About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, November 14, 2010

دو قومی نظریہ.... اور سیکولر ازم


اتوار ، 14 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 17 گھنٹے 54 منٹ پہلے شائع کی گئی
پاکستان کس بنیاد پر معرض وجود میں آیا؟ اس کا آسان اور سادہ جواب ہے۔ دو قومی نظریہ، پاکستان کی تعبیر اور تعمیر میں دوقومی نظریے کا عمل دخل نہ ہوتا تو پاکستان بھی قائم نہ ہوتا، نہ علامہ اقبال خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کرتے اور نہ آگے چل کر قائد اعظم کو لندن سے پاکستان آ کر مسلمانوں کی قیادت کرنے پر آمادہ کرتے اور نہ ہی تحریک آزادی میں جان پڑتی۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان کیسے تعمیر ہو جاتا؟ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ کو اگر نظریہ پاکستان کہہ دیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ دو قومی نظریہ ہی نظریہ پاکستان ہے۔ بانیانِ پاکستان کے بارے میں منفی سوچ رکھنے والوں کو ”نظریہ پاکستان“ دو لفظوں کے مجموعے سے خار اور چڑ ہے۔ ہر شخص اپنی کوئی بھی رائے قائم کرنے میں بالکل آزاد ہے لیکن ہر قسم کی رائے کے اظہار میں وہ ہر قسم کی آزادی انجوائے نہیں کر سکتا۔ مثلاً اکابرین دین و ملت اور بانیانِ پاکستان کے بارے میں کسی کے ذہن میں کوئی خبث ہے تو اس کا سر عام اظہار اگر وہ اپنا حق قرار دے گا تو اکابرین اور بانیان سے محبت کرنے والے بھی انتہائی اقدام کے لئے خود کو آزاد سمجھتے ہیں اور اپنے عمل پر بخوشی پھانسی کے پھندے کو بھی چوم لیتے ہیں۔
اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے مغربی پاکستان سے الگ ہونے پر کہا تھا، آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے، اندرا کی سوچ حقیقت کے بالکل برعکس تھی۔ اگر دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہوتا تو حالات 14اگست1947ءسے قبل کی پوزیشن کی طرف لوٹ جاتے۔ مغربی پاکستان کی عمارت بدستور دو قومی نظریے پر قائم ہے۔ مشرقی پاکستان کا خمیر بھی چونکہ اسی نظریے اٹھا تھا وہ بنگلہ دیش بن کے بھی آزاد اسلامی ملک کے طور پر موجود ہے۔ بھارت کا باجگزار نہیں ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی اپنی جگہ آزاد اسلامی ممالک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں ہر طرف مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الا اللہ کے نعرے گونجتے تھے۔ قائد اعظم نے ایک بار نہیں کئی بار قیام پاکستان کے مقاصد واضح کئے تھے۔ قائد نے 13جنوری1948ءکو اسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں حصول پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں“۔ بدقسمتی سے قوم کی رہنمائی کے دعوے داروں نے پاکستان کو کرپشن اور کمیشن کی تجربہ گاہ بنا لیا اور یہاں ایک ایسے بدبخت طبقے نے بھی جنم لے لیا جو ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی نہیں سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے، سیکولر ازم کے پرستاروں نے سیکولرازم کو پرکشش بنا کر عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
.1 انسان آزاد ہے، جب، جس طرح، جس کو چاہے پوجے۔جس طرح نماز، روزہ، زکوة، حج عبادات ہیں اسی طرح بت پرستی بھی ایک عبادت تصور کی جائے گی۔
.2 انسان آزاد ہے، جس میں موقع پر جو رسومات چاہے ادا کرے۔
.3 مرد و عورت ہر لحاظ سے برابر ہیںبے حیائی کی صرف وہ تعریف لاگو ہو گی جو ریاستی اسمبلی سے منظور شدہ ہو گی ہر وہ تعلق جسے ملکی قانون شادی کہے شادی کہلائے گا۔
.4 ہر شخص اپنی دولت کا خود مالک ہے اور آزاد ہے جس طرح چاہے خرچ کرے، سودی لین دین، جوا اور سٹہ میں سے جسے پارلیمنٹ جائز کہے وہ جائز ہو گا۔
.5 آئین اور اجتماعی ریاستی قوانین کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، کسی مذہب کو اجتماعی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہو گی۔
.6 ہر فرد آزاد ہے جو چاہے عقیدہ رکھے، ایک اللہ کو مانے یا بہت سے خدا مانے، یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔کسی دوسرے کو دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔
(جاری ہے)


No comments:

Post a Comment