بدھ ، 22 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
سیاسی اکابرین کے مابین میل ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ جوڑ توڑ جاری‘ روٹھنے‘ منانے اور مان کر روٹھنے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ تندو تیز تلخ اور سخت بیان بازی تھمنے میں نہیں آرہی۔ بظاہر سیاست میں ہلچل بلکہ بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ کچھ ماہرین کو سیاسی درجہ حرارت تیزی سے بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر سیاسی ماحول اندر سے بھی گرما گرم ہوتا تو میاں نواز شریف حسب سابق انگلینڈ دوبئی چین یا کسی اور ملک کے دورے پر نکل چکے ہوتے۔ میاں صاحب کی پاکستان میں موجودگی اس امر کی علامت ہے کہ سیاست کے تالاب میں کوئی تلاتم اٹھا‘ نہ اٹھنے کا امکان ہے۔ تاہم ان ہاؤس تبدیلی کی خواہش پالنے اور مڈٹرم الیکشن کی آرزو رکھنے والے اپنی مطلب براری کیلئے تالاب میں پتھر پھینکنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش کو سونامی سمجھ لیں تو اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔سیاست میں دکھائی دینے والی ہیجانی اور طوفانی کیفیت میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے میاں نواز شریف کے 10 نومبر 2010ء کو لکھے گئے خط کا جواب ارسال فرما دیا ہے۔ میاں نواز شریف کے ترجمانوں نے کہا کہ خط موصول نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف نے اس پر ردعمل بھی ظاہر کر دیا۔
ترجمانوں کے بیان سے مسلم لیگ ن کے ان رہنماؤں اور کارکنوں کی ڈھارس ضرور بندھی ہو گی جن کو شکوہ ہے کہ اعلیٰ قیادت ان کو ملاقات کا وقت نہیں دیتی۔ جن کو یہ ناک کا بال سمجھتے ہیں ملاقات کے حمام میں سب برابر ہیں۔ ترجمانوں نے شاید گھر کے چوکیدار سے پوچھ کر کہ خط ملا یا نہیں۔ اپنا بیان جاری کر دیا۔ خط کا جواب پورے ایک ماہ بعد آیا‘ زرداری صاحب کو گذشتہ ایک ماہ کے دوران کئی غیر ملکی دوروں پر جانا پڑا‘ ہو سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کا خط پڑھنے‘ اگر پڑھا تو اس کا جواب لکھنے کا موقع نہ ملا ہو۔ مصروفیت ہی بہت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صدر صاحب نے نواز شریف کا خط پڑھا ہو نہ ان کو لکھا جانا والا جواب‘ خط کے آخر میں بالکل اسی طرح دستخط فرما دئیے جس طرح ایک معاہدے کے حوالے سے فرمایا تھا کہ بغیر اس کا مطالعہ کئے سائن کر دئیے تھے۔ ویسے بھی خطوں اور جوابی خطوں پر فرینڈز آف پاکستان‘ آئی ایم ایف‘ عالمی بنک‘ کیری لوگر بل یا کسی دیگر ملک اور ادارے کی امداد ملنے یا نہ ملنے کا امکان اور خدشہ نہیں ہے۔ تاہم جوابی خط دلچسپ ضرور ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے خط میں مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی تجاویز دی تھیں صدر صاحب نے بھی کمال کرتے ہوئے جواب میں مسائل ہی گنوائے ہیں۔ البتہ ان کے حل کی راہ میں مشکلات کا ذکر ضرور کر دیا ہے۔ جواب میں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ ’’ایسی کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس سے راتوں رات سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو‘‘…
قوم نے جن لوگوں کے ہاتھ میں اپنی تقدیر تھما دی وہ دو سال 9 ماہ یعنی پورے پونے تین سال کو بھی ’’راتوں رات‘‘ کہہ رہے ہیں۔ شاید قیامت تک کا عرصہ درکار ہے۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر آر جی ایس ٹی کے نفاذ کو حکومت جہاد اور اپنا فرض عین سمجھ رہی ہے۔ اس کے نفاذ سے عوام پر مہنگائی کا قہر ٹوٹے گا۔ مراعات یافتہ اتحادیوں کو حکومت مزید نوازشات کا سپنا دکھا اور یقین دلا رہی ہے۔ ٹیکس کے نفاذ کی حمایت سے وہ بھی بدک رہے ہیں۔ صدر صاحب نے اپوزیشن جماعت کے قائد سے کہا ہے کہ اس ٹیکس کے نفاذ کی قومی اسمبلی میں حمایت کریں۔ صدر صاحب منہ بولے بھائی کو شاید اپنے ہمرکاب و ہم اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں نہیں۔ صدارتی اور اختیاراتی معاملے میں برابر نہیں‘ عوامی مقبولیت کے حوالے سے کھینچ کر نیچے لانے اور اپنے ساتھ ملانے کے حوالے سے۔ جوابی خط میں یہ بھی درج ہے ’’پٹرول کی قیمتیں مقرر کرنے میں حکومت کا عمل دخل نہیں‘‘ صدر صاحب نے درست فرمایا تاہم وہ اختیار اپنے عوام کیلئے بھی استعمال کر لیں جس کے تحت نیٹو کو پٹرول 42 روپے لٹر فروخت کیا جاتا ہے۔ ملک مسائل اور بحرانوں میں ضرور گھرا ہے۔ ہر مرض کا علاج اور بحران و مسائل کا حل ضرور موجود ہے۔ جس کیلئے خلوص اور نیک نیتی اولین شرط ہے۔ افسوس صد افسوس کہ موجودہ حکمرانوں باالخصوص اور سیاستدانوں میں باالعموم یہ نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment