About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, November 20, 2010

عید۔ اور مافیاز


 ہفتہ ، 20 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
آج ہم عوام ذخیرہ اندوزوں، اجارہ داروں اور مافیاﺅں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ان کی مرضی، ضروریات کی کوئی چیز مارکیٹ میں آنے دیں، نہ آ نے دیں۔ کم آنے دیں یا زیادہ۔ کس چیز کی قلت کرنی ہے کس کی بہتات۔ کب اور کیسے۔ پھر ان کے ریٹ آسمان پر لے جانے ہیں، یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔ عوام میں اتحاد نہیں، مافیاز خود سرکار ہیں اس لئے کسی کا ڈر نہیں، عوام کی چمڑی ادھیڑے جارہے ہیں۔ کب تک؟ جب تک عوام میں اتحاد نہیں ہوگا۔ اپنے حقوق پر ڈاکے کا احساس نہیں ہوگا۔ اپنا حق حاصل کرنے کا شعور نہیں ہوگا۔ اجارہ داروں کے مذموم منصوبے ناکام بنانے کیلئے عقل سقراط اور حکمتِ بقراط کی ضرورت نہیں۔ تھوڑی سی مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔
عید قربان گزر گئی۔ کسی کی اچھی کسی کی بہت اچھی گزری۔ کئی نے گوشت کھایا اور سو کے عید گزاردی۔جن کے پیارے اس سال دہشت گردی کی وارداتوں اور دیگر واقعات میں بچھڑ گئے انہوں نے رو کے عید گزار دی۔ عید سے دو روز قبل تک شہروں کی منڈیوں میں جانور بیچنے والے مرضی کے ریٹ لگاتے رہے۔ گاہک ان کے رحم و کرم پر تھے۔ عید کے روز، اس سے دو قبل اور 
بعد بیوپاریوں کی دم پر گاہکوں کا پاﺅں آگیا۔ جس بکرے کا ریٹ20 ہزار مانگا جارہا تھا وہ 6سات ہزار میں بکا۔ گائے اور اونٹ کے ریٹ بھی گرگئے۔ جانور کے بیو پاری اوّل تو کوئی باقاعدہ مافیا ہیں نہیں۔ اگر ہیں تو ان کو حکومت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔اس لئے منڈی میں مندی ہوئی تو اپنا مال اونے پونے نکالنے پر مجبور ہوگئے۔ عوام کی قوت خرید پر چونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے ضربِ کاری لگا رکھی ہے اس لئے جانور سستے ہونے پر بھی ” پھڑ لﺅ پھڑ لﺅ“ نہیں ہوئی۔ خریداری ان لوگوں نے کی جو ریٹ گرنے کی امید پر ہاتھوں میں نوٹ تھامے بیٹھے تھے یا اجتماعی قربانی والوں نے۔اس مرتبہ دیکھا گیا کہ بیو پاری عید سے ڈیڑھ ہفتے قبل جس طرح ٹرکوں میں جانور لارہے تھے عید کے بعد جانوروں سے بھرے ٹرک واپس لے جارہے تھے۔ بیو پاریوں کوکوئی گھاٹا نہیں پڑا البتہ گزشتہ برسوں کی طرح اندھا دھند کمائی نہیں کرسکے۔ بیو پاری عموماً اپنے علاقوں سے جانور ادھار اٹھاتے ہیں۔ بیچ کر ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ جو جانور منافع میں گیا ٹھیک، جس کا ریٹ کم لگا وہ نہیں بیچتے واپس لے جا کر مالک کے حوالے کردیتے 
ہیں۔ خسارے میں وہ لوگ رہے جو ایک دو گائے اور چند بکرے چھترے پال کر لائے مندا دیکھ کر قصائیوں کا ریٹ بھی ملا تو آمین کہہ گئے۔ اگلے سال آخری دنوں میں خریداری کی منصوبہ بندی کرنے والے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے 16کروڑ میں سے 2 کروڑ افراد متاثر ہوئے، حکومت ان کی بحالی کیلئے ٹیکسوں سے 170ارب روپے اکٹھا کرناچاہتی ہے۔اس سے زائد امداد اندرون ملک اور بیرونِ ممالک سے وصول ہوچکی ہے۔اس سے کون بحال، کون خوشحال اور کون آباد ہوا، خدا بہتر جانتا ہے یا وہ جن کے گرد کہکشائیاں بکھر اور دمک رہی ہیں۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے بے شمار جانور شہروں میں لائے گئے اس لئے بہتات ہوگئی ۔اگلے سال بیوپاری سوچ سمجھ کر شہروں کا رخ کریں گے اور رواں سال کی کسر بھی نکالنے کی کوشش کریں گے۔
گو جانوروں کے بیوپاری باقاعدہ مافیا نہیں اور عوام بھی متحد نہیں، دونوں مجبور طبقات ہیں۔ تاہم مجبوراًہی سہی خریداروں نے بیو پاریوں کو حسب سابق دل کھول کر لوٹ مار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ موقع ملنے پر دونوں نے ایک دوسرے کی کھال اتارنے سے گریز نہیں کیا۔ عوا م اب شعوری طورپر تھوڑ ی سی ہمت کریں حکومتی سرپرستی میں لوٹ مار کرنیوالے مافیاﺅں کی خبر لیں۔ سب سے بڑا شوگر مافیا ہے۔ گڑ شکر کے استعمال کے دور میں شوگر کے مریض نہ ہونے کے برابر تھے۔ اگر کوئی مریض ہوتا تھا تو امیررئیس اور سیٹھ قسم کے لوگ، آج ہرتیسرا آدمی اس موذی مرض میں مبتلا ہے۔ اس مرض کی وجہ چینی کا استعمال ہی ہے۔ ہم چینی کی صورت میں لائنوں میں لگ کر یہ مرض خرید رہے ہیں۔اس کا استعمال بند کریں گڑ شکر بنائیں۔ اس سال شوگر مافیا نے کرشنگ سیزن لیٹ کردیا۔پرانا سٹاک سونے کے بھاﺅ نکالناچاہتے ہیں۔ زمیندار کسان کا شتکار مافیا پر چار حرف بھیجیں، خدا کا نام لیں۔ حویلی کے کسی کونے کھدرے میں پڑے بیلنے کی مرمت کرائیں۔ نئے خریدیں۔ جدید ٹیکنیک استعمال کریں۔ گڑ شکر کھائیں۔ عوام کو شوگر مافیا کے چنگل سے چھڑائیں۔ ذیا بیطس بیماری کو دور بھگائیں۔ شکر گڑ مارکیٹ میں وافر مقدار میں آگیا تو لوگ چینی کے استعمال سے اجتناب کریں گے۔ یہی ان کا اتحاد اور شوگر مافیا کیلئے زوال اور وبال ہوگا۔

No comments:

Post a Comment