منگل ، 17 مئی ، 2011
ذرا سوچئے
فضل حسین اعوان
جنرل اسلم بیگ کے بقول ایبٹ آباد آپریشن میں امریکہ کے تین اہداف تھے۔(1) اوباما کی آئندہ انتخابات میں پوزیشن کو مستحکم کرنا (2) افغانستان سے فوجیں نکالنے کا جواز مہیا کرنا (3) پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنا....پاک فوج امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے، امریکہ اس کو بدنام کیوں کرے گا؟ اس سوال کا ذہن میں آنا قدرتی امر ہے۔ حکومت پاکستان اور فوج واقعی امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن جس طرح امریکہ چاہتا ہے اس طرح نہیں۔ آج مشرف کی طرح فوج امریکی مطالبات پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کر رہی۔ امریکہ کا سب سے بڑا مطالبہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہے۔ حکومت نے اس معاملے میں فوج کو بااختیار بنا دیا ہے۔ فوج آپریشن کے حق میں
نہیں۔ اس لئے امریکی مطالبہ پر عمل معرضِ التوا میں ہے۔ جنرل شجاع پاشا نے بریفنگ میں بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی صدر اور وزیر اعظم کے حکم پر ہوئی۔ آئی ایس آئی، سی آئی اے، را اور موساد کی گھناﺅنی سازشوں کو ناکام بناتی اور بے نقاب کرتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کا پردہ چاک کیا جس پر امریکہ پاک فوج اور آئی ایس آئی پر برہم ہے۔ طاقت کے گھمنڈ میں امریکیوں کے دماغ میں تھانیداری کا خناس جڑ پکڑ چکا ہے۔ جنرل شجاع پاشا واشنگٹن گئے تو لیون پینٹا نے ملاقات کے دوران بدتمیزی کی۔ پاکستانی جرنیل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو سی آئی اے چیف کے اندر انتقام کے الاﺅ کا بھڑکنا ان کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ اس کا فوری رد عمل ملاقات
کے دوسرے روز شمالی وزیرستان میں ایک اور ڈرون حملہ تھا اور پھر ایبٹ آباد میں اوباما کا ڈرامہ۔ امریکہ کے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو دفاعی پوزیشن پر لانے کے لئے جارحانہ اقدامات اور بیانات تو سمجھ میں آتے ہیں، اپنے ہی لوگوں کا امریکہ کی زبان بولنا تعجب خیز ہے۔میاں نواز شریف جرنیلوں کے زخم خوردہ ضرور ہیں لیکن ان جرنیلوں اور آج کے جرنیلوں میں فرق ہے، فرق نہ ہوتا تو آج بھی فوج اقتدار میں ہوتی۔ کچھ سیاستدان جلا وطن اوراکثر مہم جو جرنیلوں کے شانہ بشانہ ہوتے۔14مئی کو رائیونڈ میں میاں نواز شریف نے امریکی سفیر کیمرون منٹر سے ملاقات کے بعد دھواں دار پریس کانفرنس کی جس میں فوج کی خبر لی گئی۔ فرمایا ”سیکورٹی ادارے کنٹرول میں لائے جائیں، ایجنسیاں پارٹیاں بنانا اور انہیں تقسیم کرنا چھوڑ دیں۔ امریکہ یا کوئی پاکستانی ادارہ ناراض ہوتا ہے تو اس کی مرضی“ لگتا ہے میاں صاحب چودھری نثار کے سحر اور اثر سے ابھی تک باہر نہیں نکل پائے۔ عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف دھرنا دیا تو چودھری نثار نے دھرنے کو ایجنسیوں کا سپانسرڈ قرار دیا۔ اس روز انہوں نے ایجنسیوں پر سیاست میں مداخلت کا الزام بھی لگایا، یہ الزام میاں صاحب نے دہرا دیا۔ چودھری نثار نے ایبٹ آباد آپریشن کو سقوط پاکستان سے بڑا سانحہ قرار دیا۔ نواز شریف نے اس کو بھی اپنا لیا۔ حالانکہ پاکستان کے تمام تر المیات مل کر بھی سقوط ڈھاکہ جیسے نہیں ہو سکتے۔ چودھری کی باتوں پر عام پاکستانی بھی ایجنسیوں کی کارکردگی کا شاکی تھا لیکن جنرل شجاع پاشا نے چودھری نثار کو آئینہ دکھایا تو واضح ہو گیا کہ سیاستدان کس طرح اپنے ذاتی مقاصد کے لئے قومی اداروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ پاشا کہتے ہیں کہ انہوں نے نثار کا ذاتی کام نہیں کیا، اس لئے انہوں نے مجھے ٹارگٹ بنا لیا.... اس پر نثار کے اندر کا شریر بچہ گہری نیند سو گیا۔ ساتھ ہی تہمینہ بی بی سمیت ساتھیوں کی اچھل کود بھی ساون کی برسات کی مانند تھم گئی۔ آج ہر طرف مفادات کی سیاست اور سیاسی جوڑ توڑ ہو رہے ہیں۔ ن لیگ کو نہ جانے کہاں ایجنسیاں پارٹیوں کی تشکیل اور جوڑ توڑ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ن لیگ شاید عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خفا ہو گی۔ جو بے جا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو بھی ن لیگ سے آگے نکلنے میں تحریک انصاف کو کم از کم 50 سال کا عرصہ درکار ہے۔ میاں صاحب اعلیٰ پائے کے سیاستدان ہیں۔ سیاسی دشت کی ویرانی اور لیڈر شپ کے قحطة الرجال میں شاید ملک کے سب سے بڑے سیاستدان بھی۔ ان کو موجودہ حالات میں امریکہ کے بارے میں عوامی جذبات کا ادراک ہونا چاہیے۔ امریکہ کہتا ہے ایجنسیوں کی ناک تلے ایبٹ آباد میں یہ سب کیسے ہوتا رہا۔ میاں صاحب نے بھی چند روز قبل ایسا ہی کہہ دیا۔ قوم عوامی امنگوں کے مطابق آپ کی زبان سے کچھ سننا چاہتی ہے۔ امریکہ کی ترجمانی پر افسردہ ہے۔ ذرا سوچئے! آپ کسی کی مفاداتی سوچ کا یرغمال تو نہیں بن رہے۔
No comments:
Post a Comment