About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, November 29, 2010

بہروپیا

 پیر ، 29 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ? 18 گھنٹے 58 منٹ پہلے شائع کی گئی
عرصے سے چرچا تھا کہ امریکہ اس کے اتحادی اور کرزئی انتظامیہ طالبان سے مذاکرات کر رہے۔ کبھی یہ کراچی میں ہونے کی نوید سنائی جاتی‘ کبھی مالدیپ‘ کبھی کابل اور قندھار میں‘ جنگ سے تنگ امریکی اور نیٹو افواج کو مذاکرات کی بازگشت سے حوصلہ ملتا رہا کہ ان کی کامیابی سے وہ تابوت میں اپنے ممالک واپس جانے کی بجائے خود چل کر جہاز پر سوار ہوں گے اور اپنے انتظار میں آنکھیں بچھائے پیاروں سے جا ملیں گے۔ ان کو اوباما کے 2011ئ میں انخلا کے اعلان سے بھی حوصلہ ملا تھا۔ لیکن اب لزبن کانفرنس میں معاملہ 2014ئ تک طویل کر دیا گیا ہے۔ اس وقت تک نہ جانے کتنے تابوت اٹھ جائیں گے۔ کتنوں کے اعضا کٹ جائیں گے اور معیشت ڈوبنے سے امریکہ اور یورپ کتنے ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے۔
افغانستان میں امریکہ بری طرح سے ہار رہا ہے۔ وہ یہاں سے نکلنا چاہتا ہے۔ وہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہے لیکن اپنے ماتھے پر ویتنام جیسی شکست کا داغ نہیں سجانا چاہتا۔ وہ شکست کسی اور کے گلے میں ڈال کر سرخرو ہونا چاہتا ہے اسی لئے جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیلا دیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں ڈرونز سے تباہی مچا رہا ہے۔ الزام لگا کر اور بہانے بنا کر کوئٹہ کراچی بہاولپور اور مریدکے تک ڈرونز کا دائرہ کار بڑھانا چاہتا ہے۔ معاملات کمشن مافیا کے ہاتھ میں ہوتے تو کب کا پورا پاکستان ڈرونز کی زد میں آچکا ہوتا۔ معاملات پر جن کا پس پردہ رہ کر کنٹرول ہے وہی امریکہ کی اجارہ داری پاکستان میں اجارہ داری اور بہت زیادہ عمل دخل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہی قوت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنا رہی ہے اسی سے امریکہ کو خار ہے۔ وہ حکومت پاکستان سے اس قوت کی بیخ کنی کا مطالبہ کرتا ہے اور اسے بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی۔ امریکہ کو پاک فوج سے اس لئے پرخاش ہے کہ وہ آناً فاناً شمالی وزیرستان میں آپریشن پر تیار نہیں اور آئی ایس آئی پر طالبان کی حمایت کا الزام افغانستان میں اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے لگاتا ہے۔ 
افغانستان میں ملا عمر کے نائب ملا اختر محمد منصور ہیں۔ اس سے قندھار میں افغان انتظامیہ نے مذاکرات کئے۔ ایک مرتبہ اس کی کابل کے صدارتی محل میں حامد کرزئی کی ملاقات ہوئی۔ کابل میں ہی نیٹو اور امریکی حکام بھی اس سے ملے۔ اسے پاکستان سے جہاز میں لے جایا اور واپس بھجوایا جاتا رہا افغان کے اندر ہیلی کاپٹر کی سہولت فراہم کی جاتی تھی۔ امریکی گولی اور پیسے کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسے ڈالروں سے لاد دیا گیا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے اعلان ہوتے رہے پھر اچانک پتہ چلا کہ یہ اصل طالبان لیڈر نہیں تھا۔ امریکی میڈیا نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے دکاندار کو ملا اختر منصور بنا دینے کا کارنامہ آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈال دیا۔ اب دو نمبر ملا اختر منصور غائب ہے۔ ابھی امریکی میڈیا جعلی ملا اختر منصور کو آئی ایس آئی کی تخلیق قرار دے دیا تھا کہ برطانوی جریدے ٹائمز نے تصدیق کر دی کہ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم 6 نے اسے لاکھوں ڈالر دیکر کرزئی سے مذاکرات کرائے۔ یہ شخص جو بھی تھا وہ لاکھوں ڈالر اڑا لینے کے ساتھ ساتھ امریکہ برطانیہ نیٹو اور کرزئی انتظامیہ کو بیوقوف بنا گیا۔ اب اپنی خفت مٹانے کیلئے اسے بہروپیا قرار دے رہے ہیں۔ اس بہروپیے نے آدھی دنیا پر مشتمل اتحادیوں‘ دنیا کی واحد سپر پاور کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نااہلی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ ان ایجنسیوں کی اطلاعات پر بڑے بڑے آپریشن ہوتے ہیں‘ حملے ہوتے ہیں ڈیزی کٹر استعمال ہوتے ہیں اور ہنستے بستے گھروں کو تورا بورا بنا دیا جاتا ہے۔ بہروپیے کے ایک واقعہ نے اظہر من الشمس کر دیا کہ امریکہ اور اتحادیوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی انفارمیشن انٹیلی جنس پر نہیں محض اندازوں اور افواہوں پر بنی ہے۔ اس امریکہ کو ایک عام شخص بیوقوف بنا گیا جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہارپ سسٹم کی مدد سے انسانی ذہن کو بدل سکتا ہے۔ دنیا میں جہاں چاہے طوفان برپا کر سکتا ہے۔ سمندر میں ہلچل مچا سکتا ہے گلشیئر پگھلا سکتا ہے۔ سورج کی مدت میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ ستاروں پر کمنڈ ڈال سکتا ہے دریاو ¿ں اور جھیلوں کو ابال سکتا ہے زمین میں شغاف ڈال سکتا ہے۔ بہروپیے نے ثابت کر دیا کہ امریکہ کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں جس کا امریکہ دعویدار ہے۔ جو ایک شخص کو نہ پہچان سکا وہ خاک انسانی ذہن کو بدل سکتا ہے۔ اس کے کائنات کے تسخیر کے دعوو ¿ں کی حیثیت محض مسخرہ پن ہے۔

Saturday, November 27, 2010

وہ شمع اجالا جس نے کیا

27-11-10
فضل حسین اعوان ـ 
آج ہم پاکستانیوں کی شان و شوکت، جاہ و جلال، عہدے افسریاں، وزارتیں مشاورتیں، جرنیلیاں، کرنیلیاں، آزادی، عزت، وقار، سیاست امارت اور اقتدار سب پاکستان کے صدقے ہے جس کو اس میں شک ہے تو وہ بھارت جا کر اپنے جیسوں کا حال دیکھ لے۔ اگر مطمئن ہو جائے تو وہیں جا بسے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو پاکستان میں اسلام کا بول بالا ہضم نہیں ہو رہا، کوئی سیکولرازم کی بات کرتا ہے، کوئی اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بن کر اپنی سیاست اور صحافت چمکاتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتیں کسی بھی ملک سے زیادہ محفوظ ہیں۔ پڑوسی بھارت میں دیکھ لیجئے، وہاں مسلمان محفوظ ہیں نہ سکھ اور عیسائی، ان کو ان کے گھروں اور عبادت گاہوں سمیت جلا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسے واقعات کبھی نہیں ہوئے۔ 
آج کل توہین رسالت کیس میں عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت برننگ ایشو ہے۔ توہینِ رسالت پر کیا سزا ہونی چاہئے، قید، سزائے موت ملزم کو مکر جانے یا معافی مانگنے پر معاف کر دینا چاہئے، یہ علمی نہیں جہالت اور بعض لوگوں کی خباثت پر مبنی بحث ہے۔ توہین رسالت کی سزا، صرف اور صرف موت ہے۔ اس کا ارتکاب کوئی مسلم کرے یا غیر مسلم، مرد ہو یا عورت، اس کے معصوم بچے ہوں یا معذور۔ کوئی محمود ہے یا ایاز، امیر ہے یا فقیر، بے تاثیر ہے یا بے ثنا، جامدی ہے یا بے آسرا، کسی کی کیا اوقات اور حیثیت کہ ایک صریح حکم کے بارے میں اپنی رائے دے اور اسے مقدم بھی سمجھے۔ ان کی رائے جاننے کی ضرورت نہیں ان کا عقیدہ پوچھا جائے۔ یوں تو یہ بھی بظاہر مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر گنگناتے ہیں 
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
یہ کہہ کر بھی توہین رسالت قانون ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، توہین رسالت کے ملزم کو چھوڑ دینے پر اصرار کرتے ہیں تو اندازہ کر لیجئے ان کا ایمان کتنا کامل ہے۔ ان کو بہت سے واقعات یاد آ رہے، حضور نے طائف والوں کو معاف فرما دیا، فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان کیا، رحمت للعالمین نے خود پر کوڑا پھینکنے والی کو اور اپنے پیارے چچا کا کلیجہ چبانے والی کو معاف کر دیا .... لیکن وہ واقعات ان کی نظروں سے نہیں گزرے یا جان بوجھ کر ان کا تذکرہ نہیں کرتے کہ حضور نے فتح مکہ پر کچھ لوگوں کا نام لے کر ان کو معاف نہ کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔ عصماءبنتِ مروان حضور کی شان میں گستاخی کرتی رہتی تھی حضور نے فرمایا اس کا کون سر قلم کرے گا، حضرت عمیرؓ بن عدی نے ملعونہ کو قتل کیا اور سر لا کر حضور کے قدموں میں رکھ دیا۔ توہین رسالت کے مجرم کو تو خود رسالت مآب نے معاف نہیں کیا آج کے بزعم خویش دانشور کیوں ایسا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آسیہ بی بی نے پولیس انکوائری کے دوران اقرار کیا، اپنے ہم مذہب اکابرین کی موجودگی میں بھی اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی اب یکسر مکر گئی ہے۔ پھر بھی کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اس کے انکار کے باوجود بھی اسے سزا دینے پر کیوں اصرار ہو رہا ہے۔ اس کیوں کا جواب ہے کہ یہ لوگ اپنی اصلاح کریں۔ توہین رسالت کے مجرم کو بچاتے بچاتے خود بھی توہین رسالت کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ نہ جب تک کٹ مروں خواجہ بطحا کی حرمت پر، کا عملی نمونہ بن جائیں اپنے بارے میں یہ تاثر نہ دیں، 
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
نگاہ و دل جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ملک میں قتل در قتل ہوتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور بعض صورتوں میں انصاف کے حصول میں ناامیدی اور بے یقینی ہے۔ قتل کا فیصلہ چند ماہ میں ہو جائے تو بہت سے انتقامی اور جوابی قتل و غارت سے بچا جا سکتا ہے۔ آج توہین رسالت قانون کے خاتمے کی بات ہو رہی ہے۔ غازی علم الدین کو یقین ہوتا کہ راج پال کو توہین آمیز کتاب شائع کرنے پر موت کی سزا مل سکتی ہے تو وہ شاید انتہائی قدم نہ اٹھاتا۔ آج توہین رسالت کا قانون موجود ہے۔ آسیہ بی بی نے اس کا ارتکاب کیا تو مقامی لوگوں نے اسے قانون کے حوالے کر دیا۔ قانون موجود نہ ہوتا تو اب تک مقامی کئی غازی علم الدین شانِ رسالت میں گستاخی کا قرض اتار چکے ہوتے۔ نام کے مسلمانوں کو اپنا ایمان تازہ کرنے کے لئے آج مولانا ظفر علی خان کے یومِ وفات پر ان کی نعت کے یہ اشعار ضرور پڑھ لینا چاہئیں۔ 
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبد گنبد پر
وحدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں


Thursday, November 25, 2010

جُھرلو کی قسم

جمعرات ، 25 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 15 گھنٹے 57 منٹ پہلے شائع کی گئی
نامور سیاستدان کے ہاں آخری عمر میں لڑکا پیدا ہوا تواس نے تعویز گنڈا کرنے یا جنتر منتر پڑھنے والے کو خوش ہوکر کہا ” اوپر والے نے مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوشی تمہارے توسط سے دکھائی ہے مانگو کیا مانگتے ہو، مَجھ، گاں، پرمٹ، لائسنس، گاڑی، گھر‘ جائیداد، نقدی ،ویزہ جو چاہو مانگو“۔ سیاسی سادھو فقیر نے کہا” مجھے جُھرلو دے دو“ سیاستدان نے وضاحت طلب نظروں سے پوچھا”کیا دیدوں“....” وہی جھرلو جو آپ ہرجگہ پھیرتے ہیں۔ خصوصی طور پر الیکشن جیتنے کیلئے“۔ سیاستدان ساری جائیداد تو دے سکتا ہے جھرلو نہیں کیونکہ جھرلو سے جائیدا بنائی جاسکتی ہے۔
جھرلو میں بڑی طاقت ہے۔ یوں سمجھئے آ ج کے دور میں سیاستدانوں کے پاس جھرلو کی حیثیت اور اہمیت پرانے وقتوں کے الٰہ دین کے چراغ سے سوا ہے۔ یوں تو جھرلو ہر طبقے کے پاس موجود ہے۔ فوج کے پاس بغل میں دبائی جانیوالی چَھڑی، ججوں کے پاس آرڈر آرڈر والی ہتھوڑی، وکیلوں کے پاس کالے کوٹ، ماسٹروں پروفیسروں کے پاس ٹیوشنوں اکیڈیمیوں اور سالانہ نتائج اورسرکاری ملازمین کے پاس اختیارات کی صورت میں ، ہماری اداکاراﺅں کے پاس بھی جھرلو موجود ہے کس صورت میں، خود انہیں بھی علم نہیں۔
سب سے بڑا فوجی، جھرلو کو جب استعمال کرنے کی ضروت محسوس کرتا ہے تو کور کمانڈر کے ذریعے جھرلو کی شکتی ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کے جھرلو میں منتقل کردیتا۔اس کی آگے مرضی یہ شکتی کیپٹن کے حوالے کرے یا صوبیدار کے۔ یہ شکتی وزیراعظم کے جھرلو پر بھی بھاری پڑ جاتی ہے سامنے بریگیڈ جاوید اقبال یا جنرل خواجہ ضیاءالدین بھی ہوں تو ان کے جھرلو کی شکتی ایک کیپٹن یا صوبیدار کے جھرلو کی شکتی میں صلب ہوجاتی ہے.... پاکستان میں عرصہ سے جج حضرات جھرلو استعمال کرتے آئے ہیں۔ پہلا جھرلو جسٹس منیر اور سب سے بڑا جھرلو ڈوگر صاحب نے پھیرا۔ درمیان میں مارشلاﺅں کو جائز قرار دینے اور بھٹو کو سزاکے موت سنانے جیسے جھرلو بھی پھرتے رہے۔ پاکستان میں دیانتدار وکلا کی اکثریت ہے تاہم چند ایک بد نام زمانہ وکلا کے کمالات اور جمالات“ کے باعث پورے طبقے کا چہرہ گہنا رہا ہے۔ اکبر الہ آبادی خود وکیل تھے انہیں شاید آج کے ان وکلا کے کردار کا ادراک ہوگیا تھا جو پوری برادری کیلئے کلنک کا ٹیکہ بن چکے ہیں۔ان کیلئے ہی شاید اکبر الہ آباد ی نے کہا تھا....
پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہوگئے
خواتین کو زیورات جان کی طرح عزیز ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کو جھرلو جان سے بھی زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ بنیا اپنی دولت تجوری میں رکھ کر دن میں سو بار اس پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اکیسویں صدی کا سیاستدان اس الماری پر سوا سو بار ہاتھ پھیرتا ہے جس میں غلاف میں لپٹا جھرلو رکھا ہوتا ہے۔ عموماً سیاستدان جھرلو آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کیلئے ‘ انتخابات کے موقع پر یا کسی آڑے وقت میں نکالتے ہیں۔ اس سے کام لیا اور رکھ دیا۔ سیاستدانوں کے جھرلو کا کمال اس کی ماضی گریز قوت ہے۔ یہ سامنے پڑا ہو تو انسان کا سوری !سیاستدان کا ماضی سے رابطہ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔اسے یاد نہیں رہتا کہ کل اس نے کہا تھا، نواز شریف نے اڑھائی سال میں کم از کم بیس بار تو کہا ہوگا کہ حکومت پر اعتبار نہیں اور اتنی ہی بار جھرلو کی برکت سے ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس سے آنیوالوں فونوں پر ڈھیر اور ملاقاتوں پر زیر ہوگئے۔ شاید اسلام آباد والوں کے جھرلو زیادہ پاور فل ہیں۔12نومبر کو پارلیمنٹ میں ریفارمڈ جی ایس ٹی بل پیش ہوا تو مولانا فضل الرحمن کی پارٹی نے اس کی مخالفت کی غفوری حیدری نے فرمایا یہ ڈرون حملہ ہے اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔22نومبر کو حضرت مولانا نے زرداری اور گیلانی سے ملاقات کی12 سے 22نومبر کے دوران حکومت نے مولاناشیرانی کو اسلامی نظریہ کونسل کا چیئر مین بنادیا تھا۔ ملاقات میں ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم نے مولانا کی جیب سے ان کا جھرلو نکال کرسامنے رکھا ہو تو مولانا نے جی ایس ٹی پر آمین کہہ دیا۔ ق لیگ نے بھی مخالفت کی تھی ان کے حامد یار ہراج کو بھی حکومت نے مہاراج بنادیا ہے چودھری شجاعت کی تردید سر آنکھوں پر جھرلو کی برکت سے ق لیگ جی ایس ٹی بل کی” مخالفت“ یوں کرے گی کہ ووٹنگ کے دوران واک آﺅٹ کرجائے گی۔ بل سادہ اکثریت سے پاس ہونا ہے۔ نواز شریف نے چند روز قبل ایک بار پھر جھرلو پر ہاتھ رکھ کر عہد کیا ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کی کسی کوشش میں شامل نہیں ہونگے۔ دوسروں کو رام کرنے اوراپنا ہمنوا بنانے کیلئے زرداری صاحب کو شاید چمکتا دمکتا جھرلو ہمہ وقت اپنے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ زرداری کے جھرلو برداروں میں بابر اعوان‘ فیصل رضا عابدی، سلمان تاثیر، فوزیہ وہاب اہم ترین ہیں ن لیگ میں احسن اقبال، رانا ثناءاللہ اور پرویز رشید کسی اور کوجھرلو برداری میں آگے نہیں آنے دیتے۔ ظفر اللہ جمالی کل تک مشرف کے جھرلو بردار تھے آج پگارا کے ہیں۔ ناہید خان محترمہ کی جھرلو بردار تھیں آج صفدر عباسی ان کے اور ناہید خان‘ صفدر عباسی کے جھرلو بردار ہیں۔ مشرف پہلے وردی پھر صدارت بالآخر ملک سے گئے۔ اِدھر اُدھر ان کا جھرلو گم اور ساتھی غائب ہوگئے جب جھرلو ہی نہیں تو جھرلو بردار کہاں؟ زرداری صاحب نے نواز شریف سے بڑے وعدے اور معاہدے کئے۔ وہ ان سے اس لئے مُکر گئے کہ یہ کسی جھرلو کو سامنے رکھ کر نہیں کئے گئے تھے۔ ہمارے اکابرین حکومت، سیاست اور جمہوریت کا جھرلو پر پختہ یقین ہے۔ حکمرانوں، ججوں ، جرنیلوں اور بیورو کریٹس نے آئین پر حلف لیا اور اکثر نے حلف توڑنے سے گریز نہیں کیا۔کیا یہ قوم و ملک کے بہترین مفاد میں نہیں کہ یہ لوگ جھرلو پر حلف لیں۔ جھرلو جو ان کو جان مال اور جائیدادسے بڑھ کر عزیز ہے کم از کم اس پر لیا گیا حلف تو نہیں توڑیں گے۔ کورٹ کچہریوں پنچائتوں اور روزمرہ زندگی میں اکثر لوگ جھوٹ بولتے اور جھوٹ پر قسمیں اٹھاتے اور اٹھواتے ہیں۔ کوئی ماں کی قسم کھاتا ہے تو کوئی اولاد کے سر پر ہاتھ رکھ کر یقین دلاتا ہے۔کیوں نہ سب جھرلو کی قسم کھائیں اور اس پر ہاتھ رکھ کر وعدے معاہدے کریں اور یقین دلائیں۔ جُھرلو کی قسم اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔

Wednesday, November 24, 2010

حج انتظامات۔ ذمہ داروں کا محاسبہ کیسے

 بدھ ، 24 نومبر ، 2010

فضل حسین اعوان ـ 15 گھنٹے 26 منٹ پہلے شائع کی گئی
ہر سال حج کے موقع پر زائرین سے بدسلوکی، حکام کی طرف سے لوٹ مار کی خبریں آتی ہیں حکومت سخت ایکشن لینے کے دعوے کرتی ہے لیکن چند روز کے اندر اندر ہر طرف سے اٹھنے والا طوفان محض پانی کا بُلبلہ ثابت ہوتا ہے۔ البتہ رواں سال بہت عجب اور بعض معاملات میں بڑا غضب ہوا۔ وزارت حج نے زائرین سے کلفت کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ لوٹ مار کی اذیت ناک کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ حکام نے زائرین کو بڑی بے دردی سے نظرانداز کیا اپنی جیبیں بھرنے کے بعد ان کو لاوارث چھوڑ دیا۔ لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے حرم پاک کی زیارت اور روضہ رسولؐ پر حاضری کیلئے جاتے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ عبادت اور ایسے اعمال پر مرکوز ہوتی ہے جس کے باعث وہ تمام گناہوں سے مبرا ہو سکیں۔ وہ مچھر کو مارنے تک کے روادار نہیں ہوتے۔ وہ وزارت مذہبی امور کے کرتا دھرتائوں سے کتنے نالاں ہوں گے کہ شیطان کو مارنے کے لئے جمع شدہ کنکریاں وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی اور ان کے ساتھیوں کو دے ماریں۔ کنکریاں مارنے والے لاکھوں روپے خرچ کر کے ارضِ مقدس پر خوار ہو رہے تھے۔ کنکریاں کھانے والوں نے نہ صرف فری حج کیا بلکہ ان کو لاکھوں روپے ٹی اے ڈی اے اور دیگر الائونسز کی مد میں بھی ملیں گے۔ مبینہ طور پر جو اربوں روپے زائرین کی چمڑی ادھیڑ کر کمائے وہ الگ دولت کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کنکریاں کھانے والوں کو اپنے اعمال اور کمال کا بخوبی علم ہے۔ البتہ دوسرے ممالک کے زائرین نے اس عمل پر ایک نظر شیطان اور دوسری ان حضرات پر ڈال کر مشابہت تلاش کرنے کی کوشش ضرور کی ہو گی۔ حامد سعید کاظمی کو سرِراہے والے پروفیسر اسرار بخاری جامد سعید کاظمی اور زر کا آدمی قرار دیتے ہیں، یہ ان کی اور ان کے ہمنوائوں کی خوش قسمتی ہے کہ زائرین کے ہاتھ میں صرف کنکریاں تھیں۔ پتھر نہیں تھے۔ اکثر پاکستانیوں کو اس کا افسوس ہے منور حسن کو شاید سب سے زیادہ…
ایسا کبھی ہوا ہے کیا کہ ایک وزیر پر دوسرا وزیر الزام لگائے؟ اس مرتبہ ایسا ہو گیا ہے۔ وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی اعظم سواتی نے حاجیوں کو لوٹنے اور ناقص انتظامات پر حامد سعید کاظمی کو وزارت سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی نہیں سعودی عرب میں پاکستانی سفیر عمر شیرزئی نے کہا ہے کہ ناقص حج انتظامات کے ذمہ دار حامد سعید ہیں اور فی حاجی 25 ہزار روپے کمشن کھایا گیا ہے۔ دوسرے ممالک میں وہاں کے معاملات سے سب سے زیادہ باخبر وہاں متعین سفیر ہوتا ہے۔ عمر شیرزئی کا کہنا ہے کہ کاظمی کی ہرممکنہ کوشش تھی کہ سفیر حج معاملات کے قریب بھی نہ آئیں۔ ان کا ہر معاملے میں طرزعمل ’’میں ہوں ناں‘‘ جیسا تھا۔ اور تو اور حضرت مولانا کی وزارت مذہبی امور میں اُن کی نائب، وزیر مملکت شگفتہ جمانی نے بھی اپنے محکمے کے وزیر سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ محترمہ فرماتی ہیں حضرت نے کسی معاملے میں بھی ان کو اعتماد میں نہیں لیا۔ جمانی کا کہنا ہے 700 حج فارم بچ گئے تھے میں نے مانگے تو وزیر صاحب نے صاف جواب دے دیا۔ ایوانِ صدر کی مداخلت پر مجھے 100 فارم دے دئیے گئے۔ 600 کا کیا ہوا وزیر صاحب جانتے ہیں… اکثر حجاج گھر سے روانگی اور واپسی تک وزارت حج کے روئیے سے دلبرداشتہ رہے۔ کئی ابھی تک وہاں مصائب کا شکار ہیں۔ جہاں مکہ میں حجاج کو مہنگے داموں رہائش گاہیں حرم سے 5 چھ کلومیٹر دور لے کر دی گئیں وہیں منٰی میں بدانتظامی بھی عروج پر تھی۔ ایک پاکستانی ٹور ایکسپرٹ کو بھارتی حج منتظم نے بتایا کہ وہاں جانے والے بھارتی حجاج کو تین کیٹگریز میں بانٹا گیا تھا۔ پہلی کیٹگری ان عازمین کی تھی جنہیں حرم سے ایک ہزار میٹر کے اندر اندر رہائش دی گئی۔ ان سے کل ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے وصول کئے گئے۔ دوسری کیٹگری ایک ہزار سے پندرہ سو میٹر کی تھی جن سے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے لئے گئے۔ تیسری کیٹگری پندرہ سو کلومیٹر سے زائد کی تھی جن سے ایک لاکھ دس ہزار روپے وصول کئے گئے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ہر حاجی سے دو لاکھ اڑتیس ہزار روپے لئے اور ان سب کو رہائش گاہیں دو کلومیٹر سے لے کر سات کلومیٹر تک فراہم کی گئیں۔ 
اعظم سواتی اور شگفتہ جمانی وزیر صاحب پر سخت الزام لگا رہے ہیں۔ احمد شیرزئی کا کہنا ہے کہ حج ٹور آپریٹرز سے قرآن پر حلف لیا جائے وہ بتا دیں گے کہ 25 ہزار تک کمشن کس نے کھایا۔ وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کا کہنا ہے کہ ثبوت لائو۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزارت حج میں بدعنوانیاں ہوئیں۔ اس نے ناقص انتظامات کئے حجاج کو لوٹا گیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے تعین کے لئے جوڈیشل کمشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اس کا کوئی فائدہ ہو گا؟ اعظم سواتی کے بقول حکام وزیر کی مرضی کے خلاف بدعنوانی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سواتی سمیت کوئی بھی وزیر اپنے پارٹی سربراہ کے ’’ڈیزل ڈپو‘‘ میں ہاضمے کی پھکی ڈالے بغیر کروڑوں اربوں روپے ہضم نہیں کر سکتا۔ جب ساتھی وزیر الزام لگا رہے ہیں سفیر چیخ رہا ہے۔ حجاج چلا اور کنکریاں مار رہے ہیں اس کے باوجود اوپر والے خاموش ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں معاملات ’’100 پرسنٹ‘‘ درست ہیں۔ بات کمیٹیوں اور کمشنوں تک گئی تو بالکل ہی گئی۔ ہر سال کی طرح اب بھی طوفان بلبلہ بن جائے گا۔ اگر اوپر تک کرپشن کی غلاظت بالائی سمجھ کر نہیں کھائی گئی تو وزارت کے متعلقہ بڑے عہدیداروں اور وزیر سمیت سب کو اندر کر دیا جائے ان میں سے جو بے گناہی ثابت کر دے، نوکری پر بحال، باقی ہرجانہ ادا کریں اور جو بنتی ہے سزا بھگت کر گھروں کو جائیں۔ عبرت کے لئے کرپشن پر پوری جائیداد ضبط کر کے اس سے حج انتظامات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔

پلاننگ

23-11-10
پلاننگ
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 8 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
برطانوی جنرل آرتھر پر سیول کی کمانڈ میں کیل کانٹے سے لیس ملایا کے دفاع پر مامور ایک لاکھ تیس ہزار سپاہ کو صرف 30 ہزار فوجیوں کی مدد سے جاپانی جنرل یاماشیتا نے محاصرہ کرکے بے بس کر دیا۔ زمین سے ٹینک آگ اگل رہے تھے تو فضا سے جہاز بارود برسا رہے تھے۔ جنرل تو یوموکی یاما شیتا نے جنرل پر سیول کو سرنڈر وارننگ دی تو پرسیول نے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔ تاکہ وہ اپنی حکومت سے مشورہ کر سکے۔ جنرل شیتا نے مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ جنرل پرسیول نے 4 دن پھر دو اور آخر میں صرف ایک دن کی مہلت مانگی۔ جنرل شیتا نے کہا ’’ایک دن کیا ایک گھنٹہ بھی مہلت چاہئے تو اس دوران بھی بمباری ہوتی رہے گی۔ جنرل شیتا کی اس وارننگ پر جنرل پرسیول نے ایک لاکھ تیس ہزار برطانوی‘ آسٹریلین اور انڈین افواج کو سرنڈر کا حکم دے دیا۔ 15 فروری 1942ء کو ہونے والا یہ برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا سرنڈر تھا۔ جنرل شیتا کو معلوم تھا کہ اس کے پاس نفری کم ہے لیکن وہ جانتا تھا کہ دشمن کو فضائیہ کی مدد حاصل نہیں۔ جنگ عظیم دوم میں ہی جاپانی فوج کئی علاقوں کو تاراج کرتی ہوئی برما میں دو سو میل تک گھس آئی۔ جاپانی فوج کیما پہاڑی پر قبضہ کرکے آگے بڑھنا چاہتی تھی کہ اس دوران اتحادی فوج سامنے مورچہ بند ہو چکی تھی۔ اس فوج میں زیادہ تر انڈین فوجی تھے۔ کئی دن تک دونوں طرف سے غیر معاہداتی سیز فائر رہا۔ پھر ایک پلاننگ کے تحت 50 پچاس توپوں کی پانچ لائنیں 100 سو گز کا فاصلہ چھوڑ کر لگا دی گئیں۔ ان کا رخ جاپانی فوج کے زیر قبضہ پہاڑی کی طرف تھا۔ رات آٹھ بجے توپخانے کو فائر کھولنے کا حکم دیا گیا پہلی لائن کی توپیں خاموش ہوتیں تو دوسری‘ تیسری پھر چوتھی اور پانچویں لائن کی توپیں گولے برسانے لگتیں۔ یہ سلسلہ طلوع آفتاب تک جاری رہا۔ سورج نمودار ہوتے ہی بمبار طیارے ایک طرف سے اڑتے نظر آئے ان کا ٹارگٹ بھی کیما پہاڑی تھی۔ بمباری کرکے یہ جہاز اپنے مستقر تک پہنچے نہیں ہوں گے کہ اتنے ہی مزید آکر تباہی مچانے لگے۔ شام تک ہوائی حملے لگاتار ہوتے رہے۔ پانچ روز تک رات کو توپخانہ دن کو بمبار جہاز پہاڑی کے پرخچے اڑاتے رہے۔ چھٹے روز فوج پہاڑی پر گئی تو ہر طرف انسانی اعضا‘ گولوں اور بموں کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ 1944ء میں جاپان کو یہ تباہی دیکھ کر برما سے پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ برطانوی کمانڈر جنرل ویول کو علم تھا کہ جاپانی فوج کو سردست اس محاذ پر فضائیہ کی مدد حاصل نہیں۔ جنگوں میں کامیابی کیلئے پلاننگ سب سے اہم ہے۔ ہر محاذ پر کامرانی کیلئے پوزیشن اور سچوایشن کے مطابق منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضورؐ نے ہر غزوہ میں حالات کے مطابق منصوبہ بندی کی۔ سپورٹس مین سپرٹ کا تقاضا ہے کہ شکست کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اس سے سبق سیکھا جائے۔ یہ صرف کھیل کی حد تک ہے۔ جنگ میں ایسا نہیں۔ جنگ ہارنے کیلئے نہیں‘ صرف اور صرف جیتنے کیلئے لڑی جاتی ہے۔ یہ اپنی طرف سے دفاع ہو یا جارحیت‘ 71ء کی جنگ میں آدھا ملک جاتا رہا۔ اس شکست کا کوئی تو ذمہ دار ہے؟ جو ذمہ دار ہے وہ اب تک منظرعام پر کیوں نہیں لایا گیا۔ 1999ء میں سانحہ کارگل بھی کسی کی نالائقی‘ نااہلی اور پیشہ ورانہ سستی و کاہلی کے باعث رونما ہوا۔ مشرف کہتے ہیں کہ اس آپریشن سے وزیراعظم نواز شریف آگاہ تھے۔ بحث یہ نہیں کہ کون آگاہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ جن کے ذمے یہ مشن تھا۔ انہوں نے خود اپنے ذمے لیا یا کسی نے ذمہ لگایا اس میں ناکامی کیوں ہوئی؟ مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہمیں علم نہیں تھا کہ دشمن ایئر اٹیک کرے گا‘‘ ایک جرنیل کی طرف سے یہ کسی پلاننگ‘ مینجمنٹ اور پیشہ ورانہ صلاحیت ہے کہ دشمن کی طاقت اور مہارت کا اندازہ کئے بغیر مہم جوئی شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں مجاہدین اور فوجی شہید ہو گئے۔ بعض نے انتہائی بے چارگی میں جان دی۔ ان تک اسلحہ اور خوراک تک نہ پہنچائی گئی۔ وہ گھاس اور پتے کھانے پر مجبور ہوئے اور بالآخر اپنی بساط کے مطابق لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ مشرف ان کے خون کا قرض ادا کرنے کے بجائے تخت نشین ہوئے۔ کارگل سانحہ کا جواز پیش کرتے ہوئے مشرف نے کہا تھا کہ اس سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔ سانحہ کارگل کے باعث مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا تو قوم کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی تھی۔ ہوا یہ کہ مشرف کے احمقانہ اقدامات اور مجوزہ حلوں سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی اور دیرینہ موقف کو شدید نقصان پہنچا۔ مشرف دور کے اقوام متحدہ میں سفیر شمشاد احمد خان نے کہا ہے کہ مشرف نے انہیں اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ اگر یہ درست ہے تو ملک و قوم سے واضح اور صریح غداری ہے۔ بہرحال سانحہ مشرقی پاکستان اور کارگل کے جو بھی ذمہ دار ہیں وہ قابل معافی نہیں۔ سیاسی حکومتیں اپنے طور پر تحقیقات کریں۔ فوج کا اپنا احتسابی سسٹم ہے۔ وہ اسی سسٹم کے تحت فوج کی بدنامی کا باعث بننے والوں کو بے نقاب کرتے ہوئے عبرت کا نشان بنا دیں۔ خواہ کسی کو بیرون ملک سے پٹہ ڈال کر لانا پڑے یا قبر سے سرمہ بنی ہڈیوں کو نکال کر لٹکانا پڑے۔ مشرف کا یہ کہنا کہ ’’ہمیں علم نہیں تھا کہ دشمن ایئر اٹیک کرے گا‘‘ قابل گرفت ہے ایسے شخص کو جرنیل اور چیف ہونا چاہئے تھا؟

Monday, November 22, 2010

3-7-2010

2-7-10

بھوک سے مرنے والوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے 10-7-1


توہین رسالت اہلِ ایمان کیلئے ناقابل برداشت


 پیر ، 22 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
پاکستان میں عیسائی برادری سمیت تمام اقلیتیں نہایت بے ضرر اور پُرامن ہیں تاہم شرارتی اور شرپسند عناصر کمیونٹی میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے شرپسندوں کے کردار کو پوری کمیونٹی کے رویے کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح کوئی اقلیتی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل کو کسی برادری کے خلاف اشتعال قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ مسلمان اور سب کچھ تو برداشت کر سکتا ہے توہین رسالت قطعاً نہیں۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت توہین رسالت کی سزا موت ہے جس کی کوئی معافی اور تلافی ممکن نہیں۔ توہین رسالت کوئی بھی کرے مسلمان یا غیر مسلم سب کے لئے سزا ایک ہی ہے ۔۔۔ موت ! پاکستان میں توہین رسالت کی سزا موت ہونے کے باوجود آج تک کسی مجرم کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس ناقابلِِ برداشت جرم کا ارتکاب ہوتا ہے ملزم پکڑے جاتے ہیں، ٹرائل ہوتا ہے، سزا سنائی جاتی ہے۔ مقامی و غیر ملکی این جی اوز، میڈیا اور بااثر حلقے واویلا کر کے اور دباؤ ڈال کر فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے سزا کا معاملہ گول ہو جاتا ہے۔ توہین رسالت قانون سب سے زیادہ اقلیتوں کے مفاد میں ہے۔ اگر کسی پر اس کے ارتکاب کا الزام عائد ہوتا ہے تو معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں بے گناہ کو پھانسی کی سزا دے کر جج اپنے لئے جہنم کا راستہ ہموار نہیں کر سکتا۔ اگر توہین رسالت قانون ختم کر دیا جاتا ہے جس کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں تو شمع رسالتؐ کے پروانے قانون ہاتھ میں لینے سے گریز نہیں کریں گے۔ یہ بات مفروضے نہیں مشاہدے کی بنا پر کی جا رہی ہے۔ لوگ تو توہین رسالت کے مقدمات میں تاخیر پر بھی بے قابو ہو جاتے ہیں اس کی تازہ ترین مثال فیصل آباد میں 21 جولائی 2010ء کو توہین رسالت کے ملزموں رشید عمانویل اور سجاد عمانویل کا عدالت میں پیشی کے لئے جاتے ہوئے قتل ہے۔ اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے : احمد شیر نیازی نے اپنی جائیداد فروخت کی اور دیگر جمع پونجی کے ساتھ سب کچھ اپنے اہل و عیال کے حوالے کر کے میانوالی سے لاہور چلا آیا جہاں 10 اکتوبر 1997ء کو جسٹس (ر) عارف اقبال بھٹی کو ان کے چیمبر میں داخل ہو کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ جسٹس بھٹی نے سیشن کورٹ کی طرف سے سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو توہین رسالت کیس میں سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کر دیا تھا جس کے بعد دونوں جرمنی چلے گئے۔ رحمت، سلامت اور منظور مسیح پر گوجرانوالہ کے نواح میں مسجد کی دیوار پر توہین آمیز الفاظ لکھنے کا الزام تھا۔ 5 اگست 1994ء کو تینوں کو پیشی کے لئے جایا جا رہا تھا کہ فائرنگ سے منظور مسیح مارا گیا تھا۔ اب ننکانہ کی مسیحی خاتون آسیہ کو توہین رسالت کا مجرم قرار دیکر لوئر کورٹ نے سزائے موت سنائی ہے۔ آسیہ نے کھیتوں میں گھڑے سے پانی پینا چاہا، مسلم خواتین نے گھڑے کو ہاتھ لگانے سے منع کیا تو آسیہ نے توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ آسیہ کو سزا سنائی گئی تو افغانستان، عراق، فلسطین اور کشمیر میں لاکھوں انسانوں کے قتل، ہزاروں مسلمان خواتین کی بے حرمتی پر خاموشی اختیار کئے رکھنے والے پوپ صاحب بھی آسیہ کو بچانے کے لئے سامنے آ گئے۔ کسی کی لٹی عزت کی کمائی کھانے والی این جی اوز بھی پیچھے نہ رہیں۔ ایک فون پر ڈھیر ہو جانے کی روایت کو زرداری حکومت نے مزید مستحکم کر دیا۔ گورنر صاحب شیخوپورہ جیل گئے، سزائے موت کی قیدی سے ملاقات کی، اس کی سزا کی معافی کی درخواست پر دستخط کرا کے صدر کے پاس لے گئے۔ اگرچہ اس خاتون کے لئے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے پلیٹ فارم باقی ہیں۔ حکومت ابھی سے رہائی کے لئے بے چین اور بے تاب ہے۔ تحفظِ ناموس رسالت محاذ کے ترجمان ضیاالحق نقشبندی کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے مجرم کو تحفظ دینے والے بھی توہین رسالت کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔


Sunday, November 21, 2010

جنرل میک آرتھر .... اور ہمارا آج


فضل حسین اعوان ـ 12 جولائی ، 2010

 16 دسمبر 1971ئ کو جنرل عبد اللہ خان نیازی نے جس انداز میں بھارتی جرنیل اروڑہ سنگھ کے سامنے سرنڈر کیا وہ مسلم امہ کے ماتھے پر ایک داغ بن گیا۔ 90 ہزار فوجیوں کا اپنے ازلی دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک دینا اسلامی تاریخ کا المیہ ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے کہیں بڑے سرنڈر ہوچکے ہیں۔ جاپانی جنرل تویوموکی یاماشےتا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران سنگاپور اور ملایا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ملایا پر قبضہ کے باعث اسے ٹائیگر آف ملایا کا خطاب دیا گیا۔ 15 فروری 1942ئ کو جنرل یاماشےتا نے 30 ہزار فوجیوں کے زور پر برطانوی قیادت مےں لڑنیوالی ایک لاکھ 30 ہزار سپاہ کو قیدی بنالیا۔ ان قےدےوں میں برطانوی، ہندی اور آسٹریلین فوجی شامل تھے۔ برطانوی تاریخ کا یہ سب سے بڑا سرنڈر تھا لیکن تاریخ اسکے بعد اس سے بھی بڑے سرنڈر کی منتظر تھی۔ امریکی صدر ہیرو ٹرومین کے حکم پر جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم گرائے گئے۔ اگلا ٹارگٹ ٹوکیو تھا۔ وہ اس لئے بچ گیا کہ جاپان نے شکست تسلیم کرلی تھی۔ جاپانیوں سے امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے ہتھیار ڈلوائے۔ ہتھیار ڈالنے کی باقاعدہ تقاریب منعقد ہوتی تھیں۔ سب سے پہلی اور بڑی تقریب 2 ستمبر 1945ئ کو خلیج ٹوکیو میں لنگرانداز امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس میسوری پر منعقد ہوئی۔ اسے دنیا بھر میں نشر کیا گیا۔ اس تقریب میں سرنڈر کی دستاویزات پر جاپانی وزیر خارجہ ماموروشیگے اور جاپانی آرمی چیف جنرل یوشی میرو نے شکست قبول کرتے ہوئے دستخط کئے جبکہ فاتح جرنیل کے طور پر امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے دستخط کئے۔ اسکے بعد 54 لاکھ جاپانی بری اور 18 لاکھ بحری فوجیوں کو قیدی بنایا گیا۔ یہ ریکارڈ شاید قیامت تک برابر نہ ہوسکے۔ جنرل میک آرتھر کا جاپان کی شکست میں اہم کردار رہا۔ اسے امریکہ میں آج بھی دوسری جنگ عظیم کا ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔
جاپان کو فتح کرنے کے بعد وہ طویل عرصہ تک جاپان کے معاملات چلاتے رہے۔ ان کے تجربات کا فائدہ اٹھانے کیلئے انہیں جنگ کوریا میں شمالی کوریا کیخلاف عالمی فوج کی کمانڈ سونپی گئی۔ چین شمالی کوریا کی پشت پناہی کرتا تھا۔ جنرل میک آرتھر چین کی کوریا کی جنگ میں مداخلت روکنا چاہتا تھا۔ اس کیلئے اسکی تجویز تھی کہ ایک ایٹم بم چین پر بھی برسا دیا جائے۔ صدر ہیرو ٹرومین کے ضمیر پر شاید ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کا بوجھ تھا اس لئے کوشش تھی کہ جنگ بندی ہوجائے۔ دوسری طرف جنرل میک آرتھر نے ایوان نمائندگان کے اقلیتی لیڈر جو مارٹن کو خط لکھ کر صدر اور انکے ساتھیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور خود سے چین کو الٹی میٹم بھی دیدیا کہ وہ کوریا سے فوجی دستے نکالے یا امریکہ کے حملے کا سامنا کرے۔ یہ وائٹ ہاﺅس کی جنگ بندی کی کوششوں کو ایک دھچکا تھا۔ صدارتی اختیارت میں مداخلت اور فوج کی پیشہ ورانہ غیرجانبداری کی روایت کو توڑنے کی پاداش میں صدر ہیری ٹرومین نے جنرل میک آرتھر کو کوریا کی کمان سے فارغ کردیا۔ یوں امریکی فوجی ہیرو کا تابناک کیرئیر ناخوشگوار انداز میں اختتام کو پہنچا۔ جنرل مےک آرتھر 1951ئ کو امریکہ پہنچا تو اسکا فوجی ہےرو کے طور پر بھرپور استقبال کیا گیا۔ اس پر اس قدر پھول نچھاور کئے گئے کہ بلدیہ کو مسلسل تین روز تک صفائی کرنا پڑی۔ کانگریس نے جنرل میک آرتھر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی تو ان کی پذیرائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے 30 مرتبہ خطاب اس لئے روکنا پڑا کہ پارلیمنٹیرینز اپنی سیٹوں سے اٹھ کر کلیپ کرتے ہوئے اسے داد دیتے اور خراج تحسین پیش کررہے تھے لیکن ایک بھی سنیٹر یا کانگریس مین نے صدر کے امریکی ہیرو کیخلاف اقدام کی مخالفت نہیں کی۔ یہی ان کے جمہوری اداروں کی مضبوطی کی وجہ ہے۔ جمہوریت کیلئے وہ لوگ کمٹڈ ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اسکے برعکس ہے۔ بعض سیاستدان اپنے ذاتی مفادات اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جرنیلوں کے قدموں میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہی ڈگر رہی تو جمہوریت قطعاً مضبوط اور مستحکم نہیں ہوسکتی۔ جہاں مفاد پرست اور عوام کے ٹھکرائے ہوئے سیاستدان طالع آزماﺅں کو مہم جوئی پر آمادہ کرتے ہیں، وہیں حکمران بھی” اپنے کارناموں اور کمالات سے طالع آزمائی کا راستہ ہموار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ایسے میں ”عالمی قوتوں“ کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنے بندے آگے لانے کا موقع مل جاتا ہے۔ حکمران اگر مفاد عامہ کے کام کریں تو عوام کسی بھی آمریت کیخلاف جمہوری حکومت کے لئے ڈھال بن سکتے ہیں لیکن جب عوام ہی حکمرانوں کی پالیسیوں سے نالاں ہوں تو وہ حکومت الٹائے جانے پر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ ایوب خان، ضیائ الحق اور پرویز مشرف نے حکومتیں اس وقت الٹائیں جب عوامی نفرت ان حکومتوں کیخلاف زوروں پر تھی۔ آج بھی ملاحظہ فرمائیے، حالات ویسے ہی ہیں، عوامی نفرت پھر عروج پر ہے۔ آج کے حکمرانوں پر کوئی ستم ٹوٹا یا آفت آئی تو براہِ راست استفادہ کرنیوالوں کے سوا ماضی کی طرح ان کے حشر پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں ہوگا۔ آج بھی طالع آزمائی کے راستے مسدود کئے جاسکتے ہیں۔ حکمران عوامی مفادات کی پالیسیاں ترتیب دیں اور سیاستدان بلاامتیاز کسی بھی طرف سے متوقع مہم جوئی کیخلاف متحد ہوجائیں۔

ہماری سیکنڈ لائن ڈیفنس؟


 اتوار ، 21 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 11 گھنٹے 28 منٹ پہلے شائع کی گئی
اطالوی سامراجیت اور ادریس کی بادشاہت کے لیبیائی خوابیدگان کو معمر قذافی نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ دس بجے قبل از دوپہر جاگنا اور دوپہر کے کھانے کے بعد اڑھائی تین گھنٹے آرام کرنا لیبیا کے باشندوں کی خو، خصلت اور چلن بن چکا تھا۔ ان کے قیلولہ کے وقت بازار بند اور سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ کرنل قذافی نے ڈھیلے ڈھالے اور نشئی قسم کے لوگوں کو فعال اور ڈسپلنڈ بنا دیا۔ آج وہاں ہر باشندے کے لئے فوجی تربیت لازم ہے۔ کوئی انجینئر ہے، ڈاکٹر، سائنسدان، کسان یا مزدور ہر کسی کو کم از کم دو سال فوج کا حصہ رہنا ہوتا ہے۔ حالتِ جنگ اور جنگ کی صورت میں 5 سال تک فوجی خدمت لی جا سکتی ہے۔ فوجی تربیت کے آغاز کے لئے 20 سے 21 سال عمر کو معیار بنایا گیا ہے۔ جب عمر معیار کو پہنچتی ہے تو کوئی پیشے یا طالب علمی کے جس درجے میں بھی ہو اس کو سب ذمہ داریاں ایک طرف دھر کے تربیتی مرکز پہنچنا ہوتا ہے۔ بلا امتیاز مرد و خواتین۔ کرنل قذافی کا ذاتی محافظ سکواڈ لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ تمام کا تمام سکواڈ ۔۔۔ زیادہ تر سیاہ کالی اور حبشی لڑکیاں ہیں۔ 
اسرائیل مسلمان ممالک کے درمیان گھری ہوئی چھوٹی سی ریاست ہے۔ یہ ریاست بھی مسلمانوں سے ان کا خطہ چھین کر بنائی گئی ہے جس کی حدود میں امریکہ کا پروردہ، برطانوی ناجائز بچہ اضافہ کئے جا رہا ہے۔ اسے سوئے ہوئے مسلمانوں کا سامنا ہے جن کی کسی وقت بھی آنکھ کھل سکتی اور غیرت و ضمیر جاگ سکتے ہیں۔ اسرائیل نے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ہر بچے کو فوجی تربیت دینے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ پرائمری سے یونیورسٹیز کے فائنل ایئرز تک نشانہ بازی کا پیپر اور پریکٹیکل لازمی ہے اس میں 80 فیصد نمبر لئے بغیر طالب علم اگلی کلاس میں بیٹھ سکتا ہے نہ ڈگری مل سکتی ہے۔ 
برطانیہ امریکہ اور یورپ کے اکثر ممالک میں بھی ہر فرد کے لئے فوجی تربیت ضروری ہے۔ برطانیہ میں نیشنل کیڈٹ کور کا تصور پہلی جنگ عظیم کے دوران سامنے آیا۔ برطانیہ نے سیکنڈ ڈیفنس لائن قائم کرنے کے لئے یونیورسٹی کور تخلیق کی۔ طلبا کی تربیت کی جاتی اور رضا کارانہ خدمات پر مائل نوجوانوں کو افواج میں بھرتی کر کے محاذِ جنگ پر روانہ کر دیا جاتا تھا۔ بھارت میں بھی این سی سی تربیت لازمی اور یہاں این سی سی کیڈٹس کی تعداد 13 لاکھ ہے۔ تینوں افواج کے موجودہ سربراہان این سی سی کے کیڈٹ رہ چکے ہیں۔ 
پاکستان میں سیکنڈ لائن ڈیفنس‘ نیشنل گارڈز، پاکستان رینجرز، مہران فورس، فرنٹیر فورس اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی پر مشتمل ہے۔ ان کے اہلکاروں کی تعداد تین لاکھ ہے۔ ان میں سے اکثر آج فرسٹ لائن ڈیفنس کا کردار ادا کرتے ہوئے اندرون ملک حکومتوں کے قائم کردہ خود ساختہ محاذوں پر برسر پیکار ہیں۔ دراصل آج ہمارے پاس سیکنڈ لائن ڈیفنس نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایوب اور بھٹو دور میں لڑکے اور لڑکیوں کے کالجوں میں این سی سی کا انتظام ہوتا تھا۔ لمبے عرصہ سے یہ سلسلہ بند چلا آ رہا ہے۔ یہ کس نے بند کیا اور کیوں؟ اس کا کھوج لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہ ملک دشمنی پر مبنی اقدام تھا۔ 
پاکستان کو جس دشمن کا سامنا ہے وہ مکار اور عیار ہونے کے ساتھ ساتھ رقبے اور آبادی میں پاکستان سے کئی گُنا بڑا ملک ہے۔ اس کے روایتی اور غیر روایتی اسلحہ کے ذخائر بھی پاکستان کے اسلحہ کے مقابلے میں کئی گنا ہیں اس کے باوجود اس نے سیکنڈ لائن ڈیفنس کو مضبوط بنایا، ہم یہ کہہ کر سو رہے ہیں ع 
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی 
بے تیغ لڑنے کے لئے بھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ فرمانِ نبویؐ ’’اپنے گھوڑے تیار رکھو‘‘ تو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہمیں ضرورت پڑنے پر لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں سیکنڈ لائن ڈیفنس دستیاب ہونی چاہیے۔ دفاع کے معاملے میں غفلت، سُستی اور کاہلی جغرافیہ تک بدل ڈالنے پر منتج ہو سکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے نواز شریف کے 1998ء کے دھماکوں تک ہر حکمران نے حب الوطنی کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام پر کمپرومائز نہیں کیا۔ دفاعی معاملات میں بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ زرداری اور گیلانی حکومت طلبا کے لئے فوجی تربیت کا آغاز کر دیں تو کم از کم سیکنڈ لائن لائن دفاع خواندگی کی شرح کے برابر ہو سکتا ہے ہمیں فوراً لیبیا کی طرز پر ہر پاکستانی کیلئے فوجی تربیت لازم قرار دینی چاہئے۔


Saturday, November 20, 2010

عید۔ اور مافیاز


 ہفتہ ، 20 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
آج ہم عوام ذخیرہ اندوزوں، اجارہ داروں اور مافیاﺅں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ان کی مرضی، ضروریات کی کوئی چیز مارکیٹ میں آنے دیں، نہ آ نے دیں۔ کم آنے دیں یا زیادہ۔ کس چیز کی قلت کرنی ہے کس کی بہتات۔ کب اور کیسے۔ پھر ان کے ریٹ آسمان پر لے جانے ہیں، یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔ عوام میں اتحاد نہیں، مافیاز خود سرکار ہیں اس لئے کسی کا ڈر نہیں، عوام کی چمڑی ادھیڑے جارہے ہیں۔ کب تک؟ جب تک عوام میں اتحاد نہیں ہوگا۔ اپنے حقوق پر ڈاکے کا احساس نہیں ہوگا۔ اپنا حق حاصل کرنے کا شعور نہیں ہوگا۔ اجارہ داروں کے مذموم منصوبے ناکام بنانے کیلئے عقل سقراط اور حکمتِ بقراط کی ضرورت نہیں۔ تھوڑی سی مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔
عید قربان گزر گئی۔ کسی کی اچھی کسی کی بہت اچھی گزری۔ کئی نے گوشت کھایا اور سو کے عید گزاردی۔جن کے پیارے اس سال دہشت گردی کی وارداتوں اور دیگر واقعات میں بچھڑ گئے انہوں نے رو کے عید گزار دی۔ عید سے دو روز قبل تک شہروں کی منڈیوں میں جانور بیچنے والے مرضی کے ریٹ لگاتے رہے۔ گاہک ان کے رحم و کرم پر تھے۔ عید کے روز، اس سے دو قبل اور 
بعد بیوپاریوں کی دم پر گاہکوں کا پاﺅں آگیا۔ جس بکرے کا ریٹ20 ہزار مانگا جارہا تھا وہ 6سات ہزار میں بکا۔ گائے اور اونٹ کے ریٹ بھی گرگئے۔ جانور کے بیو پاری اوّل تو کوئی باقاعدہ مافیا ہیں نہیں۔ اگر ہیں تو ان کو حکومت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔اس لئے منڈی میں مندی ہوئی تو اپنا مال اونے پونے نکالنے پر مجبور ہوگئے۔ عوام کی قوت خرید پر چونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے ضربِ کاری لگا رکھی ہے اس لئے جانور سستے ہونے پر بھی ” پھڑ لﺅ پھڑ لﺅ“ نہیں ہوئی۔ خریداری ان لوگوں نے کی جو ریٹ گرنے کی امید پر ہاتھوں میں نوٹ تھامے بیٹھے تھے یا اجتماعی قربانی والوں نے۔اس مرتبہ دیکھا گیا کہ بیو پاری عید سے ڈیڑھ ہفتے قبل جس طرح ٹرکوں میں جانور لارہے تھے عید کے بعد جانوروں سے بھرے ٹرک واپس لے جارہے تھے۔ بیو پاریوں کوکوئی گھاٹا نہیں پڑا البتہ گزشتہ برسوں کی طرح اندھا دھند کمائی نہیں کرسکے۔ بیو پاری عموماً اپنے علاقوں سے جانور ادھار اٹھاتے ہیں۔ بیچ کر ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ جو جانور منافع میں گیا ٹھیک، جس کا ریٹ کم لگا وہ نہیں بیچتے واپس لے جا کر مالک کے حوالے کردیتے 
ہیں۔ خسارے میں وہ لوگ رہے جو ایک دو گائے اور چند بکرے چھترے پال کر لائے مندا دیکھ کر قصائیوں کا ریٹ بھی ملا تو آمین کہہ گئے۔ اگلے سال آخری دنوں میں خریداری کی منصوبہ بندی کرنے والے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے 16کروڑ میں سے 2 کروڑ افراد متاثر ہوئے، حکومت ان کی بحالی کیلئے ٹیکسوں سے 170ارب روپے اکٹھا کرناچاہتی ہے۔اس سے زائد امداد اندرون ملک اور بیرونِ ممالک سے وصول ہوچکی ہے۔اس سے کون بحال، کون خوشحال اور کون آباد ہوا، خدا بہتر جانتا ہے یا وہ جن کے گرد کہکشائیاں بکھر اور دمک رہی ہیں۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے بے شمار جانور شہروں میں لائے گئے اس لئے بہتات ہوگئی ۔اگلے سال بیوپاری سوچ سمجھ کر شہروں کا رخ کریں گے اور رواں سال کی کسر بھی نکالنے کی کوشش کریں گے۔
گو جانوروں کے بیوپاری باقاعدہ مافیا نہیں اور عوام بھی متحد نہیں، دونوں مجبور طبقات ہیں۔ تاہم مجبوراًہی سہی خریداروں نے بیو پاریوں کو حسب سابق دل کھول کر لوٹ مار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ موقع ملنے پر دونوں نے ایک دوسرے کی کھال اتارنے سے گریز نہیں کیا۔ عوا م اب شعوری طورپر تھوڑ ی سی ہمت کریں حکومتی سرپرستی میں لوٹ مار کرنیوالے مافیاﺅں کی خبر لیں۔ سب سے بڑا شوگر مافیا ہے۔ گڑ شکر کے استعمال کے دور میں شوگر کے مریض نہ ہونے کے برابر تھے۔ اگر کوئی مریض ہوتا تھا تو امیررئیس اور سیٹھ قسم کے لوگ، آج ہرتیسرا آدمی اس موذی مرض میں مبتلا ہے۔ اس مرض کی وجہ چینی کا استعمال ہی ہے۔ ہم چینی کی صورت میں لائنوں میں لگ کر یہ مرض خرید رہے ہیں۔اس کا استعمال بند کریں گڑ شکر بنائیں۔ اس سال شوگر مافیا نے کرشنگ سیزن لیٹ کردیا۔پرانا سٹاک سونے کے بھاﺅ نکالناچاہتے ہیں۔ زمیندار کسان کا شتکار مافیا پر چار حرف بھیجیں، خدا کا نام لیں۔ حویلی کے کسی کونے کھدرے میں پڑے بیلنے کی مرمت کرائیں۔ نئے خریدیں۔ جدید ٹیکنیک استعمال کریں۔ گڑ شکر کھائیں۔ عوام کو شوگر مافیا کے چنگل سے چھڑائیں۔ ذیا بیطس بیماری کو دور بھگائیں۔ شکر گڑ مارکیٹ میں وافر مقدار میں آگیا تو لوگ چینی کے استعمال سے اجتناب کریں گے۔ یہی ان کا اتحاد اور شوگر مافیا کیلئے زوال اور وبال ہوگا۔

