پیر ، 20 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی پارٹی حکومت میں ہوتی ہے یا اپوزیشن میں، سوائے مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے۔ مولانا کی پارٹی حکومت میں ہوتی ہے یا حکومت سے باہر اپوزیشن میں نہیں۔ حکومت سے باہر ہو کر بھی وہ آدھی حکومت میں ہی رہتی ہے۔ 14 دسمبر کو مولانا نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا لیکن یہ جزوی علیحدگی ہے۔ اعظم سواتی کو وزیراعظم نے نکالا تو مولانا نے بردار خورد عطاالرحمن اور رحمت اللہ کاکڑ سے خود استعفیٰ دلوا دیا۔ مولانا نے حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کو حتمی قرار دیا ہے۔ گیلانی نے مولانا کے وزیر اور اپنے شہر کے مولانا وزیر کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تو رات کو یہ خبر لیک ہوتے ہوتے مولانا فضل الرحمن تک پہنچ گئی۔ مولانا نے گیلانی صاحب کو فون کیا تو ان کے پاس فون سُننے کا وقت تھا نہ دو دن تک ملاقات کا۔ اگلے روز وزیراعظم نے اعظم سواتی کی برطرفی کا نہلا پھینکا تو مولانا نے حکومت سے علیحدگی کا دہلا دے مارا۔ اس کے بعد قیوم سومرو منانے گئے تو مولانا نے ببانگِ دہل فرما دیا علیحدگی کا فیصلہ حتمی ہے۔ خورشید شاہ اور رحمن ملک کو بھی یہی جواب دیا۔ اب گیلانی ملاقات کے لئے بے چین ہیں۔ زرداری اور گیلانی فون پر بات کے لئے بھی بے چین و بے قرار رہے۔ گزشتہ رات زرداری صاحب نے چینی وزیراعظم کے عشائیے کے بعد مولانا کو گھیر لیا تاہم گیلانی صاحب کی طرف سے فون نہ سُننے کاغصہ ابھی موجود ہے۔
مولانا جس طرح علیحدگی کے فیصلے پر جمے ہوئے ہیں اس سے بھی زیادہ عزم کے ساتھ کشمیر کمیٹی کے بدستور چیئرمین بھی ہیں۔ بلوچستان میں حکومت سے الگ ہوئے نہ گلگت بلتستان سے۔ مولانا شیرانی بھی اسلامی نظریہ کونسل کی سربراہی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو پاکستانی سیاست کا کامیاب ترین کردار قرار دیا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کی 25، اے این پی کی 13 سیٹیں ہیں۔ مولانا کے پاس صرف 7 ہیں ان کے پاس تین مکمل وزارتیں، کشمیر کمیٹی اور اسلامی نظریہ کونسل کی چیئرمین شپ بھی ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کی مجموعی وزارتوں کی تعداد بھی مولانا کو تفویض کردہ وزارتوں سے زیادہ ہیں۔
مولانا نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تو میڈیا اور سیاست میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ چند ایک ٹی وی چینلز کے اینکرز اپنی اپنی خواہش کو حقیقت میں ڈھلتا دیکھ رہے تھے ایک کے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی اسے چند گھنٹوں میں حکومت کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی حسرت تھی کہ جے یو آئی (ف) کی طرح ایم کیو ایم بھی حکومتی اتحاد سے الگ ہو جائے گی، ایسا ہوا تو حکومت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے گی۔ موجودہ حکومت اپنی تمام تر ناپسندیدہ اور عوام دشمن پالیسیوں کے باوجود پانچ سال پورے کرتی نظر آ رہی ہے۔ جے یو آئی اور ایم کیو ایم نے سیاست میں کسی چیز کو کبھی حرفِ آخر سمجھا اور نہ کسی کے لئے اپنے دروازے کبھی بند کئے۔ مولانا فضل الرحمن حکومت سے الگ ہونے کو حتمی فیصلہ قرار دیتے ہیں ان کے نائب مولانا عبدالغفور حیدری نے باور کرا دیا ہے کہ مولانا کا کہا اس وقت کی مانند نہیں جو جا کر واپس نہ آ سکے۔ مولانا حیدری کا فرمان ہے کہ ان کی پارٹی حکومت میں واپس آ سکتی ہے اگر اعظم سواتی کو واپس ان کے عہدے پر تعینات کرتے ہوئے معذرت کی جائے۔ عطاالرحمن اور کاکڑ کے استعفے واپس لئے جائیں اور مزید مذہبی امور کی وزارت بھی جے یو آئی کے سپرد کر دی جائے۔ آخری مطالبے سے مولانا حامد سعید کاظمی کا واویلا یاد آ جاتا ہے کہ سب کچھ ان کی وزارت ہتھیانے کے لئے ہو رہا ہے۔
آج اِن ہاؤس تبدیلی کی بات ہو رہی ہے، مولانا فضل الرحمن کا شوق بھی یہی ہے تاہم اس کا سرے سے امکان ہی نہیں۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی حکومت سے الگ ہو جائیں تو بلاشبہ حکومت کی اکثریت ختم ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں صدر وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ سکتے ہیں یا اپوزیشن پارٹیاں عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہیں۔ زرداری اپنے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کو نہیں کہیں گے، عدم اعتماد کون لائے گا۔ ایم کیو ایم، جے یو آئی۔ ن لیگ حکومت گرانے کے عمل میں شامل نہ ہونے کا عزم ظاہر کر چکی ہے۔ اگر ن لیگ کو وزارت عظمیٰ کا جھانسہ دیکر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وکی لیکس کے بقول جنرل کیانی کے نواز شریف کے بارے میں ریمارکس سامنے ہیں۔ ن لیگ وزارت عظمیٰ کے لالچ میں صوبے کی حکومت سے بھی ہاتھ دھونا قطعاً پسند نہیں کرے گی۔ فرض کریں ن لیگ یا کوئی بھی پارٹی اِن ہاؤس تبدیلی کی صورت میں حکومت بناتی ہے تو اس کا مکمل انحصار اتحادیوں پر ہو گا۔ آج پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے جو چاند چڑھا رکھا ہے یہ ایک نیزے پر ہے تو نئے آنے والے اسے سوا یا ڈیڑھ نیزے تک لے جائیں گے۔ مڈٹرم الیکشن پر بھی یہی فارمولا صادق آتا ہے اور پھر حکومت سے جانے والے نئے آنے والوں کو کیسے معاملات چلانے دیں گے۔ ہماری سیاست ایک بار پھر 80 اور 90 کی دہائی کے نفرت آگیں دور میں لوٹ جائے گی۔ یہ سب تو ہم نے فرض کیا تھا۔ اصل میں یہ سب چائے کی پیالی میں طوفان اور احمقوں کی خواب میں جنت کی سیر ہے۔ حقیقت یہ ہے اگلے سوا دو سال میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی، سب یونہی چلے گا۔ البتہ کوئی آفت آ جائے یا قیامت ٹوٹ پڑے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
No comments:
Post a Comment