About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, July 20, 2011

بھارت کا افغانستان میں قبرستان

 بدھ ، 20 جولائی ، 2011

بھارت کا افغانستان میں قبرستان
فضل حسین اعوان 
صدر اوباما نے افغانستان سے 2014ءتک جس انخلا کی بات کی اس کی ابتدا 650 فوجیوں کی واپسی سے ہو گئی۔ اوباما کے اعلان کے مطابق رواں سال کے آخر تک 10 ہزار اور اگلے سال ستمبر تک مجموعی طور پر 33 ہزار فوجی افغانستان چھوڑ دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2009 کی سطح پر آ جائے گی۔ 2009 میں اوباما نے 30 ہزار فوجی افغانستان بھجوائے تھے۔ ستمبر 2012 میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ رہ جائے گی۔ 2009 میں بھی ایک لاکھ امریکی فوجی افغانستان کو فتح کرنے کے لئے سرگرداں تھے۔ امریکہ نے افغانستان کو تاراج تو کیا اسے فتح کرنے کا تاج سر پر نہ سجا سکا۔ محض 650 امریکی فوجی جب کوچ کرنے کے لئے اپنا بوریا بستر باندھ رہے تو عین اس وقت حامد کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی کو اس کے محافظ سید سرور جان نے قتل کر دیا۔ سرور جان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کمانڈر رہ چکا ہے۔ گو طالبان نے ولی کرزئی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم اس سے امریکی حکام بھی خوش نہ تھے۔ امریکی اس کی کرپشن، فوجی معاملات میں مداخلت، ہر شعبے میں کمشن سے تنگ تھے۔ وہ اسے مافیا ڈان سمجھتے۔ جنرل پیٹریاس سے اس کی ملاقاتیں رہتیں۔ پیٹریاس نے اسے قندھار میں بڑے عہدوں کی تعیناتیوں میں مداخلت سے منع کیا تھا۔ افغان صدر کے بھائی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد ولی کرزئی کی ڈرگ ٹریڈ میں اجارہ داری تھی۔ دنیا کے سب سے بڑے ہیروئن سمگلر کا اعزاز بھی اسے حاصل رہا۔ اس کے محافظوں کی تعداد 500 تھی تمام کا تعلق اس کے اپنے قبیلے پوپلزئی سے تھا جن کی تنخواہ 3 لاکھ سے پانچ لاکھ افغانی تھی۔ اب شاید وہ امریکہ کے کام کا نہیں رہا تھا اس لئے امریکہ نے اسے مروا دیا یا طالبان کے ہاتھوں مرنے دیا۔ اگر طالبان نے مروایا تو یہ امریکہ کے لئے بڑا پیغام ہے کہ افغانستان سے نکل رہے ہو تو اس ملک سے اپنا سایہ بھی سمیٹ کر ساتھ لے جاﺅ۔ یہ سرزمین ہمیشہ جارح کا قبرستان بنی ہے۔ ابھی دوسرے امریکی دستے نے واپسی کی تیاری بھی نہیں پکڑی کہ احمد ولی کرزئی کے قتل کے چوتھے روز حامد کرزئی کے خصوصی مشیر جان محمد خان کو قتل کر دیا گیا۔ افغان دشمن کا سینہ تان کر مقابلے کا شہرہ تو رکھتے ہی ہیں بھاگتے دشمن کا تعاقب کر کے موت سے ہمکنار کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ 1842 میں ساڑھے 16 ہزار برطانوی فوجیوں کو کابل سے جلال آباد چھاﺅنی کی طرف فرار کے دوران ایک ایک کو بھون ڈالا تھا۔ صرف ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کے انجام سے جارحیت کے عزائم لئے جلال آباد چھاﺅنی میں موجود انگریز افسروں کو آگاہ کر سکے۔ جان محمد خان کے قتل کے اگلے روز طالبان نے اپنی کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے 11 پولیس افسروں اور اہلکاروں کو ضلعی سربراہ سمیت مار ڈالا۔ ادھر جنرل پیٹریاس سبکدوش ہوئے جنرل جان ایلن نے افغانستان میں اتحادی افواج کی سربراہی سنبھالی اُدھر طالبان نے ننگرہار میں 6 امریکی فوجیوں کو قتل کر کے ایلن کو سلامی دیدی۔ امریکہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں لاﺅ لشکر کے ساتھ افغانستان آیا۔ وہ مقصد اس نے ایبٹ آباد میں آپریشن کے ذریعے اسامہ کے مبینہ قتل سے حاصل کر لیا۔ اب اسے اصولی طور پر جن سے حکومت چھینی تھی ان کے حوالے کر کے چلتا بننا چاہئے۔ یا افغانوں کو ان کی حالت پر چھوڑ کر چلا جائے۔ لیکن اس کی نیت میں فتور ہے۔ وہ افغانستان سے اپنی فوج تو واپس لے جانے کا اعلان کر چکا ہے خود اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ طالبان کی جارحانہ کارروائیوں کا بہانہ بنا کر فوجی انخلاءکے وعدے سے کسی بھی وقت مکر سکتا ہے۔ جنگ ہو یا امن کہہ مکرنی اس کا چلن ہے۔ اتوار 17 جولائی کو بامیان صوبہ کی سکیورٹی افغان فورسز کو سونپ دی گئی۔ افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان وحید عمر نے میڈیا کو بتایا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں مقامی فورسز کو حوالے کرنے کا عمل باضابطہ طور پر شروع ہو گیا ہے اور پہلے مرحلے میں افغان سکیورٹی فورسز نے صوبہ بامیان کی سکیورٹی کے فرائض سنبھال لئے، سکیورٹی کی منتقلی کا عمل 2014ءکے آخر تک مرحلہ وار مکمل ہو گیا۔ افغانستان سے اتحادی فوج کے انخلاءکا مقصد افغانستان کو ہرگز اکیلا چھوڑنا نہیں، افغانستان سے انخلاءکے بعد بھی غیر ملکی طاقتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گی اور افغان فورسز کو تربیت اور آلات کی فراہمی کا عمل جاری رہے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جہاں خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں بے گناہوں کا خون بہا یا وہیں اپنے ہزاروں فوجیوں کے بھی تابوت اٹھائے۔ اب وہ افغانوں کو افغانوں سے لڑا کر ایک دوسرے کا خون کرا کر تماشا دیکھنا چاہتا ہے۔ افغان نیشنل آرمی نہ صرف بامیان میں کامیابی سے سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے گی بلکہ اسے جنوب کے ایک اور شمال مغربی 6 صوبوں میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اس کا امتحان مشرق اور جنوب کے پختون اکثریتی صوبوں میں تعیناتی سے شروع ہو گا۔ افغان نیشنل آرمی میں پختونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان علاقوں میں امریکی اور اتحادی فوج کی جگہ نیشنل آرمی لے گی تو جنگجو پختون اسے کاٹ کے رکھ دیں گے۔ امریکہ کے لئے عراق کی طرز پر افغانستان میں فوج کے بغیر کٹھ پتلیوں کے زور پر موجود رہنا ممکن نہیں۔ خود کو اپنے اتحادیوں اور کرزئی جیسے غلاموں کو خونریزی سے بچانے کے لئے بہتر ہے ملا عمر سے براہِ راست مذاکرات کر کے یکبارگی ساری فوج نکال کر لے جائے۔ امریکہ انتظامیہ اور میڈیا پاکستان میں ملا عمر کی موجودگی اور کوئٹہ میں طالبان شوریٰ کی سرگرمیوں کا الزام لگاتا ہے۔ ملا عمر سے ملا عبدالبصیر نے افغان خاتون رکن پارلیمنٹ ہما سلطانی کی ملاقات کرا دی۔ جو افغانستان میں ہی ہوئی۔ یہ ملاقات امریکی ایما کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ دیگر طالبان سے امریکہ براہِ راست مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان پر طالبان سے دور رہنے کے لئے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ عمران خان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ حکومت وسیع تر قومی مفاد میں اسے قبول کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں خونریزی کا سلسلہ بند کرا سکتی ہے۔ امریکہ فوجی انخلا کے بعد افغانستان کو اپنی کالونی کا درجہ دیکر خود براجمان رہنے کی پلاننگ کر چکا ہے۔ وہ جہاں بھارت کو بھی کردار دینا چاہتا ہے۔ اس سے شاید بہت سے لوگ اختلاف کریں لیکن بہت سے متفق بھی ہیں کہ بھارت کو افغانستان میں کردار دیا جانا چاہئے۔ یقین کیجئے افغانوں یا طالبان کے ہاتھوں ان کی سرزمین پر موجود ایک بھی بھارتی فوجی یا سفارتکاروں کے بھیس میں تخریب کارسلامت نہیں رہے گا۔ قائداعظم کے قرار دیئے ہوئے پاکستان کے بازوئے شمشیر زن بھی آسانی سے ان پر جھپٹ سکیں گےاور پھر جب آئی ایس آئی بھی بھارت کا افغانستان میں قبرستان بنانے کا پاکستان کے پاس یہ بہترین موقع ہو گا۔


No comments:

Post a Comment