About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, December 31, 2010

اینٹ۔ پتھر۔ پھول

جمعۃالمبارک ، 31 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
حالات اور وقت میں تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ ترجیحات اور جذبات میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ادوار‘ زمانہ اور وقت بدلنے کے ساتھ دوامی نظریات بدلتے ہیں نہ اخلاقیات۔ ہمارے ہاں خوشامد اور غیبت معاشرے اور سیاسی کلچر کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ جس سے مفاد وابستہ ہو اس کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے اور اس کی مزید خوشنودی اور اسے مائل بہ کرم کرنے کے لئے حریفوں کی برائی کی جاتی ہے۔ خوشامد، غیبت اور چغل خوری جیسے کبائر اپنی جگہ ‘کچھ لوگ واقعی اپنے لیڈر اور محسن کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں۔ اس پر جان تک نچھاور کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ اس کے فرمان پر طوفانوں سے ٹکرانے اور جان لڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں مروجہ سیاست میں اعلیٰ سطح پر منافقتیں اور مصلحتیں تو ہو سکتی ہیں کارکن عموماً ان خرافات سے مبرّا اور مُصفّا ہیں۔ وہ بَل فریب نہیں جانتے۔ جس کے ساتھ‘ اس کے جاں نثار و جانباز، گو اس جذبے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے لیکن یہ ایک ناپسندیدہ حقیقت ہے کہ سیاسی نظریات میں بعض اوقات اتنی شدت اور حدت آ جاتی ہے کہ کارکن حریف کی جان لینے اور اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سیاست میں برداشت، تحمل اور اخلاقی اقدار پر کاربند رہا جائے تو معاملات پٹڑی سے نہیں اترتے۔ نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک عزت کرو اور عزت کرائو بہترین اصول ہے۔ یہ سنہری قول ہمارے لئے رہنما اصول ہے کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی جھوٹا نہ کہو، وہ آپ کے سچے خدا پر بہتان لگائے گا۔ نفرت، دشنام اور الزام کے پیام میں محبت و الفت، پتھر کے جواب میں پھول برسیں، ایسا کسی اور دنیا اور معاشرے میں ہو تو ہو، ہمارے نہیں۔ 
ہماری سیاست میں 1988ء سے 1999ء تک کا عرصہ نفرت انگیز اخلاق سوز اور شر آگیں ہے۔ اُس دور میں شرافت اور شرارت ہم پلہ بن گئے۔ پگڑیاں اچھالنے اور آنچل اڑانے کا چلن عام، عزت و احترام بے نام ہو کر رہ گیا تھا پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو دو بار اقتدار میں آئیں، کوئی ایک بھی اپنی مدت مکمل نہ کر سکی۔ ایم کیو ایم کبھی اِس کبھی اُس در بھٹکتی رہی۔ گزشتہ روز کی خرافات اور بکواسات نے ایک بار پھر اَخلاقِیّت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ بات مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان ہلکی پھلکی موسیقی سے شروع ہوئی، الطاف حسین نے لاہور میں ساز بجانے کا اعلان کیا ن لیگ کا جواب آں غزل آنا ہمارے معاشرتی کلچر کا یقینی تقاضا تھا۔ بات مناظرے کے اعلانات اور جوابی بیانات سے ہوتی ہوئی سوتنوں کے سے طعنوں کے ساتھ بہت آگے چلی گئی۔ پھر چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی کے اندر برسے تو حیدر عباس اور وسیم اختر اسمبلی کے باہر گرجے۔ ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی پھیر دی۔ یہ بے ہودہ، اخلاق باختہ، لچرپن فحش گوئی، بے شرمی، بے حیائی اور بدبو سے پرداختہ سخن طرازی کا مقابلہ و مناظرہ تھا۔ جو کچھ ان حضرات نے آن ایئر کہا، کیا یہ سب اپنے گھر میں بہنوں، بیٹیوں اور مائوں کی موجودگی میں دہرا سکتے ہیں؟ بدزبانی سے حیدر عباس و وسیم اختر کا کچھ بگڑا نہ بدکلامی سے چودھری نثار علی کا کچھ گیا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کی اعلیٰ قیادت کو رگیدا اور رگڑا گیا۔ وقتی طور پر فائر بندی ہو چکی ہے تاہم بات بڑھی تو بھی ٹارگٹ نوازشریف، شہباز شریف اور الطاف حسین ہونگے۔ نفرتیں بڑھیں گی انتقام کی چنگاریاں شعلہ بار ہونگی۔ کارکن ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونگے۔ ملکی سیاست میں جوڑ توڑ کی کھچڑی پک رہی ہے یا ایک پلاننگ کے تحت روٹھنے منانے اور طوفان اُٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ الگ معاملہ ہے تاہم نوازشریف اور الطاف حسین اعلیٰ ظرفی، برداشت اور تحمل سے کام لیں۔ اپنے ساتھیوں کو گالم گلوچ سے روکیں۔ اپنے ساتھیوں کو آگ اگلنے سے روکنے کا مطلب آپ نے اپنے خلاف زہر افشاں توپیں خاموش کر دیں۔ کل کا مقابلہ سخنوری اپنے اپنے انداز میں دونوں دھڑوں نے جیت لیا۔ مان گئے دونوں کو گرجنا بھی آتا ہے برسنا بھی، تڑپنا بھی اور تڑپانا بھی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے تو سب دیتے ہیں۔ کبھی سنگ باری کے بجائے پھول بھی تو آزما اور بھجوا کر دیکھئے۔


Thursday, December 30, 2010

قومی وقار! شکایت کس سے کریں؟

 جمعرات ، 30 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
ہمارے کچھ دانشور پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود حجابات ہٹا دینا اور سرحد کی صورت میں کھنچی لکیر مٹا دینا چاہتے ہیں۔ انتہا پسند بنیے کی تو خواہش ہی اکھنڈ بھارت ہے۔ وہ تو ملکوں کے نام کا تکلف بھی برطرف کرنے کیلئے بے چین ہے گریٹر انڈیا اس کی تمنا اور آرزو ہے۔ اس کیلئے جال بنے جاتے منصوبے تشکیل دئیے جاتے اور سازشیں پروان چڑھائی جاتی ہیں۔ جب ہمارے سیاسی قائدین ویزے کی پابندی کے خاتمے کا نعرہ مدہوشیانہ لگاتے ہیں تو عظیم تر ہندوستان کا خواب دیکھنے والے بنیئے کو اپنی امید برآتی محسوس ہوتی ہیں۔ اس کے دل و دماغ میں شوخ و چنچل ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ 
الگ ملک ایک ہو جانے چاہئیں لیکن وہ پاکستان اور بھارت نہیں‘ بنگلہ دیش اور پاکستان کو ایک ہونا چاہئے۔ ان کے ایک ہونے کا جواز بھی ہے۔ ان کی تہذیب ایک‘ ثقافت ایک‘ دین ایک‘ ایمان ایک‘ نبی ایک قرآن ایک اور خدا ایک ہے اور دشمن بھی ایک‘کل تک یہ خود بھی ایک تھے۔ اس کیلئے ایک انقلابی لیڈر کی ضرورت ہے۔ دو قومی نظریے کے پاسبان کی ضرورت ہے۔ قائد اور اقبال کے جانشیں کی ضرورت ہے کرنل قذافی کے سے جذبے کی ضرورت ہے جس نے لیبیا اور مصر کے ادغام اور انضمام کی تجویز پیش کی جسے انور السادات نے ٹھکرا دیا۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمیں دونوں حصوں سے قائد ایسا ایک بھی رہنما و پیشوا نہ ملا۔ مجیب یحییٰ جیسے ملک توڑ اور انور السادات جیسے اتحاد کے دشمن قدم قدم اور ہر موڑ پر ملے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین بدگمانیاں اور نفرتیں محبتوں میں بدل سکتی ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان کے باسیوں کے دل میں اگر کدورت اور نفرت ہے تو وہ اس سطح کی نہیں جو قریش مکہ کی دین اسلام کے پیروکاروں میں تھی۔ پھر دنیا نے ان کو شیر و شکر اور ایک دوسرے پر جاں نچھاور کرتے دیکھا۔ ایسی یکتائی اور یکجائی قیامت تک‘ پاکستان اور بھارت کے مابین قطعاً ممکن نہیں۔ اسلام پوری انسانیت سے محبت اور مساوات کا درس دیتا ہے لیکن مسلمان‘ ہندو سے نفرت‘ اس کی نفرت کے جواب میں کرتا ہے۔ وہ مسلمان کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو بھی بھرشٹ سمجھتا ہے۔ گو آج کچھ جدت پسند ہندو مسلمان سے ہاتھ ملا لینے کو حرج نہیں سمجھتے لیکن ان کا ہندو معاشرہ اور سیاست میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجموعی طور پر بھارت کے آئینی طور پر سیکولر ہونے کے باوجود اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سکھوں نے اندرا گاندھی ماری تو معتوب ٹھہرے۔ مسلمان تو نہ صرف مکھی تک کو مارنے کے جرم دار نہیں بلکہ یہ تو اپنے مدرسوں اور مساجد میں گاندھی اور اس کے چیلوں کو بھی بلا لیتے ہیں۔ اس کے باوجود انتہا پسند ہندو دل میں مسلمانوں کی ہزار سالہ غلامی کے انتقام کا جذبہ الاؤ دہکائے رکھتا ہے۔ ہندو کی بدباطنی‘ خباثت اور کینہ پروری کا احساس ہمارے کچھ دانشوروں کو نہیں ہو رہا۔ یہ اس کے ساتھ دوستی کے بے پایاں جذبات رکھتے ہیں۔ بھارت میں کچھ مسلمان خاندان شہرت‘ عزت اور دولت کی معراج پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی اصلیت پر نگاہ دوڑائیں تو کسی کی ماں ہندو ہے کسی کا باپ‘ اگر ماں باپ مسلمان ہیں تو کسی نے خود نکاح ہندو خاندان میں کر رکھا ہے کسی نے بہن اور بیٹی ہندوؤں میں بیاہ رکھی ہے۔
بھارت سے دوستی کے خواستگار نہ جانے کیوں تمام قانونی تقاضے پورے کرکے بھارت جانے والوں پر تشدد اور تشدد سے مرنے والوں کو بھول جاتے ہیں۔ جن کو ہماری اکثریت کھیل اور شوبز کے میدان میں ہیرو سمجھتی ہے ان کی بھارت میں تذلیل ہوتی ہے۔ تازہ ترین واقعہ عدنان سمیع کا جسے اس کی کروڑوں کی جائیداد چھین کر دھتکار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے فنکار اور کھلاڑی بڑی بے شرمی سے نوٹ بنانے اور پیسہ کمانے کیلئے بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ بھارت میں ایک بھی پاکستانی ٹی وی چینل دکھانے کی اجازت نہیں۔ ہمارے ہاں پاکستانی چینلز سے زیادہ سپریم کورٹ کی طرف سے پابندی کے باوجود انڈین فحش چینل دکھائے جاتے ہیں۔ سینماؤں میں بھارتی فلمیں چل رہی ہیں۔ ہمارے پڑوسی سینما میں بھی سکھ فلمی بورڈ پر دندنا رہے ہیں۔ پاکستانی چینلز بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھارت کے اشتراک سے بنے پروگرام دکھا رہے ہیں۔ ان کی سکرینوں پر انکی فلمیں چل رہی ہیں۔پرنٹ میڈیا میں پاکستانی فنکاروں سے زیادہ دشمن ملک کے فنکاروں کو کوریج دی جاتی ہے۔ کیا یہ سب قومی وقار کے منافی نہیں؟ ہمارے حکمران کسی بھی جدت پسند اور آزاد خیال حلقے سے پیچھے نہیں۔ آخر شکایت کریں تو کس سے کریں؟

Wednesday, December 29, 2010

معاشرہ سیاسی زعما کے کردار کا عکاس

 بدھ ، 29 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
ہمارے لئے سیاست میں قائداعظم کی شخصیت رول ماڈل ہے۔ انہوں نے انگریزوں کی جانبداری اور ہندو انتہا پسندوں کے تعصب کے باوجود اصولوں اور قوائد و ضوابط پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ آج ہم پاکستانیوں کے لئے سیاسی حالات اُس دور کی نسبت کئی گُنا سازگار ہیں… 1946ء میں کلکتہ مسلم چیمبر آف کامرس کی ایک نشست پر مسٹر اصفہانی بطور مسلم لیگی امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو رہے تھے۔ خلاف توقع ان کے مقابل ایک امیدوار آ گئے۔ اس سے مسلم لیگی حلقوں میں بے چینی محسوس ہونے لگی۔ ایک شام عبدالرحمن صدیقی نے اصفہانی صاحب کو خوشخبری سنائی کہ مخالف امیدوار کو زرضمانت اڑھائی سو روپے ادائیگی پر مقابلے سے دستبرداری کے لئے قائل کر لیا ہے۔ قریب قائداعظم بیٹھے تھے انہوں نے یہ سب سنا تو خفا ہوئے۔ قائداعظم نے زرضمانت اڑھائی سو کو بھی رشوت قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں یہ منظور نہیں۔ اس موقع پر قائداعظم نے اصفہانی صاحب سے جو فرمایا ہمارے لئے رہنما اصول اور مشعلِ راہ ہے۔ ’’میرے عزیز یاد رکھو پبلک زندگی میں، اخلاقیات اور دیانت کی اہمیت پرائیویٹ زندگی سے بھی زیادہ اہم ہے۔ پرائیویٹ زندگی میں بددیانتی سے کسی ایک شخص کو نقصان پہنچتا ہے لیکن پبلک زندگی میں لاتعداد لوگ مجروح ہو جاتے ہیں اور ہزارہا ایسے لوگ بے راہرو ہو جاتے ہیں جن پر آپکا اعتماد ہوتا ہے‘‘۔
آج ہمیں اپنے عوامی نمائندوں اور ہر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کردار کا گہرائی سے جائزہ لینے اور مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں محض سرسری نگاہ ڈالیں تو ان کا ظاہر باطن شیشے کے گلاس میں ڈالے گئے پانی کی طرح شفاف نظر آتا ہے۔ کوئی ایک بھی نہیں جو قائداعظم کے سیاست میں متعین کردہ اصولوں پر پورا اترتا ہو۔ اکثر پارٹیوں کے قائدین پر لوٹ مار، کرپشن بددیانتی اور بے ایمانی ثابت ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی شمائلہ رانا سے کریڈٹ کارڈز کی چوری پر استعفٰی لیا گیا اب وہ اپنی بے گناہی اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ساڑھے آٹھ کروڑ کی پیشکش کے دعوے کے ساتھ میڈیا کے آسمان پر طلوع ہوئی ہیں۔ یونیفکیشن گروپ کی تشکیل اور اس میں شامل سیاسی یتیموں اور مستحقین کی دادرسی کا اندازہ مسلم لیگ ق کی ایم پی اے محترمہ آمنہ الفت کی جانب سے بے نقاب کی گئی حقیقت، 6 کروڑ کی پیشکش کو ٹھکرانے سے کیا جا سکتا ہے۔ چھانگا مانگا، مری اور سوات میں برضا و رغبت یرغمال بننے والے عوامی نمائندوں کی کہانیاں دو عشرے گزرنے کے باوجود ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ایک اصولوں کی سیاست کرنے کی دعویدار پارٹی کے سربراہ کو طالبان کی حمایت پر جیل بھیجا گیا تو انہوں نے طالبان کے خلاف آرٹیکل لکھ کر جان چھڑائی۔ حضرت مولانا کی سیاست کے کیا کہنے! ایک وزیر کی برطرفی پر حکومت سے الگ ہوئے۔ دن میں کئی بار ورد فرماتے یہ حتمی فیصلہ ہے۔ واپسی کا سرے سے امکان نہیں۔ اب شاید حتمی فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔ سندیسہ دیا ہے کہ ان کی بات، مطالبے یا ترجیحات تسلیم کر لی جائیں تو حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ اب لگتا ہے جس حکومت سے علیحدگی کے لئے منٹ مارا تھا زرداری گیلانی کا بندہ درگاہ پر نہ بھی آیا تو ایک فون کال پر بارگاہ میں حاضر ہو جائیں گے۔ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ حالت مچھلی بے آب کی سی ہونے لگے گی پھر کچے دھاگے سے بندھے سرکار چلے آئیں گے۔ سیاست کا کوئی اصول ہوتا ہے، وقار ہوتا ہے تقدس ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی بے اصولیوں سے سیاست کی مٹی پلید ہو چکی ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ فارن بنک اکائونٹس بیرونِ ممالک جائیدادوں، کاروباروں اور محلات کی تعمیر کی کہانیاں عام ہیں۔ مال بنانے اور اپنی اولادوں کے سنہری مستقبل کی خاطر قوم و ملک کو عملی طور پر اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ایک سال میں جائز مراعات کی صورت میں 3 کروڑ 20 لاکھ وصول کرنے والے عوامی نمائندوں کی بدستور ’’نیت ماڑی‘‘ ہے۔ ایسے کچھ وزیر اور مشیر محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کیلئے گئے تو لاہور سے سکھر تک ’’خیراتی جہاز‘‘ میں سفر کیا۔ راجہ ریاض اور متعدد ساتھی نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے جہاز میں ’’خدا واسطے‘‘ موہنجودڑو تک گئے۔ یہ قائداعظم کا پاکستان ہے۔ جس میں لوٹ مار کلچر پروان چڑھ چکا ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا لُٹو جی تے پھُٹو جی۔ اب اصول بن گیا ہے۔ لُٹو جی تے لُٹو جی بار بار لُٹو جی‘ لوٹ کے بھی نہ پھُٹو جی۔ یہ ہے ہمارے قائدین اور اکابرین کی پبلک لائف! آج اگر لاتعداد لوگ بے راہرو ہوئے ہیں۔ ہر ادارے میں چپڑاسی سے ڈی جی اور چیئرمین تک کرپشن سے لتھڑا اور معاشرہ بگڑا ہوا ہے تو یہ ہمارے سیاسی زعما کے کردار کا عکاس ہے۔


Tuesday, December 28, 2010

بدگمانیوں‘ نفرت اور انتقام کی آگ میں جلتا بلوچستان

 منگل ، 28 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
آدھا ملک گنوا کر بھی ہمارے نازو انداز بدلے نہ کبرو نخوت میں کوئی فرق آیا۔ گھر پھونک کر تماشا دیکھنے کی خصلت اور خو نہیں گئی۔ دلوں میں دوریاں پیدا کرنے‘ محبت کو نفرت میں بدلنے‘ اپنوں کو غیر بنانے اور دوستوں کو دشمن کی صف میں دھکیلنے کا فن کوئی ہم سے سیکھے۔ جو کچھ مشرقی پاکستان میں کرکے آدھے ملک سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ وہی کچھ بلوچستان میں دہرا رہے ہیں‘ ہر اقدام حکمت سے خالی اور ہر کام دانش سے عاری‘ چنگاری کو شعلہ اور شعلے کو الاؤ بنا دیا۔ اس پر نادم ہیں نہ شرمندہ بلکہ بڑی بے شرمی و ڈھٹائی سے اترا رہے ہیں۔
اچھائیوں کا ڈھیر لگا دیں۔ بھلائیوں کا انبار کھڑا کر دیں۔ نیکیوں کا پہاڑ بنا دیں۔ ایک معمولی لغزش اور بے احتیاطی سب کچھ تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ کروڑ سوا کروڑ کی آبادی کے پرامن شہر کا صرف ایک شرپسند کلاشنکوف کے ایک برسٹ سے سکون اور چین برباد کر سکتا ہے۔ دوچار مل جائیں تو قیامت برپا ہو جائے۔ بلوچستان اندرونی اور بیرونی بدخواہوں کی وجہ سے دہک رہا ہے۔ علیحدگی پسند خواہ مٹھی بھر ہیں‘ ایک بڑی آبادی کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ قصبوں اور دیہات کے تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ پڑھنے دیتے ہیں نہ سبز ہلالی پرچم لہرانے‘ ضرورت دشمن کی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کی ہے‘ بدقسمتی سے دانستہ یا نادانستہ دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کی بہت بڑی مثال جمہوری وطن پارٹی کے صوبائی صدر اور اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین بگٹی کی بہیمانہ انداز میں گرفتاری ہے۔ اس پر خطرناک ہتھیاروں کی برآمدگی کا الزام مان بھی لیا جائے تو بھی اس کی تذلیل اور تضحیک کا کیا جواز ہے؟ میڈیا کو وہاں کیوں بلایا گیا؟ اور اخبارات کو جو تصویر جاری کی گئی جس میں ایک سکیورٹی اہلکار کا شاہ زین کی گردن پر ہاتھ ہے۔ اس کی اشاعت کا کیا مقصد؟ ایف سی کے آئی جی کو میڈیا سے گفتگو کی کیا ضرورت تھی؟
نوکر شاہی نے بلوچوں کے دل و دماغ میں بدگمانی کا بیج بویا جو آج نفرت اور دشمنی کا تناور درخت بنتا گیا۔ خان آف قلات نے قائداعظم کا ساتھ دیا۔ قائد کے وصال کے بعد خان آف قلات کو معزول کر دیا گیا معزولی کو بلوچوں کے ایک بڑے حلقے نے اپنی توہین سمجھا۔ پچاس کے عشرے کے آخر میں نو روز نگل بغاوت کرتے ہوئے پہاڑوں میں قلعہ بند ہو گئے۔ مئی 1959ء میں ان کو قرآن کے نام پر پہاڑوں سے اتارا گیا اور گرفتار کرکے قید کر دیا گیا۔ 1964ء میں وہ دوران حراست چل بسے تاہم ان کے بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسی لگا دی گئی۔ اس اقدام سے ایک طرف بلوچوں کا حکومت سے اعتماد اور اعتبار جاتا رہا دوسری طرف نفرت اور انتقام کا جذبہ بھی دوچند ہو گیا۔
یہ بلوچوں کی فطرت ہے کہ اپنے اوپر ہونے والا ستم بھولتے نہیں۔ انتقام اور بدلہ لینے کیلئے سازگار حالات کا صدیوں تک بھی انتظار کر لیتے ہیں‘ بلوچ معاف کرنے میں بھی دریا دل واقع ہوئے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ طمع اور لالچ ہے تو صرف اور صرف اپنی عزت احترام اور توقیر کا… آج بلوچستان میں سب سے زیادہ مظالم پنجابیوں پر ہو رہے ہیں۔ اساتذہ ڈاکٹروں‘ انجینئروں اور دیگر پیشہ ور اور ہنر مند افراد کو قتل کیا جا رہا ہے۔ غلط فہمی یہ کہ پنجاب آمرانہ ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ مشرف تو پنجابی نہیں تھے۔ ان کا ظلم و جبر بھی پنجاب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ بلوچوں کے دلوں سے غلط فہمیاں دور‘ نفرت اور انتقام کے دہکتے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچوں کی سیاست سرداری نظام کے گرد گھومتی ہے۔ معروضی حالات کو نظرانداز کرکے بلوچوں کا اعتماد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ عام قبائلی اپنے سردار کی پرستش کی حد تک تکریم کرتا ہے معاملات سوجھ بوجھ اور عقلمندی سے ہی پٹڑی پر چڑھ سکتے ہیں۔ ہر معاملے کو خوش اسلوبی سے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سازگار حالات کی ضرورت ہے۔ آج معاملات کو سازگار بنانے کی زیادہ ذمہ داری حکومت کی ہے۔ وطن عزیز مزید نفرتوں اور انتقامی کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شاہ زین کو حکومتی رٹ کی بحالی اور قانون پر عملدرآمد کے نام پر گرفتار کرکے بدگمانیوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بلوچوں میں نفرت اور انتقام کے جذبات کو ہوا دی گئی ہے۔ اس زیادتی کو سدھارا جا سکتا ہے۔ آسانی سے‘ بڑی آسانی سے‘ بلوچوں پر اپنی برتری جتانے کے بجائے ان کی عزت کا خیال رکھا جائے‘ ان کو احترام دیا جائے۔ زرداری صاحب خود بلوچ ہیں‘ بلوچ جو مانگتے ہیں ان کو دیدیں۔ یقین کیجئے وہ خود مختاری نہیں صرف خودداری کے خواہشمند اور خواہستگار ہیں۔ اس پر کوئی خرچہ نہیں آتا۔


Monday, December 27, 2010

محترمہ کے قاتل اور مفاہمت

 پیر ، 27 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
جئے بھٹو اور زندہ ہے بی بی زندہ ہے، کے نعرے لگاتے، ماتم کرتے، آنسو بہاتے اکثر قافلے نوڈیرو پہنچ گئے، کچھ آج پہنچیں گے۔ بہت سے لوگوں کو بھٹو خاندان سے محبت اور اس خاندان کے شہیدوں سے عقیدت ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزاروں پر محبتوں اور عقیدتوں کے پھول نچھاور کریں گے۔ صدر، وزیراعظم، وزیر، مشیر، پارٹی عہدیدار‘ کارکن اور عام آدمی وہاں موجود ہیں۔ پنڈال سجے گا، جلسہ ہو گا، جذباتی نعرے لگیں گے۔ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب اور گرفتار کرنے کے دعوے ہونگے۔ پھر 2011ء بھی اسی طرح گزر جائے گا۔ گزشتہ تین برسوں کی طرح۔ یہ لوگ جس اہتمام اور دل و جان سے محترمہ کی برسی مناتے ہیں۔ اس سے آدھی بھی توجہ محترمہ کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے پر دی ہوتی اور کوشش کی ہوتی تو یقیناً آج قاتل قوم کے سامنے ہوتے۔ صدر صاحب نے تو ایک موقع پر فرما دیا تھا کہ وہ اپنی زوجہ محترمہ اور مرحومہ کے قاتلوں کو جانتے ہیں۔ آج فرمایا ہے کہ ہماری جنگ بے نظیر کے قاتلوں سے جاری ہے۔ نہ جانے کیا مصلحت ہے کہ صدر صاحب قاتلوں کو جانتے ہیں ان سے جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ان کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ پہلے سکاٹ لینڈ یارڈ پھر اقوام متحدہ سے تحقیقات پر کروڑوں ڈالر خرچ کر ڈالے۔ اب مقامی سطح پر تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس میں ردوبدل بھی ہو رہا ہے۔ یقین رکھئے یہ ٹیم بھی وہی نتیجہ دے گی جو سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیموں نے دیا تھا۔ صفر جمع صفر برابر صفر۔ خالد ایچ لودھی نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ مشرف اور بعض حکومتی عہدیداروں کو تفتیش میں شامل کئے بغیر بینظیر کے قاتلوں کو پکڑنا ممکن نہیں۔ جب بینظیر بھٹو قتل کے ملزم حکومت اور تحقیقاتی و تفتیشی ٹیموں کی تشکیل کی پوزیشن میں ہونگے تو تحقیقات کے حتمی نتیجے کا اندازہ کرنے کے لئے عقل سقراط اور دانش افلاطون کی ضرورت نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی قائدین کو بھٹو کے نظریات‘ فکر و فلسفے سے زیادہ ان کی وراثت یعنی جائیداد سے دلچسپی ہے۔ محترمہ کے قتل کے بعد جناب زرداری صاحب نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا تھا۔ ق لیگ مشرف نے بنوائی، اسے آباد کیا اور شاد کیا۔ محترمہ کے قتل کے روز بھی ق لیگ پر صدر مشرف کا سایہ تھا۔ محترمہ کے شوہر نامدار صدر مشرف کے ساتھ اس وقت تک شیر و شکر رہے جب تک اپنے صدر بننے کا یقین نہیں ہو گیا۔ 
بلاول بھٹو اپنی والدہ کے قتل کے حوالے سے مشرف کی طرف واضح اشارہ کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ پرویز مشرف ہی بینظیر کے قاتل ہیں، اعتزاز احسن اور دیگر قائدین مشرف کو شاملِ تفتیش کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ زرداری صاحب مردِ مفاہمت ہیں یہ مفاہمت کی معراج ہے کہ اپنی اہلیہ کے قتل کے ملزم کو سلیوٹ کر کے ایوانِ صدر سے رخصت کیا گیا اور بیرونِ ملک جانے کی اجازت بھی دیدی۔ اب ایک اور مفاہمت اعجازالحق سے بھی کر لیں۔ اعجازالحق کا تو بھٹو کی پھانسی سے براہِ راست تعلق بھی نہیں پھانسی لگنے اور لگانے والوں نے اوپر ایک دوسرے سے نمٹ لیا ہو گا۔ شاید اعجازالحق ہی ایک ہیں جو زرداری صاحب کی مفاہمت کی لپیٹ سے باہر ہیں۔

Saturday, December 25, 2010

کتے قافلوں کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتے

26-12-10
فضل حسین اعوان
نگریز آزادی ہند پر تو تیار تھا تقسیمِ ہند پر مائل نہیں تھا۔ قائداعظمؒ نے اپنی فہم و فراست سیاسی سوجھ بوجھ اور دانشمندی سے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی سے چھٹکارا دلا کر ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا۔ انتہا پسند ہندو مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینا چاہتا تھا۔ حضرت قائداعظم نے انتقامی ذہن رکھنے والے ہندو کے تمام منصوبے مسلمانوں کے لئے آزاد وطن حاصل کر کے خاک میں ملا دئیے۔ پیکرِ شر ہندوﺅں نے پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہ کیا۔ وہ پاکستان کے خاتمے کے لئے سازشی جال پھیلاتا اور ناپاک منصوبے بناتا رہا۔ بالآخر 1971ءمیں پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے وہ کشمیر حیدرآباد دکن، مناوادر اور جوناگڑھ پر غاصبانہ قبضہ کر چکا تھا۔ بعد ازاں سمندری حدود اور سیاچن کے وسیع تر علاقے متنازعہ بنا دئیے۔ ہندو نے نسل در نسل دماغوں میں مسلمانوں سے انتقام کا بارود بھرا۔ پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو اس میں واضح جارحیت کی ہمت نہ رہی۔ یوں تو بھارت بھی ایٹمی قوت ہے لیکن بقول مجید نظامی معیار کے حوالے سے اس کا ایٹمی اسلحہ پاکستان کے گھوڑوں کے مقابلے میں کھوتوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.... اسی لئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت امریکہ اور اسرائیل کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ اسرائیل امریکہ اور مغرب پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا پروگرام بنایا۔ امریکہ پاکستان پر ایٹمی پروگرام بند اور کم کرنے پر دباﺅ ڈالتا رہا ہے۔ اس نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ دھمکیاں اور لالچ دونوں حربے آزمائے۔ نوازشریف نے قوم کو اپنی پشت پر پایا مجید نظامی نے حوصلہ دیا تو نوازشریف نے دھماکے کر دئیے۔ ایٹمی طاقت بنا تو پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا یہی مغرب اور خصوصی طور پر بھارت، امریکہ اور اسرائیل کو گوارہ نہیں۔ اب ایٹم بم ہمارا محافظ بن چکا ہے تاہم ہنود یہود و نصاریٰ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول حاصل کر کے اس کے دفاع میں نقب لگانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی ڈکٹیشن پر اپنے ہی لوگوں کو مروانے والی قیادت سے کچھ بعید نہیں کہ ایٹم بم کو بھی بیچ کھائے۔ اس لئے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ایٹمی پروگرام کی حفاظت ہر صورت لازم ہے۔ بندوق کی آپ حفاظت کریں گے تو وہ آپ کی حفاظت کرے گی۔ بندوق کو باہر گیٹ پر لٹکا کر کہا جائے کہ یہ آپ کی محافظ ہے تو اس سے بڑا احمقانہ پن نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی پاگل پن پر مبنی بہت سی باتیں ہمارے سابق اور ایک معاصر کے پیدل کالم نگار نے اپنے 23 دسمبر 2010ءکے کالم میں کی ہیں۔ آپ کو نظریہ پاکستان سے خدا واسطے کا ویر ہے۔ آپ کی اپنی کچھ بھی رائے ہو سکتی ہے۔ کسی بات اور معاملے پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم اختلاف اور آزادی اظہار کے نام پر بدزبانی، لچر پن اور گھٹیا جملے بازی، کوڑھ مغزی اور گندی ذہنیت کا ثبوت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے ’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘۔ یہ فرمان محترم کی کرتوتوں اور حرکتوں کے باعث ان پر پورا اترتا ہے۔ مجید نظامی صاحب نے ان کو نوائے وقت میں لکھنے کا موقع دیا تو وہ بڑے آدمی بن گئے۔ اچھے دام لگے تو کہیں اور چلے گئے۔ نوائے وقت میں رہے تو نظریہ پاکستان سہانا اور تابناک لگتا تھا۔ ادارہ بدلنے سے سوچ بدلی، نظریات بدلے، بس چلتا تو باپ بھی بدل لیتے۔ اپنے والد صاحب ان کو پسند نہیں تھے۔ ان کی وفات پر 20 مارچ 1996ءکو نوائے وقت میں چشمِ نگران کے عنوان سے کالم لکھا جس میں فرمایا ”ان کے اور میرے درمیان باپ اور بیٹے کا رشتہ بہت وحشی قسم کا تھا۔ وہ مجھے جتنے اچھے لگتے اتنے ہی برے“
محترم شراب کے رسیا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک حالت یہ ہوتی تھی کہ ملاقاتیوں کے لئے گھر میں دستیاب نہ آفس میں موجود، تلاش بسیار کے بعد کسی گندی نالی میں نیم جان اور خارش زدہ جانور کی صورت میں پائے جاتے تھے۔ جناب مجید نظامی نے ناجی صاحب کو جو کچھ بھی وہ لکھنا چاہتے تھے اس کا موقع دیکر ترقی کی معراج پر پہنچایا۔ اس کے بدلے میں یہ صاحب نظامی صاحب کے خلاف لکھتے رہتے ہیں۔ مذکورہ کالم میں تو یاوہ گوئی اور محسن کشی کی انتہا کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ وہ ذہنی طور پر بدستور اس گندگی کے کیڑے ہیں جس میں وہ ٹن اور مدہوشی کی حالت میں پائے جاتے تھے۔ ان کی بے غیرتی بے ضمیری اور محسن کشی تو مسلمہ ہے، لیکن جن لوگوں نے وہ کالم چھاپا اور جن کے اخبار میں چھاپا گیا ان کو بھی دیکھ لینا چاہئے تھا کہ اس میں کیا لکھا اور کس کے بارے میں لکھا ہے۔ 
ایک طرف ایک ادارے کی جانب سے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرکے دوستانہ تعلقات کا پرچار ہو رہا ہے۔ ہندو کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ امن کی آشا کے گیت گائے جا رہے ہیں۔ ملک میں فحاشی کا اہتمام کیا جا رہا ہے دوسری طرف نوائے وقت قائدؒ کی متعین کردہ راہوں کو روشن کر رہا ہے۔ دوقومی نظریے کی آبیاری کی جا رہی ہے۔ نظامی صاحب کے دل کے تین بائی پاس ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود جواں ہمت ہیں۔ اپنے ادارے سے زیادہ وقت قائدؒ اور اقبالؒ کے فکر و فلسفے کی ترویج کے لئے دیتے ہیں۔ وہ اس قافلے کے رہبر و رہنما اور سرخیل ہیں جو قوم کو قائدؒ اور اقبالؒ کی متعین کردہ منزل کی طرف لے جا رہا ہے۔ وہ نئی نسل تک اقبال و قائد کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں یہ قافلہ دم بدم قدم قدم سبک خیز، سبک رو اور تیزم گام ہے۔ اس کے سامنے کچھ سدِراہ اور سدِ سکندری نہیں ہو سکتا ہے۔ کتے بھونکتے رہتے ہیں۔ قافلے چلتے رہتے ہیں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ کتے ان کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی ایک کتے کی بھونک قافلے کے پاﺅں کی آوازوں میں ہی دب کر رہ جاتی ہے۔ 

قائد کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

 ہفتہ ، 25 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے امریکی اسلحہ کمپنی کے سربراہ سے ملاقات کے دوران ہتھیاروں کی خریداری کا سودا طے کیا۔ اگلے روز وزیراعظم نے معاہدے کی تفصیلات کابینہ کے سامنے رکھیں تو کابینہ نے سرے سے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ کابینہ کا استدلال تھا ”اتنے مہنگے ہتھیاروں کی خریداری سے قوم کو برسوں تک ایک وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔“ گولڈا میئر نے کابینہ کے دلائل سے اتفاق کیا تاہم جوابی دلائل دیتے ہوئے باور کرایا کہ اسرائیل جنگ جیت گیا تو دنیا اسے فاتح قرار دیگی۔ کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ فاتح قوم نے کتنی فاقہ کشی کی، دن میں کتنا‘ کتنی بار اور کیا کیا کھایا‘ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔ یوں گولڈا میئر نے اپنے دلائل سے کابینہ کو قائل کرلیا۔ پھر اسی معاہدے کے تحت خریدے گئے مہنگے ترین اسلحہ سے اسرائیل نے 1973ءمیں عربوں سے جنگ جیت لی۔ اس جنگ کے کچھ عرصہ بعد گولڈا میئر سے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے پوچھا کہ اسلحہ کی خریداری کیلئے انکے ذہن میں دلائل کیسے آئے؟ گولڈا میئر کا جواب چونکا دینے والا تھا جو ہم مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے بھی کافی ہے:
”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں یعنی مسلمانوں کے نبی سے لیا تھا۔ جب محمد کا وصال ہوا تو انکے گھر میں چراغ کیلئے تیل خریدنے کی رقم بھی نہیں تھی۔ انکی اہلیہ (حضرت عائشہؓ) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا۔ اس وقت بھی محمد کے حجرے کی دیواروں پر 9 تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کو جانتے ہوں گے، لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں یہ بات پوری دنیا جانتی ہے لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے مسلمانوں کی طرح، پختہ مکانوں کے بجائے خیموں میں زندگی گزارنی پڑے مسلمانوں کی طرح، تو بھی اسلحہ خریدینگے اور فاتح کا اعزاز پائینگے مسلمانوں کی طرح، ان مسلمانوں کی طرح جنہوں نے آدھی دنیا فتح کی لیکن آج یہ اپنی تاریخ کو بھلا چکے ہیں اس لئے بھی فتح کا ایک موقع موجود ہے“۔
آج اکثر مغربی ممالک فلاحی ریاستیں بن چکے ہیں جہاں تعلیم اور صحت کی سہولتیں حکومت کی طرف سے بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ بیروزگار، بیمار یا زخمی ہونیوالے کا الاﺅنس مقرر کردیا جاتا ہے۔ بے گھروں کی رہائش کا انتظام بھی حکومت کے ذمے ہے۔ فلاحی ریاست کا نظریہ اتباع رسول میں خلفائے راشدین نے پیش کیا جس سے مغرب نے استفادہ کیا۔ خلفاءنے ہر پیدا ہونیوالے بچے کا وظیفہ مقرر فرمایا۔ غریبوں، بیواﺅں اور لاوارثوں کو ریاستی وسائل کا حصہ دار قرار دیا۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ زکوٰة کا پیسہ ہاتھوں میں لئے مستحقین کو تلاش کیا کرتے تھے۔ آج ہمارے آباءکی تعلیمات کو اپنانے والے خوش قسمت، سبھاگی، ہم ترک کرنیوالے بدقسمت نراگی اور ابھاگی ٹھہرے۔
حضرت قائداعظمؒ پاکستان کو آباءکے نعش قدم پر چلتے ہوئے ترقی یافتہ‘ خودمختار‘ باوقار، اسلامی، جمہوری، فلاحی اور رفاعی مملکت بنانا چاہتے تھے۔ حضرت قائداعظمؒ نے اپنی تقاریر اور پریس کانفرنسوں سے واضح کیا کہ پاکستان کا منتہائے مقصود ایسا نظام حکومت ہے جو اسلام کے روشن اصولوں پر مبنی ہوگا۔ قائداعظمؒ رسول اکرم کو عظیم مصلح، قانون دان، رہنمائ، سیاستدان اور حکمران سمجھتے تھے۔ وہ اکثر فرماتے تھے کہ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح آج سے 1300 سال قبل تھے۔
بدقسمتی سے قائداعظمؒ قیام پاکستان کے بعد جلد وصال فرما گئے۔ وہ چند سال اور امور مملکت کی نگرانی فرما جاتے تو یقیناً پاکستان اسلامی، فلاحی، جمہوری اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ قائداعظمؒ کے بعد انکے پائے کا ایک بھی لیڈر ہمیں نہ مل سکا۔ جو بھی لیڈر آئے اکثر کی سوچ خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر کسی نے کچھ کر گزرنا چاہا تو تخت سے ہٹا دیا گیا یا تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ ہم نے تاریخ کو بھلا دیا تو تاریخ نے بھی ہمیں ہمارا مقدر لوٹا دیا۔ آج ہم راہ راست پر آجائیں، اپنی تاریخ سے سبق حاصل کریں، ذاتی مفادات کو چھوڑیں، قومی مفادات کا سوچیں، وطن عظیم میں وسائل کی کمی نہیں، ضابطہ ¿ حیات موجود ہے۔ درخشاں تاریخ اور قائد کی تاکید ہمارے لئے مشعل اور رہنما ہے۔ اس پر عمل کریں تو ہم اب بھی خوددار، خودمختار، باوقار، اسلامی، جمہوری، فلاحی، رفاعی اور ترقی یافتہ ملک کی تعمیر کرسکتے۔


Friday, December 24, 2010

بیٹی، جہیز، قانون اور معاشرہ

جمعۃالمبارک ، 24 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
وہ کیسے انسان ہونگے، پتھر دل، انسانیت سے تہی، احساسات و جذبات اور شفقتِ پدری سے عاری، جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ وہ ایسا کرنے کی کہاں سے جرأت و ہمت لے آتے تھے۔ ہم تو بیٹی کو پریشان دیکھ کر بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ ڈولی اٹھتی ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک فرض سے سبکدوش ہو گئے۔ جِسے خونِ جگر دیکر پالا، ناز نخرے اٹھائے، وہ بھی اماں اور بابا پر جان و دل سے فدا ہوتی، اس کے بچھڑنے پر بلک بلک کر روتے ہیں۔ جہیز کے نام پر ہمت ہے یا نہیں جو کچھ بھی ممکن ہے، پیاری بیٹی کے سسرال پہنچا دیتے ہیں۔ بیٹے کو نعمت اور بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا۔ جب یہی رحمت، جہیز کم لانے کی پاداش میں تیل چھڑک کر جلا ڈالی جاتی ہے، گولی مار کر قتل کر دی جاتی ہے۔ سوختہ اور زخموں سے چور میت جب اسی دہلیز پر پہنچتی ہے جہاں سے چند دن یا کچھ عرصہ قبل سرخ جوڑے میں رخصت ہوئی تھی تو والدین، بہن بھائیوں اور عزیزوں رشتہ داروں پر غم دکھ اور درد کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کی زندگی کی خوشیاں اور رعنائیاں بیٹی کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں۔ کیا بیٹی والوں کو اس کی سزا دی جاتی ہے کہ انہوں نے بیٹی کو پال پوس کے دوسرے خاندان پر اعتماد اور اعتبار کر کے ان کے حوالے کر دیا۔ دلہن کو لے جانے والوں کو بھی ایک عورت نے جنم دیا۔ اس خاندان میں بھی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ پھر یہی سزا کی مستحق کیوں؟ کیا اس کی بھی ویسی ہی جان نہیں جیسی باقی گھر والوں کی ہے۔ کیا گھر میں نئی آنیوالی لڑکی کوئی مشین ہے مٹی کا مادھو یا روبوٹ جِسے بے دردی سے توڑ دیا جاتا ہے۔ شاید بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے حق بجانب تھے۔ 
مریدکے میں جو ہوا اس سے زمین کانپ گئی۔ آسمان لرز گیا۔ دلہا میاں نے جہیز میں کار نہ لانے پر دلہن کو گھر سے نکال دیا۔ والدین نے نئی موٹر سائیکل لے دی تو دلہا میاں اسی پر اہلیہ کو گھر لے گئے۔ دل میں کار کی تڑپ اور امنگ لہراتی رہی پھر انسانیت دم توڑ گئی آنکھوں کے سامنے لالچ اور حرص کا اندھیرا چھا گیا۔ ریوالور نکالا حافظہ اہلیہ نماز ادا کر رہی تھی۔ سجدے میں گئی تو فائرنگ کر کے کسی کے جگر کی بوٹی اور دل کے ٹکڑے کو خون میں نہلا کر ڈکیتی کا ڈرامہ رچانے کے لئے خود کو بھی زخمی کر لیا۔ کیا ایسا کرنے سے اسے کار مل گئی؟ مریدکے کا مذکورہ بہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کی بے حسی کی علامت ہے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جہیز کی کمی پر دوسروں کی بیٹوں کو طعنے دینے، ان پر تشدد اور قتل تک کر ڈالنے والے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جہیز میں کتنی کاریں دیتے ہیں؟ چولہا پھٹنے سے بہو ہی کیوں مرتی ہے۔ گھر کی بیٹی کیوں نہیں؟
جہیز لعنت نہیں، سنتِ نبوی ہے۔ والدین آسانی سے اپنی بیٹی کو جو دے سکتے ہیں دیں اسکی نمائش ہو نہ سسرالیوں کی جانب سے مطالبہ۔ لعنت تو اس سوچ پر ہے جو جہیز کے نام پر گھر بھرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بعض معاملات میں لڑکی کے والدین کا بھی قصور ہے جو سسرالیوں کے مطالبات مانتے ہیں۔ یہ عموماً ان حالات میں ہوتا ہے جب قریبی رشتہ داروں کو اپنے معیار سے کم تر سمجھتے ہوئے انجان لوگوں میں شادی کر دی جاتی ہے۔ لڑکے یا لڑکی کی شادی کے سلسلے اکثر دھوکہ اور فراڈ ہو جاتا ہے۔ باہر کے رشتوں کے شوق نے کئی خاندان برباد کر دئیے ہیں۔ 
شادیوں میں فراڈ دھوکہ دہی، تشدد اور قتل کے مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں تو شریف آدمی ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ کسی مجرم کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے ہمارا قانون بہترین ہے۔ ہمارے قوانین جتنے بے مثال ہیں وہیں ان پر عملدرآمد کرانے والے باکمال ہیں۔ دھوکہ دہی فراڈ اور دکھ درد سے بچنے کے لئے جہاں اعلیٰ خاندانوں کے ساتھ جڑنے کی خواہش پر قابو پانا وہیں رشتوں سے قبل مقابل خاندان کی چھان بین بھی ضروری ہے۔ جھٹ منگنی پٹ ویاہ سے بھی بہت سی خرافات جنم لیتی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کے قلع قمع کے لئے عدلیہ کا کردار بڑا اہم ہے۔ لیکن افسوس کہ عدالتی سسٹم میں ججوں کو بے بہا مراعات کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ ماتحت عدلیہ تو بالکل بے مہار ہے اور بدستور ہے۔ معاشرے میں جرائم کے فروغ میں جتنا پولیس کی مجرمانہ ذہنیت کا عمل دخل ہے عدلیہ کا اس سے کسی صورت کم نہیں۔ عدلیہ کا سسٹم درست اور آئیڈیل ہو جائے تو جرائم کا خاتمہ اور دلہنوں پر تشدد ان کے قتل اور جلائے جانے کے واقعات کا کافی حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے۔


بیٹی، جہیز، قانون اور معاشرہ

جمعۃالمبارک ، 24 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
وہ کیسے انسان ہونگے، پتھر دل، انسانیت سے تہی، احساسات و جذبات اور شفقتِ پدری سے عاری، جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ وہ ایسا کرنے کی کہاں سے جرأت و ہمت لے آتے تھے۔ ہم تو بیٹی کو پریشان دیکھ کر بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ ڈولی اٹھتی ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک فرض سے سبکدوش ہو گئے۔ جِسے خونِ جگر دیکر پالا، ناز نخرے اٹھائے، وہ بھی اماں اور بابا پر جان و دل سے فدا ہوتی، اس کے بچھڑنے پر بلک بلک کر روتے ہیں۔ جہیز کے نام پر ہمت ہے یا نہیں جو کچھ بھی ممکن ہے، پیاری بیٹی کے سسرال پہنچا دیتے ہیں۔ بیٹے کو نعمت اور بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا۔ جب یہی رحمت، جہیز کم لانے کی پاداش میں تیل چھڑک کر جلا ڈالی جاتی ہے، گولی مار کر قتل کر دی جاتی ہے۔ سوختہ اور زخموں سے چور میت جب اسی دہلیز پر پہنچتی ہے جہاں سے چند دن یا کچھ عرصہ قبل سرخ جوڑے میں رخصت ہوئی تھی تو والدین، بہن بھائیوں اور عزیزوں رشتہ داروں پر غم دکھ اور درد کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کی زندگی کی خوشیاں اور رعنائیاں بیٹی کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں۔ کیا بیٹی والوں کو اس کی سزا دی جاتی ہے کہ انہوں نے بیٹی کو پال پوس کے دوسرے خاندان پر اعتماد اور اعتبار کر کے ان کے حوالے کر دیا۔ دلہن کو لے جانے والوں کو بھی ایک عورت نے جنم دیا۔ اس خاندان میں بھی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ پھر یہی سزا کی مستحق کیوں؟ کیا اس کی بھی ویسی ہی جان نہیں جیسی باقی گھر والوں کی ہے۔ کیا گھر میں نئی آنیوالی لڑکی کوئی مشین ہے مٹی کا مادھو یا روبوٹ جِسے بے دردی سے توڑ دیا جاتا ہے۔ شاید بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے حق بجانب تھے۔ 
مریدکے میں جو ہوا اس سے زمین کانپ گئی۔ آسمان لرز گیا۔ دلہا میاں نے جہیز میں کار نہ لانے پر دلہن کو گھر سے نکال دیا۔ والدین نے نئی موٹر سائیکل لے دی تو دلہا میاں اسی پر اہلیہ کو گھر لے گئے۔ دل میں کار کی تڑپ اور امنگ لہراتی رہی پھر انسانیت دم توڑ گئی آنکھوں کے سامنے لالچ اور حرص کا اندھیرا چھا گیا۔ ریوالور نکالا حافظہ اہلیہ نماز ادا کر رہی تھی۔ سجدے میں گئی تو فائرنگ کر کے کسی کے جگر کی بوٹی اور دل کے ٹکڑے کو خون میں نہلا کر ڈکیتی کا ڈرامہ رچانے کے لئے خود کو بھی زخمی کر لیا۔ کیا ایسا کرنے سے اسے کار مل گئی؟ مریدکے کا مذکورہ بہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کی بے حسی کی علامت ہے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جہیز کی کمی پر دوسروں کی بیٹوں کو طعنے دینے، ان پر تشدد اور قتل تک کر ڈالنے والے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جہیز میں کتنی کاریں دیتے ہیں؟ چولہا پھٹنے سے بہو ہی کیوں مرتی ہے۔ گھر کی بیٹی کیوں نہیں؟
جہیز لعنت نہیں، سنتِ نبوی ہے۔ والدین آسانی سے اپنی بیٹی کو جو دے سکتے ہیں دیں اسکی نمائش ہو نہ سسرالیوں کی جانب سے مطالبہ۔ لعنت تو اس سوچ پر ہے جو جہیز کے نام پر گھر بھرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بعض معاملات میں لڑکی کے والدین کا بھی قصور ہے جو سسرالیوں کے مطالبات مانتے ہیں۔ یہ عموماً ان حالات میں ہوتا ہے جب قریبی رشتہ داروں کو اپنے معیار سے کم تر سمجھتے ہوئے انجان لوگوں میں شادی کر دی جاتی ہے۔ لڑکے یا لڑکی کی شادی کے سلسلے اکثر دھوکہ اور فراڈ ہو جاتا ہے۔ باہر کے رشتوں کے شوق نے کئی خاندان برباد کر دئیے ہیں۔ 
شادیوں میں فراڈ دھوکہ دہی، تشدد اور قتل کے مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں تو شریف آدمی ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ کسی مجرم کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے ہمارا قانون بہترین ہے۔ ہمارے قوانین جتنے بے مثال ہیں وہیں ان پر عملدرآمد کرانے والے باکمال ہیں۔ دھوکہ دہی فراڈ اور دکھ درد سے بچنے کے لئے جہاں اعلیٰ خاندانوں کے ساتھ جڑنے کی خواہش پر قابو پانا وہیں رشتوں سے قبل مقابل خاندان کی چھان بین بھی ضروری ہے۔ جھٹ منگنی پٹ ویاہ سے بھی بہت سی خرافات جنم لیتی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کے قلع قمع کے لئے عدلیہ کا کردار بڑا اہم ہے۔ لیکن افسوس کہ عدالتی سسٹم میں ججوں کو بے بہا مراعات کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ ماتحت عدلیہ تو بالکل بے مہار ہے اور بدستور ہے۔ معاشرے میں جرائم کے فروغ میں جتنا پولیس کی مجرمانہ ذہنیت کا عمل دخل ہے عدلیہ کا اس سے کسی صورت کم نہیں۔ عدلیہ کا سسٹم درست اور آئیڈیل ہو جائے تو جرائم کا خاتمہ اور دلہنوں پر تشدد ان کے قتل اور جلائے جانے کے واقعات کا کافی حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے۔


