About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, September 30, 2012

سازش؟.... پس آئینہ



 اتوار ,30 ستمبر ,2012
   
سازش؟.... پس آئینہ

شرف زرداری دور کے وزرائے خارجہ کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے۔ ان وزرائے خارجہ میں آج کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نسبتاً باصلاحیت ہیں۔ حکومتی موقف کو ساتھ لیکر چلنا کابینہ کے ہر رکن کی ذمہ داری ہے۔ حنا کو بھی ایسا کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت وزیر خارجہ ان کے بیانات عموماً عوامی امنگوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ حنا کو شاہ محمود قریشی کی جگہ وزیر خارجہ بنایا گیا تو اس وقت کی میڈیا رپورٹس میں کہاجارہا تھا کہ حنا کی تعیناتی میں فوج کی مشاورت یا حمایت شامل ہے۔آج حنا ربانی کھر کو گھٹیا سکینڈلز میں گھسیٹا جارہا ہے۔ایک بنگلہ دیشی اخبار بلٹز نے چند روز قبل حنا ربانی کھر کے بلاول بھٹو زرداری سے معاشقے کی ایسی خبر شائع کی جس کے مندرجات خود اس کے من گھڑت ہونے کی چغلی کھاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:”پاکستانی خاتون وزیر خارجہ اور بلاول زرداری بھاگ کرجلد ہی سوئٹزر لینڈ میں شادی کرنےوالے ہیں۔ یورپ کی ایک بہت ہی اعلیٰ خفیہ ادارے نے اپنی مصدقہ رپورٹ میں پاکستان کی کم عمر خوبرو وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور پاکستانی صدر زرداری کے اکلوتے نوجوان بیٹے بلاول کے درمیان پلنے والے رومانس کا تفصیل اور ویڈیوز کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ بلاول بھٹو پاکستان کے سب سے بڑی پارٹی پی پی پی کے صدر بھی ہیں اور مقتولہ بے نظیر بھٹو کے اکلوتے بیٹے اور سوئٹزر لینڈ میں چھپائی گئی ان کی اربوں ڈالر کی خفیہ دولت کے قانونی وارث بھی ہیں۔ بلاول زرداری نے جب سے اپنے والد اور پاکستانی صدر زرداری کو یہ فیصلہ سنایا ہے کہ وہ حنا ربانی کھر سے شادی کرنے جا رہے ہیں تب سے وہ شاک میں ہیں اور باپ بیٹے کے درمیان سرد جنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ عین اسی دوران حنا ربانی کھر نے اپنے ارب پتی شوہر فیروز گلزار کو بتا دیا ہے کہ وہ بلاول سے عشق کرتی ہیں اور ان سے شادی کرنا چاہ رہی ہیں اس لئے وہ انہیں طلاق دےدیں۔ حنا ربانی کھر کی اس شوہر سے دو بیٹیاں ہیں جن کے نام انایا اور دینا ہیں۔ حنا ربانی کھر 19نومبر 1977ءکو پیدا ہوئی تھیں اور انکے والد مشہور اور متنازعہ سیاستدان ”غلام مصطفی کھر“ ہیں۔ یہ بھی اپنی بیویوں کےلئے مشہور رہے ہیں اور ان کی رومانوی داستانیں دلچسپی سے سنائی جاتی ہیں۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حنا ربانی کھر اور بلاول کے درمیاں تعلقات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایوان صدر اسلام آباد میں صدرزرداری نے اپنی آنکھوں سے دونوں کو تنہائی میں دیکھ لیا۔ حناربانی ایوان صدر آئی تھیں جبکہ بلاول وہیں پر مقیم ہیں۔ اس کے بعد صدر زرداری نے دونوں کے موبائل کا ریکارڈ نکلوایا تو ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے۔“ بیان کا تضاد ملاحظہ فرمائیے حنا ربانی کو غلام مصطفیٰ کھر کی بیٹی کہا گیا ہے حالانکہ ان کے والد نور ربانی کھر ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا میں یہ خود ساختہ سکینڈل سامنے آیا تو اس وقت حنا ربانی کھر امریکہ میں تھیں۔ آج کے فاسٹ میڈیا دور میں کوئی بھی خبر چند لمحات میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔ حنا ربانی کو اس وقت اس کی تردید کردینی چاہئے تھی۔ اب انکی طرف سے تو تردید آگئی بلاول فیملی کی طرف سے تادمِ تحریر خاموشی ہے۔ یہ پاکستان کے دو معزز خاندانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ وضاحت میں تاخیر سے لوگ سنی سنائی اور اڑی اڑائی باتوں کو ہی حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔یہ سکینڈل کیوں منظر عام پر آیا؟ ہوسکتا ہے کہ حنا ربانی کھر کے حاسدوں کی کارستانی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی فریق اس سے اپنے مقاصد حاصل کرناچاہتا ہو۔ اس کی ایک مثال گزشتہ سال فروری 2011ءکے شروع کا ایک سکینڈل ہے۔ جس میں صدر آصف علی زرداری کی پاکستانی نژاد امریکی خاتون سے شادی کی خبریں شائع ہوئیں۔ ایک قیاس ملاحظہ فرمائیے۔”تنویر زمانی کو کل تک کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب وہ اِدھر آئی ا±دھر شہرت کے آسمان پر چھائی، کوئی اسے حسن کا غرور اور کوئی دلبری کا نازکہہ رہا ہے، کوئی دل کے تاروں کو چھیڑنے والا نغمہ زمانی کی عمر 40 سال، امریکی شہریت کی حامل‘ گ±نوں کی پوری، مالی حالت مضبوط‘ کسی کے بھی احساسات و جذبات تک خریدنے کے قابل‘ اردو اور انگلش خطاب پر یکساں عبور حاصل‘ لہجے کی لے‘ آواز کے سروں اور ناز و ادا سے محفل پر سحر طاری کر دے۔ پیشہ ڈاکٹری اور برطانیہ سے عالمی سیاست میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی دعویدار.... صدر پاکستان آصف علی زرداری سے شادی کی افواہ نے انٹرنیٹ اور میڈیا میں طوفان برپا کر دیا۔“ کچھ عرصہ بعد سکینڈل کا ہمالہ کھودا گیا تو نیچے سے تنویر زمانی کی خود کو نمایاں کرنے کی آرزو برآمد ہوئی۔ بلاول اور حنا کے مبینہ معاشقے کے سکینڈل کو کس نے کس نیت اور مفاد کیلئے بُنا اس کے پیچھے کوئی سازش ہے یا خواہش اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک برطانوی اخبار نے اسے پاک فوج کو بدنام کرنے اور آئی ایس آئی پر وار کیلئے استعمال کیا ہے۔ ڈیلی ٹیلیگراف نے لکھا ہے ”ربانی کھر اور ان کے شوہر نے ان دعوﺅںکو ناقابل یقین اور بکواس قرار دے کر مسترد کر دیا ہے لیکن افواہیں پاکستان میں عام ہو چکی ہیں اور اب اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں انہیں کسی سازش کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ پی پی پی کی سینئر شخصیات نے جمعرات کو کہا کہ یہ آئی ایس آئی کی سازش ہے جس نے حنا ربانی کھر کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی کیونکہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان میں گم ہو جانے والے ہزاروں لوگوں کی اقوام متحدہ کی جانب سے تحقیقات کیلئے کردارادا کیا جو فوج کی قید میں تھے۔ پی پی پی کے ایک عہدہ دار نے ٹیلیگراف سے کہا کہ آئی ایس آئی توقع کر رہی ہے کہ لوگوں کی گمشدگی کے بارے میں اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ فوج اور انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدہ داروں پر الزام لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کرسکتا ہے جبکہ اس گروپ کو آمد کی سہولت فراہم کرنے کا الزام کھر پر ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف پر ہی کیا موقوف پورا مغربی میڈیا اور مغرب آئی ایس آئی کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ڈالر نچھاور کرنے والوں نے تو ایک مرتبہ آئی ایس آئی کو وزیر داخلہ رحمن ملک کے ماتحت بھی کرادیا تھا۔ وہی رحمن ملک جن کی ”دیانت اور صداقت“ پر سپریم کورٹ نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اقوام متحدہ کا وفد جاتے جاتے لاپتہ افراد کے حوالے سے حساس اداروں پر ملبہ ڈال گیا۔ اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کے سربراہ الیوردی نے 20 ستمبر 2012 کو اسلام آباد میں پورے پاکستان کے دورے کے دوران مختلف حلقوں اور شخصیات سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بلوچستان میں 14ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ملیں۔ حکام سو سے بھی کم کی تصدیق کرتے ہیں۔ لواحقین نے ایجنسیوں پر الزام لگایا ہے اس گروپ نے سفارش کی تھی کہ کسی کو لاپتہ کرنے کا حکم نہ ماننے کا قانون ہونا چاہئے انٹیلی جنس اور سیکورٹی حکام کو جوابدہ بناناچاہئے۔ ہو سکتا ہے ایجنسیاں قومی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے کچھ لوگوں کو اٹھالیتی ہوں لیکن اس پر ہر برائی کا الزام لگا دینا بد باطنی ہے۔ ٹیلیگراف نے پیپلزپارٹی کے اہم رہنماﺅں کی طرف سے بلاول حنا معاشقے کی تخلیق کا الزام آئی ایس آئی پر لگا دیا لیکن ان رہنماﺅں کے نام نہیں بتائے جس طرح بنگلہ دیش بلٹز نے معاشقے کے حوالے سے بے پرکی اڑائی اسی طرح برطانوی اخبار نے بھی اپنے اندر موجود آئی ایس آئی کے خلاف خبث پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کا بغیر نام لئے بیان کرکے نکال دیا۔ لہٰذا قوم محتاط رہے ہم کسی کے کردارکی پاکیزگی کی وکالت نہیں کرتے تاہم شواہد ایسا راستہ 
نہیں دکھاتے جن سے الزام کی صداقت ثابت ہوتی ہو۔


Thursday, September 27, 2012

ڈاکٹر اے کیو خان سیاست میں؟


27-9-2012


   
ڈاکٹر اے کیو خان سیاست میں؟




27 ستمبر 2012 0    

 تحریک تحفظ پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر چودھری خورشید زمان نے 17 ستمبر 2012ءکو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان سیاسی پارٹی بنا کر ملک کے سیاسی ایوانوں ہلچل مچا دی ہے۔ آئندہ الیکشن میں ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خان انتخابی سیاست میں بھی حصہ لیں گے۔ اس تاثر کو اس خبر سے مزید تقویت ملی کہ تحریک تحفظ پاکستان اور مسلم لیگ ن حقیقی کے مابین اتحاد ہوا ہے۔ اسی صورتحال پیشِ نظر میڈیا میں ڈاکٹر صاحب کے سیاست میں آنے کے بارے میں مثبت اور منفی ردعمل سامنے آیا۔ ڈاکٹر صاحب کی سیاست میں آمد سے جن پارٹیوں کو اپنی سیاست کی کشتی بھنور میں پھنسنے اور دلدل میں دھنسنے کا خوف تھا‘ اسکے ترجمانوں کا آپے سے باہر ہونا فطری امر تھا۔ ڈاکٹر خان نے یہ وضاحت کرکے کہ ان کا انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں‘ مذکورہ پارٹیوں کا خوف کسی حد تک کم کر دیا لیکن یہ پارٹیاں مکمل طور پر مطمئن نہیں۔ 
ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ 76 سال کی عمر اور صحت کے کچھ مسائل کی وجہ سے پاکستان کی مروجہ سیاست میں فعال کردار ادا نہیں کر سکتے۔ جلسے‘ جلوس اور اجتماعات کا انعقاد اور ان میں شرکت جس فعالیت کی متقاضی ہے‘ وہ میرے لئے ممکن نہیں۔ ویسے بھی سیکورٹی خدشات اپنی جگہ ہیں۔ آج ملک جن بحرانوں میں گھرا ہوا ہے‘ بیرونی طاقتیں پاکستان کو نقصان پہنچانے بلکہ جو اسے توڑنے کیلئے سرگرم ہیں‘ ان کو ملک کے اندر سے بھی نہ صرف مزاحمت کا سامنا نہیں بلکہ کچھ عناصر ان طاقتوں کی سازش میں‘ معاون بھی ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب بھی عام پاکستانی کی طرح دل گرفتہ ہیں۔ وہ ملک کو مسائل اور عوام کو مصائب سے نکالنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ وہ آج کی ہر بڑی پارٹی سے مایوس ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول حاصل کرنا اور پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔ جو کام وہ طاقت سے نہیں کر سکا‘ اس کیلئے اس نے پاکستان سے ہی کچھ لوگوں کو ساتھ ملا لیا ہے۔ پاکستان کو توڑنے کی ابتدا بلوچستان سے کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ایران کبھی پاکستان کیخلاف نہیں رہا‘ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا ایران پر الزام بے بنیاد ہے۔ اس نے ایسا کرنا ہوتا تو کب کا کر چکا ہوتا۔ وہ پاکستان کا خیرخواہ‘ دوست اور پاکستان کو مضبوط کرنے اوردیکھنے کا خواہاں ہے۔آج پاکستان کو شدید ترین توانائی بحران کا سامنا ہے‘ ایران پاکستان کو اس بحران سے نکالنا چاہتا ہے جبکہ ہماری حکومت جن پر تکیہ کر رہی ہے‘ وہ پاکستان کو نہ صرف خطرات میں دھکیل رہا ہے بلکہ خود اسکی سلامتی و سا لمیت کیلئے خطرہ ہےں۔ ایران سے بجلی کیلئے لائن بچھانے کی ضرورت ہے‘ نہ تیل کی درآمد کیلئے بحری جہازوں کی‘ گیس کی فراہمی کیلئے ایران کی طرف سے تنصیبات مکمل ہیں‘ پاکستان میں پائپ لائنوں کا جال بچھا ہے‘ صرف درمیان میں کنکشن کی ضرورت ہے۔ یہ معمولی کام محض امریکہ کی مخالفت کے باعث نہیں ہو رہا۔ 
ڈاکٹر صاحب پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ نواز شریف ایٹمی دھماکے کرنے کے حق میں نہیں تھے‘ مجید نظامی صاحب کی ڈانٹ پر دھماکے کئے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نواز شریف کوکئی بار سیاسی معاملات شہباز شریف کے سپرد کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں‘ عمران خان کی سیاست سے بھی ان کو اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انکی پارٹی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سیٹیں لے سکے گی اور جس قسم کے لوگ انکے ہمراہی ہیں‘ وہ اپنے مفادات کو دیکھ کر اپنا سیاسی قبلہ بدلنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب انتخابی سیاست سے گریز کرتے ہوئے سیاست کو راست سمت میں لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیں‘ ایماندار لوگوں کا انتخاب کریں‘ اگر آپ کے حلقے سے پارٹیاں غلط لوگوں کو ٹکٹ دیتی ہیں تو آپ اپنا آزاد امیدوار کھڑا کرلیں۔ وکلائ‘ تاجروں‘ نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ نوجوان طلبہ‘ تاجر‘ وکلاء‘ کسان اور دیگر طبقات اپنے ووٹ کو قومی امانت سمجھتے ہوئے اس کاہر صورت استعمال کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں پانچ چھ لوگوں کی براہ راست حمایت کریں‘ جن کے کردار‘ اہلیت اور حب الوطنی سے ہم مطمئن ہوں گے۔ اگر پورے ملک سے 35 چالیس‘ محب وطن‘ دیانت دار جرا¿ت مند اور نڈر لوگ اسمبلی میں آکر متحد ہو جائیں تو حکومت کو ٹریک پر رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ متحدہ قومی موومنٹ 25 اور مولانا فضل الرحمان چھ سات سیٹوں کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ایک طاقت اور حکومت کو اس کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ 40 تو بہت بڑی طاقت ہونگے۔ محسن پاکستان کہتے ہیں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسوہ¿ حسنہ میں موجود ہے۔ قائد اور اقبال کا فکر و فلسفہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ وہ نظامی صاحب کے ساتھ اپنی دوستی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ خود اپنے اور نوجوانوں کیلئے مجید نظامی کے جرا¿ت اظہار کو قابل تقلید قرار دیتے ہیں۔ مجید نظامی کو ہر فوجی اور جمہوری آمر کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے تو باطل کے سامنے جھکنا سیکھا ہی نہیں۔ وہ کبھی ایوب‘ یحییٰ‘ ضیاءاور مشرف کی آمریت کے سامنے جھکے نہ بھٹوز اور نواز شریف کی جمہوریت کے پردے میں لپٹی آمریت سے دبے۔ آپ نے ہمیشہ کلمہ حق کہا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حق ادا کر دیا۔ آج واقعی ہماری سیاست پر نحوست کے سائے ہیں‘ ان کو دور کرنے کیلئے ایک بے رحم اپریشن کی ضرورت ہے جس کا کوئی امکان ظاہر نظر نہیں آتا۔ ایسے میں پاکستان کی سیاست کو نحوست سے بچانے اور منحوسوں کے پنجہ¿ استبداد نجات دلانے کیلئے ڈاکٹر خان کا لائحہ عمل درست اور لائق تحسین ہے۔ قوم انکے ہاتھوں میں ہاتھ دے‘ وہ سیاست کو جس پاکیزہ سمت کی طرف لے جانے کیلئے سرگرم ہوئے ہیں‘ اسے احسن انجام تک پہنچانے کیلئے ان کا ساتھ دے۔ اس سے ڈاکٹر صاحب کا کوئی مفاد وابستہ ہے اور نہ ان کو کسی عہدے کی خواہش ہے۔ سوال ملک کی ترقی و خوشحالی‘ بقاءو سلامتی‘ قوم کی بھلائی اور نئی نسل کے روشن مستقبل کا ہے۔ ہر پاکستانی اپنی اپنی پارٹی سے وابستگی رکھتے ہوئے ڈاکٹرصاحب کے سیاست کو پاکیزہ اور معطر ماحول دینے کی کاوش اور خواہش کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ آخر میں پاکستانیوں کی اکثریت کی رائے ‘خواہش یا آرزو محسنِ پاکستان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو تنقید کا کم سے کم نشانہ بنائیں‘ کیونکہ جواب میں ان پارٹیوں کے ترجمان جھوٹ بولتے اور طوفان تولتے اخلاقیات کے تقاضوں کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے بدزبانی کرتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب سے محبت کرنے والوں کے دل گھائل ہوتے ہیں۔

Monday, September 24, 2012

یہ مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہو سکتے


 منگل ,25 ستمبر ,2012

     
یہ مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہو سکتے!    

جمعة المبارک 21 ستمبر کو پاکستانیوں نے گستاخانہ فلم انوسنس آف اسلام کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ حکومت نے اس روز کو یومِ عشقِ رسول قرار دیا تھا۔ عاشقانِ رسول نے واقعی بڑے جذبے سے نبی کریم کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت اور گستاخانہ فلم بنانے والوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ پورے پاکستان میں احتجاج کے لئے گھروں سے نکلنے والوں کی تعداد یقیناً کروڑوں میں تھی۔ اس روز ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھے۔ ان میں اکثر اسلامیانِ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے لئے احتجاج میں شامل ہوئے۔ ایسے بھی تھے جن کو نبی مکرم کے ساتھ گونہ عقیدت ہے۔ جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے اپنے نعتیہ کلام میں ایسے عشاق کی نمائندگی یوں کی ہے 
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
”فقط مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں“
مہندر سنگھ بیدی بھی اپنی نعت میں کہہ چکے ہیں 
ہم محمد کو کسی قوم کی جاگیر نہ بننے دیں گے
فقط مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
اس روز کچھ شرپسندوں نے یومِ عشقِ رسول کی اہمیت کو گہنانے کی کوشش کی۔ یہ لوگ جلا¶ گھیرا¶ کرتے رہے، املاک کو نقصان پہنچاتے اور لوٹ مار کرتے نظر آئے۔ چند افراد بندوق اٹھا کر بڑے سے بڑے شہر کے امن کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔ ان شرپسندوں کی تعداد شاید ہزاروں میں ہو جو کروڑوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ جن شرپسندوں نے یومِ عشقِ رسول کو سبوتاژ کرنے اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج دھندلانے کی کوشش کی یہ دہشت گرد، شتونگڑے، شیطان کے چیلے ہی ہو سکتے ہیں یہ قطعاً عاشقانِ رسول اور فرزندانِ توحید کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں کے امن کو تہہ و بالا کرنے والے کسی رعایت کے حقدار نہیں، ان کی شر انگیزی کے باعث پُرامن احتجاج کرنے والوں کے دل دکھے اور کچھ لوگوں کو بلا امتیاز تمام مسلمانوں کے کردار پر سوال اٹھانے کا بہانہ مل گیا۔ 
اس میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ حکومت نے یومِ عشقِ رسول منانے کا اعلان کر کے عوام کے دلوں میں اپنے خلاف پائی جانے والی نفرت کا رُخ گستاخانہ فلم بنانے والوں کی طرف موڑ دیا۔ مذہبی تنظیموں نے جمعہ کو یومِ احتجاج منانے کا اعلان پہلے ہی کر رکھا تھا۔ حکومت یومِ عشقِ رسول منانے کا اعلان نہ کرتی تو بے مہار ہجوم کہیں زیادہ بپھرتا اور تباہی مچاتا، حکومت کو کسی نے احسن مشورہ دیا، جسے حکومت نے مان کر دانشمندی کا ثبوت دیا لیکن حکومت اور حکمران صرف اعلان کی حد تک محدود رہے۔ نواز شریف، بے نظیر کے لانگ مارچ لوگوں کی یادداشت میں آج بھی موجود ہیں، دفاع پاکستان کونسل کے تو تازہ ترین ہیں۔ یہ لاکھوں لاکھوں کے لانگ مارچ اور اجتماعات پُرامن رہے۔ اگر ہر شہر اور قصبے میں اجتماعات اور مظاہروں کی قیادت احتجاج اور یومِ عشقِ رسول منانے کا اعلان کرنے والے کرتے تو شرپسندوں کو ان کے درمیان گھسنے کی جرا¿ت نہ ہوتی۔ مظاہرے اجتماعی طور پر بدامنی کا شکار نہیں ہوئے، سارا معاملہ بے لگام افراد نے بگاڑا جو کسی صورت اسلامیانِ پاکستان اور پُرامن اقلیتوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔
یومِ عشقِ رسول منانے کے حکومتی اعلان کو مخالفین حکومت کی ایک چال اور فریب قرار دیتے ہیں۔ ریلوے کو ڈی ریل کرنے کی شہرت کے باعث لوگ شاید غلام احمد بلور کے اس اعلان کو بھی سنجیدہ نہیں لے رہے کہ وہ گستاخانہ فلم بنانے والے کے قاتل کو ایک لاکھ ڈالر انعام دیں گے۔ خود ہمارے بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی چالاکیوں اور مفاد پرستیوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ کہہ مکرنیوں اور کچھ بھی کر گزرنیوں کے حوالے سے یہ طبقہ اپنی مثال آپ ہے لیکن یومِ عشقِ رسول منانے اور ملعون فلمساز کے قتل پر انعام رکھنے کے اعلانات جاری ہیںشبہ کرنے سے قبل ہمیں وہ واقعہ یاد دلاتا ہے ”ایک غزوہ میں دشمن جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت عمرؓ تلوار لئے اس کے تعاقب میں تھے اس کو گرا کر تلوار لہرائی تو اس نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا لیکن حضرت عمرؓ نے وار کر دیا اس پر حضور نے اظہار ناراضی فرمایا تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ موت کے ڈر سے کلمہ پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ نے کہا کہ کیا تم نے اس کے دل میں جھانک لیا تھا۔“ وزیر مملکت معظم جتوئی ‘پیپلز پارٹی کے رہنما بابر محمود بٹ اورفدایانِ ختم نبوت کے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی نے بلور صاحب کی دیکھا دیکھی کروڑوںروپے مختص کر دئیے ہیں۔ یہاں علامہ اقبالؒ کا ایک جملہ بے اختیار زبان پر آ جاتا ہے ”ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا“ ہمارے وزیراعظم اور دیگر حکومتی اکابرین اور سیاسی زعما بلور کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس پر عرض ہے 
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

Sunday, September 23, 2012

ڈاکٹر خان سیاست میں؟


اتوار ,23 ستمبر ,2012
     
ڈاکٹر خان سیاست میں؟  

بڑی پارٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو قومی غیرت ان کے اندر کی مہمان دکھائی دیتی ہے جو کبھی کبھی آتی ہے ۔ غیرت مند قوموں کی قیادت کا غیرت مند ہونا بھی ضروری ہے۔ آج کی سیاسی قیادتیں کشمیر کاز سے بے وفائی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ، ہماری قیادتیں اس کو شہ رگ توکیا اپنا انگ ماننے سے بھی گریزاں ہیں جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ جماعت اسلامی اور اس جیسی دیگر تنظیم نما سیاسی جماعتوں کے جذبات میں شدت اور کلمات میں وہی حدت ہے جو قائداعظم کے خیالات میں تھی۔ باقی پارٹیاں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ موقف پر سمجھوتہ کر چکی ہیں۔ سفاک بھارتی فوجی درندوں کی طرف سے حریت پسندوں کی قبائیں نوچنے، عزت مآب خواتین کے آنچل اچکنے اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کئے جانے کے باوجود بھارت کے ساتھ تجارت تعلقات اور دوستی کا خبط پایا جاتا ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا عمل جاری ہے۔ خسارے کی تجارت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کوئی سرحد کو مٹانے اور کوئی دونوں ممالک کو ویزہ فری بنانے کی نامراد حسرت دل میں لئے بیٹھا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو مسئلہ کشمیر کے حل سے کوئی مشروط نہیں کرتا۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دشمنی کی حد تک اختلافات کا اظہار کرتی ہے لیکن ہر پارٹی بھارت پر موجودہ حکمرانوں کی پالیسی کو احسن سمجھ کر اس پالیسی پر دل و جان سے فدا ہے ۔ البتہ حلق کے اوپر سے یہ ضرور کہہ دیتے ہیں” مسئلہ کشمیر مذاکرات اور پُر امن طریقے سے حل ہونا چاہیئے“ ۔ دشمن کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے اور اس کے راستے میں کہکشائیں بچھانے سے مسئلہ کشمیر قیامت تک حل نہیں ہو گا۔قیامت تک!
ڈاکٹر اے کیو خان پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا نام ہے۔بہت بڑا نام! ان کاہر پاکستانی کے دل میں بڑا حترام ہے وہ اکثر پاکستانیوں کے دل کے مندر کا دیوتا ہےں۔وہ سیاست کی وادی میں اترے ہیں،پاکستانی سیاست کی وادی بڑی خادار ہے ۔بہت اچھا تھا کہ وہ اس سیاست میں نہ ہی آتے جس کے بدن میں کہا جاتا ہے کہ پتھر کا دل ہے اور جس سیاست میںاصول ،اس نا معقول محاورے ” سیاست میں کوئی حرف ِ آخر نہیں ہوتا“کی آڑ میں بلبلے کی طرح ٹوٹتے ہیں۔ڈاکٹر خان سیاست میں داخل ہوئے ہیں تو بہت کچھ دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر ہوئے ہوں گے۔ ان کی شخصیت سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو گا اب وہ سیاست میں بھی کچھ لوگوں کے لئے متنازعہ ہوں گے لیکن پاکستان کے دفاع کو ایٹم بم بنا کر ناقابل تسخیر بنا دینے میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ خدانے پاکستان کو ایٹمی طاقت سے سرفراز کرنے کے لئے ان کو چنا ۔پاکستانیوں کے نزدیک ڈاکٹر صاحب کا مقام بہت بلند ہے بڑے سے بڑے سیاستدان کے رتبے سے کہیں بلند۔پاکستان میں سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ جوکرتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو ہمارے دل دکھیں گے۔ پاکستانی سیاست کی پرخار وادی میں داخل ہونیوالا کوئی بھی مائی کا لال اپنا دامن بچا کر نہیں گزر سکتا۔ سیاست میں آنیوالے بڑے سے بڑے سپوت اور پوت کو کچھ لوگ پلکوں پر بٹھاتے ہیں تو کچھ نظروں سے گراتے بھی ہیں۔ بعض اپنے لیڈر کے احترام کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس لیڈر پر جائز تنقید ہو، اسے بھی برداشت نہیں کرتے۔ تنقید کا جواب دلیل سے نہیں ‘جذبات سے دیتے ہیں اور خرافات سے بھی گریز نہیں کرتے۔زبان بے نیام برہان بن جاتی ہے۔ جذبات ابلتے اور منہ شعلے اگلتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا ان کے علم و فضل کی وجہ سے پاکستان اور عالم اسلام میں بڑا احترام تھا۔ دنیا میں آج بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کئی لوگوں کی نظر میں وہ متنازعہ ہو چکے ہیں۔ اسکی واحد وجہ ان کا عوامی تحریک کے نام سے پارٹی تشکیل دے کر سیاست میں حصہ لینا تھا۔ عمران خان بلاشبہ پاکستان کے بڑے کھلاڑی اور بے مثال کپتان رہے۔ اس حیثیت سے ان کو عالمی شہرت اور پاکستان میں اعلیٰ مقام اور عوامی احترام ملا وہ سیاست میں آئے تو کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی قومی ہیرو کی حیثیت گہنا گئی۔ کل کے کچھ پرستار آج ان کو ناہنجار اور نابکار قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اب ڈاکٹر عبدالقدیر خان تحریک تحفظ پاکستان کے نام سے پارٹی قائم کر کے سیاست کی وادی میں اترے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے پہلے بیان میں پی پی پی ‘ن لیگ اور پی ٹی آئی کے قائدین کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی اس پر وہ بُرا مان گئے جس پر ان کے ترجمان بپھرے۔سٹپٹائے، بلبلائے اور تلملائے۔ آنکھیں شعلہ بار ہوئیں زبانیں انگار و تلوار ہوئیں۔ایک کے مقابلے میں دس سنا کر اپنے اپنے لیڈر کی بارگاہ میں سرخرو ہو گئے ۔ ڈاکٹر خان کےلئے ایسی کڑوی کسیلی سننا کوئی نیا تجربہ نہیں تاہم سیاست میں وارد ہونے کے بعد یہ مخالفین کی طرف سے ان کا پہلا استقبال ہے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست میں ثابت قدم رہے تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
 پاکستانیوں کی اکثریت قومی غیرت کو ہرچیز پر مقدم سمجھتی ہے۔ ہمارے ملک کی بڑی یا چھوٹی پارٹیوں کی کشمیر پالیسی پر کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے۔ جن کی کمٹمنٹ ہے ‘ وہ بھی انتخابی اتحاد میں کود کر اس سے لاتعلق سی ہو جاتی ہیں۔ ترقی و خوشحالی کی خواہش بجا لیکن سب سے پہلے وطن کا وجود تکمیل کا متقاضی ہے ۔ کشمیر کے پاکستان کا حصہ بنے بِنا پاکستان مکمل نہیں۔ جس کو اس کی تکمیل کی فکر نہیں وہ قائد و اقبال کے فکر و فلسفے سے انکاری ہے اس کو ہم سروں پر کیوں مسلط کریں؟ لیکن مجبوراً ایسا کرنا پڑتا ہے ، اسکے سوا کوئی چائس ہی نہیں ہوتا۔
 کشمیریوں کے قاتل اور پاکستان کے وجود کے دشمن سے دشمنی ہر محب وطن پاکستانی کے ایمان کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسن پاکستان کا درجہ پاکستان کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کے باعث ہی ملا۔جس کا جواز بھارت نے 1973ءمیں پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کر کے پیدا کیا تھا۔اس دھماکے پر ہالینڈ میں بیٹھے ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا عزم کیا اور پھر حالات کے سازگار ہونے پر انہوں نے اس عزم و ارادے کو عمل کے سانچے میں ڈھال دیا ۔ جتنا پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکتا ہے اتنا ہی پاکستان کو اس معراج تک پہنچانے والا بھی دُکھتا ہے۔ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ڈاکٹر اے کیو خان مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیں گے۔ ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کرنے کےلئے قیامت تک کا عرصہ پڑا ہے جبکہ اپنے وجود کی تکمیل کی فوری ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاست میں نووارد مگر جہاندیدہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیا قوم کو یقین دلائیں گے کہ موقع ملتے ہی وہ سب سے پہلے وطن کا وجود مکمل کردکھائیں گے؟ ان سطور کی تحریر کے بعد ڈاکٹر صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ انکاانتخابی سیاست میں حصہ لینے کا قطعاً قطعاً ارادہ نہیں۔ انہوں نے کوئی سیاسی پارٹی بھی نہیں بنائی۔ ہم لوگوں کو اپنا سیاسی کردار اصولی اور احسن طریقے سے ادا کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ ہمارا پورا زور اسی پر ہے کہ عوام صالح لوگوں کو منتخب کریں۔ اگر سیاسی پارٹیاں موزوں امیدوار کھڑے نہیں کرتیں تو اپنے اندر سے اچھے لوگوں کو آزاد امیدوار کے طور پر سامنے لاکر منتخب کریں۔ (جاری ہے)

Thursday, September 20, 2012

سروں کی فصلیں



     
سروں کی فصلیں!
 ستمبر, 16, 2012     

میاںنواز شریف کے خدشات بے محل ہیں کہ حالات ایسے ہی رہے تو پاکستان ناکام ریاست بن جائیگا۔البتہ کچھ عالمی قوتوں کی یہ خواہش ضرور ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بن جائے۔ناکام ریاست اُس یتیم بچے کی طرح ہوتی ہے جس کا کوئی والی وارث نہ ہو۔ ناکام ریاستوں کی درجہ بندی امریکی تھنک ٹینک ”فنڈ فار پیس “کرتا ہے۔اس نے تمام ممالک کو 4درجوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔پہلے درجے میں ان ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے جن کے ناکام ریاست ہونے کا خطرہ ہے۔ اس میں رواں سال 2012 میں پاکستان کا 13واں نمبر ہے۔پہلے نمبر پر صومالیہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر کانگو(زائر) اور سوڈان ہیں۔ افغانستان کا چھٹا اور عراق کا نواںنمبر ہے ناکام ریاست کے خطرے کی زد میں آنیوالے ممالک کی لسٹ بنانے والوں کی ”صالحیت اور نیک نیتی“ کا اندازہ اس سے لگا ئیے کہ ایتھوپیا، برونڈی، میانمار اور شام کو پاکستان کے مقابلے میں نسبتاً کامیاب ریاستیں قرار دیا گیا۔ ناکام ترین ریاست کی درجہ بندی کرتے ہوئے 12اسباب کو مد نظر رکھاجاتا ہے جن میں سلامتی کو خطرات، معاشی بد حالی،انسانی حقوق کی پامالی اور حالات سے تنگ لوگوں کی نقل مکانی اہم ہیں۔ ایسی ریاست نا کام قرار پاتی ہے جس کی مرکزی حکومت اس قدر کمزور اور غیر موثر ہوکہ اس کا انتظامی معاملات پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ عوام کی پبلک سروسز تک رسائی ناممکن ہوجائے۔ کرپشن انتہا کو چھونے لگے جرائم کا دور دورہ ہواورمعیشت تیزی سے زوال پذیر ہو۔
یہ سب تو امریکی تھنک ٹینک Fund for Peace کے کسی بھی ملک کو ناکام قرار دینے کے ضوابط ہیں۔ یہ کوئی عالمی قانون نہیں جو فنڈ فار پیس کی درجہ بندی سامنے آنے کے ساتھ لاگو ہوجائے۔ کسی تھنک ٹینک، ملک،تنظیم،ادارے یا شخصیت کی طرف سے کسی ملک کو ناکام یا کامیاب قرار دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی ملک ناکام ہے یا کامیاب اس کا مکمل دارومدار اس ملک کے اندرونی حالات اور معاملات پرہے۔ کمزور یا ناکام ممالک بیرونی مداخلت روکنے میں بے بس ہوجاتے ہیں۔ مضبوط ممالک کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرا¿ت بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان دوسری کیٹیگری میں آتا ہے یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کے اندر کا خوف اوردھن دولت کی حرص و ہوس ان کو لرزہ براندام کردیتی ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا اتحادی ہے۔ امداد اور فنڈز کا لالچ اپنی جگہ لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں کے بعد جس طرح سے نیٹو سپلائی معطل کی گئی اور شمسی ائیر بیس خالی کرایا گیا یہ کسی کمزور ملک کی جرا¿ت رندانہ کام نہیں۔ پھر سپر پاور اورنیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے جس طرح ناک رگڑتے رہے وہ عظیم تر پاکستان کی مضبوطی کا مظہر اورثبوت ہے۔ناکام ریاست کی بات تو بہت دورکی بات ہے۔
 ایٹمی پاکستان نہ تو ناکام ریاست ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا،انشاءاللہ ۔ آج ملک بحرانوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جس کے ذمہ دار اس ملک کوچلانے والے ہیں لیکن ان کو بھی ناکام، نا اہل اور صلاحیتوں سے عاری قرار نہیں دیاجاسکتا وہ جس مقصد کیلئے اقتدار میں آئے وہ بڑی کامیابی اور بڑی تیزی سے حاصل کر رہے ہیں۔ جن مقاصد کیلئے عوام نے ان کو چنا وہ ان کا مطمحِ نظر ہی نہیں تھا۔قومی خزانے کو کبھی اقتدار لیئے بڑی کاریگری سے، چُھپ چھُپا کے اور لُک لکا کے لوٹا کرتے تھے۔ ان کے کرتوت اقتدار سے اترنے یا اتارے جانے کے بعد اور کہیں بعد منظر عام پر آتے ، آج ہتھیلی پر سرسوں جمتی ہے۔ خزانے اور اداروں کو جمہوریت کی چوٹ ہضم کیاجارہا ہے۔ عوام نے جس مقصد کیلئے چنا اس کی طرف سِرے سے دھیان اور میلان ہی نہیں۔ کراچی کی آتش زدہ فیکٹری میں تین سو کے لگ بھگ انسان موت کی نذر ہوگئے۔ اُن کے تنخواہ کے منتظر والدین، بیوی بچوں اور بہنوں پر موت کی خبر سے کونسی کربلا اور قیامت ہے جو ٹوٹا نہ ہوگی۔ دو گروپوں کی جانب سے کروڑوں کے بھتے کی ڈیمانڈ،پھر فیکٹری کے دروازے بند اور بے دلی سے آگ پر قابو پانے کی کوشش، ایسی خبریں اپنی زبان سے بہت کچھ بیان کردیتی ہیں۔ بے لاگ تحقیقات کی پاتال سے ثابت ہوجائیگا کہ آگ اتفاقیہ نہیں لگی۔بے لاگ تحقیقات کراچی کی پولیس رینجرز اور دیگر ادارے نہیں کرسکتے۔بہترین فورم رحمن ملک کی مداخلت سے مبرا مرکزی ادارے ہیں۔آئی ایس آئی ایم آئی یا ان جیسے دیگر ادارے ۔کراچی میں کُلی، بلوچستان، کے پی کے ،گلگت بلتستان میں جزوی طور پر لاقانونیت کے سفاک پنجے انسانوں اور انسانیت کا بڑی بے رحمی سے خون کر رہے ہیں۔ اس کا کوئی تو ذمہ دار ہے لیکن وہ قانون کے ہاتھوں کی گرفت میں نہیں آرہا۔کیوں؟ اس لئے کہ جنہوں نے مجرموں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنا ہے ان کو جرائم سے کوئی سروکار ہے نہ مجرموں کو کٹہرے میں لانے سے کوئی دلچسپی بلکہ یہ تو خود بھی مجرم ہیں، ان کا تو ایجنڈا ہی کوئی اور ہے ،یہی وجہ ہے کہ حالات بگڑتے چلے جارہے ہیں۔مجرم اپنا کام کر رہے ہیں ۔ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنیوالی قوتیں اپنا کام اور جن کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار ہے وہ اپنا کام بڑی خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔ ہر کام کی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ظلم کی انتہا، لاقانونیت کی انتہا، لو ٹ مار کی انتہا اور سب سے بڑھ کر صبر اور برداشت کی انتہا۔شاید معاملات ابھی انتہاﺅں تک نہیں پہنچے لیکن پہنچنے میں شاید زیادہ دیر بھی نہیں ہے۔ککر میں پریشر زیادہ ہوجائے تو اس نے پھٹنا ہی ہوتا ہے۔ندی نالوں حتیٰ کہ دریاﺅں میں پانی گنجائش سے زیادہ ہوجائے تو بند ٹوٹنے ہی ہوتے ہیں۔حجاج بن یوسف تاریخ اسلام میں مکروہ چہرے والا کریہہ کردار ہے۔اس نے اموی خلافت کی آبیاری کیلئے انسانیت کا خون بڑی بے رحمی سے بہایا۔ عبداللہ بن زبیرؓ کو حرمِ کعبہ پر سنگ باری کرکے شہید کیا۔مدینتہ النبی کے مسلمانوں پر قہر بن کرٹوٹا۔اس کی گردن پر لاکھوں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کا خون ہے جن میں صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین بھی شامل تھے۔ ان مظالم اور خرافات کے باوجود خطابت فصاحت اور بلاغت میں اپنی مثال آپ تھا۔ کوفہ میں بغاوت اٹھی تو اس نے وہاں جا کر مسجد میں خطے کے دوران یہ بھی کہا:”میں دیکھتا ہوں نظریں اٹھی ہوئی ہیں۔گردنیں اونچی ہورہی ہیں۔ سروں کی فصل پک چکی ہے اور کٹائی کا وقت آگیاہے میری نظر وہ خون دیکھ رہی ہے جن سے پگڑیاں او ر داڑھیاں تربتر ہیں۔“
 آج وطن عزیز میں قتل و غارت ہے۔لوٹ مار ہے نا انصافی اور ظلمت ہے،ادارے برباد ہوچکے لاقانونیت،افراتفری اور انارکی ہے۔لوگ حالات سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں اور بعض اولادیں فروخت کر رہے ہیں۔مفلسی خواتین کوعصمت فروشی اور مردوں کو بے غیرتی پر مائل کردیتی ہے جس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ کیا اس سب کچھ کے ذمہ داروں کے سروں کی فصلیں پک نہیں چکی ہیں ؟

ایبٹ آباد کمشن ممکنہ رپورٹ


جمعرات ,20 ستمبر ,2012

     
ایبٹ آباد کمشن ممکنہ رپورٹ  

 دورِ قدیم میں کسی بادشاہ نے حضرت یوسفؑ کی مختصر ترین داستان سنانے والے کیلئے انعام رکھا۔ داستان گو جمع ہوئے ہر کسی کو اپنی مختصر نویسی پر فخر تھا۔ ایک صاحب کے ہاتھ میں دو تین اوراق تھے وہ سب سے زیادہ خوش اور مطمئن تھے ان کو اپنی کامیابی کا یقین تھا لیکن انعام ایک دوسرے شخص کو ملا جس نے چند الفاظ میں داستانِ یوسفؑ بیان کر دی ”حضرت یوسفؑ اپنے باپ سے بچھڑے اور مل گئے“۔
 جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمشن سال سوا سال تک مغز ماری کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کر رہا ہے۔ جولائی 2011ءکے آغاز میں کمشن نے اپنی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جسٹس جاوید اقبال کمشن کے سربراہ نرگس سیٹھی اس کی سیکرٹری تھیں جبکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم احمد‘ سابق آئی جی پولیس عباس خان‘ سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی ممبر تھے۔ وزارت قانون نے کہا ہے کہ بہت ہوگئی اب 12اکتوبر کو مہربانی فرمائیں اور رپورٹ حکومت کو پیش کردیں۔کمشن اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے گا حکومت کی مرضی کہ اس کو پبلک کرے یا سیکرٹ قرار دے کر آئی ایس آئی میں سیاسی ونگ بنانے کے نوٹیفکیشن کی طرح گم ہونے کے کہیں رکھ دے۔ بروقت شائع ہونے پر حمود الرحمن کمشن کی ساکھ آج بھی مشکوک ہے۔ میڈیا میں جدت اور اس کی فعالیت کے باعث رپورٹ کا خفیہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم افواہ ساز اس کو اپنے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کریںگے۔ جس سے عام آدمی کا کنفیوژ ہونا لازمی امر ہے۔ ایسی ممکنہ صورت حال پر حکومت اور عُمال کی بھی نظر ہوگی بہر حال رپورٹ دیکھ کر وہ فیصلہ کریں گے کہ اس کا اخفا قومی مفاد میں ہے یا اشفا۔
کمشن کی بنیادی وجہ ایبٹ آباد آپریشن اور اس میں اسامہ کی مبینہ موت بنی۔ کمشن نے جن سوالات کے جوابات تلاش کرنا تھے وہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی،افغانستان سے امریکیوں کی در اندازی اور آپریشن کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کی اپریشن کے دوران مبینہ موت کو امریکی انتظامیہ نے پر اسرار اور مشکوک بنادیا۔ انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اتنے بڑے دشمن کو مارا اور نعش سمندر میں پھینک دی امریکہ کے نزدیک اسامہ پوری کائنات میں مطلوب ترین تھا۔ اس کی نعش کو اتنی جلدی میں سمندر بُرد کردینے کی اس کے سوا کوئی منطق نہیں کہ اسامہ اس کمپاﺅنڈ میں موجود ہی نہیں تھا یہ سب ڈرامہ بازی تھی جس سے ایبٹ آباد اپریشن کے ساتویں دن ڈاکٹر پال کریگ رابرٹس نے نقاب اٹھادیا تھا۔پال کریگ امریکی وزارت خزانہ میں نائب وزیر رہے۔ وہ وال سٹریٹ جرنل کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے 9مئی 2011کو اپنے آرٹیکل "AMERICAN ARE LIVING IN 1984" میں لکھا کہ اوباما کی تقریر کے 48 گھنٹے کے بعد اُس داستان کی ساکھ ختم ہوگئی تھی جو اسامہ کی ہلاکت کے حوالے سے گھڑی گئی تھی۔بی بی سی بڑے شور سے پراپیگنڈا کرتا رہا کہ امریکی سیلز نے اسامہ کو مار ڈالا۔اکثر امریکیوں کی گفتگوبھی ان چند الفاظ پر بڑے فخریہ انداز میں ختم ہوتی ہے ”آخر ہم نے اسامہ کو مار ڈالا۔“ کوئی اسامہ کو لاحق اس موذی مرض کے بارے میں نہیں سوچتا جس میں وہ مبتلا تھے۔ آخر دس سال وہ اپنے گردوں کا ڈائیلاسز کیسے اور کہاں سے کراتے رہے؟ کسی کو فوکس نیوز کی 26 دسمبر 2001 کی سٹوری یاد نہیں جس میں کہا گیا تھا اسامہ بن لادن پیچیدہ بیماری کے باعث چل بسے۔ فوکس نیوز نے پاکستان آبزور کے حوالے سے یہ خبر شائع کی تھی۔ اسامہ کی موت کی گواہی ایک طالبان لیڈر نے دی جس نے اسامہ کا آخری دیدار کیا اور ان کے جنازہ میں شرکت کی تھی۔ اسامہ کو تورا بورا میں ہی دفن کیا گیا۔ کریگ نے یہ سوال بھی کیا کہ اسامہ کے پیچھے 16 امریکی ایجنسیاں لگی تھیں امریکہ کو دیگر ممالک کا تعاون بھی حاصل تھا۔اسامہ نے کیا سب کو شکست دیدی؟ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ 2مئی کے بعد سی آئی اے ڈائریکٹر کی طرف سے بیان آیا کہ اب القاعدہ اسامہ کے قتل کا بدلہ لے گی۔ امریکہ پرنائن الیون جیسے حملے ہوں گے۔ القاعدہ نے بھی انہی الفاظ میں وارننگ دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ کے اعلانات بھی سی آئی اے کی طرف سے کئے جاتے تھے۔ اسامہ کے اس طرح قتل کا ڈرامہ رچانے کی دیگر وجوہات کے ساتھ پاکستان کو بھی مسلسل دباﺅ میں رکھنا ہے اب امریکی انتظامیہ بات بات پر پاکستان سے کہتی ہے ”تم نے اسامہ ہم سے چھپایا“ اسامہ اتنی بڑی شخصیت ،القاعدہ کا سربراہ القاعدہ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری صرف دو خواتین کے حوالے کردی تھی؟
 پاکستان میںبھی بہت سے لوگ 2مئی 2011ءکے اپریشن کو ڈرامہ سمجھتے ہیں۔پال کریگ نے مکمل دلائل کے ساتھ اسے ڈرامہ ثابت کیا ہے۔جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں کمشن کی رپورٹ بڑی تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہی ہے۔ اس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ رپورٹ طویل اور مختصر ترین بھی ہوسکتی ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کی طرح چند الفاظ پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے تحقیقات کے دورانیے میں صحافیوں کے ساتھ بھی گفتگو کی ۔ایک صحافی نے سوال کیا تھا ” اسامہ اس روز قتل بھی ہوئے ؟“ جسٹس صاحب نے جواب میں کہا کہ اگر سب کچھ آج ہی بتا دیا تو رپورٹ میں کیا بچے گا۔
 ہوسکتا ہے کہ اسامہ واقعتا مبینہ اپریشن سے قبل موت سے ہمکنار ہو چکے ہوں تو پھر کمشن کی رپورٹ ان الفاظ میں ہی مشتمل ہوگی۔ ” امریکی اپریشن کے وقت اسامہ ایبٹ آباد کمپاﺅنڈ میں موجود ہی نہیں تھا“۔ یہی پال کریگ ثابت کر چکا ہے۔ اگر رپورٹ ممکنہ طور پر اتنی ہی مختصر ہے تو کب کی منظرعام پرآجانی چاہئے تھی؟ یہ سوال بڑا جینوئن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جسٹس صاحب اس رپورٹ کو پانی میں مدھانی کی طرز پر ”رڑک“ رہے ہوں۔ اس سب کے باوجود وہ سوالات اپنی جگہ ہیں کہ ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کے الرٹ ہوتے ہوئے امریکی ہیلی کاپٹر کیسے پاکستانی حدود میں گھسے اور ایک ڈرامہ ہی سہی اپریشن کرکے محفوظ واپس چلے گئے؟

Thursday, September 13, 2012

کچھ کریں یا صرف دعا کریں




جمعرات ,13 ستمبر ,2012

کچھ کریں یا صرف دعا کریں


چھوٹی سی مچھلی زامورا انسان کی آواز بڑی محبت سے سنتی ہے یہ آواز سننے کیلئے وہ کشتیوں کے ساتھ رہتی ہے ۔جب یہ کسی بڑی مچھلی کو کشتی پر حملہ کرنے کے لیے آتے ہوئے دیکھ لیتی ہے تو فورا ًاس کے کان میں گھس کردماغ میںکاٹنا شروع کر دیتی ہے۔بڑی مچھلی شدت تکلیف سے کشتی سے رخ موڑ کر ساحل کی طرف دوڑتی ہے تاکہ کسی پتھرپر اپنا سر ٹکرائے ۔زامورا کے اس وصف کے باعث ملاح اسے بہت چاہتے ہیں اور اسے کھلاتے رہتے ہیں۔اگر کسی شکاری کے جال میں پھنس جائے تو اسے چھوڑ دیتے ہیں۔
چیونٹی اپنے رزق کی تلاش میں بڑی سرگرم رہتی ہے اور گرمیوں میں سردیوں کے لیے بھی رزق جمع کرلیتی ہے۔گندم کے دانے کو اپنے ساتھ محفوظ رکھنے کے لیے یہ بڑے بڑے حیلوں سے کام لیتی ہے جب اسے گندم کے دانے کے اُگ پڑنے کا اندیشہ ہوتو فورا اس کے چار ٹکڑے کردیتی ہے دو پر اس لیے اکتفا نہیں کرتی کہ ہر ایک ٹکڑا اُگ پڑتا ہے۔کہا جاتاہے کہ چیونٹی کھاتی کچھ بھی نہیں اس لیے کہ اس کا پیٹ پیدا ہی نہیں کیا گیابلکہ جب یہ گندم کے دانے کے ٹکڑے کرتی ہے تو اس کی خوشبو ہی سے یہ اپنا رزق پالیتی ہے۔
 مشرف کا نامہ اعمال لال مسجد اپریشن،دہشت گردی کی جنگ میں اتحاد،اکبر بگٹی کا قتل اور عدلیہ پر شب خون جیسی خرافات اور بیہودگیوںسے سیاہ نہ ہوتا تو وہ آج بھی شاید پاکستان اور پاکستانیوں کے سیاہ سفید کا مالک ہوتا۔جدہ جانیوالوں کی جلا وطنی کے دس سالہ معاہدے کی ایکسٹینشن ہوچکی ہوتی۔مشرف کو محترمہ بینظیر بھٹو سے خفیہ ملاقاتوں کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور محترمہ کے شوہر نامدار وہیں ہوتے جہاں پر ان کو اہلیہ عظمیٰ نے رکھا ہوا تھا۔مشرف کی غیر مقبولیت نا معقولیت میں خود اس کی اپنی حماقتوں کا بڑا حصہ ہے۔ایک بڑی حماقت سب کچھ اپنے پروردہ سیاستدانوں کی صلاحیتوں پر یقین کرکے ملکی معاملات اور عوام کو درپیش مسائل سے لا تعلق ہوجانا تھا۔ان سیاستدانوں نے آخری ایک ڈیڑھ سال میں معیشت کو ڈبو دیا۔ مشرف ایک بار پھر نابکار سیاستدانوں کو ہر صورت آزماناچاہتا تھا لیکن اب ہوا بدل چکی تھی۔آرمی چیف مشرف کا تراشا ہوا ہی تھا۔ لیکن اس نے الیکشن کو مشرف کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیا۔
مسلم لیگ ن کی قیادت پہلے تو الیکشن کے بائیکاٹ کے مخمصے میں پھنسی رہی جب تیار ہوئی تو دیگر صوبوں میں انتخابی مہم کا وہ سماں نہ بندھ سکا جو پنجاب میں تھا۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی حشر بپا کردیا تھا۔ بینظیر بھٹو کے طوفانی دورے، جلسے اور خطابات تاریخ کا حصہ اورسیاسی پارٹیوں کے لئے انتخابی مہم کے حوالے سے سبق ہیں۔ اس دوران محترمہ کو قتل کردیا گیا تاہم وہ اپنی زندگی میں ہی بھرپور انتخابی سرگرمیوں سے اپنی پارٹی کی جیت کا سنگ بنیاد رکھ چکی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد کئی ماہ بلکہ کئی سال تک مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت رہی۔ الیکشن میں اصل مقابلہ ان دو بڑی پارٹیوں کا ق لیگ کے ساتھ تھا جو مشرف کے نفرت انگیز اقدامات کے باعث عوامی نظروں سے گر چکی تھی۔ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم ماٹھی رہی۔ اس لئے عوام نے پیپلز پارٹی پر زیادہ تر اعتماد کیا۔ زمامِ اقتدار آصف علی زرداری کی سرپرستی میں پیپلزپارٹی کے ہاتھ آئی تو عوام ہر نئی صبح طلوع ہونے پراپنے آنگن میں کہکشائیں اترنے کی امید لیکر اٹھتے‘ جلد ان کو احساس ہوگیا کہ جن کو مسیحا سمجھا ان کے ہاتھ میں خنجر ہے۔ امیدوں کے چراغ بجھنے کا سلسلہ وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ختم کرنے کے اعلان سے ہوا۔ اس کے بعد چل سو چل‘ ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے والا وزیر وزیراعظم بن گیا۔ بجلی ناپید، گیس کی قلت پانی کی کمی،لاکھوں کارخانے بند،نصف کروڑ سے زائد مزدور بے روزگار، پاکستان کی بقا و سالمیت کے دشمن بھارت کے ساتھ دوستی،ڈرون حملوں پر خاموشی، دہشت گردی کی جنگ میں مزید جوش و خروش سے شرکت، مشرف کے تمام گناہ معاف کرنے کا عملی اظہار، عدلیہ کے فیصلے ماننے سے انکار، اس کی تضحیک و تذلیل ، فوج کو کارنر اور بد نام کرنے کے اقدامات اب جبکہ سپریم کورٹ لاپتہ افراد کا کیس سن رہی ہے اور حساس اداروں پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے زور دے رہی ہے عین اس موقع پر اقوام متحدہ کے وفد کو بلا لیا۔آج ادارے تباہ ہورہے ہیں۔ ملک و قوم ہر طرح کے بحران میں مبتلا ہے۔ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز،این ایل سی، این آئی سی ایل، وزارت پٹرولیم اور کون کونسی سی وزارت ہے جو کرپشن میں ڈوبی ہوئی نہیں ہے۔اوپر سے بہت اوپر سے نیچے تک ہمالیائی کرپشن کی دیومالائی داستانیں مشہور ہیں۔ حکمران کرپشن کی گنگا میں اشنان کرتے ہوئے دھن دولت کے ہمالہ کھڑے رہے ہیں مسائل اور مصائب زدہ عوام بھوکوں مر رہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی کہنا پڑا کہ بد عنوانی بہت بڑا خطرہ ہے۔ سرکار کے ہاں کرپشن کو دیوی سمجھے جانے کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ ایک وزیر نے کہا کہ کرپشن ہمارا حق ہے۔ ایک وزیر کے اکاﺅنٹ میں کوئی 18کروڑ روپے رکھ گیا وزیر صاحب لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے بیٹے اور ایک وزیر پر منشیات فروشی کا الزام ہے۔ایک وزیر کرپشن کے الزام میں جیل میں رہا صدر صاحب اس کو بے گناہ قرار دیتے ہیں۔ کابینہ میں موجود کئی وزرا پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ وزیراعظم راجہ کو تو سپریم کورٹ بھی رینٹل منصوبے کی کرپشن میں ملوث قرار دے چکی ہے اور تو اور وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے احتساب بل کا مسودہ تیار کر لیا فرماتے ہیں احتساب بل ماضی کی کرپشن پر لاگو نہیں ہوگا یعنی ایک روز قبل کی لوٹ مار بھی معاف ہوگی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیک نیتی سے کی جانیوالی کرپشن جرم نہیں ہو گی۔ کیا اب ریپ‘ شراب نوشی‘ ڈکیتی چوری فراڈ اور قتل جیسی قبیح وارداتوں میں بھی نیک نیتی کا پہلو تلاش کر لیا جائے گا؟ کرپشن ایک طرف مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں جس طرح گزشتہ حکومت نے مکھی پر مکھی ماری یہ بھی مار رہے ہیں۔اُن کی سنئے تو کہتے ہیں اتنے ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کی یہ کہتے ہیں بحران ورثے میں ملے ہم نے ساڑھے تین ہزار میگا واٹ مزید بجلی پیدا کی۔ وہ کہاں گئی؟ بلکہ جو پہلے سے موجود تھی وہ بھی عنقا ہو گئی۔
قوم نے آپ پر اعتبار کیا احسان کیا، اس کو کیا بدلہ دیا؟ ان سے وہ مچھلی بھلی جو انسان کو محض اس کی آواز سننے پر اپنا محسن سمجھتی ہے جو اپنے محسن کی حفاظت کی خاطر آخری حد تک چلی جاتی ہے۔ان سے زیادہ وہ چیونٹی منصوبہ ساز ہے جو اپنے مستقبل کی ضروریات اور خوراک کا بندوبست کرتی ہے اور اس کی حفاظت بھی سائنسی بنیاد پر کرتی ہے ہر سال خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بارشوں میں لاکھوں ٹن گندم برباد ہوگئی۔فلاں جنس سٹور میں بڑی بڑی سڑ اورگل گئی۔
سب کچھ بھگتنے کے باوجود کچھ نہ کرنے والے عوام کیا اپنے مصائب کے ذمہ داروں کے لئے عنقا جیسے کام کی طرح اس جیسے انجام کی دعا نہ کریں؟ ہاں عنقا جیسے۔ عنقا کے بارے میں کہا جاتا ہے:
یہ ایک بہت بڑا پرندہ ہے ۔ہاتھی پر جھپٹ کر اسے یوں لے اڑتا ہے جیسے چیل چوزے کو لے اڑتی ہے۔
یہ پرندہ جب اڑتا ہے تو اس کی پرواز سے رعد کی مثل آواز پیدا ہوتی ہے ا ور یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے بادل گرج رہے ہیں۔لوگ اس سے بے حد پریشان تھے۔
حتیٰ کہ یہ ایک مرتبہ ایک دلہن پر جھپٹ کر اسے لے اڑا۔
لوگوں نے اپنے زمانے کے نبیؑ سے عرض کی کہ اس سے ہمیں نجات دلایئے
تو اللہ کے نبیؑ نے دعا کی اور اللہ نے اسے ایک ایسے جزیرے میں محدود کر دیا۔ جہاں کسی انسان کا گزر نہیں۔

Tuesday, September 11, 2012

ایک امریکہ کا اور ایک پاکستان کا سانحہ نائن الیون


منگل ,11 ستمبر ,2012
     
ایک امریکہ کا اور ایک پاکستان کا سانحہ نائن الیون    

امریکی نائن الیون کے وقوع پذیر ہونے کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پیش رفت ہوئی۔امریکی 9/11 کے سانحے نے کئی سانحات کو جنم دیا۔جو اس سانحے میں مارے گئے ان کے لواحقین کی دنیا اُجڑ گئی۔پھر اس سانحے کے جواز میں جوسانحات پرپا کئے گئے ان میں معصوم بچوں خواتین اور بوڑھوں سمیت لاکھوں مسلمان موت کی واد ی میں پہنچا دےئے گئے۔ یہ سارے ورلڈٹریڈسنٹر میں11 ستمبر 2001ءمیں مارے جانے والوں کی طرح بے گنا ہ تھے۔ ٹوّن ٹاورز کی تباہی اسامہ بن لادن کا امریکی معیشت ڈبونے کا منصوبہ تھا یا امریکہ کانیو ورلڈ آرڈر کو عملی جامہ پہنانے کا لائحہ عمل تھایا یہ یہودیوں کی مسلم امہ کے خلاف مغرب کو بھڑکانے کی سازش تھی،اس حوالے سے حقائق ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ البتہ 9/11 کے بعد مسلمانوں کو اس کا خمیازہ شدید مالی اور جانی نقصان کی صورت میں ضرور بھگتنا پڑا۔
پاکستان کا 9/11 ،گیارہ ستمبر 1948ءکو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال تھا ، جس کو ایک طبقہ قائد کا قتل بھی قرار دیتا ہے۔اس دن قائد طبعی موت کی آغوش چلے گئے یا ان کا قتل کیا گیا اس بحث کو الگ رکھتے ہیں ، تاہم اس روز پاکستان لاوارث اور پاکستانی یتیم ہوگئے ۔پاکستانی نائن الیون کے بعدنظریاتی ریاست پاکستان کو قائدؒ و اقبالؒ کے فکرو فلسفے کے مطابق چلانے والی قیادت مفقود تھی۔ جس کے باعث کی ملک و قوم کے لئے ترقی وخوشحالی کی راہیں محدود اورمسدودہوگئیں۔ پاکستان کے9/11 کے بعد ہمیں میر کارواں ملا، منزل ملی نہ منزل کا نشاں ملا۔پاکستان کے9/11 سے جو دکھ پاکستانیوں کو ملے وہ امریکہ کے 9/11 کے سانحے اور اس سانحے کے جواز میں برپا کئے جانے والے سانحات سے کہیں بڑھ کرہیں۔آج ہم جن ظلمتوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ، اس کا بنیادی سبب بھی پاکستان کا 9/11 ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی اور بڑا تنازع کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارت کا قبضہ ہے ۔ تقسیمِ ہند کے اصول و ضوابط کے مطابق پاکستان کا حصہ ہے۔قائدِ اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور بھارت کے قبضہ سے چھڑانے کے لئے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو فوجی طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔گریسی کا حملے سے گریز ، مجاہدین کی کشمیر پر یلغاراور بھارت کا اقوامِ متحدہ جاکر کشمیریوں کے حقِ خود اردیت کو تسلیم کرنا اور اس سے مکر جانا ‘تاریخ کا حصّہ ہے۔قائد کی رحلت پر مسئلہ کشمیر جہاں تھا آج بھی وہیں ہے۔یہ مسئلہ حل ہو گیا ہوتا تو نہ 65ءکی جنگ کی نوبت آتی اور نہ ہی آگے جا کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ پیش آتا۔ بھارت اس مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات کے نام پر پاکستان کی سیاسی قیادت کو بیوقوف بنا تا آرہا ہے، وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور اس نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو اپنا صوبہ ڈکلیئر کر دیا ہے تو اس کے ہاں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟۔ بھارتی وزیر خارجہ کرشنا پاکستان آکر ایک ہی راگنی گاتے، سناتے اور دہراتے رہے کہ ”ایک ہی ملاقات میں مسائل حل نہیں ہو سکتے، تنازعات مرحلہ وار طے ہو ں گے“ اس کی سیوا میں مصروف زرداری‘ راجہ، ربّانی‘ شہباز شریف اور دیگر قائدین میں سے کسی نے نہیں پوچھا‘ مہاراج ! یہ پہلی ملاقات نہیں ہے کشمیر پر سینکڑوں بار مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ کسی نے یہ بھی باور نہ کرایا‘لالہ کرشنا! اگر تنازعات مرحلہ وار ہی طے کرنے ہیں تو آغاز بنیادی اور بڑے تنازعے ”کشمیر اشو“ سے کریں۔ قائدِ اعظم کی وفات حسرتِ آیات کے ساتھ ہی قوم باد سموم و صر صر کے تھپیڑوں کے ر حم و کرم پرتھی۔مسئلہ کشمیر کے حل میں سرِ مو پیش رفت نہ ہوسکی۔ والی ئِ حےدرآباد دکن امےر عثمان علی اپنی رےاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر کے چکے تھے ۔ بھارت اسے اپنا حصہ بنانا چاہتا تھا لیکن قائدِ اعظم کی موجودگی میں اس پر جارحیت کی جر ات نہ کرسکاجبکہ 11ستمبر کو حضرت قائداعظم کی وفات کے بعد بھارت نے 13ستمبر کو حےدرآباد دکن پر حملہ کر کے 18ستمبرکو اس پرقبضہ کرلےا۔قائد کی جیب کے کھوٹے سکے اسے ٹھنڈے پیٹوںہضم کر گئے۔
قائد جن پر اعتبار کرتے تھے انہوں ثابت کیا کہ وہ کھوٹے سکے اور احسان فراموش تھے ۔ دو واقعات سامنے یاد آتے ہیں دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ (1) 11 ستمبر 1948 ءکو بےمار قائد کو کوئٹہ سے کراچی لاےا گےا۔ تو کوئی بھی حکومتی افسر، وزیر وغیرہ ان کے استقبال کے لئے ائرپورٹ پر موجود نہیں تھا۔ پھر ان کو ماڑی پور ہوئی اڈے سے گورنر ہا¶س تک پہنچانے کے لئے جو ایمبولنس دی گئی وہ آدھے راستے میں خراب ہو گئی اور قائد لاوارثوں کی طرح فٹ پاتھ پر پڑے رہے۔ 
(2)۔ اےوب خان کے بھائی سردار بہادر خان، لےاقت علی خان کی کابےنہ مےں وزےر تھے ، وہ کہتے ہےں” بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہو چکا تھا۔ مےت کراچی مےں ان کی سرکاری رہائش گاہ مےں رکھی تھی ۔ پورا ملک صدمے اور غم سے نڈھال تھا۔ مگر اسی شام بھارتی وفد کے اعزاز مےں وزےراعظم کی طرف سے اےک اعلیٰ سطحی ڈنر کا اہتمام کےا جارہا تھا۔ جو پہلے سے طے شدہ تھا۔ ڈنر کی عمارت اس بلڈنگ کے بالکل سامنے تھی جہاں قوم کے باپ کی لاش کفن مےں لپٹی پڑی تھی ۔ قائد اعظم کے انتقال کی خبر سب کو تھی لےکن وہ ڈنر منسوخ نہ کےا گےا ۔ اگلے روز اخبارات مےں روتی ہوئی قوم کی خبر کے ساتھ ساتھ ڈنر کی خبر بھی شائع ہوئی“۔
قائد چند سال مزید زندہ رہتے یا پاکستان کو قائد جیسا ایک بھی راہبر ملا ہوتا تو آج پاکستان یقینا ایشیائی ٹائیگر ہوتا ہم غیروں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے ۔ ہماری پالیسیاں واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد میں بنتیں۔
پاکستان کی شہ رگ دشمن کے قبضے سے چھڑائی جا چکی ہوتی۔کالا باغ بن گیا ہوتا ۔ ہمارے دریا نہ بکتے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بجائے جونا گڑھ ، مناوادر اور حیدر آباد دکن پاکستان کا حصہ ہوتے۔بھارت میں موجود مسلمانوں کو ہندو شرپسند نشانہِ ستم بنانے کی جرات نہ کرتے۔یہ سب ہمیں پاکستان کے سانحہ نائن الیون کی وجہ سے دیکھنا اور بھگتنا پڑا۔

Sunday, September 9, 2012

عبوری حکومت کا فارمولا


اتوار ,09 ستمبر ,2012

     
عبوری حکومت کا فارمولا

 جمہوریت آج ایک ڈر، خوف وحشت اور دہشت بن چکی ہے۔لوگ مروجہ جمہوریت کو دیکھ کر اس سے تائب ہوچکے ہیں۔ جمہوریت نے ملک اور عوام کو کیا دیا۔ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ،کاروباروں کی تباہی، اداروں کی بربادی، بیرونی قوتوں کی غلامی، خود مختاری کی نیلامی، عدلیہ کی تضحیک، حساس اداروں کی تذلیل، کشمیر پر دیرینہ موقف سے اغماض یہ اور ان جیسے دیگر بہت سے تحفے جمہوریت کا ثمر ہیں۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے؟ کیا قائد پاکستان میں ایسی ہی جمہوریت کا نفاذ چاہتے تھے؟ ہم نے جن ممالک کی طرز پر اپنے ہاں جمہوریت رائج کرنے کی کوشش کی کیا ان ممالک میں بھی ایسی ہی جمہوریت رائج ہے؟ کوئی بھی سسٹم ہو اس کو نیک نیتی سے تشکیل اور ترتیب دیا جاتا ہے۔ عوام تک اس کے کیسے ثمرات منتقل ہوتے ہیں۔مثبت یا منفی۔ پھل میٹھا ہوتا ہے یا کڑوا۔ اس کا مکمل انحصار نظام کو نافذ کرنے والوں کی نیت اور اہلیت پر ہے جمہوری نظام مغرب میں کامیاب سے چل رہا ہے۔اسلامی ممالک کی بات کریں تو ترکی اور ملائیشیا جمہوریت کے کامیابی سے نفاذ کے حوالے سے خوبصورت مثالیں ہیں۔ پاکستان میں کیوں نہیں؟ وہ اس لئے کہ پاکستان کو کبھی جمہوری انداز میں چلانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ آمروں نے جمہوریت کے نفاذ میں ناکامی کا الزام لگا کر سیاسی حکمرانوں کے گلے پر انگوٹھا رکھا تو سیاستدانوں نے موقع ملنے پر جمہوریت کے نام پر آمرانہ رویے اختیار کئے۔ سیاستدانوں نے آمرانہ طریقے اگر ملکی ترقی، عوامی خوشحالی کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کی تعمیر کےلئے استعمال کئے ہوتے تو وطن آج امن کا گہوارہ ہو گا اور یہاں کی ہوائیں اور فضائیں معطر و معتدل ہوتیں۔ جمہوری طریقے سے ملنے والے اختیارات ذاتی مفادات کیلئے استعمال ہوئے جس سے عام پاکستانی شدید متاثر ہوا۔ جمہوریت کو موم کی ناک سمجھ کر سیاستدان اپنے مفادات کی خاطر 
جس طرف چاہتے ہیں موڑ لیتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ آج ہر لمحے اور ہر قدم پر ہورہا ہے۔ آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ہو، حکمرانوں کی اقربا پروری ہو مہنگائی بیروزگاری اور لاقانونیت ہو تمام مسائل کی جڑ کرپشن ہے۔پٹواری لائن مین، پولیس سپاہی اور سرکاری محکموں کے اہلکار کی کرپشن نہیں، اعلیٰ شخصیات کی کرپشن، اربوں اور کھربوں روپے کی کرپشن ایک وزیر نے تو ٹی وی پر آکر کہہ دیا کہ کرپشن ہمارا حق ہے۔ جرنیل بھی پیچھے نہ رہے تین کو وردیاں پہنا کر ان سے 4 ارب روپے کی کرپشن کا حساب لیا جارہا ہے۔ملک سے صرف کرپشن کا خاتمہ ہوجائے تو عوام کے نوے فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔نیٹو کو فی لیٹر پٹرول44 روپے میں فروخت ہوتا ہے پاکستانی ایک سو پانچ روپے میں خریدتے ہیں جو رعایت غیر ملکیوں کو ہے وہ ہم وطنوں کو کیوں نہیں۔ نیٹو والے اسی پٹرول کو استعمال کرکے پاکستان پر یلغار کرکے اس دھرتی کا حلیہ بگاڑتے ہیں محب وطن پاکستانی ایک ایک تنکا اکٹھا کرکے وطن کو سنوارتے ہیں پھر رعایت کا زیادہ حق دارکون ہے؟
 اکثریت کے بل بوتے پر قومی مفادات میں کڑے فیصلے کرنے چاہئیں۔ کالا باغ ڈیم بنائیں دشمن سے اپنی شہ رگ چھڑائیں۔ اگر نیتیں درست ہوں تو سب کچھ ممکن ہے۔اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن سکتا ہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ترقی کی اوج ثریا اور خوشحالی کی معراج تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن ہمیں پالا خود غرضوں اور بد نیتوں سے پڑا ہے جو کڑے فیصلوں کے بجائے کوڑھے فیصلے کرتے ہیں۔توہینِ رسالت قانون میں شکوک شبہات پیدا کرتے ہیں۔ عدالتوں کی توہین کیلئے قانون سازی کرتے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ احتساب بل لایا جائے گا جو ماضی کی کرپشن پر لاگو نہیں ہوگا جو کھربوں روپے نگل گیا اس کو معاف‘ جو اربوں کی ایفیڈریشن کو سوٹا لگا دیاگیا اس کا کھاتا صاف، این آر او، این ایل آئی سی، حج کرپشن اور این ایل سی کی پہاڑ جتنی رقمیں ہضم، کھلے ریفرنسز بند، ریلوے،سٹیل پی آئی اے جو ڈکار گئے سو ڈکار گئے۔ وزیر قانون نے کہا ہے کہ نیا بل ماضی کی کرپشن پر لاگو نہیں ہوگا۔یہ بل ابھی آنا ہے۔کرپٹ لوگوں کیلئے نائیک کا بیان نوید بن کر نازل ہوا۔جہاں ہاتھ پڑا ہے سرِ عام لوٹ لو،قومی خزانہ نوچ لو، ماس سے آگے ہڈیو ں کے گودے تک، کیوں؟ اس لئے کہ جو کیا جولوٹا جو کھایا جو نوچا سب معاف ہونیوالا ہے۔
 جمہوریت کو جو ہیت دیدی گئی وہ ہیبت بن چکی ہے۔بات حکمرانوں کی سیاست دانوں کی ہورہی ہے۔ ان سیاستدان کی جن کی جھولی میں اقتدار گرتا ہے کچھ باری باری آتے ہیں تو کچھ پارٹی بدل کر اور ضمیر بیچ کر لگاتار اقتدار میں رہتے ہیں۔آج اس ہیبت وحشت اور دہشت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔یہ ضرورت مروجہ طریقے سے ہونیوالے انتخابات سے پوری نہیں ہوگی۔اس کیلئے ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے جو سیاست اور جمہوریت کے بدن سے ایک ہی بار تمام ناسور نکا ل دے۔اس حوالے سے اس فارمولے کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جس کا تذکرہ اہل دانش اکثر کرتے ہیں۔تین چار سال کی عبوری حکومت۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اس فارمولے پر پیشرفت کیلئے کمر کس لی ہے چند روز قبل ڈاکٹر صاحب نے کچھ صحافیوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی۔ وہ نو مبر میں اپنے اسی فلسفے کے ساتھ پاکستان آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ خود کو انتخابی سیاست سے دور رکھ کر سسٹم کو پٹڑی پر چڑھانے کا عزم صمیم ظاہر کر رہے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا رہے۔ ان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا وہ قومی و ملکی بھلائی کیلئے چار سال تک ایسے سسٹم کے نفاذ کے متمنی ہیں وہ ملک کو جمہوریت کے اصل ٹریک پر چڑھا دے۔اگر ڈاکٹر صاحب کسی کے رابطے اور ایجنڈے پر بھی ایسا کررہے ہیں تو بھی اس خیر کے کام میں کوئی حرج نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قوم اور عدلیہ اور ادارے مل کر محب وطن اور اہل لوگوں کو چار سال میں جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنیکا لائحہ عمل مرتب کریں ان کو جو وقت دیا گیا اس سے آگے ایک دن بھی نہ جانے دیا جائے۔ ان کی تعیناتی سے قبل خدوخال طے کرلیے جائیں کہ ان کو اپنا کام ہر صورت مقررہ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے دوسری صورت میں ان کیلئے پہلے سے طے شدہ ضوابط میں کڑی سزا بھی متعین کر دی جائے۔ آمرانہ سوچ کے حامل سیاستدانوں اور روایتی حکمرانوں کیلئے ڈاکٹر صاحب کا فارمولا شیر کی ایک دھاڑ ہے ان کی آمد کا سن کر یقینا رن کانپ رہا ہے ۔بہر حال فارمولا معقول ہے۔
 شیخ الاسلام کی دعوت پر اکٹھے ہونیوالے صحافیوں میں سونے میں تولے ہوئے اور لاکھوںکی بولی لگوانے والے موجود نہیں تھے۔ پاکستان سے ہزاروں میل دو ر کینیڈا میں بیٹھے میزبان کو سعید آسی صاحب نے یاد دلایا کہ انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ خان کو بھائی قرار دیا تھا جو خدا کو پیارے ہوگئے۔ آپ نے بینظیر بھٹو کو بہن بنایا تھا وہ قتل کردی گئیں آپ نے ایک اور سیاستدان مسرت شاہین کو ہمشیرہ کہا تھا وہ بفضل خدا حیات ہیںاس پر محفل کشت زعفران بن گئی جبکہ علامہ صاحب نے اس پر خاموشی اختیار کی البتہ چند روز قبل مسرت شاہین نے ایک بیان میں یہ کہا کہ ان کو عام انتخابات سے قبل قتل کردیاجائے گا۔ خدا شیخ الاسلام کی منہ بولی بہن کو محفوظ رکھے۔ اگر ڈاکٹر صاحب کے فارمولے پرعمل ہوجاتا ہے تو عام انتخابات آج سے ساڑھے چار سال بعد ہونگے۔ اگر قاتل ہاتھ انتخابات تک محترمہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں تو محترمہ کو کم از کم ساڑھے چار سال کی مہلت تو مل جائے گی۔اس دوران سیاسی صورت حال اور مسرت شاہین کے مبینہ قاتلوں کی سوچ کوئی دوسرا رخ بھی اختیار کرسکتی ہے۔

Thursday, September 6, 2012

اللہ گواہی دیتا ہے ‘ شہید زندہ ہے


جمعرات ,06 ستمبر ,2012



     
اللہ گواہی دیتا ہے ‘ شہید زندہ ہے    

جنگ ِ65ءکیوں لڑی گئی‘ کن مقاصد کے تحت لڑی گئی ‘ کیا وہ مقاصد حاصل ہوئے‘ اگر اپنے دفاع میں لڑی گئی تو کس حد تک کامیابی ہوئی۔ بہرحال پاکستان نے یہ جنگ دشمن سے بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑی اور دنیا میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ سوالات تو بہت سے ذہن میں ابھرتے ہیں جن پر تفصیلی بحث عموماً ہوتی رہتی ہے۔ 
ایوب خان نے چند ماہ قبل دنیا کے سب سے بڑے فراڈ صدارتی انتخابات کرائے تھے جن میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں اپنی جیت کا جھرلو کے ذریعے اہتمام کیا گیا تھا۔ جب وطن عزیز پر دشمن حملہ آور ہوا تو قوم وقتی طور پرہی سہی‘ تمام اختلافات اور تحفظات بھلا کر سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ ہو‘ اسکی غداروں پر بھی کڑی نظر ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلے محاذ پر لڑنا فوج ہی کا کام ہے۔ جذبہ جہاد اور ذوقِ شہادت سے معمور ایک سپوت دشمن کے کئی دستوں پر حاوی ہوتا اور بھاری پڑتا ہے۔ جذبہ شوقِ شہادت پاک فوج میں بدرجہ اتم موجود ہے جس کے مناظر قیام پاکستان کے بعد سے آج تک دیکھنے میں آتے رہے ہیں‘ اورکیوں نہ ہو! جبکہ شہید کے رتبہ و درجے کے بارے میں اللہ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
 ”تم ہرگز اللہ کی راہ میں شہید ہونیوالوں کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔رزق دیئے جاتے ہیں اور خوش باش ہیں“۔ لوگ سوچتے ہیں شہید کیسے زندہ ہیں اور ان کورزق کیونکر دیاجاتا ہے؟ قرآنِ کریم کے اس دعوے کے مظاہر اور شواہد اسلام کے ابتدائی دور سے آج تک دیکھنے میں آرہے ہیں۔اللہ کے برگزیذہ بندوں کا تو کفن بھی میلا نہیں ہوتا۔ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان کا جسدِ خاکی ترو تازہ اور معطر رہتا ہے۔ سید الشہدا سیدنا امیر حمزہؓ کی آخری آرامگاہ کے قریب سے نہر کھودی جارہی تھی۔لا علمی میں اچانک نہر کھودنے والے کا پھاوڑا آپ کے قدم مبارک پر پڑ گیا اور آپ کا پاﺅں کٹ گیا تو اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا،حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چالیس سال گزر چکے تھے۔ (حجة اللہ علی العالمین،من کرامات عبداللہ،ص615 ملخصا،مطبوعہ برکاتِ رضا ہند) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک دو مرتبہ قبر مبارک سے نکالا گیا۔پہلی مرتبہ شہادت کے چھ ماہ کے بعد نکالا گیا، تو وہ اسی حالات میں تھے جس حالت میں دفن کیا گیا تھا (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب ھل، یخرج ا لمیت، الحدیث 1351، ج ا، ص 454، دارالکتب العلمیة بیروت) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوسری مرتبہ چھیالیس برس کے بعد اپنے والد ماجد( یعنی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ) کی قبر کھود کر ان کے مقدس جسم کو نکالا تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگاپھر جب ہاتھ زخم پر ہاتھ رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا وہ بدستور صحیح و سالم تھا۔(حجة اللہ علی العالمین،من کرامات عبداللہ،ص615 ،مطبوعہ برکاتِ رضا ہند) پوری دنیا سے آنے والے لاکھوں زائرین کی موجودگی میں دو صحابہ کرام حضرت حذیفہ الیمانی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اجسام مبارک کی منتقلی کا یہ واقعہ دیکھا غالباً20ذو الحجہ1351 ہجری میں پیش آیا۔ جس کی تفصیل کچھ یوںہے کہ دو رات برابر شاہِ عراق کو صحابی رسول حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں تشریف لا کر ارشاد فرمایا کہ میرے مزار میں پانی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار میں نمی آنا شروع ہوگئی ہے۔اس لئے ہم دونوں کو اصل مقام سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے ذرا فاصلے پر دفن کردیاجائے۔ (  کتاب الاستیذان، باب من القی لہ و سادة، الحدیث6273، ج4، ص72، دار الکتب العلمیة بیروت) چند روز قبل ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں ایک خوبصورت 18 انیس سال کا نوجوان دکھایا گیا ہے جس کو 1979 میں روسی فوجیوں نے طورخم میں شہید کردیا۔ چند روز قبل اس کے باپ نے خواب میں دیکھا کہ اس کا بیٹا اسے پکار رہا ہے۔اُس نے خواب میںہی اپنے جسد خاکی کی نشاندہی کی۔ بوڑھا والد خاندان کو لیکراس مقام پر پہنچا‘ مٹی ایک طرف کی تو خوبرو بیٹے کا بالکل ترو تازہ او ر معطر جسد برآمد ہوا اس کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ ایک مثال لانس نائیک محمد محفوظ نشانِ حیدر کے ورثاءاور گاﺅں والوں نے ان کو قبرستان سے الگ دفنا کر مقبرہ بنانے کا فیصلہ کیا‘ اس وقت تک ان کو شہید ہوئے چھ ماہ 13 دن ہو چکے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا‘ قبر کی کھدائی شروع ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور آسمان پر بادل چھا گئے۔ میت نکالی گئی تو تابوت سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے جو گھر سے برتن منگوا کر محفوظ کر دیئے گئے۔ نئی قبر کھودی گئی تو وہ بھی پرانی قبر کی طرح معطر ہو گئی۔ شہید کے ایک بھائی نے دیدار نہیں کیا تھا‘ اس نے علماءسے دیدار کی درخواست کی‘ دوسروں کو کچھ نہ بتانے کی شرط پر اجازت دیدی گئی۔ بعد میں والدہ کے کہنے پر دیدار کرنےوالے نے بتایا کہ شہید کی داڑھی تین انچ بڑھی ہوئی تھی جو شہادت اور تدفین کے وقت موجود نہ تھی۔ چہرے پر بشاشت اور طمانیت تھی۔ سچ کہا ہے کہ....
محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا
شہید کے زندہ ہونے اور اسے اس کی آخری آرامگاہ میں رزق دئیے جانے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ شہیدوں کو رزق ملتا ہے تو ان کے بدن کے زخموں سے خون جاری رہتا ہے‘ یہی یقین اور جذبہ ہمیں دنیاوی زندگی کے مقابلے میں ابدی زندگی پر فوقیت دینے پر آمادہ و مائل کرتا ہے۔ بغیر کسی منفعت اور لالچ کے
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن 
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

Wednesday, September 5, 2012

گورونانک کا ننکانہ


۔
     


ستمبر,4, 2012

بابا گورونانک کا ننکانہ    

سید شوکت علی شاہ کسی دور میں ننکانہ صاحب میں اسسٹنٹ کمشنر رہے۔ اپنی ابتدائی سروس کی یادیں تازہ کرنے اور دوستوں سے ملنے کے لئے وہ ننکانہ صاحب جاتے رہتے ہیں۔ اس بار لندن سے آئے ہوئے شاہ صاحب کے دوست راشد صاحب اور اے جی جوش کے صاحبزادے خالد تاج بھی ہم سفر تھے۔ اے جی جوش کو قاسمی صاحب ادیبوں کا گورنانک کہتے ہیں۔ ان کا ماہنامہ ادب دوست آج بھی خالد تاج کے زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔ راشد صاحب لندن میں مشرف کے پڑوسی ہیں وہ مشرف کی وطن واپسی کا عزم دہرا رہے تھے۔ حسب سابق میزبان چودھری محمد حسین تھے۔ 32 ایکڑ پر محیط جن کے چاول کے کارخانے بچیکی میں ہیں۔ دوپہر ساڑھے بارہ بجے ہم لوگ گورونانک کے گوردوارے پہنچ چکے تھے۔ لاہوری قافلے کو جی آیاں نوں کہنے والوں میں گوردوارے کی انتظامیہ کے دیا سنگھ‘ دیال سنگھ اور مستان سنگھ کے ساتھ چودھری محمد حسین ان کے صاحبزادے نوید حسین‘اخلاق حسین اور ننکانہ کی سیاست میں آگے بڑھتے ہوئے نوجوان مون خان بھی تھے۔ گوردوارہ کے منتظمین ہشاش بشاش تھے۔ سرداروں کے بارہ بجنے کی کیفیت مشہور ہے لیکن ہمیں اس فلسفے میں کوئی حقیقت نظر نہ آئی۔
گوردوارہ کی آمدنی کے ذرائع وسیع ترین ہیں۔ اس کے نام 2900 مربع اراضی ہے۔ کمرشل عمارات گوردوارہ کی آمدنی کا مزید ذریعہ ہےں۔ زائرین کے نذرانے بھی گوردوارہ کی آمدن میں شامل ہیں۔ ساری آمدن اوقاف کی چھلنی سے چھن کر گوردوارہ کے انتظامات کے لئے آئی ہے۔ انتظامیہ حکومت کی طرف سے گوردوارہ کے لئے کئے گئے انتظامات اور فراہم کی گئی سہولیات سے مطمئن ہے لیکن ہمیں کچھ معاملات دیکھ کر افسوس ہوا۔ جس گیسٹ روم میں بیٹھے تھے۔ اس کی کرسیاں تک ٹوٹی ہوئی تھیں۔ چائے بھی شاید انتظامیہ نے اپنی جیب سے پلائی۔ زائرین میں بڑی بڑی عالمی شخصیات بھی ہوتی ہیں۔ جن کی اسی کمرے میں سیوا کی جاتی ہے جس میں اے سی کی سہولت بھی نہیں ہے۔ اس گیسٹ روم سے متصل ایک وسیع لان ہے۔ جو ملنگنی کے جوئیں پڑے سر کے بالوں کی طرح اجڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اتنی بڑی آمدن اور عالمی اہمیت کے حامل گوردوارے کی جو لش پش ہونی چاہئے وہ مفقود ہے۔ آصف ہاشمی اوقاف کی کمائی کی جیسے چاہیں دھنائی کریں۔ گوردوارہ کی ودھائی کا بھی خیال رکھیں۔ اچھے انتظام کی صورت میں نیک نامی اور بصورت دیگر بدنامی کس کی ہو گی؟
لاہور سے ہم لوگ چلے تو موضوع میڈیا اور میڈیا کی کرشماتی شخصیات کا تذکرہ رہا جو اپنا ریٹ اور اپنی ریٹنگ بڑھوانے کے لئے صرصر کو صبا اور بندے کو خدا لکھنے اور کہنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ چودھری محمد حسین کے ڈیرے پر محفل جمی تو سیاست اور خصوصی طور پر ملکی حالات زیر بحث آئے۔ پانی کی کمی کے باعث ضلع ننکانہ صاحب میں 65 ہزار ایکڑ چاول کی فصل کاشت ہوسکی ہے۔ گذشتہ سال ایک لاکھ 5 ہزار ایکڑ پر ہوئی تھی۔ پانی کی کمی‘ نہروں میں پانی کم آنے‘ بجلی کی قلت اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث ٹیوب ویلوں کی بندش کے باعث ہوئی۔ چاول ایکسپورٹر کئی سال سے مشکلات کا شکار ہیں۔ چاول کی قیمت پر نظر ڈالیں تو گذشتہ 6 سات سال سے تقریباً ایک ہی سطح پر ہے جبکہ اس کی پیداوار اور تیاری کے اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ حکومت نے اس معاملے میں دلچسپی نہ لی تو چاول کی رہی سہی ایکسپورٹ بھی ختم ہو جائے گی۔گذشتہ دور میں ملکی سیاست کے پس پردہ ایک بڑے کردار بریگیڈئر اعجاز شاہ کا تعلق بھی ضلع ننکانہ صاحب سے ہے۔ ان کے اثرورسوخ سے ننکانہ صاحب کی جون ہی بدل گئی ہے۔ کھلی اور کشادہ سڑکیں اور دیگر بہت سے ترقیاتی کام اور تحصیل کو ضلع بنا دینا اعجاز شاہ کے دائیں ہاتھ میں پکڑے جانے والے نامہ اعمال کا حصہ ہے۔ اب وہ خود سیاست کی وادی میں اترنے کا فیصلہ کر چکے ہیں دیکھئے یہ وادی ان کے لئے پرخار یا پُربہار کیسے ثابت ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں متوقع امیدوار رائے منصب علی خان اور مہر سعید پڈھیار ہوں گے۔ رائے صاحب اس حلقے سے پانچ بار جیت چکے ہیں۔ مہر صاحب کا بھی حلقے میں بڑا اثر ہے 2008ءمیں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت گئے تھے۔
بریگیڈئر اعجاز شاہ کے ننکانہ میں کام دیکھتے ہوئے جنوبی پنجاب کی پسماندگی نظروں میں گھوم جاتی ہے۔ اس پسماندگی کو بنیاد بنا کر اسے صوبہ بنانے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے حضرات کی صدارت‘ وزارت عظمیٰ گورنر اور وزارت علیاءکے منصبوں پر پہنچنے والوں کی ایک طویل لسٹ ہے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مرکزی اور صوبائی وزراءکی انھی مچی ہوئی ہے۔ اعجاز شاہ ایک ضلع کو سنوار سکتا ہے تو جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مقتدر حضرات نے اپنے علاقوں کی پسماندگی کیوں دور نہ کی؟
مہنگائی بیروزگاری‘ افراتفری‘ لاقانونیت اور بجلی و گیس کی قلت جیسے اہم موضوعات پر بھی بات ہوئی اس کو کرپشن اور بدانتظامی کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے۔ شوکت علی شاہ صاحب نے اپنی یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ فیض کریم کا تذکرہ کیا۔ ان کی فیملی مظفر گڑھ سے آرہی تھی۔ بچوں نے سٹیشن پر گاڑی بھجوانے کو کہا تو والد نے سرکاری گاڑی بھجوانے سے انکار کر دیا۔ فیملی کو تانگے میں ڈی سی ہا¶س آنا پڑا۔ جہاں فیض کریم نے ان کو ریسیو کیا اور تانگے کا کرایہ ادا کیا ساتھ ہی اوورلوڈنگ پر تانگے کا چالان بھی کر دیا۔ یہی فیض کریم جب لاہور میں مجسٹریٹ تھے تو ڈی سی مصطفیٰ زیدی نے اپنے دفتر طلب کرکے اداکار محمد علی کا تعارف کرایا اور ان کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی ہدایت کی۔ اگلی پیشی پر فیض کریم نے علی صاحب کی ضمانت منسوخ کر دی جس پر وہ بھاگ کر ڈی سی کے پاس چلے گئے۔ ڈی سی نے بپتا سنی تو چیف سیکرٹری کے پاس جا کر اپنا یا فیض کریم کا تبادلہ کرنے کو کہا اس پر فیض کریم کا کیمل پور (اٹک) تبادلہ کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنا ٹرنک اور مصلہ اٹھایا اور چل دئیے۔ ملک کو مشکلات سے قائداعظم کی تقلید کرنے والے سیاست دان اور فیض کریم جیسا جذبہ رکھنے والے بیوروکریٹ ہی نکال سکتے ہیں۔ ہماری واپسی بچیکی سے براستہ شرقپور ہوئی بچیکی میں نالہ ڈیک کا پل سات آٹھ سال کی خواری کے بعد بن تو گیا دونوں اطراف کے کھڈے ابھی موجود ہیں۔ محکمہ کے لنڈوروں کو لُنڈیانوالہ اور صوفی دی کوٹھی کے درمیان تباہ کن کھڈے بھی نظر نہیں آتے۔ محکمہ ہائی وے نے فیصل آباد لاہور روڈ وایا شرقپور ایک خوبصورت شاہراہ تعمیر کر دی ہے۔ لیکن مانگٹانوالہ سے دھوکہ منڈی تک سڑک‘ سڑک نہیں ایک فریب نظر اور دھوکہ ہے۔ جو متعلقہ محکمہ کی کالی بھیڑوں کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