5 -5- 2011
!گیلانی۔۔ مختاراں مائی ۔۔ پی ایچ ڈی
فضل حسین اعوان
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 30 اپریل کو یعنی اپریل فول کے 29 دن بعد لاہور میں اے پی این ایس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ نہ صرف جرنلزم میں ماسٹر ہیں بلکہ انہوں نے مارمرا یونیورسٹی ترکی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔ اداکارہ میرا کی طرح انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھنے والے تاجدار سخن نے یقین دلایا کہ ان کی یہ ڈگری جعلی نہیں اصلی ہے۔ پرجاپت نے اگر ایم اے جرنلزم کی ڈگری بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری (خیراتی سوری اعزازی) کی طرح حاصل کی ہے تو خدا پرجا کی حالت پر رحم فرمائے۔ بہرحال وزیراعظم گیلانی علم اور قلم کے میدان میں مختاراں مائی کی سطح کے قریب تر ہو گئے ہیں۔ مختاراں مائی کینیڈا کی لورین یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی یافتہ ہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے ”چاہ یوسف“ لکھ کر بطور رائٹر شہرت پائی۔ مختاراں مائی نے ”ان دی نیم آف آنر“ قلمبند کرکے قلم توڑ دیا۔ گیلانی صاحب کی کتاب دیسی زبان اردو میں مائی کی ولایتی زبان انگریزی میں ہے۔
مائی کی وجہ شہرت سے سب واقف ہیں۔ 9 سال قبل مبینہ طور پر ظلم کے پہاڑ اس طرح ٹوٹ پڑے کہ جہاں مختاراں مائی کی روح تک کُچلی گئی وہیں انسانیت بھی اس جبر اور قہر پر تھرا گئی۔ مائی کی طرف سے 2002ءمیں 14 افراد پر بے حرمتی کا الزام لگایا گیا۔ ایف آئی آر درج ہوئی۔ مقدمہ چلا انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 کو سزائے موت سنائی۔ ملزم ہائیکورٹ گئے تو وہاں سے پانچ کو بری کرکے چھٹے کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ مختاراں مائی نے اس فیصلے کے خلاف پاکستان کا چوٹی کا وکیل کیا‘ جو بلاشبہ جج کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن وہ واقفیت پر اترائے نہ تعلقات بروئے کارلائے اور نہ ہی بحالی کے احسانات جتلائے۔ کیس اپنی اہلیت صلاحیت اور قابلیت کے بل بوتے پر لڑا اور ہار گئے۔ پھر آزاد عدلیہ کے علمبردار‘ عدلیہ کی بحالی کے دعویدار نے عدالت کے بارے میں وہی کچھ کہا جو ان کی پارٹی این آر او جیسے فیصلوں پر کہتی رہتی ہے۔ غلامی کرتے کرتے ہماری عادتیں بھی آقا ¶ں جیسی ہو گئی ہیں۔ جو سنا اس پر بنا سوچے سمجھے اور پرکھے یقین کر لیا پھر خواہ فیصلہ ڈوگر کورٹ سے آیا یا اپنی بحال کرائی کورٹ سے۔ اگر مرضی کے خلاف ہوا تو طوفان اور بھونچال اٹھا دیا۔
امریکی سفیر کیمرون منٹر کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہنا تھا کہ ملزموں کی رہائی پر مایوسی ہوئی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اندرونی معاملہ کسے کہتے ہیں اور مداخلت کسے؟.... امریکہ میں وجود رکھنے والی ہیومن رائٹس واچ این جی او کے ایشیائی ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے شدت جذبات میں بہت کچھ کہا۔ یہ بھی‘ کہ پاکستان میں نظام عدل خواتین کے تحفظ حقوق میں ناکام رہا ہے۔ اس این جی اوکی پاکستان میں بڑ کی جڑ کی طرح شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی عہدیدار اور کارکن فیصلے کے خلاف بال لہرا لہرا کر اور سر جھٹکا جھٹکا کا سیاپا کرتی نظر آئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی لبرل اور جدت پسندی کے دعویدار مرد و خواتین بھی عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ اس سب کی وجہ کیا؟ جو ذہن میں دھارا تھا‘ جس فیصلے کیلئے ذہن بنایا تھا ویسا فیصلہ نہیں آیا۔ ان کے نزدیک وہی سچ ہے جو سن رکھا ہے اسے ہی دل و دماغ میں راسخ کر لیا ہے۔ زمین کو اپنے مدار نہیں ہماری سوچ کے گرد گھومنا چاہئے۔ معاشرے میں یہاں بعض اوقات پنچایتیں ستمگر اور ان کے فیصلوں کی زد میں آنے والے ستم رسیدہ ہوتے ہیں وہیں ظالم مظلوم کا روپ دھار کر دنیا کو بیوقوف بنا ڈالتے ہیں۔ کبھی کبھی بال الجھا کر کپڑے پھاڑ کر خود کو زخم لگا کر عورتیں تھانے جا پہنچتی ہیں۔ حقیقت کو سامنے لانے کیلئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا اور کیا چارہ کار ہو سکتا ہے؟ میروالا کے گریجوایشن کی اصلی ڈگری والے مقامی ایم این اے جمشید دستی جن کے پاس ابھی تک پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں ہے‘ نے ٹی وی چینل پر قسم اٹھا کر کہا تھا کہ مائی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہی نہیں۔ یہ سب افسانہ اور ڈرامہ ہے جو این جی اوز نے پیسہ بنانے کے لئے رچایا۔ 2002ءمیں میروالا میں خدا جانتا ہے کیا ہوا تاہم مختاراں مائی پر ستم ضرور ٹوٹا جس کی سزا ایک شخص کو عمر قید کی صورت میں مل گئی ہے۔ حامی کہتے ہیں مختاراں 9 سال تک انتظار کی سولی پر لٹکی رہی۔ اس کے نامزد کردہ 14 میں سے 13 ملزم بری ہو گئے۔ وہ بھی اعلیٰ ترین عدالت سے۔ ان میں سے پانچ 9 سال تک سلاخوں کے پیچھے اپنے خاندانوں سے دور رہے۔ اگر وہ مجرم ہیں تو مبینہ جرم کی سزا موت ہے۔ اگر سپریم کورٹ نظرثانی کی اپیل پر بھی فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو ان انسانوں کے جیل میں اذیت میں گزارے 9 سال کس کھاتے میں گئے؟ کیا کوئی یہ 9 سال ان کو لوٹا سکتا ہے۔ یقیناً نہیں۔ تو آئین ساز اور قانون باز ازالے اور مداوے کی کوئی صورت نکالیں۔
No comments:
Post a Comment