About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, November 22, 2010

توہین رسالت اہلِ ایمان کیلئے ناقابل برداشت


 پیر ، 22 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
پاکستان میں عیسائی برادری سمیت تمام اقلیتیں نہایت بے ضرر اور پُرامن ہیں تاہم شرارتی اور شرپسند عناصر کمیونٹی میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے شرپسندوں کے کردار کو پوری کمیونٹی کے رویے کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح کوئی اقلیتی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل کو کسی برادری کے خلاف اشتعال قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ مسلمان اور سب کچھ تو برداشت کر سکتا ہے توہین رسالت قطعاً نہیں۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت توہین رسالت کی سزا موت ہے جس کی کوئی معافی اور تلافی ممکن نہیں۔ توہین رسالت کوئی بھی کرے مسلمان یا غیر مسلم سب کے لئے سزا ایک ہی ہے ۔۔۔ موت ! پاکستان میں توہین رسالت کی سزا موت ہونے کے باوجود آج تک کسی مجرم کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس ناقابلِِ برداشت جرم کا ارتکاب ہوتا ہے ملزم پکڑے جاتے ہیں، ٹرائل ہوتا ہے، سزا سنائی جاتی ہے۔ مقامی و غیر ملکی این جی اوز، میڈیا اور بااثر حلقے واویلا کر کے اور دباؤ ڈال کر فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے سزا کا معاملہ گول ہو جاتا ہے۔ توہین رسالت قانون سب سے زیادہ اقلیتوں کے مفاد میں ہے۔ اگر کسی پر اس کے ارتکاب کا الزام عائد ہوتا ہے تو معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں بے گناہ کو پھانسی کی سزا دے کر جج اپنے لئے جہنم کا راستہ ہموار نہیں کر سکتا۔ اگر توہین رسالت قانون ختم کر دیا جاتا ہے جس کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں تو شمع رسالتؐ کے پروانے قانون ہاتھ میں لینے سے گریز نہیں کریں گے۔ یہ بات مفروضے نہیں مشاہدے کی بنا پر کی جا رہی ہے۔ لوگ تو توہین رسالت کے مقدمات میں تاخیر پر بھی بے قابو ہو جاتے ہیں اس کی تازہ ترین مثال فیصل آباد میں 21 جولائی 2010ء کو توہین رسالت کے ملزموں رشید عمانویل اور سجاد عمانویل کا عدالت میں پیشی کے لئے جاتے ہوئے قتل ہے۔ اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے : احمد شیر نیازی نے اپنی جائیداد فروخت کی اور دیگر جمع پونجی کے ساتھ سب کچھ اپنے اہل و عیال کے حوالے کر کے میانوالی سے لاہور چلا آیا جہاں 10 اکتوبر 1997ء کو جسٹس (ر) عارف اقبال بھٹی کو ان کے چیمبر میں داخل ہو کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ جسٹس بھٹی نے سیشن کورٹ کی طرف سے سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو توہین رسالت کیس میں سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کر دیا تھا جس کے بعد دونوں جرمنی چلے گئے۔ رحمت، سلامت اور منظور مسیح پر گوجرانوالہ کے نواح میں مسجد کی دیوار پر توہین آمیز الفاظ لکھنے کا الزام تھا۔ 5 اگست 1994ء کو تینوں کو پیشی کے لئے جایا جا رہا تھا کہ فائرنگ سے منظور مسیح مارا گیا تھا۔ اب ننکانہ کی مسیحی خاتون آسیہ کو توہین رسالت کا مجرم قرار دیکر لوئر کورٹ نے سزائے موت سنائی ہے۔ آسیہ نے کھیتوں میں گھڑے سے پانی پینا چاہا، مسلم خواتین نے گھڑے کو ہاتھ لگانے سے منع کیا تو آسیہ نے توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ آسیہ کو سزا سنائی گئی تو افغانستان، عراق، فلسطین اور کشمیر میں لاکھوں انسانوں کے قتل، ہزاروں مسلمان خواتین کی بے حرمتی پر خاموشی اختیار کئے رکھنے والے پوپ صاحب بھی آسیہ کو بچانے کے لئے سامنے آ گئے۔ کسی کی لٹی عزت کی کمائی کھانے والی این جی اوز بھی پیچھے نہ رہیں۔ ایک فون پر ڈھیر ہو جانے کی روایت کو زرداری حکومت نے مزید مستحکم کر دیا۔ گورنر صاحب شیخوپورہ جیل گئے، سزائے موت کی قیدی سے ملاقات کی، اس کی سزا کی معافی کی درخواست پر دستخط کرا کے صدر کے پاس لے گئے۔ اگرچہ اس خاتون کے لئے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے پلیٹ فارم باقی ہیں۔ حکومت ابھی سے رہائی کے لئے بے چین اور بے تاب ہے۔ تحفظِ ناموس رسالت محاذ کے ترجمان ضیاالحق نقشبندی کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے مجرم کو تحفظ دینے والے بھی توہین رسالت کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment