About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 20, 2012

سروں کی فصلیں



     
سروں کی فصلیں!
 ستمبر, 16, 2012     

میاںنواز شریف کے خدشات بے محل ہیں کہ حالات ایسے ہی رہے تو پاکستان ناکام ریاست بن جائیگا۔البتہ کچھ عالمی قوتوں کی یہ خواہش ضرور ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بن جائے۔ناکام ریاست اُس یتیم بچے کی طرح ہوتی ہے جس کا کوئی والی وارث نہ ہو۔ ناکام ریاستوں کی درجہ بندی امریکی تھنک ٹینک ”فنڈ فار پیس “کرتا ہے۔اس نے تمام ممالک کو 4درجوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔پہلے درجے میں ان ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے جن کے ناکام ریاست ہونے کا خطرہ ہے۔ اس میں رواں سال 2012 میں پاکستان کا 13واں نمبر ہے۔پہلے نمبر پر صومالیہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر کانگو(زائر) اور سوڈان ہیں۔ افغانستان کا چھٹا اور عراق کا نواںنمبر ہے ناکام ریاست کے خطرے کی زد میں آنیوالے ممالک کی لسٹ بنانے والوں کی ”صالحیت اور نیک نیتی“ کا اندازہ اس سے لگا ئیے کہ ایتھوپیا، برونڈی، میانمار اور شام کو پاکستان کے مقابلے میں نسبتاً کامیاب ریاستیں قرار دیا گیا۔ ناکام ترین ریاست کی درجہ بندی کرتے ہوئے 12اسباب کو مد نظر رکھاجاتا ہے جن میں سلامتی کو خطرات، معاشی بد حالی،انسانی حقوق کی پامالی اور حالات سے تنگ لوگوں کی نقل مکانی اہم ہیں۔ ایسی ریاست نا کام قرار پاتی ہے جس کی مرکزی حکومت اس قدر کمزور اور غیر موثر ہوکہ اس کا انتظامی معاملات پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ عوام کی پبلک سروسز تک رسائی ناممکن ہوجائے۔ کرپشن انتہا کو چھونے لگے جرائم کا دور دورہ ہواورمعیشت تیزی سے زوال پذیر ہو۔
یہ سب تو امریکی تھنک ٹینک Fund for Peace کے کسی بھی ملک کو ناکام قرار دینے کے ضوابط ہیں۔ یہ کوئی عالمی قانون نہیں جو فنڈ فار پیس کی درجہ بندی سامنے آنے کے ساتھ لاگو ہوجائے۔ کسی تھنک ٹینک، ملک،تنظیم،ادارے یا شخصیت کی طرف سے کسی ملک کو ناکام یا کامیاب قرار دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی ملک ناکام ہے یا کامیاب اس کا مکمل دارومدار اس ملک کے اندرونی حالات اور معاملات پرہے۔ کمزور یا ناکام ممالک بیرونی مداخلت روکنے میں بے بس ہوجاتے ہیں۔ مضبوط ممالک کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرا¿ت بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان دوسری کیٹیگری میں آتا ہے یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کے اندر کا خوف اوردھن دولت کی حرص و ہوس ان کو لرزہ براندام کردیتی ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا اتحادی ہے۔ امداد اور فنڈز کا لالچ اپنی جگہ لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں کے بعد جس طرح سے نیٹو سپلائی معطل کی گئی اور شمسی ائیر بیس خالی کرایا گیا یہ کسی کمزور ملک کی جرا¿ت رندانہ کام نہیں۔ پھر سپر پاور اورنیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے جس طرح ناک رگڑتے رہے وہ عظیم تر پاکستان کی مضبوطی کا مظہر اورثبوت ہے۔ناکام ریاست کی بات تو بہت دورکی بات ہے۔
 ایٹمی پاکستان نہ تو ناکام ریاست ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا،انشاءاللہ ۔ آج ملک بحرانوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جس کے ذمہ دار اس ملک کوچلانے والے ہیں لیکن ان کو بھی ناکام، نا اہل اور صلاحیتوں سے عاری قرار نہیں دیاجاسکتا وہ جس مقصد کیلئے اقتدار میں آئے وہ بڑی کامیابی اور بڑی تیزی سے حاصل کر رہے ہیں۔ جن مقاصد کیلئے عوام نے ان کو چنا وہ ان کا مطمحِ نظر ہی نہیں تھا۔قومی خزانے کو کبھی اقتدار لیئے بڑی کاریگری سے، چُھپ چھُپا کے اور لُک لکا کے لوٹا کرتے تھے۔ ان کے کرتوت اقتدار سے اترنے یا اتارے جانے کے بعد اور کہیں بعد منظر عام پر آتے ، آج ہتھیلی پر سرسوں جمتی ہے۔ خزانے اور اداروں کو جمہوریت کی چوٹ ہضم کیاجارہا ہے۔ عوام نے جس مقصد کیلئے چنا اس کی طرف سِرے سے دھیان اور میلان ہی نہیں۔ کراچی کی آتش زدہ فیکٹری میں تین سو کے لگ بھگ انسان موت کی نذر ہوگئے۔ اُن کے تنخواہ کے منتظر والدین، بیوی بچوں اور بہنوں پر موت کی خبر سے کونسی کربلا اور قیامت ہے جو ٹوٹا نہ ہوگی۔ دو گروپوں کی جانب سے کروڑوں کے بھتے کی ڈیمانڈ،پھر فیکٹری کے دروازے بند اور بے دلی سے آگ پر قابو پانے کی کوشش، ایسی خبریں اپنی زبان سے بہت کچھ بیان کردیتی ہیں۔ بے لاگ تحقیقات کی پاتال سے ثابت ہوجائیگا کہ آگ اتفاقیہ نہیں لگی۔بے لاگ تحقیقات کراچی کی پولیس رینجرز اور دیگر ادارے نہیں کرسکتے۔بہترین فورم رحمن ملک کی مداخلت سے مبرا مرکزی ادارے ہیں۔آئی ایس آئی ایم آئی یا ان جیسے دیگر ادارے ۔کراچی میں کُلی، بلوچستان، کے پی کے ،گلگت بلتستان میں جزوی طور پر لاقانونیت کے سفاک پنجے انسانوں اور انسانیت کا بڑی بے رحمی سے خون کر رہے ہیں۔ اس کا کوئی تو ذمہ دار ہے لیکن وہ قانون کے ہاتھوں کی گرفت میں نہیں آرہا۔کیوں؟ اس لئے کہ جنہوں نے مجرموں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنا ہے ان کو جرائم سے کوئی سروکار ہے نہ مجرموں کو کٹہرے میں لانے سے کوئی دلچسپی بلکہ یہ تو خود بھی مجرم ہیں، ان کا تو ایجنڈا ہی کوئی اور ہے ،یہی وجہ ہے کہ حالات بگڑتے چلے جارہے ہیں۔مجرم اپنا کام کر رہے ہیں ۔ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنیوالی قوتیں اپنا کام اور جن کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار ہے وہ اپنا کام بڑی خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔ ہر کام کی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ظلم کی انتہا، لاقانونیت کی انتہا، لو ٹ مار کی انتہا اور سب سے بڑھ کر صبر اور برداشت کی انتہا۔شاید معاملات ابھی انتہاﺅں تک نہیں پہنچے لیکن پہنچنے میں شاید زیادہ دیر بھی نہیں ہے۔ککر میں پریشر زیادہ ہوجائے تو اس نے پھٹنا ہی ہوتا ہے۔ندی نالوں حتیٰ کہ دریاﺅں میں پانی گنجائش سے زیادہ ہوجائے تو بند ٹوٹنے ہی ہوتے ہیں۔حجاج بن یوسف تاریخ اسلام میں مکروہ چہرے والا کریہہ کردار ہے۔اس نے اموی خلافت کی آبیاری کیلئے انسانیت کا خون بڑی بے رحمی سے بہایا۔ عبداللہ بن زبیرؓ کو حرمِ کعبہ پر سنگ باری کرکے شہید کیا۔مدینتہ النبی کے مسلمانوں پر قہر بن کرٹوٹا۔اس کی گردن پر لاکھوں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کا خون ہے جن میں صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین بھی شامل تھے۔ ان مظالم اور خرافات کے باوجود خطابت فصاحت اور بلاغت میں اپنی مثال آپ تھا۔ کوفہ میں بغاوت اٹھی تو اس نے وہاں جا کر مسجد میں خطے کے دوران یہ بھی کہا:”میں دیکھتا ہوں نظریں اٹھی ہوئی ہیں۔گردنیں اونچی ہورہی ہیں۔ سروں کی فصل پک چکی ہے اور کٹائی کا وقت آگیاہے میری نظر وہ خون دیکھ رہی ہے جن سے پگڑیاں او ر داڑھیاں تربتر ہیں۔“
 آج وطن عزیز میں قتل و غارت ہے۔لوٹ مار ہے نا انصافی اور ظلمت ہے،ادارے برباد ہوچکے لاقانونیت،افراتفری اور انارکی ہے۔لوگ حالات سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں اور بعض اولادیں فروخت کر رہے ہیں۔مفلسی خواتین کوعصمت فروشی اور مردوں کو بے غیرتی پر مائل کردیتی ہے جس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ کیا اس سب کچھ کے ذمہ داروں کے سروں کی فصلیں پک نہیں چکی ہیں ؟

No comments:

Post a Comment