اتوار ، 25 دسمبر ، 2011
قائداعظمؒ.... اور آج کا پارٹی بدل کلچر
فضل حسین اعوان
آج عمران خان کی سیاست کے ستارے کی چمک دمک کے سامنے دیگر سیاسی جماعتوں کے ستارے ماند پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔عمران کی سیاسی مسافت پندرہ سولہ سال تک کچھوے کی رفتار سے رینگتی رہی آج سگِ تازی کی طرح قلانچیں بھرتی برسوں کا سفر دنوں میں طے کر رہی ہے۔مروجہ سیاست کے شہسوار قطار اندر قطار ان کی پارٹی میںشامل ہورہے ہیں۔ وہ بھی جن کا بڑا نام ہے۔وہ بھی جن کا نام بدنام ہے۔ عمران کے دروازے سب پر کھلے ہیں۔ بلاشبہ گُڈ اور بیڈ گورننس کا انحصار اعلیٰ قیادت پر ہے جب اوپر صالح قیادت ہوگی تو نیچے تک کرپشن کے دروازے بڑی حد تک بند ہوجائیں گے۔ کرپٹ اور لوٹ مار میں شہرت رکھنے والے تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں تو جہاں سیاسی حریفوں کو انگلی اٹھانے اور تنقید کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہیں بعض غیر جانبدار سیاسی و غیر سیاسی حلقے بھی اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ عمران کا استدلال ہے کفار اور مشرکین اسلام قبول کرنے کے بعد راہِ راست پر آگئے تھے.... اچھی بات اور خوش کند امید ہے کہ کرپٹ سیاست دان عمران کے دامن سے وابستہ ہوکر اقتدار میں آئیں گے تو پکے مسلمان بن چکے ہوں گے۔ عمران خان کے دامن سے لپٹنے والوں کو لوٹے کا طعنہ بھی دیا جاتا اور مرغِ بادنما کہاجاتا ہے جو عمران خان کی مقبولیت دیکھ کر پارٹی بدل رہے ہیں۔ اس اعتراض کا توڑ عمران نے اس استدلالِ باکمال سے کیا کہ قائداعظم بھی پارٹیاں بدلتے رہے ۔یہ کوئی جرم نہیں، ایسی بات کوئی روایتی سیاستدان یا جعلی ڈگری ہولڈر پارلیمنٹرین کرتا تو اس کا قومی سطح پر شاید سخت نوٹس نہ لیاجاتا یہ بات چونکہ پاپولریٹی کی معراج کو چھونے جارہے لیڈر نے کی ،اس لئے اس پر اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ شدید مذمت بھی کی جارہی ہے ۔
عمران کی سیاست کرکٹ کی مثالوں سے شروع ہوکر کرکٹ کی مثالوں پر ختم ہوتی ہے۔ کرکٹ ہی ان کی زندگی حاصل ہے۔انہوں نے تاریخ پڑھی ہوتی تو ایسی بات کبھی نہ کرتے۔بہت سے دیگر بھی اپنے جواز بلا جواز کو درست ثابت کرنے کیلئے تاریخ سے کمزور دلائل پر تکیہ کرتے ہیں۔بعض تو تاریخ کو مسخ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جب عوامی نمائندوں کی جعلی ڈگریوں کا معاملہ چل رہا تو صدر زرداری صاحب نے فرمایا کہ قائداعظم بھی گریجوایٹ نہیں تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ قائداعظم بیرسٹر تھے۔ گریجوایٹ نہیں تھے۔یہ ایسے ہی جیسے کہہ دیاجائے کہ وزیراعظم گیلانی نے ماسٹرز کیا ہے وہ گریجوایٹ نہیں ہیں۔
عمران خان قوم کو بتائیں کہ قائداعظم نے کتنی پارٹیاں بدلیں۔ وہ بیک وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن تھے۔ انہوں نے کانگریس کو خیر باد کہا اور ہمیشہ کیلئے مسلم لیگ کے ہوگئے اور پھر بانی پاکستان بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ آج ثابت یہ کیاجارہا ہے کہ باقی سب کاموں میں قائداعظم کے پیروکار ہیں ایک پارٹی تبدیل کرنے کا کام رہ گیا وہ بھی ان کی پیروی میں انجام دیاجارہا ہے۔ کہاں قائداعظم،کہاں یہ مفادپرست ہو ا کا رُخ دیکھ کر پارٹی پہ پارٹی بدلنے والے سیاست دان! چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ مکے لہرا کر، چیخ چنگاڑ کر چڑیل کو پری ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ سبحان اللہ کیا استدلال ہے! کیا قائداعظم اسی طرح پارٹیاں بدلتے تھے جس طرح آج کے مداری اور بازی گر سیاستدان بدلتے ہیں۔آج تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں شمولیت کی وبا کی طرح ہوا چلی ہے۔ایک دوکی پارٹی بدل ترتیب ملاحظہ فرمائیے۔پیپلزپارٹی سے ن لیگ۔ن لیگ سے ق اور اب تحریک انصاف۔ پیپلز پارٹی سے ملت پارٹی، ملت سے ق اور اب تحریک انصاف۔ایسے تو بے شمار ہیں جو ن سے ق میں گئے۔گنگااشنان کیا اور اب پھر بہتی گنگا میںہاتھ دھونے کی خواہشوں کے چراغ جلائے نواز شریف کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں۔اصولوں کی خاطر پارٹی بدل لینے میں شاید حرج نہ ہو لیکن اس اقدام کو درست ثابت کرنے کو قائد کی پیروی باور کرانا تاریخ مسخ کرنے کے مصداق ہے۔
عمران خان نے تو تاریخ سے لاعلمی کی بنیاد پر کہہ دیا کہ قائداعظم بھی پارٹیاں بدلتے رہے لیکن یہاںایک بے غیرت برگیڈ کے نام ایک طبقہ موجود ہے اپنے لئے بے غیرت برگیڈ کا نام اس طبقے نے خود چُنا ہے اس کا سرغنہ نظریہ پاکستان کی بڑی ڈھٹائی سے مخالفت کرتا ہے۔ وہ نظریہ پاکستان کو یحییٰ دور کی پیداوار قرار دیتا ہے۔اس کے شتونگڑے بھی نظریہ پاکستان اور بانی پاکستان پراتہام سے گریز نہیں کرتے بعض تو دشنام تک بھی چلے جاتے ہیں۔یہ قائد کو سیکولر اور اسلامی اقدار سے نابلد قرار دیتے ہیں۔ ایک نے تو گزشتہ دنوں قائد کے اُردو کو قومی زبان قرار دینے کوحماقت قرار دیا۔ وہ نہرو کو قائدسے بڑا جمہوری لیڈر کہتے ہیں۔اس65 سالہ خبطی کے ریمارکس پر علامہ ملک خادم حسین رضوی کا فون آیا وہ کہتے ہیں کہ ایسے دانشوروں کو گریبان سے پکڑ کر بھارتی سرحد پر کھڑا کرکے اُدھر دھکا دیدیاجائے۔ان صاحب نے ہی صوبہ سرحد حکومت کے خاتمے کے قائداعظم کے اقدام کو آمرانہ قرار دیا ہے۔ نوجوان نسل کے سامنے ایسی باتیں آتی ہیں تو نوجوان اپنے قائد کے کردار کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتے ۔ بڑے بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ذہن کو خبث باطن رکھنے والوں کے بے ہودہ خیالات سے متاثر ہونے سے بچانے کیلئے جس اقدام کو موصوف نے آمرانہ قرار دیا وہ عین جمہوری تھا جسے واضح کرنے کیلئے آج کے دور میں تاریخ پاکستانی پر اتھارٹی مانے جانے والے ڈاکٹرصفدر محمود صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس سارے شکوک وشہبات دور کردیتا ہے۔ البتہ میں نہ مانوں کی رٹ لگانیوالوں کے ذہن صرف قدرت ہی بدل سکتی ہے۔
” یہ ان دانشوروں کیلئے آمرانہ اقدام ہی ہے جو نہ اس فیصلے کے پس منظر اور سیاسی جواز سے آگاہی رکھتے ہیں نہ ہی قائد اعظم کی شخصیت کو سمجھتے ہیں جو سرتا پا آئین اور قانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔آمرانہ اقدام وہ ہوتا ہے جو آئین اور قانون سے ماوراءہو جبکہ صوبائی حکومت کا خاتمہ اس وقت کے آئین کے تحت گورنر جنرل کا اختیار تھا۔رہا سوال یہ کہ سرحد کی حکومت کے خاتمے کا جواز کیا تھا؟ صوبہ سرحد کی یہ اسمبلی 50ممبران پر مشتمل تھی۔1946ءکے انتخابات کے بعد30اراکین کی حمایت سے ڈاکٹر خان صاحب نے حکومت بنائی۔ عبدالغفار خان اور ان کے بھائی اور خاندان کٹر کانگریسی تھے۔انہوں نے ڈٹ کر مسلم لیگ اور قیام پاکستان کی مخالفت کی۔1947ءمیں صوبہ سرحد کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے ریفرنڈم کروایا گیا۔اکثریتی عوام نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے جو کہ دراصل مسلم لیگ کے حق میں ووٹ تھے۔ خود ابوالکلام آزاد ”انڈیا ونز فریڈم“ میں تسلیم کرتے ہیں کہ 1946ءکے انتخابات کے بعد صوبہ سرحد میں خان برادران کی سیاسی ساکھ اور مقبولیت تیزی سے تنزل پذیر ہوئی تھی جن 30ممبران کی خان حکومت کو حمایت حاصل تھی ان میں 12ممبران کا تعلق مذہبی اقلیت سے تھا کیونکہ صوبہ سرحد میں اگرچہ غیر مسلمان چھ فیصد تھے لیکن انہیں اسمبلی میں 24فیصد نمائندگی دی گئی تھی۔ باقی بارہ ممبران میں سے دو کا تعلق جمعیت علمائے ہند سے تھا۔خان برادران کی کانگریس نے 38 مسلمان نشستوں میں سے صرف 16 نشستیں جیتی تھیں۔
ریفرنڈم کے بعد سرحد میں کانگریسی حکومت کا اخلاقی و سیاسی جواز ختم ہوچکا تھا چنانچہ مسلم لیگ نے قیام پاکستان سے قبل ہی وائسرائے سے خان حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔وائسرائے کا کہنا تھا کہ انہیں اسمبلی میں اکثریت حمایت حاصل ہے۔پاکستان بنا تو ڈاکٹر خان صاحب کانگریسی وزارت نے پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیا۔یہ تھی ان کی پاکستان سے محبت اور وفاداری؟ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے کوئی تادیبی کارروائی نہ کی۔اسی دوران گیارہ اقلیتی اراکین اسمبلی ہندوستان ہجرت کرگئے جس سے خان صاحب کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔ جمعیت علمائے ہند کے دو اراکین اور دوسرے دو کانگریسی اراکین اسمبلی(میاں جعفر شاہ اور فقیراخان) پہلے ہی خان حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوچکے تھے۔ان حالات میں جبکہ صوبہ سرحد کی کانگریسی حکومت اکثریت کی حمایت سے محروم ہوچکی تھی اور اس کی نوزائیدہ مملکت سے وفاداری بھی مشکوک تھی تو اس کی بقاءکا کون سا جواز باقی رہ گیا تھا؟ ظاہر ہے کہ قائداعظم کے اس اقدام کو وہی لوگ آمرانہ قرار دیں گے جو قائداعظم کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ بد قسمتی سے سیکولر اور دین بیزار عناصر نے قائداعظم اور پاکستا ن کی نظریاتی بنیاد کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے۔مارچ1948ءمیں ڈھاکہ کے جلسہ عام میں قائداعظم نے ایسے ہی عناصر کے خلاف قوم کو ہوشیار کیا تھا جوبیرونی امداد لیکر قوم کی صفوں میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔قائداعظم نے 64 برس قبل ان کیلئے ففتھ کالمسٹ اور کمیونسٹ کے الفاظ استعمال کئے تھے جبکہ کچھ عرصے سے انہوں نے سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔“
No comments:
Post a Comment