منگل ، 21 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
چین کے وزیراعظم عزت مآب وین جیا باؤ کا دورہ پاکستان انتہائی کامیاب، شاندار اور یادگار رہا۔ پاکستان اور چین کی دوستی واقعی لازوال ہے۔ چین نے کڑے وقت میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی۔ حالیہ دورے کے دوران بھی وین جیا باؤ نے ہر قسم کی امداد اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ امریکہ جس نے خود پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی سے انکار کر دیا اور دیگر ممالک کو بھی خبردار کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے نہ کریں۔ ایسے موقع پر چین نے جرأت مندی سے پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی کا یقین دلایا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی چین پاکستان کے مؤقف کا پاکستانی حکمرانوں سے زیادہ حامی ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین قربتیں بڑھتی اور فاصلے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے امریکہ کو بھی تشویش ہے۔ چین سے دوستی اور اس کے تعاون کے باوجود ہمارے حکمران امریکہ کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں تاہم امریکہ کو یہ فکر ضرور ہے کہ پاکستان خود کو مکمل طور پر چین کے ساتھ وابستہ نہ کر لے۔ ہلیری کلنٹن نے عین چینی وزیراعظم کے دورے کے موقع پر پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔ اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کو تنہا نہ چھوڑنے کا امریکہ کا اس کے پالکوں اور لے پالکوں کا ریکارڈ ’’قابلِ داد اور قابلِ فخر‘‘ ہے۔ آگے چلنے سے قبل ایک دلچسپ واقعہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کو اردو سے بڑا لگاؤ تھا۔ ملکہ نے مسلسل تین سال بڑی محنت سے اردو لکھنا اور بولنا سیکھا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کا استاد آگرہ کا عبدالکریم تھا۔
ملکہ کو ہندوستان کے مسلمان خدمتگاروں سے دلچسپی تھی۔ ہندوستان سے ضروری تربیت دیکر محمد بخش اور حافظ عبدالکریم کو 23 جون 1887ء کو ملکہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ ان کی ڈیوٹی ملکہ کو ناشتہ لنچ اور ڈنر کرانے پر لگی۔ ان خدمتگاروں کی باہمی گفتگو سے متاثر ہو کر اردو سیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا جو جنون کی صورت اختیار کر گیا ملکہ نے عبدالکریم سے اردو سیکھنے کا آغاز کیا جس سے خوبرو عبدالکریم کو ملکہ کے قریب ہونے کا موقع ملا۔ ہندوستانی نوجوان نے اپنی خدمت، ادب سے لگاؤ، رکھ رکھاؤ اور سوجھ بوجھ کے باعث دربار شاہی میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ ملکہ کا کریم پر اعتماد بڑھا تو ملکہ تک مراسلات پہنچانے اور شاہی فرامین پر ملکہ کے دستخطوں کی سیاہی خشک کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں کے سپرد کر دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد ملکہ نے انہیں اپنا منشی مقرر کر دیا۔ 1895ء میں ملکہ کے پرسنل سیکرٹری سر ہنری کا انتقال ہوا تو یہ عہدہ بھی عبدالکریم کے حصے میں آ گیا۔ منشی عبدالکریم کو 24 مئی 1899ء کو برٹش سول سروس کا سب سے اعلیٰ اعزاز C.I.E دیا گیا۔ 22 جنوری 1901ء کو ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا جس کے ساتھ ہی عبدالکریم کی بدقسمتی کا سفر بھی شروع ہو گیا۔ ملکہ کے انتقال کے دوسرے روز صبح سویرے ملکہ کی بیٹی ہیٹرس نے منشی عبدالکریم کے کمرے پر دستک دی، دروازہ کھولا تو ملکہ بیٹی کے ساتھ چند ملازم بھی تھے انہوں نے عبدالکریم سے تمام خطوط اور دیگر دستاویزات لے کر ان کو آگ لگا دی۔ ملکہ کے فرزند ایڈورڈ ہفتم نے تخت و تاج سنبھالتے ہی ہندوستان سے تعلقات رکھنے والے تمام ملازمین کو بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیدیا ۔۔۔ امریکیوں اور برطانوی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اوپر سے شجرہ نسب ایک ہے بلکہ امریکی، برطانیہ اور یورپ کی بگڑی نسلیں ہیں۔ امریکہ کی دنیا میں منشی عبدالکریم بنانے اور ان سے پیچھا چھڑانے کی لمبی تاریخ ہے۔ مارکوس، پنوشے، شہنشاہ ایران، مشرف سب امریکہ کے منشی عبدالکریم تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہونے تک امریکہ بحری بیڑا بھجوانے کا لارا لگاتا رہا۔ افغانستان سے روس کی شکست کے بعد پاکستان کو آزمائش میں اور مجاہدین کو تنہا چھوڑ گیا۔ آج کے منشی عبدالکریموں کو بھی سابقوں کی طرح یقین ہے کہ ’’بادشاہ‘‘ کو سب سے بڑھ کر ان پر اعتماد اور اعتبار ہے۔ مشرف بش کے پیارے تھے اوباما آئے تو ان کو لات مار دی، ہمارے جمہوری حکمران اوباما اور ہلیری کے راج دلارے ہیں۔ اوباما گئے تو نئے آنے والے نئی پالیسی کے ساتھ نئے لوگوں کو تلاش کریں گے۔ ہمارے منشی عبدالکریموں کے پاس ایک سال کا وقت ہے خود داری کا مظاہرہ کریں۔ شاویز اور احمدی نژاد کی جرأت و ہمت، سلطان ٹیپو کی شجاعت، بہادری اور غیرت کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کو منشی عبدالکریم بنا دیں، اسے کہیں اٹھاؤ اپنا بوریا بستر، اپنی جنگ سمیت یہاں سے کوچ کر جاؤ۔
No comments:
Post a Comment