبئی بڑی خوبصورت اور خوشحال ریاست ہے جس میں ٹورزم کابھی اہم کردار ہے۔ دبئی میں شراب اور شباب کی تلاش اور حصول مشکل نہیں۔ تاہم موجودہ بادشاہ جوئے کے سخت خلاف ہیں۔انہوں نے ریاست میں کوئی کسینو نہیں کھلنے دیا۔وہاں جتنے بھی پاکستانی انڈین یا دیگر قومیتوں کے لوگ ملے سب عزت مآب شیخ محمد کا دل سے احترام کرتے پائے گئے۔
دبئی اور پاکستان کے موازنے کیلئے بہت کچھ ہے۔وہاں آج بھی وافر مقدار میں بجلی موجود ہے اس کے باوجود مستقبل کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ونڈ اور سولر انرجی پر کام شروع ہوچکا ہے۔آج سمندر کے پانی کو ابال کر اس کی بھاپ سے ٹربائن چلا کربجلی پیدا کی جاتی ہے پھر اس بھاپ کو پانی میں تبدیل کرکے شہریوں کے استعمال میں لایاجاتا ہے۔استعمال شدہ پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے کاشتکاری کے قابل بنادیاجاتا ہے۔صحرا کو اگر سرسبز نہیں بنایا تو اسے سیاحوں کیلئے سفاری مہم جوئی طرز کی سیر گاہ بنادیا گیا ہے یہاں روزانہ ہزاروں سیاح جاتے ہیں فی کس ٹکٹ350 درہم رکھی گئی ہے۔مہم جوئی کے آخر پر شام ڈھلے باربی کیو کا اہتمام اور بیلی ڈانس کا انتظام کیاجاتا ہے۔ پاکستان میں دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ کار آجائے تو پاکستان چند سال میں اپنے وسائل اور محنتی عوام کے بل بوتے پر دبئی جیسی ریاستوں سے کہیں آگے جاسکتا ہے۔شہر کے اہم مقامات کی اہمیت سے آگاہی کیلئے نوجوان اسد گائیڈ کے طورپر ہمارے ساتھ تھا۔ اس کا تعلق سوات سے ہے۔پاکستان کے حالات دیکھ کراس کو بھی دکھی دیکھا۔ اُسے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تاہم بعض اوقات شرمندگی سے بچنے کیلئے اسے اپنی قومیت چھپانا پڑتی ہے۔
ٹور کے آخر ی روز سب سے اہم ایونٹ انجینئرنگ شعبے کا وزٹ تھا۔ بس اسی مقام کیلئے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کو کہا گیا تھا۔ہم وہاں بروقت پہنچ گئے۔ایک کیبن کے سامنے کھڑے تھے اندر بیٹھے نوجوان نے کہا لائن بنا کر پاسپورٹ جمع کرا کے وزٹنگ کارڈ حاصل کرلیں۔ لسٹ اس نے تھام رکھی تھی ۔سات آدمی لائن میںکھڑے ہوئے تو اس نے پہلے جس کو پکارا وہ چھٹے نمبر پر تھا دوسرا چوتھے پر۔لائن بنوانے کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد ہمیں امریکہ جیسی سیکورٹی کیلئے کہا گیا۔جوتے اور بیلٹ اتارو! جو آگے کھڑے تھے انہوں نے انکار کردیا اور کہا ایسی بے عزتی نہیں کرائیں گے۔واپس جائیں گے۔ دوسرے کولیگز کے کہنے پر وہ تیار ہوگئے۔(جاری ہے)

”ہندو مسلم دالیں“

 بدھ ، 16 نومبر ، 2011


”ہندو مسلم دالیں“
فضل حسین اعوان ـ 16 نومبر ، 2011

 نہ جانے کسی نے کیا سونگھا دیا‘ پلا دیا یا لگا دیا۔ بھارت سے دوستی‘ تجارت اور تعلقات کے لئے ایک جنون سا بپا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کسی اور معاملے میں کوئی دوسری سوچ اور پالیسی رکھ سکتی ہے۔ بھارت کی پسندیدگی میں سب ایک دوسری سے آگے ہیں۔ پارلیمنٹ کی دہلیز پر بیٹھے عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ عمران خان نے نواز شریف کی طرح یہ بھی کہہ دیا کہ مسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے تجارت کی جائے۔ اس دوڑ میں حکمران‘ اپوزیشن اور عمران ہی کیا صحافی بھی پیچھے نہیں رہے۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود پیار کی پینگیں بڑھانے کی خواہش رکھنے والوں نے ”دل کو سمجھانے کے لئے“ خود ساختہ دلائل تراشے ہوئے ہیں۔ ایسے دلائل سے بھرپور جاوید چودھری نے ’ہندو مسلم دالیں“ کے عنوان سے کالم لکھا ہے۔ اس کالم میں چودھری صاحب نے سینٹ موریس سے پیرس تک بھارتی نوجوان ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ٹرین میں ہمسفری کی روداد بیان کی ہے۔ ان کے ہمسفروں میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں تھیں۔ ”فلموں کی بات شروع ہوئی اور اجنبیت کی دیواریں تیزی سے گرتی چلی گئیں۔ کلکتہ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے سپرش فلم کا نام لیا تو (جاوید چودھری نے) نہ صرف پوری فلم کی کہانی سنا دی بلکہ نصیر الدین شاہ اور شبانہ اعظمی کے چند ایسے شارٹس کی تفصیل بھی بتا دی جس کے بارے میں وہ واقف نہیں تھی۔“ پھر یوں ہوا کہ وہ محمد رفیع‘ آشا بھوسلے اور لتا منگیشر کے بول بتاتے اور چودھری صاحب اپنے آئی فون میں محفوظ 4 ہزار گانوں سے مطلوبہ نغمہ نکال کر ان کو سنا دیتے۔ خواتین نے باور کرایا کہ وہ پاکستان کے علی ظفر‘ عاطف اسلم اور راحت فتح علی خان کی انتہائی فین ہیں۔ کالم نگار کے بقول ان کے تینوں ہمراہی کٹر ہندو تھے۔ ایک کلکتہ کے متعصب ترین خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ کھلے ”ذہن اور معتدل مزاج کے لوگ تھے۔ ان کے دل میں اتر جانے والوں نے ان کو بتایا ”بھارت بدل رہا ہے‘ بھارت کا نوجوان بزرگ نسل سے مختلف ہے۔ بھارتی نوجوان ہندو اور مسلم کی تقسیم کو تسلیم نہیں کر رہے‘ ہم پاکستانیوں کو برا بھی نہیں سمجھتے اور ہم چھپ کر گوشت اور مچھلی بھی کھا لیتے ہیں اور اس سے ہمارا دھرم بھی بھرشٹ نہیں ہوتا۔ ہم لوگ بال ٹھاکرے جیسے شدت پسندوں کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ عاطف اسلم‘ علی ظفر اور راحت فتح علی خان ہمارے ہیروز ہیں۔ ہم شعیب ملک‘ شاہد آفریدی اور عمران خان کو پسند کرتے ہیں اور ہمیں پاکستانی شاعروں کی شاعری اور لکھاریوں کی تحریریں بھی اچھی لگتی ہیں۔“ ایک خاتون نے حسرت سے پوچھا ”یہ سرحدیں کب کھلیں گی‘ میں لاہور دیکھنا چاہتی ہوں۔“ نوجوان کالم نگار نے اپنے جذبات چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ فرماتے ہےں”یہ اڑھائی گھنٹے کی ملاقات تھی ہم لوگ پیرس پہنچ کر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے لیکن ہمارے جذبات‘ گفتگو کی حدت اور احساسات کا سفر ابھی تک جاری ہے۔“
چودھری نے مزید لکھا ”میں نے بھارتی سائنس دانوں کے ساتھ سفر کے دوران محسوس کیا بھارتی نوجوان انڈین بزرگوں کی طرح متعصب نہیں ہیں۔ ان کا ذہن کھل رہا ہے اور یہ پاکستان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے رام لال یا نتھو رام دیکھتے تھے۔ پاکستان کے اندر بھی صورتحال مختلف نہیں۔ پاکستانی نوجوان بھی بدل رہا ہے۔ یہ 1947ءیا 1971ءمیں زندہ نہیں‘ اس کی سوچ بھی 2011ءکے سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ یہ بھی اب مزید دشمنی کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ درست ہے 1947ءسے پہلے برصغیر کے مسلمان اور ہندو ایک دوسرے سے خوش نہیں تھے۔ یہ بھی درست ہے 1947ءمیں مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہوا تھا اور پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں نے اس کا دل کھول کر بدلہ بھی لیا‘ یہ بھی درست ہے آج بھی مشرقی پنجاب میں ایسی ہزاروں مسلمان خواتین موجود ہیں جنہیں سکھوں نے زبردستی سکھ بنا لیا تھا اور لاہور‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ایسی ہندو عورتیں بھی ہیں۔ جنہیں یہاں کے مسلمانوں نے زبردستی اپنے عقد میں لے لیا تھا اور یہ بھی ٹھیک ہے تقسیم کی لکیر خون کی لکیر تھی اور دونوں طرف آزادی کے نام پر اتنا خون بہایا گیا تھا کہ آج تک تاریخ کے ورق خون سے لتھڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے ماضی کو ماضی ہوئے 64 سال گزر چکے ہیں اور ان 64 برسوں میں تیسری نسل جوان ہو چکی ہے اور یہ نسل پچھلی تینوں نسلوں سے مختلف ہے‘ یہ نسل بھارتی فلمیں دیکھتی ہے اور سرحد کے دونوں طرف پاکستانی نغمہ نگاروں کی شاعری اور پاکستانی گلوکاروں کے گانے سنے جاتے ہیں چنانچہ اگر سرحد کے اس طرف سے فلمیں آسکتی ہیں اور ادھر سے راحت فتح علی‘ عاطف اسلم اور علی ظفر ادھر جا سکتا ہے تو پھر ادھر سے آلو‘ پیاز اور لہسن کیوں نہیں آسکتا ہے اور ادھر سے کاٹن‘ مٹر اور کوئلہ ادھر کیوں نہیں جا سکتا؟ ہمیں سرحدیں کھولنا ہوں گی کیونکہ یہ آج اور آنے والے کل کا سچ ہے‘ دنیا میں اگر یورپ کے وہ 25 ملک ایک ہو چکے ہیں جو بیس سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے تو ہم بھارت اور پاکستان کی سرحد کو کب تک بند رکھ لیں گے چنانچہ جو کام کل ہونا ہے وہ آج کیوں نہ ہو جائے؟ وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
حکومت نے بھارت کو تجارت کیلئے پسندیدہ ترین ملک قرار دیا‘ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور ہم اگر اس اچھے فیصلے کے دوران کشمیر اور کشمیریوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں تو اس کے نتائج بہت اچھے نکلیں گے‘ ہم اگر یہودی دالیں اور یہودی مشروبات پی سکتے ہیں تو ہندو دالیں‘ سبزیاں اور گندم اور مسلمان گنا‘ کپاس اور کوئلے کی تجارت کرنے میں کیا حرج ہے‘ نفرت کی یہ دیواریں گرنی چاہئیں کیونکہ اس سے بند معاشرے میں ہوا کا تازہ جھونکا بھی آئے گا اور ہمیں ترقی کا سبق سیکھنے کا موقع بھی ملے گا‘ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور میں حکومت کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔“ 
جس لکیر کو آج کالم نگار 64 سال بعد مٹانے کی بات کرتے ہیں وہ کھینچی ہی نہ گئی ہوتی توہم کہاں ہوتے؟ یقیناً ہمارا مقدر وہی ہوتا جو آج بھارت کے عام مسلمان کا ہے۔ بھارت مےں کتنے مسلمان صحافی اور اینکر ہیں جو کالم نگار مذکور کی طرح ملک ملک گھوم رہے ہیں؟ موصوف اگر فرانس تک گئے۔ وہاں ٹرین میں سفر کیا تو اسی لکیر کی بدولت جو پاکستان اور بھارت کی سرحد قرار پائی۔ سائیکل سے لگژری کاروں‘ گدھے سے جہازوں اور مکان سے محل تک کس نے پہنچایا؟ خدانخواستہ آج یہ لکیر مٹ جائے تو کل ہی جدید زندگی کو بیک گیئر لگ جائے گا۔ پھر سائیکل گدھے اور گھروندا اپنے وژن ادراک اور خواہشات کی آنکھ نہ دیکھیں۔ ادھر ادھر نظر دوڑائیں اب بھی کافی بزرگ مل جائیں گے۔ جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ان سے پوچھیں امن کے بارڈر کو خون کی لکیر میں کس نے تبدیل کیا؟ قائداعظم کے وفاداروں نے یا گاندھی و نہرو کے چیلے چانٹوں نے۔
بھارتی نوجوانوں کے آئیڈیل‘ ہمارے گلوکار بھارت سے عزت اور عظمت سمیٹ کر نہیں جوتے گالیاں کھا کر، نفرتوں اور لعنتوں کا طوق پہن کر لوٹتے ہیں پھر بھی یہ بے غیرت ہمہ وقت بھارت یاترا کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ جو نوجوان موصوف کو ٹرین میں ملے کیا یہ واقعی بھارتی نوجوانوں اور نئی نسل کے نمائندہ ہیں؟ آپ 64 سال قبل کی قتل و غارت بھلانے کی بات کرتے ہیں۔ سمجھوتہ ایکپسریس کی آتشزنی کو صدیاں نہیں بیت گئیں۔ گجرات میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ خاندان کے خاندان جلا دئیے گئے۔ یہ کام ہندو بزرگوں نے نوجوانوں سے ہی کرایا۔ یقیناً ایسے ہندو نوجوان ضرور ہوں گے جو پاکستان کے ساتھ دوستوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں ان کی تعداد اتنی ہی ہو گی جتنی پاکستان میں موجود پوتر جل کو مقدس قرار دینے والے نوجوانوں کی۔ ہندو تو اپنی نسل کو پہلا درس ہی اسلام اور مسلم دشمنی کا دیتا۔
آپ پاکستانی نوجوان کے بدلنے کی بات کرتے ہیں کہ وہ 1947ءیا 1971ءمیں زندہ نہیں۔ اس کی سوچ 2011ءمیں ڈھل رہی ہے۔ وہ مزید دشمنی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستانی نوجوان کی سوچ 47ءاور 71ءکی سوچ ہی نہیں 14 سو سال قبل کی سوچ ہے۔ ہندو سے دوستی کرنی اور سرحدیں کھولنی ہیں تو دل مسلم سے 14 سو سال قبل کی سوچ کھرچنا ہو گی۔ امن کی آشا والے ایسا کر دیکھیں۔ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ملت کی نمائندگی اپنے آئی فون میں 4 ہزار انڈین گانے بھر کے سننے اور سنانے والے ہندو کلچر اپنانے والے‘ انڈین فلموں کے دیوانے نہیں‘ شمع رسالت کے پروانے‘ چراغ مصطفوی سے دلوں کو روشن بنانے اور اقبال قائد کی محبت کے دیپ جلانے والے کرتے ہیں۔
مسلم اور پاکستانی نوجوان 47 کے مظالم بھلا سکتا ہے نہ 71ءکی تلخ یادوں سے اپنا دامن چُھڑا سکتا ہے۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم بھرنا شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ پاکستان کی شہ رگ پر دشمن بدستور قابض ہے اور آئے روز نئے زخم دے رہا ہے۔ کوئی بھی غیرت مند پاکستانی کشمیریوں کے قتل‘ خواتین کی بے حرمتی کو برداشت کیسے کر سکتا ہے۔ دست قاتل جو شناسا بھی ہے دست شفقت کیسے بن سکتا ہے؟ ساڑھے سات لاکھ بھارتی سفاک سپاہ کے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کیا یہ دست شفقت ہے؟
کوئی بھی شخص اپنی رائے رکھنے میں حق بجانب ہے لیکن اظہار میں کسی کا دل دکھے اس کی اجازت شاید اخلاقیات نہیں دیتی۔ جب حقائق اور تاریخ کو اپنے جذبات کی تسکین اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے موم کی ناک بنا کر اسے مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اہل دل کا دل کیوں نہیں جلے گا۔ چھوٹے بڑے‘ واجبی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم کے حامل تک جس کے سامنے بھی یہ دو معاملات رکھے وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ (1) مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہوا اور پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں نے اس کا دل کھول کر بدلہ لیا (2) یہ بھی درست ہے کہ آج بھی مشرقی پنجاب میں ایسی ہزاروں مسلمان خواتین موجود ہیں جنہیں سکھوں نے زبردستی سکھ بنا لیا اور لاہور‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ایسی ہندو عورتیں بھی ہیں جنہیں یہاں کے مسلمانوں نے زبردستی اپنے عقد میں لے لیا تھا۔ بعض اوقات انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے قلم سے قرطاس پر بکھیرے ہوئے الفاظ کہاں تک کاٹ اور مار کریں گے۔ کسی کی سوچ پر پابندی نہیں۔ لوگ کہہ سکتے ہیں۔ نادانستگی میں آپ دشمن کے خیراتی گواہ بن رہے ہیں۔ کسی کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی کہنے والوں کو نہیں روکا جاسکتا۔ اگر دانستہ یہ کہا ہے تو خدا جانے کیا قیمت وصول کی۔ اگر پاکستانی پنجاب میں ہندو قتل ہوئے تو کیا ان کی تعداد اور طریقہ کار وہی تھا جو بھارتی پنجاب میں اختیار کیا گیا۔ پاکستان بھارت سرحد خون کی لکیر نہیں مسلمانوں کے قتل عام سے خون کا قلزم بن گئی تھی۔ اسے قتل و غارت نہیں بلکہ ہالوکاسٹ کہنا زیادہ صحیح ہے۔ وہاں سے لاشوں سے اٹی کتنی ہی ٹرینیں آئیں اور یہاں سے ایک بھی نہیں گئی۔ لالہ موسیٰ میں اپنی عزتیں بچانے کے لئے ہندو عورتوں نے چھلانگیں لگا کر کتنے کنویں بھر دئیے تھے؟ شاید کالم نگار مذکور اپنے علاقے سے کسی پرانے بابے کو گواہی کے لئے ڈھونڈ لائیں۔ ناموس کی خاطر کنووں میں کودنے والی خواتین کو دیکھنے والی بوڑھی آنکھیں آج بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں مل جائیں گی۔ ایسے بزرگ بھی زندہ ہیں جنہوں نے لاشوں سے اٹی ٹرینیں دیکھیں۔ وہاں گاوں کے گاوں اور بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں یہاں بتائیے ایک بھی گاوں جلا؟ 
جاوید چودھری بڑے نام والے کالم نگار اور اینکر ہیں۔ جمیلہ ہاشمی نے اپنے ناول میں ایک ہندو عورت کے مسلمان کے عقد میں جانے کا ذکر کیا ہے۔ ناول اور افسانے کتنے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں؟ اس کے سوا کوئی تذکرہ نہیں سنا کہ ہندو عورتوں کو بالکل اسی طرح جبری نکاح میں لے لیا گیا ہو جس طرح مشرقی پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان خواتین کے ساتھ ہوا۔ اگر ایسے واقعات یہاں بھی ہوئے تھے تو جاوید چودھری دوچار دس خواتین یا ان کو اپنے عقد میں لانے والوں کے انٹرویو کرکے اپنی افسانوی داستاں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کریں۔ ہندو کو اب شاید مسلمانوں کے ہندووں پر مظالم ثابت کرنے کےلئے تاریخ کی خاک نہیں چھاننا پڑے گی۔ ان کو ہزار ہندو اور انگریز تاریخ دانوں سے بڑا پاکستانی مسلمان گواہ مل گیا.... جس طرح ہندو نوجوانوں کے گوشت اور مچھلی کھانے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا اسی طرح اگر ہندو کلچر کے دلدادہ اور اس سے تعلقات و تجارت کے تمنائی گائے کو گﺅ ماتا قرار دے کر اس کا مُوت پینے پر تیار ہیں تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ البتہ ایک طرف کشمیریوں کا خون بہایا چلا جا رہا ہو اور دوسری طرف ان کے شانہ بشانہ ہو کر ان کی آزادی کے لئے کوششیں کرنے کے بجائے ان کے قاتلوں سے گلے ملنے کی خواہش رکھنے والوں کو کس نام سے پکارنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب قارئین اور محب وطن پاکستانیوں کے ذمے رہا۔ 
موصوف نے سوال کیا ہے کہ اگر یورپ کے وہ 25 ممالک ایک ہو سکتے ہیں جو بیس سال پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ تو بھارت اور پاکستان کی سرحد کو کب تک بند رکھ لیں گے؟.... کیا یورپ کے ممالک کی آپس میں دشمنی اسی طرح کی تھی جیسی پاکستان بھارت کی ہے۔ ان کے ایک ہونے سے قبل کیا کوئی ملک دوسرے کے باشندوں کو اسی طرح قتل کرتا تھا جس طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج خونریزی کر رہی ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں جب تک ہندو کا جبر بند نہیں ہوتا پاکستان بھارت سرحد نہیں کھل سکتی۔ وادی کے مکینوں کو حق خودارادیت دلا دیں سرحدیں خود بخود کھل جائیں گی۔ جذبات کی حدت لے کر وکالت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس وقت تک بھارتی دالیں حرام ہیں۔ تعلقات و تجارت شجر ممنوعہ اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا قائد کے افکار کی توہین ہے۔



Monday, November 14, 2011

! ایران پر حملہ ہوا تو

نومبر ,2011,13، 


ایران پر حملہ ہوا تو
فضل حسین اعوان 
اسرائیل نے ایک بار پھر ایران پر حملے کی دھمکی دی ہے۔ صدر شمعون پیریز نے حملے کا جواز تراشتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس لئے اسرائیل اور دیگر ممالک کی طرف سے ایران پر حملے کا جواز بڑھ گیا ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کے جارحانہ رویے کو جائز اور حملے کے ارادے کو اٹل قرار دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اسرائیل کرسمس تک ایران پر حملہ کر سکتا ہے۔ برطانوی انٹیلی جنس چیف کی اس اطلاع یا وارننگ کے بعد برطانوی وزارت دفاع کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس نے ایران اسرائیل جنگ کی صورت میں ہنگامی اقدامات کر لئے ہیں۔ گویا میدان لگنے کو ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ایران کو پہلی بار جنگ کی دھمکی نہیں دی گئی۔ اس کا مربی امریکہ بھی ایران کو کئی بار دھمکا چکا ہے۔ اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو امریکہ نے ایران پر حملہ کیا بھی تھا.... 24اپریل 1980ءکو جب ایران کی اسلامی انقلابی حکومت شہنشاہ ایران کے بکھرے ہوئے ملک کی شیرازہ بندی کر رہی تھی۔ امریکہ نے اپنے یرغمالی چھڑانے کے لئے ایگل کلا آپریشن کے نام سے ایران پر شب خون مارنے کا منصوبہ بنایا۔ اس آپریشن میں چھ ہیلی کاپٹروں نے حصہ لینا تھا۔ دو ساتھ ایمرجنسی کی صورت میں استعمال کے لئے بھجوائے گئے تھے۔ آٹھ میں سے تین صوبہ یزد (ی زد) میں بے آباد ایئر بیس (ڈیزرٹ ون) پر پہنچنے سے قبل خراب ہو گئے۔ ان میں سے ایک واپس بحرہ ہند میں یو ایس ایس ٹمز پر واپس چلا آیا۔ دو لنگڑاتے ہوئے ڈیزرٹ ون میں باقی پانچ کے ساتھ لینڈ کر گئے۔ ان دو کو مرمت نہ کیا جا سکا تو صدر جمی کارٹر نے جان بچا کر بھاگنے کی اجازت دے دی۔ افراتفری میں ایک ہیلی کاپٹر سی ون 30 کے ساتھ ٹکرا گیا جس سے ہیلی کاپٹر میں موجودہ 3 اور سی ون 30 کے 5 کمانڈو ہلاک ہو گئے۔ امریکہ کے اس حملے کا جواب ایرانیوں کی طرف سے قدرت کاملہ نے دیا تھا۔ آج اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو اسے نہ صرف امریکہ و برطانیہ کی پشت پناہی حاصل ہو گی بلکہ متعدد اسلامی ممالک بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کے خلاف صلیبی و صہیونی قوت کے معاون بن جائیں تاہم زمینی حقائق میں ان کو نظر میں رکھا جائے تو اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے کا امکان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کے پاس جو بھی اسلحہ ہے راکٹ، میزائل اور فائٹر جہاز، سب کا رُخ اسرائیل کی طرف ہے۔ اسرائیل۔ایران کے نشانے پر ہے۔ اسرائیل کے حملے سے قبل، حملے کا یقین ہونے پر ایران اپنے تمام تر اسلحہ کا بٹن دبانے سے گریز نہیں کرے گا جو کچھ تمام اسلامی ممالک 63 سال سے نہ کر سکے ایران ایک لمحے میں کر ڈالے گا۔ بالفرض مغرب اور اس کا ناجائز بچہ عقل و دانش سے عاری فیصلہ کرتے ہوئے ایران پر چڑھائی کر دیتے ہیں تو اس کے واقعتا بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ سب سے زیادہ تباہ کن حملہ آور ممالک بالخصوص امریکہ کے لئے۔ جنگ کے پہلے مرحلے میں کم از کم شام، لبنان اور فلسطین تو ایران کے ساتھ ہوں گے۔ گویہ کمزور ریاستیں اور مملکتیں ہیں لیکن متحد ہوں گی تو مضبوط اکائی بن جائیں گی۔ پھر کسی بھی وقت اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی غیرت جاگ سکتی ہے جن کی اپنے آپ نہ جاگے گی ان کے لئے عوامی دباﺅ کا سامنا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔فروعی اختلافات اپنی جگہ، ہنود و یہود و نصاریٰ کی برپا کی ہوئی دہشت گردی، ڈرون حملے، بم دھماکے زندگی اور موت کے درمیان فاصلوں کو مٹاتے ہوئے کوئی ملکی تفریق نہیں کرتے۔ایران پر حملہ اصل صلیبی جنگ کا آغاز ہو گا۔ باالفرض صلیبی و صہیونی غدارانِ ملت کی مدد سے ایران پر بھرپور وار کر گزرتے ہیں تو کیا ان کا مشن مکمل ہو جائے گا؟ نہیں بلکہ پھر صلیبی جنگ کا اگلا ٹارگٹ کوئی اور اسلامی ملک ہو گا لیکن ایرانی خود چین سے بیٹھیں گے نہ استعماری قوتوں کو سکون سے بیٹھنے دیں گے۔ پوری دنیا میں آگ لگا دیں گے، کیسے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں پھر ماضی کے دریچے کھولنا ہوں گے.... رضا شاہ پہلوی کا آخری وزیر اعظم شاہ پور بختیار، شاہ کے فرار کے بعد بھی اس کا وفادار رہا۔ ایران سے فرار ہو کر پیرس میں پناہ لے لی۔ ایران کی انقلابی حکومت کے خلاف تحریک منظم کرنے کے لئے کوشاں رہا۔ ایران کے جذباتی نوجوان بھی موقع کی تلاش میں رہے۔ متعدد بار قاتلانہ حملوں میں شاہ پوربال بال بچا۔ ایک مرتبہ تو پڑوسی اور محافظ مارے گئے۔ بالآخر 7اگست1991ءکو تین ایرانی نوجوانوں کے حملے میں اپنے سیکرٹری سروش کتیہ سمیت مارا گیا۔ دو قاتل بحفاظت ایران لوٹ آئے ایک وکیل رعد سوئٹزر لینڈ میں پکڑا گیا۔ جسے فرانس کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔ 18 سال بعد 2010ءمیں رعد کو رہا کر دیا گیا۔ جس کا ایران میں ہیرو کی طرح استقبال ہوا۔ اندازہ کیجئے دنیا میں کتنے رعد بکھرے ہوئے ہیں جو صلیبی و صہیونی مفادات اور ایران کو تباہی سے دوچار کرنے میں حصہ دار شخصیات پر قہر اور قیامت بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔شاید اسی قیامت خیز انجام کے پیش نظر امریکہ نے ایران پر بھی ممکنہ حملے کی مخالفت کی ہے۔ وزیر دفاع لیون پینٹا نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حملے سے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور امریکی فوجیوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔ممکن ہے اسرائیل کی یہ شرات تیسری عالمی جنگ کا شاخسانہ ثابت ہو یا مسلم امہ کے اتحاد کی نوید لے آئے۔