8-7-2011
کرپشن ناسُور
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 20 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
بھارت میں کرپشن کے خلاف 19 فروری کو مرن برت پر بیٹھا سوامی نگم آنند سرسوتی 16 جون کو اپنی جاں سے گزر گیا۔ ایک اور سماجی رہنما انا ہزارے بھی سوامی نگم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے موت کی دہلیز پر تھا۔ سول سوسائٹی اس کی حمایت میں نکل آئی تھی کہ منموہن سنگھ نے کل جماعتی کانفرنس طلب کی۔ جس میں تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں نے اتفاقِ رائے سے انسدادِ بدعنوانی بل پارلیمنٹ کے مون سون سیشن میں لانے کا فیصلہ کیا۔ بھارتی پارلیمنٹ انسدادِ بدعنوانی (محتسب۔ لوک پال) ادارہ تشکیل دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت میں کرپٹ لوگوں کے لئے سزائے موت تجویز کر دی جائے۔ کل جماعتی کانفرنس میں استثنٰی پر اختلاف پایا گیا۔ اکثر پارٹیوں کا خیال تھا کہ کرپشن کے زمرے میں جو بھی آئے جج جرنیل صدر یا وزیراعظم کسی سے رعایت نہ کی جائے۔ منموہن سنگھ کی چونکہ ان کے پاکستانی ہم منصب سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ گاڑھی چھنتی ہے حالیہ دنوں فرمایا منموہن سنگھ کو مسئلہ کشمیر کے حل پر قائل کر لیا ہے۔ موہالی میں کرکٹ ورلڈکپ سیمی فائنل منموہن کی پگڑی پر وار کر لوٹے تو بھی ہمارے وزیراعظم نے خوش گمانی کا اظہار کیا تھا ”منموہن کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتے ہیں“ گیلانی پر منموہن کی چرب زبانی کے گہرے اثرات ہوئے تو منموہن پر گیلانی کا قدرے سایہ پڑنا بھی قدرتی امر ہے۔ منموہن عدلیہ اور وزیراعظم کے لئے کرپشن کے حوالے سے استثنٰی چاہتے ہیں تمام جماعتیں یک زبان ہیں کہ نہیں، کرپٹ کوئی بھی ہو قابلِ معافی نہیں“ استثنٰی کا درس ہو سکتا ہے ہمارے وزیراعظم نے دیا ہو۔
اتفاق ملاحظہ فرمائیے۔ ہمارے ازلی اور ابدی دشمن کے ہاں جب کرپشن پر قابو پانے کی جنگ جاری ہے۔ عین اُس وقت ہمارے ہاں کرپشن کے فروغ کی ترنگ جاری ہے۔ آئی این سی ایل کیس میں بڑے بڑے نام آتے ہیں ان کو بچانے کے لئے حکومت نے سپریم کورٹ تک کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ بھارت میں کرپشن کے باعث بیرونی سرمایہ کاری محض ایک سال میں نصف رہ گئی۔ ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھی کرپشن ہے۔ جو سب سے زیادہ اعلیٰ سطح پر ہوتی ہے۔ انرجی کی قلت کے باعث لوگوں کے کاروبار ٹھپ، بیروزگاری کا عالم اور بھوک رقص کناں ہے۔ حکومت نے عوام کو یہ سوغاتیں شاید اپنے انداز خسروانہ سے ان کی نگاہیں ہٹانے کے لئے دی ہیں۔ دیدہ دلیری یا عقلِ سلیم کی سطح کا انداز فرمائیے وزیراعظم گیلانی فرماتے ہیں کرپشن اور اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ عقل سلیم کی سطح کا اس لئے تذکرہ کیا کہ ساتھ ہی فرمایا ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہے۔ اس کے نوازشریف کے پنڈولم کی جھولتے گرینڈ الائنس میں شرکت کے باوجود۔ مزید فرمایا بھارت میں کرپشن کے خلاف سیاسی جماعتوں کا اتحاد انکا اپنا معاملہ ہے۔ اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ صحافیوں نے تو پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لئے ایسے اقدامات کرنے کی بات کی تھی۔ انہوں نے سوال گندم جواب چنا دیدیا۔ آگے بڑھتے ہوئے فرماتے ہیں فوجی حکومتوں پر کبھی کرپشن کے الزامات نہیں لگے۔ صرف سیاسی حکومتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم صاحب بتائیں کہ سیاسی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات کس نے لگائے؟ خود سیاستدانوں نے ہی لگائے۔ گیلانی صاحب تو یقیناً آگاہ ہیں نئی نسل 90 سے 99 تک کی سیاسی تاریخ، سیاست اور حکومتوں کی شکست ریخت ملاحظہ فرما لے۔ آج کا ہر بڑا لیڈر ”بوٹ پالش“ کر کے مقامِ عظمتِ نشان تک پہنچا۔ فوجی حکومتوں نے کرپشن کی تو محاسبہ سیاستدانوں نے کرنا تھا۔ خود گیلانی صاحب جنرل ضیاءالحق کے کندھے کے ساتھ کندھا ملائے کھڑے رہے۔ انہوں نے خود اس دور کی کتنی کرپشن بے نقاب کی؟ اب ماشاءاللہ طاقتور وزیراعظم ہیں۔ مشرف دور کی کرپشن عیاں کریں۔ معاف کرنا آپ تو اس پر مٹی ڈال رہے ہیں سب سے بڑا ثبوت ظفر قریشی کی بازیاں لگوانے کے لئے حیلہ سازیاں ہیں۔
کرپشن ککھ کی ہو یا لکھ کی۔ کروڑوں کی یا اربوں کھربوں کی، ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے زہر قاتل اور بیخ کنی کے قابل ہے۔ ہر قسم کی کرپشن پر قابو پانا ہو گا۔ ایک تازہ ترین رپورٹ ملاحظہ فرمائیے جس میں کہا گیا ہے کہ 4 سال کے دوران پنجاب کی بیورو کریسی نے بیرونی دوروں پر اربوں روپے پھونک دئیے۔ بعض افسر دوروں کا پروگرام تشکیل دے کر خود ہی چلے جاتے ہیں۔ ایسے افسر بھی گئے جن کا دورے کی نوعیت کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں تھا۔ کئی افسروں نے غربت کے خاتمے کے لئے دورے کئے لیکن ان کے دورے مزید غربت کا باعث بنے۔ کئی کو ریٹائرمنٹ سے قبل دورہ کرا دیا گیا۔ ایک الیکٹرک انسپکٹر کو سمندر میں ریسکیو ٹریننگ اور سمندری مچھلی کے کاروبار کی مینجمنٹ کے لئے باہر بھجوایا گیا۔ اب یہ صاحب کونسے سمندر میں کونسی ریسکیو کر رہے ہیں۔ ان کو کراچی یا گوادر بھجوا دینا چاہئے۔ ایسے بے مقصد دورے مرکز اور دوسرے صوبوں کے افسر بھی کرتے ہیں۔ یہ کیا کسی کرپشن سے کم ہے۔
کرپشن جو ہمارے معاشرے ملک و قوم کی دشمن اور رستہ ہوا ناسور ہے۔ اسے ہر صورت ختم ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے دیانتدار پارلیمنٹیرین اپنا کردار ادا کریں۔ سیاسی پارٹیاں کرپشن کے خاتمے کی بات ضرور کرتی ہیں بدقسمتی سے اکثر پارٹیوں کے اکثر لیڈروں کا یہ دھندہ اور وتیرہ ہے۔ اس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہئے عوام بھی اپنے نمائندوں پر کرپشن کے خلاف اقدامات کے لئے دباﺅ ڈالیں۔ غیر جانبدارانہ اور بے رحمانہ احتساب کا معاشرے میں چلن ہو جائے تو 90 فیصد عوامی مسائل صرف اسی سے ختم ہو سکتے ہیں۔ کرپٹ لوگوں کے لئے سزائے موت نہیں تو اس سے کم بھی سزا نہیں ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment