فضل حسین اعوان ـ110-12-1
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد پانچ ہے۔ امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس، ان ممالک میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ تمام کے تمام ترقی یافتہ اور ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ بھارت بھی اس کلب میں شامل ہونے کیلئے پَر تول رہا ہے۔ اسکے سفارتکار عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ برطانیہ، امریکہ اور چین نے واضح طور پر بھارت کی حمایت کردی ہے۔ روس اور فرانس کے ساتھ بھارت کے نہ صرف عام دفاعی معاہدے ہیں بلکہ یہ ممالک بھارت کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی دے رہے ہیں۔ روس اور فرانس کے پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے زیادہ قریبی تعلقات ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی بات ہوگی تو یہ ممالک بھی بھارت کے حامی ہونگے لیکن یہ مستقل رکن ممالک کا استحقاق اور اختیار نہیں ہے کہ جس کو چاہے رکن بنالے۔ اگر ایسا ہوتا تو امریکہ جاپان کو کب کا مستقل رکن بنا چکا ہوتا جس کا امریکہ نے جاپان سے وعدہ کیا تھا۔ مستقل رکنیت کے حوالے سے بات آگے بڑھے گی تو امیدواروں میں جنوبی افریقہ، پاکستان، برازیل، آسٹریلیا، جرمنی اور جاپان بھی شامل ہونگے۔
بھارت اپنے حامی ممالک کو ساتھ لیکر مستقل رکنیت کے حصول کیلئے بھرپور مہم چلا رہا ہے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانا ہندو بنئے کی فطرت اور سرشت میں شامل ہے۔ مسئلہ کشمیر اور حالیہ ممبئی دھماکوں کے حوالے سے اس نے ایسا کر بھی دکھایا ہے۔ رکنیت کے حصول کیلئے بھی وہ عالمی برادری کی آنکھوں میں مٹی ڈال رہا ہے۔ سرسری نظر سے بھی دیکھا جائے تو بھارت رکنیت کا قطعاً اہل نہیں ہے۔ اسکے پاس رکنیت کا جواز یہ ہے کہ وہ ایٹمی طاقت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جبکہ اس جواز کے جواب میں بہت سے جواز موجود ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ اندرونی خلفشار اور انتشار کا شکار یہی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا داعی بھارت ہے۔ اسکے اندر آزادی اور خودمختاری کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں۔ بعض ریاستوں میں الگ کرنسی تک بھی رائج ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھارت میں ہوتی ہے۔ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے احترام کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 62 سال سے کشمیر پر اسکی قراردادوں پر عملدرآمد سے انکاری ہے۔ وادی کشمیر جس پر جارحانہ قبضہ کرکے بھارت نے اسے اپنے آئین میں صوبے کی حیثیت دے رکھی ہے جہاں تحریک آزادی کو دبانے کیلئے سات لاکھ فوجی دندناتے پھرتے ہیں۔ بچوں اور بوڑھوں تک کو قتل کیا جاتا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی معمول بن چکا ہے۔ قتل و غارت اور انسانیت کی پامالی کا سلسلہ 63 سال سے جاری ہے۔ بھارت کے اپنے ایک بھی پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تو کیا اچھے تعلقات بھی نہیں ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ تو باقاعدہ جنگیں کرچکا ہے۔ بنگلہ دیش کو غیرمستحکم کرنے کیلئے ’’را‘‘ سرگرداں رہتی ہے۔ سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ اس سے نالاں ہیں۔
بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے کی بات ہوگی تو ساتھ پاکستان کی بھی ہوگی۔ کچھ اسلامی ممالک پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے باعث چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جائے لیکن یہ گواہ چست مدعی سست والی بات ہے۔ بھارت جس طرح سے مستقل نشست حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ پاکستان کی طرف سے نہ صرف خود مستقل نشست کے حصول کی کوشش اور خواہش نظر نہیں آتی بلکہ بھارت کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ جن سفارتکاروں کو چاہئے تھا کہ وہ بھارت کے حالات، اندرونی انتشار، اقلیتوں سے سلوک، انسانی حقوق کی پامالی، پڑوسی ممالک کے ساتھ جارحانہ رویہ اور دیگر عوامل عالمی برادری کے سامنے رکھتے، وہ بھارت کے سفارتکاروں سے دوستی نبھا رہے ہیں جس کی ایک مثال اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر حسین ہارون کی طرف سے بھارت کو سلامتی کونسل کی عارضی نشست کی حمایت میں ووٹ دینا ہے۔ اس پر حکومت پاکستان کی طرف سے حسین ہارون سے بازپرس ہوئی نہ سرزنش نہ کوئی ایکشن لیا گیا۔ اگر حسین ہارون نے ووٹ حکومت کے کہنے پر دیا تو سمجھ لیجئے کہ بھارت مستقل رکنیت حاصل کرلیتا ہے تو اس میں ہمارے حکمرانوں کا بھی حصہ ہوگا۔
No comments:
Post a Comment