About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, May 9, 2011

مدر ڈے









 پیر ، 09 مئی ، 2011

مدر ڈے
فضل حسین اعوان ـ
ماں وہ نعمت اور عظمت ہے جس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں۔ ماں اولاد کے لئے گلاب کی خوشبو، قمریوں کی کو کو، چاندنی کی جھلمل، نورانی برسات کا بادل، شفق کی لالی، سایہ دار شجر کی ثمربار ڈالی، دشت میں سایہ ¿ حیاتِ جاوداں کا سرمایہ، پیاس میں ساگر، قدم قدم کی راہبر اور اس کے سوا کیا کچھ نہیں! سب کچھ....
پھولوں کی خوشبو بہاروں کی برسات ماں ہی تو ہے
مہک رہی ہے جس سے میری کائنات ماں ہی تو ہے
سچی ہیں جس کی محبتیں سچی ہیں جس کی چاہتیں
سچے ہیں جس کے پیار کے جذبات ماں ہی تو ہے
جن کے سر سے ماں اُٹھ گئی ان کا سب کچھ اُجڑ گیا۔ دنیا تاریک ہو گئی۔ ماں اور خدا کے درمیان رابطہ ٹوٹا تو انسان کو وہ بوجھ خود اٹھانا پڑا جو ماں کی دعاﺅں نے سنبھال رکھا تھا 
کیسے آئے مصیبت مرے سامنے
آ جاتی ہے ماں کی دعا تھامنے
حضرت موسٰیؑ کی والدہ کا انتقال ہوا۔ پیغمبرؑ خدا سے ہمکلام ہونے طور پر تشریف لے گئے رب جل جلال نے فرمایا موسٰی! اب ذرا سنبھل کے آنا۔ اب وہ ہستی دنیا میں نہیں رہی جو تمہارے یہاں آنے پر سجدے میں ہم سے دعاگو رہتی تھی ”اے سب جہانوں کے مالک میرے بیٹے سے کوئی چوک ہو جائے تو اسے معاف کر دینا“۔
کل مدر ڈے منایا گیا ہے۔ یوں تو ہر دن اور لمحہ ماں کا ہے۔ ماں پر جان نچھاور۔ جس نے یہ دن منانے کی رسم ڈالی اچھا کیا۔ چلو اس بہانے کچھ لوگوں کو ماں کی یاد آ جاتی ہے۔ اس سے محبت کے جذبات میں مزید وارفتگی آتی ہے۔ مدر ڈے ایک ماں کا دن نہیں ماﺅں کا دن ہے۔ تمام ماﺅں کا دن۔ آج آپ جس ہستی کے لئے پھول لا رہے ہیں اس کی قدم بوسی کر رہے اس کی بھی ماں کا دن ہے۔ ہر ذی شعور کی ماں کا دن۔ باپ اور دادا کی بھی ماں کا دن۔ ایک گھر میں ایک ہی چھت تلے کئی ماﺅں کا دن۔ باپ کا دن منائیں گے تو باپ اپنی ماں کا دن کب منائے گا۔ 
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں۔ وہ دنیا کے آدھے تفکرات سے آزاد ہیں۔ ماں کا سایہ نہیں رہتا تو کڑی دھوپ کا احساس ہوتا ہے 
اے دوست ماں کے سائے کی ناقدری نہ کر
دھوپ کاٹے گی بہت جب شجر کٹ جائے گا
ماں بٹ سکتی ہے نہ ممتا تقسیم ہو سکتی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو جائے پھر وہ ماں اور ممتا ہی نہیں مادرِ ملت اور مدر ٹریسا بھی بن جاتی ہے۔ ممتا انسانوں ہی نہیں جانوروں میں بھی ہے۔ کبھی بلی کے بچوں کو چھو کر دیکھو وہ شیر کی طرح جھپٹتی ہے۔ مرغی بے ضرر سا جانور ہے۔ اس کے بچوں کی طرف بڑھو تو وہ بھی اپنی ہمت کے مطابق طوفان برپا کر دیتی ہے۔ محترم توفیق بٹ نے آنکھوں دیکھا حال لکھا کہ چیل چوزہ اچک کر لے گئی۔ تڑپتی تلملاتی اور غضب ڈھاتی آواز کے ساتھ مرغی نے بھی اُڑان بھری جہاں تک طاقت تھی چیل کا پیچھا کیا۔ ماں ہر لحظہ شفقت مجسم رحمت پیکر عظمت، بے لوث محبت کا نام ہے۔ راولپنڈی میں ایک بدبخت نے غصے میں آ کر ماں کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا۔ خاتون کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ گھر والوں نے ملزم پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نزاعی بیان کے لئے ہسپتال پہنچی۔ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا خاتون سے اس کو اس نوبت تک پہنچانے والے کے بارے میں پوچھا گیا۔ جواب تھا ”میں چھری پر گر پڑی تھی“ ماں کی ایک رات کا بھی بدلہ نہیں دیا جا سکتا۔ جب سردیوں کی رات میں وہ کئی بار بھیگتی بچے کو سنبھالتی اور بغیر کہے دودھ پلاتی ہے۔ جن کی مائیں ہیں وہ ان کی خدمت کریں جن کی چھوڑ کر جا چکی ہیں وہ ان کی بخشش کی دعا کریں 
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش 
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے




No comments:

Post a Comment