بدھ ، 10 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان
بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلمانوں پر ستم برپا کئے رکھتی ہیں۔ ان کے دماغ کے نہاں خانوں میں، مسلمانوں کی ہزا ر سال تک غلامی کا بدلہ لینے کی تمنائے نامراد بے تاب رہتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانانِ ہند نے آزاد ریاست قائم کر لی تو متعصب اور انتہا پسند ہندو کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا۔ اس نے کبھی پاکستان کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے ڈھانے اور گرانے کے لئے سرگرداں ہو گیا اور اکھنڈ بھارت کے لئے بدستور سرگرم ہے۔ پاکستان سے خود نفرت کرتا ہے اور یہی درس اپنی نسلوں کو بھی دیتا ہے۔ پاکستان کے خلاف چٹیا پرشادوں اور دھوتی لبادوں نے نئی نسل کے ذہن میں زہر بھرنے کا بھی بھرپور اہتمام کیا، اور اس کے لئے پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کا بے محابا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میڈیا پر پاکستان کے بارے میں لچر انتہائی بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہوئے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ بچوں اور بچیوں سے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز تقریریں ریکارڈ کرا کے انٹرنیٹ پر پھیلا دی گئی ہیں۔ بھارتی چینلز تو پہلے ہی پاکستانی کلچر اور ثقافت کا بیڑہ غرق کر رہے تھے دو تین سال سے انٹرنیٹ پر بھارتی انتہا پسندوں اور شرپسندوں کی طرف سے نظریہ پاکستان اور دوقومی نظرئیے کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ آج انٹرنیٹ عام اور زیادہ تر نوجوان نسل اس سے استفادہ کرتی ہے۔ فیس بک ایسی بیماری ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی انٹرنیٹ کے صارفین کو لگ جاتی ہے۔ کچھ عرصہ سے انٹرنیٹ پر بارہ تیرہ سالہ لڑکی سے پاکستان دشمنی پر مبنی ایک تقریر ریکارڈ کرا کے دکھائی جا رہی ہے۔ ’’شیوسینا‘‘ کے پلیٹ فارم سے کی گئی نفرت انگیز تقریر میں اس نے کئی دعوے کئے ان دعوؤں میں یہ کہا گیا کشمیر تو ہو گا پاکستان نہ ہو گا۔ پوری تقریر بھارتی مہاشوں کی خباثتوں پر مبنی ہے۔ جس میں دشنام طرازی اور بہتان سازی کی انتہا کر دی گئی ہے۔ اس مذموم تقریر کا بھرپور جواب لاہور کے ایک نوجوان حافظ محمد عثمان جو اردو، انگلش اور پنجابی تقریری مقابلوں میں 63 گولڈ میڈلز جیت چکے ہیں نے دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں آج اپنے لب کھولنے کی جسارت کبھی نہ کرتا اگر بات ہوتی میری ذات کی لیکن یہاں بات ہے میرے وطن عزیز کی تو سن لو آج میرے رقیب سورج کو چراغ دکھانے چلے ہیں۔ ہواؤں کے راستے میں دیئے جلانے چلے ہیں۔ سمندر کو دریا میں گرانے چلے ہیں اور کہاں ہندوستان سے پاکستان کو ملانے چلے ہیں۔ ارے تم یہ نہیں جانتی کہ 1965ء میں جو صبح کا ناشتہ لاہور کرنے چلے تھے وہ زندگی بھر کا کھانا بھول گئے۔ شیر کا مطلب اپنے فوجیوں سے پوچھو جو شیر خان شہید 1999ء میں تمہارے درمیان گھس کر تمہیں مار گیا جو نہ جنرل نیازی کو جانتی ہے اور نہ ہمارے شہید وغازی کو آج وہ ہمیں کہتی ہے کہ کشمیر تو ہو گا لیکن پاکستان نہیں ہو گا۔ تو ہماری فکر نہ کر دیکھنا پاکستان بھی ہو گا جذبہ ایمان بھی ہو گا اور یاد رکھو کشمیر بھی ہو گا۔ کراچی، پنڈی اسلام آباد، لاہور اور ملتان بھی ہو گا۔ حافظ محمد عثمان کا فون نمبر 0302-8421946 ہے۔حافظ عثمان نے یقیناً مسلمانوں کے خلاف بغض، تعصب اور نفرت رکھنے والے ہندوئوں کی سدھائی ہوئی لڑکی کی تقریر کا تقریر کے ساتھ بہترین جواب دیا۔ بے دلیلی کا دلیل کے ساتھ جواب دیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہونی چاہئے۔ اقبال کے شاہینوں کو لپک کر جھپٹنا اور جھپٹ کر لپکنا ہو گا۔ بھارت رقبے، تعداد، معیشت اور اسلحہ کے حوالے سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے اسے کسی بھی شعبے میں ترکی بہ ترکی جواب اسی صورت دیا جا سکتا ہے کہ جب ہم اس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ محنت اور مہارت سے کام لیں گے۔ بڑے بزرگوں، دانشوروں اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو حقیقتاً اقبال کا شاہین اور مردِ غازی بنانے کی کوشش کریں۔ اب تک ہندو لڑکی کے جواب میں انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تقریریں ضرور آ جانی چاہئیں تھی۔ اب بھی وقت ہے نوجوان اٹھیں جس طرح ہماری مسلح افواج دشمن کے دانت کھٹے کرنے کیلئے اپنے گھوڑے تیار رکھتی ہیں۔ نوجوان نظریہ پاکستان اور دوقومی نظرئیے کے تحفظ اور فروغ کے لئے دن رات ایک کر دیں۔ ان کو بھارت کے ہی مذموم پراپیگنڈے کا جواب نہیں دینا پاکستان میں موجود پاکستان کی بدولت اعلیٰ عہدے اور مقام حاصل کرنے والے کوڑھ مغزوں کو بھی جواب دینا ہے جو نظریہ پاکستان اور دوقومی نظرئیے کی نفی کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment