About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, July 30, 2011

مادرِ ملت ....قائداعظم ثانی


30-7-11



فضل حسین اعوان
برصغیر کے مسلمانوں کو حصول
 پاکستان کی صورت میں منزل مقصود پر پہنچا کر قائداعظم دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہوں کو روشن کر گئے۔ خدا نے چند سال زندگی میں مہلت دی ہوتی تو بلاشبہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر دیتے۔ قائداعظم نے ہمارے لئے عظیم وطن کا انتظام کر دیا ہم اسے چلانے کا اہتمام نہ کر سکے۔ فادر آف نیشن کی ترقی اور خوشحالی کے راستوں کو روشن کرنیوالی شمعیں بجھا کر خود کو تاریکیوں میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا۔ قائداعظم نے ہمیں ترقی و خوشحالی کی جس شاہراہ پر رخت سفر دے کر گامزن کیا تھا ہم اس پر دوگام آگے بڑھتے ہیں تو چار قدم پیچھے بھی چلے جاتے ہیں۔ قائداعظم کے بعد سیاسی مینارہ نور، نقشِ قائد محترمہ فاطمہ جناح موجود تھیں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ خصوصی طور پر تحریک آزادی میں قائداعظم کی رفاقت اور قیادت میں گزرا۔ سیاسی حوالے سے اگر کسی کو قائداعظم ثانی قرار دیا جا سکتا ہے تو بلاشبہ وہ مادرِ ملت ہی تھیں۔ قائد کی رحلت کے بعد کچھ سیاستدانوں نے اپنے مفادات کو لامحدود کرنے کی خاطر مادرِ ملت کی سیاسی راہیں مسدود کر دیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اعمال افعال اور اقوال سے خود کو قائداعظم کا صحیح جاں نشیں ثابت کر دیتے.... تو شاید قوم کو رہنمائی کےلئے مادرِ ملت کی طرف نہ دیکھنا پڑتا۔ لیکن یہاں تو مقصد ہی مادر ملت کی اہلیت کو دبانا‘ اپنی نااہلیت کو چھپانا اور اپنے کوتاہ قد کو بڑھانا تھا۔ تاہم پانی سر سے اونچا ہوا۔ ایوب کی آمریت بادشاہت میں بدلتی محسوس ہوئی تو قوم کو محترمہ یاد آ گئیں۔ قومی لیڈر شپ نے رہنمائی کی درخواست کی۔ محترمہ نے پیرانہ سالی کے باوجود قائد کے پاکستان کو بچانے کے لئے گھر آئے رہنماﺅں کی ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی خواہش کو پذیرائی بخشی لیکن آمریت کے جاہ و جلال نے انسانیت اور جمہوریت کی اقدار کو پامال کر کے رکھ دیا۔ بے ضمیر حکمرانوں کو اپنے جیسے بی ڈی ممبر مل گئے۔ انہوں نے ایوب سے کیا حاصل کر لیا۔ دھن اور دولت ایوب خان نے نچھاور کئے۔ شہرتِ بولہبی بھی ملی۔ ذلتوں اور چھتروں کے ہار عوام نے پہنا دئیے۔ وہ دھن دولت کس کام آیا اور کس کے کام آیا؟ محترمہ کو ہرا کر ایوب اور اس کے گماشتوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد کو مزید مضبوط کر دیا۔ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھنے والوں، اسے مضبوط بنانے اور علیحدگی میں براہ راست کردار ادا کرنیوالوں کی قبروں کے گرد گدھے گھومتے کتے بھونکتے اور پیشاب کرتے ہیں۔ قائد سے خونی رشتہ کے باعث محترمہ کا ہر پاکستانی کے دل میں احترام، پھر قائد کی تربیت اور خود مادرِ ملت کی اپنی اہلیت و صلاحیت‘ اس پر مستزاد ان کی سحر انگیز شخصیت، الیکشن میں بے ایمانی نہ ہوتی تو یقیناً فاطمہ جناح صدر پاکستان بن جاتیں ایسا ہوتا تو علیحدگی کی تحریک چلتی نہ جنگ ہوتی اور نہ ہی پاکستان دولخت ہوتا۔ ہم اتنا آگے نہیں آئے کہ ایڑھیاں اٹھا کر پیچھے دیکھیں ہمیں قائد ترقی و خوشحالی کی جس شاہراہ پر چھوڑ گئے تھے وہیں کھڑے ہیں۔ بالکل وہیں۔ مادرٍ ملت نے 25 دسمبر 1956ءکو قائداعظم کے یوم ولادت پر اپنی نشری تقریر میں جو کچھ کہا وہ موجودہ حالات پر منطبق اور ہمارے وہیں بھٹکنے کی نشاندہی کرتا ہے جہاں ہمیں قائداعظم نے آگے بڑھنے کو کہا تھا۔ مادر ملت نے فرمایا تھا:”آج دس سال بعد ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم عوامی امنگوں کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ پاکستان چند جاہ پسند افراد کی شکارگاہ بننے کیلئے قائم نہیں ہوا تھا جہاں وہ لاکھوں افراد کے آنسوﺅں، پسینے اور خون پر پل کر موٹے ہوتے رہیں۔ پاکستان سماجی انصاف، مساوات، اخوت، اجتماعی بھلائی، امن اور مسرت کے حصول کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ آج ہمیں اس نصب العین سے دور پھینک دیا گیا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ چھپا ہوا ہاتھ کس کا ہے جس نے پبلک کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے ذاتی مفادات اور اقتدار کے لئے سازشیں اور مول تول کے رجحانات بڑھ رہے ہیں“۔

Friday, July 29, 2011

انصاف کو انصاف کی تلاش

جمعۃالمبارک ، 29 جولائی  2011


انصاف کو انصاف کی تلاش

فضل حسین اعوان 
جس کی جتنی سوچ اور اپروچ ہے وہ اس سے کام لے اور اسے بروئے کار لا رہا ہے۔ کسی کو اپنے طاقتور ہونے کا زعم، کسی کو بااختیار ہونے کا وہم۔ کسی کو اپنی باری کے تیزی سے اختتام کی طرف بڑھنے کا غم تو کوئی اپنی باری کے لئے بے دم۔ عام آدمی کس حال میں ہے مصائب نے اس کا سر جھکا رکھا ہے یا مسائل نے الٹا لٹکا رکھا ہے اس کی پروا حکمرانوں، سیاستدانوں ججوں اور جرنیلوں سمیت کسی کو نہیں۔ انصاف اُٹھ جائے تو قومیں اور معاشرے تاریکیوں اور بند گلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں۔ آج ہر کوئی مرضی کا انصاف کر رہا ہے اور ہر کوئی مرضی کا انصاف چاہتا ہے۔ عدلیہ، سیاستدانوں اور حکمرانوں نے انصاف کو مرضی کے معانی اور مفہوم کا لبادہ اوڑھا دیا ہے۔ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑتا دیکھ کر اکثر حکومت وقت کو دشنام دیتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں جو عدلیہ کو جانبداری کا الزام دیتے ہیں۔ پھر ہر طبقہ اپنے موقف کو مبنی برحق قرار دیکر اس سے اتفاق نہ کرنے والوں کو مطعون کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ آج عدلیہ حکومت محاذ آرائی عروج پر ہے۔ کچھ اہل الرائے یہ بھی کہتے ہیں کہ متعدد مقدمات سالوں سے التوا میں ہیں حکومت سے متعلقہ متعدد کیس برق رفتاری سے نمٹائے جا رہے ہیں۔ اِدھر کیس آیا، سماعت ہوئی اُدھر فیصلہ سرِ میدان آ گیا۔ حکومت عدلیہ محاذ آرائی میں حکومت کی طرف سے معاملات لٹکانے عدلیہ کی طرف سے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا رویہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ کئی چھوٹے موٹے اور اعلیٰ افسر اس محاذ آرائی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کسی کو عدلیہ نے بھگایا کسی کو حکومت نے مار مکایا۔ ایک فریق کے منظورِ نظر کو دوسرے نے مطعونِ خلائق بنا دیا۔ یہ سوچے بغیر کہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ، اس کے کچھ حقوق اور عزت و احترام بھی ہے۔ قصور جس کا بھی ہے آج انصاف دربدر ہے۔ انصاف کو انصاف کی تلاش ہے۔ بلاشبہ حکومت بدمعاشی کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں بیٹھے لوگوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ و تہذیب یافتہ ہونا بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ پھر یہ کہا ”سیدھا کر دیں گے۔ ہتھکڑیاں لگا دو، نمٹ لیں گے“۔ اس پر وزیراعظم بھی جامہ میں نہیں رہتے فرماتے ہیں میں نوکری پیشہ نہیں ہوں۔ اتھارٹی میں مداخلت ہو رہی ہے۔ اس پر وزیراعظم کے ساتھی تو اپنے باس کی لے اور لہجے میں ہی بات کریں گے۔ کہا جاتا ہے حج کرپشن کیس میں وزیراعظم کے صاحبزادے کا نام آیا تو تفتیشی ڈائریکٹر ایف آئی اے حسین اصغر سے تفتیش واپس لے کر انہیں آئی جی گلگت بلتستان لگا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے 6 رکنی بنچ نے حسین اصغر کے دوبارہ ایف آئی اے میں تبادلے کا حکم دیا۔ حکومت انکاری رہی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سہیل احمد کو تبادلے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا قانونی طور پر ان کے پاس ایسا کرنیکا اختیار نہیں۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں 20 گریڈ کے افسر کے تبادلہ کا اختیار ان کے پاس ہے۔ وزیراعلیٰ مہدی شاہ کا کہنا ہے کہ ان یا گورنر کے مشورے کے بغیر آئی جی کا تبادلہ نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ نے سہیل احمد کی سرزنش کی۔ تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری کرنیکا سختی سے حکم دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا قانونی غیر قانونی نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اُدھر بارہ بجے نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ اِدھر وزیراعظم ہاﺅس میں ”بارہ بج“ گئے اور ساتھ ہی حکومت نے سہیل احمد کے بھی بارہ بجا دئیے۔ سپریم کورٹ کا حکم مانا تو او ایس ڈی بننا پڑا۔ وزیراعظم کا مانتے تو شاید عدالت میں ہتھکڑی لگ جاتی۔ سہیل صاحب جس اقدام کو غیر قانونی قرار دے رہے تھے وہ قانونی محض ہتھکڑی کی جھنکار اور برطرفی کی لٹکتی تلوار دیکھ کر قانونی ہو گیا! کچھ جرنلسٹ، سابق جج اور جرنیل سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کے لئے فوج کو بلانے کی راہ دکھا رہے ہیں۔ کیا معاملات واقعی اس انتہا تک پہنچ گئے ہیں کہ سپریم کورٹ فوج کو طلب کرے۔ فوج کیا کرے گی؟ حکومت کو کہے گی سوئس حکومت کو خط لکھ دے۔ ظفر قریشی کے حوالے این آئی سی ایل کیس کی تفتیش کر دے گی۔ حسین اصغر کو بلتستان سے اٹھا کر ایف آئی اے میں بٹھا دے گی۔ بس اس کام کے لئے فوج کو طلب کیا جائے؟ محب وطن لوگوں کی خواہش ہے کوئی بھی بڑا ذمہ دار خود کو عقل کل اور دوسرے ادارے یا اداروں کو مطیع نہ سمجھے۔ معاملات عین آئین اور قانون کے مطابق چلائے جائیں۔ ایسی سوچ سے پیچھا چھڑا کر بااثر اور بااختیار افراد حکومت کو عدلیہ کے تمام تر فیصلے ماننے اور ان کی روح کے مطابق ان پر عمل کرنے کے لئے آمادہ اور مجبور کریں۔


Thursday, July 28, 2011

بنت ِغدار

 جمعرات ، 28 جولائی ، 2011


بنت ِغدار
فضل حسین اعوان ـ 
بھارت نے اپنی سازشوں، غداروں سے مدد اور پاکستان کی سیاسی اور جرنیلی قیادت کی نا اہلی اور نالائقی سے زیادہ ان کی بے غیرتی سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دولخت کردیا۔دشمن کا تو کام ہی دکھتی رَگ پر پاﺅں رکھنا اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کا بھی دشمن ہے اس سے جو بن پڑا سو کیا اور اب بھی وہ پاکستان کو ڈسنے سے باز نہیں آرہا۔ اس کی دہشت گردی کے شواہد کبھی فاٹا میں ملتے ہیں اور کبھی بلوچستان اور کراچی میں۔ پاکستان کو تباہی سے دوچار کرنے میں کوشاں را کے ایجنٹ نہ صرف کارروائیوں کے دوران مردہ پائے گئے بلکہ کشمیر سنگھ اور سخت سربجیت سنگھ جیسے دہشتگرد زندہ بھی پکڑے گئے۔ افسوس کہ پاکستان کو دو لخت کرنے والوں کے خلاف کبھی ہمارے حکمرانوںکا ضمیر جاگا نہ انتقامی جذبات بھڑکے۔ انافنا فی النار ہوکر رہ گئی۔مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرینوالے طرفین کے مٹھی بھر مفاد پرست عناصر تھے۔ پاکستان کلمہ لا اِلہ الا اللہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ علیٰحدگی کے بعد دونوں میں سے کسی حصے کے لوگوں کا کلمہ بدلا‘ قرآن اور دین و ایمان بدلا؟ پھر خون سفید کیوںہوا؟ یہ کام بد کرداروں اور غداروں نے کیا۔ ملک قوم اور ملت کے غداروں نے۔ ہندو کے دئیے ہوئے زخم کو چالیس سال بیت گئے۔ اب تک یہ زخم مندمل ہو جانا چاہئے تھا لیکن ہندو بنیا اسے بھرنے نہیں دیتا اس نے اپنے اشاروں پر ناچنے والوں کے ہاتھوں میں نشتر اور خنجر تھما رکھے ہیں وہ زخم کو کریدتے رہتے ہیںاس لئے یہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس کا درد ہر پاکستانی خواہ وہ آج کے مغربی پاکستان میں ہویا کل کے مشرقی پاکستانی میں دل و جان پر شدت سے محسوس کرتا ہے۔ کل بنتِ غدار حسینہ واجد نے پاکستانیوں کے نہ صرف ایک بار پھر زخم ہرے کر دئیے بلکہ ان پر نمک پاشی بھی کی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے کرداروں اور ذمہ داروں میں ایک اندرا گاندھی بھی ہے اس کی پاکستان کو توڑنے کی خدمات کے صلے میں مجیب کی بیٹی نے دلدوز سانحہ کے 40 اور اندرا گاندھی کے عبرت نشاں قتل کے 27سال بعد اسے بنگلہ دیش کے سب سے بڑے ایوارڈ ”تمغہ آزادی “سے نوازا۔ بنگا بندھو سٹیڈیم میں ایک ہزار رو سیاہوں کی حاضری اور حسینہ واجد کی موجودگی میں صدر ظل الرحمن نے یہ ایوارڈ اندرا گاندھی کی رنڈوی بہو سونیا گاندھی کو دیا۔ سونیا کو دی جانیوالی شیلڈ 4سو سال پرانے درخت قدم ٹری کی لکڑی کے فریم سے بنائی گئی ہے جس میں غریب قوم کے خون پسینے کی کمائی کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کا تین کلو گرام سونا جڑا گیا ہے۔ اس تقریب میں اندرا گاندھی کی تعریفوں کے تو پل باندھے ہی جانے تھے حسینہ واجد نے جس طرح اپنے اندر کی غیرت مسلم کا جنازہ نکالا اورحقائق کو مسخ کیا وہ قابلِ مذمت قابلِ نفرت اور حیران کن بھی ہے۔حسینہ واجد نے پاک فوج کے ہاتھوں واصلِ جہنم ہونے والے ہندو دہشتگردوں کو شہید قرا ر دیا اور حقائق کو مسخ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں 30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام اور دو لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔حسینہ واجد اپنے باپ کی طرح جھوٹ کا طوفان اٹھا رہی ہے۔ تاریخ کا تمسخر اڑا رہی ہے اور دنیا کو غلط اعدادو شمار بتا رہی ہے۔ عصمت دری کے اس سطح کے دعوے بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ قتل اور بے حرمتی کے اس وسیع پیمانے پر واقعات کو کسی فورم پر ثابت کیا گیا نہ ایسا ممکن ہے۔ حسینہ واجد اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسی لغویات کا ڈھنڈورا اپنے ہندو آقاﺅں کے ایما پر بنگالیوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بڑھانے کیلئے پیٹ رہی ہیں اور یہ شاید ان بنگلہ دیشیوں کو جواب بھی‘ جنہوں نے پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش کو سیکولر کی بجائے اسلامی ملک قرار دیا ہے بہرحال اس کا پاکستان کی طرف سے قومی سطح پر توڑ ہونا چاہئے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان مفاد پرستوں اور دشمنوں کی طرف سے کھڑی کی گئی نفرت کی دیواریں اتنے عرصہ بعد گر جانی چاہئیں تھیں، دیوارِ برلن کی طرح۔ لیکن ان کو دشمن تو مزید اونچا کرنے کی کوشش کریگا ہی جس میں حسینہ مجیب جیسے غدارانِ ملت دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ نفرت کی دیواریں گرانے کیلئے شاید ضروری ہے کہ غدارانِ ملت کو اُسی طرح اٹھا دیاجائے جس طرح اپنی ہی فوج نے مجیب اور اپنے ہی محافظوں نے اندرا گاندھی کو اٹھادیا تھا۔ اب دو بچھڑے بھائی گلے مل جانے چاہئیں۔ نفرت کی دیواریں گر جانی چاہئیں اس کیلئے خواہ دشمنانِ قوم و ملت کو اٹھانا پڑے یا کوئی طوفان اٹھانا پڑے۔

Wednesday, July 27, 2011

تجربہ کار ۔ سفارت کار و سیاست کار

 بدھ ، 27 جولائی ، 2011


تجربہ کار ۔ سفارت کار و سیاست کار
فضل حسین اعوان
قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ قائد کے بعد آنے والے سیاستدانوں نے پاکستان کو اپنی اپنی سیاست کی تجربہ گاہ بنا لیا اور خود اس زعم میں مبتلا ہو گئے کہ ہم بڑے تیس مار خان قسم کے تجربہ کار ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چلن بھی رہا کہ تجربہ کار سیاستدانوں نے مہم جو‘ طالع آزما اور جبراً بنے فرمانروا کی خوشامد کے مکھن سے بوٹ چمکائے تو وہ بھی خود کو سیاست کے میدان کا دھنی اور خود کو کسی بھی سیاستدان سے بڑھ کر تجربہ کار سیاستدان سمجھنے لگا۔ آمروں‘ جمہوریت کے پرستاروں اور سیاسی تجربہ کاروں نے ملک دو لخت کر دیا۔ سیاچن بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ مسئلہ کشمیر ان کے تجربوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ حیدر آباد دکن ماناوادر اور جونا گڑھ کو ہمارے سیاستدانوں کا سیاسی اور سفارتی تجربہ نہ بچا سکا۔ دفاعی تجربہ کار مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر نہ رکھ سکے۔ معین قریشی اور شوکت عزیز اقتصادیات میں تجربہ رکھتے تھے دونوں بالآخر اپنے اپنے دور میں پاکستان کی معیشت ڈبو کر چلے گئے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سفارتکار اور تجربہ کار وزیر خارجہ آئے ان کی کارکردگی سوائے بیگ کے ساتھ منہ اٹھا کر بیرون ممالک جانے کے اور کچھ اور کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ تنازع کشمیر ہماری بقا اور انا کا معاملہ و مسئلہ ہے۔ وہ 63 سال قبل جہاں تھا آج بھی وہیں ہے۔ کشمیر کمیٹیاں بنتی ٹوٹتی ہے۔ آتی جاتی‘ گاڑیاں جھولتی‘ مراعات کھاتی دورے فرماتی رہیں اصل کام مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا مظلوم اور مقہور کشمیریوں کے ذمے ہی رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی خاطر ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کیا تھا ان کے جاں نشیں کشمیر پر جنگ کے بجائے اسے اقتدار کے لئے جنگ سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ 
شاہ محمود قریشی کو جرات اظہار کی سزا ملی یا بی بی ہلیری سے پیار کی۔ سر سے سر جوڑنے کی (ہلیری سے ملاقاتیں بڑھیں تو قریشی صاحب نے اپنا ہیئر سٹائل بل کلنٹن جیسا بنا لیا۔ وہ وزارت سے گئے لیکن ان کا ہیئر سٹائل اور ہیئر کلر آج بھی بل کلنٹن جیسا ہے) 11 فروری 2011ءکو وزیراعظم گیلانی نے نئی کابینہ بنائی تو قریشی صاحب کو کابینہ سے باہر اور وزارت خارجہ کا قلمدان خالی رکھا گیا۔ حنا ربانی کھر کو امور خارجہ کی وزیر مملکت یعنی آدھی یا نائب وزیر بنایا گیا۔ اس قلمدان پر خود کو تجربہ کار‘ سیاستکار اور سفارتکار سمجھنے والوں کی نظر تھی۔ 19 جولائی کو حنا ربانی مکمل وزیر خارجہ بنا دی گئیں تو وزارت خارجہ کے بڑے امیدوار سردار آصف احمد علی کف افسوس ملتے اور ان کے احساسات خیالات غصے میں ڈھلتے نظر آئے۔ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کشمیر کمیٹی بے بال و پر ہو چکی ہے۔ حضرت کی بھی شاید وزارت خارجہ پر نظر تھی۔ حنا ربانی کو یہ قلم سونپا گیا تو دل کی بات زباں لے آئے۔ حضرت مولانا نے فرمایا ”حنا ربانی کو وزیر خارجہ بنائے جانے کو دانشمندانہ فیصلہ ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حنا ربانی تو ”دو جمع دو“ کے معاملات پر عبور رکھتی ہیں ان کا سیاست اور سفارت میں کوئی اہم یا قابل ذکر پس منظر یا تجربہ نہیں ہے۔ سردار آصف احمد علی کا فرمان بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ”وزیراعظم گیلانی نے مجھے وزیر خارجہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ان قوتوں کے بارے میں علم نہیں ہے جنہوں نے ناتجربہ کار اور خاتون کو وزیر خارجہ بنوایا۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ مذاکرات اور اسے سفارتی سطح پر شکست دینے کے لئے سینئر اور تجربہ کار وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ سفارتکاری کے گر سیکھنے کیلئے وقت لگتا ہے‘ سفارتکاری کے لئے مہارت کی ضررت ہے‘ حنا ربانی کھر ایک ناتجربہ کار وزیر خارجہ ہیں۔ پارٹی کے پاس ایسے لوگ موجود تھے جو اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔“ 
خارجہ اور سفارت کاری کے میدان میں کسی کی اہلیت و صلاحیت اور اس کے اندر کے گوہر و جوہر اور تجربہ جانچنے کا ہمارے پاس ایک ہی پیمانہ مسئلہ کشمیر ہے۔ سردار صاحب 1991ءسے 1993ءمحترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے آغاز سے انجام تک وزیر خارجہ رہے۔ ان کے دور میں مسئلہ کشمیر پر کیا پیشرفت ہوئی؟ حضرت مولانا ساڑھے تین سال سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں وہ پاکستان اور بیرون ممالک جاکر بہت کچھ کرتے اور کہتے ہیں سوائے کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کے۔ دونوں حضرات تجربہ کہاں سے لے کر آئے؟ کیا یہ سیاستکاری اور سفارتکاری کے میدان میں اترنے سے قبل بھی تجربہ کار تھے؟ حنا ربانی کھر کی ہلیری کلنٹن سے ملاقات پاکستان کے نقطہ نظر سے بہتر رہی۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کبھی ثمر بار نہیں رہے۔ حنا کیا کرتی ہیں۔ اس کا انتظار کرنا چاہئے۔ حضرت مولانا اور سردار صاحب تجربہ کار بزرگ ہیں۔ اپنی خواہشات کو ہاتھی بنا کر ان پر سواری کے بجائے قوم اور ملک و ملت کے لئے دعا کریں۔ حنا ربانی مسئلہ کشمیر پر قومی موقف کو لے کر آگے بڑھیں تجربہ کاروں کے تجربات سے استفادہ کی ضرورت ہے نہ مشوروں کی انہوں نے جو کرنا تھا موقع ملنے پر کر دکھایا۔ خدا کرے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی سیاست اور سفارت کے میدان کے ”تجربہ کاروں“ سے جان چھوٹ جائے۔ جو مشرقی پاکستان بچا سکے اور نہ کشمیر آزاد کرا سکے بلکہ اگر کچھ کر سکے تو لوٹ مار‘ کرپشن‘ لاقانونیت اور وطن فروشی میں ہی نام ہی پیدا کر سکے۔

Tuesday, July 26, 2011

وسائل ... مسائل کا حل

منگل ، 26 جولائی ، 2011

وسائل مسائل کا حل!
فضل حسین اعوان
77 لاکھ کی آبادی کا چھوٹا سا ملک سوئٹزرلینڈ دنیا کے چند امیر ترین، ترقی یافتہ اور خوشحال ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی زمینیں سونا اگلتی ہیں نہ پہاڑوں کے دامن معدنیات سے پُر ہیں۔ قدرتی وسائل سے تہی ملک کے لوگوں نے اپنی محنت، فہم و فراست اور عزم و ارادے سے سوئٹزرلینڈ کو خوبصورت و خوب تر بنا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ سوئٹزرلینڈ کے اردگرد فرانس، اٹلی، جرمنی اور آسٹریا ہیں۔ یہ چاروں ممالک پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کا مرکز و محور رہے۔ لیکن سوئٹزرلینڈ جنگ سے محفوظ رہا۔ وجہ یہ رہی کہ جنگ لڑنے والے ممالک کا سرمایہ جہاں محفوظ تھا۔ جہد مسلسل اور عمل پیہم سے پہاڑوں اور دشت و بیابانوں کو سبزہ زاروں اور گلشن و گلزاروں میں بدل دیا پورے ملک میں ایک انچ جگہ بھی پھولوں پودوں اور سبزے سے خالی نہیں ہے۔ آج سیاحت سوئٹزرلینڈ کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ 
پاکستان وسائل سے بھرپور ملک اور حسین و دلنشیں مواقع کی نشانِ خلدِ بریں سرزمین ہے۔ قدرتی وسائل اپنی جگہ، اس کا محلِ وقوع قدرت کی نُدرت اور فطرت کا عظیم اور حسین شاہکار ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ ان علاقوں کے ممالک چین، افغانستان، ایران اور روس سے آزاد ہونیوالی بہت سی ریاستوں کے دروازے پاکستان میں کھلتے ہیں۔ پاکستان کے اس منفرد محلِ وقوع کے باعث اس کی علاقائی، عالمی، دفاعی، معاشی ثقافتی اور سب سے بڑھ کر تجارتی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چین دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں میں سرفہرست ہے۔ اسے مشرقِِ وسطیٰ اور یورپ کے ساتھ تجارت کے لئے ہانگ کانگ کی بندرگاہ کے ذریعے سمندروں کا طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ شاہراہِ ریشم اور ریلوے ٹریک کے ذریعے گوادر بندرگاہ اور وہاں سے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ممالک تک چین کا سامان ہفتوں کے بجائے چند دن میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ آپکی خوش فہمی ہے بنیا کبھی نہیں کریگا وہ ہمیں فیل سٹیٹ دیکھنا چاہتا ہے خوشحال کامیاب نہیں! روس عرصہ سے گرم پانیوں تک رسائی کا تمنائی ہے۔ روس کے ساتھ ساتھ اس سے آزادی حاصل کرنیوالی مسلم ریاستوں کے لئے گوادر بندرگاہ دنیا کے ساتھ تجارت کے مزید اور آسان در کھول سکتی ہے۔ تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل سے مالامال افغانستان، سنٹرل ایشیئن ریاستیں جغرافیائی طور پر تالہ بندی (Land locked) کی کیفیت میں ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی تھوڑی سی توجہ سے پاکستان ان کے لئے تجارتی و کاروباری جنکشن بن سکتا ہے۔ سونا اگلتی زمین کی طرف ہی توجہ دی جائے تو پاکستان کی معیشت دنیا کی مضبوط معیشتوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے تو پہاڑوں اور ریگزاروں تک کو سبزہ زاروں میں بدل دیا ہمارے ہاں آدھی سے زیادہ اراضی آج بھی بے آباد پڑی ہے جو آباد ہے۔ اس پر کاشتکاری کی لاگت اتنی کر دی گئی ہے کہ زمینیں کفالت کے بجائے چھوٹے کسانوں کو کھانے کو دوڑتی ہیں۔ معدنی وسائل کو استعمال کر کے بھی ہم غربت کو امارت میں بدل سکتے ہیں۔ صرف سونے کے ذخائر سے استفادہ کر لیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ کوئلہ کے ذخائر کی مالیت سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر سے بھی زیادہ ہے۔ پھر تیل گیس لوہا کرومائیٹ، جپسم، نمک، چونے کا پتھر، سنگ سرخ سنگ سبز و مرمر لعل و یاقوت سمیت کیا کچھ دھرتی کے آنگن، سمندروں اور پہاڑوں کے دامن میں موجود نہیں۔ یقیناً ان وسائل سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ثمرات ہر پاکستانی تک نہیں پہنچ رہے۔ جو ان پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں ان کے وارے نیارے۔ ان سے محروم رہنے والے درد کے مارے ہیں۔ ایک طرف وسائل لوٹنے والوں کے بنک تک بھرے ہوئے ہیں دوسری طرف ایک بڑی آبادی پیٹ کا دوزخ بھرنے سے بھی قاصر ہے۔ ایک سوئس بنک ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ سوئس بنکوں میں پاکستانی امراءکے 97 ارب ڈالر جمع ہیں۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے جس سے پاکستان کا تیس سال کے لئے ٹیکس فری بجٹ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے 6 کروڑ پاکستانیوں کے لئے ملازمتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ پانچ سو سال تک پورے ملک میں مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہر پاکستانی کو 60 سال تک 20 ہزار روپے وظیفہ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام تر قرضے آسانی سے اتارے جا سکتے ہیں۔ آج ایک طرف ملک کی بڑی آبادی نانِ جویں کے لئے ترس رہی ہے دوسری طرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کے طرز شاہانہ اور انداز خسروانہ ہیں۔ 
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
کی تصویر بنے لوگ اس پر کڑھتے اور ان کو اپنی لاچارگی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جب ان کے خون پسینے کی کمائی نوٹوں میں بدل کر بڑوں کے اکا ¶نٹس میں بھر جائے گی تو بددعائیں تو نکلیں گی لیکن چونکہ ہمارے اعمال ایک جیسے ہیں اس لئے دعائیں اور بدعائیں شاید راستے میں ہی کہیں بھٹک جاتی ہیں۔ اگر آج بھی لوٹ مار کے دربند ہو جائیں۔ وسائل کا صحیح استعمال ہو، پاکستان کے محل وقوع کا فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان یقیناً راتوں رات بغیر جادو کی چھڑی، الہ دین کے چراغ اور گیڈر سنگھی کے خوشحال ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہمارے تمام تر مسائل کا حل ہمارے وسائل میں ہے۔ صرف کرپشن کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا تو سونے کے پہاڑ بھی قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتے اور صرف یہی نہیں ملک چلانے کے لئے اگلے الیکشن میں ووٹر اچھے پڑھے لکھے ایماندار نمائندے منتخب کریں جو بہت مشکل کام ہے۔


Sunday, July 24, 2011

خط ۔ وارننگ

 اتوار ، 24 جولائی ، 2011

خط ۔ وارننگ
فضل حسین اعوان 
سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی کو لکھے گئے مبینہ خط کا آج کل میڈیا میں پوسٹ مارٹم جاری ہے۔ اس خط سے کسی حلقے کے ارمانوں پر اوس پڑ رہی، امیدیں نومیدی میں بدل رہی ہیں۔ کسی طبقے کی دل میں مچلتی خواہش حقیقت کا روپ دھارتی نظر آرہی ہے۔ جنرل اسلم بیگ لگی لپٹی کے بغیر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا شہرہ رکھتے ہیں وہ نہ صرف جمہوریت پسند بلکہ جمہوریت پرور بھی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں فوج کو تمغہ جمہوریت دیا تھا۔ اس کی وجہ اُس وقت کے فوجی سربراہ کی طرف سے جمہوریت کی بحالی کےلئے بہترین کردار تھا۔ جنرل اسلم بیگ کے پاس جنرل ضیا ¿الحق کے المناک حادثے سے ہمکنار ہونے کے بعد ٹیک اوور کا بہترین موقع اور ان پر زبردست دبا ¶ بھی تھا لیکن انہوں نے اصولی فیصلہ کیا اور جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھا دیا۔ جنرل بیگ جہاں جمہوریت کی بحالی کی کریڈٹ لیتے ہیں وہیں 90 سے 98 تک جمہوریت کے تزلزل اور تنزل میں بھی خود کو کسی حد تک ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس کا اعتراف انہوں نے نوائے وقت میں18جون 2011ءکو شائع ہونے والے کالم ”قوم مضبوط فیصلوں کی منتظر ہے“ میں یوں کیا ہے : 
”مئی 1990ءمیں صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے مجھے ایک فائل ملی جس میں بینظیر حکومت کی چند بڑی خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ میں نے اپنے کور کمانڈروں اور پرنسپل سٹاف افسروں کے ساتھ اس فہرست کا جائزہ لیا اور متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے ایوان صدر کو مشورہ دیا ”آئین کی حدود میں رہتے ہوئے صدر جو مناسب سمجھیں فیصلہ کریں۔“ اس طرح بے نظیر کی حکومت ختم کر دی گئی اور 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لئے نگران حکومت بنا دی گئی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں 1990ءسے 1998ءتک صدارتی مہم جوئی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس فیصلے پر مجھے افسوس ہوا کیونکہ اگر مشورہ کئے بغیر میں خود فیصلہ کرتا تو بہتر فیصلہ کر سکتا تھا۔“ 
جنرل اسلم بیگ کے جنرل کیانی کو لکھے گئے جس خط کا میڈیا میں چرچا ہے اس کے مندرجات کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کے خیال میں اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ایک سابق آرمی چیف نے موجودہ آرمی چیف کو ایسا کوئی خط لکھا ہے۔ اگر لکھا بھی ہے تو اس سے پوہ پھوٹنے کے بعد سورج کی پہلی کرن کے ارض پاک پر ٹکرانے سے قبل سیاست میں کوئی انقلابی تبدیلی کا امکان نہیں۔ جس خط کی بات ہو رہی وہ میڈیا کو جنرل اسلم بیگ نے دیا، جنرل کیانی نے یا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے؟ کسی بھی اخبار میں خط کا مکمل متن شائع نہیں ہوا محض اسلام آباد کے کالم نگار کے کالم کا وہ حصہ شائع ہوا جس میں خط کا تذکرہ تھا۔ قاضی حسین احمد کی دعوت پر ملکی مسائل پر بحث کے لئے چند عمائدین سیاست و دفاع اکٹھے ہوئے کالم نگار نے لکھا ہے کہ ”جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا کہ وہ بذریعہ خط مسلح افواج کی قیادت کو باور کرا رہے ہیں“ جنرل بیگ نے جنرل کیانی کو خط لکھا یا نہیں لکھا اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ جو کہنا چاہتے تھے وہ جنرل کیانی تک میڈیا کے ذریعے پہنچ گیا۔ آگے چلنے سے قبل ملاحظہ فرمائیے جنرل اسلم بیگ نے بات کیا کی جسے خط کا نام دیا گیا ہے : 
”فوج مزید انتظار کئے بغیر اصلاح احوال کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کردار کا مطلب ہرگز مارشل لا کا نفاذ نہیں لیکن اس وقت اگر فوج نے حالات کو سنبھالا دینے کے لئے کوئی مثبت پیش قدمی نہ کی اور معاملات کو جوں کا توں چھوڑ دیا تو وہ موڑ جلد آنے والا ہے جب فوج کو وہ کردار ادا کرنا پڑے گا جو ہمیشہ بے ثمر ہی رہا ہے۔ امکان ہے کہ عدالت اپنے فیصلوں کی بے توقیری سے عاجز آ کر بے بس ہو جائے گی اور جج صاحبان چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں مستعفی ہو جائیں گے۔ عدلیہ کے مستعفی ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) اور باقی حزب اختلاف بھی اسمبلیوں سے باہر آ جائیں گے۔ احتجاج کا ایک سونامی اٹھے گا اور پھر فوج اس پر قابو پانے کے لئے آگے بڑھے گی اور ملک خدانخواستہ ایک بار پھر لمبی آمریت کے نرغے میں چلا جائے گا۔ اگر فوج ایسا نہیں چاہتی اس کی نیت درست ہے اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ جنرل کیانی کی سوچ میں کوئی کجی نہیں تو پھر انہیں تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے ایک قومی حکومت کی راہ کھولنی چاہئے جو کم از کم ایک سال معاملات کی نگہبانی کرے، حالات کو سنبھالا دے اور آزادانہ انتخابات کرا کے گھر چلی جائے۔“ 
جنرل بیگ نے جن عوارض و امراض کی نشاندہی کی اس سے کس کو اتفاق نہیں۔ شاید گیلانی اور زرداری صاحب بھی عدم اتفاق نہ کر سکیں۔ جنرل صاحب کی تشخیص بالکل درست البتہ انہوں نے جو علاج تجویز کیا جن امکانات، خدشات اور تحفظات کا ذکر کیا اس سے یقیناً اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ جنرل کیانی شاید ایسی غلطی کا اعادہ نہ کریں جس کا اعتراف جنرل بیگ نے کیا کہ وہ ساتھیوں کے مشورے پر عمل کے بجائے خود اپنا فیصلہ کرتے تو بہتر تھا۔ آج ملک بحرانوں کے طوفانوں میںگھرا ہے۔ مہنگائی، بیروز گاری، بدامنی، لاقانونیت کی سرخ، زرد اور سیاہ آندھیاں چل رہی ہیں۔ ڈرون حملوں کی یلغار، امریکی دھمکیوں کی بھرمار یہ بھی کر دو وہ بھی کر دو کی تکرار و اصرار اور اس پر ہماری قیادتوں کی جی حضوری پالیسی نے قومی خود مختاری کو بے بال و پَر کر دیا ہے۔ بلاشبہ آج عدلیہ آزاد ہے لیکن اس کے فیصلوں کو ایسی عمارت میں پھینک دیا جاتا ہے جس کا در ہے کھڑکی نہ روشن دان۔ انصاف کو یوں پا بجولاں کر دینے سے ظلمت و ضلالت میں روشنی کی کوئی تو کرن پھوٹے گی۔ انصاف کو مقید کر دینے والا گنید در بند کبھی تو ٹوٹے اور پھوٹے گا۔ یہ سب ہونے سے قبل انصاف کو آزاد کر دیا جائے۔ قوم شمع فروزاں کے جگمگانے اور جھلملانے کی امید لئے ہوئے تھی کہ حکمرانوں نے چراغ شبِ غم جلا کر اسے رنج و الم سے دوچار کر دیا۔ جنرل اسلم بیگ کے خط یا خیالات پر جمہوریت کے پروانے کہیں ملال اور کہیں جلال و اشتعال کا مظاہرہ کر رہے ہیں، یہ نہیں کہ بیگ صاحب نے اِدھر جو کہہ دیا کیانی صاحب نے آ ¶ دیکھا نہ تا ¶ اس پر عمل کر دیا۔ جنرل بیگ کے خیالات حکمرانوں، شمع جمہوریت کے پروانوں اور دیوانوں کے لئے اپنی اصلاح کا واضح پیغام ہے۔ اس خط پر مایوس نہ ہوں۔ اسے اپنی دشمنی اور جمہوریت کشی پر محمول نہ کریں۔ اسے وارننگ سمجھ کر اپنی اصلاح کریں۔ وہ نوبت ہی نہ آنے دی جائے جس سے جمہوریت متزلزل ہو اور ہم ایک بار آمریت کی تنگ و تاریک گلیوں میں کئی سال تک بھٹکتے رہیں جس کا چار مرتبہ تو تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔


Saturday, July 23, 2011

جعلی مہم ۔۔ اعصاب مضمحل روحیں مضطرب


 ہفتہ ، 23 جولائی ، 2011

جعلی مہم ۔۔ اعصاب مضمحل روحیں مضطرب
فضل حسین اعوان ـ
مادرِ وطن سے غداری‘ پاکستان کے دشمنوں سے وفاداری کرنیوالوں پر مزید نوازش کرتے ہوئے باقی زندگی عیش و نشاط میں گزارنے کیلئے ان کے آقاﺅں کے حوالے کردنیا چاہئے؟ ارضِ پاک پر بارود کی بو پھیلانے اور خون کی ندیاں بہانے میں کوشاں ریمنڈ پاکستان کے ہتھے چڑھا تو امریکہ جیسے تیسے اسے چھڑا کے لے گیا۔ وہ پاکستان کا دشمن اور امریکہ کا ہیرو قرا ر پایا۔ آج امریکہ ایک اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے بے کل و بے قرار اور بے تاب و بے صبر ہے۔ امریکی انتظامیہ کے اندرکی خبر رکھنے والے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ جنرل شجاع پاشا سے دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی حکام نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی پر زور دیا۔ ڈاکٹر آفریدی نے مبینہ طورپر سی آئی اے کا مہرہ بن کر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خاندان کا ڈی این اے حاصل کرنے کیلئے جعلی ویکسی نیشن مہم چلائی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اپنے پالتو کی رہائی کیلئے امریکہ نے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی جیمز آرکلپر کو پاکستان بھجوا دیا ہے۔اس نے متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ رہائی کا مطالبہ مسترد ہوا تو پاکستان کو بلیک میل اور اس سے سودے بازی کیلئے ایف بی آئی نے واشنگٹن میں کشمیری امریکن کونسل کے ایگزیکٹو غلام نبی فائی کو کشمیر کاز اور پاکستان کی حمایت کرنے کی پاداش میں گرفتار کرلیا۔ان پر آئی ایس آئی کیلئے کام کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔اب ڈاکٹر شکیل کی رہائی کے بدلے ڈاکٹر غلام نبی فائی کی رہائی کی بات ہورہی ہے۔ کیاڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے امریکی سفیر، قونصل جنرل، سی آئی اے کے پاکستان میں سربراہ یا کسی سینئر سفارتکار کو جاسوسی کے کیس میں پکڑ لیاجائے؟
مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا جرم کس نوعیت کا ہے۔معمولی اور قابل معافی یا سنگین اور ناقابل تلافی۔” امریکی حکام اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈ پر ریڈ سے قبل یہ تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ آیا کمپاﺅنڈ میں اسامہ بن لادن ہی قیام پذیر ہیں۔ سیٹلائٹ کے ذریعے امریکہ کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کمپاﺅنڈ میں بچے بھی موجود ہیں۔اگر اسامہ وہاں ہے تو یقینا بچے انہی کے ہوں گے۔2010 میں بن لادن کی ہمشیرہ کا بوسٹن میں انتقال ہوا۔اس کے ڈی این اے امریکیو ں کے پاس موجود تھے۔وہ کمپاﺅنڈ میں موجود بچوں کا ڈی این اے لے کر بن لادن کی ہمشیرہ کے ڈی این اے سے میچ کرناچاہتے تھے۔ اگلا مرحلہ تھا کہ ایسا کس طرح ممکن ہو۔انہیں ایسے بندے کی تلاش تھی جو ڈالروں کے بدلے اپنی ماں بھی بیچ دے۔ ڈاکٹر شکیل کے بارے میں جو کچھ میڈیا میں آیا اگر یہ درست ہے تو امریکہ کو وہ بیو پاری اور سوداگر مل گیا۔یہ خیبر ایجنسی میں صحت کے شعبے کا انچارج تھا۔ اس کی ایبٹ آباد میںتعیناتی مشکل و ناممکن نہ تھی۔اسامہ کے کمپاﺅنڈ کے اردگرد گھروں میں بچوں کو ہیپاٹائٹس سے بچاﺅ کے ٹیکے لگانے کا کام شروع ہوگیا۔حفاظتی ٹیکوں کی آڑ میں بختو نامی نرس کو اسامہ کے گھر بھجوا کو بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے بہانے ان کا ڈی این اے حاصل کرلیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دوران ڈاکٹر شکیل خود عمارت کے باہر موجود رہا۔اس نے نرس کو ایک چھوٹا سا بیگ اندر چھوڑ آنے کیلئے دیا تھا۔جس میں حساس ٹرانسمٹر تھا جو دھیمی ہلکی اور معمولی سی آواز بھی سی آئی اے آپریشن سنٹرل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ برطانوی اخبار گارڈین نے جعلی ویکسی نیشن مہم کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر شکیل کو آئی ایس آئی پشاور کے کارخانو بازار سے حراست میں لیا۔ گارڈین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ امریکہ اسلام آباد پر وطن فروش کی رہائی اور اس کے خاندان کی امریکہ منتقلی کیلئے دباﺅ ڈال رہا ہے۔ امریکہ سرکار کی شانِ بے نیازی ملاحظہ فرمائیے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق” ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ سی آئی اے نے اسامہ کا ڈی این اے حاصل کرنے کیلئے ویکسی نیشن کی مہم چلائی تھی اس کا مقصد اسامہ کا ڈی این اے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کے عوام کو فائدہ پہنچانا بھی تھا مہم کو جعلی قرار دینا درست نہیں۔ہ یپاٹائٹس کے ٹیکے اصلی تھے“۔
امریکیوں کے دل گداز میں بلا ل ٹاﺅن ایبٹ آباد کے مکینوں کیلئے کیسا بے پایاں اور بیکراں انسانی ہمدردی کا جذبہ! بالکل ایسے جیسے کسی بستی کے لوگوں کو سردی میں ٹھٹھرنے سے بچانے کیلئے ایک گھر کو اس کے باسیوں سمیت جلا کر آگ تاپنے کا اہتمام کردیاجائے۔ امریکہ کی جنگ میں پاکستان نے اس کی معاونت کیا کی کہ کچھ اس کی جفا اور کچھ اپنوں کی اس کے دامن سے وابستہ رہنے کے شوق کی ادا نے پورے ملک کو اس کے ہاتھوں گروی رکھ کر خود کو اس کا غلام بنا دیا۔ اس کی جفا کفا کا کہیں تو اختتام ہوناچاہئے۔آپ بے گناہ عافیہ صدیقی کو واپس نہیں لاسکے۔ دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ کو سزا نہیں دے سکے۔ کوئی اپنا سودا کرے، اپنے ایمان اور خاندان کا سودا کرے تو بھلا کرے۔ ملک ملت کا کیوں؟
شیطان سرطان بن کر ان لوگوںکے رگ و پے میں پھیل گیا جن کے کرداراور قول و فعل نے قوم کے اعصاب کو مضمحل اور روحوں کو مضطرب کر دیا ہے۔ یہ کبھی کانسی کو امریکہ کے حوالے کرتے ہیں کبھی امریکی قاتل ریمنڈ کو آزاد کرتے ہیں۔یہ عافیہ صدیقی کی قید پر خاموش رہتے ہیں اور ڈرون حملوں میں بے گناہ پاکستانیو ں کی ہزاروں شہادتوں پر بھی لب سی لیتے ہیں۔ یہی ملک و قوم کی بے توقیری، اس کو ذلتوں اور رسوائیوں کی دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں‘ ان شیطانوں سے چھٹکارے کیلئے جو ملک و قوم کیلئے اب ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے‘ اس سے خلاصی ناگزیر ہے۔ مگر کیسے؟ اس پرغور کیجئے پھر بات ہوگی۔

Friday, July 22, 2011

خاتون وزیر خارجہ سے توقعات

جمعۃالمبارک ، 22 جولائی ، 2011

خاتون وزیر خارجہ سے توقعات
فضل حسین اعوان
اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل میں پیشرفت ہونے کے بجائے یہ مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا چلا گیا۔ قائد اعظم یہ مسئلہ ہر صورت حل کرنا چاہتے تھے۔ نوزائیدہ مملکت ابھی اپنے پاﺅں پر بھی ٹھیک طریقے سے کھڑی نہیں ہوئی تھی کہ قائد اعظم نے قائمقام آرمی چیف جنرل گریسی کو کشمیر پر قبضے کا حکم دیدیا۔ یہی قومی غیرت، خودمختاری، خود داری اور وقار کا تقاضا تھا۔ آج ہم ایٹمی قوت تو ہیں لیکن قومی غیرت حمیت گروی رکھ دی گئی ہے۔ جنرل گریسی کے پاﺅں میں مجبوریوں کی زنجیر تھی۔ جنرل گریسی نے قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہو کر جو عذر پیش کیا، قائد اعظم نے اس سے اتفاق کیا۔ اس لیے قائد اعظم کی زندگی میں پورے کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنایا جا سکے۔ اس کے بعد بھارت کی مذاکرات کی ڈرامہ بازی شروع ہوئی۔ ظفر چودھری سے شاہ محمود قریشی تک پاکستان میں 25 وزرائے خارجہ آئے جو مسئلہ کشمیر پر بھارت سے مذاکرات کر تے رہے ہیں۔ بھارت مذاکرات کے نام پر ان کو چکر دے رہا ہے اور یہ چکر میں آتے چلے جا رہے ہیں۔ 25 وزرائے خارجہ کی کشمیر پر مذاکرات کی کارکردگی کے پیش نظر کسی بھی پارلیمنٹیرین اگر پارلیمنٹ کسی آمر کی لگائی آگ میں دھواں بن جائے تو کسی بھی پاکستانی کو وزیر خارجہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سفارشی وزرائے خارجہ سے عوام میں سے چنا گیا شخص بہتر کارگزاری دکھا دیتا۔ شاہ محمود قریشی حکمرانوں کی اناﺅں کی بھینٹ چڑھے یا ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے ہیلری کی اداﺅں کی۔ ان کی جگہ بہرحال کسی کو تو وزیر خارجہ لانا تھا۔ حنا ربانی کھر کو شاہ محمود قریشی کی برطرفی یا استعفےٰ کے بعد 11فروری 2001ءکو وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنایاگیا۔ خارجہ امور میں حنا ربانی کھر کو مختصر ہی سہی ایک تجربہ تو حاصل ہو گیا۔ شاید اسی بنا پر صدر آصف علی زرداری نے ان کو مستقل اور مکمل وزیر خارجہ کا درجہ دیدیا۔
حنا ربانی کھر پاکستان کی سب سے کم عمر وزیر خارجہ ہیں وہ 1977ءکو ملتان میں پیدا ہوئیں، قبل ازیں کم عمر وزیر خارجہ ہونے کا اعزاز ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تھا۔ وہ 35 سال کی عمر میں وزیر خارجہ بنے۔ حنا ربانی نے 34 سال کی عمر میں یہ سنگ میل عبور کیا۔ عمر کا ریکارڈ تو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے، پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہونے کا کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ حنا ربانی کھر مخصوص نشستوں سے نہیں فردوس عاشق اعوان کی طرح 2002ءمیں ق لیگ اور 2008ءمیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے پارلیمنٹ میں آئیں۔ حنا ربانی نے بطور وزیر خزانہ برائے مملکت2009-10ءکا بجٹ بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ حنا، ملک غلام نور ربانی کھر کی صاحبزادی اور ملک غلام مصطفےٰ کھر کی بھتیجی ہیں۔ دونوں بار الیکشن آبائی حلقے مظفر گڑھ سے لڑا۔ حنا نے 1999ءمیں بی ایس سی آنرز لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور ایم ایس سی مینجمنٹ میساچوسٹس یونیورسٹی سے 2001ءمیں کیا۔ ان کی بزنس مین فیروز گلزار سے شادی ہوئی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔صدر آصف علی زرداری نے حنا ربانی کھر کی صلاحیتوں کو پرکھ کر یا محض خانہ پُری کے لئے ان کو وزیر خارجہ کا منصب تفویض کر دیا۔ تاہم اب خاتون وزیر خارجہ کے لئے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، خود کو قومی اور عالمی سطح پر منوانے کا بہترین موقع ہے۔ آج پاکستان کی پسماندگی اور درماندگی عیاں ہے۔ مردانگی کا اظہار بھی ایسے ہی حالات میں ہوسکتا ہے۔ مرد وزرائے خارجہ کی کارکردگی خصوصاً دہشت کی موجودہ جنگ اور 63 سال سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے زنانہ قسم کی رہی ہے۔ اب خاتون وزیر خارجہ کو موقع ملا ہے تو قوم ان سے مادرِ ملت جیسی جرات مندانہ بے باکانہ کارکردگی اور باوقار و رعب دار رویے کی توقع رکھتی ہے۔ ہر فورم پر پاکستان کا اصولی موقف بڑے جاندارانہ اور جانبدارانہ طریقے سے لے کر آگے بڑھا جائے۔ نئی ذمہ داریوں کے بعد آج وہ آسیان اجلاس میں شرکت کے لئے انڈونیشیا چلی گئیں۔ ہیلری پاکستان میں اپنے سٹیٹس کی شخصیت کی عدم موجودگی سے پاکستان آنے سے گریزاں تھیں اب آسیان اجلاس کے دوران وہ پاکستان کی مکمل وزیر خارجہ سے ملیں گی۔ اس میں حنا کو کونڈولیزا رائس اور ہیلری کی طرح مضبوط اعصابی شخصیت کا تاثر دینا چاہیے۔ جنرل شجاع پاشا نے کل کے سی آئی اے سربراہ اور آج کے وزیر دفاع لیون پینٹا سے ملاقات کے دوران ان کے جارحانہ انداز کا جواب جارحانہ طرز پر ہی دیتے ہوئے کہا تھا:”تم نہیں، خدا میرا باس ہے“۔ دو تین روز بعد دہلی میں وزرائے خارجہ مذاکرات میں حنا پاکستانی وفد کی قیادت کریں گی۔ جہاں بھی خود کو جہاندیدہ سیاستدان اور سفارتکار ثابت کریں۔ ظاہر ہے آپ حکومتی پالیسی سے ہٹ کر بات نہیں کر سکتے۔ حکومتی پالیسی میں خوشامد اور منافقت نما مصلحت تو ہر گز شامل نہیں ہے۔ ان کے پیشرو بھارت گئے تو کہہ آئے پاکستان میں پانی کی کمی کا ذمہ دار بھارت نہیں ہے۔ اس کے برعکس سیدھا، صاف اور مبنی برحق جواب دیتے تو قوم توصیف کرتی۔ بھارت نے 63 سال سے مسئلہ کشمیر لٹکایا ہوا ہے۔ وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھارت کشمیر کو ایجنڈے میں پہلی ترجیح کے طور پر شامل نہیں کرتا تو بجائے بھارت کے کہ وہ مذاکرات کی میز سے اُٹھ جائے آپ پہل کرکے میز اُلٹا کر گھر واپس آ جائیں۔ تاریخ اور خصوصاً پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ تو یقینا محترمہ نے کر رکھا ہو گا۔ بھٹو ،اندرا گاندھی شملہ مذاکرات ناکام ہوئے تو بھٹو نے آخری لمحات میں اندرا گاندھی پر جادو جگایا تو وہ 93 ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لئے آمادہ ہو گئیں۔ خاتون وزیر خارجہ کو موقع ملے تو سونیا گاندھی کے کان میں ویسی ہی پھونک ماریں جیسی ضیاءالحق نے ان کے خاوند راجیو گاندھی کے کان میں ماری تھی جس کے بعد پاکستانی سرحدوں پر آمادہ فساد فوجیں واپس بلا لی گئی تھیں۔ ضیاءالحق نے تو ایٹم بم سے ڈرایا تھا، اب دکھایا بھی جا سکتا ہے۔ سونیا کو صرف اتنا کہہ دیں، کشمیر پر پیش رفت نہ ہوئی تو ایٹم بم چلایا بھی جا سکتا ہے۔


Thursday, July 21, 2011

عمران کی اٹھان اور اڑان

 جمعرات ، 21 جولائی ، 2011

عمران کی اٹھان اور اڑان
فضل حسین اعوان
عمران خان پُرامید ہی نہیں پُریقین بھی ہیں کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت ان کی پارٹی بنائے گی۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی سمیت ہر پارٹی عوام کی آزمودہ ہے۔ عمران خان کی پارٹی کو کبھی قوم کی خدمت کا موقع نہیں ملا۔ بطور کرکٹر اور کپتان اعلیٰ کارکردگی بعد ازاں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی جان جوکھوں میں ڈال کر تعمیر تکمیل اور کامیابی سے چلائے جانے کے باعث عمران خان کی عوام میں زبردست پذیرائی ہوئی۔ کھیل، سماجی و بہبودی کام اور سیاست الگ الگ میدان اور شعبے ہیں۔ عمران خان نے پہلے دو شعبوں میں تو اپنی اہلیت و صلاحیت کا لوہا منوا لیا یہ ضروری نہیں کہ وہ سیاست میں بھی اسی طرح کامیاب ہوں تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سیاست میں نئی داستانیں رقم کر ڈالیں۔ تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیں۔ ان کے مقابل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہیں۔ عوام آج بھی ان پارٹیوں کے قائدین میاں محمد نواز شریف، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سحر انگیز شخصیات کے اسیر ہیں۔ عمران خان نے ان کا سحر توڑا یا نہیں البتہ ان کی شخصیت کا جادو بھی کئی لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ تحریک انصاف کی 25 اپریل 1996 کو اُٹھان بڑی زبردست تھی البتہ اُڑان دھیری رہی 2002ءکے الیکشن میں اس کے حصے 0.8 فیصد ووٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ آئی۔ ان میں سے قومی اسمبلی کی خود ان کی اپنی اور دوسری سرحد سے ایک سیٹ تھی، 2008ءمیں بائیکاٹ کر دیا تھا، اب الیکشن زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال کی دوری پر ہیں۔ عمران نے بھرپور انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ 25 جون سے حکومت ہٹا ¶ مہم چلانے کا اعلان کیا وہ اب کہیں ہے کہ نہیں ہے۔ عمران خان پاکستان میں تبدیلی کا عزم لئے ہوئے ہیں۔ وہ بھٹو کی طرح آئندہ الیکشن میں سویپ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ خود بھٹو سے اپنی شخصیت کا موازنہ کرتے یا نہیں البتہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب چھوٹا انقلاب لائے تھے ہم تبدیلی کا سونامی لائیں گے۔ گزشتہ دنوں وہ لندن میں تھے۔ پارٹی فنڈ ریزنگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قومی بیماریوں کی نشاندہی کی اور علاج بھی تجویز کیا مختصراً ملاحظہ فرمائیے :
”اب پاکستان میں تبدیلی کا راستہ کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ ملک میں تبدیلی اور آئندہ انتخابات کے بعد ملک میں بننے والی اپنی حکومت کے پہلے 90 دن کا پروگرام تیار کر لیا ہے مگر اعلان کسی مناسب وقت پر کریں گے کیونکہ اگر ابھی سے اپنا منصوبہ پیش کر دیا تو اسے مسلم لیگ (ن) والے ہائی جیک کر لیں گے۔ جو پارٹیاں خود کو بڑا سمجھتی تھیں میڈیا نے ان کو ایکسپوز کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب سروے میں ہماری پارٹی پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 45 فیصد جعلی ووٹ ختم کر دئیے ہیں اب 35 ملین نوجوان کے ووٹ بنیں گے اور 90 فیصد نوجوان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ لے کر آئے تھے اور اب سیاست میں ورلڈ کپ وننگ ٹیم لا کر دکھائیں گے۔ ملک کے حکمران اور سیاستدان تک ٹیکس نہیں دیتے، ملک کے اندر ٹیکس کلچر ہی نہیں ہے۔ نواز شریف 5 ہزار روپے ٹیکس دیتے ہیں۔ صدر زرداری نے ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیا۔ ان حالات میں ملک کیسے چلے گا۔ لیڈروں نے اپنے نام پر اثاثے نہیں رکھے، جب تک سیاستدان اپنے اثاثے ڈکلیئر نہیں کریں گے ملک آئے نہیں بڑھے گا۔ اس وقت پاکستان کے مسائل کا حل صرف مڈٹرم انتخابات میں ہے، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے ذریعے ہی پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا سنہرا دور شروع ہو سکتا ہے۔ رحمن ملک کے پاس نجانے کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ روٹھی ہوئی ایم کیو ایم کو منا کر واپس لے جاتے ہیں۔ عمران خان کو نوجوانوں کے قوتِ بازو پر بھروسہ ہے جن کے ووٹ ابھی بننے ہیں ان سے 90 فیصد عمران خان کے ساتھ ہیں۔ نوجوانوں کے ووٹ بن جائیں نوے فیصد کپتان پر ووٹ نچھاور کر دیں گے، نوجوانوں کی تعداد کتنی ہے؟ 10 فیصد، 15 یا 20 فیصد۔ سپریم کورٹ جو پونے چار کروڑ ووٹ ختم کرنے جا رہی ہے کیا یہ ووٹ غیر ملکیوں کے تھے؟ جو الیکشن میں آ کر بھگتا جاتے تھے۔ کیا یہ کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ دیتے تھے؟ جعلی ووٹ عموماً بلدیاتی الیکشن میں بنے۔ کسی کے دو اور کسی کے تین۔ جس کے تین بنے وہ کاسٹ کتنے کرتا ہو گا۔ صرف ایک۔ اکا دکا دو بھی ہو جاتے ہوں گے جو مجموعی رزلٹ کو متاثر نہیں کر سکتے۔ جہاں ایک حلقے میں پچاس ساٹھ ہزار تک کی برتری سے امیدوار جیتے وہاں چند جعلی ووٹوں سے فرق نہیں پڑتا تاہم جعلی ووٹ ایک بھی نہیں ہونا چاہئے۔ پونے چار کروڑ ووٹوں کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس سے کسی پارٹی کی پوزیشن کوئی خاص متاثر ہوتی نظر نہیں آتی۔ ان میں کئی تحریک انصاف کے بھی چاہنے والے ہوں گے۔ عمران کی تبدیلی کی خواہش نیک اور ان کا قوم ملک کے لئے خلوص بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ کیا وہ اکیلے معاشرے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں؟ 93ءکے الیکشن میں جماعت اسلامی کلین سویپ کرنے کے لئے پُریقین تھی ”ظالموں قاضی آ رہا ہے“ اُسی الیکشن کا نعرہ تھا۔ عمران خان مکمل غور فرما لیں کہیں کسی کو جتانے اور کسی کو ہرانے کے لئے تو ان کو ٹریپ کر کے الگ تھلگ رہ کر الیکشن تو نہیں لڑایا جا رہا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان گرینڈ الائنس بنانے کی کوشش کریں۔ اعتدال پسند پارٹی ہونے کے باعث اس کا ہر محب وطن پارٹی سے اتحاد ہو سکتا ہے۔ وہ گیدڑ سنگھی ڈھونڈنے کی کوشش کریں جو رحمن ملک کے پاس ہے جس کے ذریعے وہ بقول عمران منا کر واپس لے جاتے ہیں۔ عمران خان اگر ملک میں کثیر الجماعتی کے بجائے دو پارٹی سسٹم کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کر دیں تو یہ ان کا جمہوریت کے ساتھ ساتھ قوم و ملک پر بھی احسان ہو گا۔