Thursday, November 18, 2010

حج انتظامات اور معاملات


آ17 نومبر ، 2010
حج انتظامات اور معاملات
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 19 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
بلاتفریق عربی و عجمی، امیر و غریب، کالے اور گورے کے حرمین کی زیارت اور روضہ رسول پر حاضری ہر مسلمان کی دلی خواہش، آرزو تمنا اور حسرت ہے۔ ہر مملکت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کارِ خیر میں جو بھی ممکن ہو اپنے شہریوں کو سہولیات فراہم کرے۔ برونائی دارالسلام میں ہر شہری کو حج کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہر سال مخصوص تعداد میں شہریوں کو حکومت حج پر بھجواتی ہے۔ تمام اخراجات حکومت کے ذمے۔ گھر سے پک سے لے کر حج کے بعد گھر ڈراپ تک۔ حج کے لئے درخواست کی ضرورت نہ قرعہ اندازی کی۔ عمر میرٹ ہے سلسلہ اوپر سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ حکومت کے پاس ریکارڈ ہے اس کے مطابق اطلاع کر دی جاتی ہے۔ ملائیشیا میں نوجوانوں کو شادی کے لئے حاجی ہونا رواج ہے۔ حکومت فراخدلی سے سبسڈی فراہم کرتی ہے درخواست گزار پر بہت کم مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ غیر اسلامی ممالک بھی حج کرایوں میں کمی کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کرپشن اور کمشن کلچر نے حج اور عمرہ کے معاملات کو بھی نہیں بخشا۔ بے ایمانی، بددیانتی، کرپشن اور لوٹ مار کی بہتات ہے، وزارت مذہبی امور کے ذمہ داروں اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے ٹور آپریٹرز کے زائرین کے ساتھ تکلیف دہ و ہتک آمیز رویے اور سلوک کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں تو اذیت سے ذہن مائوف ہو جاتا ہے۔ یہ کیسے بدبخت اور کم بخت لوگ ہیں جن کو خُدا نے حج و عمرہ کے زائرین کی خدمت کا موقع فراہم کیا جس کو یہ نہ صرف گنوا رہے ہیں بلکہ وقتی مفادات کے لئے اپنی عاقبت برباد کر رہے ہیں۔ اپنا اور اپنی اولاد کے پیٹ کا دوزخ حرام سے بھر رہے ہیں۔ ہر سال حج انتظامات پر کھلی اور بھرپور تنقید ہوتی ہے۔ یقین دلایا جاتا ہے کہ اگلے سال اصلاح ہو گی لیکن معاملات میں بہتری کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اکثر ذمہ دار پہلے سے زیادہ حرام خوری کا تہیہ کر کے گھر سے نکلتے ہیں۔ رواں سال بھی ایسا ہی ہوا۔ سعودی عرب نے 4500 حج ویزے وزارت مذہبی امور کو فری دے دئیے۔ وزارت نے 20 ہزار سے 80 ہزار میں ٹور آپریٹرز کو فروخت کئے۔ انہوں نے مخصوص کوٹے کا تاثر دے کر 3 لاکھ میں فی ویزہ بیچ کھایا۔ سعودی سفارتخانے کو پتہ چلا تو تمام ویزے کینسل کر دئیے۔ اب ادائیگی کرنے والے وزارت اور اس کے کمائو پوتوں کا ماتم کر رہے ہیں… شہزادہ بندر بن خالد بن عبدالعزیز السعود نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا پاکستانی عازمین کی رہائش گاہوں کے حصول میں زبردست بدعنوانی ہو رہی ہے۔ سعودی حکومت حرم کے پاس جو رہائش گاہیں 35 سو ریال تک دے رہی تھی پاکستانی حکام نے انکار کر کے حرم سے پانچ 6 کلومیٹر دور اسی قیمت پر حاصل کی ہیں۔ گو وزارتِ مذہبی امور نے شہزادے سے منسوب خط کو جعلی قرار دیا ہے تاہم جو واردات ہوتی اس میں کوئی شبہ نہیں۔ وزارت اعتراف کرتی ہے کہ رہائش گاہیں واقعی دور ہیں ہم زائرین کو حرم تک لانے اور لے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ فراہم کریں گے لیکن اس وعدے پر عمل قطعاً قطعاً نہیں ہوا۔ پاکستان سے عموماً خواتین سمیت لوگ پچھلی عمر میں حج کے لئے جاتے ہیں۔ اندازہ فرمائیے وہ پانچ 6 کلومیٹر سے کیسے نمازوں کی ادائیگی کے لئے حرم کعبہ جاتے ہونگے… حج مشن کے ارکان وزارت مذہبی امور کے وزیر حکام اور دیگر وی آئی پیز کی خدمت میں مصروف جس کے باعث عازمین لاوارث پڑے ہیں ان کی کوئی نہیں سنتا۔ حج ایک مقدس فریضہ ہے جسے عاقبت نااندیش حکمران اپنے لئے پکنک سمجھ رہے ہیں۔ سعودی عرب کی دی گئی ڈیڈ لائن کے بعد بھی تاجدارانِ سیاست و حکمت نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو جدہ بھجوا دیا۔ سعودی حکومت نے رعایت اور رواداری سے کام لیتے ہوئے جہاز تو ضبط نہ کیا البتہ 46 لاکھ جرمانہ ضرور کرایا۔ پی آئی اے اپنا پورے سال کا خسارہ پورا کرنے کے لئے اپنے خنجر نشتر بھی زائرین اور عازمین پر آزماتا ہے۔ اس نیک کام کے لئے اپنے جہازوں میں اضافی سیٹیں لگائی جاتی ہیں اگر مدعا کمائی نہ ہو تو کرایہ کم ہونا چاہئے لیکن یہ پرانا کرایہ برقرار رکھنے کے بجائے مزید بڑھا دیتے ہیں۔ پیسے میں کشش ضرور ہے برکت اور رحمت صرف حلال کمائی میں ہے۔ حرام کمائی سے تعمیر شدہ مکان گھر نہیں جہنم کا ایک تنور ہے۔ اس گھر میں کہکشائیں نہیں بلائیں اترتی ہیں حرام کا لقمہ کھانے والی اولادیں اور اہل خانہ دل دماغ اور شکم کبھی سلامت نہیں رہتے۔ اللہ کی لاٹھی ضرور برستی ہے جس کا شاید دوسروں کا حق کھانے اور ان کو اذیت میں مبتلا کرنے والوں کو احساس نہیں ہوتا۔ حج زائرین کو لوٹنے اور ان کو اذیت میں مبتلا کرنے والوں کو ڈوب مرنا چاہئے۔ ان کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہئے لیکن ایسا کون کرے گا جہاں تو اعلیٰ ایوانوں تک حصہ وصول کیا جاتا ہے امید کی ایک کرن صرف عدلیہ رہ جاتی ہے جس کی حکمران ایک نہیں چلنے دیتے۔ آئیے ان کے لئے راہِ راست پر آنے یا خدا کا غضب اور قہر ٹوٹنے کی دعا کریں لیکن ہاتھ وہ اٹھائیں جن کے اپنے دامن آلودہ نہ ہوں۔ یاد رہے وزیر حج صاحب جبہ و دستار ایک ملتانی مولانا ہیں۔ اللہ کرے اب وہ استعفٰی دیدیں۔ اور اللہ اللہ کریں۔

Tuesday, November 16, 2010

و ژ ن

منگل ، 16 نومبر ، 2010:

فضل حسین اعوان ـ 13 گھنٹے 51 منٹ پہلے شائع کی گئی
بغداد کی جامع مسجد میں داخل ہو کر ایک شخص سوئے ہوئے مسافروں میں کسی کو تلاش کر رہا تھا۔ فرزندِ مکہ امام شافعیؒ مسجد میں اپنے دو شاگردوں کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔ آپ نے مشعل بردار کو یوں کسی کو ڈھونڈنے میں سرگرداں پایا تو ربیع بن سلمان سے کہا کہ اجنبی سے پوچھو اس کا حبشی غلام تو گُم نہیں ہو گیا جس کی ایک آنکھ ناقص ہے۔ اجنبی نے ربیع کا سوال سنا تو حیران ہو کر امام شافعیؒ کے پاس چلا آیا اور عرض کی کہ آپ کو علم ہے تو بتا دیجئے مجھے میرا غلام کہاں ملے گا؟ امام نے فرمایا کسی قید خانے میں ہو گا۔ یہ شخص عجلت میں اپنے غلام کی تلاش میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو غلام اس کے ساتھ تھا۔ اس نے امام کا شکریہ ادا کیا اور امام صاحب کے شاگردوں کو ششدر اور حیرت زدہ چھوڑ کر چلا گیا۔ اسمٰعیل بن یحیٰی مزنی نے بڑی بے تابی سے پوچھا استاذِ مکرم ماجرہ کیا ہے؟ یہ سب آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ امام شافعی نے زیر لب مسکراتے ہوئے فرمایا ’’وہ شخص صرف سیاہ فام حبشیوں میں ہی کسی کو تلاش کرتے ہوئے ہر ایک کی بائیں آنکھ پر روشنی ڈال رہا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس کا بائیں آنکھ میں نقص والا حبشی غلام غائب ہے… جب غلام بھوکا ہوتا ہے تو چوری کرتا ہے۔ پیٹ بھرا ہو تو بدکاری۔ دونوں صورتوں میں جو بھی ہو مقدر قید ہی ہوتا ہے‘‘۔ یہ حضرت امام شافعیؒ کا وژن تھا۔ حالات کا جائزہ لیکر نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت۔ ہمارے حکومت ساز اور آوارہ باز اس اہلیت سے بالکل عاری ہیں یا اتنے جینئس کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے منطقی نتیجے کو بدل دینے پر قادر۔ اگر دوسری بات درست ہے تو ان کو انسان دشمن مافوق الفطرت تسلیم کر لینا چاہئے۔ جن کو اپنے مفادات کے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کو آج سے غرض ہے آنے والے کل کی فکر نہیں۔ اکثر اسلامی ممالک میں بادشاہتیں رائج ہیں۔ حکمرانوں کے خلاف تحریکیں بہت کم نظر آتی ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ لوگ خوشحال ہیں اس لئے حکمرانوں سے خوش ہیں۔ شہر سے سینکڑوں میل دور پہاڑیوں میں بھی چار پانچ گھر ہیں تو ان تک سڑک پانی بجلی اور گیس کی سہولت پہنچا دی گئی ہے، تعلیم اور صحت کی فری سہولت ہے۔ بیروزگاری کی صورت میں حکومت تعاون کرتی ہے۔ یوں عوام اور حکمرانوں کے مابین اعتماد اور دوستی کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں اتنا عرصہ بھی نہیں نکال پاتیں جتنا دودھ کو جاگ لگانے کے بعد دہی بننے تک لگتا ہے کہ غیر مقبول ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب زمام اقتدار نالائقوں نااہلوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھ میں آ جانا ہے جو بالکل VISION LESS ہیں۔ آج کے حکمرانوں کے کارنامے قوم کے سامنے ہیں۔ بجلی تیل گیس کی قیمتیں امور مملکت چلانے کے لئے بڑھا دی جاتی ہیں اس کے باوجود کہ ان کی قلت بھی ہے۔ ان کی وافر پیداوار کے لئے کوئی طویل المدتی پالیسی نہیں ہے۔ بیرونی دوروں کی بھرمار ہے۔ عدلیہ کے ساتھ مستقل محاذ آرائی۔ اربوں کے قرضے معاف، کھربوں کی کرپشن کی کہانیاں، عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت پر ٹیکسوں میں اضافہ، عوام کے لئے کوئی ریلیف نہیں تمام وسائل حکمرانوں کے عزیز و اقارب اور دوستوں کے لئے۔ عام آدمی ایسے اندازِ حکمرانی پر مشتعل ہے۔ اس کے باوجود ایک بار پھر تیل اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا اب فلڈ ٹیکس آر جی ایس ٹی لگانے کی تیاری۔ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی نے بھرپور مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم نفاذ کے لئے ’’پرعزم‘‘ اور سرگرم۔ کل کہا کہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں تمام وزرائے اعلیٰ نے ٹیکسوں کے نفاذ کی حمایت کی تھی۔ ایم کیو ایم اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔ آج کہہ رہے ہیں کہ ریفارمڈ جی ایس ٹی پر سب کو راضی کر لیا مسلم لیگ ن بھی مخالفت نہیں کرے گی۔ جبکہ اپوزیشن اور تمام اتحادی پارٹیاں بدستور فلڈ ٹیکس اور آر جی ایس ٹی کے نفاذ کی حمایت پر تیار نہیں۔ حکومت کے مجوزہ ٹیکس نافذ ہوئے تو مہنگائی کے طوفان میں مزید اضافہ ہو گا۔ جو شاید عوام کی برداشت سے باہر ہو اور عوام طوفان بن کر سب کچھ بہا کر لے جائیں اس کا اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی پارٹیوں کو تو ادراک ہو گیا ہے۔ سب کچھ سمیٹنے اور لپیٹنے کی بے پایاں خواہش رکھنے والوں کی آنکھ پر مفادات اور آئی ایم ایف کی ہدایات کی پٹی بندھی ہے۔ آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ آر جی ایس ٹی نافذ نہ ہوا تو تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کی مزید قسطیں نہیں ملیں گی۔ اس بڑی رقم کے حصول کے لئے حکمران پارٹی مرے جا رہی ہے، پاگل ہوئے جا رہی۔ اندازہ کیجئے حکمرانوں میں وژن کا فقدان ہے یا عوام کی کھال کھینچ کر اپنے اکائونٹس بھرنے کا ہیجان۔

دو قومی نظریہ… اور سیکولرزم (آخری قسط


 15-11-10

فضل حسین اعوان ـ 1 دن 14 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ رہبرانِ قوم اور ان کی قیادت میں آزادی کیلئے جانیں، عزتیں اور آبروئیں قربان کرنیوالوں کے ذہن میں پاکستان کے سیکولر سٹیٹ ہونے کا خاکہ نہیں موجود ہو گا۔ ایسا ہوتا تو قرار داد مقاصد اور 1973ء تک بننے والے ضوابط یا آئین بھی سیکولرزم کی عکاسی کرتے۔73ء کے آئین میں واضح لکھا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن اور سنہ کی تعلیمات کے برعکس نہیں بن سکتا۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ نظریہ پاکستان اور اسلامی نظریہ کے الفاظ یحییٰ کے دور حکمرانی میں متعارف ہوئے۔ مطالعہ پاکستان پرائمری سطح سے نصاب کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ عرصہ سے مطالعہ پاکستان گریجوایشن نصاب میں بھی شامل ہوچکا ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جن لوگوں نے پاکستان کے تعلیمی اداروں کی شکل تک نہیں دیکھی ان کو نظریہ پاکستان سے کیا آگاہی ہو سکتی ہے؟ وہ اپنے گھر سے حاصل کردہ تعلیم کو ہی کنوئیں کے مینڈک کی طرح کل کائنات سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا نامکمل علم ہی ان کی جہالت ہے وہ اسی جہالت کے اندھیرے میں پوری قوم کو دھکیل دینا چاہتے ہیں۔
گو قیام پاکستان کے حوالے سے چودھری رحمت علی کا ایک متنازعہ کردار ہے۔ انہوں نے قائداعظم کے بارے میں بڑی یاوا گوئیاں کی ہیں تاہم نظریہ پاکستان کا لفظ پہلی مرتبہ چودھری رحمت علی نے 1934ء میں استعمال کیا تھا۔ 
The effect of Pak-Ideology on the myth of Indian unity has been devastating. It has destroyed the cult of uni-nationalism and uni-territorialism of India and created instead the creed of the multi-nationalism and multi-territorialism of "Dinia" (South Asia).
)Pakistan - The Father Land of the Pak Nation. By: Ch. Rehmat Ali, P:205 )
ہندوستانی وحدت کے موہوم راز پر پاک آئیڈیالوجی کے بہت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے وحدانی علاقائیت ، وحدانی قومیت کے عمومی تصور کو ختم کر دیا اور اس کے بجائے کثیر القومیت اور کثیر علاقائیت یعنی دینیہ (جنوبی ایشیا) کے تصور کو پروان چڑھایا۔
سیکولر نظریات کے حامل لوگ نہ جانے قائدِ اعظم سے یہ کیوں منسوب کر دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے حالانکہ یہ کوئی ٹھوس دلیل اور حوالہ نہیں دیتے۔ آئیے قائداعظم کی تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
It is by our own dint of arduous and sustained efforts that we can create strength and support our people not only to achieve our freedom and independance but to be able to maintain it and live according to Islamic ideals and principles.
Pakistan not only means freedom and independance but the Muslim Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and treasure and which we hope other will share with us.
(Ref.:Some recent speeches and writing of Mr.Jinnah. Published By: Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1947. Page:89. )
ہم اپنی سخت اور پیہم جدوجہد کے ذریعے قوت بہم پہنچا سکتے ہیں ، ہم نہ صرف آزادی کے حصول کیلئے اپنے لوگوں کی معاونت کر سکتے ہیں بلکہ ہم انہیں اس قابل بھی بنا سکتے ہیں کہ وہ اس کو قائم رکھیں اور اسلامی آدرش اور اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔
پاکستان کا مطلب محض آزادی نہیں ہے، اس کا مطلب مسلم آئیڈیالوجی بھی ہے جس کا تحفظ کیا جانا باقی ہے، جو ہم تک ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر پہنچا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دوسری (اقوام) بھی اس میں حصہ دار بن سکتی ہے۔
اسلام دشمن طبقہ نے جب قائد پاکستان کی ایک تقریر کا من چاہا مفہوم اخذ کرتے ہوئے یہ منفی پروپیگنڈا شروع کیا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا... تب قائد پاکستان نے بھرپور انداز میں اس شرانگیزی کی مذمت کی تھی۔
25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد پاکستان نے فرمایا تھا :
میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا، جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلمانوں کو بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے۔
علاوہ ازیں قائد پاکستان نے 4 فروری 1948ء کو سبی میں خطاب کے دوران یہ واضح ترین الفاظ بھی ارشاد فرمائے:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر ہے جو ہمارے عظیم واضعِ قانون پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں یہ فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔
قائد کی حیات کا تجزیہ کی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قائدِاعظم پاکستان کو ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے ان تمام تر جدوجہد اسی مقصدکیلئے تھی، قوم بھی یہی چاہتی تھی لیکن عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے جو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔


Sunday, November 14, 2010

دو قومی نظریہ.... اور سیکولر ازم


اتوار ، 14 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 17 گھنٹے 54 منٹ پہلے شائع کی گئی
پاکستان کس بنیاد پر معرض وجود میں آیا؟ اس کا آسان اور سادہ جواب ہے۔ دو قومی نظریہ، پاکستان کی تعبیر اور تعمیر میں دوقومی نظریے کا عمل دخل نہ ہوتا تو پاکستان بھی قائم نہ ہوتا، نہ علامہ اقبال خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کرتے اور نہ آگے چل کر قائد اعظم کو لندن سے پاکستان آ کر مسلمانوں کی قیادت کرنے پر آمادہ کرتے اور نہ ہی تحریک آزادی میں جان پڑتی۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان کیسے تعمیر ہو جاتا؟ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ کو اگر نظریہ پاکستان کہہ دیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ دو قومی نظریہ ہی نظریہ پاکستان ہے۔ بانیانِ پاکستان کے بارے میں منفی سوچ رکھنے والوں کو ”نظریہ پاکستان“ دو لفظوں کے مجموعے سے خار اور چڑ ہے۔ ہر شخص اپنی کوئی بھی رائے قائم کرنے میں بالکل آزاد ہے لیکن ہر قسم کی رائے کے اظہار میں وہ ہر قسم کی آزادی انجوائے نہیں کر سکتا۔ مثلاً اکابرین دین و ملت اور بانیانِ پاکستان کے بارے میں کسی کے ذہن میں کوئی خبث ہے تو اس کا سر عام اظہار اگر وہ اپنا حق قرار دے گا تو اکابرین اور بانیان سے محبت کرنے والے بھی انتہائی اقدام کے لئے خود کو آزاد سمجھتے ہیں اور اپنے عمل پر بخوشی پھانسی کے پھندے کو بھی چوم لیتے ہیں۔
اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے مغربی پاکستان سے الگ ہونے پر کہا تھا، آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے، اندرا کی سوچ حقیقت کے بالکل برعکس تھی۔ اگر دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہوتا تو حالات 14اگست1947ءسے قبل کی پوزیشن کی طرف لوٹ جاتے۔ مغربی پاکستان کی عمارت بدستور دو قومی نظریے پر قائم ہے۔ مشرقی پاکستان کا خمیر بھی چونکہ اسی نظریے اٹھا تھا وہ بنگلہ دیش بن کے بھی آزاد اسلامی ملک کے طور پر موجود ہے۔ بھارت کا باجگزار نہیں ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی اپنی جگہ آزاد اسلامی ممالک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں ہر طرف مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الا اللہ کے نعرے گونجتے تھے۔ قائد اعظم نے ایک بار نہیں کئی بار قیام پاکستان کے مقاصد واضح کئے تھے۔ قائد نے 13جنوری1948ءکو اسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں حصول پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں“۔ بدقسمتی سے قوم کی رہنمائی کے دعوے داروں نے پاکستان کو کرپشن اور کمیشن کی تجربہ گاہ بنا لیا اور یہاں ایک ایسے بدبخت طبقے نے بھی جنم لے لیا جو ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی نہیں سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے، سیکولر ازم کے پرستاروں نے سیکولرازم کو پرکشش بنا کر عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
.1 انسان آزاد ہے، جب، جس طرح، جس کو چاہے پوجے۔جس طرح نماز، روزہ، زکوة، حج عبادات ہیں اسی طرح بت پرستی بھی ایک عبادت تصور کی جائے گی۔
.2 انسان آزاد ہے، جس میں موقع پر جو رسومات چاہے ادا کرے۔
.3 مرد و عورت ہر لحاظ سے برابر ہیںبے حیائی کی صرف وہ تعریف لاگو ہو گی جو ریاستی اسمبلی سے منظور شدہ ہو گی ہر وہ تعلق جسے ملکی قانون شادی کہے شادی کہلائے گا۔
.4 ہر شخص اپنی دولت کا خود مالک ہے اور آزاد ہے جس طرح چاہے خرچ کرے، سودی لین دین، جوا اور سٹہ میں سے جسے پارلیمنٹ جائز کہے وہ جائز ہو گا۔
.5 آئین اور اجتماعی ریاستی قوانین کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، کسی مذہب کو اجتماعی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہو گی۔
.6 ہر فرد آزاد ہے جو چاہے عقیدہ رکھے، ایک اللہ کو مانے یا بہت سے خدا مانے، یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔کسی دوسرے کو دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔
(جاری ہے)


Saturday, November 13, 2010

درگزر

: ہفتہ ، 13 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 20 گھنٹے 7 منٹ پہلے شائع کی گئی
حضرت عمرؓ کی محفل میں دو نوجوان داخل ہوئے اور ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا ”یہ ہمارے والد کا قاتل ہے“ حضرت عمرؓ نے پوچھا تو اس شخص نے اعتراف کر لیا، حضرت عمر نے فرمایا ”پھر تو قصاص میں تجھے بھی قتل کیا جائے گا“۔ عام شخص سے ملزم، پھر مجرم اور قاتل بننے میں صرف چند لمحے لگے ہوں گے۔ مجرم نے خلیفہ رسول کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا تاہم تین دن کی مہلت اور اجازت مانگی کہ صحرا میں زمین کے فرش پر اور آسمان کی چھت تلے زندگی کی تلخیوں سے نبرد آزما وفا شعار بیوی اور معصوم بچوں کو بتا آﺅں کہ میں قتل کر دیا جاﺅں گا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا ”کوئی ضمانتی دے جاﺅ“ اسے تو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ پھر ضمانت کون دیتا۔ یہ کوئی درہم و دینار کی ضمانت نہیں تھی۔ جان اور 
زندگی کی ضمانت تھی۔ صحابہ کرامؓ کی محفل پر خاموشی طاری ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے نوجوانوں سے کہا کہ اسے معاف کر دو نوجوان نے معاف کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد خلیفہ دوم نے مجمعے سے پوچھا ”کوئی ہے جو اس اجنبی کی ضمانت دے“۔ حضرت ابوذر غفاریؓ بڑھاپے کے باعث بھی بڑے وقار سے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا ”ہاں میں اس کی ضمانت دیتا ہوں“.... حضرت ابوذرؓ کی ضمانت پر اس شخص کو چھوڑ دیا گیا۔ تین دن گزرے۔ شام ڈھل رہی تھی۔ اجنبی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ سزا کا مکمل اہتمام ہو چکا تھا۔ وہ نہیں تو ابوذرؓ کی گردن تن سے جُدا ہونا تھی۔ حضرت ابوذرؓ، حضرت عمرؓ کو دل و جان سے زیادہ عزیز تھے لیکن معاملہ ”این آر او“ کا نہیں انصاف کا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی نظریں مغرب کی طرف ڈوبتے سورج کی طرف تھیں، آج سورج کچھ زیادہ جلدی میں غروب ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ شام کے سایوں کی طرح مایوسی اور ناامیدی کے سائے بھی پھیل رہے تھے۔ یہ اس شام اور سزا پر عملدرآمد کا آخری لمحہ تھا کہ اہل مدینہ نے دور سے اٹھتی ہوئی گرد دیکھی جو انہی کی طرف آ رہی تھی۔ گرد کے بادلوں سے وہی اجنبی نمودار ہوا جو اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑاتا ہوا ان تک آ پہنچا۔ گھوڑے سے اترا اور اپنا سر قلم ہونے کے لئے پیش کر دیا۔ 
حضرت عمرؓ نے دھول اور مٹی میں اٹے اجنبی سے پوچھا ”اگر تو لوٹ کر نہ آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا؟“ اجنبی نے جواب دیا میں اپنے بچوں کو پرندوں اور چوزوں کی طرح صحرا میں تن تنہا چھوڑ آیا ہوں وہاں نہ سایہ ہے نہ پانی۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے وعدوں کا ایفا اٹھ گیا ہے.... ہم بھی اسی رسول کے امتی ہیں جس کا یہ اجنبی امتی تھا۔ وہ اجنبی وعدے کی خاطر اپنے اہل و عیال کو صحرا میں بے یار و مددگار چھوڑ کر خود کو قتل کرانے کےلئے چلا آیا۔ ہمارے اکابرین ریاست و سیاست جن کی شان و شوکت، عظمت و شکوہ اور مال و دولت دین حق اور پاکستان کی مرہونِ منت ہے۔ وعدوں سے مکر جاتے ہیں حالانکہ وعدوں پر عمل کرنے سے ان کی جان کو کوئی خطرہ ہے نہ اہل و عیال کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال۔ بھٹو صاحب کے روٹی کپڑا اور مکان کے وعدے۔ ضیا کے 90 دن میں الیکشن، بینظیر نوازشریف کے غربت کے خاتمے، مشرف کے 31 دسمبر 2004 کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے، زرداری کے ججوں کی بحالی کے ایسے وعدے ہیں جن کی ان لوگوں نے مٹی پلید کر کے رکھ دی۔ وزیراعظم گیلانی ہر صبح اٹھ کر قوم سے نیا وعدہ کرتے اور رات کو اس کی دھول اڑا کر سوتے ہیں۔ 
حضرت عمرؓ نے دوسرا سوال حضرت ابوذر سے کیا کہ ”آپ نے کس بنا پر ضمانت دی تھی؟“ جواب تھا مجھے ڈر تھا کوئی یہ نہ کہہ دے کہ دنیا سے خیر اٹھا لی گئی ہے.... ہمارے ہاں خیر اٹھنے اور احسان فراموشی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ غلام محمد نے ان کو گورنر جنرل بنانے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت الٹا دی سکندر مرزا سے اقتدار ایوب خان نے چھینا ایوب کو مرزا نے ہی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا تھا۔ بھٹو کو ان کے تراشے ہوئے صنم ضیاءالحق نے پھانسی لگائی، مشرف اپنے محسن نواز شریف پر چڑھ دوڑے، فاروق لغاری نے بہن کہہ کر محترمہ بینظیر بھٹو کی چھٹی کرادی۔
حضرت عمر نے مقتول کے بیٹوں سے پوچھا اب کیا چاہتے ہو دونوں نے روتے ہوئے جواب دیا کہ ہم نے اسے معاف کردیا۔۔اس ڈر سے کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ دنیا سے عفو درگزر کو اٹھا لیا گیا.... ایوب خان نے سکندر مرزا، مشرف نے نواز شریف کو جلا وطن اور ضیاءالحق نے بھٹو کو پھانسی لگاتے وقت عفو درگزر سے کام نہیں لیا۔ تاہم شاہ دولوں کو محترمہ بینظیر بھٹو کی قربانی اور خون تخت تک لے آیا۔انہوں نے یہاں محترمہ کی وصیت پر بھرپور طریقے سے عمل کیا وہیں محترمہ اور نواز شریف کے میثاق جمہوریت کو بھی مقدس دستاویز قرار دے کر غلاف چڑھایا اور اتنی اونچائی پر رکھ دیا کہ کسی کا ہاتھ نہ پہنچ سکے، تاکہ اس مقدس میثاق کی بے حرمتی نہ ہو۔ محترمہ کے قتل کی تحقیقات کی ذمہ داری اپنے ماتحت ”نااہل اداروں“ کے کندھوں سے اتار کر اقوامِ متحدہ کے حوالے کردی۔ شوہر نامدار کہتے ہیں انہیں قاتلوں کا علم ہے لیکن کسی کو بتانے کے بجائے غیر ملکی اداروں کو تحقیقات کیلئے کروڑوں ڈالر ادا کردئیے گئے۔ محترم جمہوریت کو ہی بہترین انتقام قرار دیتے ہیں۔ محترمہ نے یہ فقرہ نجانے کس تناظر میں کہا تھا تاہم ان کے جانشینوں کو اسے محترمہ کے قتل پر ہی صاد کردیا۔

Friday, November 12, 2010

مسٹر ریما

جمعۃالمبارک ، 12 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان
اوورسیز ایمپلائیمنٹ کارپوریشن OEC کا ڈسا ہوا نوجوان اپنی بپتا سنا رہا تھا۔ اس نے بھی جنوبی کوریا جانے کے سہانے خواب دیکھے تھے۔ لاہور سے دوست کو ساتھ لے کر اسلام آباد گیا۔ سامنے والی کھڑکی سے فارم حاصل کرنے کی کوشش کی جو مقررہ قیمت 200روپے میں کسی کو ملتا تھا کسی کو نہیں۔ تاہم پچھلی کھڑکی سے دو ہزار میں دستیاب تھا۔ اس کھڑکی سے فارم حاصل کرنے کی مقررہ تاریخ گزر جانے کے بعد بھی سہولت بہم پہنچائی جاتی رہی۔ اس نوجوان نے دو ہزار کا فارم لیا۔ درخواستیں جمع کرانے والے بے شمار، نوکریاں محدود، اکثر شارٹ کی تلاش میں، اس کو بھی تین لاکھ روپے میں شارٹ کٹ مل گیا۔ سات آٹھ سو لوگ ویزے لگوا کر چلے گئے، پندرہ ہزار کے قریب کی باری نہ آئی۔ مذکورہ نوجوان کو شارٹ کٹ دکھانے والے ملے، نہ باہر جانے کے کاغذات اور نہ ہی اس راہ میں خرچ ہونیوالے تین لاکھ روپے۔ دو اڑھائی سال سے یہ نوجوان قرض اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ لاری اڈے پہنچے تو نوسر باز اس کے ساتھی کی جیب خالی کر گیا۔ پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے کچی رپورٹ درج کی اور تسلی دے کر وداع کر دیا۔ ان کے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ اگلے روز موبائل اونے پونے فروخت کیا اور ریلوے سٹیشن چلے آئے۔ شاید قدرت کو ان کی حالت پر ترس آ گیا۔ نوسر باز پر ان کی نظر پڑی تو اسے قابو کر لیا۔ تھانے لے جانے لگے تو دیگر نوسرباز بھی صلح کے لئے سرگرم نظر آئے۔ سادہ لوح لاہوریوں کو بتایا گیا کہ تھانے جائو گے تو آپ کے ہاتھ کیا آئے گا، اپنا نقصان پورا کر لو۔ نوسرباز نے منت کی، قسمیں کھائیں۔ لاہوریوں کو کچھ کچھ یقین آ گیا۔ ڈوبی رقم برآمد ہوتی نظر آ رہی تھی۔ وصولی کے لئے اسے رکشے میں بٹھایا ۔ ارد گرد دونوں بیٹھ گئے۔ نوسر باز جس نے نوسر بازی فراڈ اور دھوکہ دہی چھوڑنے کی قسمیں کھائی تھیں، نے ایک گھر کے سامنے رکشہ رکوایا۔ لاہوریوں سے کہا دروازے پر رکیں، میں 27ہزار روپے لے کر یوں آیا یہ دروازے پر منتظر مجرم رہے۔ اس نے آنا تھا نہ آیا۔ ان کے ساتھ وہ ہو گیا کہ دیہاتی نے چور پکڑا اور رات کو ہی اسے لیکر تھانے کی طرف چل پڑا راستے میں چور نے کہا میری چادر آپ کے گھر رہ گئی ہے تم یہیں رکو میں لے کر آتا ہوں۔ دیہاتی نے کہا جائو جلدی آنا… دو چار ماہ بعد پھر وہی چور پکڑا گیا صاحبِ خانہ پھر عازمِ تھانہ ہوئے۔ راستے میں چور نے پھر کہا کہ چادر آپ کے گھر رہ گئی ہے۔ اس کی بات پوری ہونے سے قبل دیہاتی بولا تم دغا باز ہو پچھلی بار چادر لینے گئے اور واپس نہ آئے۔ مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے! اب میں تمہیں نہیں جانے دونگا۔ اب تم یہیں رکو میں جا کے چادر لے آتا ہوں… اسلام آباد اور پنڈی میں لٹنے والے نوجوانوں کی خوش قسمتی یا بدقسمتی لاہور بس سٹینڈ پر ان کے ہتھے وہی پنڈی وال پھر چڑھ گیا۔اب وہ اس کی باتوں میں نہ آئے اور اسے پولیس کے پاس لے گئے۔ بے ہوش کرنیوالی ٹافیاں اور سپاریاں برآمد ہوئیں۔ پنڈی وال چالاک تھا الٹا ’’این آر او‘‘ مدعی پر ڈال دیا۔ پولیس جو زبان سمجھتی ہے ان کے پاس تھی نہیں یوں یہ اندر اور نوسر باز بری۔ آپ یوں سمجھئے کہ لاہوریے عوام ہیں اور پنڈی وال حکمران، پولیس کا کردار وہی ہے جو اس کا تھا اور ہے۔ ایک واقعہ فیاض قادری نے تحریر کیا۔ خواجہ سرا نے خیرات کیلئے آواز لگائی۔ خاتون خانہ نے 20 روپے دے کر رخصت کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہی خواجہ سرا پھر آ گیا۔ خاتون نے پوچھا ’’اب کیا لینا ہے؟‘‘ مسٹر ریما نے خاتون کے سوال کا جواب مزید سوال کی صورت میں دیا ’’بی بی جی! آپ نے مجھے کتنے روپے دیئے تھے؟‘‘ خاتون نے کہا’’20 روپے‘‘ اس پر ریما نے 5 ہزار کا نوٹ خاتون کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا’’پھر یہ رکھ لیںآپ نے یہ نوٹ دیا ہے‘‘ خاتون نے شکریے کے ساتھ نوٹ تھام لیا اور انعام کے طور پر اسے دو تین سو روپے دینے کی کوشش کی۔ خواجہ سرا نے کہا ’’نہیں بی بی جی، صرف 20 روپے دیجئے۔ یہی میرا حق ہے۔ میں مانگتا ضرور ہوں اپنی دیانتداری نہیں بیچتا ‘‘ فراڈیوں، دھوکے بازوں کمشن ماروں کی دنیا میں ایماندار اور دیانت دار لوگ بھی موجود ہیں۔ وہ مرد ہوں، خواتین یا تیسری مخلوق ان ہی کے دم قدم سے دنیا آباد ہے۔ تاہم ہمارے حکمرانوں کیلئے مسٹر ریما ہی آئیڈیل بن جائے تو معاملات درست سمت کی طرف گامزن اور عوام کے دکھ دور ہو سکتے ہیں۔


Thursday, November 11, 2010

آنسو


جمعرات ، 11 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 14 گھنٹے 10 منٹ پہلے شائع کی گئی
آنسو کیا ہیں؟ آنکھوں سے گرنے والے پانی کے چند قطرے‘ یہ انسانی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ اکثر دل میں اٹھا ہوا بحر بیکراں آنکھوں کے ذریعے بہہ کر تھم جاتا ہے۔ آنسو کبھی کسی کی یاد میں گرتے ہیں، کبھی کسی کے بچھڑنے کے غم میں اور کبھی کسی کے ملنے کی خوشی میں۔ آنسووں میں بڑا وزن ہے۔ انسان منوں وزن اٹھا سکتا ہے۔ دو آنسووں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ گر جاتے ہیں۔ عظیم مقصد کیلئے گریں تو انسانی توقیر و عظمت اوج ثریا پر پہنچ جاتی ہے۔ عیاری اور مکاری سے بہائے جائیں تو بہانے والا نظروں سے گر جاتا ہے۔ آنسووں سے کئی کہکشائیں جنم لے سکتی ہیں اور انہی میں کئی کائناتیں بھی ڈوب سکتی ہیں۔ آنسووں میں بڑی طاقت ہے۔ آنسو دعا بن جاتے ہیں۔ صدا بن جاتے ہیں۔ مدعا بن جاتے ہیں جفا و وفا بن جاتے ہیں‘ رب کائنات کے سامنے گڑگڑانے سے شفا بھی بن جاتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے حافظ قرآن سند یافتہ عالم فاضل دوست نے بتایا کہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ دوا لینے سے فرق نہ پڑا تو اپنے استاد کے پاس چلے گئے۔ استاد نے دم کیا اور پوچھا فرق پڑا ہے‘ جواب نفی میں تھا۔ دوسری اور تیسری بار دم کرنے سے بھی افاقہ نہ ہوا تو استاد محترم نے کہا، جاو وضو کرو‘ دو رکعت نفل ادا کرکے خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا کرو اس دوران جو آنسو گریں انگلیوں پر لگاو۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا اس کے بعد سے درد غائب ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچے اور بچیوں کے چہرے پر دانے نکل آتے ہیں۔ ان کا بھی یہی آزمودہ علاج ہے۔ جوڑوں کے دردوں اور دیگر امراض سے شفا کیلئے بھی یہ نسخہ استعمال کرنے میں حرج نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شان کریمی جوش میں آ جائے۔
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
پاکستانیوں کو سب سے زیادہ آنسو شرفو بھائی نے دئیے۔ اتنا شاید پاکستان کی تاریخ میں لڑی جانے والی جنگوں میں خون نہ بہا ہو جتنے مشرف کی ذاتی مفادات پر مبنی پالیسیوں‘ نالائقیوں اور نااہلیوں پر پاکستانیوں نے آنسو بہائے۔ آج بھی مشرف کے کئے دھرے کے باعث بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہہ رہا ہے اور آنسو بھی ٹپک رہے ہیں۔ مشرف گو دربدر اور نگر نگر پھر رہے ہیں۔ لیکن بد زبانی اور بدعملی سے باز نہیں آتے۔ جس امریکہ نے انہیں ٹشو کی طرح استعمال کرکے گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ وہیں جا کر نظریہ پاکستان اور دو قومی نظرئیے کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ کہتے ہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر قائم نہیں ہوا تھا۔ تو کیا یہ آپ کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا؟ پاکستان میں چونکہ پاگلوں‘ بدبختوں اور کم بختوں کے بھی سیاست میں آنے پر پابندی نہیں۔ اس لئے مشرف بھی سیاست میں آگئے۔ اپنی مسلم لیگ کو قائد کی مسلم لیگ کہہ رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر پاگل پن کیا ہو گا۔ سیاست میں مفاہمت رواداری تحمل اور برداشت نہایت ضروری ہے۔ لال مسجد سانحہ اور اکبر بگٹی کے قتل پر کبر اور تفاخر کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر یہی ان کے نظریات ہیں تو پاکستان آکر دکھائیں۔ ان کے ساتھی شہباز چودھری‘ ایاز چودھری‘ فواد چودھری‘ نامراد چودھری‘ راگی بیراگی قریشی میراثی ان کو سمجھائیں۔ سیاسی لوازمات کے بارے میں بتائیں۔ خار بوئیں گے تو لالہ و گُل نہیں اگیں گے۔ مارکوس اور پنوشے جیسی حرکتیں کرکے خمینی اور اکینو جیسی پذیرائی کی توقع نہ رکھیں۔ خدا نے انہیں منڈیلا اور مہاتیر محمد بننے کا موقع فراہم کیا یہ میر جعفر اور میر صادق بن گئے۔ بڑے عہدوں پر رہنے والے قومی رازوں کے امین ہوتے ہیں مشرف نے یہ کہہ کر اس امانت میں خیانت کی کہ غوری اول اور دوم کے تجربات ناکام ہوئے تھے۔ یہ بات شاید ڈاکٹر قدیر کی مخاصمت میں کی ہو لیکن یہ قومی مفاد کو کاری ضرب پہنچانے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی بے ہودہ اقدامات اور بیانات کے باعث اہل وطن کی آنکھوں میں مشرف کے لئے نفرت کی چنگاریاں ہیں۔ ان کے لئے کسی آنکھ میں کوئی آنسو نہیں۔ ویسے آنسو کا مشرف سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر حیا ہوتی تو اپنے ہی آنسوﺅں میں ڈوب جاتا مگر اس بدبخت کو یہ توفیق کہاں وہ تو گناہ پر اکڑ رہا ہے۔


Wednesday, November 10, 2010

کشمیر بھی پاکستان ہو گا


 بدھ ، 10 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلمانوں پر ستم برپا کئے رکھتی ہیں۔ ان کے دماغ کے نہاں خانوں میں، مسلمانوں کی ہزا ر سال تک غلامی کا بدلہ لینے کی تمنائے نامراد بے تاب رہتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانانِ ہند نے آزاد ریاست قائم کر لی تو متعصب اور انتہا پسند ہندو کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا۔ اس نے کبھی پاکستان کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے ڈھانے اور گرانے کے لئے سرگرداں ہو گیا اور اکھنڈ بھارت کے لئے بدستور سرگرم ہے۔ پاکستان سے خود نفرت کرتا ہے اور یہی درس اپنی نسلوں کو بھی دیتا ہے۔ پاکستان کے خلاف چٹیا پرشادوں اور دھوتی لبادوں نے نئی نسل کے ذہن میں زہر بھرنے کا بھی بھرپور اہتمام کیا، اور اس کے لئے پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کا بے محابا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میڈیا پر پاکستان کے بارے میں لچر انتہائی بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہوئے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ بچوں اور بچیوں سے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز تقریریں ریکارڈ کرا کے انٹرنیٹ پر پھیلا دی گئی ہیں۔ بھارتی چینلز تو پہلے ہی پاکستانی کلچر اور ثقافت کا بیڑہ غرق کر رہے تھے دو تین سال سے انٹرنیٹ پر بھارتی انتہا پسندوں اور شرپسندوں کی طرف سے نظریہ پاکستان اور دوقومی نظرئیے کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ آج انٹرنیٹ عام اور زیادہ تر نوجوان نسل اس سے استفادہ کرتی ہے۔ فیس بک ایسی بیماری ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی انٹرنیٹ کے صارفین کو لگ جاتی ہے۔ کچھ عرصہ سے انٹرنیٹ پر بارہ تیرہ سالہ لڑکی سے پاکستان دشمنی پر مبنی ایک تقریر ریکارڈ کرا کے دکھائی جا رہی ہے۔ ’’شیوسینا‘‘ کے پلیٹ فارم سے کی گئی نفرت انگیز تقریر میں اس نے کئی دعوے کئے ان دعوؤں میں یہ کہا گیا کشمیر تو ہو گا پاکستان نہ ہو گا۔ پوری تقریر بھارتی مہاشوں کی خباثتوں پر مبنی ہے۔ جس میں دشنام طرازی اور بہتان سازی کی انتہا کر دی گئی ہے۔ اس مذموم تقریر کا بھرپور جواب لاہور کے ایک نوجوان حافظ محمد عثمان جو اردو، انگلش اور پنجابی تقریری مقابلوں میں 63 گولڈ میڈلز جیت چکے ہیں نے دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں آج اپنے لب کھولنے کی جسارت کبھی نہ کرتا اگر بات ہوتی میری ذات کی لیکن یہاں بات ہے میرے وطن عزیز کی تو سن لو آج میرے رقیب سورج کو چراغ دکھانے چلے ہیں۔ ہواؤں کے راستے میں دیئے جلانے چلے ہیں۔ سمندر کو دریا میں گرانے چلے ہیں اور کہاں ہندوستان سے پاکستان کو ملانے چلے ہیں۔ ارے تم یہ نہیں جانتی کہ 1965ء میں جو صبح کا ناشتہ لاہور کرنے چلے تھے وہ زندگی بھر کا کھانا بھول گئے۔ شیر کا مطلب اپنے فوجیوں سے پوچھو جو شیر خان شہید 1999ء میں تمہارے درمیان گھس کر تمہیں مار گیا جو نہ جنرل نیازی کو جانتی ہے اور نہ ہمارے شہید وغازی کو آج وہ ہمیں کہتی ہے کہ کشمیر تو ہو گا لیکن پاکستان نہیں ہو گا۔ تو ہماری فکر نہ کر دیکھنا پاکستان بھی ہو گا جذبہ ایمان بھی ہو گا اور یاد رکھو کشمیر بھی ہو گا۔ کراچی، پنڈی اسلام آباد، لاہور اور ملتان بھی ہو گا۔ حافظ محمد عثمان کا فون نمبر 0302-8421946 ہے۔حافظ عثمان نے یقیناً مسلمانوں کے خلاف بغض، تعصب اور نفرت رکھنے والے ہندوئوں کی سدھائی ہوئی لڑکی کی تقریر کا تقریر کے ساتھ بہترین جواب دیا۔ بے دلیلی کا دلیل کے ساتھ جواب دیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہونی چاہئے۔ اقبال کے شاہینوں کو لپک کر جھپٹنا اور جھپٹ کر لپکنا ہو گا۔ بھارت رقبے، تعداد، معیشت اور اسلحہ کے حوالے سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے اسے کسی بھی شعبے میں ترکی بہ ترکی جواب اسی صورت دیا جا سکتا ہے کہ جب ہم اس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ محنت اور مہارت سے کام لیں گے۔ بڑے بزرگوں، دانشوروں اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو حقیقتاً اقبال کا شاہین اور مردِ غازی بنانے کی کوشش کریں۔ اب تک ہندو لڑکی کے جواب میں انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تقریریں ضرور آ جانی چاہئیں تھی۔ اب بھی وقت ہے نوجوان اٹھیں جس طرح ہماری مسلح افواج دشمن کے دانت کھٹے کرنے کیلئے اپنے گھوڑے تیار رکھتی ہیں۔ نوجوان نظریہ پاکستان اور دوقومی نظرئیے کے تحفظ اور فروغ کے لئے دن رات ایک کر دیں۔ ان کو بھارت کے ہی مذموم پراپیگنڈے کا جواب نہیں دینا پاکستان میں موجود پاکستان کی بدولت اعلیٰ عہدے اور مقام حاصل کرنے والے کوڑھ مغزوں کو بھی جواب دینا ہے جو نظریہ پاکستان اور دوقومی نظرئیے کی نفی کرتے ہیں۔


