منگل ، 31 مئی ، 2011
توپوں کا رخ
فضل حسین اعوان
قائد اعظم کا گل و گلزار، لالہ زار ولالہ رخسار پاکستان آج خار زار ہے۔ اس کی چودہویں کے چاند کی طرح درخشانی و تابانی، ویرانی و تنگ دامانی میں ڈھل چکی ہے۔ خود داری، خود مختاری اور عزت و وقار کی بے سرو سامانی کا عالم ہے۔ ترقی و خوشحالی کی قوسِ و قزح کے رنگ، بے ڈھنگ ہو کر صرف خوں رنگ رہ گئے۔ ہر طرف خوں آشامی، خون افشانی، خونریزی و خوں خواری ہے۔ انسان مر رہے ہیں انسانیت سسک رہی ہے۔ کہیں انسان زخموں سے چور کہیں روح گھائل ہے۔ خون کے قلزم اور بارود کے طوفان میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہاں منزل کہاں کنارا اور ساحل ہے۔ ناﺅ بھنور کی طرف بڑھتی جا رہی ہے سواروں کو اس کا ادراک ہے نہ احساس۔ اتحاد‘ اتفاق یکجہتی و ہم آہنگی کے بجائے باہم دست و گریباں ہیں۔ معاملہ الزام تراشی سے آگے بڑھ کر دشنام طرازی پر آ گیا ہے۔ قومی مفاد کو تیاگ دیا گیا ہے۔ مخالف کی پگڑی اچھالنے اپنا شملہ مزید اونچا اٹھانے کی تگ و دو جاری ہے۔ کشتی طوفانی موجوں کی زد پر ہو تو بے رحم لہریں سواروں کی پگڑیاں، شملے، لمبی گردنیں اور انائیں نہیں دیکھتیں۔ ہماری ملی تاریخ صدیوں پر لیکن قومی تاریخ محض 64 سال پر محیط ہے۔ اس مختصر عرصے میں تاریخ نے اپنے آپ کو بار بار دہرایا۔ اس سے ہم نے سبق سیکھا نہ اپنے مفادات کے آگے دیکھا۔ آج ملک انتہائی مشکلات کا شکار اور عالمی سازشوں کے نرغے میں ہے۔ اندرونی طور پر بھی ہر بحران عفریت بن چکا ہے۔ اتحاد و اتفاق وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ بدقسمتی سے سیاستدان اپنی اناﺅں مفادات اور سب سے بڑھ کر بزدلی کے خول سے باہر آنے پر تیار نہیں۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد پر جارحیت کے بعد امریکہ کی رعونت اور فرعونیت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے سامنے حق و صداقت پر مبنی موقف اختیار کرنے کی بجائے ذمہ دار قوتیں پشت دکھا رہی ہیں۔ امریکہ آئی ایس آئی کو معاف کرنے پر تیار نہیں۔ اپوزیشن آئی ایس آئی سے اپنا کوئی ادھار چکانا چاہتی ہے۔ کیری‘ ہیلری کے حضور سر جھکا کر طعنے کوسنے، سننے والوں کے جاں نثارو فدا کار‘ نواز شریف کے فوری کمیشن کی تشکیل کے مطالبے پر آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ جہاں سر اٹھا کر غیرت و قار کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے وہاں خاموشی جہاں یگانگت اور ہم آہنگی مطلوب وہاں ہنگام و پرجوشی ہے۔ ڈرون حملے، رات کی تاریکی میں ایبٹ آباد آپریشن۔ امریکہ کی طرف سے جنگ مسلط کرنے کی کوئی کسر رہ گئی ہے کیا؟ پارلیمنٹ کی قرار دادوں کی بے توقیری سی بے توقیری ہے۔ ڈرون حملوں پر پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا تھا تو ان کو پیش کرنے اور پاس کرانے کی ضرورت کیا تھی۔ اگر قراردادیں منظور کرائی ہیں تو ان پر عمل کراکے بہادروں کی تاریخ میں نام درج کرائیں۔ جو دنیا میں آیا اس نے مرنا ہے۔ اقتدار میں آنے والے کو بھی ایک دن جانا ہے۔ انسان کردار کے حوالے سے زندہ رہتا ہے‘ صدیوں تک بلکہ قیامت تک‘ تاریخ اپنے ذمے قرض نہیں رکھتی۔ ابو عبداللہ کا جرنیل موسیٰ، بہادر شاہ ظفر کا بخت خان اور ٹیپو سلطان کا جرنیل ملک جہاں خان تاریخ میں اپنی جرات و بہادری کے باعث امر ہو گئے۔ غرناطہ کا حاکم عبداللہ‘ بہادر شاہ ظفر کو بے حمیتی کا سبق پڑھانے والے مرزا الٰہی بخش‘ میر جعفر و میر صادق اور ٹیپو کے ایک اور کمانڈر قمر الدین خان کے بارے میں کوئی مسلمان کیا کلمہ خیر کہتا ہے؟ موسیٰ‘ بخت خان اور ملک جہان خان تن تنہا لڑے۔ آپ بہترین اور معیاری ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ ایران اور چین امریکہ کی جارحیت سے کیوں محفوظ ہیں؟ ایران کی توپوں کا رُخ اسرائیل اور چین کا جاپان کی طرف ہے جن کی بقا میں امریکہ کی بقا ہے۔ پاکستان کی توپوں کا رُخ امریکہ کے چہیتے اسلحہ کے بہت بڑے گاہک اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی طرف ہونا چاہئے۔ امریکہ کی آغوش میں سکون کے متلاشیوں نے اپنی بندوقوں کا رُخ اپنے ہی لوگوں کی طرف کر رکھا ہے۔ اسرائیل کو نشانے پر لے لیں تو انکل سام کی پتلون بھیگ جائے گی۔ سروں پر اڑتے ڈرون کو نشانے پر نہ لینے والوں سے اسرائیل کو نشانے پر لینے کی امید عبث ہے۔ پھر قوم کی یہ خواہش جائز نہیں کہ بے حمیتوں، بے حسوں لاچاروں اور ڈالر کے نشے کے ماروں کی جگہ وہ آجائیں جن میں قائد کے پاکستان کو پھر سے گل و گلزار، روشن اور تابناک بنانے کا جذبہ ہو۔!
No comments:
Post a Comment