About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, May 31, 2011

توپوں کا رخ




منگل ، 31 مئی ، 2011
توپوں کا رخ
فضل حسین اعوان 
قائد اعظم کا گل و گلزار، لالہ زار ولالہ رخسار پاکستان آج خار زار ہے۔ اس کی چودہویں کے چاند کی طرح درخشانی و تابانی، ویرانی و تنگ دامانی میں ڈھل چکی ہے۔ خود داری، خود مختاری اور عزت و وقار کی بے سرو سامانی کا عالم ہے۔ ترقی و خوشحالی کی قوسِ و قزح کے رنگ، بے ڈھنگ ہو کر صرف خوں رنگ رہ گئے۔ ہر طرف خوں آشامی، خون افشانی، خونریزی و خوں خواری ہے۔ انسان مر رہے ہیں انسانیت سسک رہی ہے۔ کہیں انسان زخموں سے چور کہیں روح گھائل ہے۔ خون کے قلزم اور بارود کے طوفان میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہاں منزل کہاں کنارا اور ساحل ہے۔ ناﺅ بھنور کی طرف بڑھتی جا رہی ہے سواروں کو اس کا ادراک ہے نہ احساس۔ اتحاد‘ اتفاق یکجہتی و ہم آہنگی کے بجائے باہم دست و گریباں ہیں۔ معاملہ الزام تراشی سے آگے بڑھ کر دشنام طرازی پر آ گیا ہے۔ قومی مفاد کو تیاگ دیا گیا ہے۔ مخالف کی پگڑی اچھالنے اپنا شملہ مزید اونچا اٹھانے کی تگ و دو جاری ہے۔ کشتی طوفانی موجوں کی زد پر ہو تو بے رحم لہریں سواروں کی پگڑیاں، شملے، لمبی گردنیں اور انائیں نہیں دیکھتیں۔ ہماری ملی تاریخ صدیوں پر لیکن قومی تاریخ محض 64 سال پر محیط ہے۔ اس مختصر عرصے میں تاریخ نے اپنے آپ کو بار بار دہرایا۔ اس سے ہم نے سبق سیکھا نہ اپنے مفادات کے آگے دیکھا۔ آج ملک انتہائی مشکلات کا شکار اور عالمی سازشوں کے نرغے میں ہے۔ اندرونی طور پر بھی ہر بحران عفریت بن چکا ہے۔ اتحاد و اتفاق وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ بدقسمتی سے سیاستدان اپنی اناﺅں مفادات اور سب سے بڑھ کر بزدلی کے خول سے باہر آنے پر تیار نہیں۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد پر جارحیت کے بعد امریکہ کی رعونت اور فرعونیت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے سامنے حق و صداقت پر مبنی موقف اختیار کرنے کی بجائے ذمہ دار قوتیں پشت دکھا رہی ہیں۔ امریکہ آئی ایس آئی کو معاف کرنے پر تیار نہیں۔ اپوزیشن آئی ایس آئی سے اپنا کوئی ادھار چکانا چاہتی ہے۔ کیری‘ ہیلری کے حضور سر جھکا کر طعنے کوسنے، سننے والوں کے جاں نثارو فدا کار‘ نواز شریف کے فوری کمیشن کی تشکیل کے مطالبے پر آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ جہاں سر اٹھا کر غیرت و قار کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے وہاں خاموشی جہاں یگانگت اور ہم آہنگی مطلوب وہاں ہنگام و پرجوشی ہے۔ ڈرون حملے، رات کی تاریکی میں ایبٹ آباد آپریشن۔ امریکہ کی طرف سے جنگ مسلط کرنے کی کوئی کسر رہ گئی ہے کیا؟ پارلیمنٹ کی قرار دادوں کی بے توقیری سی بے توقیری ہے۔ ڈرون حملوں پر پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا تھا تو ان کو پیش کرنے اور پاس کرانے کی ضرورت کیا تھی۔ اگر قراردادیں منظور کرائی ہیں تو ان پر عمل کراکے بہادروں کی تاریخ میں نام درج کرائیں۔ جو دنیا میں آیا اس نے مرنا ہے۔ اقتدار میں آنے والے کو بھی ایک دن جانا ہے۔ انسان کردار کے حوالے سے زندہ رہتا ہے‘ صدیوں تک بلکہ قیامت تک‘ تاریخ اپنے ذمے قرض نہیں رکھتی۔ ابو عبداللہ کا جرنیل موسیٰ، بہادر شاہ ظفر کا بخت خان اور ٹیپو سلطان کا جرنیل ملک جہاں خان تاریخ میں اپنی جرات و بہادری کے باعث امر ہو گئے۔ غرناطہ کا حاکم عبداللہ‘ بہادر شاہ ظفر کو بے حمیتی کا سبق پڑھانے والے مرزا الٰہی بخش‘ میر جعفر و میر صادق اور ٹیپو کے ایک اور کمانڈر قمر الدین خان کے بارے میں کوئی مسلمان کیا کلمہ خیر کہتا ہے؟ موسیٰ‘ بخت خان اور ملک جہان خان تن تنہا لڑے۔ آپ بہترین اور معیاری ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ ایران اور چین امریکہ کی جارحیت سے کیوں محفوظ ہیں؟ ایران کی توپوں کا رُخ اسرائیل اور چین کا جاپان کی طرف ہے جن کی بقا میں امریکہ کی بقا ہے۔ پاکستان کی توپوں کا رُخ امریکہ کے چہیتے اسلحہ کے بہت بڑے گاہک اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی طرف ہونا چاہئے۔ امریکہ کی آغوش میں سکون کے متلاشیوں نے اپنی بندوقوں کا رُخ اپنے ہی لوگوں کی طرف کر رکھا ہے۔ اسرائیل کو نشانے پر لے لیں تو انکل سام کی پتلون بھیگ جائے گی۔ سروں پر اڑتے ڈرون کو نشانے پر نہ لینے والوں سے اسرائیل کو نشانے پر لینے کی امید عبث ہے۔ پھر قوم کی یہ خواہش جائز نہیں کہ بے حمیتوں، بے حسوں لاچاروں اور ڈالر کے نشے کے ماروں کی جگہ وہ آجائیں جن میں قائد کے پاکستان کو پھر سے گل و گلزار، روشن اور تابناک بنانے کا جذبہ ہو۔!

24-5-2011 to 29-5-2011









. 25 -24 مئی ، 2011

”عزت کی روٹی“
فضل حسین اعوان
”مسلم لیگ ن کی پالیسی انکشافات کی صورت میں عیاں ہو رہی۔ کبھی میاں صاحب خود لنکا ڈھاتے ہیں کہیں ان کے قریبی ساتھی آشیاں پر بجلیاں گراتے ہیں۔ 16 مئی کو کراچی میں ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میاں صاحب نے کہا تھا کہ بھارت کو نمبر ون دشمن قرار دینے کی پالیسی غلط ہے۔ اسے تبدیل ہونا چاہئے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد وہ متعدد بار دہرا چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی بنانا فوج کا کام نہیں۔ آئی ایس آئی کو سیاسی جماعتوں کی تشکیل ان کی توڑ پھوڑ میں بھی ملوث قرار دے چکے ہیں۔ میاں صاحب لندن میں تھے تو چودھری نثار علی ایجنسیوں پر سیاست دانوں سے رابطے کا الزام لگاتے رہے۔ عمران خان کے پنڈی میں دھرنے کو ایجنسیوں کا سپانسرڈ قرار دیا۔ اب خواجہ سعد رفیق نے مسلم لیگ ن کے اندر کی بہت سی باتیں نوائے وقت کے حمید نظامی ہال میں ایک مذاکرے کے دوران کہہ دیں۔ خواجہ سعد جذباتی سیاستدان ضرور ہیں۔ جوش کے دوران بھی ہوش کا دامن تھامے رکھتے ہیں لیکن انہوں نے جو کچھ 21مئی کو مذاکرے کے دوران کہا، شبہ ہے کہ ”خواجہ فرخ سعید“ نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ سعد ر فیق نے اس دن جو کچھ کہا ان کی حب الوطنی، مسلم لیگ سے کمٹمنٹ، اقبال و قائد عقیدت، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ سے واضح وابستگی کے باعث ان سے ایسا کہنے کی امید نہیں تھی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا: ”مسلم لیک ن کی پالیسی ہے کہ بھارت کو دشمن نمبر ایک قرار دینے کی پالیسی جاری رکھنا غلط ہے۔ فوج ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی بناتی ہے۔ فوج فیصلہ کرتی ہے کہ امریکہ اور انڈیا سے کیسے تعلقات رکھیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ ہمیں ہندوستان کے ساتھ من پسند رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس پینے کو پانی نہیں، بجلی نہیں، تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور کہتے ہیں ہم نے جنگ کرنی ہے، جنہوں نے جنگ کرنی ہے، وہ کریں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، دیگر رہنما?ں اور میری بلکہ مسلم لیگ ن کی اب پالیسی ہے کہ ہم کسی کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے، نہ ہی کسی سے دشمنی چاہتے ہیں۔ ہم 17 کروڑ عوام کے لئے عزت کی روٹی چاہتے ہیں۔ انڈیا مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرے، ہم کشمیریوں کو انڈین فوج سے زیادہ بندوقیں نہیں دے سکتے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جی ایچ کیو سیاست سے باہر ہو۔ مسلم لیگ ن نے ماضی میں جی ایچ کیو کے ساتھ مل کر سیاست کی ہے، اس لئے اس کی سیاست کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ سپر پاور سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے“۔نوائے وقت نظریہ پاکستان کے تحفظ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم، مظلوم مقہور اور مجبور کشمیریوں کی آواز، بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل تک کسی بھی قسم کے تعلقات قائم نہ رکھنے کا علمبردار ہے۔ افسوس کہ خواجہ صاحب یہاں آ کر ”میا?ں“ کر گئے۔ مسلم لیگ ن کو فوج سے نہ جانے کیا مسئلہ ہے، یا یہ کسی کی انگیخت اور فرمائش پر فوج پر چڑھائی کئے ہوئے ہے۔ بیرونی محاذ پر امریکہ اور روس کے حواریوں نے پاک فوج کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے، اندرونی محاذ پر یار لوگوں نے۔ مسلم لیگ ن فوج سے مخاصمت کااظہار پیپلز پارٹی جرنیلوں سے محبت کا اقرار کر رہی ہے۔ عوامی سطح پر دونوں کی پالیسی کو درست نہیں سمجھا جا رہا۔بھارت کو پاکستان کا دشمن نمبر ایک قرار نہ دینا اگر ن لیگ کی پالیسی ہے تو پھر اس کی سیاست کا خدا حافظ۔ بھارت ہمارا دشمن نہیں تو جنوبی ایشا جنت نظیر ہے۔ کیا ہم واقعی جنت مثل خطے میں رہ رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں۔ ایک میں آدھا پاکستان الگ کر دیا۔ کارگل ایڈونچر کیا پاکستان بھارت دوستی کا نشان تھا؟ سیاچین پر قبضہ، مناوادر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر جارحیت دوستی کے کس زمرے میں!۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑا اور بنیادی تنازع کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے کشمیر کو قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ قائد کی مسلم لیگ کے وارث ہونے کے دعوے دار کس منہ سے اس مسئلہ کے حل کے بغیر بھارت سے من پسند تعلقات کی بات کر رہے ہیں۔ 

آپ مقابلہ نہ کریں۔ بھارت سے دشمنی نہ رکھیں۔ کشمیریوں نے کب آپ سے بندوقتیں مانگی ہیں؟
شمشاد بیگم سے گانے سننے، وزیر اعظم گجرال کو گانے سنانے اور پتا کا درجہ دینے والوں سے کشمیریوں کی خاطر جان لڑانے کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ بھارت نے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے ذریعے الا? دہکا رکھا ہے۔ قبائلی علاقوں میں اس کے ایجنٹ شورش کو ہوا دے کر خود کش بمباروں کی کھیپ پہ کھیپ تیار کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں اس کے دہشت گرد سرگرم ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے مفاد کے سب سے بڑے منصوبے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کے لئے بھارت ہی غداروں میں دو ارب ڈالر سالانہ تقسیم کرتا ہے۔ پاکستان آنے والے دریا?ں پر بے شمار بند باندھ کر پاکستان کی زراعت اپنی مٹھی میں کر لی ہے۔ جب چاہے فصلوں کو خشک سالی سے دوچار کر دے، جب چاہے سیلاب میں ڈبو دے، سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں اس کی سات لاکھ سفاک سپاہ کشمیریوں کو خون میں نہلانے پر مامور ہے۔ یہاں انسانیت بلک سسک اور تڑپ رہی ہے۔ کشمیر کی بیٹیوں کی روائیں، آنچل اور چادریں ا ±چکی جا رہی ہیں۔ ظلم جبر اور زبردستی کا نشانہ بننے والی بچیوں کی آخری ہچکی لیتے ہوئے بھی کھلی آنکھیں پاکستان کی طرف سے آنے والے کسی محمد بن قاسم کی منتظر ہوتی ہیں۔ ہندو بنئیے کے پالتو فوجی کی سنگین کشمیری کے دل کے آر پار ہوتی ہے تو اس کی زبان سے اللہ اکبر کے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب امرتسر کے کشمیری شریف برادران کشمیر کے۔ اگرچہ ان کا جاتی عمرہ بھی امرتسر میں ہی تھا۔ خواجہ صاحب نے ن لیگ کی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا ”ہم کسی کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے نہ کسی سے دشمنی چاہتے ہیں، ہم 17 کروڑ عوام کے لئے عزت کی روٹی چاہتے ہیں“ گویا اب کشمیریوں کو پیغام دیدیا جائے کہ وہ جس خطے سے محمد بن قاسم کی آمد کی امید رکھتے ہیں۔ وہاں شریفوں اور زرداروں کی” بھوت پھیری“ ہے۔ وہاں کے خواجہ صاحب سترہ کروڑ عوام کے لئے ”عزت کی روٹی “کا بندوبست کر رہے ہیں۔ ان کو ”عزت کی روٹی “کے لئے ڈالر، پا?نڈ اور ریال سمیٹنے سے فرصت نہیں۔ یہ وہ ”عزت کی “ روٹی ہے جس کے بارے میں حکیم الامت نے کہا تھا۔
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی 
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
بدروحنین والے بھی ایسی ہی عزت کی روٹی کے قائل ہو جاتے تو حجاز میں نور اسلام جلوہ افروز ہوتا نہ برصغیر میں اس کی کرنوں کے نور سے ضوفشانی ہوتی۔ خدا جانے آج کے پاکستانی بڑوں میں کون برہمن ہوتا کون دلت اور شودر۔ ان بڑوں کے ماضی قریب کو دیکھ لیں واضح ہو جائے گا کہ یہ ہندوستان میں کس قبیل سے متعلق ہوتے۔ خدا کا شکر کریں قائد کے پاکستان نے ان کو عزت دولت اور شہرت سے ہمکنار کیا۔ اپنے اندر خالد، قاسم و طارق اور ٹیپو جیسے جوہر پیدا کریں۔ جس کو عزت کی روٹی کہا جا رہا ہے اس سے غیرت کی موت بہتر ہے۔


جمعرات ، 26 مئی ، 2011
حاکم علی زرداری.... اناللہ ....
فضل حسین اعوان
انسان پانی کا بلبلہ ہے۔ اِدھر معلوم ہوا ا ±دھر معدوم۔ موت اٹل حقیقت ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں۔ عزرائیل کے لئے فٹ پاتھ پر پڑے لاچاروں، علا ج کی سکت نہ رکھنے والے بیماروں، ڈرونز اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بیچاروں کی جان لینے میں کوئی آسانی ہے، نہ قلعوں میں محفوظ، جدید ہسپتالوں میں موجود شہواروں کی روح قبض کرنے میں کوئی پریشانی، ماہر ڈاکٹر جان بچانے پر قادر ہوتے تو بے حد و حساب دولت کے مالک ہزاروں سال کی عمریں پاتے۔
آصف علی زرداری آج پاکستان کی طاقتور ترین اور یکے از امیر ترین شخصیت ہےں۔ ان کے والد گرامی حاکم علی زرداری اس کے باوجود انتقال کر گئے کہ گھر میں بے ہوش ہو کر گرنے کے بعد ان کو بروقت پمز داخل کرا دیا گیا۔ بہترین سہولتوں سے مزین ہسپتال، ماہر ڈاکٹر، جدید مشینری خالص ادویات، ہر شے کی فراوانی تھی۔ جہاں صدر آصف علی زرداری، ایم این اے فریال تالپور اور عذرا پیچوہو کے سر سے دست شفقت اٹھا وہیں رواں سال اور اس کے بعد سے ہمیشہ کے فرانس میں 5 ایکٹر پر محیط Manor of the White Queen محل میں اداسیوں کے ڈیرے ہوں گے۔پاکستان میں گرمیوں کا آغاز ہوتا تو حاکم علی زرداری وہاں تشریف لے جاتے پاکستان میں موسم خوشگوار ہونے پر لوٹ آتے تھے۔ شمالی فرانس کے علاقے نار منڈے میں واقع سولہویں صدی میں یہ محل بادشاہ فلپVI کی بیوہ کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ جھیلوں اور جنگلات پر مشتمل ہے اس محل کا شمار فرانس کی تاریخی یادگاروں میں ہوتا ہے۔ یہ محل گزشتہ 25 برس سے صدر زرداری کے خاندان کی ملکیت ہے۔آصف علی زرداری پاکستان کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں تاہم ان کے والد کا تعلق سندھ کے متوسط زمیندار گھرانے سے تھا۔ انہوں نے جہاں سیاست میں نام کمایا وہیں کاروبار میں بھی قدم جمایا۔ آصف علی زرداری صاحب نے کسی فلم میں بطور چائلڈ سٹار بھی کام کیا ہے۔ حاکم زرداری نے بیٹے کے شوق کو دیکھ کر کراچی میں بمبینو سنیما بنوایا یا آصف کو ابا جی کا سنیما دیکھ کر اداکاری کا شوق چرایا۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بینظیر سے شادی رچا کر دولت کے انبار لگا کر پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا عہدہ پا کر اور منصب صدارت پر قدم رنجا فرما کر آصف نے والد محترم کا نام ضرور روشن کیا۔
حاکم علی زرداری نے کراچی میں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی۔ اس خاندان کا سیاست سے قدیم تعلق ہے۔ حاکم کے دادا سجاول انگریز دور میں سیاست سے وابستہ تھے۔ انہوں نے خود سیاست کا آغاز 1960ئ میں نواب شاہ سے ضلع کونسل کا الیکشن لڑ کر کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں جب پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ اس کے بانی ممبران میں شامل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہی 1970ئ کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران ہی پارٹی قیادت سے بعض اختلاف کی وجہ سے انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ 90 کے عشرے میں آصف علی زرداری کی طرح ان کے والد حاکم علی زرداری اور والدہ کے خلاف بھی کرپشن اور دیگر جرائم میں مقدمات درج کئے گئے تھے۔ حاکم علی زرداری نے 1985ئ کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے اور 1986ئ میں جب جنرل ضیائ الحق کے مارشل لائ کے دوران بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس جا کر پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو حاکم علی زرداری نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگلے ہی برس ان کے اکلوتے بیٹے آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ 1988ئ میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بینظیر بھٹو نے انہیں اپنی پہلی حکومت میں قومی اسمبلی کی پبلک اکا?نٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
1993ئ کے انتخابات میں وہ تیسری بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1997ئ کے بعد سے انہوں نے پاکستان کی عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ 
بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ”ڈاٹر آف ڈیسٹنی، (مقدر کی بیٹی) میں لکھا ہے کہ ان کے اور زرداری خاندان میں اس سے زیادہ چیزیں مشترکہ ہیں جتنا انہوں نے سوچا تھا۔ زرداری خاندان نے بھی (جنرل ضیائ کے) مارشل لائ میں سختیاں جھیلیں تھیں۔ ایک فوجی عدالت نے حاکم علی زرداری پر سات سال کے لئے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی اور فوجی حکومت نے ان کی آبائی زمین کو پانی کی فراہمی بند کرا دی تھی جس سے اٹھارہ سو ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے مطابق ان کے سسر پر زیادہ کڑا وقت ان کی اور آصف علی زرداری کی منگنی کے بعد آیا۔ ”جب قومی بینکوں سے حاکم علی زرداری کے تعمیراتی منصوبوں کے لئے منظور شدہ قرضوں کی ادائیگی اچانک روک دی گئی۔ منگنی کے بعد لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ غلطی کر رہے ہیں اور پوری کی پوری فوج اور بیورو کریسی آپ کے پیچھے پڑ جائے گی لیکن وہ (حاکم) کہتے تھے کہ مجھے پروا نہیں۔ میری بیٹی کی خوشی مجھے زیادہ عزیز ہے“۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ اور لواحقین کو صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔

 جمعہ المبارک ، 27 مئی ، 2011
پاکستان کے دشمن کون اور کیوں؟
فضل حسین اعوان 
بھارت کی پاکستان سے دشمنی کی ایک وجہ ہے اسے صدمہ ہے کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر برصغیر کے مسلمان جو بھارت کے حکمران رہے ہیں۔ اس کی غلامی میں آنے کی بجائے آزاد مملکت کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ اس کیلئے پاکستان کا وجود قابل برداشت نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت اس کے حواریوں کے لئے پاکستان اس لئے معتوب ہے کہ خدا نے اسے ایٹمی قوت سے سرفراز کیا ہے۔ ان کی پاکستان سے مخاصمت اور مخالفت سمجھ آتی ہے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان پاکستان کے دشمن ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ القاعدہ اور طالبان پاکستان کے دشمن کیوں ہیں؟ 
پی این ایس مہران میں دہشت گردوں کا گھس جانا معمولی واقعہ ہے نہ قابل معافی۔ ائرفورس کے پاس جواز تھا کہ ایبٹ آباد اپریشن میں سٹیلتھ ہیلی کاپٹر استعمال کئے گئے۔ بحریہ کے پاس فول پروف سکیورٹی نہ کرنے کا کیا جواز ہے۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ قبل دہشت گردوں نے نیوی کی بسوں پر پے در پے حملے کئے۔ اس کے باوجود نیول حکام کیوں سوئے رہے؟ جو سوئے رہے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ ایڈمرل نعمان بشیر کو سیریمونیئل ڈریس زیب تن کر کے شو پیش کےلئے نہیں رکھا ہوا۔ وہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں قطعی ناکام رہے۔ اب بار بار کہہ رہے ہیں یہ سکیورٹی لیپ نہیں ہے نیوی کو اربوں کا نقصان ہوا۔ نہ صرف بحریہ بلکہ مسلح افواج کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ پاکستان کے سمندر کا دفاع متاثر ہوا۔ امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دیتا ہے۔ بھارت اس واقعہ کی آڑ میں دنیا میں ثابت کر رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے واقعی غیر محفوظ ہیں۔ بزعم خویش عقل کل رحمان ملک نے آ? دیکھا نہ تا? القاعدہ و طالبان کو مجرم قرار دے دیا۔ یہ امریکہ اور بھارت کی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف کارروائی کا جواز پیدا کرنے کی واردات بھی ہو سکتی ہے۔
جو کچھ ہوا اس کی سب سے بڑی ذمہ داری نیول چیف اور اس کے بعد مہران ائر بیس کے کمانڈر پر عائد ہوتی ہے۔ سکیورٹی لیپس اور کیا ہے، کیا دہشت گرد بیس اٹھا کر لے جائیں تو اسے سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا جائے گا؟ شرم کی بات ہے کہ چار دہشت گردوں نے پاکستان کے دفاعی سسٹم کو 17 گھنٹے یرغمال بنائے رکھا جس میں 10 اہلکار شہید ہوئے اس پر بھی کامیابی کے دعوے اور خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بیس کمانڈر کو تو معطل کر دیا گیا۔ نیول چیف اپنے عہدے پر کیوں موجود ہیں؟ احتساب کی روایت کہیں سے تو شروع کریں اور فوج میں احتساب کا مطلب کورٹ مارشل ہے۔ نیوی کی ساری تنصیبات سمندر کے اندر یا ساحل سمندر پر ہیں۔ نیول چیف ان سے ہزاروں میل دور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہے لش پش وردی پہن کر تقریبات میں شرکت کبھی کبھی کرنا ہوتی ہے۔ بحریہ کی قیادت فل ٹائم جاب ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی یا گوادر میں ہونا چاہئے نہ کہ اسلام آباد میں۔رحمان ملک نے یہ فتویٰ بھی جاری کر دیا کہ القاعدہ و طالبان کے حق میں بیان دینے والے مسلمان نہیں۔ اب ہر کوئی اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق مفتی عبدالرحمن ملک صاحب سے کرایا کرے گا؟ یہاں ملک صاحب اور ڈالروں کے سائے میں سکھ سے سونے والوں سے سوال ہے کہ کیا امریکہ اور بھارت کی مخالفت، مخاصمت یا دشمنی پاکستان سے دوستی میں بدل سکتی ہے؟ دشمنی کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں اس کے تناظر میں تو جواب ناں میں ہے۔ نہ ہم ان کی دشمنی کی وجوہات ختم کر سکتے ہیں نہ ان سے دوستی ہو سکتی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کیا القاعدہ و طالبان کی مبینہ دشمنی پاکستان دوستی میں تبدیل ہو سکتی ہے؟ القاعدہ و طالبان کو پاکستان کا دشمن کس نے بنایا؟ مشرف اور موجودہ حکمرانوں کی امریکہ نوازی اور امریکہ کی غلامی نے کیا۔ القاعدہ و طالبان کی پاکستان سے مبینہ دشمنی کی وجوہات ختم کرنا کیا اتنا ہی مشکل ہے جتنا امریکہ و بھارت کی؟ یقیناً نہیں آپ امریکہ کی غلامی سے نکل آئیں اس کی جنگ کو خیرباد کہہ دیں تو طالبان پاکستان کے بازوئے شمشیرزن بن کر ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کریں گے اور آزادی کشمیر کی خاطر کسی قربانی سے دریغ بھی نہیں کریں گے۔

 ہفتہ ، 28 مئی ، 2011
یوم تکبیر پر نعرہ تکبیر بھی....
فضل حسین اعوان
آج قائد اعظم کا پاکستان زخموں سے چور چور ہے۔ ناحق بہتے خون کی ارزانی و فراوانی ہے۔ اپنوں نے غیروں کی فہمائش و فرمائش پر عقل سلیم رکھتے ہوئے بھی جنت نظیر وطن کو قتل گاہ بنا دیا۔ کہیں ڈرون لاشیں گرا رہے ہیں، کہیں خود کش بمبار قیامت ڈھا رہے ہیں۔ مشرف نے امریکہ کی جنگ کو آمین کہا، ان کے جاں نشینوں نے ثمہ آمین کہہ دیا۔ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی سپاہ کو امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکہ کی جنگ اپنی جنگ قرار دیکر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ لڑنے والوں کا ملک ایک محاذ بھی ایک، اللہ رسول قرآن و ایمان بھی ایک۔ ایک دوسرے پر یلغار کرتے ہیں تو دونوں طرف سے ایک ہی نعرہ اللہ اکبر بلند ہوتا۔ مسلمان کی گولی یا سنگین دوسرے مسلمان کے جگر و دل سے پار ہوتی ہے تو نزع کے عالم میں لا الہ کا ورد زباں پر ہوتا ہے۔ 10 اِدھر سے مرے 15 ا ±دھر سے، کامیاب کون ٹھہرا۔ پندرہ مارنے والا؟۔ نہیں! کامیاب وہ ٹھہرا جس نے کلمہ گو بھائیوں کو ایک دوسرے کی بندوق کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس کے مقاصد واضح ہیں۔ بش نے نائن الیون کے بعد صلیبی جنگ کا اعلان کیا تھا۔ یہ جنگ افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اس میں انسانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی خون بہایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی خود مختاری اور وقار بھی سرِ مقتل ہے۔ یہ نہیں کہ ہماری قیادتوں کو ہمارے شہروں بازاروں، گلستانوں، شبستانوں، دشت و صحرا?ںریگرازوں اور کوہساروں تک کو بے گناہوں کے لہو سے رنگین ہونے کا ادراک نہیں۔ یہ سب جانتے ہیں لیکن احساس مر چکا ہے۔ ڈالروں کی چمک سے چندھیائی آنکھیں ذاتی مفادات سے آگے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ سنہرے مستقبل کے سپنے ضمیر کو انگڑائی لینے سے قبل پھر سے سلا دیتے ہیں۔ خوف یہ ہے کہ امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جب مقابلہ نہیں کر سکتے تو اپنے بھائیوں کے خون کی تجارت ہی سہی۔ مشرف زندہ انسانوں کا سودا کرتے تھے یہ لاشوں کے سوداگر ٹھہرے۔ امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کیا ان کا کر رہے ہو جن کو امریکہ کے ایما پر دشمن قرار دیدیا؟ اب تک تو نہیں کیا۔ جو دشمن آپ کے سامنے نہیں اس کا مقابلہ اور خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے جس کو دشمن سمجھ لیا اس کی آڑ میں اصل دشمن بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے سرگرداں و سرگرم ہے۔ القاعدہ طالبان شاید ایک قوت اور فورس سے زیادہ کیفیت کا نام ہے۔ عام مولوی کی وعظ اور تبلیغ کسی کو کسی بھی وقت طالبان بنا سکتی ہے۔ زرداری، گیلانی، نواز شریف، اسفند یار، شجاعت اور عمران جیسے لوگ مولانا فضل الرحمن کا جہاد پر لیکچر سنیں تو شاید اگلے روز یہ بھی خود کش جیکٹیں پہن کر دشمن کی تنصیبات پر جا گریں۔ پہلے آپ اپنے اصل دشمن کو ملک سے نکال باہر کریں۔ ہزار بار کنواں پانی سے خالی کر دیں۔ جسد ناپاک کو باہر نکالنے سے ہی پاک ہو گا۔ اس کے بعد عسکریت پسندی شدت پسندی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ ملک تعمیر و تخریب کے دوراہے پر ہے۔ ذمہ دار ہوش کے ناخن لیں۔ قوم کا اعتماد بحال کریں۔ اسے امریکہ کی جنگ سے باہرنکالیں۔ مبینہ عسکریت پسند بھی عقل کو ہاتھ ماریں خود کش حملوں میں عام اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے سے کس کا نقصان کر رہے ہیں۔ اگر یہ ان کا کام نہیں تو ان کے نام پر جو کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان کو خود بے نقاب کریں۔پاکستان کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ بہترین فوج ہے، وطن کی آن پر کٹ مرنے والی قوم ہے۔ جذبہ ایمانی ہے، سب سے بڑھ کر بہترین ایٹمی صلاحیت موجود ہے۔ یہی صلاحیت غیروں کو د ±کھتی ہے۔ وہ اسے 57 اسلامی ممالک کا ایٹم بم قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے پڑے ہیں۔ یہ ہمارا عظیم دفاعی حصار ہے۔ آج اسی میں نقب زنی کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دوستی کی اوٹ میں دشمن وطن عزیز میں در آیا ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت حب الوطنی کا مظاہرہ کرے۔ آج قوم یوم تکبیر منا رہی ہے، آج پاکستان کے دشمنوں کے خلاف نعرہ تکبیر بلند کرنے کی ضرورت ہے، اس روز عہد کریں کہ مادر وطن کے چپے چپے کا دفاع کریں گے۔ اغیار کو نکال باہر کریں گے۔ ملک کی سالمیت، سلامتی عزت و وقار اور خود مختاری کے لئے ایٹمی صلاحیت کو بھی بروئے کار لانا پڑے تو گریز نہیںکریں گے۔ دشمن ہمیں ویسے بھی پتھر کے دور میں دھکیل رہا ہے۔ بزدلوں کی طرح مرنے سے لڑکر جان دے دینا کہیں بہتر ہے۔ سینہ سپر ہونے میں بہرحال کامیابی و کامرانی کا موقع تو موجود ہے۔


اتوار ، 29 مئی ، 2011
بجٹ۔خسارہ۔ خود انحصاری
فضل حسین اعوان 
سالانہ میزانیہ تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ حکومتی سقراط، بقراط، الکندی، خوارزمی، عمر خیام اور جابر بن حیان سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ مہنگائی، بیروزگاری کے مارے، دہشت و وحشت کی مچان پر بیٹھے عوام کی کس رگ میں خون باقی ہے جس کو نچوڑا جا سکے۔ اب تک سامنے آنے والے اعداد و شمار حکومتی اعلیٰ و بے مثال کارکردگی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ الفاظ کی جادوگری اور اعداد و شمار کے ہیرپھیر سے مسائل حل ہونے ہوتے تو آج چارس ±و خوشحالی و ترقی کے پھریرے لہرا رہے ہوتے۔ بتایا گیا ہے کہ اگلے سال بجٹ کا حجم 36 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوگا۔ حکومتی آمدن 26 کھرب ہو سکتی ہے۔ آمدن اور اخراجات میں 10 کھرب روپے کا فرق ہے۔ یہ 10 کھرب عوام کی نسوں سے خون کشید کر کے اکٹھے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کئی نئے ٹیکس لگیں گے، کئی جاری ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا، عالمی مالیاتی اداروں کے پاﺅں پڑ کر ان کی عوام ک ±ش شرائط کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے قرض لیا جائے گا۔ رواں مالی سال کے وسط تک پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ 110 کھرب سے تجاوز کر چکا ہے جو مجموعی قومی بجٹ سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ ادھار ضرورتاً سے زیادہ عادتاً اور روایتاً لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں اس کے باوجود ہم گردش لیل و نہار کا شکار ہیں۔ وسائل شاید اس لئے بروئے کار نہیں لا رہے کہ استعمال کے ہزار سال بعد کیا بنے گا؟ 10 کھرب روپیہ بڑی رقم ہے۔ عوام کا خون نچوڑ کر خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی تو بہت سے لوگوں کا جان اور روح کا رابطہ قطع ہو جائے گا۔ وسائل کو بروئے کار نہیں لانا تو کوئی اور تدبیر کر لیں۔ کچھ فضول اخراجات کو سمیٹ لیں۔ پنجاب حکومت نے جزوی طور پر بیرونی امداد پر لات ماری ہے، اگر یہ ڈرامہ اور پوائنٹ سکورنگ کارروائی نہیں تو احسن فیصلہ ہے۔ کابینہ کے ارکان نے تنخواہوں اور مراعات میں رضاکارانہ 25 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ 25 فیصد کی کسر ہاتھ مار کر ہزار گنا کر کے نکالیں، مزید بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ نوائے وقت ٹوڈے پروگرام میں دلاور چودھری کا موقف تھا کہ غیر ملکی امداد سے انکار اچھی بات ہے لیکن پنجاب کے حکمرانوں کو ایک کام اور کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ پنجاب میں بڑی گاڑیوں، بڑے گھروں، غیر ملکی سامان تعیش، کپڑے، جوتے، میک اپ کا سامان استعمال کرنے والوں پر ”روٹی ٹیکس“ لگایا جائے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے ان غریبوں کیلئے دو وقت کی روٹی مہیا کی جائے، ان کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں جن کے چولہوں کے ساتھ ان کی امیدوں کی کرنیں بھی بجھ چکی ہیں تاکہ وہ بھی زندگی کے دھارے میں شامل ہو سکیں اور دوسری طرف ہماری لوکل انڈسٹری کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس سے بھی روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہو سکیں گے۔ اس تجویز میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے پورے ملک تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ شہروں میں گاڑیوں کا اڑدھام ہے۔ ٹریفک گھنٹوں بلاک رہتی ہے۔ روزانہ کروڑوں کا ایندھن فضول جلتا ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ مناسب کرائے پر اور بروقت دستیاب ہو تو 90 فیصد لوگ کاروں اور موٹر سائیکلوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ حکومت خود دو منزلہ بسیں چلائے۔ بڑے شہروں میں سرکلر ریلوے کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ کھربوں کی درآمدات نے بھی معیشت کو ض ±عف پہنچایا ہے۔ صرف انتہائی ضروری اشیائ کی درآمدات ہونی چاہئے جیسے جان بچانے والی ادویات وہ بھی خودکفالت حاصل ہونے تک، ہر شعبہ کیلئے جدید ٹیکنالوجی وغیرہ۔ اجناس، تیل وغیرہ کو تو ہرگز درآمد نہ کیا جائے۔ کچھ لوگوں کو غیر ملکی اشیاءکے استعمال کا خبط ہے ایسی اشیاءضرور منگوائی جائیں لیکن ان پر 100 گنا ٹیکس لگا دیں۔ 50 والی چیز پر 500سو ٹیکس لگائیں۔ شوقین خواتین و حضرات اپنے شوق کی قیمت ادا کریں۔ خود انحصاری کی منزل حاصل کرنے کیلئے یہ اقدامات ناگزیر ہیں۔



Sunday, May 22, 2011

شرارت‘ شر اور شیطنت----21 -22 مئی ، 2011



21 -22 مئی ، 2011
فضل حسین اعوان 
امن کی آشا اور بنیئے کی بھاشا والوں کی شرارت، شرمیں بدلی جس نے بالآخر شیطان کا روپ دھار لیا۔ شیطنت کی ابتدا پروگرام ”میرا پتی“ سے کی گئی۔ گو معاشرے میں دین کا روایتی نفاذ نہیں ہے۔ کہیں لوگ رضاکارانہ مکمل طور پر اسلام کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں، کہیں شرم و حیا میں لپٹی جدت نظر آتی ہے۔ لیکن اب اخلاقیات کو بے لبادہ کر کے انسانیت کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ گذشتہ شب نجی چینل پر ایک اداکارہ کو تماشا بنا کر لا کھڑا کیا گیا۔ اس نے تیرہ چاہنے والوں میں سے ایک کو پتی کا اعزاز بخشنا ہے۔ یہ تیرہ کے تیرہ اداکارہ کو نظریں بھر کر دیکھتے، پھول پیش کرتے اور اپنی محبت کا یقین دلاتے رہے۔ آخر میں بے شرمی سے اسے بازوﺅں سے پکڑ کر رقص کیا۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ یہ محترمہ ان میں سے ایک کو اپنا پتی چنے گی۔ ایک شاید پہلے سے موجود ہے۔ اسلام کے ٹھیکیدار خاموش رہے تو یہ ”کنجراپہ“ اڑھائی ماہ چلے گا.... اس موضوع پر پھر کبھی آج اس شر کی بات کرتے ہیں جو چند روز قبل ”....جینے دو“ کا راگ الاپنے والوں نے ”پاکستان نظریاتی ریاست نہیں قومی ریاست ہے“ کے موضوع کے تحت پھیلایا۔ مذکورہ پروگرام میں گو مباحثے کے دوران اوریا مقبول جان اور ابتسام الٰہی ظہیر نے پاکستان کے نظریاتی ریاست ہونے کو بھرپور دلائل سے ثابت کیا۔ لیکن قومیت کے حوالے سے مخالف کیمپ نے جو موقف اختیار کیا۔ اُس میں سے کوئی پوائنٹ نئی نسل کو گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ تحریک آزادی کی طرح ملک میں آج بھی قومیت کے پرچارکوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کوئی چینل ایسے پروگرام کر کے کیا قومیت پرستوں کی سوچ کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے۔ ایک امر طے ہو گیا۔ اُسی کی بنیاد پر برصغیر میں مسلمانوں کے لئے آزاد ریاست کا حصول ممکن ہوا تو آج اس معاملے کو اٹھانے کو شرپسندی قرار نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان چیلے چانٹوں کے گُرو اقوام کے وجود کو اوطان سے مشروط کرتے ہیں۔ استدلال علامہ اقبال کے اس شعر سے لیتے ہیں۔ 
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔ 
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا 
لیکن بعد ازاں علامہ نے یہ بھی تو کہا۔ 
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اسے بھول جاتے ہیں۔ 
حضرت علامہ کا تحریک آزادی کے دوران واضح موقف تھا کہ قوم مذہب سے بنتی ہے وطن سے نہیں۔ تب مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں نے جہاں تک ہو سکا اوطان سے اقوام کے فلسفے کی گرد اٹھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ اس موقع پر حکیم الامت نے فرمایا تھا۔
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیت
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربیست
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست
(عجم کو ابھی تک رموز دیں کی خبر نہیں، ورنہ دیوبند کے حسین احمد یہ بوالعجبی نہ کرتے۔ یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی سے کس قدر بے خبری ہے۔ خود کو مصطفیٰ کی بارگاہ میں پہنچاﺅ کہ دین پورے کا پورا ان سے عبارت ہے۔ اگر تو ان تک نہ پہنچا تو سب کچھ بولہبی ہے۔
علامہ نے جو کچھ کہا تھا وہ انداز ایسا لاجواب تھا کہ اس کے فوراً بعد برصغیر کے تمام مسلمانوں کو نظریاتی ریاست کے بارے میں پوری طرح سمجھ آ گئی تھی آج آزاد پاکستان علامہ کے اسی فلسفے کا ثمر ہے۔ پاکستان کے نظریاتی مملکت ہونے پر مہر، بانی ¿ پاکستان نے یہ کہہ کر ثبت کر دی تھی۔
”پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ ¿ توحید ہے وطن نہیں اور نہ ہی نسل! ہندوستان کا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔“ 
اس کے علاوہ بھی قائداعظم کے متعدد ارشادات ہیںجن سے انہوں نے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست ثابت کیا۔ فتنہ پروروں کو دیدہ دانستہ یہ نہ جانے بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ ایک لاحاصل اور بے سود بحث لے بیٹھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آج یہ بحث چھیڑ دی جائے کہ پاکستان بننا بھی چاہئے تھا یا نہیں؟ پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا۔ پاکستان کی بدولت یہ لوگ وزارتوں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچے۔ عدم تقسیم کی صورت میں یہ جھاڑوب کَش، گورکن زیادہ سے زیادہ مجاور یا کسی مسجد کے خادم ہوتے تندور جیسی توند والوں کے بیمار سوچ کے حامل آباءپاکستان کے قیام کو گناہ قرار دیتے رہے۔ پاکستان کا کھانے والے اسی بے ہودہ سوچ سوچ کو گلے لگا کر پاکستان کا ہی بینڈ بجا رہے ہیں۔ 
پاکستان کا نظریاتی ریاست ہونا زندگی و موت، صبح و شام اور شب و روز کی طرح اٹل حقیقت ہے۔ بحث کے نئے تار اور ساز چھیڑ کر نظریاتی و قومی کو آپس میں گڈمڈ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جو آج نظریاتی یا قومی ریاست کی بحث کا بوسیدہ علم لے کر نکلے ہیں یہ دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبونے کے دعویداروں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ناسوروں سے خلاصی کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن یہ کبھی شکلیں بدل کر اور کبھی دشمن کے ایجنڈے میں ڈھل کر سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسے میں میر یاد آ جاتے ہیں:
چشمِ خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ اب تو یہ ناسور گیا
آصف بھلی صاحب نے اس ایشو پر لکھا اور خوب لکھا‘ ان کے کالم کے آخری الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔ پاکستان کا نظریاتی ریاست ہونا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کے معاملات میں بحث و مباحثہ نہیں کروایا جاتا۔ کیا ”جیو اور بے شرمی سے جیو“ والے اب آئندہ مباحثہ اس موضوع پر بھی کروانا چاہتے ہیں کہ ”ہمیں مسلمان نہیں دوبارہ ہندو ہو جانا چاہئے“۔ پروین شاکر نے کسی شعلہ بداماں بات کی ہے :
تہمت لگا کے ماں پہ، جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئے

Thursday, May 19, 2011

قرارداد کی حرمت


قرارداد کی حرمت  
19-5-2011
-فضل حسین اعوان 
بریفنگ کا خوبصورت آئٹم جنرل شجاع پاشا کا اختتام پر چودھری نثار علی خان سے معانقہ تھا۔ اس کے بعد سے چودھری نثار کی آئی ایس آئی کے خلاف توپیں خاموش ہیں جبکہ میاں نواز شریف بدستور گرج اور برس رہے ہیں۔ بریفنگ میں یہاں مسلم لیگ ن کے کچھ لیڈروں نے طوفان برپا کرنے کی کوشش کی وہیں اس طوفان کی تندی و تیزی کو میاں نواز شریف کے نثار سے پہلے کے جاں نثار جاوید ہاشمی نے پُرکیف لہروں میں بدل دیا۔ جاوید ہاشمی نے جو کہا اس سے پہلے رفیق غوری صاحب کی بریفنگ کے دن کی گفتگو ملاحظہ فرمائیے ”فوج (آئی ایس آئی) بڑی ظالم ہے، اس نے مجھے اُٹھایا، تشدد کا نشانہ بنایا، میرے دانٹ توڑ دئیے۔ دو مرتبہ برین ہمبرج ہوا۔ آج میں چلنے پھرنے اور لکھنے پڑھنے سے قاصر ہوں۔ کروڑوں کا بزنس تباہ کر دیا گیا۔“ یہاں غوری صاحب نے ایک ٹھنڈا، گہرا اور لمبا سانس لیا۔ پھر گویا ہوئے۔ لیکن آئی ایس آئی نے یہ ظلم میرے ساتھ کیا۔ میرے وطن کے ساتھ تو نہیں۔ فوج میرے وطن کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے۔ اس میں کوتاہی قطعاً نہیں کر رہی۔ آج اسے غیر بے توقیر کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس کے شانہ بشانہ ہونا ہو گا اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اسے مضبوط ترین بنانا ہو گا“ شاید حقیقت میں اسے ہی ذاتی مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح کہتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے بھی 13 مئی 2011ءکی بریفنگ کے دوران عسکری قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ”تم لوگوں نے مجھے بہت مارا ہے، مجھے غداری کے مقدموں میں پھنسایا لیکن آج میں کوئی بدلہ نہیں لوں گا۔ پارلیمنٹ تمہاری ماں ہے، اس ماں کو تم سے ہر سوال پوچھنے کا حق ہے لیکن یہ ماں کسی غیر کو یہ حق نہیں دے گی کہ وہ تمہاری طرف انگلی اٹھائے۔“ 
نواز شریف نے فوج کی پارلیمنٹ کو بریفنگ کے اگلے روز پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ خارجہ پالیسی بنانا فوج کا کام نہیں۔ اس سے قبل بریفنگ کے دوران فوج کہہ چکی تھی کہ پارلیمنٹ پالیسیاں بنائے حکومت ہمیں حکم دے اس پر عمل کریں گے۔ ائر چیف نے بھی واضح کیا کہ ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جب حکم ملا گرا دیں گے۔ اسی روز پارلیمنٹ نے 12 نکاتی قرارداد منظور کی جس میں ڈرون حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عزم ظاہر کیا گیا کہ اگر ڈرون حملے جاری رہے اور ایبٹ آباد جیسا واقعہ ہوا تو نیٹو کی سپلائی روک دیں گے۔ 16 مئی کو جب امریکی سینیٹر جان کیری پاکستان کو ایٹمی پیشرفت روکنے کی نصیحت کر رہے تھے۔ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان یا دہشت گردوں کا پاکستان بنانے میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی دھمکی دے رہے تھے اُسی روز شمالی وزیرستان میں 2 ڈرون حملوں میں 15 افراد کا خون بہا کر پارلیمنٹ کی قرارداد کا مذاق اُڑایا گیا۔ ایک بار پھر فضائیہ کو ڈرون گرانے کا حکم دیا گیا نہ نیٹو سپلائی پر پابندی کی بات کی گئی۔ گزشتہ روز نیٹو ہیلی کاپٹر پھر پاکستان کی فضا میں گھس آئے، چوکی پر شیلنگ کی۔ اس پر بھی صرف زبانی احتجاج پر اکتفا کیا گیا۔ قرارداد کی حرمت کا تقاضا ہے کہ اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ پالیسی پارلیمنٹ نے طے کر دی‘ فوج اس پر عمل کے لئے تیار ہے۔ احکامات حکم نے دینا ہیں۔ یہ موقع ہے میاں صاحب پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل کرانے کے لئے باہر آئیں، احتجاج کریں یا لانگ مارچ، حکومت کو قرارداد پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں۔ قوم، فوج اور پارلیمنٹ کی سوچ بالکل عیاں ہے۔ ڈرون اٹیک اور امریکی مداخلت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ جنرل شجاع پاشا نے کہا تھا امریکہ جو چاہتا ہے نہیں کر سکتے۔ لیکن حکومت جو امریکہ چاہتا ہے وہی کرتی ہے۔ 
جنگ عظیم دوم میں یوگوسلاویہ کے عوام اور فوج کی خواہش کے برعکس حکومت ہٹلر کے ساتھ تھی۔ بالآخر فوج نے تختہ الٹا اور دوسرے لمحے ہٹلر کے اتحاد سے نکلنے کا اعلان کر دیا۔ (اسے جملہ معترضہ سمجھ لیجئے)!










Wednesday, May 18, 2011

یہ بھی دھوکہ و فریب نہ ہو



 بدھ ، 18 مئی ، 2011



یہ بھی دھوکہ و فریب نہ ہو
فضل حسین اعوان 
دوسری جنگ عظیم میں مکمل تباہی و تاراجی کے بعد جاپان اور جرمنی کو پابندیوں کی زنجیروں میں بھی جکڑ دیا گیا۔ اس کے باوجود ان ممالک نے ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ ترقی کے سفر کاآغاز کیا۔ آج ان ممالک کی خوشحالی اور ترقی کے عروج کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مارچ2011ءکو سونامی نے جاپان کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ اس کے نیو کلیئر پلانٹ تک بکھر کر رہ گئے۔ بے حدوحساب نقصان ہوا۔ دینے والے ہاتھ کو لینے کی ضرورت پڑی تو ہاتھ پھیلانے کی بجائے پیچھے کھینچ لیا۔ چین 60 کی دہائی کے وسط تک کئی شعبوں میں پاکستان پر انحصار کرتا رہا، آج دنیا کی معیشت پر اس کا غلہ ہے۔ ایران سالہا سال سے پابندیوں کی زد میں ہے۔ ایرانیوں کا کہنا ہے جیسے جیسے امریکہ دنیا کو ساتھ ملا کر پابندیوں میں اضافہ کر رہا ہے، ویسے ہی ایرانی ایک نئے عزم کے ساتھ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان کر خود انحصاری کی طرف قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ آج ان کی زندگی پابندیوں سے قبل کی زندگی سے زیادہ آسان ہے.... ہمارے حکمران امداد اور خیرات کی بندش کے خوف سے امریکی ڈانٹ دھتکار اور پھٹکار خندہ پیشانی کے ساتھ ہضم کر رہے ہیں۔ امریکہ نے 1989ءاور 1998ءمیں پاکستان پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ بتائیے ان پابندیوں کے باعث کتنے پاکستانی بھوکے سوتے تھے؟ کتنے پتے کھا کر گزارا کرتے تھے؟ کتنے فاقوں سے مر گئے؟ آج امریکہ پاکستان کی آزادی و خود مختاری کو بُری طرح پامال کر رہا ہے۔ اس کا پاکستان میں عمل دخل، ڈکٹیشن، آپریشن اپنی پالیسیوں کا نفاذ، دہشت گردوں کا داخلہ اور دہشتگردی، اس سب کی وجہ امریکہ کی ہمارے حکمرانوں پر ڈالر نچھاوری ہے۔ گو یہ سبز ڈالران تک پہنچتے پہنچتے معصوم پاکستانیوں کے خون میں رنگ کر سرخ ہو چکے ہوتے ہیں لیکن حکمرانوں کو ڈالر کی قیمت سے غرض ہے، پاکستانیوں کے خون کی قدر نہیں۔
ان حالات میں جب ہر طرف سے قومی و ملکی وقار لو کے تھپیڑوں اور بے رحم موجوں کے دوش پر ہے، شہباز شریف کا خود انحصاری کا عزم ایک بادِ نسیم و سحر کا جھونکا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”غیر ملکی امداد ہماری خود مختاری کی قاتل ثابت ہو رہی ہے۔ ہم اپنی آزادی کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھ چکے ہیں۔ اغیار سے امداد لینے کی بجائے ہمیں خود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ ملک کو بحرانوں سے نجات کے لئے ایڈ کے بجائے ٹریڈ کے فروغ کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی خود مختاری کے لئے کشکول توڑنے کا آغاز پنجاب سے کر رہے ہیں جس کے تحت صوبائی کابینہ نے آئندہ غیر ملکی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر کے عوام کی آواز ہے اور امید ہے کہ یہ نقطہ آغاز ثابت ہو گا۔“ امید کی جانی چاہیے کہ شہباز شریف اپنے عزم کو پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔ انہوں نے اگر ایک قدم غیروں کی غلامی سے نکل کر خود انحصاری کی طرف بڑھایا ہے تو ساتھ ہی دوسرا قدم اپنی طرح اپنے وزیروں اور مشیروں کو ایثار کا درس دے کر صوبے کی خوشحالی کی طرف بھی اٹھائیں۔ بابر اعوان نے تین سال میں وزیر اعلیٰ کے کیمپس کے اخراجات 190 ارب روپے بتائے تھے۔ اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ میاں شہباز شریف پچھلے ساڑھے تین سال سے تنخواہ نہیں لے رہے، ان کی تنخواہ ہر مہینے مختلف ہسپتالوں میں چلی جاتی ہے، یہ ہیلی کاپٹروں کے پرائیویٹ استعمال پر آج تک پچاس لاکھ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا چکے ہیں۔ علاج کی مد میں بھی کوئی رقم نہیں لی اور بیرون ملک سرکاری دوروں کے دوران بھی یہ اپنی فیملی کے تمام اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتے ہیں.... شہباز شریف کے وزیر اور مشیر کنگلے نہیں۔ تمام کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی مذکورہ مراعات پر ہاتھ صاف نہ کریں۔ ہو سکے تو گاڑی بھی اپنی استعمال کریں۔ شہباز شریف کے جاں نثار اور وفادار قوم کی خاطر قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں تو مرکز اور دوسرے صوبوں میں اس کی تقلید ہو سکتی ہے۔ عوام میں بھی یہ عمل سراہا جائے گا۔ یقینا ہر کوئی اس احسن اقدام میں اپنے منتخب نمائندوں کی پیروی کرے گا۔ خدا کرے شہباز شریف نے جو کچھ کہا اس میں ان کا خلوص اور نیک نیتی شامل ہوں، یہ محض سیاسی شعبدہ بازی، جادوگری، دھوکہ اور فریب نہ ہو۔



 بدھ ، 18 مئی ، 2011

یہ بھی دھوکہ و فریب نہ ہو!
فضل حسین اعوان
دوسری جنگ عظیم میں مکمل تباہی و تاراجی کے بعد جاپان اور جرمنی کو پابندیوں کی زنجیروں میں بھی جکڑ دیا گیا۔ اس کے باوجود ان ممالک نے ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ ترقی کے سفر کاآغاز کیا۔ آج ان ممالک کی خوشحالی اور ترقی کے عروج کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مارچ2011ءکو سونامی نے جاپان کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ اس کے نیو کلیئر پلانٹ تک بکھر کر رہ گئے۔ بے حدوحساب نقصان ہوا۔ دینے والے ہاتھ کو لینے کی ضرورت پڑی تو ہاتھ پھیلانے کی بجائے پیچھے کھینچ لیا۔ چین 60 کی دہائی کے وسط تک کئی شعبوں میں پاکستان پر انحصار کرتا رہا، آج دنیا کی معیشت پر اس کا غلہ ہے۔ ایران سالہا سال سے پابندیوں کی زد میں ہے۔ ایرانیوں کا کہنا ہے جیسے جیسے امریکہ دنیا کو ساتھ ملا کر پابندیوں میں اضافہ کر رہا ہے، ویسے ہی ایرانی ایک نئے عزم کے ساتھ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان کر خود انحصاری کی طرف قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ آج ان کی زندگی پابندیوں سے قبل کی زندگی سے زیادہ آسان ہے.... ہمارے حکمران امداد اور خیرات کی بندش کے خوف سے امریکی ڈانٹ دھتکار اور پھٹکار خندہ پیشانی کے ساتھ ہضم کر رہے ہیں۔ امریکہ نے 1989ءاور 1998ءمیں پاکستان پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ بتائیے ان پابندیوں کے باعث کتنے پاکستانی بھوکے سوتے تھے؟ کتنے پتے کھا کر گزارا کرتے تھے؟ کتنے فاقوں سے مر گئے؟ آج امریکہ پاکستان کی آزادی و خود مختاری کو بُری طرح پامال کر رہا ہے۔ اس کا پاکستان میں عمل دخل، ڈکٹیشن، آپریشن اپنی پالیسیوں کا نفاذ، دہشت گردوں کا داخلہ اور دہشتگردی، اس سب کی وجہ امریکہ کی ہمارے حکمرانوں پر ڈالر نچھاوری ہے۔ گو یہ سبز ڈالران تک پہنچتے پہنچتے معصوم پاکستانیوں کے خون میں رنگ کر سرخ ہو چکے ہوتے ہیں لیکن حکمرانوں کو ڈالر کی قیمت سے غرض ہے، پاکستانیوں کے خون کی قدر نہیں۔
ان حالات میں جب ہر طرف سے قومی و ملکی وقار لو کے تھپیڑوں اور بے رحم موجوں کے دوش پر ہے، شہباز شریف کا خود انحصاری کا عزم ایک بادِ نسیم و سحر کا جھونکا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”غیر ملکی امداد ہماری خود مختاری کی قاتل ثابت ہو رہی ہے۔ ہم اپنی آزادی کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھ چکے ہیں۔ اغیار سے امداد لینے کی بجائے ہمیں خود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ ملک کو بحرانوں سے نجات کے لئے ایڈ کے بجائے ٹریڈ کے فروغ کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی خود مختاری کے لئے کشکول توڑنے کا آغاز پنجاب سے کر رہے ہیں جس کے تحت صوبائی کابینہ نے آئندہ غیر ملکی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر کے عوام کی آواز ہے اور امید ہے کہ یہ نقطہ آغاز ثابت ہو گا۔“ امید کی جانی چاہیے کہ شہباز شریف اپنے عزم کو پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔ انہوں نے اگر ایک قدم غیروں کی غلامی سے نکل کر خود انحصاری کی طرف بڑھایا ہے تو ساتھ ہی دوسرا قدم اپنی طرح اپنے وزیروں اور مشیروں کو ایثار کا درس دے کر صوبے کی خوشحالی کی طرف بھی اٹھائیں۔ بابر اعوان نے تین سال میں وزیر اعلیٰ کے کیمپس کے اخراجات 190 ارب روپے بتائے تھے۔ اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ میاں شہباز شریف پچھلے ساڑھے تین سال سے تنخواہ نہیں لے رہے، ان کی تنخواہ ہر مہینے مختلف ہسپتالوں میں چلی جاتی ہے، یہ ہیلی کاپٹروں کے پرائیویٹ استعمال پر آج تک پچاس لاکھ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا چکے ہیں۔ علاج کی مد میں بھی کوئی رقم نہیں لی اور بیرون ملک سرکاری دوروں کے دوران بھی یہ اپنی فیملی کے تمام اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتے ہیں.... شہباز شریف کے وزیر اور مشیر کنگلے نہیں۔ تمام کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی مذکورہ مراعات پر ہاتھ صاف نہ کریں۔ ہو سکے تو گاڑی بھی اپنی استعمال کریں۔ شہباز شریف کے جاں نثار اور وفادار قوم کی خاطر قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں تو مرکز اور دوسرے صوبوں میں اس کی تقلید ہو سکتی ہے۔ عوام میں بھی یہ عمل سراہا جائے گا۔ یقینا ہر کوئی اس احسن اقدام میں اپنے منتخب نمائندوں کی پیروی کرے گا۔ خدا کرے شہباز شریف نے جو کچھ کہا اس میں ان کا خلوص اور نیک نیتی شامل ہوں، یہ محض سیاسی شعبدہ بازی، جادوگری، دھوکہ اور فریب نہ ہو۔



Tuesday, May 17, 2011

ذرا سوچئے

 منگل ، 17 مئی ، 2011
ذرا سوچئے
فضل حسین اعوان 
جنرل اسلم بیگ کے بقول ایبٹ آباد آپریشن میں امریکہ کے تین اہداف تھے۔(1) اوباما کی آئندہ انتخابات میں پوزیشن کو مستحکم کرنا (2) افغانستان سے فوجیں نکالنے کا جواز مہیا کرنا (3) پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنا....پاک فوج امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے، امریکہ اس کو بدنام کیوں کرے گا؟ اس سوال کا ذہن میں آنا قدرتی امر ہے۔ حکومت پاکستان اور فوج واقعی امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن جس طرح امریکہ چاہتا ہے اس طرح نہیں۔ آج مشرف کی طرح فوج امریکی مطالبات پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کر رہی۔ امریکہ کا سب سے بڑا مطالبہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہے۔ حکومت نے اس معاملے میں فوج کو بااختیار بنا دیا ہے۔ فوج آپریشن کے حق میں 
نہیں۔ اس لئے امریکی مطالبہ پر عمل معرضِ التوا میں ہے۔ جنرل شجاع پاشا نے بریفنگ میں بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی صدر اور وزیر اعظم کے حکم پر ہوئی۔ آئی ایس آئی، سی آئی اے، را اور موساد کی گھناﺅنی سازشوں کو ناکام بناتی اور بے نقاب کرتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کا پردہ چاک کیا جس پر امریکہ پاک فوج اور آئی ایس آئی پر برہم ہے۔ طاقت کے گھمنڈ میں امریکیوں کے دماغ میں تھانیداری کا خناس جڑ پکڑ چکا ہے۔ جنرل شجاع پاشا واشنگٹن گئے تو لیون پینٹا نے ملاقات کے دوران بدتمیزی کی۔ پاکستانی جرنیل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو سی آئی اے چیف کے اندر انتقام کے الاﺅ کا بھڑکنا ان کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ اس کا فوری رد عمل ملاقات 
کے دوسرے روز شمالی وزیرستان میں ایک اور ڈرون حملہ تھا اور پھر ایبٹ آباد میں اوباما کا ڈرامہ۔ امریکہ کے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو دفاعی پوزیشن پر لانے کے لئے جارحانہ اقدامات اور بیانات تو سمجھ میں آتے ہیں، اپنے ہی لوگوں کا امریکہ کی زبان بولنا تعجب خیز ہے۔میاں نواز شریف جرنیلوں کے زخم خوردہ ضرور ہیں لیکن ان جرنیلوں اور آج کے جرنیلوں میں فرق ہے، فرق نہ ہوتا تو آج بھی فوج اقتدار میں ہوتی۔ کچھ سیاستدان جلا وطن اوراکثر مہم جو جرنیلوں کے شانہ بشانہ ہوتے۔14مئی کو رائیونڈ میں میاں نواز شریف نے امریکی سفیر کیمرون منٹر سے ملاقات کے بعد دھواں دار پریس کانفرنس کی جس میں فوج کی خبر لی گئی۔ فرمایا ”سیکورٹی ادارے کنٹرول میں لائے جائیں، ایجنسیاں پارٹیاں بنانا اور انہیں تقسیم کرنا چھوڑ دیں۔ امریکہ یا کوئی پاکستانی ادارہ ناراض ہوتا ہے تو اس کی مرضی“ لگتا ہے میاں صاحب چودھری نثار کے سحر اور اثر سے ابھی تک باہر نہیں نکل پائے۔ عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف دھرنا دیا تو چودھری نثار نے دھرنے کو ایجنسیوں کا سپانسرڈ قرار دیا۔ اس روز انہوں نے ایجنسیوں پر سیاست میں مداخلت کا الزام بھی لگایا، یہ الزام میاں صاحب نے دہرا دیا۔ چودھری نثار نے ایبٹ آباد آپریشن کو سقوط پاکستان سے بڑا سانحہ قرار دیا۔ نواز شریف نے اس کو بھی اپنا لیا۔ حالانکہ پاکستان کے تمام تر المیات مل کر بھی سقوط ڈھاکہ جیسے نہیں ہو سکتے۔ چودھری کی باتوں پر عام پاکستانی بھی ایجنسیوں کی کارکردگی کا شاکی تھا لیکن جنرل شجاع پاشا نے چودھری نثار کو آئینہ دکھایا تو واضح ہو گیا کہ سیاستدان کس طرح اپنے ذاتی مقاصد کے لئے قومی اداروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ پاشا کہتے ہیں کہ انہوں نے نثار کا ذاتی کام نہیں کیا، اس لئے انہوں نے مجھے ٹارگٹ بنا لیا.... اس پر نثار کے اندر کا شریر بچہ گہری نیند سو گیا۔ ساتھ ہی تہمینہ بی بی سمیت ساتھیوں کی اچھل کود بھی ساون کی برسات کی مانند تھم گئی۔ آج ہر طرف مفادات کی سیاست اور سیاسی جوڑ توڑ ہو رہے ہیں۔ ن لیگ کو نہ جانے کہاں ایجنسیاں پارٹیوں کی تشکیل اور جوڑ توڑ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ن لیگ شاید عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خفا ہو گی۔ جو بے جا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو بھی ن لیگ سے آگے نکلنے میں تحریک انصاف کو کم از کم 50 سال کا عرصہ درکار ہے۔ میاں صاحب اعلیٰ پائے کے سیاستدان ہیں۔ سیاسی دشت کی ویرانی اور لیڈر شپ کے قحطة الرجال میں شاید ملک کے سب سے بڑے سیاستدان بھی۔ ان کو موجودہ حالات میں امریکہ کے بارے میں عوامی جذبات کا ادراک ہونا چاہیے۔ امریکہ کہتا ہے ایجنسیوں کی ناک تلے ایبٹ آباد میں یہ سب کیسے ہوتا رہا۔ میاں صاحب نے بھی چند روز قبل ایسا ہی کہہ دیا۔ قوم عوامی امنگوں کے مطابق آپ کی زبان سے کچھ سننا چاہتی ہے۔ امریکہ کی ترجمانی پر افسردہ ہے۔ ذرا سوچئے! آپ کسی کی مفاداتی سوچ کا یرغمال تو نہیں بن رہے۔


Monday, May 16, 2011

صدر‘ ایوان صدر اور سیاست


16-5-2011 
شفق فضل حسین اعوان
صدر‘ ایوان صدر اور سیاست
صدر آصف علی زرداری کے غیر اعلانیہ ترجمان بابر اعوان لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر خوب برسے جس میں لاہور ہائیکورٹ نے حکم نہیں دیا تھا بلکہ توقع ظاہر کی تھی کہ صدر زرداری ایوان صدر کو اپنی سیاسی جماعت کے اجلاسوں کے لئے استعمال کرنا بند کر دیں گے۔ عدالت نے کرپشن کے الزامات پر صدر کو نااہل قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کوئی برا فیصلہ کرتی ہے تو صدر کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا.... چونکہ ایوان صدر ریاستی پراپرٹی ہے صدر کا اسے یوں اپنی پارٹی کے لئے استعمال کرنا خود مختاری اور ان کی سیاسی غیر جانبداری کے خلاف ہے اس لئے صدر جلد سیاسی عہدہ چھوڑ دیں۔
بابر اعوان نے شاید فون پر فیصلہ کا صرف یہی حصہ سنا کہ صدر سیاسی عہدہ چھوڑ دیں‘ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں نہیں ہو سکتیں تو آپے سے باہر ہو گئے۔ صحافیوں کو اکٹھا کیا اور ایک لمبا چوڑا جذباتی لیکچر سنا دیا۔ صدر چونکہ پارلیمنٹ کا حصہ ہے اس لئے ایوان صدر میں سیاست پر پابندی کو ماورائے آئین قرار دیا سابق وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ نے فرمایا کہ فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق نہیں۔ عدالت نے انصاف پر مبنی فیصلے کرنا ہوتے ہیں کسی کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق نہیں۔ بابر اعوان جس محفل میں اپنے جذبات کے بخارات اُڑا رہے تھے اسی میں یہ بھی فرما دیا کہ ”میں نے ابھی فیصلہ پڑھا نہیں ہے“ جب آپ نے فیصلہ پڑھا نہیں تو اس پر سر بازار دھواں دار تقریر کی ضرورت کیا تھی۔
گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے حوالے سے متفقہ قرارداد پاس کی گئی۔ ان دنوں جعلی ڈگریوں کا ایشو زوروں پر تھا۔ بعض ذرائع ابلاغ بلاتحقیق کسی کی بھی جعلی ڈگری اور نااہلی کی خبریں نشر اور شائع کر رہے تھے جس پر پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی اس کے تین حصے تھے پہلے میں میڈیا کے ایسے عناصر کی مذمت کی گئی جو افواہوں پر مبنی خبریں دے رہے تھے کہ فلاں فلاں کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ قرارداد کا ابھی یہی حصہ پڑھا گیا تھا کہ چند رپورٹروں نے اپنے اپنے ادارے کو رپورٹ بھجوا دی۔ پھر کیا تھا ٹی وی چینلز پر ماہرانہ آراءکا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک بڑے تجزیہ نگار کو شام تک 15 سولہ چینلز نے آن لائن لیا انہوں نے اپنے تبصرے میں پہلے چینل سے بڑھ کر دوسرے چینل میں پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ شام کو ان سے کسی نے پوچھا جناب آپ نے پنجاب اسمبلی کی قرارداد کا مکمل متن ملاحظہ فرمایا ہے تو ان صاحب کا جواب تھا نہیں۔ اس قرارداد کے دوسرے حصے میں میڈیا کے ذمہ دارانہ کردار اور صحافتی اخلاقیات پر کاربند صحافیوں اور صحافتی اداروں کی کارکردگی کی تعریف و تحسین کی گئی تھی۔ تیسرے حصے میں میڈیا کے صاف ستھری شہرت رکھنے والے صحافیوں اور ایم پی ایز پر مشتمل کمیٹی بنانے کی بات کی گئی تھی۔
نہ صرف بابر اعوان لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بغیر پڑھے اس پر چڑھ دوڑے بلکہ سندھ پیپلز پارٹی بھی ایک مرتبہ پھر ان ایکشن تھی۔ نہ صرف سندھ میں ریلیاں نکالی گئیں بلکہ پی پی کے وزرا اور ارکان بطور احتجاج سیاہ پٹیاں باندھ کر اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر سندھ اسمبلی میں آئے۔
بابر اعوان نے تو شاید اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد مکمل فیصلہ پڑھ لیا ہو وہ قانون دان ہیں‘ فیصلے کو سمجھ بھی گئے ہوں گے۔ جس میں عدالت نے ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں کی بات نہیں کی صرف پارٹی کی سیاست کی بات کی ہے۔ صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہے ایوان صدر میں سیاست نہیں تو اور کیا ہو گا! عدالت نے مشورہ دیا ہے کہ پارٹی کی سرگرمیاں ختم کریں یعنی جیالا ازم کو فروغ نہ دیں وہ اسی صورت ممکن ہے کہ صدر پارٹی صدارت سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ پارٹی کی صدارت عزیز ہے تو ایوان صدر کو خدا حافظ کہہ دیں۔ اس فیصلے میں بہت کچھ صدر اور ایوان صدر کی حمایت میں بھی ہے فیصلہ پڑھا ہوتا تو یقیناً پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن اس قدر مشتعل نہ ہوتے۔ زرداری صاحب کے جاں نثار اور فداکار نہ صرف تازہ ترین فیصلے نہیں پڑھتے بلکہ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔ لاہور ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کچھ رہنما یہ بھی کہہ رہے کہ قائداعظم بھی بیک وقت گورنر جنرل اور مسلم لیگ کے صدر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے گورنر جنرل بننے کے بعد مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی تھی۔ 

مئی ،13 , 2011 فائیو ٹو کی پراسراریت




مئی ،13 , 2011
فائیو ٹو کی پراسراریت
فضل حسین اعوان ـ 

 پاکستان میں فائیو ٹو کے تناظر میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ بہت کچھ نہ بھی ہوا تو کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔ مڈٹرم الیکشن ہو سکتے ہیں۔ ضرر رساں اور بے ضرر بڑوں میں سے ایک جا سکتا ہے۔ کئی کورٹ مارشل ہو سکتے ہیں۔ استعفے آ سکتے ہیں یا لئے جا سکتے ہیں۔ جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کا بھی خدشہ ہے۔ امریکہ پاکستان میں اعلیٰ سطح پر انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخبروں کو بچانے، تعاون یا جی حضوری نہ کرنے والوں کو پھنسانے اور ہٹانے کی پوری کوشش کریگا۔ ایبٹ آباد سادہ آپریشن نہیں۔ اس کے پسِ پردہ بہت کچھ ہے۔ جس کی نشاندہی میاں نوازشریف نے یہ کہہ کر بھی کی ہے کہ انہیں اندر کی باتیں معلوم ہیں جو بتا نہیں سکتے۔ امریکہ کو بہت سی تکالیف کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ سٹیلتھ ہیلی کاپٹر کے گرنے یا مار گرائے جانے کا بھی صدمہ ہے۔ اس کے ڈھانچے کا معائنہ اب پاکستانی اور چینی ماہرین متعلقہ کر رہے ہیں۔ اسامہ کے مبینہ کمپاﺅنڈ سے میزائل اور راکٹ نہیں ملے جس پر یہ کہا جائے کہ اسے کمپاﺅنڈ سے ہٹ کیا گیا۔ تاہم پی ایم اے کی چیک پوسٹ محض دو سوا دو سو میٹر پر ہے۔ یہاں مسلح گارڈز اپنی قیادت کے برعکس ساری رات جاگتے ہیں اور اس اندھیری رات بھی جاگ رہے تھے جب لوڈ شیڈنگ تھی اور چاند کی چاندنی بھی نہیں تھی۔ (اس شب چاند کی 27 تھی) ان گارڈز کی طرح بقول چودھری نثار علی خان ایوانِ صدر میں زرداری صاحب ”جاگ“ رہے تھے۔ اپنے ذمے فرائض کی ادائیگی کےلئے جاگنا بھی فرض ہے۔ صدر صاحب نے تو اس رت جگا کے باوجود واشنگٹن پوسٹ میں 5/2 کے حوالے سے آرٹیکل لکھ کر فرضِ عین بھی ادا کر دیا۔ 
آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فوج ان کیمرہ بریفنگ دے رہی ہے۔ بریفنگ موضوع کی حساسیت کے باعث ان کیمرہ رکھی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو چند رکنی کابینہ کے اجلاس کی کارروائی بھی اخفا میں نہیں رہتی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اجلاس کی صدارت کرنےوالے صاحب بھی بعض اوقات میڈیا کو مخبری کردیتے ہیں۔ بریفنگ کے شرکاءکی تعداد تو پانچ سو کے لگ بھگ ہو گی۔ ان میں سے کئی میڈیا کے سورس اور بعض تو غیر ملکی ایجنسیوں کے پے رول پر بھی ہیں۔ لمحہ لمحہ کی خبر یہاں پہنچانی ہے پہنچ جائے گی۔ خدا خیر کرے۔ 
آج 5/2 پر قوم مشتعل، حکومت بے حس اور اپوزیشن جذباتی ہے۔ ضرورت سب کے متحد ہونے کی ہے، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ہے۔ اس میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملے کو جس حد تک ممکن ہے شفافیت کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کرے۔ ابھی تو یہ بھی کلیئر نہیں کہ ایبٹ آباد آپریشن حقیقت ہے، افسانہ یا ڈرامہ۔ اس آپریشن میں اسامہ بن لادن جاں بحق بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ ہو سکتا ہے ان کو امریکہ زندہ گرفتار کر کے لے گیا ہو۔ اگر اسامہ زندہ ہیں۔ امریکی حراست میں ہیں یا کہیں اور۔ پراسراریت سے پردہ اٹھ جائے تو قوم کے اشتعال میں کمی اور اس کا غم و غصہ کسی اور طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ اس پراسراریت کا بہرحال حکومت کو ہی پردہ چاک کرنا ہے۔ 5/2 اگر ڈرامہ قرار پاتا ہے۔ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن اس آپریشن میں جاں بحق نہیں ہوئے پھر بھی امریکی آپریشن کے حوالے سے افواج کی کارکردگی پر سوالیہ نشان برقرار رہتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال انکوائری کر رہے ہیں وہ ذمہ داروں کا تعین کر دیں گے۔ تاہم امریکی آپریشن کے تناظر میں پوری فوج کو ان دی لائن آف فائر نہیں رکھا جا سکتا۔ اسکی ماضی کی مثالی کارکردگی کو حرف تنقید نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ وزارت دفاع نے فوجی بجٹ میں 18 فیصد اضافے کی سفارش کی ہے۔ یہ اضافہ ہونا چاہئے۔ قوم نے اپنے دفاع کےلئے ہمیشہ قربانی دی ہے۔ قوم حکمرانوں کی عیاشی کےلئے ایک پیسہ دینے کی روادار نہیں۔ سرحدوں کی حفاظت پر سب کچھ نچھاور کرنے کےلئے تیار ہے۔ فوج کو کسی محاذ پر 10 ٹینکوں کی ضرورت ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا 7 آٹھ سے کام چلاﺅ، وزارت خزانہ نے گزشتہ سال کے دفاعی بجٹ میں 12 فیصد اضافے کی پیشکش کی ہے۔ اب اسے خود سے اس میں 18 فیصد اضافہ کر دینا چاہئے۔ سامنے ازلی دشمن کھڑا ہے۔

Thursday, May 12, 2011

آج : جمعرات ، 12 مئی ، 2011 نیا ترانہ





آج : جمعرات ، 12 مئی ، 2011
۔
نیا ترانہ
فضل حسین اعوان 
پہلے ریمنڈ ڈیوس ، اب ایبٹ آباد میں جارحانہ اپریشن پر امریکی انتظامیہ، اپوزیشن، سینٹ، کانگریس ،فوج اور میڈیا یکجا، یک رنگ و یک آہنگ،یک جان و یک زبان ہے۔ اِدھر پاکستان میں انہیں معاملات پر یکجائی ہے نہ یکتائی۔ جس سانحہ سے پورا ملک ہل کر رہ گیا۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کو سرے سے سنجیدہ ہی نہیںلیا۔ جنرل کیانی نے حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر اپنا برسلز کا دورہ منسوخ کردیا۔ امریکی جارحیت پر جب قوم سکتے کی حالت میں تھی وزیراعظم گیلانی تین چار روزہ پر کیف دورے پر فرانس چل گئے۔ وہ لوٹے تو صدر صاحب کویت سدھار گئے اب روس میں پائے جاتے ہیں۔اپوزیشن اصولی بات کرنے کے بجائے ق لیگ کو ساتھ ملانے کی رنجش کے خول سے باہر نہیں آرہی۔ وہ سارا غصہ فوج اور آئی ایس آئی پر نکال رہی ہے۔ چودھری نثار علی خان کا وہ ہاتھ اب فوج کے گریبان پر ہے جو کبھی بوٹ پر ہوتا تھا۔ بعض پاکستانی ٹی وی چینلز بھی امریکہ کے خیراتی وکیل کا کردارادا کر رہے ہیں۔ 17مارچ کو امن جرگے پر ڈرون حملے میں 44عمائدین مارے گئے تو سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ امریکی سفیر کو بلا کر مبینہ سرزنش کی گئی لیکن ایبٹ آباد سانحہ پر مکمل خاموشی ہے ،سفیر کی طلبی، اعتراض نہ احتجاج۔ وزیراعظم قومی اسمبلی میں اپنی قربانیاں یاد دلاتے رہے۔سٹرٹیجک اثاثوں کے خلاف کارروائی کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ۔گویا اس کے علاوہ سب کچھ قابلِ برداشت ہے۔ ڈرون حملوں کو بھی کئی بار ناقابلِ برداشت قرار دیا لیکن یہ بدستور ہورہے ہیں۔ کل بھی ہوا۔ قوم کو ناقابلِ برداشت کا مفہوم بھی سمجھا دیں۔ گارڈین کا دعویٰ ہے کہ مشرف نے 2001 میں امریکہ کو پاکستان میں کارروائی کا اختیار دیا۔اس معاملے میں بھی موجودہ حکومت مشرف کی جاں نشینی پر کاربند ہے۔ ڈرون حملوںپر محض دکھاوے کا احتجاج کیاجاتا ہے۔ اس تناظر میں کچھ حلقے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایبٹ آباد اپریشن حکومت پاکستان کی مرضی سے ہوا۔ کچھ لوگ فوج اور ائیر فورس کو بھی مطعون کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کے ہوائی اڈوں سے ہزاروں پروازیں افغانستان پر قہر توڑنے کیلئے اڑتی رہیں۔ امریکی ہیلی کاپٹر اور ڈرونز پاکستان کی فضائی حدود میں کبھی اجازت اور کبھی بلا اجازت داخل ہوتے رہے۔ پاک فضائیہ نے صلاحیت ہونے کے باوجود ایک بھی نہیں گرایا۔ اس لئے کہ حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔اب کچھ حلقوں کی توپوں کا رخ پاک فضائیہ کی طرف ہے۔اگر فضائیہ کے ٹارگٹ پر امریکی ہیلی کاپٹر آجاتے تو ان کو شوٹ کرنے کی اجازت کس نے دینا تھی؟ ائیر چیف نے ،آرمی چیف نے، فوج کے سپریم کمانڈر صدر زرداری نے یا چیف ایگزیکٹو وزیراعظم گیلانی نے ؟۔ پارلیمنٹرین کل کی بریفنگ میں دوسرا سوال یہ کریں کہ کیا اب ائیر فورس کو اجازت ہے کہ پاکستان کی حدود میں بغیر اجازت داخل ہونیوالا کوئی بھی غیر ملکی جہاز یا ہیلی کاپٹر مار گرائے؟ پاکستانی لیڈران اب ڈرامہ بازی بند کریں۔ قومی غیرت و خود داری کا مظاہرہ کریں۔ جو زبان سے کہتے ہیں اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔ امریکہ کی غلامی سے نکلیں۔باوقار قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ اگر معاملات اسی ڈگر پر چلانے ہیں۔ جھوٹ بولتا ہے۔ قوم کو دھوکہ دینا ہے امریکہ کی پالیسیوں پر چلنا ہے تو مندرجہ ذیل ترانے کو حرز جان بنالیں
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ
ہیں تیرے ثناں خواں ہم اور تابع فرماں ہم
تھامے ہیں عقیدت سے عظمت سے ترا پرچم
اک تو جو ہمارا ہے پھر ہم کو بھلا کیا غم
ہر دکھ کی دعا تو ہے ہر زخم کا تو مرہم
پھیری جو نظر تو نے جائیں گے وہیں مر، ہم
تو حافظِ کل عالم تو ناصر کل عالم
امریکہ او امریکہ ہے وردِ زباں ہر دم
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ
دنیا میں فقط سچا اک تیرا سہارا ہے
ہر رنج و مصیبت میں بس تجھ کو پکارا ہے
تجھ پر دل و جاں کیا ہے! ایمان بھی وارا ہے
ہر دوست ترا ہم کو جی جان سے پیارا ہے
جو بھی ترا دشمن ہے! دشمن وہ ہمارا ہے
تیری ہی عطاﺅں پر اپنا گزارا ہے
دلوائے کسی سے بھی رازق تو ہمارا ہے
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ
جو تیری طلب ہو گی ہم اس سے سوا دیں گے
اک تیرے اشارے پر ہم جان لڑا دیں گے
پیاروں کو کٹا دیں گے خوابوں کو سلا دینگے
خود اپنے نشیمن کو ہم آگ لگا دیں گے
پھر آگ کے شعلوں کو ڈالر کی ہوا دیں گے
مقتل میں تہہ خنجر جینے کی دعا دیں گے
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ







آج : جمعرات ، 12 مئی ، 2011
۔
نیا ترانہ
فضل حسین اعوان 
پہلے ریمنڈ ڈیوس ، اب ایبٹ آباد میں جارحانہ اپریشن پر امریکی انتظامیہ، اپوزیشن، سینٹ، کانگریس ،فوج اور میڈیا یکجا، یک رنگ و یک آہنگ،یک جان و یک زبان ہے۔ اِدھر پاکستان میں انہیں معاملات پر یکجائی ہے نہ یکتائی۔ جس سانحہ سے پورا ملک ہل کر رہ گیا۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کو سرے سے سنجیدہ ہی نہیںلیا۔ جنرل کیانی نے حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر اپنا برسلز کا دورہ منسوخ کردیا۔ امریکی جارحیت پر جب قوم سکتے کی حالت میں تھی وزیراعظم گیلانی تین چار روزہ پر کیف دورے پر فرانس چل گئے۔ وہ لوٹے تو صدر صاحب کویت سدھار گئے اب روس میں پائے جاتے ہیں۔اپوزیشن اصولی بات کرنے کے بجائے ق لیگ کو ساتھ ملانے کی رنجش کے خول سے باہر نہیں آرہی۔ وہ سارا غصہ فوج اور آئی ایس آئی پر نکال رہی ہے۔ چودھری نثار علی خان کا وہ ہاتھ اب فوج کے گریبان پر ہے جو کبھی بوٹ پر ہوتا تھا۔ بعض پاکستانی ٹی وی چینلز بھی امریکہ کے خیراتی وکیل کا کردارادا کر رہے ہیں۔ 17مارچ کو امن جرگے پر ڈرون حملے میں 44عمائدین مارے گئے تو سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ امریکی سفیر کو بلا کر مبینہ سرزنش کی گئی لیکن ایبٹ آباد سانحہ پر مکمل خاموشی ہے ،سفیر کی طلبی، اعتراض نہ احتجاج۔ وزیراعظم قومی اسمبلی میں اپنی قربانیاں یاد دلاتے رہے۔سٹرٹیجک اثاثوں کے خلاف کارروائی کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ۔گویا اس کے علاوہ سب کچھ قابلِ برداشت ہے۔ ڈرون حملوں کو بھی کئی بار ناقابلِ برداشت قرار دیا لیکن یہ بدستور ہورہے ہیں۔ کل بھی ہوا۔ قوم کو ناقابلِ برداشت کا مفہوم بھی سمجھا دیں۔ گارڈین کا دعویٰ ہے کہ مشرف نے 2001 میں امریکہ کو پاکستان میں کارروائی کا اختیار دیا۔اس معاملے میں بھی موجودہ حکومت مشرف کی جاں نشینی پر کاربند ہے۔ ڈرون حملوںپر محض دکھاوے کا احتجاج کیاجاتا ہے۔ اس تناظر میں کچھ حلقے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایبٹ آباد اپریشن حکومت پاکستان کی مرضی سے ہوا۔ کچھ لوگ فوج اور ائیر فورس کو بھی مطعون کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کے ہوائی اڈوں سے ہزاروں پروازیں افغانستان پر قہر توڑنے کیلئے اڑتی رہیں۔ امریکی ہیلی کاپٹر اور ڈرونز پاکستان کی فضائی حدود میں کبھی اجازت اور کبھی بلا اجازت داخل ہوتے رہے۔ پاک فضائیہ نے صلاحیت ہونے کے باوجود ایک بھی نہیں گرایا۔ اس لئے کہ حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔اب کچھ حلقوں کی توپوں کا رخ پاک فضائیہ کی طرف ہے۔اگر فضائیہ کے ٹارگٹ پر امریکی ہیلی کاپٹر آجاتے تو ان کو شوٹ کرنے کی اجازت کس نے دینا تھی؟ ائیر چیف نے ،آرمی چیف نے، فوج کے سپریم کمانڈر صدر زرداری نے یا چیف ایگزیکٹو وزیراعظم گیلانی نے ؟۔ پارلیمنٹرین کل کی بریفنگ میں دوسرا سوال یہ کریں کہ کیا اب ائیر فورس کو اجازت ہے کہ پاکستان کی حدود میں بغیر اجازت داخل ہونیوالا کوئی بھی غیر ملکی جہاز یا ہیلی کاپٹر مار گرائے؟ پاکستانی لیڈران اب ڈرامہ بازی بند کریں۔ قومی غیرت و خود داری کا مظاہرہ کریں۔ جو زبان سے کہتے ہیں اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔ امریکہ کی غلامی سے نکلیں۔باوقار قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ اگر معاملات اسی ڈگر پر چلانے ہیں۔ جھوٹ بولتا ہے۔ قوم کو دھوکہ دینا ہے امریکہ کی پالیسیوں پر چلنا ہے تو مندرجہ ذیل ترانے کو حرز جان بنالیں
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ
ہیں تیرے ثناں خواں ہم اور تابع فرماں ہم
تھامے ہیں عقیدت سے عظمت سے ترا پرچم
اک تو جو ہمارا ہے پھر ہم کو بھلا کیا غم
ہر دکھ کی دعا تو ہے ہر زخم کا تو مرہم
پھیری جو نظر تو نے جائیں گے وہیں مر، ہم
تو حافظِ کل عالم تو ناصر کل عالم
امریکہ او امریکہ ہے وردِ زباں ہر دم
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ
دنیا میں فقط سچا اک تیرا سہارا ہے
ہر رنج و مصیبت میں بس تجھ کو پکارا ہے
تجھ پر دل و جاں کیا ہے! ایمان بھی وارا ہے
ہر دوست ترا ہم کو جی جان سے پیارا ہے
جو بھی ترا دشمن ہے! دشمن وہ ہمارا ہے
تیری ہی عطاﺅں پر اپنا گزارا ہے
دلوائے کسی سے بھی رازق تو ہمارا ہے
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ
جو تیری طلب ہو گی ہم اس سے سوا دیں گے
اک تیرے اشارے پر ہم جان لڑا دیں گے
پیاروں کو کٹا دیں گے خوابوں کو سلا دینگے
خود اپنے نشیمن کو ہم آگ لگا دیں گے
پھر آگ کے شعلوں کو ڈالر کی ہوا دیں گے
مقتل میں تہہ خنجر جینے کی دعا دیں گے
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے
یا حافظ امریکہ یا ناصر امریکہ



Wednesday, May 11, 2011

آبِ زم زم کو کثیف قرار دینے کی بدباطنی 11-5-11


11-5-11



آبِ زم زم کو کثیف قرار دینے کی بدباطنی
فضل حسین اعوان
ہنود و یہود و نصاریٰ تعصب کے باعث دین حنیف کی حقانیت کو دھندلانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن چراغِِ مصطفوی کی ضوفشانی سے دینِ حق کی درخشانی ماند پڑنے کے بجائے مینارہ نور بن کر مزید ضیا پاش ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کبھی حضور کے کارٹون بنا کر مسلمانوں کی دلآزاری کی جاتی ہے کبھی قرآن جلا کر اور کبھی نقاب و حجاب پر پابندی لگا کر۔ اسلام کے دشمنوں کا یہی عمل دین خدا کی ترویج اور فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔ شمعِ رسالت کے پروانے عشقِ رسولﷺ سے سرشار سربکف ہو کر گھروں سے نکلتے ہیں تو غیر متعصب غیر مسلموں کے اندر یہ جاننے کی آرزو پیدا ہوتی ہے کہ اُس ہستی میں ایسا کیا ہے جس پر جاں نچھاور کرنے کے لئے مسلمان بے چین ہیں۔ یہ لوگ مطالعہ کرتے ہیں تو حضورﷺ کی دیانت، صداقت اور رب کائنات کی محبوبیت واضح ہوتی ہے۔ تو پھر اسی کے گرویدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد لاکھوں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کچھ من کے پلید اور متعصب لوگ‘ کمزور ایمان مسلمانوں کے دلوں میں ان کے دین کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرنے اور غیر مسلموں کو اسلام سے دور رکھنے کے لئے زہریلا اور نفرت انگیز پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال، بی بی سی کی متبرک آبِِ زم زم کے بارے میں بدباطنی پر مبنی رپورٹ ہے۔ لندن میں ایسوسی ایشن آف پبلک انالسٹس کے صدر ڈنکن کیمپ بیل نے آبِ زم زم کو کثیف قرار دیتے ہوئے اس کا استعمال ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان لوگوں نے آبِِ زم زم کے نمونے مشرقی، جنوبی لندن اور لیوٹن میں سٹورز پر 10 لٹر کی بوتلوں سے حاصل کئے جو آبِ زم زم کے نام پر فروخت ہوتی ہیں۔ ہر مسلمان آگاہ ہے کہ سعودی حکومت آبِ زم زم ایکسپورٹ نہیں کرتی۔ عازمینِ حج اور عمرہ کو صرف پانچ لٹر مقدس پانی لانے کی اجازت ہے۔ سٹور پر بیچا جانیوالا پانی یقیناً لندن کے نلکوں اور ٹونٹیوں سے بھرا گیا ہے۔ اس میں آرسینک کی معیار سے تین گنا زیادہ مقدار‘ نائٹریٹ اور دیگر نقصان دہ بیکٹیریا کا ہونا عجب نہیں ہے۔ 
آپ کسی بوتل میں پانی بھر کے رکھیں تین دن بعد پینے کے قابل نہیں رہے گا۔ اللہ نے جون 2008 میں عمرہ کی سعادت بخشی۔ ڈیڑھ لٹر کی بوتل میں پڑا آبِ زم زم دو سال بعد بھی ویسا ہی تھا جیسا پہلے روز۔ حالانکہ یہ میں نے خود چلر پلانٹ سے بھرا تھا جس سے کثافت کا چانس ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ 
سعودی عرب نے آب زم زم کے کثیف ہونے کی اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے۔ سعودی جیالوجیکل سروے کے صدر زوہیر نواب کے مطابق اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ آب زم زم کثیف ہو چکا ہے۔ ہمارے ماہرین ہر روز آب زم زم کے تین نمونے لے کر ان کا تجزیہ اور مطالعہ کرتے ہیں۔ مکہ میں آب زم زم کی ترسیل بے داغ سٹیل کے پائپوں کے ذریعے کولنگ اسٹیشن اور بعد میں وہاں سے مسجد الحرام میں ہوتی ہے۔ آب زم زم میں آرسینک کی مقدار قدرتی حد تک ہے جو صحت کیلئے ہرگز نقصان دہ نہیں ہوتی۔ لندن میں سعودی سفارت خانے نے بھی آب زم زم کے شفاف و صاف ہونے کی تصدیق جاری کر دی ہے اور کہا ہے کہ سعودی عرب آب زم زم برآمد نہیں کرتا اور برطانوی دکانوں میں موجود آب زم زم غیر قانونی ہو سکتا ہے۔ آب زم زم کا تجزیہ فرانسیسی لیبارٹری سے بھی کرایا گیا جو بالکل صحیح آیا ہے۔ 
انگریزوں کی لندن کے پانی کو آبِ زم زم قرار دیکر جاری کردہ رپورٹ ان کی اسلام دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ جاپانی سائنسدان ڈاکٹر میسارو ایمونو کی غیر جانبداری پر مبنی رپورٹ بھی ملاحظہ فرمائیے:”جاپان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر مسارو ایمونو نے انکشاف کیا ہے کہ آب زمزم میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو اس کے سوا دنیا کے کسی بھی پانی میں موجود نہیں۔ انہوں نے نینو نامی ٹیکنالوجی کی مدد سے آب زمزم پر متعدد تحقیقات کی ہیں جن کی مدد سے انہیں معلوم ہوا کہ آب زمزم کا ایک قطرہ عام پانی کے ایک ہزار قطروں میں شامل کیا جائے تو عام پانی میں بھی وہی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو زمزم میں ہیں۔ 
ڈاکٹر ایمونو جاپان میں قائم بیڈو انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ جاپان میں انہیں ایک عرب باشندے سے آب زمزم ملا جس پر انہوں نے متعدد تحقیقات کی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ زمزم کے ایک قطرے کا بلور (ایک چمکدار معدنی جوہر) انفرادیت رکھتا ہے۔ دیگر کسی پانی کے قطرے کے بلور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ کرہ ارض کے کسی خطے سے لئے گئے پانی کے خواص زمزم سے کسی طرح بھی مشابہت نہیں رکھتے۔ آب زمزم کے خواص کو کسی طرح بھی تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اس کی اصل وجہ جاننے سے سائنس قاصر ہے۔ زمزم کی ری سائیکلنگ کرنے کے بعد بھی اس کے بلور میں تبدیلی نہیں پائی گئی۔“ 
جاپانی سائنسدان نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان کھانے، پینے اور ہر کام کرنے سے پہلے ”بسم اللہ“ پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس پانی پر ”بسم اللہ“ پڑھی جائے اس میں عجیب قسم کی تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعہ عام پانی کو طاقتور خوردبین کے ذریعہ دیکھا گیا اور اس پر ”بسم اللہ“ پڑھنے کے بعد دیکھا گیا تو اس کے ذرات میں تبدیلی واقع ہو گئی تھی۔ بسم اللہ پڑھنے کے بعد پانی کے قطرے میں خوبصورت بلور بن گئے تھے۔ ایمونو نے پانی پر قرآن مجید کی آیات پڑھوائیں تو اس میں بھی عجیب قسم کا تغیر واقع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پانی میں اللہ تعالیٰ نے عجیب قسم کی صلاحیتیں رکھی ہیں۔ پانی میں قوت سماعت، احساس، یادداشت اور ماحول سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہے۔ اگر پانی پر قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کی جائے تو اس میں مختلف امراض سے علاج کی صلاحیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ 
آبِ زم زم کی روانی ایک زندہ معجزہ ہے۔ حج کے دنوں میں 35 لاکھ عازمین مکہ میں ہوتے ہیں۔ مدینہ میں روزانہ سینکڑوں ٹینکر متبرک پانی لے جاتے ہیں۔ محرم کے دنوں میں صرف چند ہزار مسلمان عمرہ کیلئے جاتے ہیں۔ ذوالحجہ میں آب زم زم کے کنویں میں پانی کی سطح ایک انچ نیچے جاتی ہے نہ محرم میں ایک انچ اوپر آتی ہے۔ سعودی عرب تیل کی سرزمین ہے جس کے چھوٹے سے خطے میں آب زم زم موجود ہے اردگرد تیل ہے صدیوں سے یہ پانی مسلسل استعمال ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تیل کے وسیع و عریض کنویں خالی ہو رہے ہیں ۔ایک چھوٹے سے علاقے میں موجود آبِ زم زم کے ذخائر میں ہزاروں سال کے استعمال کے بعد بھی کمی نہیں آئی۔ 





Tuesday, May 10, 2011

مہنگائی .... اور ملازمین میں مایوسی




 منگل ، 10 مئی ، 2011
مہنگائی .... اور ملازمین میں مایوسی
فضل حسین اعوان 
بجٹ کی آمد آمد ہے، بجٹ سے قبل ٹیکسوں کے طومار اور مہنگائی کی یلغار کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔ گو گزشتہ ماہ حکومت نے 52 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا کر اور کچھ پرانے بڑھا کر بجٹ سے قبل بجٹ کا ارمان پورا کرلیا لیکن اصل بجٹ رواں ماہ کے آخر میں پیش کرنا ہے جس سے بھی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تمام تر خدشات اور تفکرات کے باوجود تنخواہ دار طبقے کو بجٹ میں تنخواہیں بڑھنے کی آس ہوتی ہے۔ حکومت جیسی بھی ہو، بحرانوں میں گھری یا خزانے بھری، ممکنہ حد تک ملازمین کی اشک شوئی کرتی ہے لیکن آج تنخواہ دار طبقہ حکومت کی طرف سے یہ بتانے پر مایوس ہے کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے کی امید نہ رکھی جائے۔ملازمین تنخواہوں میں شوقیہ اضافہ نہیں چاہتے۔ تنخواہوں میں جو دس پندرہ فیصد اضافہ ہوتا ہے، یہ کایا پلٹ نہیں، پورا سال حکومت ضمنی بجٹوں، تیل کی قیمت میں اضافے، بجلی و گیس کی قلت کے باوجود انکے بل بڑھانے سے عام آدمی کی آمدن اور اخراجات میں عدم توازن پیدا کر دیتی ہے۔ تنخواہوں میں اضافے سے یہ عدم توازن مکمل نہ سہی کسی حد تک متوازن ہوجاتا ہے۔جنوری 2010ءمیں پٹرول کی قیمت 65 روپے تھی۔ آج 88 روپے فی لٹر ہے۔ اگر مالی سال کے حوالے سے بات کریں تو گزشتہ سال جولائی میں قیمت 67 روپے تھی۔ اندازہ کیجئے تیل کی قیمتوں میں تفاوت کا، ہمارے ہاں مہنگائی کا دارومدار عموماً تیل یا بجلی کے نرخوں پر ہوتا ہے۔ دونوں میں متواتر اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ گزشتہ سال تو کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ پھر مہنگائی بھی اسی حساب سے بڑھی۔ پی آئی اے، ریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے میں بے مہار اضافہ کردیا گیا۔ پرائیویٹ کیا، سرکاری تعلیمی اداروں نے بھی فیسیں بڑھا دیں، بجلی اور گیس کی قلت کے باعث ہزاروں کارخانے بند ہوگئے۔ چھوٹے موٹے کاروبار ٹھپ ہیں۔ ایسے میں تو حکومت کو چاہئے کہ عام آدمی کو مہنگائی کے تناسب سے نہ سہی کچھ نہ کچھ ریلیف تو فراہم کرے۔ اسکی ایک صورت حسبِ سابق ملازمین کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ ہے لیکن قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرپرسن فوزیہ وہاب نے تنخواہوں میں اضافے کا امکان رد کرتے ہوئے ملک کے بہت بڑے طبقے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ مرکز ملازمین کی تنخواہ بڑھائے تو صوبے اسکی تقلید کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو بھی اس پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ حکومت نے فوزیہ وہاب کی تجویز پر عمل کیا تو ملک میں ہر سو مایوسیوں کے سائے چھائے ہوں گے۔حکومت ملازمین کو اس لئے مہنگائی کے تناسب سے ریلیف نہیں دینا چاہتی کہ یہ بے زبان طبقہ ہے۔ اپنے حق کیلئے احتجاج کی ہمت نہیں کرتا۔ احتجاج کرے بھی تو حکومت کو اسکی پروا نہیں۔ حکومت کے پاس روپے پیسے کی کیا کمی ہے۔ مالی ذخائر کی مقدار 18 ارب ڈالر تک ہے۔ امریکہ کی جنگ کا کرایہ اربوں ڈالر میں مل رہا ہے۔ کشکول برداری سے بھی کچھ کم رقم وصول نہیں ہورہی۔ سیلاب زدگان ہنوز بے آسرا ہیں، بیرون ممالک ملنے والی امداد بھی کہیں محفوظ ہوگی۔ ابھی کل آئی ایم ایف سے مزید قرض بھی لیا ہے۔اسامہ بن بن لادن کی شہادت کے بعد فوج اور آئی ایس آئی زبردست عالمی دباﺅ میں ہے۔ ایسے میں عسکری، حکومت اور حکومت سے باہر کی سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت تھی لیکن وزیراعظم گیلانی سانحہ کے روز فرانس چلے گئے۔ وہ 7 مئی کو واپس پہنچے تو صدر صاحب کویت سدھار گئے، کل وہ روس جائینگے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک جو ہر متعلقہ اور غیرمتعلقہ معاملے میں بولنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، سانحہ ایبٹ آباد پر خاموش رہے اور چند روز کیلئے سعودی عرب چلے گئے۔ اہم مواقع پر بے مقصد دوروں سے ثابت ہوتا ہے کہ پیسہ بڑا ہے۔ جس دن ایبٹ آباد میں قہر ٹوٹا، پی پی، (ق) لیگ قائدین ایوان صدر میں اتحاد کیلئے وعدے معاہدے کررہے تھے اور سات سال تک ساتھ نبھانے کی قسمیں کھا رہے تھے۔ اگلے روز اس وقت 14 وزراءسے حلف لیا گیا جب پوری قوم امریکی جارحیت پر سکتے میں تھی۔ ان وزراءکے اخراجات کے بارے میں سوچئے، ان کیلئے پیسہ ہے، ملازمین کی تنخواہوں کیلئے نہیں ہے۔ (ق) لیگ کے وزراءمیں سے ایک کو اقلیتی امور کی وزارت پسند نہیں آئی تو وہ روٹھ گئے۔ کہا استعفیٰ جیب میں رکھا ہے، دیا اس لئے نہیں کہ کہیں چور کی لنگوٹی بھی ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔ (ق) لیگ کی قیادت نے صدر سے بات کی، وزارت صحت ملی تو روٹھا وزیر مان گیا۔ جب پتہ چلا کہ جون میں وزارت صحت بھی تحلیل ہو جائے گی تو پھر منہ بسور لیا۔ حکومت نے (ق) لیگ کا مطالبہ اس لئے مان لیا کہ اسکے پاس فی الوقت بات منوانے یا بلکہ بلیک میلنگ کی طاقت تھی جو اس نے استعمال کی۔ عوام کے پاس ریلیف کے حصول کیلئے کوئی طاقت نہیں۔ انکی قسمت حکومت کے رحم و کرم پر ہے جس کے پاس دولت کی کمی نہیں، جو صرف اپنے تصرف میں ہی لانے کیلئے ”پرعزم“ ہے۔ سرکاری ملازم چاہیں تو اپنا حق حاصل کرسکتے ہیں بلکہ پوری قوم کو مہنگائی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلا سکتے ہیں۔ تین روز کی ہڑتال کریں، مکمل ہڑتال، نائب قاصد سے لیکر چیف سیکرٹری تک۔ سکول سے لیکر گورنر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم ہاﺅس اور ایوان صدر تک میں کوئی ملازم دستیاب نہ ہو۔ جام تھمانے والے نہ رنگین محفلیں سجانے اور ان میں شمع جلانے والے۔ بجلی گیس بھی بند رہے تو یقین جانئے خوابیدہ ضمیر حکمران جاگ جائیں گے۔ عوام کو رلانے والوں کی طبیعت صاف ہوجائیگی۔ اب شاید اسکے سوا کوئی چارہ نہیں۔
٭٭٭