بیٹی، جہیز، قانون اور معاشرہ

جمعۃالمبارک ، 24 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
وہ کیسے انسان ہونگے، پتھر دل، انسانیت سے تہی، احساسات و جذبات اور شفقتِ پدری سے عاری، جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ وہ ایسا کرنے کی کہاں سے جرأت و ہمت لے آتے تھے۔ ہم تو بیٹی کو پریشان دیکھ کر بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ ڈولی اٹھتی ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک فرض سے سبکدوش ہو گئے۔ جِسے خونِ جگر دیکر پالا، ناز نخرے اٹھائے، وہ بھی اماں اور بابا پر جان و دل سے فدا ہوتی، اس کے بچھڑنے پر بلک بلک کر روتے ہیں۔ جہیز کے نام پر ہمت ہے یا نہیں جو کچھ بھی ممکن ہے، پیاری بیٹی کے سسرال پہنچا دیتے ہیں۔ بیٹے کو نعمت اور بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا۔ جب یہی رحمت، جہیز کم لانے کی پاداش میں تیل چھڑک کر جلا ڈالی جاتی ہے، گولی مار کر قتل کر دی جاتی ہے۔ سوختہ اور زخموں سے چور میت جب اسی دہلیز پر پہنچتی ہے جہاں سے چند دن یا کچھ عرصہ قبل سرخ جوڑے میں رخصت ہوئی تھی تو والدین، بہن بھائیوں اور عزیزوں رشتہ داروں پر غم دکھ اور درد کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کی زندگی کی خوشیاں اور رعنائیاں بیٹی کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں۔ کیا بیٹی والوں کو اس کی سزا دی جاتی ہے کہ انہوں نے بیٹی کو پال پوس کے دوسرے خاندان پر اعتماد اور اعتبار کر کے ان کے حوالے کر دیا۔ دلہن کو لے جانے والوں کو بھی ایک عورت نے جنم دیا۔ اس خاندان میں بھی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ پھر یہی سزا کی مستحق کیوں؟ کیا اس کی بھی ویسی ہی جان نہیں جیسی باقی گھر والوں کی ہے۔ کیا گھر میں نئی آنیوالی لڑکی کوئی مشین ہے مٹی کا مادھو یا روبوٹ جِسے بے دردی سے توڑ دیا جاتا ہے۔ شاید بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے حق بجانب تھے۔ 
مریدکے میں جو ہوا اس سے زمین کانپ گئی۔ آسمان لرز گیا۔ دلہا میاں نے جہیز میں کار نہ لانے پر دلہن کو گھر سے نکال دیا۔ والدین نے نئی موٹر سائیکل لے دی تو دلہا میاں اسی پر اہلیہ کو گھر لے گئے۔ دل میں کار کی تڑپ اور امنگ لہراتی رہی پھر انسانیت دم توڑ گئی آنکھوں کے سامنے لالچ اور حرص کا اندھیرا چھا گیا۔ ریوالور نکالا حافظہ اہلیہ نماز ادا کر رہی تھی۔ سجدے میں گئی تو فائرنگ کر کے کسی کے جگر کی بوٹی اور دل کے ٹکڑے کو خون میں نہلا کر ڈکیتی کا ڈرامہ رچانے کے لئے خود کو بھی زخمی کر لیا۔ کیا ایسا کرنے سے اسے کار مل گئی؟ مریدکے کا مذکورہ بہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کی بے حسی کی علامت ہے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جہیز کی کمی پر دوسروں کی بیٹوں کو طعنے دینے، ان پر تشدد اور قتل تک کر ڈالنے والے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جہیز میں کتنی کاریں دیتے ہیں؟ چولہا پھٹنے سے بہو ہی کیوں مرتی ہے۔ گھر کی بیٹی کیوں نہیں؟
جہیز لعنت نہیں، سنتِ نبوی ہے۔ والدین آسانی سے اپنی بیٹی کو جو دے سکتے ہیں دیں اسکی نمائش ہو نہ سسرالیوں کی جانب سے مطالبہ۔ لعنت تو اس سوچ پر ہے جو جہیز کے نام پر گھر بھرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بعض معاملات میں لڑکی کے والدین کا بھی قصور ہے جو سسرالیوں کے مطالبات مانتے ہیں۔ یہ عموماً ان حالات میں ہوتا ہے جب قریبی رشتہ داروں کو اپنے معیار سے کم تر سمجھتے ہوئے انجان لوگوں میں شادی کر دی جاتی ہے۔ لڑکے یا لڑکی کی شادی کے سلسلے اکثر دھوکہ اور فراڈ ہو جاتا ہے۔ باہر کے رشتوں کے شوق نے کئی خاندان برباد کر دئیے ہیں۔ 
شادیوں میں فراڈ دھوکہ دہی، تشدد اور قتل کے مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں تو شریف آدمی ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ کسی مجرم کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے ہمارا قانون بہترین ہے۔ ہمارے قوانین جتنے بے مثال ہیں وہیں ان پر عملدرآمد کرانے والے باکمال ہیں۔ دھوکہ دہی فراڈ اور دکھ درد سے بچنے کے لئے جہاں اعلیٰ خاندانوں کے ساتھ جڑنے کی خواہش پر قابو پانا وہیں رشتوں سے قبل مقابل خاندان کی چھان بین بھی ضروری ہے۔ جھٹ منگنی پٹ ویاہ سے بھی بہت سی خرافات جنم لیتی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کے قلع قمع کے لئے عدلیہ کا کردار بڑا اہم ہے۔ لیکن افسوس کہ عدالتی سسٹم میں ججوں کو بے بہا مراعات کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ ماتحت عدلیہ تو بالکل بے مہار ہے اور بدستور ہے۔ معاشرے میں جرائم کے فروغ میں جتنا پولیس کی مجرمانہ ذہنیت کا عمل دخل ہے عدلیہ کا اس سے کسی صورت کم نہیں۔ عدلیہ کا سسٹم درست اور آئیڈیل ہو جائے تو جرائم کا خاتمہ اور دلہنوں پر تشدد ان کے قتل اور جلائے جانے کے واقعات کا کافی حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے۔


بیٹی، جہیز، قانون اور معاشرہ

جمعۃالمبارک ، 24 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
وہ کیسے انسان ہونگے، پتھر دل، انسانیت سے تہی، احساسات و جذبات اور شفقتِ پدری سے عاری، جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ وہ ایسا کرنے کی کہاں سے جرأت و ہمت لے آتے تھے۔ ہم تو بیٹی کو پریشان دیکھ کر بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ ڈولی اٹھتی ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک فرض سے سبکدوش ہو گئے۔ جِسے خونِ جگر دیکر پالا، ناز نخرے اٹھائے، وہ بھی اماں اور بابا پر جان و دل سے فدا ہوتی، اس کے بچھڑنے پر بلک بلک کر روتے ہیں۔ جہیز کے نام پر ہمت ہے یا نہیں جو کچھ بھی ممکن ہے، پیاری بیٹی کے سسرال پہنچا دیتے ہیں۔ بیٹے کو نعمت اور بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا۔ جب یہی رحمت، جہیز کم لانے کی پاداش میں تیل چھڑک کر جلا ڈالی جاتی ہے، گولی مار کر قتل کر دی جاتی ہے۔ سوختہ اور زخموں سے چور میت جب اسی دہلیز پر پہنچتی ہے جہاں سے چند دن یا کچھ عرصہ قبل سرخ جوڑے میں رخصت ہوئی تھی تو والدین، بہن بھائیوں اور عزیزوں رشتہ داروں پر غم دکھ اور درد کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کی زندگی کی خوشیاں اور رعنائیاں بیٹی کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں۔ کیا بیٹی والوں کو اس کی سزا دی جاتی ہے کہ انہوں نے بیٹی کو پال پوس کے دوسرے خاندان پر اعتماد اور اعتبار کر کے ان کے حوالے کر دیا۔ دلہن کو لے جانے والوں کو بھی ایک عورت نے جنم دیا۔ اس خاندان میں بھی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ پھر یہی سزا کی مستحق کیوں؟ کیا اس کی بھی ویسی ہی جان نہیں جیسی باقی گھر والوں کی ہے۔ کیا گھر میں نئی آنیوالی لڑکی کوئی مشین ہے مٹی کا مادھو یا روبوٹ جِسے بے دردی سے توڑ دیا جاتا ہے۔ شاید بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے حق بجانب تھے۔ 
مریدکے میں جو ہوا اس سے زمین کانپ گئی۔ آسمان لرز گیا۔ دلہا میاں نے جہیز میں کار نہ لانے پر دلہن کو گھر سے نکال دیا۔ والدین نے نئی موٹر سائیکل لے دی تو دلہا میاں اسی پر اہلیہ کو گھر لے گئے۔ دل میں کار کی تڑپ اور امنگ لہراتی رہی پھر انسانیت دم توڑ گئی آنکھوں کے سامنے لالچ اور حرص کا اندھیرا چھا گیا۔ ریوالور نکالا حافظہ اہلیہ نماز ادا کر رہی تھی۔ سجدے میں گئی تو فائرنگ کر کے کسی کے جگر کی بوٹی اور دل کے ٹکڑے کو خون میں نہلا کر ڈکیتی کا ڈرامہ رچانے کے لئے خود کو بھی زخمی کر لیا۔ کیا ایسا کرنے سے اسے کار مل گئی؟ مریدکے کا مذکورہ بہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کی بے حسی کی علامت ہے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جہیز کی کمی پر دوسروں کی بیٹوں کو طعنے دینے، ان پر تشدد اور قتل تک کر ڈالنے والے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جہیز میں کتنی کاریں دیتے ہیں؟ چولہا پھٹنے سے بہو ہی کیوں مرتی ہے۔ گھر کی بیٹی کیوں نہیں؟
جہیز لعنت نہیں، سنتِ نبوی ہے۔ والدین آسانی سے اپنی بیٹی کو جو دے سکتے ہیں دیں اسکی نمائش ہو نہ سسرالیوں کی جانب سے مطالبہ۔ لعنت تو اس سوچ پر ہے جو جہیز کے نام پر گھر بھرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بعض معاملات میں لڑکی کے والدین کا بھی قصور ہے جو سسرالیوں کے مطالبات مانتے ہیں۔ یہ عموماً ان حالات میں ہوتا ہے جب قریبی رشتہ داروں کو اپنے معیار سے کم تر سمجھتے ہوئے انجان لوگوں میں شادی کر دی جاتی ہے۔ لڑکے یا لڑکی کی شادی کے سلسلے اکثر دھوکہ اور فراڈ ہو جاتا ہے۔ باہر کے رشتوں کے شوق نے کئی خاندان برباد کر دئیے ہیں۔ 
شادیوں میں فراڈ دھوکہ دہی، تشدد اور قتل کے مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں تو شریف آدمی ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ کسی مجرم کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے ہمارا قانون بہترین ہے۔ ہمارے قوانین جتنے بے مثال ہیں وہیں ان پر عملدرآمد کرانے والے باکمال ہیں۔ دھوکہ دہی فراڈ اور دکھ درد سے بچنے کے لئے جہاں اعلیٰ خاندانوں کے ساتھ جڑنے کی خواہش پر قابو پانا وہیں رشتوں سے قبل مقابل خاندان کی چھان بین بھی ضروری ہے۔ جھٹ منگنی پٹ ویاہ سے بھی بہت سی خرافات جنم لیتی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کے قلع قمع کے لئے عدلیہ کا کردار بڑا اہم ہے۔ لیکن افسوس کہ عدالتی سسٹم میں ججوں کو بے بہا مراعات کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ ماتحت عدلیہ تو بالکل بے مہار ہے اور بدستور ہے۔ معاشرے میں جرائم کے فروغ میں جتنا پولیس کی مجرمانہ ذہنیت کا عمل دخل ہے عدلیہ کا اس سے کسی صورت کم نہیں۔ عدلیہ کا سسٹم درست اور آئیڈیل ہو جائے تو جرائم کا خاتمہ اور دلہنوں پر تشدد ان کے قتل اور جلائے جانے کے واقعات کا کافی حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے۔


Thursday, December 23, 2010

بھارت کو واک اوور

23-12-10
فضل حسین اعوان ـ
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد 5، عارضی کی 10 ہے۔ عارضی ارکان کا دو سال کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2010ء میں بھارت عارضی نشست کے لئے امیدوار تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے اقوام متحدہ میں اپنے سفیر ہردیپ سنگھ پوری کے ساتھ مل کر بھرپور مہم چلائی۔ جنرل اسمبلی کے کل 192 ارکان میں سے 190 نے ووٹنگ میں حصہ لیتے ہوئے 187 نے بھارت کے حق میں ووٹ دیا۔ سب سے شرمناک کردار پاکستانی مندوب عبداللہ حسین ہارون کا رہا، اُن کا ووٹ بھی بھارت کی حمایت میں تھا۔ 1996ء میں عارضی سیٹ کے لئے بھارت کا مقابلہ جاپان سے ہوا۔ جاپان نے اس وقت بھارت کو 40 کے مقابلے میں 142 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ 
بھارت کافی عرصہ سے اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل کی مستقل نشست کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ برطانیہ تین سال قبل بھارت کی حمایت کر چکا ہے۔ امریکہ رواں سال بھارت کی حمایت پر کمر بستہ ہوا ہے۔ چین نے بھی بھارت کی مخالفت نہیں کی۔ نومبر میں اوباما بھارتی دورے پر آئے تو بھارت کے لئے مستقل نشست کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ امریکہ کی حمایت پر 12 نومبر 2010ء کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں مذمت کی متفقہ قراردادیں منظور کی گئیں جن میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیرنے والے بھارت کا راستہ روکا جائے۔ 
کچھ ماہرین کا نقطہ نظر ہے کہ امریکی حمایت کے باوجود بھارت کا سلامتی کونسل کا رکن بننا آسان نہیں۔ مستقل رکنیت کے لئے جنرل اسمبلی کے ارکان کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت پڑے گی۔ نئے ممبر کے لئے قواعد و ضوابط بھی طے کرنا ہوں گے۔ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک میں سے پاکستان کے سرگرم ہونے پر چین بھارت کے راستے کا بھاری پتھر ثابت ہو سکتا ہے۔ اب تک سامنے آنے والے مؤقف کے مطابق چین بھارت کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا۔ روس، فرانس اور برطانیہ کا شمار بھارت کے دوستوں میں ہوتا ہے۔ ایسے میں بھارت کے لئے مستقل نشست کا حصول مشکل نہیں۔ 1996ء میں بھارت سفارتکاری کے میدان کہاں تھا کہ اسے عارضی نشست کے لئے چاپان کے مقابلے میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا اور آج کی سفارتکاری کا اندازہ کیجئے کہ اس کے سب سے بڑے دشمن پاکستان نے بھی اس کی حمایت میں ووٹ دیدیا۔ 
پاکستان اپنے مجموعی بجٹ کا بہت بڑا حصہ ڈیفنس کے لئے مختص کرتا ہے۔ یہ شوق سے نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کو جس دشمن کا سامنا ہے وہ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کا ڈھیر لگائے چلا جا رہا ہے اس کا ہدف صرف پاکستان ہے۔ پاکستان کو مجبوراً دفاعی تیاریوں پر کثیر رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ گو پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں دفاعی سازو سامان کئی گنا کم ہے اس کے باوجود پاکستان جب بھی کسی ملک سے دفاعی معاہدے کرتا ہے تو بھارت اس پر واویلا ضرور کرتا ہے۔ بھارت کے واویلے اور شور شرابے کے باوجود ہمیں اپنے دفاعی معاملات میں چوکس، بھارت کی دفاعی تیاریوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ چین نے پاکستان کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا، اس کی دوستی بھی لازوال ہے لیکن اس کے باوجود چین اسلامی دنیا کا نمائندہ نہیں۔ بھارت اگر دنیا میں واحد ہندو اکثریتی آبادی کا ملک ہو کر مستقل نشست کا امیداو اور خواستگار ہے تو 57 اسلامی ممالک کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کیوں پیچھے ہے ۔۔۔ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ پاکستان مستقل نشست کا امیدوار نہیں۔ وزیر خارجہ نے یہ بیان پاکستان کی ضرورت اور مفادات کے برعکس امریکہ کی خوشامد میں دیا۔ ان کو شاید کسی نے وزیراعظم بننے کی تھپکی دے رکھی ہے۔ 12نومبر 2010ء کو قومی اسمبلی میں بھارت کی حمایت میں اوباما کے بیان کے خلاف قرارداد شاہ محمود قریشی نے تیار کی، پیش کرنے کا وقت آیا تو شہناز وزیر علی کو قرارداد تھما کر کھسک گئے۔ ووٹنگ کے دوران شاہ صاحب ایوان میں موجود نہیں تھے۔ بابر غوری نے وزیراعظم سے ان کے وزیر خارجہ کی عدم موجودگی پر استفسار کیا تو گیلانی صاحب اِدھر اُدھر دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہ شاید ہلیری کو فون کرنے گئے تھے کہ دیکھئے میں نے امریکہ کی مذمت کی قرارداد میں ووٹ نہیں دیا۔ وزیر خارجہ کے امریکی مذمت کی قرارداد کے موقع پر ایوان سے غائب ہونا اور آج سلامتی کونسل کی مستقل نشست کی امیدواری سے لاتعلقی کا اظہار بھارت کو مستقل نشست کے حصول کے لئے واک اوور ہے۔ آج نہ صرف بھارت کا راستہ روکنے بلکہ مستقل نشست کے حصول کے لئے پاکستان کو بھی کھل کر میدان میں آنا چاہئے۔ لیکن بے حس، بے ضمیر اور خود غرض حکمرانوں اور سفارتکاروں کی موجودگی میں یہ ممکن ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے کردار کے شخص کو پاکستان کا وزیر خارجہ رہنا چاہیے؟

Wednesday, December 22, 2010

خط

 بدھ ، 22 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
سیاسی اکابرین کے مابین میل ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ جوڑ توڑ جاری‘ روٹھنے‘ منانے اور مان کر روٹھنے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ تندو تیز تلخ اور سخت بیان بازی تھمنے میں نہیں آرہی۔ بظاہر سیاست میں ہلچل بلکہ بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ کچھ ماہرین کو سیاسی درجہ حرارت تیزی سے بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر سیاسی ماحول اندر سے بھی گرما گرم ہوتا تو میاں نواز شریف حسب سابق انگلینڈ دوبئی چین یا کسی اور ملک کے دورے پر نکل چکے ہوتے۔ میاں صاحب کی پاکستان میں موجودگی اس امر کی علامت ہے کہ سیاست کے تالاب میں کوئی تلاتم اٹھا‘ نہ اٹھنے کا امکان ہے۔ تاہم ان ہاؤس تبدیلی کی خواہش پالنے اور مڈٹرم الیکشن کی آرزو رکھنے والے اپنی مطلب براری کیلئے تالاب میں پتھر پھینکنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کو سونامی سمجھ لیں تو اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔سیاست میں دکھائی دینے والی ہیجانی اور طوفانی کیفیت میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے میاں نواز شریف کے 10 نومبر 2010ء کو لکھے گئے خط کا جواب ارسال فرما دیا ہے۔ میاں نواز شریف کے ترجمانوں نے کہا کہ خط موصول نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف نے اس پر ردعمل بھی ظاہر کر دیا۔
ترجمانوں کے بیان سے مسلم لیگ ن کے ان رہنماؤں اور کارکنوں کی ڈھارس ضرور بندھی ہو گی جن کو شکوہ ہے کہ اعلیٰ قیادت ان کو ملاقات کا وقت نہیں دیتی۔ جن کو یہ ناک کا بال سمجھتے ہیں ملاقات کے حمام میں سب برابر ہیں۔ ترجمانوں نے شاید گھر کے چوکیدار سے پوچھ کر کہ خط ملا یا نہیں۔ اپنا بیان جاری کر دیا۔ خط کا جواب پورے ایک ماہ بعد آیا‘ زرداری صاحب کو گذشتہ ایک ماہ کے دوران کئی غیر ملکی دوروں پر جانا پڑا‘ ہو سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کا خط پڑھنے‘ اگر پڑھا تو اس کا جواب لکھنے کا موقع نہ ملا ہو۔ مصروفیت ہی بہت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صدر صاحب نے نواز شریف کا خط پڑھا ہو نہ ان کو لکھا جانا والا جواب‘ خط کے آخر میں بالکل اسی طرح دستخط فرما دئیے جس طرح ایک معاہدے کے حوالے سے فرمایا تھا کہ بغیر اس کا مطالعہ کئے سائن کر دئیے تھے۔ ویسے بھی خطوں اور جوابی خطوں پر فرینڈز آف پاکستان‘ آئی ایم ایف‘ عالمی بنک‘ کیری لوگر بل یا کسی دیگر ملک اور ادارے کی امداد ملنے یا نہ ملنے کا امکان اور خدشہ نہیں ہے۔ تاہم جوابی خط دلچسپ ضرور ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے خط میں مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی تجاویز دی تھیں صدر صاحب نے بھی کمال کرتے ہوئے جواب میں مسائل ہی گنوائے ہیں۔ البتہ ان کے حل کی راہ میں مشکلات کا ذکر ضرور کر دیا ہے۔ جواب میں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ ’’ایسی کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس سے راتوں رات سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو‘‘… 
قوم نے جن لوگوں کے ہاتھ میں اپنی تقدیر تھما دی وہ دو سال 9 ماہ یعنی پورے پونے تین سال کو بھی ’’راتوں رات‘‘ کہہ رہے ہیں۔ شاید قیامت تک کا عرصہ درکار ہے۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر آر جی ایس ٹی کے نفاذ کو حکومت جہاد اور اپنا فرض عین سمجھ رہی ہے۔ اس کے نفاذ سے عوام پر مہنگائی کا قہر ٹوٹے گا۔ مراعات یافتہ اتحادیوں کو حکومت مزید نوازشات کا سپنا دکھا اور یقین دلا رہی ہے۔ ٹیکس کے نفاذ کی حمایت سے وہ بھی بدک رہے ہیں۔ صدر صاحب نے اپوزیشن جماعت کے قائد سے کہا ہے کہ اس ٹیکس کے نفاذ کی قومی اسمبلی میں حمایت کریں۔ صدر صاحب منہ بولے بھائی کو شاید اپنے ہمرکاب و ہم اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں نہیں۔ صدارتی اور اختیاراتی معاملے میں برابر نہیں‘ عوامی مقبولیت کے حوالے سے کھینچ کر نیچے لانے اور اپنے ساتھ ملانے کے حوالے سے۔ جوابی خط میں یہ بھی درج ہے ’’پٹرول کی قیمتیں مقرر کرنے میں حکومت کا عمل دخل نہیں‘‘ صدر صاحب نے درست فرمایا تاہم وہ اختیار اپنے عوام کیلئے بھی استعمال کر لیں جس کے تحت نیٹو کو پٹرول 42 روپے لٹر فروخت کیا جاتا ہے۔ ملک مسائل اور بحرانوں میں ضرور گھرا ہے۔ ہر مرض کا علاج اور بحران و مسائل کا حل ضرور موجود ہے۔ جس کیلئے خلوص اور نیک نیتی اولین شرط ہے۔ افسوس صد افسوس کہ موجودہ حکمرانوں باالخصوص اور سیاستدانوں میں باالعموم یہ نہیں ہے۔

Tuesday, December 21, 2010

آج کے منشی عبدالکریم

 منگل ، 21 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
چین کے وزیراعظم عزت مآب وین جیا باؤ کا دورہ پاکستان انتہائی کامیاب، شاندار اور یادگار رہا۔ پاکستان اور چین کی دوستی واقعی لازوال ہے۔ چین نے کڑے وقت میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی۔ حالیہ دورے کے دوران بھی وین جیا باؤ نے ہر قسم کی امداد اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ امریکہ جس نے خود پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی سے انکار کر دیا اور دیگر ممالک کو بھی خبردار کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے نہ کریں۔ ایسے موقع پر چین نے جرأت مندی سے پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی کا یقین دلایا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی چین پاکستان کے مؤقف کا پاکستانی حکمرانوں سے زیادہ حامی ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین قربتیں بڑھتی اور فاصلے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے امریکہ کو بھی تشویش ہے۔ چین سے دوستی اور اس کے تعاون کے باوجود ہمارے حکمران امریکہ کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں تاہم امریکہ کو یہ فکر ضرور ہے کہ پاکستان خود کو مکمل طور پر چین کے ساتھ وابستہ نہ کر لے۔ ہلیری کلنٹن نے عین چینی وزیراعظم کے دورے کے موقع پر پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔ اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کو تنہا نہ چھوڑنے کا امریکہ کا اس کے پالکوں اور لے پالکوں کا ریکارڈ ’’قابلِ داد اور قابلِ فخر‘‘ ہے۔ آگے چلنے سے قبل ایک دلچسپ واقعہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کو اردو سے بڑا لگاؤ تھا۔ ملکہ نے مسلسل تین سال بڑی محنت سے اردو لکھنا اور بولنا سیکھا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کا استاد آگرہ کا عبدالکریم تھا۔ 
ملکہ کو ہندوستان کے مسلمان خدمتگاروں سے دلچسپی تھی۔ ہندوستان سے ضروری تربیت دیکر محمد بخش اور حافظ عبدالکریم کو 23 جون 1887ء کو ملکہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ ان کی ڈیوٹی ملکہ کو ناشتہ لنچ اور ڈنر کرانے پر لگی۔ ان خدمتگاروں کی باہمی گفتگو سے متاثر ہو کر اردو سیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا جو جنون کی صورت اختیار کر گیا ملکہ نے عبدالکریم سے اردو سیکھنے کا آغاز کیا جس سے خوبرو عبدالکریم کو ملکہ کے قریب ہونے کا موقع ملا۔ ہندوستانی نوجوان نے اپنی خدمت، ادب سے لگاؤ، رکھ رکھاؤ اور سوجھ بوجھ کے باعث دربار شاہی میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ ملکہ کا کریم پر اعتماد بڑھا تو ملکہ تک مراسلات پہنچانے اور شاہی فرامین پر ملکہ کے دستخطوں کی سیاہی خشک کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں کے سپرد کر دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد ملکہ نے انہیں اپنا منشی مقرر کر دیا۔ 1895ء میں ملکہ کے پرسنل سیکرٹری سر ہنری کا انتقال ہوا تو یہ عہدہ بھی عبدالکریم کے حصے میں آ گیا۔ منشی عبدالکریم کو 24 مئی 1899ء کو برٹش سول سروس کا سب سے اعلیٰ اعزاز C.I.E دیا گیا۔ 22 جنوری 1901ء کو ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا جس کے ساتھ ہی عبدالکریم کی بدقسمتی کا سفر بھی شروع ہو گیا۔ ملکہ کے انتقال کے دوسرے روز صبح سویرے ملکہ کی بیٹی ہیٹرس نے منشی عبدالکریم کے کمرے پر دستک دی، دروازہ کھولا تو ملکہ بیٹی کے ساتھ چند ملازم بھی تھے انہوں نے عبدالکریم سے تمام خطوط اور دیگر دستاویزات لے کر ان کو آگ لگا دی۔ ملکہ کے فرزند ایڈورڈ ہفتم نے تخت و تاج سنبھالتے ہی ہندوستان سے تعلقات رکھنے والے تمام ملازمین کو بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیدیا ۔۔۔ امریکیوں اور برطانوی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اوپر سے شجرہ نسب ایک ہے بلکہ امریکی، برطانیہ اور یورپ کی بگڑی نسلیں ہیں۔ امریکہ کی دنیا میں منشی عبدالکریم بنانے اور ان سے پیچھا چھڑانے کی لمبی تاریخ ہے۔ مارکوس، پنوشے، شہنشاہ ایران، مشرف سب امریکہ کے منشی عبدالکریم تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہونے تک امریکہ بحری بیڑا بھجوانے کا لارا لگاتا رہا۔ افغانستان سے روس کی شکست کے بعد پاکستان کو آزمائش میں اور مجاہدین کو تنہا چھوڑ گیا۔ آج کے منشی عبدالکریموں کو بھی سابقوں کی طرح یقین ہے کہ ’’بادشاہ‘‘ کو سب سے بڑھ کر ان پر اعتماد اور اعتبار ہے۔ مشرف بش کے پیارے تھے اوباما آئے تو ان کو لات مار دی، ہمارے جمہوری حکمران اوباما اور ہلیری کے راج دلارے ہیں۔ اوباما گئے تو نئے آنے والے نئی پالیسی کے ساتھ نئے لوگوں کو تلاش کریں گے۔ ہمارے منشی عبدالکریموں کے پاس ایک سال کا وقت ہے خود داری کا مظاہرہ کریں۔ شاویز اور احمدی نژاد کی جرأت و ہمت، سلطان ٹیپو کی شجاعت، بہادری اور غیرت کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کو منشی عبدالکریم بنا دیں، اسے کہیں اٹھاؤ اپنا بوریا بستر، اپنی جنگ سمیت یہاں سے کوچ کر جاؤ۔

Monday, December 20, 2010

سب یونہی چلے گا

 پیر ، 20 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی پارٹی حکومت میں ہوتی ہے یا اپوزیشن میں، سوائے مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے۔ مولانا کی پارٹی حکومت میں ہوتی ہے یا حکومت سے باہر اپوزیشن میں نہیں۔ حکومت سے باہر ہو کر بھی وہ آدھی حکومت میں ہی رہتی ہے۔ 14 دسمبر کو مولانا نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا لیکن یہ جزوی علیحدگی ہے۔ اعظم سواتی کو وزیراعظم نے نکالا تو مولانا نے بردار خورد عطاالرحمن اور رحمت اللہ کاکڑ سے خود استعفیٰ دلوا دیا۔ مولانا نے حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کو حتمی قرار دیا ہے۔ گیلانی نے مولانا کے وزیر اور اپنے شہر کے مولانا وزیر کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تو رات کو یہ خبر لیک ہوتے ہوتے مولانا فضل الرحمن تک پہنچ گئی۔ مولانا نے گیلانی صاحب کو فون کیا تو ان کے پاس فون سُننے کا وقت تھا نہ دو دن تک ملاقات کا۔ اگلے روز وزیراعظم نے اعظم سواتی کی برطرفی کا نہلا پھینکا تو مولانا نے حکومت سے علیحدگی کا دہلا دے مارا۔ اس کے بعد قیوم سومرو منانے گئے تو مولانا نے ببانگِ دہل فرما دیا علیحدگی کا فیصلہ حتمی ہے۔ خورشید شاہ اور رحمن ملک کو بھی یہی جواب دیا۔ اب گیلانی ملاقات کے لئے بے چین ہیں۔ زرداری اور گیلانی فون پر بات کے لئے بھی بے چین و بے قرار رہے۔ گزشتہ رات زرداری صاحب نے چینی وزیراعظم کے عشائیے کے بعد مولانا کو گھیر لیا تاہم گیلانی صاحب کی طرف سے فون نہ سُننے کاغصہ ابھی موجود ہے۔ 
مولانا جس طرح علیحدگی کے فیصلے پر جمے ہوئے ہیں اس سے بھی زیادہ عزم کے ساتھ کشمیر کمیٹی کے بدستور چیئرمین بھی ہیں۔ بلوچستان میں حکومت سے الگ ہوئے نہ گلگت بلتستان سے۔ مولانا شیرانی بھی اسلامی نظریہ کونسل کی سربراہی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو پاکستانی سیاست کا کامیاب ترین کردار قرار دیا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کی 25، اے این پی کی 13 سیٹیں ہیں۔ مولانا کے پاس صرف 7 ہیں ان کے پاس تین مکمل وزارتیں، کشمیر کمیٹی اور اسلامی نظریہ کونسل کی چیئرمین شپ بھی ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کی مجموعی وزارتوں کی تعداد بھی مولانا کو تفویض کردہ وزارتوں سے زیادہ ہیں۔ 
مولانا نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تو میڈیا اور سیاست میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ چند ایک ٹی وی چینلز کے اینکرز اپنی اپنی خواہش کو حقیقت میں ڈھلتا دیکھ رہے تھے ایک کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی اسے چند گھنٹوں میں حکومت کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی حسرت تھی کہ جے یو آئی (ف) کی طرح ایم کیو ایم بھی حکومتی اتحاد سے الگ ہو جائے گی، ایسا ہوا تو حکومت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے گی۔ موجودہ حکومت اپنی تمام تر ناپسندیدہ اور عوام دشمن پالیسیوں کے باوجود پانچ سال پورے کرتی نظر آ رہی ہے۔ جے یو آئی اور ایم کیو ایم نے سیاست میں کسی چیز کو کبھی حرفِ آخر سمجھا اور نہ کسی کے لئے اپنے دروازے کبھی بند کئے۔ مولانا فضل الرحمن حکومت سے الگ ہونے کو حتمی فیصلہ قرار دیتے ہیں ان کے نائب مولانا عبدالغفور حیدری نے باور کرا دیا ہے کہ مولانا کا کہا اس وقت کی مانند نہیں جو جا کر واپس نہ آ سکے۔ مولانا حیدری کا فرمان ہے کہ ان کی پارٹی حکومت میں واپس آ سکتی ہے اگر اعظم سواتی کو واپس ان کے عہدے پر تعینات کرتے ہوئے معذرت کی جائے۔ عطاالرحمن اور کاکڑ کے استعفے واپس لئے جائیں اور مزید مذہبی امور کی وزارت بھی جے یو آئی کے سپرد کر دی جائے۔ آخری مطالبے سے مولانا حامد سعید کاظمی کا واویلا یاد آ جاتا ہے کہ سب کچھ ان کی وزارت ہتھیانے کے لئے ہو رہا ہے۔ 
آج اِن ہاؤس تبدیلی کی بات ہو رہی ہے، مولانا فضل الرحمن کا شوق بھی یہی ہے تاہم اس کا سرے سے امکان ہی نہیں۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی حکومت سے الگ ہو جائیں تو بلاشبہ حکومت کی اکثریت ختم ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں صدر وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ سکتے ہیں یا اپوزیشن پارٹیاں عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہیں۔ زرداری اپنے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کو نہیں کہیں گے، عدم اعتماد کون لائے گا۔ ایم کیو ایم، جے یو آئی۔ ن لیگ حکومت گرانے کے عمل میں شامل نہ ہونے کا عزم ظاہر کر چکی ہے۔ اگر ن لیگ کو وزارت عظمیٰ کا جھانسہ دیکر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وکی لیکس کے بقول جنرل کیانی کے نواز شریف کے بارے میں ریمارکس سامنے ہیں۔ ن لیگ وزارت عظمیٰ کے لالچ میں صوبے کی حکومت سے بھی ہاتھ دھونا قطعاً پسند نہیں کرے گی۔ فرض کریں ن لیگ یا کوئی بھی پارٹی اِن ہاؤس تبدیلی کی صورت میں حکومت بناتی ہے تو اس کا مکمل انحصار اتحادیوں پر ہو گا۔ آج پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے جو چاند چڑھا رکھا ہے یہ ایک نیزے پر ہے تو نئے آنے والے اسے سوا یا ڈیڑھ نیزے تک لے جائیں گے۔ مڈٹرم الیکشن پر بھی یہی فارمولا صادق آتا ہے اور پھر حکومت سے جانے والے نئے آنے والوں کو کیسے معاملات چلانے دیں گے۔ ہماری سیاست ایک بار پھر 80 اور 90 کی دہائی کے نفرت آگیں دور میں لوٹ جائے گی۔ یہ سب تو ہم نے فرض کیا تھا۔ اصل میں یہ سب چائے کی پیالی میں طوفان اور احمقوں کی خواب میں جنت کی سیر ہے۔ حقیقت یہ ہے اگلے سوا دو سال میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی، سب یونہی چلے گا۔ البتہ کوئی آفت آ جائے یا قیامت ٹوٹ پڑے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


Sunday, December 19, 2010

زخم بھرے نہیں‘ گھائو تازہ ہے

اتوار ، 19 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
کسی بھی قوم کی تاریخ کے تابناک، غضبناک یا شرمناک ہونے کا تعین ماضی کے واقعات کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی تاریخ بلندی و پستی، زیر و بم، فخر و ندامت کا مجموعہ اور مرکب ہے۔ ہمارا ماضی سہانا ہے یا گھنائونا دونوں صورتوں میں یہ ہمارے حال اور مستقبل کا آئینہ دار ہونا چاہئے۔ قابلِ فخر ماضی کو گلے کا ہار اور سینے سے لگا کر شرمندگی پر مبنی واقعات اور سانحات کو نظرانداز اور فراموش کر کے عظیم الشان مستقبل کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ ماضی کے بعض سانحات خود بخود ذہن و قلب سے محو ہو سکتے ہیں تاہم بعض کو ہزار کوشش کے باوجود بھلایا جا سکتا ہے نہ ان سے پیچھا چھڑایا۔ ہماری تاریخ کا سب سے شرمناک سانحہ، المیہ مشرقی پاکستان ہے۔ یہ پاکستانیوں کے دلوں کے اندر ایک مسلسل سلگتی ہوئی آگ ہے۔ اس سانحہ کا دکھ، درد الم اور کرب کروٹ کروٹ اپنی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اولاد کی موت کا صدمہ جس طرح والدین کی زندگی کی رعنائیاں، خوش ادائیاں، رنگین چلن اور بانکپن چھین لیتا ہے بالکل اسی طرح سقوطِ ڈھاکہ کے داغ نے محب وطن پاکستانیوں کو اداس اور غمگین کر دیا، نسلوں کو ہمیشہ کا غم دے دیا۔ پاکستان بنتے دیکھنے والوں نے پاکستان ٹوٹتا دیکھا تو ان پر کیا گزری ہو گی۔ اندرا گاندھی کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں پگھلے سیسے کی طرح گونجتے ہیں۔ ’’ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا‘‘۔ اندرا گاندھی کے بدبودار‘ زہر آلود الفاظ اپنی فتح پر ناز گھمنڈ اور اغماز شراب کے جام میں ڈوبی ہوئی پاکستانی قیادت کی فرائض سے چشم پوشی و روگردانی، غیرت و حمیت سے تہی دامانی مشرقی محاذ پر فوج کی رسوائی جنرل نیازی کے لاابالی پن اور اوچھی حرکتوں کے باعث جگ ہنسائی، یہ سب نظروں کے سامنے گھومتا ہے تو دماغ میں نفرت، حقارت اور انتقام کا طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ اندرا گاندھی نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ ہم اپنی ذلت کا بدلہ کب اور کیسے لیں گے؟ شاطر اور چالاک ہندو بنیے نے قیام کی ربع صدی مکمل ہونے سے بھی ایک سال قبل قائد و اقبال کے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ ہم 39 سال سے اس سانحہ کا سوگ منا رہے ہیں۔ ہندو نے نسل در نسل مسلمانوں سے نفرت اور ہزار سال کی غلامی کے انتقام کا جذبہ منتقل کیا۔ المیہ مشرقی پاکستان اور وادی کشمیر پر بھارت کے جارحانہ اور ظالمانہ قبضے کے باوجود، کیا اپنی نسلوں کو ہم بھارت کے ساتھ محبت و مروت، صلح جوئی، امن و آشتی کے ساتھ رہنے کا درس دیں؟ اس دشمن کے ساتھ اخوت و بھائی چارے کا سبق دیں جو 1971ء میں باقی بچنے والے پاکستان کو بھی نگل جانا چاہتا ہے۔ ہڑپ کر جانا چاہتا ہے تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے؟ اندرا گاندھی کی سازش و جارحیت، ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی نااہلی و نالائقی کے باعث مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں نمودار ہوا۔ پاکستان نے اسے باقاعدہ تسلیم کیا ہے اس کے باوجود بہت سے لوگ اسے بدستور مشرقی پاکستان کہتے ہیں۔ ان کے ایسا کہنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی لیکن ان کے اندر سانحہ کا کرب موجود ہے۔ اس کا ذکر آتا ہے تو دل کا درد اور روح کی تڑپ آنسو بن کر آنکھوں سے بہنے لگتی ہے۔ 
جناب عرفان صدیقی بڑے محترم و مکرم ہیں بڑے قلمکار اور جناب مجید نظامی کے تربیت یافتہ بھی ہیں۔ ان کی آواز اونچے ایوانوں میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ لوگ ان سے رہنمائی لیتے ہیں لیکن نجانے وہ کس رنگ اور ترنگ میں تھے کہ 16 دسمبر کو شائع ہونے والے کالم ’’قصہ ماضی اور لمحہ موجود‘‘ میں فرما دیا… ’’مشرقی پاکستان تو چھن گیا۔ زخم بھی بھر چکا ہے۔ لیکن کبھی کبھار پیچھے پلٹ کر دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘… عرفان صدیقی صاحب بولتے ہیں تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ لکھتے ہیں تو قلم خوشبوئیں بکھیرتا چلا جاتا ہے دشمن کے خلاف قلم سے نکلے ہوئے الفاظ انگارے اور شرارے بن جاتے ہیں۔ معذرت اور احترام کے ساتھ ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ازلی دشمن کا سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں دیا ہوا زخم بھر چکا ہے۔ ایسا ہوتا تو محمود علی ارض پاک پر جان نہ دیتے۔ ایم ایم عالم اپنے آبائی وطن جا چکے ہوتے۔ دشمن کے وار یا حادثے میں چہرہ جھلس جائے، شکل بگڑ جائے ناک کٹ جائے یا آنکھ نکل جائے تو آئینہ دیکھے بغیر بھی محرومی کا احساس زندہ رہتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان ہمارا شرمناک ماضی ہے اس کے تناظر میں ہی ہمیں اپنا مستقبل استوار کرنا ہے۔ اس ہزیمت کو عزیمت میں بدلنا ہے۔ اس ذلت کا بدلہ اور انتقام ہم پر فرض اور نئی نسلوں پر قرض رہے گا۔ گھائو بھر جائیں تو بھی زخموں کے نشان آمادہ انتقام کرتے ہیں یہ زخم تو ابھی تازہ ہیں۔ دکھ تازہ ہے گزرتے دنوں کے ساتھ اس میں کمی نہیں اضافہ ہوتا رہے گا اور ایک موقع پر جب ناقابل برداشت ہو جائے گا تو مداوے اور ازالے کی کوشش یقیناً ہو گی۔ ہندو بنیا اپنی غلامی کا بدلہ لینے کے لئے صدیوں انتظار اور پلاننگ کر سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی پلاننگ کہیں نہ کہیں ہو رہی ہو۔ ہم اپنی تاریخ سے منہ موڑ سکتے ہیں نہ ماضی سے ناطہ توڑ سکتے ہیں۔ تاریخ کو فراموش کیا جا سکتا ہے نہ ماضی کو نظرانداز۔ ایسا ہوتا تو ہمارے میزائلوں کے نام غوری، غزنوی اور ابدالی نہ ہوتے۔ ہماری کتابوں میں اسلام کے ہیروز کا ذکر موجود اور گھروں میں ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، قائد اور اقبال کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ جو قومیں ماضی کو فراموش کر دیتی ہیں ان کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے۔ ہمیں ماضی کو فراموش نہیں کرنا اس سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان کے عظیم تر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔


Friday, December 17, 2010

حسینیت اور یزیدیت…معرکہ آج بھی جاری ہے

جمعۃالمبارک ، 17 دسمبر ، 2010
حسینیت اور یزیدیت…معرکہ آج بھی جاری ہے
فضل حسین اعوان ـ
خیرو شر، نیکی بدی، حق و باطل اور حسینیت و یزیدیت کے درمیان معرکہ آرائی ازل سے جاری ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ سچ کو ہزار پردوں میں ملغوف اور ملبوس کرکے بھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ جس طرح سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع نہیں ہوسکتا۔ بن بادل برسات نہیں ہوسکتی، دوپہر سے قبل شام نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح خیر پر شر غالب آسکتا ہے نہ بدی نیکی کو ڈھانپ سکتی ہے۔باطل حق کو زیرو زبر کرسکتا ہے نہ یزیدیت کی حسینیت کے مقابلے میں جیت ہوسکتی ہے۔فتح و شکست کا ہر کسی کے پاس اپنا پیمانہ، معیار اور سوچ ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات کسی عمل اور اقدام کے نتائج مدتوں بعد واضح ہوتے ہیں تاہم انسان جو دیکھتا ہے اس کے مطابق نتیجے کا تعین کرلیتا ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔
یزید کی جدید سامانِ حرب سے لیس سپاہ نے مدینہ النبیؐ سے چلنے والے امام عالی مقامؑ کی قیادت میں معصوم بچوں اور خواتین پر مشتمل مختصر قافلے پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ایک طرف بے سرو سامانی کی حالت میں اہلیبیت دوسری طرف اہل ابلیس، ایک طرف حق، دوسری طرف باطل،ایک طرف حسینیت دوسری طرف تمام تر کروفر اور شیطانیت کے ساتھ یزیدیت، حسینیت پر ہر قسم کا ظلم و جبر روا، ہر طرف سے ناکہ بندی، رسد کے راستے مسدودجانوروں تک کو ملنے والے دریا کے پانی تک آل رسول کی رسائی مفقود اوپر سے قیامت کی گرمی بدن کو جھلسائے دے رہی تھی۔ گلے پیاس سے خشک، بچوں کی بھوک اور پیاس سے حالت دیکھ کر بڑے سے بڑے حوصلے اور جگرے والا بھی ڈگمگا جائے۔ لیکن یہ نبی کا خاندان تھا علی کا خانوادہ تھا۔ خاتون جنت کے جگر گوشے تھے۔ لشکر یزید کا ایک ہی مطالبہ’’ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلو‘‘ تمام مظالم، جبر اور مصائب کے باوجود حسین ابن علیؓ کے پائے استقلال میں سرمو لرزش نہ آئی۔ حق پر باطل کو حاوی نہ ہونے دیا۔ یزیدی جس مقصد کیلئے آئے تھے اس میں ناکام ٹھہرے حضرت امام حسین ؓ کو یزید کی بیعت پر قائل نہ کرسکے تو اس نبیؐ کے خاندان پر یلغار کردی جس کا کلمہ بھی پڑھتے تھے۔ امام کا سر تن سے جدا ، ساتھیوں کے جسم نیزوں سے چھلنی کئے۔ ایسا ظلم چشم فلک آج تک نہیں دیکھا تھا اس ظلم پر دریائوں کا پانی خشک ہوجاتا تو بجا تھا۔زمین پھٹ جاتی تو درست تھا آسمان ٹکڑے ہوجاتا تو ٹھیک تھا کیونکہ یہ صرف حسین ابن علی ؓ کا قتل ہی نہیں تھا بلکہ آل رسولؐ کی توہین بھی تھی۔اقتدارکے نشے میں ظلم کی انتہا، انسانیت کی ابتلا، حضرت امام حسینؓ اور ساتھیوں کی شہادت پر ابن زیاد اور اسکے ماتحت فوج نے جشن منایا۔ اس کے حواریوں نے شادیانے بجائے اسے اپنی فتح و نصرت قرار دیا۔کیا واقعی یہ یزیدیوں کی فتح تھی؟ ہرگز نہیں۔ یزیدی جس کو فتح و نصرت اور کامرانی قرار دے رہے تھے یہی دراصل یزیدیت کی موت، ذلت اور رسوائی تھی …؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے............. اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا میں اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر حسین ابن علیؓ اور ساتھیوں نے دین مصطفویؐ کو زندہ کردیا خود بارگاہ نبوی میں سرخرو ہوگئے۔آج یومِ عاشور پر سوا ارب سے زائد اہلِ اسلام حضرت امام حسینؓ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ان کی لا زوال قربانی پر خراجِ عقیدت اور سلامِ محبت پیش کیا جارہا ہے۔آج کتنے لوگ ہیں جو یزید پر لعنت نہیں بھیجتے۔اسلامی دنیا کا کوئی خطہ قریہ اور گلی ایسی نہیں جہاں امام حسینؓ کے نام پر نام رکھنے والے موجود نہ ہوں۔یزید کے نام پر کسی نے اپنی اولاد کا نام رکھا؟ ایسا ہی پست مرتبہ و مقام اور ننگ و نام یزید کے حواریوں کے حصے میں آیا۔ وقتی مفادات و مقاصد کا حصول ان کو نفرت و رسوائی کی پستیوں میں لے گیا
۔آج ہمارے ہاں بھی وقتی مفادات کیلئے مصلحت اور منافقت سے کام لیا جاتا ہے۔ ارضِ پاک پر صہیونی اور صلیبی مقاصد کی برآری کیلئے گروی رکھ دی گئی ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر رب واحد کے نام لیوائوں کا خون بہایاجارہا ہے۔اس خونریزی کی ابتدا کرنیوالا آج دربدر ہے انتہا کرنیوالوں کا انجام بھی بخیرنہیں آج بھی حسینیت اور یزیدیت کے مابین معرکہ جاری ہے ، فتح و نصرت حسینیت کا مقصد ٹھہرے گی خدا کے ہاں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں ، صہیونیوں اور صلیبیوں کا ساتھ دینا یزیدیت ہے ۔ساتھ دینے والے اپنا انجام سوچ لیں۔ ان کا شمار یزید، شمر، میر جعفر اور میر صادق کی صفوں میں ہوگا۔ نسلوں کو غدارابن غدار کے طعنے ملتے رہیں گے۔


Thursday, December 16, 2010

کاش جنرل نیازی عزت کی موت کا انتخاب کرتے

جمعرات ، 16 دسمبر ، 2010
سقوطِ مشرقی پاکستان
فضل حسین اعوان ـ
1971ء کو صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان اور مشرقی پاکستان میں فوجی کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے ہاتھوں پاکستانی قوم اور اسلامی تاریخ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذلت کے سائے، دلدوز یادیں، درد اور کرب بدستور موجود ہیں اس روز قائداعظم کا خون جگر و دل دیکر بنایا ہوا پاکستان دولخت ہو گیا 90 ہزار فوجی ازلی وابدی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ یہ یقیناً اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی شکست تو نہیں ہے تاہم سب سے بڑا سرنڈر ضرور ہے۔ سرنڈرز کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ریکارڈ جاپان کے پاس ہے جس کی 72 لاکھ بری اور فضائی افواج نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکہ کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے تھے۔ اس سے قبل 15 فروری 1942ء کو ملایا اور سنگاپور کے محاذ پر برطانوی جرنیل پرسیول نے ایک لاکھ 30 ہزار سپاہ کے ساتھ جاپانی جرنیل یاماشیتا کے سامنے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کیا تھا۔ ہمیں عالمی سرنڈرز سے بالکل اسی طرح غرض نہیں ہے جس طرح جنرل نیازی کے دہلی میں نیول گیلری میں نمائش کے لئے رکھے گئے یادگار پسٹل کی چوری سے نہیں ہے۔ سات اعشاریہ 6کا یہ پسٹل جون 2003ء کو چوری ہوا اس پسٹل کے ساتھ نیازی کی دستخط شدہ سرنڈر کی دستاویز بھی موجود تھیں جو محفوظ ہیں۔ نیازی کی ٹوپی کہاں وردی کہاں، پستول کہاں اور غیرت و حمیت کہاں اس سے سروکار نہیں، ان کے کردار سے اسلامی تاریخ جس طرح داغدار ہو گئی اس کو دھونے اور مٹانے کی ضرورت ہے۔ 
شکست کھیل اور الیکشن کا لازمی جزو ہے۔ جنگ میں شکست کا تصور نہیں، جنگ صرف اور صرف فتح و نصرت کے لئے لڑی جاتی ہے طارق بن زیاد نے کشتیاںجلا کر درس دیا جنگ کا انجام فتح یا موت ہے، اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ شکست کی ذلت سے عزت و غیرت کی موت کہیں بہتر ہے۔ ہمیں اسلامی تاریخ کے سقوط یاد دلاتے اور باور کراتے ہیں کہ شکست تسلیم کرنے والوں کا انجام ہمیشہ بھیانک اور عبرت ناک ہوا۔10 فروری 1258ء میں منگول سردار ہلاکو نے حملہ کرکے بغداد کو فتح کیا۔شہر کو آگ لگا دی لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خون مسلم سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا۔ ہلاکو کے سامنے آخری عباسی خلیفہ المستعصم بااللہ کو پیش کیا گیا۔ خلیفہ فاقے سے تھا ہلاکو نے اس کے سامنے ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات پلیٹ میں رکھ کر کھانے کیلئے پیش کئے۔ خلیفہ نے کہا یہ میں کیسے کھا سکتا ہوں؟ ہلاکو نے طیش میں آکر کہاتو ان کو اکٹھا کرنے کے بجائے دشمن کے ساتھ لڑنے کا انتظام کیوں نہ کیا ایسا کیاہوتا تو آج یوں بے بس نہ ہوتا… اس کے ساتھ ہی اسے قالین میں لپیٹ کر زمین پر پھنکوایا اور اوپر سے گھوڑے دوڑوا دیئے۔
2 جنوری 1492ء اسلامی تاریخ کا ایک اور شرمناک اور عبرت ناک دن ہے۔ اس دن اندلس میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ دن مسلمانوں پر بھاری تھا۔ یہ سقوط اندلس کی پہلی شام تھی جو مسلمانوں کیلئے طویل ترین تاریک رات کا آغاز ثابت ہوئی۔ اس شام پہلی بار مسجدوں سے مغرب کی اذان سنائی نہیں دی۔ اس کے بجائے ہرطرف مسلمانوں کی چیخ پکار سنائی دیتی تھی۔ بے لباس خواتین عزتیں بچانے کیلئے بھاگ رہی تھیں لیکن کہاں جاتیں، بے غیرتی کی انتہا کہ غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ بابِ دل معاہدے کے تحت شہر کی چابیاں ملکہ ازابیلا اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اپنی ذلالت و زذالت کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا جا رہا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے ابو عبداللہ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد اور امرا زرق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ان کے زرہ بکتر سونے چاندی کی لڑیوں سے چمک دمک رہے تھے پھر جب چابیاں ملکہ ازابیلا کو تھما دی گئیں تو ابو عبداللہ بابِ دل، شدت غم سے آنسو بہانے لگا، اسی موقع پر اس کی والدہ نے کہاتھا اگر بہادروں کی طرح لڑ نہیں سکتے تھے تو بزدلوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو۔پھر ہمارے سامنے سقوط مشرقی پاکستان کی حقیقت ہے جس نے اسلامی تاریخ کو گہنا دیا۔ غرناطہ کی چابیاں ابوعبداللہ نے دشمن کے حوالے کیں تو ڈھاکہ اس کے ہم نام امیر عبداللہ نے ہندوستان کے حوالے کردیا۔ وہی ہندوستان جس پر مسلمانوں نے ہزار سال حکومت کی تھی۔ ابوعبداللہ کے تو سقوط غرناطہ کے بعد آنسو بہہ نکلے تھے جنرل امیر عبداللہ نیازی کو پوری زندگی امہ کی عزت و آبرو مکار دشمن کے سامنے گروی رکھنے کا افسوس نہ ہوا بلکہ کہتے رہے کہ وہ90 ہزار فوجیوں کو زندہ سلامت نکال لایا ہوں ۔ 90 ہزار عورتوں کو بیوہ اور لاکھوں بچوں کو یتیم ہونے سے بچا لیا۔ جنرل نیازی بھارتی جنرل کو اپنا پستول پیش کر رہے تھے تو ایک بنگالی نے ان کے سر پر جوتے مارتے ہوئے کہا اگر تم میں غیرت ہوتی تو مر جاتے، اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار نہ پھینکتے۔ کاش یہ بنگالی جنرل نیازی کو گولی مار دیتا، جنرل نیازی ہتھیار پھینکنے کا جواز یہ پیش کیا کرتے تھے کہ حاکم وقت کا حکم تھا اسلام میں امیر کی اطاعت واجب ہے تاریخ میں امیر کی حکم عدولی کی مثال نہیں ملتی۔ نیازی صاحب کی شاید ان کے حوصلے کی طرح تاریخ بھی کمزور تھی۔
جنرل انامی کورے چیکا جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے جاپان کو ایک اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے رکھی تھی، بادشاہ نے جرنیلوں کی جنگ جاری رکھنے کی تجویر سے اتفاق نہ کیا اور اپنے طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اپنے کزن سے اس موقع پر کہا ’’ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے‘‘۔۔۔ 14 اگست 1945ء کو انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن جو کچھ اس کے بعد انامی نے کیا نیازی وہ نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز جنرل انامی نے خودکشی کر لی۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے باوقار موت کا انتخاب کیا۔ کاش جنرل نیازی ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے۔


Wednesday, December 15, 2010

انرجی ۔۔ وسائل کی کمی نہیں پھر گڑ بڑ کہاں؟

15-12-10
فضل حسین اعوان ـ 20 گھنٹے 37 منٹ پہلے شائع کی گئی
پاکستان وسائل اور پاکستانی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ وسائل مثبت سوچ اور دیانتداری سے بروئے کار لائے جائیں‘ صلاحیتوں کا راست سمت میں استعمال کیا جائے تو پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی صف میں جگہ بنا سکتا ہے۔ جب ہم اپنے بل بوتے پر‘ نہ صرف کسی بیرونی امداد کے بغیر بلکہ دنیا کے چودھریوں اور تھانیداروں کی بھرپور مخالفت کے باوجود ایٹم بنا سکتے ہیں تو ایٹم بم بنانے سے زیادہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آج دنیا اوج ثریا ہم پتھر کے دور کی طرف رواں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وسائل کا مثبت استعمال نہیں ہوتا‘ قوم کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے۔ بے پایاں وسائل کے باوجود مسائل میں گھرے رہنے کی تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جن کی وسائل پر دسترس ہے۔ 
آج ہمیں انرجی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بجلی اور گیس کی ضرورت کے مطابق فراہمی نہ ہونے کے باعث بہت سے کاروبار ٹھپ ہوئے۔ جس سے کاروباری طبقہ شدید متاثر ہے اسی کے سبب بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔ دونوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ بدامنی بھی کافی حد تک اسی کے سبب ہے۔ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی گیس اور گرمیوں کے شروع ہوتے ہی بجلی غائب ہونے لگتی ہے۔ آج کل تو گرمیوں اور سردیوں کا فرق بھی مٹ گیا دونوں ہر سیزن اور موسم میں غائب‘ نام لوڈشیڈنگ کا دیا گیا ہے جس کا کوئی شیڈول نہیں۔ صدر اور وزیراعظم دوسرے ممالک جا کر اور دوسرے ممالک کے حکام کو پاکستان بلا کر ان سے ایکسپورٹ کے معاہدے کرتے ہیں۔ ان بھلے لوگوں سے کوئی پوچھے کہ آپ کیا مٹی کے برتن ایکسپورٹ کریں گے؟ انڈسٹری انرجی کی کمی کے باعث بند پڑی ہے۔ کل تک پنجاب میں صنعتوں کی ہفتے میں تین دن گیس بند رہتی تھی جس پر صنعتکار اور مزدور احتجاج‘ اعتراض‘ واویلا اور شور شرابہ کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف پورا ہفتہ گیس بند کرنے کا اعلان کرکے اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ نہ ملے گیس نہ رہے زندگی‘ شور شرابے کا اچھا علاج سوچا۔ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ گیس کے بجائے تیل استعمال کیا جائے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ گیس کی سپلائی عارضی طور پر بند کی گئی ہے۔ کینسر زدہ نیت اور یرقان آلود ذہنیت رکھنے والوںکو کوئی بتائے کہ جو آلات اور مشینری گیس سے چلتی وہ تیل اور بجلی پرنہیں چل سکتی۔ چھوٹی سی مثال گھروں میں چلنے والے گیس کے چولہے ہیں۔ یہ چولہے تیل سے جل سکتے ہیں نہ بجلی پر چل سکتے ہیں۔ متبادل کے طور پر سٹوو یا ہیٹر لگانا پڑے گا۔ صنعتوں میں جو سسٹم گیس پر ہے تیل پر لانے کیلئے کئی دن چاہئیں۔ جب تک سسٹم تبدیل ہو تو کوئی بعید نہیں کہ گیس کی عارضی بندش ختم کر دی جائے اور ہو سکتا دماغ کے بجائے معدے سے سوچنے والوں کی اعلیٰ حکمت عملی سے تیل کی قلت مسلط ہو چکی ہو۔ جن کے قبضہ میں وسائل ہیں ان کی پلاننگ اور منصوبہ بندی سے یہ بھی ہوا کہ سی این جی بند اور پٹرول بھی نہیں مل رہا۔ لوگ گاڑیوں کو دھکے لگاتے رہتے ہیں۔ سی این جی سٹیشنوں کی بندش کا شیڈول ساون بھادوں کی برسات کی طرح بدلتا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کے کرتا دھرتاؤں کو رات بارہ ایک بجے بھی کوئی خیال آتا ہے اور یاد ستاتی ہے تو اسی وقت اگلے دن سی این جی سٹیشن بند کرنے کا شیڈول جاری فرما دیا جاتا ہے۔ کوئی اخبار میں خبر نہ ٹی وی چینلز پر اطلاع۔ گاڑی اور رکشے والے کو سٹیشن کے گرد کھڑی رکاوٹوں سے دن بھر کی خجل خواری کا نوٹس ملتا ہے… پاکستان میں بلا مبالغہ روزانہ اخبارات جرائد ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر اربوں روپے کے اشتہارات چلتے ہیں جس میں زیادہ تر اشتہاری پارٹیاں اپنی مصنوعات فروخت کیلئے بڑے دلکش انداز میں پیش کرتی ہیں۔ مسابقتی دور میں دوسروں سے بڑھ کر پیشکش ہوتی ہے۔ زیادہ خریداری پر رعایت بھی‘ جو کچھ یہ فروخت کرتے ہیں ان کی کبھی قلت نہیں ہوتی۔ ملک میں اگر قلت ہوتی ہے تو ان اشیاء کی جن پر حکومت کا کنٹرول ہے۔ آٹا‘ چینی‘ گھی‘ گیس اور بجلی وغیرہ۔ گیس اور بجلی والے بھی اپنی مشہوری دیتے ہیں لیکن کم استعمال کرنے کی۔ جو زیادہ استعمال کرے اس پر جرمانہ ‘ فی یونٹ 200 فیصد تک اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ گیس اور بجلی جہاں سے بھی آئے ضرورت کے مطابق فراہمی حکومت کا فرض ہے گیس اور بجلی پیدا کرنے کے ذرائع لامحدود ہیں۔ نیت صاف ہو تو سب کچھ ممکن ہے ایک طرف نیت صاف نہیں دوسری طرف جن کا کھاتے ہیں ان کا ڈر۔ ایران ہمسایہ ہے اس کی گیس و بجلی کی فراہمی کی پیشکش پر غور ترک کر دیا ترکمانستان سے افغانستان کے راستے گیس پاکستان آئے گی اور پاکستان سے بھارت جائے گی۔ افغان حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کیلئے طالبان دور کے سوا کبھی خیر کی خبر نہیں آئی‘ گیس خیر سے آجائے تو بڑی بات ہے۔ پاکستان کے اندر سے بھارت کو گیس کی سپلائی کیلئے بچھائی گئی لائن سلامت رہے تو اس سے بھی بڑی بات۔ کل امریکی فوج کے منصوبے ٹھپ اورکرزئی صاحب کھپ گئے تو گیس منصوبے کا کیا بنے گا؟ اس پر دھیان نہیں۔ امریکہ نے سدا افغانستان میں نہیں رہنا ایران قیامت تک پاکستان کا ہمسایہ رہے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو اس ناقابل تردید حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے جب تک اپنے وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جاتا۔ بجلی و گیس کے حصول کیلئے ایران کی پیشکش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ایران کی پیشکش سے اگر فائدہ اٹھایا جاتا ہے تو گیس اور بجلی کی جلد دستیابی ممکن ہے۔ ایران کی سائیڈ پر انتظامات مکمل ہیں ہماری طرف سے ہی دیر ہو رہی ہے۔ اگر ہمارے راجے مہاراجے نیک نیتی کے ساتھ ایران کے خلوص کا جواب خلوص سے دیں تو بھی بجلی اور گیس ہوا کے دوش پر نہیں پہنچ جائے گی۔ کچھ تو عرصہ لگے گا۔ اس عرصہ کیلئے ضروری ہے کہ گیس کی فراہمی کی ترجیحات مقرر کی جائیں۔ پہلی ترجیح انڈسٹری ہونی چاہئے۔ ڈومیسٹک لوڈشیڈنگ کا آغاز وزیراعظم ہاؤس ایوان صدر‘ گیس کے وزیر ایم ڈی اور ان کے نائبین کے گھروں سے ہونا چاہئے۔ ایسا ہو تو یقیناً حکام کے دماغ درست نیت صاف اور گیس کی فراہمی کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی راہ ہموار ہو گی۔ پھر سردیوں میں قوم کو رلانے والے گرمیوں میں ٹھنڈے اے سی والے کمرے میں سونے کے بجائے دھرتی کا سینہ چیر کر ضرورت کے مطابق گیس نکالنے کی اپنی سی کوشش کریں گے۔


Tuesday, December 14, 2010

اساتذہ بھی غور فرمائیں

منگل ، 14 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
ہم چاہتے ہیں استاد قوم کا معمار ہو، قوم کے مستقبل کی مثبت سوچ اور راست سمت کا تعین کرے۔ ہم بطور معاشرہ استاد کا استحصال کر کے اس سے کمال کی توقع رکھتے ہیں، استحصال ہو تو زوال کے خدشات سے آنکھیں نہیں چرانا چاہئیں۔ استاد کا احتساب ضرور ہونا چاہئے لیکن پہلے اسے مطمئن کیا جائے اس کے مسائل حل کئے جائیں اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے۔ پی ٹی سی ٹیچر سے لے کر پروفیسرز تک اساتذہ کے تحفظات ہیں۔ کہیں کنٹریکٹ کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے تو کہیں پروموشن بھٹک رہی ہے۔ یونیورسٹی، کالج اساتذہ کی تعلیم اور کوالیفکیشن یکساں، یونیورسٹی ٹیچر کو گریڈ 18 کالج کے استاد کو گریڈ 17 دیا جاتا ہے۔ اس سے ذرا کم سطح پر بھی یہی ناانصافی۔ اور پھر نچلی سطح تک استاد سے زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔ سفارش اقربا پروری سے میرٹ، ڈی میرٹ اور ڈی میرٹ، میرٹ بن جاتا۔ فوج اور پولیس کی تنخواہ دوگنا کر دی گئی، ججوں کی تین گنا، باقی چونکہ بے ضرر اس لئے صرفِ نظر۔ حکومت چونکہ لاتعلق اس لئے اساتذہ ہی نہیں پورا تعلیمی سسٹم معلق۔ ملک میں بہت سے ادارے لاوارث، ان میں شعبہ تعلیم بھی شامل ہے۔ 
تعلیمی انحطاط کے جہاں اس کے کرتا دھرتا ذمہ دار ہیں وہیں اساتذہ کا بھی کردار ہے۔ آئیڈیل اساتذہ کتنے ہونگے؟ دس فیصد یا پندرہ فیصد؟ اگر کسی کو خوش گمانی ہو تو فیصد میں مرضی سے اضافہ کر لے۔ ہمارے گائوں کے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض سکولوں میں ہیڈ ماسٹر مہینے بعد جاتے ہیں یہ لاہورئیے اب مہینے بعد بھی نہیں جاتے۔ لاہور سے 100 کلومیٹر دور سکول کی گاڑی بغیر ڈرائیور کے چل رہی ہے۔ بغیر کیپٹن کے ٹیم کیسے کھیلے گی تو ڈسپلن کی کیا حالت ہو گی؟ اس کا اندازہ کر لیجئے۔ یہ صورتحال ایک ادارے کی نہیں ہر تیسرے تعلیمی ادارے کی ہے۔ شہروں کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔ یہاں اساتذہ کی حاضری سو فیصد ہے، حاضری لگانے کی حد تک۔ حاضری کے وقت استاد سکول کالج اور یونیورسٹی میں ملیں گے پھر ایک ایک کر کے نکلتے چلے جاتے ہیں۔ حاضری واجب، کلاسیں نہ لینا فرض، اکیڈیمیوں کی نوکری فرض عین۔ اکیڈیمیوں میں پڑھانے کے لئے پوری صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں صرف دل بہلاتے ہیں۔ سکول کالج یونیورسٹی میں گپ شپ چائے کے دور چلتے۔ اکیڈیمیوں میں پڑھانے کی تیاری کی جاتی ہے۔ یہی استاد اکیڈیمی میں ٹیسٹ لے کر گھر یا تعلیمی اداروں میں بیٹھ کر مارکنگ کر کے اگلے دن طلبا و طالبات کو شیٹ واپس کرتے ہیں اس لئے کہ مراعات بے شمار اور جوابدہی کا بھی ڈر۔ ایسا سرکاری اداروں میں نہیں کیا جاتا۔ اس لئے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سکول کالج میں ایک دو پیریڈ پڑھانے سے جان جاتی ہے۔ اکیڈیمی میں بخوشی پانچ پانچ چھ چھ پیریڈ لیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے استاد کالم لکھتے ہیں، شاعری کرتے ہیں، ٹی وی پر مذاکروں اور مباحثوں میں بیٹھے ہوتے ہیں کتاب پہ کتاب مارکیٹ میں آ رہی ہے۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں سے آ گیا؟ ریٹائرمنٹ کے بعد جو چاہیں کریں۔ نوکری کے دوران ایسا کرنا طلبا کا حق مارنا ہے۔ بات عمومی رویے کی ہو رہی ہے سب استاد ایک جیسے نہیں ایماندار اور دیانتدار بھی ہیں ان کی تعداد کتنی ہے والدین اور عام آدمی کو پتہ ہے جن کو نہیں پتہ وہ گلی گلی کھلی اکیڈیمیوں کی تعداد سے اندازہ کر لیں۔ اب تو ٹیوشن کی وبا دیہات میں بھی پھیل گئی ہے۔ ٹیوشن کلچر اور اکیڈیمی مافیا سے دردِ دل رکھنے والے اساتذہ بھی دلبرداشتہ ہیں وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تاہم اپنے حصے کا کردار ادا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جس استاد کو جہاں چاہتی ہے حکومت لگا دیتی ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبات کے کالج میں تعینات ہونے والے دیانتدار استاد کی حالت دیدنی ہے جب اس کے سامنے گھگو قسم کے سٹوڈنٹ بٹھا دئیے جاتے ہیں۔ میٹرک، ایف ایس سی کے بعد میرٹ بنتا ہے ٹاپ والے طلبا بڑے شہروں کے بڑے تعلیمی اداروں میں لے لئے جاتے ہیں، جو بچ جائیں نسبتاً کم میرٹ والے کالجوں میں ایک آدھ سپلی اور مر کر پاس ہونیوالے نواحی علاقوں کے کالجز میں۔ پھر یہاں استاد کیا کرے؟ پورا زور بھی لگا لے تو بڑے کالجوں کے مطابق رزلٹ نہیں دے سکتا۔ 
استاد کے پاس حکومت کی طرف سے نظرانداز کئے جانے پر زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے ٹیوشن پڑھانے کا جواز ہے لیکن اپنے فرائض میں غفلت کوتاہی کا کوئی جواب نہیں۔ مراعات لے کر جانفشانی دکھانے کی سوچ کو مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پہلے اپنا ڈسپلن بہتر بنائیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے بڑھ کر رزلٹ دیں تو حکومت خود ان پر نوازشات کے لئے سوچنے پر مجبور ہو گی۔

Monday, December 13, 2010

کرپشن کی سزا موت


 : پیر ، 13 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
کوئی بھی ملک معیشت، معاشرت، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری اور باقی دنیا سے بے نیازی کا دعویٰ اور مظاہرہ نہیں کر سکتا، حتیٰ کہ سپر پاور امریکہ بھی نہیں۔ امریکہ کا جدید اسلحہ سازی میں ایک مقام ہے اس کے باوجود امریکہ نے گزشتہ سال کروشیا سے پہلے مرحلے میں 19 ہزار روسی ساختہ اے کے 47 کلاشنکوفیں خریدنے کا معاہدہ کیا۔ افغانستان میں امریکی فوجی ایم 16 رائفل استعمال کرتے ہیں جو معمولی سی ریت پڑنے پر کام چھوڑ دیتی ہیں جبکہ اس علاقے میں کئی دہائیوں سے کلاشنکوف کی بہترین کارکردگی چلی آ رہی ہے۔
کروشیا وسطی یورپ کا چھوٹا سا ملک ہے جہاں جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق بغیر کسی آلائش اور منافقت کے رائج ہے۔ جہاں ایو سنیڈر 2003ء سے 2009ء تک وزیراعظم رہے۔ انہیں جولائی 2009ء میں کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ دینا پڑا۔ ان الزامات میں کسی دوسرے ملک میں غیر قانونی اکاؤنٹ کھولنے کا الزام فرانس برطانیہ یا کسی اور ملک میں جائیدادیں بنانے، کاروبار چلانے یا محلات تعمیر کرانے کا، کروڑوں وصول کر کے عہدے بانٹنے کا نہ رینٹل پاور پلانٹس سے اربوں کا کمشن مارنے کا۔ ان پر اپنے دور میں پارٹی کے لئے فنڈز جمع کرنے کا الزام تھا جسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ کرپشن کے الزام پر ایو سنیڈر وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوئے تو ان کو کروشین ڈیموکریٹ اتحاد نے پارٹی سے بھی نکال دیا۔ 9 دسمبر کو سرکاری پراسیکیوٹر نے پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا استثنیٰ ختم کرنے کی درخواست کی، اس پر تمام 104 پارلیمنٹرین نے متفقہ فیصلہ دیا۔ وزیراعظم کا استثنیٰ ختم ہوا تو کروشیا حکومت کی طرف سے سابق وزیراعظم ایو سنیڈر کے عالمی گرفتاری وارنٹ جاری کر دیے گئے۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح ایو سنیڈرکی بھی دوسرے ملک کی شہریت اور وہاں کاروبار تھا۔ استثنیٰ ختم ہوتے ہی وہ آسٹریا چلے گئے جہاں بھی جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ آسٹریا میں عالمی وارنٹ گرفتاری کی اطلاع پہنچی تو ایو سنیڈر کو گرفتار کر لیا گیا۔ آسٹریا کی وزارتِ انصاف نے کروشیا حکومت کو گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے اپنا ملزم لے جانے کو کہا ہے۔ استثنیٰ کا خاتمہ، وارنٹ کا اجراء اور گرفتاری یہ تمام عمل صرف 48 گھنٹے میں مکمل ہو گیا۔
ہمارے ملک میں تمام تر مسائل، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بہت سی اشیاء کی قلت، ذخیرہ اندوزی، تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی، رشوت، چوری ڈکیتی اور رہزنی کی ایک ہی وجہ کرپشن ہے۔ ایک طرف غربت و افلاس کی وجہ سے سسکتی انسانیت دوسری طرف لوٹ مار سے دولت کے انبار، بے حد و بے حساب، غریب کے خون پسینے کی کمائی سے چمکتی لشکتی لاکھوں کروڑوں روپے کی گاڑیاں اربوں روپے سے تعمیر شدہ محلات و ماڑیاں۔ پاکستان میں ایک صرف کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو ملک خوشحال، معاشرہ نہال اور تمام تر قرضوں سے نجات اور خلاصی ہو سکتی ہے۔ کرپشن زیادہ سے زیادہ کی سزا بھی 14 سال ہے اس پر بھی کہیں عمل ہوتا ہے کہیں نہیں، عموماً پولیس کا سپاہی اور محکمہ مال کا پٹواری پکڑا جاتا ہے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کھربوں روپے کی لوٹ مار کرنے والے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر پکڑے جائیں تو پکڑنے والے سے چھڑانے والے زیادہ طاقتور ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اعجاز چودھری نے کرپشن کا حل سزائے موت تجویز کیا ہے۔ اس کے لئے نیب کو پارلیمنٹ سے قانون سازی کی درخواست کرنا پڑے گی جس طرح کروشیا کے پراسیکیوٹر نے پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا استثنیٰ واپس لینے کی درخواست کی تھی۔ پاکستان میں گو کم ہی سہی بااصول اور باضمیر پارلیمنٹرین موجود ہیں۔ کرپشن پر سزائے موت کا بل آیا تو کرپٹ اور حرام خوروں کے لئے بھی اس کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ قانون منظور ہونے کی صورت میں پرانی کرپشن کی ریکوری کی صورت میں جاں بخشی کر دی جائے۔ قانون سازی کے بعد کرپشن کرنے والے کو لٹکایا جائے۔ معاملہ اوپر سے شروع کر کے نیچے تک لایا جائے۔ اب اس سوال کی ضرورت نہیں کہ قانون پر عمل کون کرائے گا۔ آج عدلیہ آزاد بھی ہے اور فعال بھی، غیر جانبدارانہ اور جرأت مندانہ فیصلے کر سکتی ہے تو ان پر عمل بھی کرا سکتی ہے۔

ایک باڑ گرانے، دوسری لگانے کی ضرورت

فضل حسین اعوان 10-12-12
ایک پیسٹی سائیڈ ملٹی نیشنل کمپنی کے پاکستانی ورکر قصور کے نواح میں فصلوں کا جائزہ لیتے ہوئے کسانوں کو مشورے دے رہے تھے۔ سامنے خاردار تاروں کی باڑ نظر آئی تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان بھارت سرحد ہے۔ دونوں نوجوان پہلی بار بارڈر کے نزدیک آئے تھے۔ اشتیاق ہوا کہ پاکستان بھارت بارڈر کو قریب سے دیکھا جائے۔ باڑ کے ساتھ دو کسان بھینسیں اور گائیں چرا رہے تھے۔ پیسٹی سائیڈ کمپنی کے ملازم ان کی طرف قدم بڑھاتے چلے گئے۔ دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ واپس جا کر گاﺅں میں والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں کو کہانیاں سنائیں گے کہ بارڈر پر کھڑے ہو کر ہندوستان دیکھا۔ بارڈر‘ باڑ‘ اور ہندوستان کیسا لگا سب بتائیں گے۔ چند منٹ میں باڑ کے چند گز فاصلے پر پہنچے تو مویشی چراتے کسانوں سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ کسانوں کے ہاتھ کی گرفت معمول سے زیادہ مضبوط اور سخت تھی۔ ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ہوئے ہی ایک کسان نے کہا
I am inspector Sharma of Indian BSF both of you are under arrest
یہ سنتے ہی پاکستانی نوجوانوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اس کے بعد اگلا سوال تھا ”تم یہاں کیا لینے آئے ہو اور کس نے بھیجا ہے؟ نوجوان اپنی صفائی میں جو کچھ کہہ سکتے تھے کہا، بی ایس ایف والوں نے ماننا تھا نہ مانے۔ نوجوانوں کے لئے پریشانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ باڑ کے دوسری طرف انڈیا ہے۔ انڈین بی ایس ایف کا ادھر کیا کام؟ بہرحال تلخ حقیقت یہی تھی کہ دونوں پاکستانی بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کی حراست میں تھے۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ وزٹ ویزے پر گئے پاکستانی بھارت سے صحیح سلامت واپس نہیں آتے، ان پر تو انسپکٹر شرما نے جاسوسی کا الزام بھی لگا دیا تھا۔ ہاتھ چھڑا کر دونوں نوجوان کوشش کرتے تو بھاگ سکتے تھے لیکن ان کو چیک پوسٹ پر بیٹھے بھارتی فوجیوں کی ان کا نشانہ لئے ہوئے گنیں نظر آ رہی تھیں۔ جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔ اسی کشمکش میں دور سے ایک نوجوان ان کی طرف بھاگتا ہوا نظر آیا۔ نزدیک آ کر اس نے رینجرز کے حوالدار کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ نوجوانوں سے ان کی آپ بیتی سنی، جو اسے یہ بے قصور نظر آئے۔ بی ایس ایف والوں سے ان کو چھوڑنے کی درخواست کی۔ وہ کچھ سننے اور ماننے پر تیار نہ تھے۔ ان کو یقین دلایا اور جنٹل مین پرامز کیا کہ ہماری انوسٹی گیشن میں یہ قصور وار نکلے تو آپ کے حوالے کر دیں گے۔ بڑی مشکل سے بی ایس ایف والے مانے۔ آدھے گھنٹے بعد ان کے ہاتھوں سے گرفت ڈھیلی کی اور رینجرز کے حوالدار کے حوالے کر دیا۔ رینجرز نے مکمل انوسٹی گیشن کے بعد، ان کے فون نمبرز اور ایڈریس لے کر دونوں کو چھوڑ دیا۔پاکستان کی چین کے ساتھ سرحد کی لمبائی 592‘ ایران کے ساتھ 805‘ افغانستان کے ساتھ 2252 اور بھارت کے ساتھ 1600 کلومیٹر ہے۔ بھارت نے سرحد پر اپنی طرف خاردار تاروں کی باڑ لگا کر جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر لی ہیں اور چپے چپے پر لائٹیں لگا دی ہیں۔ ہماری طرف سرحد پر رینجرز تعینات ہے جس کی فاصلے فاصلے پر چوکیاں ہیں۔ بھارت نے باڑ لگاتے ہوئے پاکستان کی طرف دو ایکڑ جگہ چھوڑی ہوئی ہے جہاں بھارتی کسان بی ایس ایف کی نگرانی میں ہل چلاتے پانی لگاتے کاشت کاری کرتے اور بھینس گائے بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ پاکستان کی طرف ایک کتا اور بلی بھی باڑ کراس کرکے بھارت کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بھارتی ایجنسیاں مکمل طور پر آزاد ہیں کہ 1600 کلومیٹر کے علاقے میں جہاں سے چاہیں باڑ کے پار آ کر اپنے رقبے میں جو چاہیں کریں۔ وہ کر بھی رہے ہیں۔ بارڈر پار شراب، اسلحہ اور دہشت گرد پہنچا دینا بی ایس ایف، بھارتی فوج اور را کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ادھر پاکستان کی طرف سرحد پر بیٹھے سارے کسان اور کاشتکار ایمان کے پکے اور قول کے سچے نہیں۔ بھارت کو صرف تین چار فیصد بھی اپنے مطلب کے لوگ مل جائیں تو پورا پاکستان بارود کا ڈھیر بن سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو رہا ہے۔ پاک فوج نے کبھی دفاع پر کمپرومائز کیا نہ قوم نے دفاعی معاملات میں کبھی کنجوسی کی۔
پھر پاکستان کی طرف سے بارڈر غیر محفوظ کیوں؟ جس کے باعث پورا وطن دشمن کے نشانے پر ہے۔ بھارت آبادی، رقبے، فوج اور اسلحہ کے حوالے سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے اوپر سے عیار اور مکار بھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کےلئے تو ہماری طرف سے کئی گنا زیادہ انتظام اور اہتمام کی ضرورت ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے ہم اس سے کئی گنا پیچھے ہیں۔ اب اس کا ازالہ کیا جائے۔ آج جہاں آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بھارت کی طرف سے لگائی گئی باڑ گرانے‘ وہیں پاک بھارت سرحد پر اپنی طرف باڑ لگانے کی ضرورت ہے۔ قوم آر جی ایس ٹی کے نام پر ایک پیسہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ سب بڑے پیٹوں میں چلا جائے گا۔ فوج عوام سے باڑ لگانے کیلئے فنڈز کیلئے کہے تو یقین کیجئے مرد و زن نوٹوں اور زیورات کے ڈھیر لگا دیں گے۔ اس نہ صرف پاکستان بھارت 
سرحد پر باڑ لگائی جا سکی بلکہ ڈیورنڈ لائن کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا۔