Wednesday, July 20, 2011

بھارت کا افغانستان میں قبرستان

 بدھ ، 20 جولائی ، 2011

بھارت کا افغانستان میں قبرستان
فضل حسین اعوان 
صدر اوباما نے افغانستان سے 2014ءتک جس انخلا کی بات کی اس کی ابتدا 650 فوجیوں کی واپسی سے ہو گئی۔ اوباما کے اعلان کے مطابق رواں سال کے آخر تک 10 ہزار اور اگلے سال ستمبر تک مجموعی طور پر 33 ہزار فوجی افغانستان چھوڑ دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2009 کی سطح پر آ جائے گی۔ 2009 میں اوباما نے 30 ہزار فوجی افغانستان بھجوائے تھے۔ ستمبر 2012 میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ رہ جائے گی۔ 2009 میں بھی ایک لاکھ امریکی فوجی افغانستان کو فتح کرنے کے لئے سرگرداں تھے۔ امریکہ نے افغانستان کو تاراج تو کیا اسے فتح کرنے کا تاج سر پر نہ سجا سکا۔ محض 650 امریکی فوجی جب کوچ کرنے کے لئے اپنا بوریا بستر باندھ رہے تو عین اس وقت حامد کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی کو اس کے محافظ سید سرور جان نے قتل کر دیا۔ سرور جان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کمانڈر رہ چکا ہے۔ گو طالبان نے ولی کرزئی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم اس سے امریکی حکام بھی خوش نہ تھے۔ امریکی اس کی کرپشن، فوجی معاملات میں مداخلت، ہر شعبے میں کمشن سے تنگ تھے۔ وہ اسے مافیا ڈان سمجھتے۔ جنرل پیٹریاس سے اس کی ملاقاتیں رہتیں۔ پیٹریاس نے اسے قندھار میں بڑے عہدوں کی تعیناتیوں میں مداخلت سے منع کیا تھا۔ افغان صدر کے بھائی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد ولی کرزئی کی ڈرگ ٹریڈ میں اجارہ داری تھی۔ دنیا کے سب سے بڑے ہیروئن سمگلر کا اعزاز بھی اسے حاصل رہا۔ اس کے محافظوں کی تعداد 500 تھی تمام کا تعلق اس کے اپنے قبیلے پوپلزئی سے تھا جن کی تنخواہ 3 لاکھ سے پانچ لاکھ افغانی تھی۔ اب شاید وہ امریکہ کے کام کا نہیں رہا تھا اس لئے امریکہ نے اسے مروا دیا یا طالبان کے ہاتھوں مرنے دیا۔ اگر طالبان نے مروایا تو یہ امریکہ کے لئے بڑا پیغام ہے کہ افغانستان سے نکل رہے ہو تو اس ملک سے اپنا سایہ بھی سمیٹ کر ساتھ لے جاﺅ۔ یہ سرزمین ہمیشہ جارح کا قبرستان بنی ہے۔ ابھی دوسرے امریکی دستے نے واپسی کی تیاری بھی نہیں پکڑی کہ احمد ولی کرزئی کے قتل کے چوتھے روز حامد کرزئی کے خصوصی مشیر جان محمد خان کو قتل کر دیا گیا۔ افغان دشمن کا سینہ تان کر مقابلے کا شہرہ تو رکھتے ہی ہیں بھاگتے دشمن کا تعاقب کر کے موت سے ہمکنار کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ 1842 میں ساڑھے 16 ہزار برطانوی فوجیوں کو کابل سے جلال آباد چھاﺅنی کی طرف فرار کے دوران ایک ایک کو بھون ڈالا تھا۔ صرف ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کے انجام سے جارحیت کے عزائم لئے جلال آباد چھاﺅنی میں موجود انگریز افسروں کو آگاہ کر سکے۔ جان محمد خان کے قتل کے اگلے روز طالبان نے اپنی کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے 11 پولیس افسروں اور اہلکاروں کو ضلعی سربراہ سمیت مار ڈالا۔ ادھر جنرل پیٹریاس سبکدوش ہوئے جنرل جان ایلن نے افغانستان میں اتحادی افواج کی سربراہی سنبھالی اُدھر طالبان نے ننگرہار میں 6 امریکی فوجیوں کو قتل کر کے ایلن کو سلامی دیدی۔ امریکہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں لاﺅ لشکر کے ساتھ افغانستان آیا۔ وہ مقصد اس نے ایبٹ آباد میں آپریشن کے ذریعے اسامہ کے مبینہ قتل سے حاصل کر لیا۔ اب اسے اصولی طور پر جن سے حکومت چھینی تھی ان کے حوالے کر کے چلتا بننا چاہئے۔ یا افغانوں کو ان کی حالت پر چھوڑ کر چلا جائے۔ لیکن اس کی نیت میں فتور ہے۔ وہ افغانستان سے اپنی فوج تو واپس لے جانے کا اعلان کر چکا ہے خود اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ طالبان کی جارحانہ کارروائیوں کا بہانہ بنا کر فوجی انخلاءکے وعدے سے کسی بھی وقت مکر سکتا ہے۔ جنگ ہو یا امن کہہ مکرنی اس کا چلن ہے۔ اتوار 17 جولائی کو بامیان صوبہ کی سکیورٹی افغان فورسز کو سونپ دی گئی۔ افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان وحید عمر نے میڈیا کو بتایا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں مقامی فورسز کو حوالے کرنے کا عمل باضابطہ طور پر شروع ہو گیا ہے اور پہلے مرحلے میں افغان سکیورٹی فورسز نے صوبہ بامیان کی سکیورٹی کے فرائض سنبھال لئے، سکیورٹی کی منتقلی کا عمل 2014ءکے آخر تک مرحلہ وار مکمل ہو گیا۔ افغانستان سے اتحادی فوج کے انخلاءکا مقصد افغانستان کو ہرگز اکیلا چھوڑنا نہیں، افغانستان سے انخلاءکے بعد بھی غیر ملکی طاقتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گی اور افغان فورسز کو تربیت اور آلات کی فراہمی کا عمل جاری رہے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جہاں خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں بے گناہوں کا خون بہا یا وہیں اپنے ہزاروں فوجیوں کے بھی تابوت اٹھائے۔ اب وہ افغانوں کو افغانوں سے لڑا کر ایک دوسرے کا خون کرا کر تماشا دیکھنا چاہتا ہے۔ افغان نیشنل آرمی نہ صرف بامیان میں کامیابی سے سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے گی بلکہ اسے جنوب کے ایک اور شمال مغربی 6 صوبوں میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اس کا امتحان مشرق اور جنوب کے پختون اکثریتی صوبوں میں تعیناتی سے شروع ہو گا۔ افغان نیشنل آرمی میں پختونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان علاقوں میں امریکی اور اتحادی فوج کی جگہ نیشنل آرمی لے گی تو جنگجو پختون اسے کاٹ کے رکھ دیں گے۔ امریکہ کے لئے عراق کی طرز پر افغانستان میں فوج کے بغیر کٹھ پتلیوں کے زور پر موجود رہنا ممکن نہیں۔ خود کو اپنے اتحادیوں اور کرزئی جیسے غلاموں کو خونریزی سے بچانے کے لئے بہتر ہے ملا عمر سے براہِ راست مذاکرات کر کے یکبارگی ساری فوج نکال کر لے جائے۔ امریکہ انتظامیہ اور میڈیا پاکستان میں ملا عمر کی موجودگی اور کوئٹہ میں طالبان شوریٰ کی سرگرمیوں کا الزام لگاتا ہے۔ ملا عمر سے ملا عبدالبصیر نے افغان خاتون رکن پارلیمنٹ ہما سلطانی کی ملاقات کرا دی۔ جو افغانستان میں ہی ہوئی۔ یہ ملاقات امریکی ایما کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ دیگر طالبان سے امریکہ براہِ راست مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان پر طالبان سے دور رہنے کے لئے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ عمران خان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ حکومت وسیع تر قومی مفاد میں اسے قبول کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں خونریزی کا سلسلہ بند کرا سکتی ہے۔ امریکہ فوجی انخلا کے بعد افغانستان کو اپنی کالونی کا درجہ دیکر خود براجمان رہنے کی پلاننگ کر چکا ہے۔ وہ جہاں بھارت کو بھی کردار دینا چاہتا ہے۔ اس سے شاید بہت سے لوگ اختلاف کریں لیکن بہت سے متفق بھی ہیں کہ بھارت کو افغانستان میں کردار دیا جانا چاہئے۔ یقین کیجئے افغانوں یا طالبان کے ہاتھوں ان کی سرزمین پر موجود ایک بھی بھارتی فوجی یا سفارتکاروں کے بھیس میں تخریب کارسلامت نہیں رہے گا۔ قائداعظم کے قرار دیئے ہوئے پاکستان کے بازوئے شمشیر زن بھی آسانی سے ان پر جھپٹ سکیں گےاور پھر جب آئی ایس آئی بھی بھارت کا افغانستان میں قبرستان بنانے کا پاکستان کے پاس یہ بہترین موقع ہو گا۔


Tuesday, July 19, 2011

کرپشن آخر کہاں پہ ختم

منگل ، 19 جولائی ، 2011


کرپشن آخر کہاں پہ ختم
فضل حسین اعوان
میاں نوازشریف وفد کے ساتھ چین کے دورے پر گئے۔ جہاز میں دیسی اور روایتی کھانوں کی محفل جمی رہی۔ عملے نے سب کی خدمت میں سری پائے کے پیالے پیش کئے۔ اس کے بعد ہریسہ، نہاری، حلیم، تکے کباب اور دیگر لوازمات سے تواضع کی۔ آخر میں لسی کے جام لنڈھائے گئے۔ پیٹ ایسی نعمتوں سے گردن تک فل ہو تو نیند اپنی بانہوں میں کیوں نہ لے گی۔ اردو ڈائجسٹ کی سٹوری کے مطابق سب لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ چین میں ہوائی اڈے پر اُترے تو وزیراعظم سمیت تمام قافلے کو فوراً ہوٹل پہنچایا گیا۔ وفد کے تمام ارکان جی بھر کر سوئے اور اگلے روز اُٹھے تو پھر سرکاری دورہ شروع ہوا۔ ایسی خوراکیں ہمارے حکمران روز کھائیں اور بار بار کھائیں۔ اس سے قومی خزانے کا بال تک بیکا نہیں ہو گا۔ 
ایک بار بے نظیر نے اپنے بیٹے کی سالگرہ بحری جہاز میں منانے کا فیصلہ کیا۔ سالگرہ کے انتظامات مکمل ہو گئے تو کیک کاٹا گیا۔ اسی دوران بچے نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بندر کا تماشا دیکھنا چاہتا ہے۔ بچے کی ضد بڑھی تو بے نظیر بھٹو نے اسے پورا کرنے کا حکم دیا۔ آخر سرکاری کارندے ایک ہیلی کاپٹر میں کراچی کی دُور دراز بستی سے ایک تماشہ گر کو مع بندر ڈھونڈ لائے۔ تب بچے سمیت تمام مہمانوں نے بندر کا تماشا دیکھا اور پھر بندر والے کو ہیلی کاپٹر واپس چھوڑ آیا۔ ایسے تماشے ہمارے حکمران اپنے بچوں کو لگاتار دکھاتے رہیں۔ خزانے پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ 
آج کل ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات کروڑوں کے ہیں۔ گورنرز اور وزرائے اعلیٰ ہاﺅسز کے اخراجات بھی ان کی آن بان اور شان کے مطابق ہیں۔ گزشتہ سال اداکارہ انجلینا جولی سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے پاکستان آئیں تو وزیراعظم گیلانی کا خاندان انجلینا سے ملاقات کے لئے ملتان سے طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچا۔ انجلینا ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ ایسی دعوتیں اڑتی رہیں۔ بڑے ہاﺅسز کے اخراجات اگر تھوڑے سے مزید بڑھا دئیے جائیں تو بھی قومی خزانے کو کوئی ضعف نہیں پہنچے گا۔ پھر قومی خزانہ آخر لاغر کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجہ لوٹ مار اور کرپشن ہے۔ جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان میں ہونیوالی کرپشن پر مسلسل اور کڑی نظر ہے۔ اس کے تازہ ترین تجزئیے کے مطابق گزشتہ 3 برسوں میں صرف مخصوص شعبوں میں قوم کو 30 کھرب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 3 سال کے محتاط اعداد و شمار 10 کھرب روپے سالانہ ہیں، جس میں سالانہ 15 سے 20 فیصد اضافہ ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن کا اندازہ اس کی عالمی رینکنگ سے لگایا جا سکتا ہے جوکہ 2008ءمیں 47ویں 2009ءمیں 42ویں اور 2010ءمیں 34ویں ہو گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے بیان کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں 2009ءکے دوران کم از کم کرپشن 5 سو ارب روپوں کی ہوئی جبکہ سرکاری ادارے جیسے پی آئی اے، واپڈا، اسٹیل ملز اور ریلویز ٹیکس دہندگان کے 3 سو ارب روپے ہڑپ کر گئے۔ 2009ءمیں کرپشن کی نذر ہونے والی رقم 195 ارب روپے تھی جوکہ 2010ءمیں 225 ارب روپے ہو گئی۔ کرپشن کی اس بھاری رقم میں لینڈ ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی بڑی کرپشن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ، سوئی سدرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی، سول ایوی ایشن اتھارٹی، نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ، پیپکو، ایرا، ایس وی بی پی، این بی پی، سی ڈی اے، وزارت دفاع، ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی، نیشنل لاجسٹک سیل، پی ایس او، پی این ایس سی، کنٹونمنٹ بورڈز وغیرہ میں حکومت کی جانب سے کی گئی خریداری میں ہونے والی کرپشن شامل نہیں ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت کرپشن پر قابو پانے اور اس عفریت سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے کرپٹ لوگوں کو تحفظ دے رہی ہے جبکہ انسداد کرپشن کے ادارے جیسے کہ ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو کو حکومت کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے تاکہ قومی خزانہ لوٹنے والوں کو اور کرپٹ افراد کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ نامور معیشت دان اور معاشی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ اگر پاکستان میں موثر طریقے سے کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو اسے امریکہ سمیت کسی ملک سے امداد کی ضرورت نہیں رہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پاکستان میں اندھا دھند کرپشن کے حوالے سے سال بہ سال رپورٹ منظر پر آتی رہی ہے۔ جس کی حکومت کی طرف سے سخت الفاظ میں تردید کی جاتی رہی ہے اور جہاں تک کہا جاتا ہے کہ ایمنسٹی حکومت کے مخالفین کے ایما پر ایسی رپورٹیں جاری کر کے حکومت کو بدنام کرتی ہے۔ اگر حکومتی موقف کو وقتی طور پر تسلیم کر لیا جائے کہ ہمارے حکمران ایماندار دیانتدار اور پارسا ہیں۔ کرپشن اور حکمرانوں کے مابین فاصلہ بعد المشرقین ہے۔ کرپشن کی باتیں اپوزیشن نے پھیلائی ہیں یا پیپلز پارٹی کے ناراض ساتھیوں نے اڑائی ہیں۔ جمشید دستی نہ صرف حکومت کا حصہ بلکہ اس کے لاڈلے بھی ہیں۔ وزیراعظم گیلانی ان کی انتخابی مہم ان کے حلقے میں جا کر چلاتے رہے۔ جمشید دستی نے رحیم یار خان کے وکلا کے درمیان کھڑے ہو کر اپنے وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ ”پیپلز پارٹی اپنے منشور سے ہٹ کر کام کر رہی ہے جس کے سب سے بڑے ذمہ دار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جنہوں نے ہر جگہ کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فارم بھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے کرپشن کی نذر ہوئے“۔ جمشید دستی ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ انہوں نے جو بات کی سوچ سمجھ کر کی ہو گی۔ وزیراعظم کا دامن کرپشن سے پاک ہے تو اب تک نوٹس لے لیا جانا چاہئے تھا۔ بہتر ہے وزیراعظم صاحب دستی صاحب کو عدالت میں لے جائیں۔
آج کرپشن، بدعنوانی اور بے ایمانی کا جس طرح چلن ہے۔ اس پر ہر کسی کی نظر ہے۔ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی اور جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھانے اور چلائے رکھنے کی تمنا رکھنے والوں کی بھی۔ اگر سیاستدان خود اپنی اداﺅں سے جمہوریت کو ڈیل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو تقویت پہنچائیں تو دوش کس کو دیا جائے گا؟

Sunday, July 17, 2011

جنگیں تباہی کا نشاں.... لیکن

 اتوار ، 17 جولائی ، 2011



جنگیں تباہی کا نشاں.... لیکن
فضل حسین اعوان 
امریکہ نے افغانستان سے واپسی کا اعلان تو کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی افغانستان سے نکل رہا ہے۔ کیا وہ انخلا کے اپنے اعلان پر قائم رہے گا اور پرعزم بھی۔ جس مقصد کے لئے افغانستان آیا کیا وہ پورا ہو گیا؟ یقیناً امریکہ بظاہر جس مقصد کے لئے افغانستان آیا وہ پورا ہو گیا۔ اُس نے اسامہ بن لادن کو نائن الیون سانحے، واقعے یا اپنے رچائے ڈرامے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ طالبان حکومت نے بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کیا تو وہ اسے بزور یہاں اٹھانے یا مار گرانے آیا تھا۔ یہی اس کا واحد مقصد تھا۔ جو 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ کے مبینہ قتل بعداز قتل سے پورا ہو گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی گزشتہ سال لزبن کانفرنس میں افغانستان سے 2014ءتک انخلا پر متفق ہو چکے تھے۔ اسامہ کو ایبٹ آباد میں قتل کر کے امریکہ نے پھر سے 2014 تک افغانستان سے انخلا کا اعادہ کر دیا۔ جب آپ کا مقصد پورا ہو گیا تو انخلاء2014 تک کیوں؟ فوری ایک دو ماہ میں کیوں نہیں؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ امریکہ کا نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں آنے کا مقصد کچھ اور ہے۔ بن لادن کا تعاقب ایک بہانہ تھا۔ اس میں شک نہیں کہ افغانوں اور ملکِ افغاناں کو سکندراعظم اور اپنے اپنے دور کی سپر پاورز برطانیہ اور روس سمیت دنیائے تاریخ کی کوئی طاقت تسخیر نہیں کر سکی۔ فتح کا زعم لے کر آنے والا ہر کوئی رسوائیوں سے دوچار ہو کر لوٹا۔ اگر امریکہ کا مقصد افغانستان کو فتح کرنا تھا وہ تو پورا نہیں ہوا۔ البتہ ایک مقصد برطانیہ بھی لئے ہوئے ہے۔ امریکیوں نے آزادی اپنا خون دیکر اور برطانوی گوروں کا خون لے کر حاصل کی تھی۔ اہل برطانیہ کے دل میں بھی امریکہ کے افغانستان میں دفن ہونے کی امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ ان کا مقصد امریکہ کو توڑنا ہے۔ برطانیہ کی معیشت ڈوبی تو بکھر کے رہ گیا۔ روس کے ٹکڑے بھی اس کی معیشت گرانے سے ہوئے۔ نائن الیون اگر ڈرامہ نہیں تو یہ سانحہ برپا کرنے والوں کا مقصد بھی امریکی معیشت کو بھنور میں پھنسانا تھا۔ برطانیہ بھی امریکہ کو اس کا ساتھی و اتحادی بن کر اس خطہ میں اس کے سلامت واپس نہ جانے کے خواب آنکھوں میں سجا آیا تھا۔ اب جن کے خلاف یہ صلیبی جنگ لڑی جا رہی ہے ان کا کیا مقصد ہونا چاہئے؟ امریکہ کا وہی انجام جو معیشتیں ڈوبنے پر برطانیہ اور روس کا ہوا؟
پاکستان کے موجودہ حالات پر ہر محب وطن پاکستانی دکھی ہے۔ ٹیکسلا سے دردِ دل رکھنے والے الشیخ احمد فضلی صاحب نے اپنے خط میں کچھ امید اور کچھ نومیدی کی باتیں کی ہیں ان کی نظر میں امریکہ کے افغانستان میں آنے کے مقاصد وہ نہیں جن کا امریکہ نے اظہار کیا۔ مختصراً ملاحظہ فرمائیے۔ 
لوگ امریکہ کو اپنے مشن میں ناکام سمجھ کر اس کے واپسی کے اعلانات پر قدرے خوش ہو رہے میں اسے نہ تو ناکام سمجھتا ہوں اور نہ ہی واپسی کے پروگرام میں مخلص۔ اس کا اصل مقصد اس علاقہ کو غیر مستحکم کر کے مسائل کے گرداب میں دھکیلنا تھا سو وہ اس میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اگر آج ہی وہ اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان سے نکل جائے تو پھر بھی افغانستان کو ہوش سنبھالنے کیلئے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے کم از کم ایک سو سال چاہئیں کیونکہ لوگوں کی سائیکی تنظیم کو قبول نہیں کرتی اور اداروں کے بغیر ترقی ممکن نہیں انتظامیہ حد درجہ کی کرپٹ اور نااہل ہے ملک ترقی کیسے کرے گا؟ اس سے ملتا جلتا حال پاکستان کا ہے۔ اہل اقتدار کو سونے کے دو پہاڑ دے دیں تو پھر بھی وہ دو اور کا مطالبہ کریں گے عوام تک ملکی وسائل کے ثمرات کا پہنچنا محال ہے۔ امریکہ کے عزائم اس اسلامی ریاست کے خلاف انتہائی بھیانک ہیں وہ اسے بالکل اپنی ایک ریاست بنانا چاہتا ہے۔ ہم اس کے ساتھ جنگ کرنے کے متحمل ہو سکتے یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔ دانش مندی یہ ہے کہ جس طرح جناب قائداعظم نے بغیر کسی ٹکراﺅ کے حصول پاکستان کی جنگ جیتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بچانے کی جنگ بغیر کسی ٹکراﺅ کے جیتنے کی کوشش کی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میدان جنگ نہ بن جائے۔ کیونکہ اس بلاوجہ کی جنگ میں انسانی جانوں اور املاک کا جو نقصان ہو گا اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر جنگ کے بعد اس سے بچ جانے والوں کے لئے مسائل کا ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔ ایسی تدبیر کی جائے کہ اس بے ایمان سے حواریوں سمیت جان چھوٹ جائے اور یہ اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جائیں۔ 
جنگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ مسائل کا حل نہیں لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بعض جنگیں تاریخ کا دھارا موڑ دیتی ہیں ان سے جغرافیائی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ معرکہ بدر و حنین کی برکات سے آج نورِ اسلام دنیا کے کونے کونے میں ضوفشاں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں انسانوں کا خون بہا لیکن یہ جنگ پاکستان سمیت کئی ممالک کی آزادی کی بنیاد بنی۔ جنگ سے ضرور گریز کرنا چاہئے۔ لیکن اگر یہ مسلط ہو جائے تو تیغ کے نیچے برضا و رغبت گردن رکھنے سے آمادہ پیکار ہو جانا بہتر ہے۔ اس میں موہوم ہی سہی کامیابی کی ایک امید تو ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے ایسی جنگ امہ کے لئے نوید سحر بن جائے۔ قدرت کاملہ حقیر سی مخلوق چیونٹی سے ہاتھی کو مروا دینے پر قادر ہے پاکستان تو ایک ایٹمی طاقت ہے۔ یہ اکیلا نہیں اس کی پشت پر 57 اسلامی ممالک ہونگے تو امریکہ بھارت یا کسی بھی طرف سے مسلط کردہ جنگ تیسری عالمی جنگ بن سکتی ہے۔ بشرطیکہ پاکستان مسلم امہ کو یکجا کر لے۔


Saturday, July 16, 2011

قرآنی

 ہفتہ ، 16 جولائی ، 2011

قرآنی
فضل حسین اعوان
کچھ اپنوں کی لگائی اور کچھ غیروں کی دہکائی آگ میں بلوچستان جل رہا ہے۔ یہ آگ کہیں پھونکوں سے اور کہیں پٹرول چھڑک کر بجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں معافیوں کا بڑا چلن ہے۔ ہماری حکومتیں بلوچوں سے معافیاں مانگتی رہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی مانگی ہے۔ بلوچ بڑی غیرت مند اور خوددار قوم ہے۔ یہ کچھ نہیں مانگتے، نوکریاں نہ روٹیاں، عہدے نہ سرداریاں صرف عزت و وقار کے طلب گار ہیں۔ ہمارے حکمران معافی بھی مانگتے ہیں تو بندوق تان کر، گریبان پکڑ کر۔ دو روز قبل وزیراعظم کوئٹہ میں تھے ان کے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک بھی ان کے ساتھ گئے۔ 13 جولائی 2011 کو کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ملک صاحب نے کہا قومی پرچم جلانے والوں سے بات نہیں ہو سکتی۔ ساتھ یہ بھی فرما دیا معلوم ہے کہ شرپسندوں کو امداد کہاں سے ملتی ہے.... شرپسند بلوچستان میں پرچم جلا رہے ہیں۔ علیحدگی کی تحریک جاری ہے۔ ٹارگٹ کلنگ رکنے میں نہیں آ رہی۔ جتنے مستوجب سزا یہ لوگ ہیں اُتنے ہی وہ بھی ہیں جن کو معلوم ہے کہ شرپسندوں کو امداد کہاں سے ملتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خاموش ہیں۔ اس میں کیا مصلحت ہے، کیا یہاں بھی کمشن کا چکر ہے؟ پرچم جلانے والے اگر بھٹکے ہوئے ہیں تو بلوچستان کے مخصوص حالات کے باعث ان کو راہِ راست پر لانا چاہئے نہ کہ ان کی تحریک کو مضبوط تر بنانے کے مواقع پیدا کر دئیے جائیں۔
پیپلز پارٹی کی باقی بچی ڈیڑھ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے راستے میں آگ کا دریا حائل ہے۔ ساڑھے تین سال کا عرصہ فرینڈلی اپوزیشن کی نظرِ کرم سے بڑی آسانی سے گزر گیا۔ اب اپوزیشن اپنی آئی پر آ گئی ہے تو اقتدار کے ایوانوں کے در و دیوار ہل رہے اور ان کے مکینوں کے سانس پھولے ہوئے ہیں۔ اپنی مدت کے آغاز پر بلوچوں سے معافی مانگی اور ساڑھے تین سال اسی معافی کے زور پر نکال لئے۔ اب وزیراعظم آغاز حقوقِ بلوچستان کی پٹاری لے کر کوئٹہ جا پہنچے۔ وہی وعدے، وہی دعوے، وہی رسمی قسمیں اور عہد و پیمان۔ یہ کر دیا وہ کر دیں گے۔ ”آغاز حقوق بلوچستان“ جیسا نام ویسا کام اور انجام۔ تین سال قبل بھی آغاز اب بھی آغاز اقتدار سے جائیں تو بھی حقوق بلوچستان کی تفویض کا آغاز ہی ہو گا۔
وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا ہم اب بھی ناراض بھائیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں ہم سے مذاکرات کریں.... آپ نے کہہ دیا گویا ناراض بلوچوں نے مان لیا! اپنی خوش الحانی پہ کیسی خوش گمانی ہے! کیا ناراض بلوچوں کو ”پولیس صفت“ حکمرانوں پر اعتماد اور اعتبار ہے۔ براہمداغ بگتی، گزین مری، میر حیر بیار بگٹی اور خان آف قلات میر سلمان داﺅد اور بہت سے دیگر رہنما خلیجی ریاستوں، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں قیام پذیر ہیں۔ سلمان داﺅد تو جلاوطن حکومت بھی بنائے بیٹھے ہیں۔ سلمان داﺅد خان آف قلات میر احمد یار خان کے جاں نشین ہیں۔ میر احمد یار قائداعظم کے دست و بازو تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دو مرتبہ قائداعظم اور مادرِ ملت کے وزن کے برابر سونا تحریک پاکستان کے لئے دان کر دیا تھا۔ ایسے محب وطن لوگوں کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے کیا سلوک کیا؟ ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو میر احمد یار خان کو گرفتار کر لیا۔ یہیں پہ بس نہیں۔ ایوب حکومت کے اس اقدام کے خلاف جھالاوان کے نواب میر نوروز خان زرک زئی نے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ جنرل ایوب خان نے نوروز خان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور ہتھیار ڈالنے کی صورت میں معافی کا وعدہ کیا۔ وہ حکومت کے چکمے میں آنے پر تیار نہ تھے۔ ایوب خان نے نواب دودہ خان زرک زئی کو قرآن دے کر پہاڑیوں پر بھجوایا۔ اس پر نوروز خان نے ہتھیار ڈال دئیے لیکن فوجی حکومت نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے فوجی عدالت میں انکے خلاف مقدمہ چلایا۔ 80 سالہ نوروز خان کو عمرقید کی سزا دی اور انکے بیٹے میر بٹے خان سمیت پورے خاندان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد نوروز خان بھی جیل میں چل بسے۔ اس کے بعد سے بلوچ مزاحمت کریں یا امن سے رہیں حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ موجودہ حکمران تو ویسے بھی وعدے معاہدے کر کے کہتے ہیں یہ کوئی قرآن و حدیث نہیں۔ مدیر نوائے وقت خاں آف قلات میر احمد یار خاں سے قلات میں جا کر ملے حال احوال پوچھنے کے بعد بات چیت ہوتی رہی ضیاالحق کا دور تھا خان قلات کے فلیٹیز ہوٹل والی فرم میں شیئرز تھے انہوں نے کہا اب ریاست کے وہ مالک نہیں رہے۔ خزانہ خالی ہے۔ حکومت سے میری خدمات کے عوض یہ تین ہوٹل فلٹیز فلیش مین اور لورڈز سروسز مجھے دیدے میں اپنے قبیلے کے اخراجات کسی حد تک پورے کر سکونگا۔ مدیر نوائے وقت نے ضیاالحق تک یہ پیغام پہنچایا۔ انہوں نے ایک کان سے بات سنی دوسرے سے نکال دی۔ سروسز ہوٹل معلوم نہیں آج کس کی ملکیت ہیں!
بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کی بیل کیوں منڈھے نہیں چڑھ سکی؟ وہ حکمرانوں کو قرآنی (قرآن پر وعدہ کر کے مکر جانے والے) سمجھتے ہیں۔ حکومت پہلے اپنا اعتبار بحال کرے۔ عام معافی دے دی جائے تو بھی باہر بیٹھے ناراض بلوچ واپس نہیں آئیں گے۔ ایک طرف آپ ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ معافی مانگتے ہیں اور معاف کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان میں بندوق بردار بھی پھیلائے ہوئے ہیں۔ وہ بگتی ایسے سردار کو اگلے جہان پہنچا دیتے ہیں اور آج تک قاتل پکڑا نہیں جا سکا۔ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ واقعی اپنے ان کو قومی دھارے میں لانا چاہئے۔ وہ پاکستان آئیں نہ آئیں۔ ان کی مسلح جدوجہد کے لئے حمایت ختم ہونی چاہئے۔ بلوچستان میں لگی علیحدگی پسندی کی آگ بجھانے اور بلوچستان کو بچانے کے لئے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے سستا سودا ہے۔ گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو حکومت بااختیار بناتی ہے وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو حقیقت میں بااختیار بنا دیں تو وہ معاملات راست سمت میں لانے میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زرداری صاحب خود بلوچ ہیں نوائے وقت کی تجویز پر وفاقی کابینہ کا اجلاس کوئٹہ میں ہوا اچھی بات ہے بلوچ صدر صاحب ہفتے میں کم از کم ایک دو دن بلوچستان میں گزاریں تو معاملات مزید تیزی سے بہتر ہو سکتے ہیں۔

Thursday, July 14, 2011

ناکام ریاست....پاکستان نہیں امریکہ

 جمعرات ، 14 جولائی ، 2011









ناکام ریاست....پاکستان نہیں امریکہ
فضل حسین اعوان
امریکی انتظامیہ لالچ یا دھونس (جسے Carrot and Stick Policy بھی کہا جاتا ہے) کے ذریعے دوسرے ممالک کو استعمال کرنے میں کمال مہارت، زبردست ملکہ اور ید طولیٰ رکھتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر کسی بھی ملک کو بدنام یا بلیک میل کرنے کے لئے فتنہ پرور امریکی میڈیا بھی انتظامیہ کے ہم زباں وہم عناں ہوتا ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے خواہش کو خبر کا رنگ دے ڈالنا اس کی خوبو ہے جو اس کے خون میں شامل ہے۔ اصولوں اور غیر جانبداری کا پرچارک امریکی میڈیا اپنے ملک کے مفادات کے لئے مکمل طور پر جانبدار ہے۔ غیر جانبداری اصولوں کی پاسداری کے خبط میں مبتلا ہمارے میڈیا والے اپنی ماں (دھرتی بھی ماں ہی ہے) تک کا سکینڈل نشر اور شائع کرنے کو صحافت میں بڑی ناموری گردانتے ہیں۔
پاکستان 57 اسلامی ممالک کی واحد اور ساتویں عالمی ایٹمی طاقت ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، پاکستان دنیا کی 27ویں بڑی معیشت ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیائے اسلام میں اس کا نمبر پانچواں، جبکہ دنیا میں بیسواں ہے۔ یہاں دنیا میں کوئلے کے دوسرے بڑے ذخائر (1857 ارب ٹن) واقع ہیں۔ پاکستان ہی میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے۔ پاکستان برصغیر میں مسلمانوں کی نمائندہ مملکت ہے، مسلمانوں نے ہزار سال تک ہندوستان پر حکمرانی کی۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے انگریز کی کبھی غلامی قبول نہیں کی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے انگریز ہمیشہ مسلمانوں سے شاکی رہے اور غلام ہندوﺅں کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرتے رہے۔ مسلمان انگریز کی غلامی قبول کر لیتے تو ان پر تعلیم، تحقیق اور اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بند نہ ہوتے۔ البتہ عبداللہ ابن اُبی مسلم معاشروں میں کبھی میر جعفر اور کبھی میر صادق کے روپ میں نمودار ہوتے رہے ہیں۔پاکستان ایسے ملک کو کوئی ناکام ریاست کہے تو یہ انسان کی نہیں، اس کے اندر کے شیطان کی آواز ہے۔ ایسا کسی اور نے نہیں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دینے والے عالمی تھانیدار، اجارہ دار و ٹھیکیدار امریکہ کے حاشیہ بردار جریدے فارن پالیسی نے کہا ہے۔فارن پالیسی نے دنیا کی ناکام ریاستوں کی درجہ بندی میں پاکستان کو 12ویں نمبر پر رکھا ہے۔ فنڈ فارپیس نامی ادارے کے تعاون سے جریدے کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں دنیا بھر کے 177 ممالک ناکام ریاستوں کی درجہ بندی والی فہرست میں شامل کئے گئے ہیں۔ دنیا کی ناکام ریاستوں والی فہرست میں صومالیہ سرفہرست ہے جبکہ دنیا کی ٹاپ 10 ناکام ریاستوں میں چاڈ، سوڈان، کانگو، ہیٹی، زمبابوے، افغانستان، وسطی افریقہ ریپبلکن، عراق اور کوسٹ دی آئیوری شامل ہیں۔ افغانستان کو ٹاپ 10 ناکام ریاستوں میں شمار کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کو ٹاپ 10 ناکام ریاستوں سے صرف 2نمبر اوپر دیئے گئے ہیں اور اسے ٹاپ 15میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کو ناکام ریاستوں میں 12 ویں نمبر پر رکھتے ہوئے جریدے نے لکھا ہے، پاکستان تا حال مغرب کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے جبکہ بیشتر وقتوں میں پاکستان خود اپنے عوام کیلئے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ کانگو، چاڈ، ہیٹی، سوڈان اور افغانستان جیسے ممالک جہاں امن ہے نہ سکون ہر طرف لاقانونیت، انارکی پھیلی ہوئی، خونریزی، قتل و غارت عروج پر ہے۔ حکومت اور حکمرانی کا تصور ناپید ہے، فارن پالیسی کا پاکستان کو ایسے ممالک کی صف میں شامل کرنا‘ شرمناک اور پاکستان کے خلاف اس کی خباثت کا مظہر ہے‘ ناکام ریاست (Failed State) کی مروجہ تعریف کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ پاکستان کی نسبت کہیں بڑی ناکام ریاست قرار پاتا ہے۔ آگے چلنے سے قبل سید عاصم محمود کی مختصراً رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:”خود امریکہ کے غیر جانبدار ماہرین اور دانشور ”امریکہ“ کے زوال کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔ اب امریکہ بھی زوال پذیر ہے اور امریکی حکومت کا اندرونی یا داخلی قرضہ 14.32 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اس کی کل خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے برابر ہے۔ یوں امریکہ رقم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی امریکہ میں جنگ ہوئی، یا وہ جنگوں میں شریک ہوا تو وہاں معیشت خوب ترقی کرتی رہی، ہر قسم کی پیداوار بڑھتی، قرضے اترتے اور عوام خوشحال ہو جاتے۔ اسی لئے امریکی حکومت نے رفتہ رفتہ جنگ جوئی ہی کو امریکی انڈسٹری اور اپنی ترقی کا واحد راستہ بنا لیا۔ (جاری )
جارج بش کے دور حکومت میں تو امریکہ جیسے سفارت کاری کرنا بھول گیا اور اس نے جارحیت کو سکہ رائج الوقت بنا دیا۔ بش حکومت نے عراق و افغان جنگوں میں اربوں ڈالر پھونک ڈالے۔ ماہرین کے نزدیک یہ جنگیں اس لئے بھی شروع کی گئیں کہ بڑھتے داخلی قرضے کو محدود کیا جا سکے لیکن اس بار یہ جنگیں مطلوبہ نتائج....قرضے میں کمی، معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی وغیرہ سامنے نہیں لا سکیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان جنگوں سے صرف امریکہ کے مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچا جو اسلحے کی صنعت، افواج اور متعلقہ شعبوں سے منسلک ہے۔ بش حکومت نے غیر ممالک اور بینکوں سے قرضے بھی لیے تاکہ روز بروز بڑھتے جنگی اخراجات پورے کئے جا سکیں۔ اندازہ کیجئے کہ آج افغانستان میں ہر امریکی فوجی پر امریکہ کے ”سات لاکھ پچاس ہزار ڈالر“ سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ رقم ادھار یا امریکیوں کے ٹیکسوں ہی سے آتی ہے۔ لہٰذا داخلی قرضے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ بش حکومت جنگجوئی اور اپنی چودھراہٹ جمانے کے چکر میں سمجھ ہی نہ سکی کہ وہ اپنے ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں اتار رہی ہے۔
امریکی حکومت پر قرضے چڑھنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ جب2008ءمیں امریکہ کا ”تعمیراتی بلبلہ“ پھٹا تو کئی بنک اور مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو گئے کیونکہ امریکی عوام نے انہی سے قرض لے کر گھر بنائے تھے۔ جب گھر بکنا بند ہو گئے تو انہیں کہاں سے رقم ملتی، امریکی حکومت نے پھر بڑے سرکاری بینکوں اور مالیاتی اداروں کو بچانے کے لئے کئی ارب ڈالر خرچ کئے۔ مگر یہ اضافی خرچ مجموعی قرضوں میں اضافہ کر گیا۔
یہ تھیں زوال کی معاشی و مالی نشانیاں، اخلاقی سطح پر بھی امریکی پہلے کی مانند بلند کردار کے مالک نہیں رہے۔ امیر طبقہ فحاشی، منشیات اور دیگر سماجی برائیوں میں مبتلا ہو چکا۔ ثبوت یہ ہے کہ امریکہ میں 43 فیصد بچے ناجائز پیدا ہوتے ہیں۔ نئی نسل پہلی نسلوں کی طرح محنتی، تجربے کار اور آگے بڑھنے کی شائق نہیں بلکہ اسے ڈیجیٹل آلات کی لت نے کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نیم ناکام ریاست میں بدل چکا جو تیزی سے اپنے زوال کی جانب گامزن ہے۔ اگر امریکہ میں سیاسی، اخلاقی، معاشرتی اور معاشی طور پر وسیع پیمانے پر اصلاحات نہ آئیں تو اسے تاریخ کے گڑھے میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا....وہ گڑھا جہاں ماضی کی کئی عظیم سلطنتیں روما‘ عثمانی سلطنت‘ برطانیہ اور روس دفن ہیں“۔
اب ملاحظہ فرمائیے خود امریکی کیا کہتے ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کے سابق ایڈیٹر اور امریکی وزارت خزانہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری پال کریگ رابرٹس نے اپنے آرٹیکل میں امریکہ کو ناکام ریاست قرار دیا ہے۔ ”امریکہ اپنے پروپیگنڈے کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب ریاست سمجھا جاتا ہے۔ اگر سچی بات کی جائے تو امریکہ ایک ناکام ریاست ہے۔ امریکہ کی کامیابی کا امیج تین وجوہ کی بنا پر ہے۔ (1) وسیع سرزمین اور معدنی وسائل جو امریکہ نے ظلم و تشدد کے ذریعے مقامی باشندوں سے ”آزاد“ کرائے۔ (2) پہلی جنگ عظیم میں یورپ خصوصاً برطانیہ کی خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی اور (3) کمیونزم یا سوشلزم کی وجہ سے روس اور ایشیاءکے بیشتر ملکوں کی اقتصادی تباہی۔
”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ نے امریکہ کی آئینی اور قانونی ناکامی کو مکمل کر دیا ہے۔ اقتصادی طور پر امریکہ ناکام ہو چکا ہے۔ کم مدتی منافعوں کے لئے وال سٹریٹ کے دباﺅ کے تحت امریکی کارپوریشنیں امریکی کنزیومر مارکیٹوں کے لئے ملک سے باہر جا کر مصنوعات تیار کر رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی جی ڈی پی اور بڑی تنخواہوں والی اسامیاں ان ملکوں مثلاً چین، اور ہندوستان میں چلی گئیں جہاں مزدوری اور پیشہ وارانہ صلاحیت ارزاں ہے۔ یہ عمل 1990ءسے جاری ہے۔ امریکہ اس لئے بھی ایک ناکام ریاست ہے کہ عوام کارپوریشنوں یا حکومت کا کسی بھی سطح پر احتساب نہیں کر سکتے، چاہے یہ سطح ریاستی ہو، مقامی یا وفاقی ہو، برٹش پٹرولیم خلیج میکسیکو کو تباہ کر رہی ہے۔ حکومت نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا۔ اوبامہ حکومت کا بحران کے متعلق رد عمل غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بہ نسبت اس ردعمل کے جو بش حکومت نے کترینہ ہری کین کے متعلق اختیار کیا تھا۔ امریکی عوام کو یہ احساس نہیں کہ ان کی شہری آزادیاں ضبط ہو چکی ہیں۔ انہیں بہت آہستہ آہستہ یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ ان کی اقتصادی ناکامی پر سمجھوتہ کیا جا چکا ہے۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ امریکہ کی طرف سے دوسرے ملکوں میں تباہی پھیلانے کی وجہ سے دنیا میں امریکی عوام کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکی اپنے آپ میں مگن ہیں، دنیا کے بیشتر عوام ایک ایسے ملک کی طرف دیکھ رہے ہیں جو احمق ہے اور انسان دوستی سے عاری بھی اور یہ عوام امریکیوں کی اپنے متعلق بڑی اچھی رائے پر حیران ہو رہے ہیں۔“
دوسری طرف برطانوی جریدے ”اکنامسٹ“ اور اخبار گارڈین نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ پاکستان کمزور ہو سکتا ہے لیکن ایک ناکام ریاست نہیں، پاکستانی معاشرہ مضبوط ہے۔ 
پاکستان ناکام ریاست کے زمرے میں آتا تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کی بے پایاں خواہشات اور سازشوں کے باعث اس کی دسترس میں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کے خیال سے امریکہ اور مغرب خائف، اسرائیل کی سٹی گم اور ہندو بنیئے کی دھوتی گیلی ہو جاتی ہے۔ امریکہ کامیاب مملکت کیسے کہلا سکتا ہے؟ ویتنام سے لے کر افغانستان پر یلغار تک بتائے کہاں کامیابی حاصل کی۔ امریکہ دنیا میں جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے کامیاب ریاست ہونے کی علامت نہیں، بدمعاش ریاست ہونے کی دلیل ہے۔ پاکستان ناکام ہوتا تو مسلم امہ اسے اسلام کا قلعہ قرار نہ دیتی‘ امریکہ افغانستان پر دوبار وار اور یلغار کیلئے پاکستان کا محتاج نہ ہوتا۔ ناکام محتاج ہوتے ہیں احتیاج پوری کرنے والے نہیں۔ ناکام ریاستوں کو دنیا کی ایک تہائی آبادی متفقہ طور پر قلعے قرار نہیں دیتی۔ پاکستان ناکام ریاست نہیں اس کے حکمران ذاتی مفادات کا اسیر ہونے کے باعث ناکام ہو سکتے ہیں۔ یا جوج ماجوج کی طرح باری باری پاکستان کو چاٹ رہے ہیں۔ اپنی طرف سے صفایا کرکے رخصت ہوتے ہیں لیکن خدا کے فضل و کرم سے پاکستان پھر بھی قائم و دائم اور توانا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک رہے گا۔ اگر رب ذوالجلال قائد اعظم جیسا ایک بھی رہنما چند سال کے لئے عنایت فرما دے تو پاکستان کا مقدر سنور جائے اور پاکستان حقیقت میں اسلام کا قلعہ بن جائے۔

نیلوں کے سنگم کی سرزمیں کی تقسیم

 جولائی,13 ، 2011

نیلوں کے سنگم کی سرزمیں کی تقسیم
فضل حسین اعوان
دریائے نیل میں گرنے والے دو اہم دریا نیل ابیض اور ارزق ہیں۔ قبل الذکر استوائی مشرقی افریقہ آخری الذکر ایتھوپیا سے نکلتا ہے۔ دونوں دریا سوڈان میں اس کے دارالحکومت خرطوم کی دہلیز پر باہم گلے ملتے یک رنگ و ہم آہنگ ہو کر دریائے نیل کی صورت میں اس کے پانی صحرا ¶ں اور دشت و بیبانوں میں لہراتے اور بل کھاتے مصر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جی ہاں! وہی دریائے نیل جو صدیوں سے ہر سال ایک دوشیزہ کا خون پی کر روانی پر آمادہ ہوتا تھا۔ جب مصر فتح ہوا تو اہل مصر نے فاتح مصر حضرت عمرو بن عاصؓ سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دار و مدار دریائے نیل پر ہے‘ ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ ہر سال ایک حسین جمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ہو جاتا اور قحط پڑ جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے انہیں اس رسم سے روک دیا۔ جب دریا سوکھنے لگا تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے یہ واقعہ خلیفہ وقت امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کو لکھ بھیجا۔ جواب میں حضرت عمرؓ نے تحریر فرمایا کہ دین اسلام ایسی وحشیانہ جاہلانہ رسموں کی اجازت نہیں دیتا اور آپؓ نے ایک خط دریائے نیل کے نام لکھ بھیجا اور اسے دریا میں ڈالنے کی ہدایت کی۔ اس خط کا مضمون یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب کی طرف سے نیل مصر کے نام ہے اگر تو اپنے اختیار سے جاری ہے تو ہمیں تجھ سے کوئی کام نہیں اور اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہے تو اب اللہ کے نام پر جاری رہنا‘ اس خط کے ڈالتے ہی دریائے نیل بڑھنا شروع ہوا‘ پچھلے سالوں کی نسبت چھ گز زیادہ بڑھا اور اس کے بعد سے کبھی خشک نہیں ہوا۔ 
آج نیلوں کی سنگم کی سرزمیں پر ایک طرف جشن اور رقص طرب جاری ہے تو دوسری طرف صف ماتم بچھی ہے۔ سوڈان 1956ءمیں آزاد ہوا 9 جولائی 2011ءکو اس کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے۔ سوڈان سے عیسائی اکثریت پر مبنی شمالی سوڈان کو الگ ریاست قرار دے دیا گیا۔ تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال شمالی سوڈان جنوبی سوڈان کے جسم پر اسرائیل کی طرح کا ایک ناسور ابھار دیا گیا۔ امریکہ کی نشتر زنی کے باعث یہ پھوڑا ہمیشہ رستا اور دکھتا رہے گا۔ عمر حسن البشیر 1989ءمیں اقتدار میں آئے تو سوڈان امریکہ تعلقات میں رخنہ آیا۔ امریکہ کب کسی کو معاف کرتا ہے۔ شمالی سوڈان کے لوگوں کو آمادہ فساد کیا۔ 21 سال میں 15 لاکھ انسانوں کا خون بہا دیا گیا۔ عمر البشیر پر پابندیاں اس کے ملک پر بار بار اقتصادی تجارتی اور مالیاتی پابندیاں لگائیں اور پھر 2005ءمیں سوڈانی صدر کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کروا دئیے گئے۔ ایسے میں عمر البشیر کے سامنے دو غیرت مندانہ راستے تھے ایران کی طرح امریکہ کے سامنے ڈٹ جاتا یا اقتدار سے ہٹ جاتا لیکن اس نے تیسرے راستے کا انتخابات کیا۔ ذلتوں کے راستے کا‘ امریکہ کی ڈکٹیشن مان لی اور صدام جیسے انجام سے محفوظ رہا۔ اس پر قائم ہم وطنوں کا اعتبار جاتا رہا لیکن اقتدار بچ گیا۔ وہ 68 سال کا ہونے والا ہے۔ صدارت کرتے 22 سال بیت گئے۔ اقتدار بچانے کے لئے ملک کے ٹکڑے کروانے پر اس کو کم از کم 500 سال تک اقتدار کی خیرات تو ملنی ہی چاہئے۔ دیکھئے قدرت کتنی مہلت دیتی ہے۔ بہرحال یہ امریکی صدر ریگن کے نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پیشرفت ہے۔ جس کے تحت اسلامی ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس ایجنڈے پر ہنود و یہود و نصاریٰ متحد اور متفق ہیں۔ رواں صدی کے آغاز میں انڈونیشیا کی وحدت ختم کرکے مشرقی تیمور نامی عیسائی ریاست قائم کی گئی۔ اب شمالی سوڈان کو جنوبی سوڈان سے الگ کر دیا گیا۔ عراق کو پانچ افغانستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ لیکن اس سے بھی قبل لیبیا کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو متحرک رکھنا بھی مسلم ممالک کی تقسیم کی عالمی تحریک کا حصہ ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں مغرب اقوام متحدہ کے غلامانہ کردار کے باعث اپنے مقاصد بڑی آسانی اور بڑی تیزی سے حاصل کر رہا ہے۔ اگر مسلم امہ متحد نہ ہوئی تو اسلامی ممالک ٹکڑیوں میں بٹے نظر آئیں گے۔ بدقسمتی سے اکثر مسلمان حکمران مغرب کے ایجنڈے کی آبیاری کر رہے ہیں محض اپنے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے۔ 
امریکہ نے عمر البشیر کو شمالی سوڈان میں بغاوتیں اٹھا کر اس پر پابندیاں لگا کر اور عالمی عدالت انصاف سے وارنٹ گرفتاری نکلوا کر شمالی سوڈان میں ریفرنڈم کرانے‘ اس کے نتائج تسلیم کرنے اور آزادی کی تقریب تک میں شرکت پر مجبور کر دیا۔ نیلوں کی سنگم کی سرزمین کی تقسیم کا عمل محض 21 سال میں مکمل ہو گیا۔ مسئلہ کشمیر 64 سال سے دہک رہا ہے۔ اس کی طرف عالمی برادری کی نظر نہیں جاتی۔ بھارت خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ جس نے اس مسئلے کا حل کشمیریوں کیلئے حق خودارادیت قرار دیا جسے بھارت نے بھی قبول کیا۔ امریکہ اقوام متحدہ اور اس مسئلے کا خالق برطانیہ ویسا ہی دبا ¶ بھارت پر استصواب کے لئے کیوں نہیں ڈالتے جیسا سوڈان پر شمالی سوڈان میں ریفرنڈم پر ڈالا۔ جس طرح انڈونیشیا پر مشرقی تیمور کی علیحدگی پر ڈالا؟ یقیناً اس لئے کہ شمالی سوڈان اور مشرقی تیمور کے آباد کار عیسائی اور کشمیر کے مسلمان ہیں۔ مسلمان یونہی بٹے ایک دوسرے سے کٹے رہے تو تنہائیاں‘ رسوائیاں بن کر ان کی ذلتوں کا سامان اور نشان بنتی رہیں گی حل ایک ہی عالم اسلام کے اتحاد ہیں۔ اتفاق میں اور ایک دوسرے کے لئے ایثار ہیں۔

Tuesday, July 12, 2011

منگل ، 12 جولائی ، 2011


بے رحمانہ احتساب
فضل حسین اعوان 
ہم چرچل کے افکار سے رہنمائی کیوں لیں‘ ہم مستنیر (جس کی چمک کسی اور کی روشنی کی محتاج ہے) سے مستفید کیوں ہوں؟ ہمارے پاس تو خود منبعِ ہدایت موجود ہے‘ سراج اور سراجاً منیرا موجود ہے‘ جس منیر سے مغرب مستفید ہو رہا ہے‘ ہم کیوں نہ ہوں۔ چرچل نے کئی صدیوں بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بات دہرا دی کہ ملک میں انصاف کا دورہ ہے تو مملکت کو خطرہ نہیں۔ حضرت علی نے فرمایا تھا‘ ”کفر کی حکمرانی چل سکتی ہے‘ ظلم کی نہیں“۔ جس معاشرے میں انصاف نہ ملے یا بکنے لگے تو یہی ظلمت و ضلالت ہے‘ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں‘ انصاف بکتا‘ سائل بھٹکتا‘ منصف کہیں مصلحتوں کی بھینٹ چڑھتا اور کہیں انصاف کا خون کرتا نظر آئیگا۔ خود کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھنے والے منصف بھی یقیناً موجود ہیں لیکن انکی تعداد اتنی ہی ہے جتنی ہمارے وزیروں مشیروں کی بیگمات کی‘ سیلاب فنڈ میں زیورات جمع کرانے والیوں کی۔ ظلم کا خاتمہ تو یقینی ہے‘ اگر یہ قہر خداوندی کے ساتھ ہوا تو سوچیئے‘ غور فرمائیے‘ کون محفوظ رہ سکے گا۔ کسی اور نے نہیں پنجاب کے سب کے بڑے منصف نے پنجاب کی ماتحت عدلیہ کی کارکردگی کے چہرے سے نقاب سرکایا تو انصاف کا کیسا چہرہ نظر آیا‘اجلا‘ چمکتا‘ جگمگاتا ہوا ہے یا دھندلا‘ مرجھایا اور کملایا ہوا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اعجاز احمد چودھری نے ججوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”جوڈیشل پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے پاکستان بھر میں سب سے زیادہ خراب صورتحال پنجاب میں ہے۔ ماتحت عدلیہ کا 90 فیصد عملہ کرپشن میں ملوث ہے۔ اچھی شہرت کے حامل سیشن ججوں کی تعیناتیاں کی گئیں مگر کرپشن کے قلع قمع کے حوالے سے توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ مقدمات نمٹانے کا کام اس رفتار سے نہیں چل رہا‘ نئے مقدمات تو ایک طرف‘ ابھی تک 95 اور 96ءکے مقدمات بھی زیر التواءہیں۔ ہم نے پنجاب بھر میں اچھی شہرت کے حامل سیشن جج صاحبان کی تقرریاں کی تھیں تاکہ وہ بہتر طور پر کام کر سکیں اور ماتحت عدلیہ سے کرپشن کا قلع قمع کر سکیں لیکن ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے اور وہ کام نہیں ہو رہا جس کی توقع کی تھی۔ ہم غلط شہرت رکھنے والوں کو فارغ اور اچھی شہرت کے حامل جوڈیشل افسران کی حوصلہ افزائی کرینگے۔“ 
جج صاحب نے 95ءاور 96ءسے زیر التواءمقدمات کی بات کی ہے۔ پندرہ سولہ سال میں کتنے ہونگے جو انصاف کیلئے ترستے ترستے موت کی وادی میں دل میں منصفوں کے بارے میں آزار اور فگار لے کر اتر گئے۔ انصاف کا قتل صرف ماتحت ہی نہیں‘ اعلیٰ اور عظمٰی عدالتوں تک میں بھی ہوتا چلا آرہا ہے۔ جہاں قتل‘ غداری اربوں کھربوں کی لوٹ مار کے مقدمات ہوں وہاں عتیقہ سے شراب کی بوتل برآمدگی پر اسے نشانِ عبرت نہ بنانے پر سوموٹو ؟ ایک مونس الٰہی کیس پوری حکومت اور عدلیہ پر بھاری پڑ گیا۔ مسٹر جسٹس اعجاز چودھری کی آخری بات بڑی غور طلب ہے ”ہم غلط شہرت رکھنے والوں کو فارغ کرینگے“ بڑی اچھی بات ہے لیکن فارغ کب کرینگے؟ انصاف کا خون اور عدلیہ کو بدنام کرنےوالے ججوں کو تو ایک لمحہ کےلئے برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ججوں کی تنخواہیں دگنا کردی گئیں‘ پھر بھی کوئی رشوت لے یا رشوت لینے والے اپنے ساتھیوں کو برداشت کرے تو اسے اس مقام پر رہنے کا کیا حق ہے۔ آپ کرپشن غفلت اور کوتاہی پر سخت ایکشن لیں‘ 20 میں سے اٹھارہ بھی کرپٹ ہوں تو ان کا محاسبہ کریں۔ اگلے اٹھارہ میں سے مزید دو ایماندار مل جائینگے۔ دیانتداروں کی تعداد بڑھانے کیلئے نہ صرف عدلیہ بلکہ فوج پولیس اور دیگر محکموں میں بھی کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔ 
بالکل ایسے احتساب کی جس طرح آسٹریلیا میں پولیس کمشنر بل ایلسن نے رشوت کے پیسے سے سڈنی میں محل نما گھر تعمیر کرلیا تھا‘ اسکی انکوائری ہو رہی تھی‘ اس دوران ایک کاروباری شخص نے ایلسن اور اسکی فیملی کو امریکہ اور جاپان کی سیر کرائی۔ ان اخراجات کی ادائیگی بذریعہ چیک ہوئی جس کے باعث ملزم آسانی سے مجرم بن گیا جس کی پاداش میں بل کو آئی جی کے عہدے سے ہٹا کر تھانیدار بنا دیا گیا۔ بتایئے آسٹریلیا میں اس واقعہ کے بعد کون لوٹ مار کرنے کی جرا ¿ت کریگا؟ چلتے چلتے امریکہ کی بھی ایک مثال ملاحظہ فرما لیجئے۔
مئی 2005ءمیں امریکی فوج کی بریگیڈیئر جنرل جینس کارپنسکی کی ابوغریب جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی کے معاملے میں کوتاہی برتنے پر کرنل کے عہدے پر تنزلی کردی گئی تھی۔ اس سے بھی قبل ڈسپلن کی خلاف ورزی پر جنرل ولیم لنڈرم بلی مچل کو 1925ءکو کرنل بنا دیا گیاتھا‘ اسکی امریکی فضائیہ کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں‘ اس کو امریکہ کا بابائے فضائیہ (Father of Air Force) کہا جاتا ہے۔ ترک وزیراعظم طیب اردگان نے اقتدار کے رسیا جرنیلوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا‘ سازشی بری‘ بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو انکی ریٹائرمنٹ کے بعد ساتھیوں سمیت جیل میں ڈالا‘ دو ماہ قبل ایک ایئرچیف مارشل جوفل جرنیل کے برابر ہوتا ہے‘ کو اسکے دفتر سے گرفتار کرکے قید کر دیا۔ اسکے برعکس پاکستان میں اس قسم کے واقعات پر صرف میڈیا میں چند روز شور ہوتاہے‘ اسکے بعد مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ معاشرے میں زندگی کی روانی و شادمانی اور ظلمت ضلالت و تاریکی سے نکلنے کیلئے کڑا احساب‘ ہر ادارے اور شعبے میں ناگزیر ہو چکا ہے۔