Tuesday, November 9, 2010

خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات


آج : منگل ، 09 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 18 گھنٹے 11 منٹ پہلے شائع کی گئی
آپ کے دشمن کا دوست، آپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ ایسا دعویٰ کرتا ہے تو یہ سراسر جھوٹ اور انتہا کی منافقت ہے۔ اگر آپ اس کے دعوے پر یقین کر لیتے ہیں تو یہ سادہ لوحی، بیوقوفی اور بے بصیرتی ہے۔ پاکستان امریکہ کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ اُس نے ہزاروں میل دور آ کر دو اسلامی ممالک کو تہہ تیغ اور تاراج کر دیا۔ عراق اور افغانستان کی سرزمین ان کے مکینوں پر ہی تنگ کر دی گئی۔ خونریزی کا ایسا آغاز کیا کہ نو دس سال سے انسانوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ افغانستان کی تباہی اور افغانوں کی خونریزی میں پاکستان پوری طرح ملوث رہا۔ پاکستان سے مراد پاکستانی عوام نہیں حکمران ہیں۔ سابق اور موجودہ۔ پاکستان برادر ہمسایہ ملک کے عوام کے سروں کی فصل کاٹنے کے جرم میں ایسا شریک ہوا کہ امریکہ کی جنگ کی تپش جہاں بھی محسوس ہونے لگی۔ جو چنگاری سے شعلہ اور شعلہ سے الائو بن کر دہک رہی ہے۔ امریکی ڈرون پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔ اس کی ایجنسیوں کے اہلکار پورے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنیوالے پاکستانی ادارے ان پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو ایک فون کال پر معاملات امریکیوں کے نقطہ نظر سے سلجھ جاتے ہیں۔ لیکن کس قیمت پر؟ پاکستان کی خودمختاری اور وقار کی قیمت پر۔ ہمارے اکابرین امریکہ جائیں۔ تو پہلے مرحلے کے طور پر کتا سُنگھائی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ جبکہ ان کا معمولی اہلکار پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں وہاں پاکستانیوں کو سونگھنے والوں کی طرح گھومتا پھرتا ہے۔ ہمارے حکمران جو پروٹوکول جہاں امریکیوں کو دیتے ہیں امریکہ میں عام آدمی اور فوجی وفود کے لئے نہ سہی خود اپنے لئے تو لینے کی کوشش کی۔ برابری کی سطح پر معاملات ہوں تو غیرت ‘ حمیت خودمختاری اور وقار کی علامت، تکبرانہ اور جارحانہ رویے کے مقابلے میں فدویانہ، عاجزانہ اور دست بستہ عرض گزار ہونے کا انداز بے غیرتی اور بے حمیتی ہے۔ اندازہ کر لیجئے ہم امریکہ کے ساتھ خم ٹھونک کر بات کرتے ہیں یا باادب اور باملاحظہ ہوشیار ہوکر۔ 
امریکہ کے ساتھ اگر پاکستانی حکمرانوں کی دوستی ہے تو انہوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ کیا امریکہ نے بھی ایسا کیا؟ بالکل نہیں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے۔ مسئلہ کشمیر بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لاینحل چلا آ رہا ہے۔ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرانے پر تیار نہیں۔ اس کی تمام تر نوازشات بھارت پر ہیں۔ امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان نے یہ جنگ اپنے گلے ڈال لی۔ اوباما پاکستان کی مدد کرنے اور اسے جنگ کے مہیب بادلوں سے نکالنے کی بجائے بھارت جا بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی معیشت امریکہ کی جنگ کے باعث تباہ ہوئی، اوباما پاکستان کی بجائے بھارت سے وسیع تر تجارتی اور دفاعی معاہدے کر رہے ہیں۔ اس کی جنگ پاکستان لڑ رہا ہے اوباما اعلان کرتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف بھارت اور امریکہ مل کر لڑیں گے۔ امریکہ جس کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے خلاف لڑ رہا ہے بھارت کا اس کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں۔ پھر وہ بھارت کے ساتھ مل کر کس دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے؟ کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف؟ جو پاکستانیوں اور کشمیریوں کے نزدیک جہاد اور تحریک آزادی ہے۔ 
پاکستانی حکمران یہود و نصاریٰ کے ایجنڈے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن مفاداتی سیاست اور ڈالروں کے لالچ میں قومی وقار اور خودمختاری کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ ڈالر وصول کرنے والوں کے گھروں میں کہکشائیں اتر رہی ہیں ان کی اولادوں تک کے چہرے ڈالروں کی چمک سے دمک رہے ہیں لیکن عام پاکستانی عذاب میں مبتلا ہے۔ پاکستان کے بازوئے شمشیر زنوں کی زندگیوں کے چراغ بجھ رہے ہیں۔ یہ سبق اور درس اقبال اور قائد نے نہیں دیا تھا۔ نجانے حکمرانوں کا کون قائد ہے کون رہبر و رہنما اور کون آئیڈیل ہے جس کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ان کا رہبر رہنما لیڈر اور آئیڈیل صرف دھن دولت ہے؟ لیکن یہ آپ کی مستقل ساتھی نہیں۔ کاغذ کی بیساکھی ہے جو دوگام بھی ساتھ نہیں دے سکتی۔ ٹیپو سلطان کا نام اس لئے روزِ روشن کی طرح چمکتا اور دمکتا آ رہا ہے کہ اس نے اصول کی خاطر جان دے دی تھی۔ اس نے ثابت کر دیا شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو جان دینے کی نہیں اپنی بے جا حسرتوں‘ آرزوئوں اور تمنائوں پر قابو پانے اور ذرا سی زبان ہلانے کی ضرورت ہے۔ ’’امریکیو اپنی جنگ یہاں سے کہیں اور لے جائو‘‘۔ یہی خودی اور غیرت کا تقاضا ہے جس کا حضرت علامہ اقبال نے بار بار درس دیا ہے۔ 
خودی کیا ہے راز درونِ حیات..... خودی کیا ہے بیداریِٔ کائنات
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں..... پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا


Monday, November 8, 2010

اپنا وطن


8-11-2010
فضل حسین اعوان
بل گیٹس پچھلی صدی کے آخر سے لے کر آج بھی سوائے ایک دو سال کے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی لسٹ میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کی کمپنی کمپیوٹر اپریٹنگ سسٹم، سوفٹ وئیر اور اس سے متعلق ونڈوز بناتی ہے۔ اس کمپنی کے ماہرین ہر سال پاکستان آتے ہیں اور کمپیوٹر انجینئرنگ میں ٹاپ کرنے والے 30 لڑکوں کو انٹرویوز کے بعد پُرکشش معاوضے پر ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ ماہرین ہر غریب اور ترقی پذیر ممالک کے ٹاپ مائنڈز کو بل گیٹس کی کمپنی میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ کمپنی کی کامیابی میں باقی عوامل کے ساتھ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ یورپ امریکہ اور دیگر ممالک پاکستان جیسے ممالک کے کے دیگر شعبوں میں ٹیلنٹ کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ ملکِ عزیز میں ناانصافی اور میرٹ کی مٹی پلید ہونے کے باعث بینکار، ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسی علوم کے اساتذہ اور دیگر ٹیکنو کریٹس مایوس ہو کر بھی دوسرے ممالک کا رخ کر لیتے ہیں۔ بہت کم محب وطن اور اہل لوگ مادرِ وطن کا حق ادا کرنے کے لئے مخدوش حالات میں بھی پاکستان اور انسانیت کی خدمت کا عزم لئے اپنا قومی و اخلاقی فریضہ انجام دیے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی نیک نامی جو بھی اور جتنی بھی ہے انہی بے لوث لوگوں کی مرہونِ منت ہے۔ کوئی بھی معاشرہ، ادارہ اور ملک اہل لوگوں سے تہی دست ہو کر تری کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ جب ہمارا سارا ٹیلنٹ باہر منتقل ہو جائے گا تو ترقی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ اس حوالے سے آج ضرورت ہے کہ اہل لوگوں کو انجینئرنگ، میڈیکل اور بینکاری جیسے شعبوں میں ٹاپ کرنیوالوں کو ملک میں سرکاری اور سول اداروں میں پُرکشش معاوضہ دے کر ایڈجسٹ کیا جائے، گو یہ معاوضہ بل گیٹس جیسے لوگوں کے پیش کردہ معاوضے سے کم ہو گا۔ اسی پر ٹیلنٹ کو مائل اور قائل کرنے 
کے لئے موٹیویشن کی ضرورت ہے۔ جذبہ حب الوطن اجاگر اور پیدا کرنے کی ضرورت ہے یہ صرف سلیبس اور نصاب کی کتابیں پڑھنے اور پڑھانے سے نہیں ہو سکتا، اس کے لئے گھر کی دہلیز کے اندر سے کوشش کی جانی چاہیے اور یہ سلسلہ اساتذہ تعلیم کے ابتدائی درجے سے شروع کر کے آخری درجے تک جاری رکھیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب نئی نسل کو دو قومی نظریے، نظریہ پاکستان، تحریک آزادی اور آزادی کی خاطر دی جانے والی جانی، عزت و آبرو اور مالی قربانیوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ لاہور میں یہ فریضہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان کارکنان تحریک پاکستان کماحقہ ادا کر رہا ہے۔ کچھ شہروں میں یہ کام اس کے ذیلی ادارے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کی تمام نونہالوں یا تمام نونہالوں کی ان اداروں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ کام اس صورت آسانی سے ہو سکتا ہے جب ہر استاد طلبا اور ہر محب وطن اور نظریاتی پاکستانی اپنے حلقہ احباب کےلئے نظریہ پاکستان کی انجمن اور پاکستان سے محبت کا مجسم پیکر بن جائے۔


Saturday, November 6, 2010

قانونی کرپشن آخری قسط

7-11-10
 فضل حسین اعوان
 کرپشن کی کئی قسمیں ہیں۔ سب سے خطر ناک اور تباہ کن اختیارات کی کرپشن ہے۔ سفارش بھی کرپشن کے زمرے میں آتی ہے۔ سفارش سے کہیں نہ کہیں کسی کی حق تلفی ضرور ہوتی ہے۔ بغیر استحقاق کیلئے مفاد حاصل کرنے کیلئے کسی کو رقم تحفہ یا کسی بھی صورت میں کوئی ادائیگی بھی کرپشن ہے۔ آج اختیارات کی کرپشن نے ملک کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ جتنی کرپشن آج ہورہی ہے اس کی پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی نظیر ہو۔موجودہ حکومت کاخمیر ہی این آر او کی کرپشن سے اٹھا ہے۔ سٹیل مل میں 26 ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 300 ارب سالانہ کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی وزارت خزانہ کے دور میں کہا تھا کہ صرف ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب کی کرپشن ہوتی ہے۔ شوکت ترین کے بیان کے تناظر میں ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرانسپرنسی نے موجودہ حکومت کی سائیڈ ماری ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ پی آئی اے، پی ایس او اور او جی ڈی سی میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کرپٹ افراد تعینات کئے گئے ہیں۔ یہ اختیارات کی کرپشن کی بد ترین مثال ہے۔
وزیراعظم گیلانی نے دو روز قبل پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اگر متفق ہوتو ارکان پارلیمنٹ کو پلاٹ دئیے جاسکتے ہیں۔نجانے کس کے من میں پلاٹوں کے حصول کی خواہش نے کروٹ لی کہ گیلانی صاحب اس خواہش کی تکمیل پرتُل گئے۔ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ محترمہ نے ان سے پارلیمنٹرین کو پلاٹ دینے کی خواہش ظاہر کی تھی اس وقت موصوف سپیکر اور محترمہ وزیراعظم تھیں، بقول گیلانی محترمہ نے کہا تھا کہ ابتدا اپوزیشن سے ہونی چاہیے۔ گیلانی صاحب کیلئے محترمہ کی یہ ایسی وصیت ہے جس کی صداقت پر کم از کم کسی پارلیمنٹرین کو تو شبہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے سب سے” بڑے خیر خواہ“ حاجی عدیل کی حسرت پاس ملاحظہ فرمائیے، کہتے ہیں پلاٹ نہیں دیتے تو قبر کیلئے جگہ دے دیں۔ارکان پارلیمنٹ کو پلاٹ ملے تو ایم پی ایز کا کیا قصور؟ وہ بھی پورا استحقاق رکھتے ہیں۔ وزیراعظم جو کرنے جارہے ہیں یہ بھی کرپشن ہے۔کمشن کی طرح اسے لیگل یا قانونی کرپشن قرار دیاجائے گا۔ کرپشن بلا شبہ کرپشن ہے قانونی ہویا غیر قانونی۔ تاہم قانونی قرار دینے سے اس زمرے میں آنے والے کرپٹ لوگ قانون کے شکنجے میں نہیں آسکتے ۔
 قانونی کرپشن میں غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے صدر، وزرائے اعظم اور دیگر عہدیداروں کو دئیے گئے تحفے بھی شامل ہیں۔ ہمارے اکثر حکمرانوں نے لالچ کے باعث قانونی کرپشن کو بھی قابلِ گرفت کرپشن بناڈالا۔ صدر اور وزیراعظم کو ملنے والے گفٹ قوم کی امانت قرار دئیے جاتے ہیں جن کو قومی خزانے میں جمع کرایا جانا ہوتا ہے۔ تاہم جس کو تحفہ ملے وہ مناسب قیمت ادا کرکے ذاتی استعمال میں لاسکتا ہے۔صدر اور وزیراعظم ملک کے انتہائی ذمہ دار عہدے ہیں۔ ان منصبوں کا تقاضا ہے کہ ان کی حامل شخصیات بھی انتہائی ایماندار دیانتدار اور قومی خزانے کی امین ہوںلیکن سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی ایک رپورٹ پر ہلکی سی نظر ڈالیئے تو اکثر راہبرانِ قوم کا کردار ڈھیلا ڈھالا نظر آتا ہے۔صدر زرداری کو کرنل قذافی نے 2بی ایم ڈبلیو اور دو بیرون ملک تیار ہونیوالی ٹویوٹا جیپیں تحفے میں دیں صدر صاحب 93لاکھ ادا کرکے اپنے گھر لے گئے ۔صدر ضیا سے مشرف اور شوکت عزیزتک قوم کے خیر خواہ 160ملین روپے کے 3039 گفٹ گھروں کو لے گئے۔بلخ شیر مزاری ،ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان نے ایک بھی تحفہ گھر لے جانا پسند نہیں کیا وزیراعظم گیلانی بھی گزشتہ سال تک کوئی گفٹ اونی پونی قیمت میں گھر نہیں لے گئے شاید ان کو ” کسی نے“ گھر نہ لے جانے دئیے ہوں۔
 شوکت عزیز مہمان اداکار کے طورپر پاکستان کے دوسال وزیراعظم رہے جاتے ہوئے1126 تحفے ساتھ لندن لے گئے۔ گورنر نیپال نے ان کو ریشمی سکارف دئیے۔ شوکت عزیز نے 25,25 روپے ادا کرکے سکارف اپنے استعمال کیلئے رکھ لئے جی ہاں! 25 روپے میں فی سکارف، ٹونی بلیئر کی اہلیہ کی طرف سے دئیے گئے بیگ کی قیمت300اور شہزادہ چارلس کے ایک گفٹ کی قیمت 200 روپے لگوائی گئی۔ شوکت عزیز کی ” اعلیٰ ظرفی“ دراصل ہماری اشرافیہ کے کردار اور رویے کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ شراب پیمانے میں ہو یا چُلو میں حرام ہی رہے گی۔ خنزیر کو جس طریقے سے بھی ذبح کرلیں، اس کو روسٹ کرکے کھائیں قیمہ بنا کر کھائیں کباب یا باربی کیو، حلال ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کرپشن کرپشن ہے۔ قانونی اور غیر قانونی کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو صدر وزرائے اور بیو روکریٹس قوم کی امانت گھروں کو لے گئے ان میں سے اکثر بقید حیات ہیں۔ جودنیا میں نہیں رہے ان کے لواحقین، قومی امانتیں ان کی قیمت ایک ہزار ہے یا ایک کروڑ، اگر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ادائیگی کردیں یا یہ گفٹ واپس توشہ خانے میں جمع کروا دیں۔ تاکہ ان کی سرِعام بولی ہو۔کئی تحائف یقینا نوادرات میں شامل ہونگے۔کھلی بولی میں ہوسکتا ہے کہ ان کی قیمتیں کروڑوں میں لگ جائیں۔ ایوب خان اور بلخ شیرازی کی اولادیں کم از کم اس معاملے میں تو سرفخر سے بلند کرکے چل سکتی ہیں کہ ان کے والد نے تحفوں کی صورت میں ملنے والی قوم کی امانت قومی خزانے کو لوٹا دی تھی دیگر کا کیا خیال ہے!