About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, November 6, 2010

عوامی مسائل کا حل ممکن ہے

4-11-10
فضل حسین اعوان ـ
 مہنگائی، بد امنی، بیروزگاری، کرپشن، کمشن اور لا قانونیت کا سیلاب تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ عام آدمی جن مصائب کا شکار ہے ان کیلئے بحران کا لفظ بھی صحیح مفہوم ادا نہیں کرسکتا۔حکمرانوں کا پورا زور ”یوں کر دیں گے، ووں کردیں گے‘ 5 سال پورے کریں گے“ پر ہے۔ سیاستدانوں کی پاکستانیت پر کوئی شبہ نہیں۔ تاہم بجلی کی شدید قلت اوپر سے اس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ، تیل ہر ماہ مہنگا کردیاجاتا ہے۔آج پٹرول کی قیمت 72 روپے لٹر ہے یہی نیٹو کی ٹرانسپورٹ کو 42روپے میں فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کیلئے اس کی بھی قلت رہتی ہے۔ چینی 100 روپے کلو تک فروخت ہورہی ہے۔ زیادہ ملیں بھی سیاستدانوں کی ہیں۔ ملک میں کسی چیز کی قیمت پرکنٹرول نہیں۔ کرپشن اور کمشن کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ واپڈا، پی آئی اے، ریلوے،سٹیل مل جیسے منافع بخش ادارے دیوالیہ ہوچکے ہیں یا ہونیوالے ہیں۔ عدلیہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔من پسند لوگوں کو نوازا جارہا ہے۔میرٹ اصول ضابطہ کس چڑیا کا نام؟ عزیز رشتہ دار، خدمتگار خواہ نیب زدہ ہوں ،سزا یافتہ یا این آر او سے روسیاہ۔ بڑے عہدوں پر بٹھانے جاتے ہیں اور کبھی کبھی اخیر دیکھ کر ہٹائے بھی جاتے ہیں۔مشرف کو غدار جھوٹا اور آئین شکن قراردیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کی پالیسیوں پر عمل بھی جاری بلکہ لا پتہ افراد اور دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے مشرف سے دو ہاتھ آگے۔ ان معاملات کو مدِنظر رکھا جائے تو عام آدمی سوچنے پر مجبور ہوجاتے کہ یہ حکمران اور سیاستدان غیر ملکی بلکہ ملک دشمن قوتوں کے ایجنٹ تو نہیں ہیں؟ حکومتی پالیسیوں کے باعث حکمرانوں کے غیرملکی ایجنٹ ہونے یا نہ ہونے کا سوال اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ملک اور عوام کیلئے عذاب ضرور ہیں۔ حکومتی بداعمالیوں پر اپوزیشن عوام کی رہنمائی کرے تو تمام معاملات درست ہوجائیں یا حکمران گھروں کو چلے جائیں۔تیل کی قیمتوں میں حالیہ بے جا اضافے کے خلاف نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی اتحادیوں نے بھی شدید احتجاج کیا۔ سینٹ اور قومی اسمبلی سے واک آﺅٹ کیا۔ نواز شریف نے کہا مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرسکتے ہیں۔ یہ سب پھوکے فائر اور کاغذی کارروائی تھی۔ چند منٹ بعد معاملات پھر اُسی ڈگر پر چل نکلے۔ اپوزیشن اسی پر خوش کہ حکومتی بندے منانے آگئے۔ نواز شریف کے دستِ راست چودھری نثار وزیراعظم گیلانی سے مل کر راضی ہوگئے۔ اندر سے سب ایک۔ پی پی پی کے ایک سینیٹر کے بقول چودھری صاحب سات سال پہلے پی پی پی میں شامل ہونے کیلئے ترلے لے رہے تھے۔ پی پی پی میں شمولیت کی خواہش اپنی جگہ لیکن ترلے کیوں؟ آج نہ ہونا چاہےں تو ترلے لینے پڑیں گے؟ عوام کے دکھوںکا احساس نہ ملک کی فکر، فقط اپنی باری کا انتظار۔ ملک و قوم کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا۔ عوام کے ساتھ ظلم کی انتہا، ایسے میں حکومت سے باہر کے سیاستدان قومی اسمبلی، سینٹ اور ہر فورم پر حکومت کا بائیکاٹ کرتے تو حکمران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ ہم عوام ظلم و جبر کے عادی اور صبر وشکر کے پیکر ہوچکے ہیں۔اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہم ایک قوم نہیں۔ گروہوں اور گروپوں میں تقسیم ہیں اگر قوم ہیں بھی تو ہمیں ایک پلیٹ فارم پر لانے والے ہم عوام سے بھی زیادہ بے شیرازہ ہیں۔ مہنگائی اور بدامنی کے خلاف چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں احتجاج کیا جاتا ہے۔ ہڑتالیں کی جاتی ہیں جس کا حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر عوام متحد ہو کر حکومت کی ناپسندیدہ پالیسیوں کے خلاف ڈٹ جائیں تو محض تین دن میں حکمرانوں کا قبلہ درست اور معاملات راست سمت کی طرف گامزن ہوجائیں۔ موجودہ حالات سے ہر عام آدمی اور ہر ملازم پیشہ شخص کُڑھ اور اُبل رہا ہے۔ بلاتفریق سارے لوگ پُر امن احتجاج کریںہر محکمے کے خاکروب اورچپڑاسی سے لیکر ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاﺅس کے باورچی تک ہڑتال پر چلے جائیں۔ ایوانوں میں بلب جلانے، جوتے پہنانے اور جنریٹر چلانے والے بھی اپنے گھر بیٹھیں۔ ایوانوں میں جام ہو نہ ساقی۔نسوار لا کر دینے والے موجود ہوں نہ نخرے اٹھانیوالے۔ رات کو رنگین اور دن کو سہانا بنانے کی ڈیوٹی دینے والے بھی شاہوں، شاہ پرستوںاور شاہ بالوں کو تنہا چھوڑ دیں تو ان کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ قوم کو اپوزیشن آسانی سے متحد کرسکتی ہے۔ لیکن اس کی امید کم ہی ہے۔ دوسرا طریقہ جماعت اسلامی، جماعت الدعوة اور دیگر دردِ دل رکھنے والی سیاسی غیر سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

No comments:

Post a Comment