اتوار ، 18 دسمبر ، 2011
میمو۔ صدر، فوج اور امریکہ
فضل حسین اعوان
منصور اعجاز جھوٹا،مکار،عیار،بد فطرت،بدطنیت،اسلام دشمن، پاکستان مخالف، بھارت و اسرائیل کا دوست،امریکہ کا شہری ووفادار،عبداللہ بن ابی جیسا منافق، عمر بن حشام سے بڑا جاہل اور ابو لہب کے درجے کا کافر ہے۔اس سب کے باوجود یہ حقیقت پوری دنیا پر آشکار ہوچکی ہے کہ جس شہرہ آفاق میمورنڈم سے ہماری حکومت کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ وہ منصور اعجاز نے ہی جنرل(ر) جیمز جونز کو ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کیلئے دیا تھا۔ جنرل جیمز نے پہلے تو ایسے کسی میمو کی وصولی کی تردید اور کچھ دن بعد تصدیق کردی۔اب سوائے صدر کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت تمام فریقین جواب داخل کرادیا ہے جن کو سپریم کورٹ نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ حکومت شروع دن سے اسے بے بنیاد اور جمہوری حکومت کیخلاف سازش قرار دے رہی ہے۔اب تو باقاعدہ مشتعل اور چراغ پابھی ہے۔ فوجیوں کے جمع کرائے گئے بیانات حکومتی موقف کے قطعی برعکس ہیں۔میمو سازش ہے یا پلاننگ۔ اس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے جس کے بارے میں وفاق کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ کو اس کیس کی سماعت کا اختیار ہی نہیں۔ اسے یہ اعتراض بھی ہے کہ نواز شریف یہ معاملہ سپریم کورٹ کیوں لے گئے؟ نواز شریف نے میمو سکینڈل کی گرد اُٹھتے ہی حکومت سے دس دن میں معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کمشن تشکیل دینے کا پُر زور مطالبہ کیا تھا لیکن وہ تیسرے دن ہی سپریم کورٹ چلے گئے۔ وہ اپنے ہی ٹائم فریم کو لات مار کر عدالت کیوں گئے؟ اپنی عقل آزمانے پر یا کسی کے اُکساتے ہوئے میمو کے زور دار ہونے کی یقین دہانی کرانے پر ؟ ایک دو فریقوں کے سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے جوابات ملاحظہ کرنے سے صورت حال اظہر من الشمس ہوجاتی ہے۔
میمو کا ملبہ حکومت خود اپنے سرڈال رہی ہے۔سپریم کورٹ نے تعین یہ کرنا ہے کہ میمو لکھنے اور لکھوانے والا کون ہے؟ اگر یہ منصور اعجاز کی کارستانی ہے تو کسی بھی سطح کی تحقیقات پر حقانی کو اعتراض ہوناچاہئے نہ گیلانی اور ان کے باس کو۔ سپریم کورٹ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کابہترین فورم ہے لیکن میمو سکینڈل میں سپریم کورٹ کا نام آنے پر حکمران جماعت کے پر جلنے لگتے ہیں۔اس کا پورا زور پارلیمنٹ سے تحقیقات کرانے پر ہے۔اس نے قومی سلامتی کی کمیٹی کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ دی۔ کمیٹی سربراہ رضا ربانی کے پاس معاملہ آیا تو انہوں نے کہا محرم کے بعد پیشرفت ہوگی سپریم کورٹ نے کارروائی شروع کی تو کمیٹی کی دُم کو بھی جیسے تیلی لگ گئی اس نے بھی محرم سے قبل ہی اجلاس طلب کرلیا۔اس کے بعد پھر خاموشی طاری ہوگئی۔اتنا بڑا کیس،یا حکومت کے بقول سازش اس کی تحقیقات ایسی پارلیمنٹ کے ارکان انصاف کے تقاضوں کے مطابق کیسے کرسکتے ہے جس کے نصف ارکان جعلی ڈگری ہولڈر ہیں۔پھر ان ارکان کا ایسی تحقیقات کا کتنا تجربہ ہے؟ جس کیس میں صدر آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ جیسی با اثر اور با اختیار شخصیات کو طلب کیا جانا مقصود تھا کیا کمیٹی کے پاس ایسے لوگوں کی طلبی کے اختیارات ہیں؟ کوئی آتا نہ آتا۔کمیٹی کسی کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟ معاملہ استثنیٰ استثنیٰ کی راگنی پر گول ہوجانا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج وسیع تر تجربہ اور کسی کو بھی طلب کرنے کے مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ صدر نے اب پھر استثنیٰ کی بات کی ہے۔جو این آر او فیصلے میں ختم ہوچکا ہے۔ بعید نہیں کہ 19ستمبر کو سپریم کورٹ صدر صاحب کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دے دے۔ آئندہ چند مہینوں نہیں چند دنوں میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔کسی کی مونچھ نیچی ہوگی کسی کی پگڑی اچھلے گی۔کسی کا تاجِ سلطانی چھنے گا کوئی اوندھے بل گرا ہوگا۔آج اپنے انجام کو دیکھ کر ہی بازو سر پر رکھ کر آہ وزاری ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے زرداری گیلانی کے پاﺅں میں کانٹا چبھتا تو تکلیف سے اتحادی دوہرے ہو ہوجاتے تھے اب وہ خاموش اور نئی منزل کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔امریکہ پاک فوج کی سبکی چاہتا ہے۔اس لئے کہ ہمارے نیو کلیئر اثاثے فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ وہی اس کی مکمل اور واحد محافظ ہے۔امریکہ کی نظر ان اثاثوں پر ہے ۔سیاسی قیادت شاید اب تک کرنل قذافی کی طرح سب اُٹھا کر امریکہ کے حوالے کرچکی ہوتی۔ ایسی سازشوں کی راہ میں فوج رکاوٹ ہے۔اسی لئے امریکہ کی ہٹ لسٹ پر ہے۔
پاک فوج امریکہ کو اس لئے بھی پسند نہیں کہ وہ مشرف کی طرح ہر معاملے پر اس کے سامنے سر نہیں جھکاتی۔ اس نے شمالی وزیرستان میں اپریشن کیلئے امریکی دباﺅ یکسر مسترد کردیا۔ پاکستانی قوم اور فوج یہ کس طرح برداشت کرسکتی ہے کہ امریکہ افغانستان میں 5اڈے قائم کرکے یہاں مستقل قیام کرلے اور ساتھ ہی بھارت کا کردار بھی افغانستان میں بڑھادے۔30ہزار بھارتی ٹرینز 3لاکھ افغان فوج کو تربیت دیں گے۔پاکستان میں تو 96امریکی ٹرینروں نے اودھم مچا رکھا تھا۔30ہزار بھارتی فوجی فاٹا اور بلوچستان میں کیا کچھ نہیں کریں گے! پاک فوجی امریکہ کی اس ساری منصوبہ بندی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔
زرداری صاحب تو ایک بار وزیراعظم امریکہ کی مرضی کا لاناچاہتے تھے۔ حقانی کو پہلے قومی سلامتی کا مشیر پھر وزیراعظم بنانا مقصود تھا وہ اسی لئے امریکہ میں سارے پاپڑ بیلتے رہے۔ان کے نامہ اعمال میں سب سے بڑا جرم میمو نہیں ساڑھے سات سوامریکی غنڈوں کو ویزوں کا اجرا تھا جنہوں نے پاکستان آکر دہشت پھیلادی۔ حقانی نے اپنے قریبی حلقوں کو تین بار باور کرایا کہ وہ وزیراعظم بننے والے ہیں۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے راستے میں بھی فوج دیوار بنی رہی۔حقانی وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھتے دیکھتے اب جیل میں چکی پیسنے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ امریکہ کی دھمکی پر سیاسی قیادت کی ٹانگیں کانپتی اور ڈالروںکی جھلکی پر چہرہ تمتا اُٹھتا ہے لیکن وہ عسکری قیادت کے قومی مفادات پر مبنی موقف کے برعکس ظاہری طورپر کوئی بات نہیں کرسکتی۔ گویا پاک فوج امریکہ اور زرداری حکومت کی چھیڑ بن چکی ہے۔ فوج پر اب تک حکمرانوں کی کرپشن کے خاتمے کیلئے بھی دباﺅ رہا ہے۔فوج کی کوشش کے باوجود کرپشن کے حوالے سے سیاستدان کہیں بریک لگانے پر تیار نہیں ۔سپریم کورٹ کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے یہاں تک کہا گیا سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل ہماری لاشوں سے گزر کر ہوگا۔اس سب کے باوجود بھی مارشل لا کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں ہے۔میمو کیس میں اگر کوئی قصور وار نہ ہواتو اقتدار کے ایوانوں میں موجود حکمرانوں کے چہرے جگمگ جگمگ کرتے رہیں گے۔ اگر کوئی قصور وار ہوا تو بھی بہت بڑی تبدیلی اور جمہوریت تلپٹ نہیں ہوگی قصو ر وار چہرہ بدل جائیگا۔نئے چہرے کے ساتھ یہی ساتھی ہوں گے یہی اتحادی ہوں گے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment