About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, August 30, 2012

بادنسیم


جمعرات ,30 اگست ,2012

     
بادنسیم

30 اگست 2012    

”نسیم انور بیگ طویل عرصہ تک اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے ۔ اسلام آباد میں ان کی اقامت گاہ پر دانشوروں، سفارتکاروں صحافیوں اور اہل علم کی محفلیں سجی رہتی ہیں۔ ان محفلوں میں پاکستان اور اس کے مستقبل کے حوالے سے بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جہاں اہل درد پاکستان کے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ تجزیے کرتے ہیں اور ارباب اختیار کی توجہ ان معاملات کی طرف مبذول کراتے ہیں جن کا پاکستان کے مفادات اور اس کے مستقبل سے گہرا تعلق ہوتاہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی مرزا نسیم انور بیگ سے قربت تعلق اور دوستی رہی۔ آپ سے جو بھی ملا اس نے کچھ حاصل ہی کیا کچھ کھویا نہیں۔ آپ سے فیض حاصل کرنیوالوں کا ایک وسیع حلقہ ہے ملک وقوم اور ملت کے لئے آپ کی خدمات مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔
”آج جبکہ وطن عزیز میں نفرتوں، عداوتوں اور کدورتوں کی ہا ہا کار برپا ہے۔ سیاست ذاتی انا اور گروہی مفادات کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں عوامی مینڈیٹ ایک خواب پریشان بن کر رہ گیا ہے۔ عدالتیں بے وقعت ہوتی جا رہی ہیں اور انتظامیہ انتقام کی علامت۔ سرسبز و شاداب ملک پر نحوست کے سائے محیط ہیں۔ مخلوق خدا پر رزق کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں۔ کلاشنکوف نے شریف شہریوں پر زندگی حرام کر دی ہے انسانی خون ارزاں اور پانی مہنگا ہو گیا ہے۔ آزادی ایک طعنہ اور حکومت جگ ہنسائی بن گئی ہے۔ قبلہ اللہ کے گھر سے تبدیل ہو کر سوئے واشنگٹن ہو گیا ہے گرم و سرد چشیدہ بوڑھے لرزاں ہیں، رعنا جوانوں کو مایوسی اور ناامیدی نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ “
”اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں نسیم انور بیگ جیسی شخصیتیں خال خال سہی ہمارے لئے مینارہ نور ہیں ہم ان سے اللہ اور رسول کا اتباع، وطن سے محبت اور باہمی اخوت مودت خلوص قربانی اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں“۔
”دھیمہ پن، شائستگی، خلوص، مٹھاس، محبت، شفقت، سلیقہ، نظم و نسق، بے لوث پن، جذبہ پرواز علم و آگہی جیسی خوبیوںکے ساتھ غور و فکر پر اعتمادی، دانشوری، علم پہیم لگن میں آپکا نام منظرعام پہ ایک نامدار اور معتبر ہے۔“
”نسیم انور بیگ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میںجناب حمید نظامی مرحوم کے قریبی رفقاءمیں شمار ہوتے تھے وہ ایم ایس ایف کے ان نو جوانوں میں تھے، جن پر قائداعظم بہت اعتماد کرتے قائد کے ساتھ اپنی بعض ملاقاتوں کی یاد آج بھی ان کی بوڑھی آنکھوں میں عجیب سی چمک لے آتی ہے۔ تیس سال تک اقوام متحدہ میں خدمات انجام دینے والے اس پکے مسلمان اور سچے پاکستانی نے اہل مغرب کے قول و فعل کے تضادات کو بہت قریب سے دیکھا اسلام اور عالم اسلام کے متعلق مغرب کا منافقانہ بلکہ معاندانہ طرز عمل اس کی اسلامیت اور پاکستانیت کو مزید پختہ کرنے کا باعث بنا۔
بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نسیم انور بیگ کا موقف واضح تھا کہ پاکستان کو بھی بلاتاخیر دھماکہ کر دینا چاہئے۔14 مئی1998ءکو ایک بیان میں کہا:
”ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم بنانا عوام کا حق ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا صبروتحمل کا مشورہ دینے والوں نے اپنی آزادی کے تحفظ کیلئے خود دو بڑی جنگیں لڑیں ہماری آزادی کا وقت آیا تو کہا جاتا ہے آزادی اور روٹی میں سے ایک کا انتخاب کر لو پہلے غلامی قبول کریں اور پھر آزادی کی جنگ لڑیں یہ دانائی نہیں، ہمیں آزادی برقرار رکھنا ہو گی۔ ہمارے فیصلوں میں پاکستان کی آزادی کے تحفظ کا عزم ہونا چاہئے۔ “
8جون1998ءکو نسیم انور بیگ صاحب نے ایوان وقت میں گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ”پاکستان ایٹمی دھماکے کر کے، اجتماعی سکیورٹی اور ایٹمی چھاتہ کے جال سے بچ گیا ہے ورنہ نیٹو وسط ایشیا سے ہوتا ہوا، چین کی سرحد تک پہنچ جاتا۔ چین کے متعلق مغرب اور بالخصوص امریکہ کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں۔ بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ ایک کھلی حقیقت ہے۔ اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کو بھارت کا عقبی سٹور قرار دیا جا سکتا ہے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کو بھارت سے مشروط کرنے کی بجائے ہمیں اس بارے میں فیصلہ اپنے دفاعی تقاضوں کے مطابق کرنا چاہئے۔ پاکستان نے امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے دباﺅ کے باوجود ایٹمی ٹیسٹ کر کے اپنی حقیقی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کیا ہے۔ خود مختاری کا ایک مفہوم اپنے فیصلے خود کرنے اور اپنی تقدیر خود لکھنے کی آزادی ہے۔ پاکستان نے اپنے ٹیسٹ پہاڑوں میں کئے جس میں انسانوں ( بلکہ حیوانوں کو بھی) تابکاری اثرات سے بچانے کیلئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی گئیں جبکہ امریکہ نے اپنے بم، ہیروشیما اور ناگاساکی میں ٹیسٹ کئے جس میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ 8 جون1998ءکو نسیم انور بیگ صاحب نے کہا کہ نوائے وقت اور اسکے مدیر نے ہر اہم قومی مرحلے کی طرح، ایٹمی دھماکوں کے مسئلہ پر بھی جرا¿ت مندانہ کردار ادا کیا۔ مجید نظامی بلاشبہ ہماری قومی آزادی، خود مختاری اور عزت و وقار کے تحفظ کی علامت ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے نوائے وقت کے اداریے صحافتی تاریخ کا ایک عظیم الشان باب ہیں۔
 ” کچھ عرصہ قبل شہاب نامہ پڑھنے کااتفاق ہوا۔اس میں دو قابلِ ذکر نام نظر سے گزرے۔ جن کی قدرت اللہ شہاب نے بڑی تعریف فرمائی ہے۔ ایک تو فلسطینی جوان مصطفی اور دوسری دورِ حاضر کی نامور شخصیت جناب نسیم انور بیگ ہیں۔ شہاب نامہ سے مجھے پتہ چلا کہ آپ کا تعلق یو این سے رہا ہے لیکن ایک رسالے میں آپ کے تعلیمی ریکارڈ کے بارے میں پڑھ کر بڑی حیرانی ہوئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی آج بھی ہے کہ میں نے آپ سے کبھی ایسی بات نہیں سنی جسے خود ستائی کہا جا سکے۔ آپ کی اصل خوبصورتی تو انسانی ہمدردی، حب الوطنی، خوش اخلاقی، مہمان نوازی، احترامِ انسانیت اور ان سب خصوصیات سے بڑھ کر آپ میں عشقِ رسول کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپ ہر بات کا آغاز اور اختتام رسول پاک کی ذات سے کرتے ہیں.... تیس سال پیرس میں رہنے کے باوجود آپ میں بلا کی سادگی ہے۔ میں اتنی جلدی مرعوب ہونیوالوں میں سے نہیں ہوں لیکن آپ کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش ہے۔ اسی وجہ سے لوگ آپ سے بے حد مانوس ہیں۔ آپ سے ملنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ عاجزی صرف عادات سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ یہ آواز میں چال میں، گفتگو میں اور انسان کے رگ و پے میں بسی ہوئی بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا دستر خوان بہت وسیع ہوا کرتا تھا اسی طرح نسیم انور بیگ صاحب کا دستر خوان بھی بہت وسیع ہے۔ جس کی اپنی خصوصیت ہے کہ ہر روز نئے مہمان نئے تصورات اور فلسفے اور اپنی پریشانیاں لیکر آتے ہیں اور واپسی پُر سکون اور امید لیکرجاتے ہیں“    
درج بالا آخری اقتباس نوشین اعجاز کے نوائے وقت میں 23 دسمبر 1999ءکو شائع ہونے والے کالم کا ہے۔ اس کالم کو نوشین اعجاز کے والد محترم سابق جج سپریم کورٹ چودھری اعجاز احمد صاحب نے باد نسیم کے نام سے مرتب کردہ کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ جج صاحب نے باد نسیم جناب نسیم انور بیگ کی اجازت سے لکھی جو آپ کی زندگی میں ہی شائع ہوئی کالم کے شروع میں دئیے گئے اقتباسات بھی باد نسیم میں موجود کالموں سے لئے گئے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ایک ہفتہ بعد نسیم انور بیگ صاحب خالقِ حقیقی سے جاملے۔   

”باد نسیم میں نسیم انور مرزا کی شخصیت پر مختلف جرائد میں شائع ہونے والے 60 کے قریب کالم شامل کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ اجمل نیازی کے 14 کالم ہیں۔ تنویر اعوان5‘ بیگ راج 4‘ پرویز حمید‘ اوریا مقبول جان اور پروفیسر نعیم قاسم کے تین تین‘ عائشہ مسعود کے دو اور باقی لکھنے والے رﺅف طاہر‘ عبدالقادر حسن ایس ایم ظفر‘ ہارون رشید‘ محمد زابر سعید‘ حجاب امتیاز علی، زارا جعفری‘ مظہر برلاس‘ طلعت عباس خان‘ ایم اے صوفی‘ جاوید چودھری‘ عاسل ڈوگر ابو اعزاز بخاری اور انصاری کا ایک ایک کالم موجود ہے۔ مرزا نسیم انور بیگ کے خطابات‘ انٹرویو‘ آپ کے حوالے سے خبریں‘ آپ سے ملاقاتوں کا احوال‘ آپ کے معروف شخصیات کو لکھے گئے خطوط بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ آخر میں نادر تصاویر سے پہلے 19 صفحات آپ کے اقوالِ زریں کیلئے مختص ہیں پہلا سنہری قول جو دریا تنگ ہوتے ہیں وہ پھیلتے نہیں‘ سیراب نہیں کرتے۔ آخری قول‘ اصلی پانی کیا ہے؟ صاف‘ شفاف پاکیزہ پانی اصلی پانی ہے۔کتاب کے آخر میں نادر رنگین تصاویر دی گئی ہیں جن میں سے ایک آپ کی تحریک پاکستان کے دوران لاہور جیل میں قید کے دوران کی ہے جج صاحب کے بقول ان تصاویر کی خود نسیم انور بیگ صاحب نے اپروول دی تھی۔ اعجاز احمد چودھری صاحب سے فون پر بات ہوئی تو جج صاحب نے نسیم انور بیگ صاحب کے ساتھ اپنے تعلقات اور آپ کے والہانہ پن کے حوالے سے بڑی روح پرور معلومات سے بھی مستفید فرمایا۔ چودھری صاحب کے بقول ”میری لاہور میں 1986 میں بیدار ملک صاحب کے توسط سے مرزا نسیم انور بیگ صاحب سے قربت ہوئی۔ اس کے بعد آپ کی زندگی میں سوائے 23 جون 2012ءآپ کی رحلت سے ایک روز قبل کے سوا ہر روز آپ سے فون پر بات ہوتی رہی صرف اس دن فون پر بات نہیں ہوئی جب آپ کی خدمت میں اسلام آباد میں پیش ہوا ہوتا یا وہ لاہور تشریف لائے ہوتے۔ میں اور میری فیملی جب بھی پنڈی گئے ہمیں آپ کی طرف سے کہیں اور ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی آپ کی محبت اور شفقت ہماری زندگی کا سرمایہ ہے۔ میں نے کتاب آپ کو پیش کی اور اس کی رونمائی کے حوالے سے عرض کی تو فرمایا کہ اوریا مقبول جان صاحب اس حوالے سے مجید نظامی صاحب سے بات کر لیں گے۔ 
نسیم انور بیگ صاحب کی وفات ہم جیسے ان کے پروانوں کیلئے دل و جان اور روئیں روئیں میں اتر جانے والا صدمہ ہے۔ آپ نے 24 جون کو پردہ فرمایا یہ شدید گرمی کا موسم ہوا کرتا ہے لیکن اُس دن اسلام آباد اور پھر اجوالا فتح جنگ جہاں آپ کو سپرد خاک کیا گیا واقعی باد نسیم چل رہی تھی۔ قبر کھودنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ عموماً8 سے دس گھنٹے میں قبر کھودتے ہیں۔ اس مردِ با صفا کی آخری آرامگاہ محض تین گھنٹے میں مکمل طورپر تیار ہو چکی تھی۔ ”باد نسیم“ کی تقریب رونمائی بھی خوب رہی۔ میں نے 500 کتابیں قل خوانی کے موقع پر شرکاءمیں تقسیم کیں۔ یہی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔کتاب کے شروع میں قول، ”مہرو و وفا نسیم وقت کیسے گزرا، کون پوچھے گا“ نسیم انور بیگ صاحب کا ہی ہے۔ چودھری اعجاز احمد بادِ نسیم کا انگلش ورژن شائع کر نے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ بادِ نسیم کیلئے جج صاحب کیلئے مشورہ ہے کہ نسیم انور بیگ کی وفات حسرت آیات کے بعد بھی بہت سے مضامین لکھے گئے بادِ نسیم کے دوسرے ایڈیشن میں ان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں بعض مضامین کے آخر میں تاریخ اشاعت نہیں دی گئی اس کمی کو بھی دور کرنا چاہئے۔ 450 صفحات پر مشتمل باد نسیم کتاب ملٹی لائن بکس ریگل چوک مال روڈ لاہور 04237210089 سے 700 روپے میں دستیاب ہے۔ 



Monday, August 27, 2012

صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم





منگل ,28 اگست ,2012
صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کا بانی ¿ پاکستان کا تعلق ایک خاص مسلک سے جوڑنے کے حوالے سے بیان متنازعہ حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ روز ایک بار پھر راولپنڈی سے میجر نذیر فاروق کا فون آیا، وہ قائداعظمؒ کی ذات کو اس طرح سے زیر بحث لانے پر بڑے جز بز، خفا، برہم بلکہ مشتعل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں لوگ اپنے ہیروز کو اس طرح ڈسکس کر کے متنازعہ نہیں بناتے جیسے ہمارے ہاں وتیرہ بنا لیا گیا ہے۔ میجر صاحب الطاف بھائی کے کردار، شخصیت، سیاست اور برطانیہ میں ان کی ذات پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے سوالات در سوالات کر رہے تھے جن کا جواب الطاف بھائی خود یا ان کے ساتھی اور میڈیا منیجرز دے سکتے ہیں --- قائداعظمؒ کا مسلک کیا تھا؟ اس حوالے سے بہت لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ ہم صرف ایک واقعہ دہرا دیتے ہیں کہ قائداعظمؒ سے کسی نے یہی سوال کیا تھا اس پر قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ان کا وہی مسلک ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔ چند روز قبل ایک باوقار خاتون دکاندار سے جھگڑ رہی تھیں۔ بظاہر ان کا لب و لہجہ اور تندخوئی ان کے وقار کے شایانِ شان نہیں تھا۔ معاملے کی نوعیت جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ خاتون نے خریداری کے لئے ادائیگی کی تو دکاندار نے بقایا میں جو نوٹ دئیے وہ بوسیدہ تھے خاتون نے نئے نوٹ مانگے تھے۔ دکاندار نے پوچھا کہ کیوں؟ خاتون نے کہا کہ وہ جناح کا اُجلا چہرہ دیکھنا چاہتی ہےں۔ دیوس دکاندارنے کہہ دیا جناح تو کافر تھا۔ اس پر قائدؒ کا ایسا احترام کرنے والی شخصیت جو نوٹوں پر بھی ان کا اُجلا چہرہ دیکھنا چاہتی ہے بھلا خاموش رہ سکتی تھی۔ خاتون غصہ میں تھی تاہم جلد نارمل ہوئی تو دلیل کے ساتھ دکاندار کو سمجھایا۔ وہ خاتون کے قائداعظمؒ کے ساتھ محبت و احترام سے متاثر اور دلائل سے قائل ہوا تو اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے معافی مانگ لی۔ یہ خاتون ہماری محلے دار ہیں۔ بنیادی تعلق لبنان سے ہے۔ ایک پاکستانی سے شادی کی اور ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شوہر کا چودہ پندرہ سال قبل انتقال ہو گیا اب اپنے بیٹوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ چند روز قبل ہمارے گھر تشریف لائیں اور فرمایا ”بیٹا آپ صحافی ہیں اس لئے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں“ میں نے ان کو خوش آمدید کہا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنی فیملی کے درمیان بٹھا لیا۔ 
اماں جی کسی بھی پاکستانی سے بڑھ کر محبِ پاکستان اور عالمہ و فاضلہ ہیں۔ پاکستان کے مخدوش حالات پر دلبرداشتہ ہونے کے باوجو اسے اسلام کا قلعہ اور اُمہ کی امیدوں کا مرکز قرار دیتی ہیں۔ عربی ان کی مادری زبان، انگریزی انگریزوں کی طرح بولتی ہیں، اردو بولنے کا لب و لہجہ محترمہ بینظیر بھٹو سے مشابہہ ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیتی ہیں۔ وہ کچھ عرصہ تک ایک بڑی سیاسی و دینی شخصیت اور سکالر کے گرلز کالج کی پرنسپل رہی ہیں۔ ان کے والد کی کچھ جائیداد فلسطین میں تھی جو آج یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے اپنے بچپن کا روح پرور واقعہ سُنایا جو حیران کن ہے۔ ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیے ”میری عمر آٹھ نو سال تھی، رات کو خواب میں دیکھتی ہوں کہ بیروت کے بازاروں اور گلیوں میں گُھپ اندھیرا ہے۔ اس اندھیرے میں میرے سامنے ایسی روشنی پھیل رہی تھی جس سے میرے لئے چلنا آسان ہو رہا تھا، میں بازار میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ذہن میں آیا کہ روشنی کی صورت میں میری رہنمائی حضرت خضرؑ کر رہے ہیں۔ چلتے چلتے سامنے گرجا گھر نظر آیا تو میں دائیں مُڑ جاتی ہوں۔ یہاں مجھے اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کی مدہم سی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بلند ہوتی چلی گئیں تاآنکہ مجھے نظر آیا کہ سبز پگڑیاں پہنے لوگوں کا ایک پُرنور ہجوم رواں ہے، ان کے ایک ہاتھ میں سن ریز (دف قسم کا آلہ) ہے دوسرے سے وہ اس پر چوٹ لگاتے ہیں اور بڑی خوبصورت آواز میں یہی کہے جا رہے ہیں اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، ان کی قیادت ایک خوبصورت شخص کر رہا ہے۔ قافلہ میرے سامنے سے گزر رہا ہے۔ میرِ کارواں نے گردن گھما کر میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ ان جیسا خوبرو، خوبصورت اور حسین شخص میں نے آج تک بھی نہیں دیکھا۔ ان کے گھنگریالے سیاہ بال اور ایسی ہی ریش، کشادہ نورانی پیشانی، چہرے کا رنگ سرخی مائل سفید، دانت موتیوں کی طرح چٹے سفید اور آنکھیں بادامی رنگ کی۔“ 
 اماں جی نے بات کرتے کرتے رُک کر پوچھا، پتہ ہے وہ حسین و جمیل شخص کون تھا؟ پھر خود ہی گویا ہوئیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اللہ اکبر کے نعرے لگانے والے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاءکرامؑ تھے۔ چہرے کے باقی نقش جو اماں جی نے بتائے وہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی معروف پنجابی نعت ”اج سک متراں دی ودھیری“ میں بیان کئے گئے ہیں 
مُکھ چند بدر شعشانی اے، متھے چمکدی لاٹ نورانی اے 
کالی زلف تے اکھ مستانی اے، مخمور اکھیں ہِن مدھ بھریاں
جناب محمد خان قادری صاحب نے ”سک متراں دی“ شرح لکھی ہے۔ میں نے یہ کتاب پڑھ رکھی ہے۔ اتفاق سے اماں جی کی آمد سے قبل میں نے اسے سرسری طور پر دیکھا اور اپنی لائبریری میں رکھ دی تھی۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا انہوں نے پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی ”اج سک متراں دی ودھیری“ نعت پڑھی ہے۔ اماں جی نے کہا کہ وہ اردو لکھ پڑھ اور بول سکتی ہیں پنجابی نہیں آتی۔ انہوں نے شاید پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کا نام بھی پہلے نہیں سُنا تھا۔ میرے لئے پیر مہر شاہ صاحبؒ کی نعت میں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ¿ اقدس اور اماں جی کے بیان کردہ رُخِ انور کے نقوش میں مماثلت حیران کن ہے۔ اماں جی نے کہا کہ ان کے دل میں ہمیشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ دیکھنے کی حسرت اور تڑپ رہی ہے۔ خواب میں مَیں نے صاحبِ لولاک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا وہ اتنے حسین تھے کہ I fell in to his Love ۔ اماں جی ہم مسلمانوں کے اس رویے پر بھی ملول ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰة و سلام کا نام آنے پر بڑی تیزی سے صلعم یا صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیا جاتا ہے۔ اماں جی کہتی ہیں کہ جس ٹھہرا¶ اور لہجے میں گفتگو ہو رہی ہو اسی روانی میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا چاہئے۔


Friday, August 24, 2012

24-8-12.........اب نائیجیریا کو توڑنے کا منصوبہ







26-8-12




     
اب نائیجریا کو توڑنے کا منصوبہ
24- اگست 2012 -8    
نائیجریا بلحاظ آبادی افریقہ کی سب سے بڑی اور عالم اسلام کی انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد تیسری بڑی ریاست ہے۔ آئندہ چند سال میں شاید اس کا موجودہ سٹیٹس بدل جائے۔ کشمیری اور فلسطینی آزادی کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کئے چلے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ انکے حقوق کو تسلیم کرتی ہے لیکن ایک حد سے آگے جانے سے اسکے پَر جلتے ہیں۔ لاکھوں کشمیری اور فلسطینی آزادی کی خاطر اپنی جانیں دے چکے اور یہ سلسلہ ہنوز اور بدستور جاری ہے۔ سرخرو اس اس لئے نہیں ہو رہے کہ انکے حقوق کی راہ میں وہی ممالک اور تنظیمیں رکاوٹ ہیں جو خود کے انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کی دعویدار ہیں جنہوں نے 2002ءمیں انڈونیشیا کو تقسیم کرکے مشرقی تیمور اور 2011ءمیں سوڈان کو توڑ کر جنوبی سوڈان کی ریاستیں قائم کردیں۔ آزادی کے نام پر انڈونیشیا اور سوڈان کو اس لئے توڑا گیا کہ اس تخریب کی کوکھ سے مسیحی ریاستوں نے جنم لینا تھا۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقوق کو پس پشت اس لئے ڈالا جا رہا ہے کہ یہاں مسلمانوں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں۔ مسلمان زیرعتاب ہیں، انکا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ انکا خونِ ارزاں اور بہانے والوں سے کسی سطح پر جواب طلبی نہیں۔
اب انڈونیشیا اور سوڈان کی تقسیم کی طرز پر نائیجریا کو توڑ کر جنوبی نائیجریا کے نام سے ایک اور عیسائی مملکت کے قیام کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ منصوبہ ساز پھر وہی ہوں گے، اقوام متحدہ امریکہ اور اسکے جھولی چک ممالک.... نائیجریا کی آبادی 16 کروڑ ہے، ان میں سے 55 فیصد مسلمان، عیسائیوں کو بڑی اقلیت کی حیثیت حاصل ہے۔ آج نائیجریا شورش اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک میں بم دھماکے اور مسلح حملے ہورہے ہیں، بارود کے سائے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر عیسائیوں کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہر حملے اور بم دھماکے کے بعد الزام بوکو حرام پر لگا دیا جاتا ہے۔
نائیجریا کے 36 میں سے 18 صوبوں میں مسلمان بڑی اکثریت میں ہیں۔ نائیجریا افریقہ کی دوسری بڑی معیشت اور آمدنی کا دارومدار تیل کی دولت پر ہے۔ نائیجریا کی کرپٹ قیادتوں کے باعث تیل کی دولت کے ثمرات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوئے۔میڈیا رپورٹس‘ تجزیات اور محمد احمد کی تحقیقات کے مطابق نائجیریا افریقہ کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اپنے وسیع تیل کے ذخائر اور بدعنوان قیادت کی بدولت نائجیریا ہمیشہ سے سرمایہ دارانہ نظام کی علم بردار بڑی بڑی تیل کمپنیوں اور دیگر ملٹی نیشنلز کیلئے جنت کا درجہ رکھتا ہے۔ تیل سے حاصل شدہ اپنی تمام تر دولت کے باوجود نائجیریا کی آبادی کی اکثریت انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایک دور میں صدر ثانی اباچہ دنیا کے چوتھے بڑے کرپٹ حکمران تھے۔نائجیریا کے مسلمانوںکی اسلام سے محبت مثالی ہے۔ اسلامی شریعت کے نفاذ کیلئے نائجیرین مسلمانوں نے کافی جدوجہد کی۔ 1903ءمیں انگریزوں کے قبضے سے پہلے شمالی نائجیریا کے بیشتر علاقے سوکوٹو خلافت کا حصہ تھے جو کہ 1802ء میں عالم باعمل عثمان دان فودیو نے مقامی حکمرانوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کرکے قائم کی۔یہاں تک کہ موجودہ دور میں بھی سوکوٹو کے سلطان کو امیر المومینین کا خطاب دیا جاتا ہے۔جو کہ عام طور پر نائجیرین نیشنل سپریم کونسل فار اسلامک افئیرز کے سربراہ بھی ہوتے ہیں۔2000-1999 ءسے اب تک 12 صوبوں میں شریعت نافذ ہو چکی ہے۔جو کہ مغربی دنیا ، اسکے متعصب میڈیا اور جنوبی نائجیریا کے عیسائیوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتی ہے۔عیسائی مشنری شریعت کے نفاذ کو نائجیریا میں عیسائیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں عیسائیت کی تبلیغ میں کئی گنا تیزی لائی گئی ہے۔ کئی نئے چرچ تعمیر کیئے گئے ہیں ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے نفرت پھیلائی جا رہی ہے جب کہ عیسائی بین الاقوامی میڈیا میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے ہیں۔جس دن سے مسلم علاقوں میں شریعت نافذ ہوئی ہے عیسائی پوری کوشش میں مصروف ہیں کہ مرکزی حکومت میں اعلی ترین عہدوں پر قبضہ کیا جائے اور فوج میں بھی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا جائے۔ 
2002ءمیں شمال مشرقی صوبہ بورنو کے دارالحکومت میڈوگری میں جماعة اہل السنة للدعوة والجہاد کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی محمد یوسف نامی ایک نوجوان سلفی عالم تھے۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ تمام نائجیریا میں شریعت کا نفاذ تھا انہوں نے سرِ عام نائجیریا کے سیکولر طرزِ حکومت کو غیر اسلامی کہا اور مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ رائج نظام کو اکھاڑ دیں اور نائجیریا میں اسلامی حکومت قائم کریں۔شیخ یوسف مغرب اور عیسائیوں پر کھلم کھلا تنقید کرتے تھے البتہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کبھی بھی عیسائیوں پر حملوں پر نہیں اکسایا۔اس جماعت کے لوگ صرف عربی بولتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ انگلش وہ زبان ہے جس کے بل بوتے پر مغربی دنیا نے کرپشن اور بے راہ روی پھیلائی ہے۔ اس جماعت میں ہر ا±س چیز کیلئے نفرت کا پہلو پایا جاتا تھا جس کا تعلق مغربی عیسائی دنیا سے ہے چاہے وہ لباس ہو ، مغربی تعلیم ہو یا روز مرہ کے معاملات ہوں۔شمالی نائیجریا کی مقامی زبان ہوسہ میں جدید نظامِ تعلیم کو بوکو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد انگریزوں نے ڈالی۔دورِ غلامی کے اوائل میں مسلمانوں نے بوکو سے فاصلہ رکھا کیونکہ اسے عیسائیت کی تبلیغ کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔البتہ کچھ ہی عرصے بعد جدید سکولوں سے پڑھنے والے طلبہ اہم ریاستی عہدوں پر فائز ہو گئے۔ چنانچہ اگلی نسل نے اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔تاہم بعض قدامت پرست مسلمان بوکو کو آج بھی غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اسکی جگہ دینی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی پیغام شیخ یوسف کی تعلیمات کا بھی حصہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں نے اس جماعت کا نام بوکو حرام رکھدیا۔جسکا مطلب ہے "مغربی تعلیم حرام ہے" بعد میں یہی نام مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے اختیار کر لیا۔ شیخ یوسف نے مسلمانوں پر زور دیا کے وہ اس کرپٹ اور مغربی نظام سے کنارہ کشی اختیار کریں جس میں سیکولرازم اور جمہوریت جیسے غیر اسلامی نظریات شامل ہیں اور اسکی بجائے اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ اگرچہ شیخ یوسف نائجیرین حکومت کے خلاف تھے اور سرکاری نوکری کو حرام کہتے تھے، جبکہ انکی جماعت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ وہ اسلحہ جمع کر رہے ہیں، ان پر یا انکی جماعت کے کسی فرد کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ کیا جا سکا-کئی لوگوں کا خیال تھا کہ بوکو حرام مذہب کے نام پر سیاسی طاقت اور فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بوکو حرام اور نائجیرین فوج کے درمیان 2009ءتک کوئی مسلح تنازعہ نہں ہوا تھا،اسکے باوجود چند لوگوں نے بوکوحرام کو نائجیرین طالبان کہنا شروع کردیا۔آج تک نائجیرین حکومت اور اسکے مغربی آقا بوکو حرام کا تعلق طالبان یا القاعدہ سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔    

کئی سالوں کے تناو¿ اور چند ایک چھوٹے موٹے واقعات کے بعد جولائی 2009ء میں ایک بڑا تنازعہ پیدا ہوا۔میڈوگری شہر میں بوکو حرام کے ایک رکن کے جنازے میں شریک چند ارکان کو پولیس نے قبرستان جاتے ہوئے روکا اور نوجوانوں کو موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہننے کو کہا۔نوجوانوں کے انکار پر جھگڑا ہوا جس کے بعد پولیس نے فائرنگ کردی۔اسکے نتیجے میں کئی ارکان زخمی ہو گئے،اس کے ردِعمل میں بوکوحرام نے احتجاج کیا اور سرکاری عمارات پر دھاوا بول دیا۔ تشدد کی یہ لہر جلد ہی پانچ صوبوں میں پھیل گئی اور کئی دن تک جاری رہی۔مرکزی حکومت نے شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے میڈوگری پر فوج کشی کردی اور بوکو حرام کے ارکان کو چن چن کر شہید کیا اور شیخ یوسف کو ان کے گھر سے گرفتار کرنے کے بعد شہید کردیا گیا۔جبکہ دعویٰ یہ کیا گیا کہ انکی شہادت جھڑپ میں ہوئی۔انکی میّت ہتھکڑیوں سمیت پائی گئی۔تقریباً ایک ہزار بوکو حرام کے ارکان اس فوج کشی میں شہید ہوئے۔بہت سوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے کئی کو دورانِ حراست شہید کردیا گیا، بوکوحرام پر پابندی عائد کردی گئی اور اسکی مساجد کو شہید کردیا گیا ، جبکہ زندہ بچ جانے والے ارکان بکھر گئے اور انڈرگراونڈ چلے گئے۔
ایک سال کی خاموشی کے بعد بوکوحرام کا نام ایک بار پھر مقامی میڈیا میں اس وقت نمودار ہوا جب چند موٹرسائیکل سوار حملوں میں ایسے کئی افراد کو قتل کر دیا گیا جو کہ 2009ءمیں بوکو حرام پر کیے جانے والے آپریشن میں کسی بھی طور پر ملوث تھے۔ تاہم کسی جماعت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہ کی-جون 2011ءمیں ابوجا میں نیشنل پولیس ہیڈکواٹر میں بم دھماکہ ہوا اسکے دو ماہ بعد ابوجا میں ہی اقوامِ متحدہ کے آفس میں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود خودکش کار بم حملہ ہوا جس میں 24 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے۔اسی سال دسمبر میں کرسمس کے موقعہ پر کئی گرجا گھروں اور سرکاری عمارتوں پر بم حملے ہوئے جن کا الزا م بوکو حرام پر لگایا گیا۔جنوری 2012ءمیں نائیجریا کے سب سے بڑے مسلم شہر کانو میں سرکاری عمارات پر حملوں کی لہر میں ایک ہی دن میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے یہ بوکوحرام کے اب تک کے مبینہ حملوں میں سب سے بڑا حملہ تھا۔حالیہ مہینوں میں کئی گرجا گھروں پر بم حملے اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے اکثر کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تاہم میڈیا میں ہر بار بوکوحرام کو ہی موردِالزام ٹھہرایا گیا۔نائیجیریا آج شورش‘ بدامنی‘ بم دھماکوں اور مسلح حملوں کی لپیٹ میں ہے‘ زیادہ تر نشانہ گرجا گھروں کو بنایا جا تا ہے۔ الزام بوکوحرام پر لگا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے گرجا گھروں پر حملے ہونگے تو مسیحی برادری مظلوم ٹھہرے گی۔ انڈونیشیا کے مشرقی تیمور اور سوڈان کے جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کی طرح نائیجیریا کو توڑنے کی سازش اس وقت بے نقاب ہو گئی جب پتہ چلا کہ گرجا گھر بم سے ا±ڑانے کی تین ناکام کوششوں میں گرفتار ہونے والے تمام افراد عیسائی تھے۔اس سال فروری میں پولیس نے بوکوحرام کے مضبوط گڑھ باو¿چی میں ایک عیسائی عورت لیڈیا جوزف کو چرچ جلانے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا۔ جوزف نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ اسکا یہ عمل اپنے بوائے فرینڈ کی جانب سے دھوکہ دیے جانے پر جذباتی صدمے کا نتیجہ تھا۔ ایک اورملزم وزڈم کنگ کو پولیس نے جنوبی صوبے بیلسا میں جو کہ صدر گڈلک جوناتھن کا آبائی صوبہ ہے ، ایک چرچ کو بم سے اڑانے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا۔ایک تیسرے واقعے میں پولیس نےباو¿چی کے نواحی علاقے سے آٹھ عیسائیوں کو گرفتار کیا جو کہ اپنے مخالف گروہ کے چرچ کو جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔"اگر یہ ملزمان گرجا گھروں کو اڑانے میں کامیاب ہو جاتے تو تمام تر الزام بوکوحرام پر عائد کیا جاتا اوراسکا شکار اسلام اور مسلمان بنتے"۔ ان خیالات کا اظہار شریفہ یوسف نے کیا جو کہ المومنات نامی مسلم خواتین کی تنظیم کی ترجمان ہیں۔بوکو حرام کئی لوگوں کے نزدیک ایک راز ہے- نائجیریا کے صدر نے حال ہی میں الزام عائد کیا ہے کہ بوکو حرام کے کئی ہمدرد حکومت میں شامل ہیں جو اسے قانون سے بچانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں- یہ واضح اشارہ ہے کہ شاطر صدر نے اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمانوں کو اس مسئلے میں ملوث کرنے کی کوشش کی ہے- کچھ حلقوں میں سوڈان کی طرز پر نائیجریا کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی سازشیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جسکا مقصد نائجیریا کے جنوب میں تیل کی دولت سے مالامال عیسائی ریاست کا قیام ہے۔شمال میں شریعت کے نفاذ کے بعد عیسائی حلقوں میں علیحدہ ملک کی باتیں کی جارہی ہیں۔ انکا خیال ہے کہ جنوبی نائجیریا تیل کی دولت کے ذخائر اور سمندر تک رسائی کی بدولت ایک انتہائی امیر ملک کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔جسکی دولت کو پورے افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔نائیجیریا کی شکست و ریخت حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے۔ اس کی راہ میں او۔آئی۔سی یقینا سنگ راہ بن سکتی ہے اگر یہ خواب گراں سے بیدار ہو جائے تو!        (ختم شد)

....٭....٭....٭....







Sunday, August 19, 2012

عید ‘ نویدمسرت کب بنے گی؟ 12-8-19





عید‘ نوید ِ مسرت کب بنے گی؟

 قوم کی یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ عیدالفطر ایک بار پھر نامساعد حالات ‘دہشت و وحشت ‘ بدامنی و لاقانونیت کی فضا اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث ہر طرف مہنگائی‘ بیروزگاری ‘ لوڈشیڈنگ جیسے کارناموں کی جفا میں آئی ہے۔ ابھی شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن کی سوچ ہی سامنے آئی تھی کہ کامرہ ایئر بیس کی سکیورٹی بکھیر کر رکھ دی گئی پھر اس شبِ قدر کی صبح کو ناران میںایک خاص مکتبہ فکر کے 25 انسانوں کو اس وقت بسوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا جب انکے پیارے عید کے موقع پر انکے گھر پہنچنے کاانتظار کر رہے تھے۔ کراچی کا امن ایک عرصے سے داﺅ پر لگا ہے۔ گزشتہ روز فائرنگ اور بم دھماکے میں 14 افراد قتل کر دیئے گئے۔ آج کا سکور تادم تحریر 11 ہے۔ بلوچستان کے روئیں روئیں سے خون رس رہا ہے‘ قبائلی علاقے بدامنی کی آگ کا گولا بن گئے ہیں۔ ڈرون حملوں کے ردعمل میں خود کش بمبارسراپا بارود بنے اپنے پیاروں کا انتقام لینے نکل پڑتے ہیں‘ ان کا جہاں بس چلتا ہے ‘ لمحوں میں قیامت صغریٰ برپا کر دیتے ہیں۔
 یہ د نیا کہیںدکھوں کی وادی ہے توکہیں خوشیوں کا گہوارہ ۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ خوشیوں بھرے گھر میں صف ماتم بچھ جاتی ہے لیکن کہیں رب العالمین ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ غم خوشیوں میں بدل جاتے ہیں۔ سوز اور سازطرب کا سلسلہ ازل سے چلتا آیا ہے ابد تک جاری رہے گا۔ یہی قانون قدرت ہے۔ آج ہم جن حالات میں عید منا رہے‘ وہ قابل رشک تو کجا‘نارمل بھی نہیں ہیں۔وطن عزیز کے دو صوبے مکمل طور پر شورش بدامنی اور آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ انکی تپش دوسرے صوبوں میں بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ سرحد اور بلوچستان میں بدامنی کی وجوہات مختلف ہیں لیکن چنگاری کو شعلہ اور شعلے کو الاﺅ کس نے بنایا؟ یقیناً اس میں غیر ملکی طاقتیں ملوث ہو سکتی ہیں لیکن اس آگ کو پھیلانے اور دہکانے میں ہماری قیادتوں کی بے بصیرتی ‘ ذاتی مصلحتیں‘ ناقص پالیسیاں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔ 
عید کے موقع پر والدین کو اپنے ان ملازم پیشہ جگر گوشوں کا انتظار ہوتاجو پردیس میں روٹی روزگار کیلئے محنت مشقت کر رہے ہوتے ہیں۔بہنیں اپنے بھائیوں اور سہاگنیں اپنے سہاگ کی راہ دیکھتی ہیں۔ بچے اپنے باپ کی شفقت اور تحفے پا لینے کی حسرت لئے ہوتے ہیں۔ لیکن آج بہت کچھ بدلا ہوا ہے۔ دہشت گردی کےخلاف نام نہادجنگ اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں فوجی‘ پولیس افسر‘ جوان اور عام آدمی بھی شہادت کا رتبہ پا رہے ہیں‘ انکی لاشیں گھروں میں پہنچتی ہیں تو انکے والدین‘ بچوں اور سہاگنوں پر قیامت گزر جاتی ہے‘ انکی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے‘ یااللہ یہ کیسی جنگ ہے جو اپنے اپنوں کیخلاف لڑ رہے ہیں۔ پچھلی کئی عیدوں کی طرح قو م کےلئے یہ عید بھی خون آشام اور خوں بار بن گئی۔ ایسے حالات میں قومی اتحاد‘ یگانگت اور یکسوئی ناگزیر ہے لیکن ہم نے اپنی سیاست کی ایسی جنگ شروع کی ہوئی ہے جس میں سیاستدان باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کو لٹیرا قرار دیتے ہیں۔ برسراقتدار جماعت اپنی ”قربانیاں“ گنوا کر ملک و قوم کے ساتھ کچھ بھی کر گزرنے کا حق جتلا رہی ہے۔ عدلیہ کو بے وقعت کیا جا رہا ہے۔ 
کئی برسوں کی طرح 1433 ہجری کی عید الفطر میں بھی ہمارے لیے پیغام مسرت ہے‘ نہ نوید راحت و فرحت۔ ا±مہ پر بدستور مایوسیوں کے سائے اور تاریکیوں کے سائبان تنے ہیں۔ جہاں اس کا سبب ہنود، یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ ہے وہیں‘ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی منافقت کی سی مصلحت بھی کار فرما ہے۔ افغانستان اور عراق میں انسانیت سسک اور بلک رہی ہے۔جو جنگ کا ایندھن بنے، انکے لواحقین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ انکی عید کیسی ہو گی! فلسطین میں صہیونیت نے مسلمانوں کی گردن پر ڈریکولائی پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ غزہ کے لاکھوں محصورین خوراک اور ادویات کےلئے ترس اور تڑپ رہے ہیں۔ سینکڑوں بچے دودھ، ہزاروں بوڑھے ادویات کی کمی کے باعث لقمہ ا±جل بن گئے۔ بچنے والے پیروجواں زندگی و موت کے درمیان معلق ہیں۔ انکی عید کیسی ہو گی! مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی سفاک فوج کی گولیاں اور سنگینیں کشمیریوں کے جگر چیر رہی ہیں۔ ماتم کناں کشمیریوں کا جان ومال محفوظ ہے نہ عزت و آبرو، ان کی عید کیسی ہو گی!وطن عزیز و عظیم کے جسد کارواں رواں بارود سے دھواں دھواں ہے۔ غیروں کی جنگ میں پانچ ہزار سے زائد فوجیوں سمیت نصف لاکھ پاکستانی اس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ کتنے سہاگ لٹے، کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی مائیں بے سہارا ہوئیں، کتنی بہنوں کی بھائیوں کی راہیں دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں۔ انکی عید کیسی ہو گی.... بوسنیا اور چیچنیا میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا‘ اب یہی ظلم بڑی سفاکی سے برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھایا جا رہا ہے۔ تیس ہزار قتل ہوئے‘ 80 ہزار بے گھر ہو کر دربدر ہو گئے۔ اقوام متحدہ نے سخت نوٹس لیا نہ او آئی سی کے ضمیر پر خلش پیدا ہوئی۔ دونوں بڑی تنظیموں نے صرف واجبی بیانات دیئے۔ شاہ عبداللہ کی بلائی گئی کانفرنس سے امہ نے بڑی توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں‘ وہ بھی نقشِ برآب ثابت ہوئیں۔ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کا فیصلہ ہوا‘ اقوام متحدہ نے مسلمانوں کے حقوق کیلئے پہلے کبھی کچھ کیا ‘ نہ اب کریگی۔ مسئلہ کشمیر 65 سال سے اسکے کباڑخانے میں پڑا ہے بھارت خود گیا تھا لیکن اب اٹوٹ انگ کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ حل ایک ہی ہے اندرونِ ملک اتحاد و یگانگت کی فضا اور مسلم امہ کا سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط اتحاد جسے اسلامی ممالک میں شورش دور کرنے اور کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر مظالم کی صورت میں طاقت سے روکنے کا اختیار ہو۔ دوسرے لفظوں میں نیٹو ممالک اور یورپی یونین کی طرح فعال او آئی سی۔ خدا اہل وطن اور مسلم امہ کیلئے عیدکو خوشیوں کی نوید بنا دے۔









Friday, August 17, 2012

What If Pakistan And India Could Unite ?


جمعہ ,17 اگست ,2012

     
What  If  Pakistan  And  India  Could  Unite ?

فضل حسین اعوان
 ہندو لیڈر شپ نے اکھنڈ بھارت کی بنیاد تقسیم ہند کے ساتھ ہی رکھ دی تھی۔اس کا پہلا پتھر اس نے کشمیر پر قبضے کی صورت میں رکھا پھر اس میں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ مناوادر کی مسلمان ریاستوں پر قبضے سے توسیع ہوتی چلی گئی۔ایک مضبوط پاکستان کی موجودگی میں اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیردینا ناممکن ہے۔ 1971ءمیں مشرقی پاکستان کو الگ کرکے پاکستان کو دولخت کردیا گیا۔ پاکستان ایک بازوکے الگ ہونے سے یقینا کمزور ہوا لیکن جلد ہی ایٹمی قوت بن کر پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوا اور اسکا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوگیا۔1984 میں بھارت کی سیاچن پر جارحیت بھی اکھنڈ بھارت کی خواہش کی تکمیل کی ایک کڑی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک اکھنڈ بھارت کو عملی شکل دینے کے حوالے سے بنیا قیادت کا خبثِ باطن پوشیدہ نہیں رہ پایا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اس کا مذاکرات کی میز پر آنا سراسر منافقت ہے جبکہ اسکی اصل پالیسی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا ہے۔بھارت کی طرف سے کشمیر کو متعدد بار متنازعہ ایشو قرار دیا گیا۔اسے بینظیر بھٹو، نواز شریف ، مشرف اور اسکی پروردہ حکومتوں نے بھارت کی طرف سے کشمیر کو متنازعہ قرار دینے کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے دعوے کئے کہ ہم نے بھارت سے ” پہلی بار“ کشمیر کے متنازعہ ہونے کا اعتراف کرایا ہے۔ بھارت کی نظرمیں وہ علاقے متنازعہ ہیں جو آزاد کشمیر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔دو روز قبل بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے لوک سبھا میں اپنا تحریری بیان داخل کرایا جس میں کہا گیا ہے ” بھارت ہمسایہ ملک کے ساتھ معاملات کو دو طرفہ اور پُر امن طورپر حل کرناچاہتا ہے۔پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر کے علاقوں پر غیر قانونی اور زبردستی قبضے کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ پاکستان کے غیر قانونی اور جبری تسلط میں ہے۔ سیاچن کا علاقہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے “ انتھونی کے اس بیان کے بعد ان لوگوں کو ڈوب مرناچاہئے جو کہتے ہیں کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے کشمیر کا ز پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔بھارت کی کشمیر پر واضح پالیسی یا اسے سیاچن اور آزاد کشمیر سمیت اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کے بعد بھارت کے ساتھ تجارت تعلقات اور دوستی کو فروغ دینے اور امن کی آشا کا راگ الاپنے والے کیا اکھنڈ بھارت کے پکھنڈ میں پکھنڈی بن چکے ہیں؟ یہ سب کچھ نادانستہ نہیں دانستہ ہورہا ہے۔ اگر نادانستہ ہورہا تو بھی ایسا کرنے والوں پر لکھ لعنت ہے جو اقبال اور قائد کے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
 پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے سے بھارت جارحیت کے ذریعے اکھنڈ بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے سے قاصر ہے۔البتہ جو کام وہ جارحیت سے نہیں لے سکتا تھا وہ سازشوں سے لے رہا ہے۔ بلور صاحب جیسے اس کے نمک خوار پاکستان بنگلہ دیش افغانستان اور بھارت پر مشتمل کنفیڈریشن بنانے کی تجویز دیتے رہتے ہیں۔اس سوچ کے پیچھے بھی اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا ہے۔گزشتہ روز پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر رامیش ٹھاکر کا آرٹیکل آن لائن نیوز پیپر The ottawa citizen میں شائع ہوا جو ایک انگریزی معاصر نے لفٹ کرکے یوم آزادی کے دوسرے روز شائع کیا۔
مضمون نگار رامیش ٹھاکر آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی، کینبرا، آسٹریلیا کے کرانورڈ سکول آف پبلک پالیسی کے سنٹر فار نیوکلیئر نان پرولیفریشن اینڈ ڈس آرمامنٹ کا ڈائریکٹر ہے۔ علاوہ ازیں گرفتھ یونیورسٹی، کوئنز لینڈ آسٹریلیا کے انسٹی ٹیوٹ آف ایتھکس، گورننس اینڈ لاءمیں عارضی پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔ رامیش ٹھاکر ٹیپیکل ہندو ہے۔ اس نے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی ترقی، خوشحالی کی پڑی میں لپیٹ کر نئی تجویز پیش کی ہے۔ what if pakistan and india could unite? کے زیر عنوان مضمون میں کہا گیا ہے کہ” پاکستان اور بھارت اپنی آزادی کی سالگرہ 14 اور 15 اگست کو منا رہے ہیں مگرا ن دونوں کی باہمی مخاصمت نے نہ صرف بھارت کا ایک عالمی طاقت بننے کا خواب چکناچور کر دیا ہے بلکہ پاکستان کی عالم اسلام کا ایک درخشاں ستارہ بننے کی خواہش کو بھی ملیامیٹ کر دیا ہے۔ کیا 2047ءمیں بھی ان دونوں ممالک کے تعلقات یونہی سردمہری کا شکار رہیں گے یا پھر یہ اپنے اختلافات کو بھلا کر مشترکہ خوشحالی اور استحکام کےلئے مل جل کر کام کر سکیں گے کیونکہ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر جنوبی ایشیا کے تمام باشندوں کی قسمت کا انحصار ہو گا۔ تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے کیلئے دونوں ممالک میں انتہائی دوراندیش قیادت کا ہونا ضروری ہو گا جو فی الحال کمیاب ہے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی پوزیشن بڑی کمزور اور نازک ہے اور طاقت کے اصل مراکز تین "M" یعنی ملٹری، ملی ٹینٹس اور ملا ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سویلین صدر اور وزیراعظم کو خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سرحد کے دوسری جانب بھارت میں بھی پائی جاتی ہے جہاں حصول آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کا سب سے غیر موثر وزیراعظم منموہن سنگھ براجمان ہے۔ اگر 2047ءتک دونوں ممالک کے اچھے تعلقات میں حائل تمام مشکلات ختم ہو جائیں تو جنوبی ایشیا میں ایک اکنامک یونین وجود میں آ جائے گی اور اقتصادیات کے تمام شعبوں میں بہتری پیدا ہو جائےگی۔ عین ممکن ہے کہ ایک مشترکہ کرنسی وجود میں آ جائے....
جب دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے تو کشمیر میں لائن آف کنٹرول بے معنی ہو جائےگی۔ دونوں مملکتوں کی دفاعی افواج میں خاطر خواہ کمی کر کے انہیں ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر قیام امن اور قدرتی آفات کے دوران امدادی سرگرمیوں کےلئے استعمال کیا جا سکے گا۔ ان سب خوابوں کو تعبیر عطا کرنے کیلئے ہمیں ہمت، حوصلے اور یقین رکھنے والی قیادت درکار ہے۔ “
رامیش کے آرٹیکل کا ایک ایک لفظ اکھنڈ بھارت کی سوچ سے آلودہ اور اس سے تقسیم ہند کی نفی کا تعفن اُٹھ رہا ہے۔افسوس کہ اس آرٹیکل کو اس اخبار نے بڑے اہتمام سے شائع کیا جو تحریک پاکستان کے بہت بڑے کارکن ہی نہیں‘ داعی اور ایم ایس ایف کے بانی صدر کی وراثت کا دعویدار ہے۔
رامیش ٹھاکر کا آرٹیکل خلوص سے خالی اور ایک مخصوص سوچ کا عکاس ہے۔ بھارت کے عالمی طاقت بننے کا خواب اگر دونوں ممالک کی مخاصمت سے چکنا چور ہوا ہے تو اس مخاصمت کا ذمہ دار کون ہے؟۔ خطے میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں اس نے نہ صرف مسلمان ریاستوں پر جارحیت بلکہ ہمالیاتی ریاست سکم میں بادشاہت کا خاتمہ کرکے اس پر بھی قبضہ کیا۔ وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی اختیار کرتا تو عالمی طاقت بنتا یا نہ بنتا البتہ خطہ امن اور خوشحالی کا گہوارہ ضرور ہوتا ۔ 71ءمیں پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی پاکستان عالم اسلام کے آسمان پر درخشندہ ستارہ نہیں بلکہ مہ تاب و آفتاب کی مانند دمک رہا ہے۔ حکمرانوں کی بزدلی آڑے نہ آئی ہوتی تو پاکستان یقیناً عالم اسلام کی قیادت کرتا جس کی خواہش عرب عجم افریقہ و ایشیاءکے ہر مسلمان کے دل میں ہے۔مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان بنیادی اور بڑا تنازع ہے۔ یہ ایشو بھارت نے کھڑا کیا اور اسکے حل میں رکاوٹ بھی وہی ہے۔ 63 سال اس نے مذاکرات کی ڈرامہ بازی میں گزار دیئے۔ بھارتی ہٹ دھرمی اور چالوں کو دیکھتے ہوئے واضح ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر 2047 یعنی تقسیم ہند کے سو سال بعد تو کیا قیامت تک حل نہیں ہو گا۔ البتہ ایٹم بم کا بٹن دبانے سے شاید صدیوں کا فاصلہ چند ساعتوں میں طے ہو جائے۔
مضمون نگار کو زرداری اور منموہن کی کمزور حیثیت نظر آ گئی۔ اسے ان کی دور اندیشی پر بھی شک ہے۔ ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف تو مضبوط حیثیت کے مالک تھے۔ بھٹو صاحب دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں انکے ادوار میں ہی اندرا گاندھی، مرار جی ڈیسائی جیسے حکمران رہے اور سب سے بڑھ کر قائداعظم، لیاقت علی خان اور دوسری طرف جواہر لعل نہرو جیسے مضبوط اور جہاندیدہ حکمران ایک ہی دور میں موجود تھے۔ ان وقتوں میں پاکستان اور بھارت قریب کیوں نہ آئے؟ دونوں ممالک کے درمیان مثالی اور قابل رشک تعلقات قائم کیوں نہ ہوئے؟ اسکی وجہ بھارت کے حکمرانوں کی بنیا سوچ، اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل اور علاقے کا چودھری بننے کا خبط تھا۔ بنیے کی سوچ میں ہنوز کوئی فرق نہیں آیا بلکہ عیاری و مکاری میں پہلے سے دو چار گام آگے بڑھ گیا ہے۔ پاکستان میں ملٹری، ملٹی ٹینٹس اور ملا کو طاقت کا مرکز قرار دینا محض ایک درفنطنی ہے۔ ایسے الفاظ زیب داستان کےلئے استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی ایشو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو بنیے مہاراج کو خواب میں ڈرانے والے طاقت کے یہ مراکز گنگا و جمنا کی موج کی طرح بے ضرر نظر آئینگے۔
پاکستان دو قومی نظریے کے تحت وجود میں آیا۔ پاکستان اسلامی جمہوری فلاحی ریاست ہے۔ بھارت خود کو سیکولرزم کہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تر تنازعات پرامن اور خوش اسلوبی سے طے ہو جائیں پھر بھی دونوں ممالک کا الگ الگ تشخص برقرار رہے گا۔ پاکستان اور بھارت کی صرف سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اسکے سوا کون سی بات مشترک ہے؟۔ نہ تہذیب نہ تمدن نہ کلچر و ثقافت نہ زبان اور مذہب، نہ ہمارے ہیرو سانجھے ہیں نہ ولن مشترک ہیں۔ لہٰذا کوئی یونین بنانے کی ضرورت ہے نہ کنفیڈریشن کی‘ البتہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل ہونے کی صورت میں دونوں ممالک اچھے پڑوسیوں کی طرح ضرور رہ سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے تقسیم سے قبل محمد علی اور رام داس پڑوسی ہو تے تھے۔ کیا رام ،علی کے ساتھ بیٹھ کر ایک برتن میں کھا پی لیتا تھا؟۔ علی پوتر جل پینے اور رام گائے کا گوشت کھانے پر آمادہ تھا؟ ہندو اور مسلم تہذیبوں میں بعد المشرقین ہے یہ فرق کبھی نہیں ختم سکتا ہے‘ اس لئے اِدھر اور اُدھر کے امن کے پجاریوں کی خواہش پر لاکھوں مسلمانوں کے خون سے کھینچی ہوئی لکیر کبھی نہیں مٹ سکتی۔ کبھی نہیں۔ آج جو اعتماد سازی کے اقدامات کے نام پر بوجوہ قربتیں بڑھائی جا رہی ہیں انکی حیثیت مٹی پر کھینچی لکیر اور پانی کے بلبلے سے زیادہ ہرگز نہیں ہے۔ یہ کسی بھی وقت انقلابی سوچ کی جوتوں کی ٹھوکر سے دھول بن جائیں گی۔ دونوں ممالک نے ملنا ہی ہوتا تو لاکھوں جانوں کی قربانی دینے، عزتیں لٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بنیے کے دل میں مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا انتقام جوش میں آتا ہے تو اسے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیریں پہنانے کےلئے کئی تدبیریں سوجھتی ہیں۔ یونین اور کنفیڈریشن کی تجویزیں بھی اسی کی کڑیاں ہیں۔ آج خونیں لکیر کو مٹانے کی نہیں اس پر دیوار تعمیر کر کے اس کو اتنا اونچا کرنے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہمارے ملک میں جاسوس، دہشت گرد اور تخریب کار داخل کرنا تو ایک طرف وہ اس دیوار کے پار جھانک بھی نہ سکے۔ آخر تقسیم ہند کو ہی اَن ڈو کرنے کی خواہش کیوں پائی جاتی ہے؟ گردش ایام کا ماضی کی طرف اس طرح سے لوٹنا ممکن نہیں جس طرح کبھی انگریز راج لوٹ کر نہیں آسکتا۔ اسی طرح تقسیم ہند کی منسو خی اور اکھنڈ بھارت کی سوچ کبھی بھی عملی شکل اختیار نہیں کرسکتی۔
 پاکستان بھی توٹوٹا اس کو جوڑنے کی کوئی کوشش سامنے آتی ہے نہ خواہش، پاکستان ٹوٹنے میں ذوالفقارعلی بھٹو کا نام بھی لیاجاتا ہے۔تاہم مشرقی پاکستان کے بارے میں بھٹو صاحب کی سوچ ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ہونی چاہئے یہ 10اپریل 1973 کا دن ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے دستوز ساز اسمبلی سے آئین کی منظوری کے دن اپنے تاریخی خطاب میں کہا تھا ” وہ وقت ضرور آئےگا جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پھر بھائیوں کی طرح آملیں گے اور اسلا م کی عظمت اور باہمی دوستی کی ایسی یادگار تعمیر کرینگے جو لافانی ہوگی یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے۔
 اسلام کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی ہوکر رہے گی“ اور پھر بھٹو نے ہی پاکستان کی شہ رگ کشمیر کیلئے ہزار سال جنگ لڑنے کی بات کی تھی۔ اب اسکے جانشین بے شک بھارت کے شردھالو بنتے پھریں۔ (پاکستان زندہ باد)

Thursday, August 16, 2012

گن کنٹرول


 جمعرات ,16 اگست ,2012
    
گن کنٹرول    
امریکہ اور برطانیہ کی تہذیب‘ ثقافت اور کلچر کا ماخذ ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ البتہ دونوں کے اسلحہ کلچر میں نمایاں فرق ہے۔ برطانیہ میں ذاتی اسلحہ رکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ امریکہ میں اسلحہ کلچر کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں جس کے سبب امریکہ میں انفرادی اور اجتماعی قتل کی وارداتیں روزمرہ کا معمول ہیں۔ میجر ملک ابوندال نے 5 نومبر 2009ءکو فورٹ ہڈ کے فوجی اڈے میں 13 ساتھی فوجیوں کو اپنی بندوق سے فائرنگ کرکے بھون ڈالا تھا۔ تازہ ترین واقعات میں 3 مئی 2011ءکو ریاست ایری زونا کے قصبے گلبرٹ میں ایک مسلح نوجوان بلٹ پروف جیکٹ پہنے سڑک پر آیا اور اندھا دھند فائرنگ کرکے ایک بچے سمیت چار افراد کو گولیوں سے چھلنی کر دیا.... کیوں؟ اس کا جواب اس لئے نہ مل سکا کہ اس نے خود کو بھی اپنی پسندیدہ بندوق سے اڑا لیا تھا۔ 20 جولائی 2012ءکو 24 سالہ جیمز ہومز کی ریاست کولو راڈو کے ایک سینما گھر میں فلم بیٹ بین کے پریمپئر شو کے دوران فائرنگ سے چودہ افراد ہلاک اور 58 زخمی ہو گئے تھے۔ 6 اگست 2012ءکو ریاست وسکونسن کے علاقے اوئیک کریک کے گوردوارے میں ایک نوجوان جا گھسا جس نے فائرنگ کرکے چھ سکھوں کو ابدی نیند سلا دیا اور خود پولیس کے ہاتھوں موقع پر مارا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بے رحم قاتل افغانستان میں تعینات رہنے والا سابق فوجی تھا‘ وہ شاید داڑھی کی مناسبت سے سکھوں کو مسلمان سمجھ بیٹھا ہو۔ 
ایسے بہیمانہ واقعات کو دیکھتے ہوئے امریکہ میں Gun control-law کے حوالے سے کئی بار کوشش کی گئی لیکن امریکیوں کے اسلحہ سے جنون کی حد تک لگاﺅ کے باعث کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ 
بی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ نے امریکیوں کی اسلحہ اندوزی کے حوالے سے دلچسپ رپورٹیں شائع کی ہیں۔ امریکہ میں گن لابی اور گن کنٹرول لابی یا اینٹی گن لابی امریکی سیاست اور اقتدار میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہی ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بہت سے ڈیموکریٹ گن کنٹرول کے حامی ہیں جبکہ رپبلکنز کی بہت بڑی تعداد گن لابی کے حق میں ہوتی ہے۔ امریکی سیاست پر نیشنل رائفل ایسوسی ایشن بھی اثر انداز ہے اور کئی امریکی شہروں میں قومی گن شو بھی منعقد ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے مرد و خواتین جوق در جوق آتے ہیں۔ امریکہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئینی طور پر ہر بالغ شہری کو ہتھیار یا بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ کی عمر اٹھارہ سال یا اس سے زائد ہے، آپ امریکی شہری ہیں اور آپ کا کوئی پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے تو آپ محض اپنا ڈرائیونگ لائسنس یا ریاستی شناختی دستاویز کسی بھی اسلحے کی دکان پر دکھا کر بندوق خرید سکتے ہیں۔امریکہ میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں آپ اپنے دفاع میں گولی چلا سکتے ہیں، یا آپ کی ملکیت میں گھس آنے والے کو آپ بلاجھجک گولی مار سکتے ہیں۔ بہت سے امریکیوں نے اپنے گھروں پر ایسی تختیاں لگا رکھی ہیں جن پر تحریر ہے کہ بغیر اجازت اندر آنے والے کو گولی ماری جا سکتی ہے۔ یا ’وی شوٹ دی ٹریس پاسر‘ یعنی ہم اندر گھس آنے والے کو گولی مار دیتے ہیں۔امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے ہیں‘ اور یہی بات آپ کو کئی امریکی فخر سے بتائیں گے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ امریکہ دنیا میں بندوق کا کلچر رکھنے والے ملکوں میں سب سے آگے ہے اور اس کی تاریخ اور قومی زندگی میں بندوق ایک جزو لاینفک رہا ہے۔ آپ کو ایسے کئی امریکی ملیں گے جو آپ کو بتائیں گے کہ ان کے دادا نے انہیں اپنی رائفل اس وقت تحفے میں دی جب وہ پانچ سال کے تھے۔
امریکن رائفل مین کا ایک ہیرو والا ’ماچ±و مین‘ تصور امریکی زندگی اور لوک گیتوں میں بھی موجود ہے۔ امریکیوں کیلئے بندوق ان کا زیور اور شوق شمار ہوتا ہے۔ امریکیوں کی رائفلز اور بندوقوں پر نقش و نگار دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
بندوق سے امریکی قربت اتنی ہے کہ مشہور امریکی افسانہ نگار ارنسٹ ہیمنگوے کی بندوقیں بھی خود ان جتنی ہی مشہور ہیں اور ان پر ایک کتاب ’ہیمنگنویز گنز" بھی شائع ہوئی ہے۔حال ہی میں برطانوی اخبار گارڈین نے دنیا میں آتشیں اسلحہ رکھنے والے ملکوں کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جس میں امریکہ کو اول نمبر پر بتایا گیا ہے۔چند روز قبل ٹائم میں اس کے ایڈیٹر فرید زکریہ نے اپنے کالم "The Case for Gun Control"میں اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ 88.8 فیصد امریکیوں کے پاس آتشیں اسلحہ ہے۔ یمن کے شہری 54.8 فیصد کے ساتھ دوسرے سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ کے 45.7 اور45.3 کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ اس آرٹیکل کی اشاعت سے عقدہ کھلا کہ اس میں بھارتی نژاد زکریہ نے کئی اقتباسات ہاورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر گیل لیپور کے اخبار نیویارکر میں 23 اپریل 2012ءکو شائع شدہ مضمون سے لئے تھے۔ جن کا حوالہ نہ دینے پر اسے چوری شدہ مواد قرار دیا گیا۔ جس کا زکریہ نے اعتراف کرتے ہوئے معذرت کی جس پر ان کو ٹائم کے ساتھ نیوےارک ٹائمز اور سی این این پر ایک ماہ کےلئے بین کردیا گیا ہے۔ زکریہ کہیں نوسر باز مشہور نہ ہو جائیں کیونکہ انہوں نے ”ڈیوک“ یونیورسٹی میں دیئے گئے ایک لیکچر سے ملتا جلتا لیکچر ہاورڈ یونیورسٹی میں دیا تھا جس پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ زکریہ نے ایسے کام کرنے ہیں تو پاکستان چلے آئیں ان کے لئے یہ زمین بڑی زرخیز ثابت ہو گی۔
اب پے در پے خونیں واقعات کے بعد ایک بار پھر صدر اوباما پر اسلحہ کلچر کے خاتمے کیلئے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ وہ خود بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکیوں کے اسلحہ سے لگاﺅ کو دیکھتے ہوئے وہ اس لئے خاموش ہیں کہ صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے وہ اسلحہ پر پابندی لگا کر مخالف پارٹی کو کلین سویپ کا موقع نہیں دینا چاہتے۔ اوبامہ اسلحہ کنٹرول کیلئے ایک اصولی فیصلہ کرنے سے اس لئے ہچکچا رہے ہیں کہ انکو اپنی ذات پر امریکیوں کے اعتماد کا یقین نہیں۔ اس لئے وہ منافقت جیسی مصلحت سے کام لے رہے ہیں۔ اہل عرب جیسا شراب نوش کون ہو گا‘ نبی کریم نے اسکی حرمت کا حکم سنا یا تو شراب کے مٹکے اور کوزے ٹوٹے اور اوندھے پڑے نظر آئے۔ حجة الوداع کے موقع پر حضور کا خطبہ اسلامی آئین کی حیثیت اختیار کر گیا‘ آپ نے جو فرما دیا کسی نے سرتابی کی جسارت نہ کی۔ قیادت صالح اور مخلص ہو تو قوم اسکی پیروی پر فخر کرتی ہے ایسی ہی مثال ہمیں ماضی قریب میں افغانستان میں نظر آئی‘ جب ملاعمر نے افغانوں کو اسلحہ جمع کرانے‘ پوست کی فصل کو اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا جس پر برضا و رغبت عمل ہوا۔ مغرب نے چند اسلامی اصول ضرور اپنائے ہیں‘ اسلام صرف چند اصولوں کا نام نہیں ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسکی امریکی معاشرے میں کارفرمائی ہوتی تو اوباما کو اسلحہ کلچر کے خاتمے کیلئے کسی قسم کی جھجک اور ہچکچاہٹ نہ ہوتی۔ موجودہ حالات اور مصلحتوں کے پیش نظر شاید امریکہ اور امریکیوں پر اسلحہ کلچر قیامت تک مسلط رہے۔

Tuesday, August 14, 2012

یومِ آزادی اور اسلامی سربراہی کانفرنس


منگل ,14 اگست ,2012
   
یومِ آزادی اور اسلامی سربراہی کانفرنس

آج کے دن کی عالمِ اسلام کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے ۔آ ج ایک طرف پاکستان کا جشنِ آزادی منایا جارہاہے اور دوسری طرف مکہ میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہورہی ہے ۔مدینہ کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی ریاست ہے۔اس حوالے سے اسلامی برادری میں پاکستان خصوصی اہمیت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی۔دیگراسلامی ممالک پاکستان کو بڑا سمجھتے اور اسے اسلام کا قلعہ قرار دیتے تھے۔1971ءپاکستان ٹوٹا تو اس کوبڑا ور اسلام کو قلعہ قرار دینے والوں کی امیدیں ٹوٹیں ،دل ٹوٹے اور ان کے پاکستان کی طرف سے امہ کی قیادت کرنے کے حوالے سے سہانے سپنے بھی ٹوٹ گئے۔انڈونیشیا ،پاکستان اور نائیجیریا آبادی کے حوالے سے اسلامی ممالک میں بالترتیب ”اب تک“ پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
پاکستان سے بڑے اسلامی ملک کا اعزاز چھنا تو اسے ایک اور اعزاز ” عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت “حاصل ہوگیا۔پاکستان ایک بار بڑا ، اسلام کا قلعہ ، مسلم امہ کا تفاخر اورامیدوں کا مرکز قرارپایا۔اسلامی ممالک پاکستان سے عالمِ اسلام کو لیڈ کرنے کی توقعات رکھتے ہیں۔پاکستان بلا شبہ اپنے ایٹمی قوت ، دنیا کی بہترین فوج کا حامل ،بے پنا ہ قدرتی وسائل سے مالا مال اور بہترین ہنر مند افرادی قوت سے سرفراز ہونے کے باعث عالمِ اسلام کی قیادت کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستان کے 27ویں کی شب کووجود میں آنا اتفاق نہیں بلکہ پروردگار کی ایک عنایت ،نوازش، فضلِ کرم اور معجزہ ہے۔کچھ لوگ اس حوالے سے شک و شبہات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔اہلِ پاکستان کے یقین کو یقینِ راسخ بنانے کے لئے عرض ہے کہ پاکستان یقینا 27 ویں کی شب ہی کو قائم ہوا تھا۔ نوائے وقت کے اگست 1947 ءکے شمارے اس کے گواہ ہیں جو میں اور میرے ساتھیوں نے دیکھے ہیں۔ نوائے وقت کی پیشانی دیکھنے اور پڑھنے پر واضح ہوگیا کہ جس رات کو قیام پاکستان کی خوشخبری سنائی گئی وہ ستائیسویں کی شب اور جمعہ کی رات تھی۔ 14اگست 1947 کو 26 رمضان المبارک سن ،1366 ہجری تھا۔انٹر نیٹ پر کنورٹر سے بھی یہ تاریخ اور دن کنفرم ہوجاتے ہیں۔ میجر حیدر حسن صاحب کی تحقیق کے مطابق نبی کریم ﷺپر پہلی وحی کا نزول 14 اگست کو ہوا تھا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے ایجنڈے میں برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر غور سرِ فہرست ہے ۔شام اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال بھی زیر غور آئے گی۔ افسوس، مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں شامل نہیں۔او آئی سی کی امہ کو درپیش مسائل کے حل کے بارے میں کوششیں دنیا کے سامنے ہیں ان کو مثالی اور قابل رشک تو کیا اطمینان بخش بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔21 اگست 1969ءکو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969ءکو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔اس کے سبز ہلالی پرچم کے درمیان اللہ اکبر درج ہے۔ ذات کبریا کی کبریائی کے لئے او آئی سی کی طرف سے جس عزم اور جن کاوشوںکی امہ کو توقع تھی وہ خاک ہوئیں اور 57اسلامی ممالک کہ یہ تنظیم اب تک راکھ کا ایک ڈھیر ثابت ہوئی ہے۔فلسطین اور کشمیر کے چنگاری سے شعلہ اور الاﺅ بنتے ہوئے مسائل او آئی سی کے اپنے وجود میں آنے سے قبل کے ہیں۔ان کا بدستور حل طلب رہنا اس تنظیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔پاکستان اس تنظیم کی موجودگی میں ٹوٹا ،ایران اور عراق کے درمیان کئی سال تک جنگ لڑی گئی ، عراق نے کویت پر یلغار کی اس پر امریکہ عراق پر چڑھ دوڑا ، اسرائیل نے عراق پر حملہ کر کے اس کے نیو کلئیر پلانٹ کو تباہ کردیا۔ افغانستان پر چڑھائی کرکے اسے تاراج کیا گیا،عراق کو ایک بار پھر برباد کیا،لیبیا کی بربادی سامنے ہے ۔ ایران پر حملے کی تیاری ہے،پاکستان غیر اعلانیہ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ انڈونیشیا کی کوکھ سے مشرقی تیمور اور سوڈان کے بطن سے جنوبی سوڈان کے نام کی عیسائی ریاستوں کو تخلیق کیا گیا۔ان سارے معاملات میں اوآئی سی کا کردار محض تماشائی کا تھا۔
 خاد م ِ حرمین الشریفین کا اسلامی سربراہی کانفرنس طلب کرنا ایک اہم اور بروقت فیصلہ ہے۔سرزمین حجاز مسلمانوں کے لئے عقیدتوں کا مرکز اور ارضِ مقدس پر حکمرانی کرنے والے انتہائی قابل احترام ہیں۔اہل اسلام بجا طور پر خاد م ِ حرمین الشریفین سے مسلم ممالک کے مابین پائے جانے والے اختلافات ختم کرا کے ان کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں۔برما کے صوبے اراکان جہاں آج اہل اسلام کابیدردی سے قتل جاری ہے ، اس میں ساڑھے تین سو سال تک اسلامی حکومت قائم رہی۔ اسلامی مملکت کا پہلا فرمانروا فاروق شاہ تھا اس کے بعد 48حکمران آئے ۔ اس اسلامی ریاست کا1784ءمیں برمی استعماریوں نے جارحانہ قبضہ کر کے خاتمہ کیا۔اراکان کے مسلمان آج آزاد ریاست کو مطالبہ کرتے ہیں نہ حقِ حکمرانی مانگتے ہیں۔وہ صرف باعزت زندگی گزارنے کی خواہش لئے تشدد سے نجات چاہتے ہیں۔او آئی سی دیکھئے ان مظوموں کی کہاں تک داد رسی کرتی ہے؟۔
اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک ممالک نے اگر امہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے فعال کردار ادا نہ کیا تو یہ ممالک ایک ایک کر کے معدوم ہوتے چلے جائیں گے ۔مشرقی تیمور بنا ،پھر شمالی سوڈان وجود میں آیا، اب نائیجیریا کو توڑ کر تیل دولت سے مالا مال جنوبی نائیجیریا کے نام سے ایک اور عیسائی ریاست قائم کرنے کی تدبیر کی جارہی ہے۔ باکو حرام تحریک کی آڑ میں دانستہ شورش پیدا کر کے سامراج اپنے مذموم مقاصد حاصل کرکے کامیابی کے راستے پر گامزن ہے ۔امہ کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ مغرب کی تباہ کن پالیسیوں کی راہ میں مسلم ممالک سنگِ گراں اور عزم، ہمت حوصلے و جرات کا نشاں بن جائیں۔

Friday, August 10, 2012

آئندہ انتخابات اور مسلم لیگ ن


جمعہ ,10 اگست ,2012
     


آئندہ انتخابات اور مسلم لیگ ن
انتخابات کی منزل زیادہ سے زیادہ چھ سات ماہ کی دوری پر ہے‘ تاہم قبل ازیں کسی وقت انکے انعقاد کا بگل بج سکتا ہے جس کا سیاست دانوں کو ادراک ہے۔ اسی سبب سیاسی صف بندی شروع ہو چکی ہے۔ ابھی سیاسی پارٹیوں میں اکھاڑ پچھاڑ‘ اتحادوں کے ٹوٹنے اور نئے اتحاد بننے کا موسم نہیں آیا۔ یہ موسم نگران حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گا اور اتحادوں کی فصل الیکشن کے انعقاد تک پکتی رہے گی۔ ہماری کروٹیں لیتی اور چوکڑیاں بھرتی سیاست میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ابال اور بھونچال کی سی کیفیت ہو گی۔ آج کے پارلیمنٹیرین غول در غول پارٹی بدلتے نظر آئینگے۔ اکثر تو اپنی ہمدردیاں اور وفاداریاں بدلنے کیلئے اب بھی بے چین ہیں لیکن 18ویں ترمیم کی اس شق نے پاﺅں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں‘ جس کے مطابق رکن قومی‘ صوبائی اسمبلی یا سینٹ کا پارٹی سربراہ کی خواہش کے برعکس کھانسنا بھی جرم ہے جس کی پاداش میں سینٹری اور جینٹری وغیرہ جاتی رہتی ہے۔ نگران حکومت کے قیام سے قبل بھی کئی اتحادی ڈوبتے جہاز سے چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ گو انتخابات ایک آزاد اور غیرجانبدار نگران سیٹ اپ کی موجودگی میں ہونگے تاہم ان نگرانوں کے اوپر آصف علی زرداری صدر کی حیثیت سے بدستور موجود ہونگے۔ انکی مفاہمانہ سیاست کا تو ایک زمانہ قائل ہے۔ وہ اپنے آج کے اتحادیوں کو چالیس سال تک اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ وہ اپنے صدارتی اختیارات اور جادو کی چھڑی سے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر الیکشن میں جانے کی کوشش کرینگے۔ اس میں انکی کامیابی کے کسی کے نزدیک امکانات و توقعات اور کسی کے قریب خدشات موجود ہیں۔ سیاسی یتیم ق لیگ کے سر پر زرداری صاحب نے دست شفقت رکھا تو یہ دام کھرے کرتے ہوئے ان کی غلام بن گئی۔ وہ پی پی پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکی ہے۔ اب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے مرحلے میں قدم رکھ دیا ہے۔ پی پی پی اور ق لیگ مل کر الیکشن لڑتی ہیں تو یقیناً ایک مضبوط اتحاد ہو گا۔ ق لیگ کی بقا پی پی یا ن لیگ کے ساتھ اتحاد میں ہی ہے۔ اگر تنِ تنہا الیکشن لڑتی ہے توع
بیرونِ دریا کچھ نہیں
اے این پی اور ایم کیو ایم بھی بدستور زرداری صاحب کی اتحاد کشتی میں سوار رہتے ہیں تو یہ اتحاد مزید مضبوط ہو گا۔ 
عمران خان سولوفلائٹ کےلئے پرعزم ہیں‘ البتہ جماعت اسلامی جیسی پارٹیاں اگر انکے ساتھ ملنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں تو تحریک انصاف کےلئے یہ قابل قبول ہوں گی۔ عمران خان اور انکے ساتھیوں کو یقین ہے کہ وہ کلین سویپ کرینگے‘ یہی زعم ان کو لندن سے شیروانیاں سلوانے اور حلف برداری کے نظارے دکھا رہا ہے۔ وہ ایک گیند پر دو وکٹیں گرانے کے دعویدار ہیں‘ ان کو تین ساڑھے تین کروڑ نئے ووٹرز پر بھروسہ ہے کہ یہ ان کا ساتھ دینگے‘ ان ووٹرز میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ تحریک انصاف میں دیگر بڑی پارٹیوں سے آنیوالے لوگ اور چند تجزیہ کار ایسی پھوک بھر رہے ہیں کہ اسکی قیادت کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں۔ عمران خاں نے ابھی ابھی عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید سے ہاتھ ملایا ہے 13 اگست کو ان کے جلسے میں اپنی آمد کا شرف بخشنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ میاں صاحب کو شیخ رشید کسی وجہ سے اب قابل قبول نہیں تھا۔
پی پی پی اتحادی اور تحریک انصاف اپنے اپنے طور پر خود کو اگلے الیکشن کے فاتح سمجھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن بھی دعویداری میں ان سے کم نہیں۔ لیکن بادی النظر میں آج کی صورتحال کے پیش نظر اگلے الیکشن میں مسلم لیگ ن خسارے میں نظر آتی ہے۔ کسی بھی پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے اندر انتشار واضح ہے۔ مسلم لیگ ن میں دیگر پارٹیوں سے آنیوالے لوگوں کی آمد پارٹی کے نقطہ نظر سے حوصلہ افزا ہے لیکن جو جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں‘ وہ بڑی بربادی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ن لیگ نے اپنے دروازے ہر کسی پر کھول دیئے لیکن اگر مگر اور تاہم نے اس فیصلے کو بے ثمر کر دیا ہے۔ جاوید ہاشمی کے پارٹی بدلنے سے جتنی تحریک انصاف مضبوط ہوئی‘ اتنی ہی ن لیگ کمزور بھی ہوئی۔ اب سردار ذوالفقار علی کھوسہ اور انکے صاحبزادے ناراض ہیں‘ میاں نواز شریف نے گجرات میں پیدا ہونیوالے پارٹی نفاق کو اتفاق میں بدل دیا جبکہ ایسی کاوش کھوسہ صاحبان کےلئے نہیں کی گئی بلکہ ن لیگ کے بے لگام مشیروں کی بدزبانی اور بے تدبیری نے سردار صاحبان کو پارٹی سے مزید دور کر دیا۔ یہ ایسے ہی مشیروں کی بدتدبیریوں کا شاخسانہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو باہم دست و گریباں کرکے ایک تماشا لگا دیا جس کا پورا جگ تماشائی ہے۔ اس تماشے کے پیچھے بھی ایک باقاعدہ پلاننگ ہے جسے تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں کی قیادت سمجھنے سے قاصر ہے یا اپنے اپنے طاقتور ہونے کے زعم میں سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کی سر پھٹول دیکھ کر شہد بھری انگلی لگانے والے اسلام آباد کے ایوانوں کی دیوار سے جھانک کر قہقہے لگا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکمت عملی سے بظاہر آدھا الیکشن تو جیت لیا ہے‘ باقی کسر الیکشن کے روز پوری ہو جائے گی۔ کیپٹن صفدر‘ امیر مقام اور صابر شاہ و مہتاب عباسی کے معاملے کا پارٹی قیادت نے نوٹس ضرور لیا لیکن ایسے واقعات سے جو معمول بن چکے کارکنوں میں مایوسی پھیلتی ہے۔ جس سے لامحالہ پارٹی کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ ن لیگ میں انتشار اور اسکی تحریک انصاف سے دھینگا مشتی جونہی جاری رہی تو یہ دونوں پارٹیاں اگلے پانچ سال پی پی اور اسکے اتحادیوں کو حکمرانی کرتے ہوئے حسرت بھری نظروں سے دیکھتی رہیں گی۔ الیکشن میں کچھ کمانا ہے تو مسلم لیگ ن اپنا گھر مضبوط کرے۔ اندرونی نفاق کو اتفاق میں بدلنے کیلئے کوئی پتھر بھی بے الٹا نہ چھوڑے۔ مسلم لیگ ن کے ہر کسی پر دروازے بغیر کسی ”اگر‘ مگر البتہ اور تاہم“ کے کھول دے‘ ق لیگ کو ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔ پیر پگارا نے کہا ہے کہ آئندہ وزیراعظم متحدہ مسلم لیگ کا ہو گا۔ اس خواب اور خواہش کو مسلم لیگ ن‘ مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرکے عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔ بشرطیکہ پیر صاحب پگاڑا کو بھی قابل قبول ہو!
کسی بھی پارٹی کو اپنی مرضی کی سیاست کرنے اور اپنا اتحادی بنانے یا خود اتحادی بننے کا حق حاصل ہے۔ تاہم حقائق کو نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں۔ عمران خان ہوائی شہرت اور کاغذی مقبولیت کے پہاڑ سے نیچے اتریں‘ آج ملک کو دو پارٹی سسٹم کی طرف لے جانے کا بہترین موقع ہے۔ وہ اس کا تعین کریں کہ دو پارٹی سسٹم کی کارفرمائی میں ان کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ سردست ان کو الزامات اور جوابی الزامات کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہو گی۔ اسکے بعد فیصلہ کریں کہ ان کا فطری اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں سے کس کے ساتھ بنتا ہے اور یہ ملک و قوم کے لئے کتنا سود مند ہو سکتا ہے۔

Wednesday, August 8, 2012

اَبا جی خدا کے حضور


بدھ ,08 اگست ,2012
   
اَبا جی خدا کے حضور
  فضل حسین اعوان
 

میرے قبلہ و کعبہ 91سال کی عمر میں خدا کے حضور پیش ہو گئے۔ یہ 13 رمضان المبارک 1433ھ 2اگست2012ءجمعة المبارک کی سعد گھڑی تھی۔ والدہ کا چار سال قبل 19رجب المرجب بمطابق 23جولائی2008ءکو انتقال ہوا تھا۔ والدہ کی محرومی بجا طور پر محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے میں نے لاہور سے اپنے گاﺅں جانے کا سلسلہ پہلے سے تیز کر دیا تھا۔ والد اور والدہ کے پیار کرنے کا الگ الگ طریقہ تھا۔ میں گاﺅں جاتا واپسی کے لیے اٹھتا تو امی مزید رکنے پر اصرار کرتی تھیں میں واپسی پر بضد رہتا تو ہاتھ جوڑ دیتیں جو پاﺅں کی زنجیر بن جاتے۔ اس کا میں نے یہ حل نکالا کہ ایک روز بعد آنا ہوتا تو میں کہہ دیتا آج ہی جانا ہے وہ کہتیں آج نہیں جانے دوں گی۔یہ ڈرامہ بازی عظیم ہستی کو خوش کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔ اباجی سے جب بھی اجازت مانگی انہوں نے سر پردست شفقت رکھ دیا؟
میرے دادا کا میرے والد کی پیدائش سے قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔ والد صاحب کی پیدائش 1921ءکی ہے وہ فوج میں جولائی 1940ءکو بھرتی ہوئے۔ 17نومبر 1946ءکو عالمی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ اس روز شام ڈھلے وہ میدان جنگ میں تھے کہ دشمن نے مورچے سے عین سینے کا نشانہ لے کر فائر داغ دیا گولی دائیں پھیپھڑے کو چیرتی ہوئی جسم کے پار ہو گئی۔ اس دور میں جدید طب کے فقدان کے باوجود خدا نے ان کو زندگی بخش دی۔ 65ءکی جنگ میں بھی حصہ لیا، جالندھر کے قریب ملکو ترال گاﺅں سے ہجرت کرکے گاﺅں بندے کی جاگیر تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ میں سکونت اختیار کی۔ ہجرت کی صعوبتیں اپنی جگہ تاہم یہ قافلہ راستے میں لٹنے اور کسی قسم کی قتل و غارت سے محفوظ رہا۔ ابا جی کے لواحقین میں ہم پانچ بھائی ہیں۔ انتقال کے وقت ان کے خاندان کی بہو بیٹے پوتے اور پڑپوتوں سمیت تعداد چالیس ہے۔ وہ 1946ءمیں سینہ چھلنی ہونے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ خدا نے مجھے یہ گلشن و گلستان دیکھنے کے لئے زندہ رکھا۔      میں نے ہوش سنبھالا تو وہ باریش تھے۔ تہجد گزار اور باجماعت نماز کا اہتمام کرتے درود پاک خصوصاً درود تاج کا ورد کثرت سے کرتے تھے۔ سورہ یٰسین روزانہ پڑھتے، ان کی حضور سے محبت، عقیدت اور احترام کے باعث میںان کو عاشق رسول سمجھتا ہوں۔میں ان کے پاس بیٹھا ہوتا یا کوئی اور وہ تبلیغ یا کوئی نصیحت ضرور کرتے تھے۔ اپنے والدین کے ایصال ثواب کے لیے خیرات کرتے، چاولوں کی دو دیگیں محرم اور دو رمضان المبارک کو دیتے تھے۔ گھر کے تمام فیصلے وہی کرتے تھے۔ ایک بار نماز کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ والدین کی روحیں ایصال کئے گئے ثواب سے مطمئن ہوتی ہیں جن کے لیے دنیا میں کوئی ایصال ثواب کے لیے نہیں ہوتا ان کی روحیں عام مسلمانوں کے ایصال کئے گئے ثواب کو چنتی ہیں۔ ایک شخص آرام سے بیٹھا یہ منظر دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن وہ بھی عام مسلمانوں کی دعاﺅں کے ثواب کو چن رہا تھا۔ کسی دوسرے نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا آج میرا بیٹا مر گیا وہ مجھے کلام پڑھ کر بخشا کرتا تھا۔
مجھے دفتر میں والد صاحب کی طبیعت بگڑنے کی اطلاع ہوئی۔ میں نے گھر والوں کو تیاری کا کہا۔ گھر سے تقریباً 6بجے روانہ ہوئے افطار کا سامان ساتھ رکھ لیا۔ ہم جلدی اس لئے جا رہے تھے کہ اباجی کو مل کر رات گیارہ بارہ بجے واپس آ جائیں گے۔ رات آٹھ بجے افطاری کے ایک گھنٹہ بعد گھر کے باہر ہی تھے کہ رونے کی آوازوں نے سکتہ طاری کر دیا۔ گویا عزرائیل ہم سے زیادہ جلدی میں تھا۔ یہ شدید حبس کا موسم تھا۔ بجلی چار گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لئے آتی تھی جو سات بجے گئی جسے 11بجے آنا تھا۔ خدا کی قدرت کہ 2اگست کو حبس میں پہلے جیسی شدت اور موسم میں حدت نہیں تھی۔ اگلے روز سپرد خاک کیا تو ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ وہ اسلامی احکام کی جس طرح بجا آوری کرتے مجھے ان میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی ایک جھلک نظر آتی تھی۔ والد صاحب کسی بڑی جائیداد کے مالک نہیں تھے البتہ جو بھی تھی وہ ان کے نام تھی۔ چند سال قبل اس میں سے چند مرلے مسجد کے امام کی رہائش کے لئے وقف کر دیئے جس میں آج امام صاحب رہائش پذیر ہیں۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان کی صحت قابل رشک تھی۔ پوری زندگی ناشتے میں دہی کی پیالی اور رات کو کھانے کے بعد دودھ کا گلاس ان کی خوراک کے لازم جزو تھے۔ وہ اس کو اپنی مثالی صحت کا راز قرار دیتے تھے۔ وہ کسی مرض میں مبتلا نہیں تھے۔ وفات سے پندرہ بیس روز قبل علیل ہوئے تاہم محتاجی ایک دن بھی نہیں رہی۔ انتقال کے دن بھی صبح باتھ روم جا کر خود ہی غسل کیا.... اس دنیا سے آخر ہر کسی نے اٹھ جانا ہے۔ بزرگ اٹھتے ہیں تو سر سے سائبان اٹھ جاتا ہے، دعاﺅں کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ والدین کے انتقال کے بعد ان کے لئے ہماری دعائیں ہی ہماری ان کے ساتھ محبت عقیدت و احترام کا اظہار اور یہی دعائیں ان کا اثاثہ ہیں۔
میری خواہش اور دعا ہے کہ مذہبی حوالے سے میں ابا جی جیسا بن جاﺅں۔ وہ جس دن فوت ہوئے اس دن کے بعد سے میری بے قراری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خدا ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے اور ہم لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ جن احباب نے فونز‘ میسجز، ای میلز کے ذریعے گھر اور دفتر تشریف لا کر حوصلہ دیا اور مغفرت کے لئے دعا کی، میں ان کا شکر گزار ہوں۔

Saturday, August 4, 2012

”الیکشن نہیں تبدیلی؟“


”الیکشن نہیں تبدیلی؟“

02 اگست 2012 0  

میڈیا کسی دور کا ہو اور وہ جس شکل میں بھی ہو‘ اسکی خاص اہمیت اور کردار رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں میڈیا کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے اور وہ کسی بھی موضوع‘ معاشرے‘ ادارے اور شعبے میں چار چاند لگانے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آج میڈیا پر شدید تنقید کی جاتی ہے‘ اس میں میڈیا کا قصور نہیں‘ اگر کوئی برائی ہے تو اسکے استعمال اور اس کو استعمال کرنے والوں میں ہے۔ میڈیا کے مثبت کردار کے باعث آپ نے حکومتوں کو اپنی پالیسیاں بدلتے اور رائے عامہ کو ہموار و استوار ہوتے دیکھا ہے۔ منفی کردار سے کئی برائیاں جنم لیتی ہیں‘ معاملات بگڑتے ہیں۔ عوامی رائے میں کرب اور اشتعال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب نان ایشوز کو ایشوز بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے اپنے مسائل اور ایشوز کیا کم ہیں لیکن بحث ہو رہی ہوتی ہے ویناملک اور میرا کی بھارت میں گل کاریوں کی۔ ان معاملات پر علمائے کرام کو بھی بحث میں مبتلا اور بے عزت ہوتے دیکھا گیا۔ میڈیا کی عمومی رسوائی کی وجہ میڈیا کی باگ ڈور ناتجربہ کار مالکان اور پھر معاملات نوآموز اینکرز کے ہاتھ میں آجانا ہے۔ ان اینکرز کے پروگرامز میں ہلہ‘ گلا‘ گالم گلوچ اور دھینگا مشتی کے مناظر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اینکر نے شیطان کی طرح انگلی لگائی اور مہمانوں کو ایک دوسرے پر لپکنے اور جھپٹنے کیلئے چھوڑ دیا۔ یہ اینکرز خود اگر کسی پروگرام میں مل بیٹھیں تو سماں ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انکے پروگراموں میں۔ کوئی دوسرے کی نہیں سُنتا‘ اپنی اپنی کہے جا رہا ہوتا ہے۔ یہ اینکرز کی کم علمی‘ ناتجربہ کاری‘ جہالت اور کم عقلی کا نتیجہ ہے جسے وہ اپنی کامیابی گردانتے ہیں‘ ایسے اینکرز کے پروگرام سنجیدہ قارئین کیلئے اذیت ناک بنتے ہیں تو وہ پروگرام کیا چینل دیکھنے سے بھی تائب ہو جاتے ہیں۔ اپنے پروگرام کو کامیابی کی دلیل سمجھنے میں اینکرز کی معصومیت اور بھولپن کا بھی دخل ہے۔ ہمارے معاشرے میں منافقت بھی در آئی ہے۔ آپ نے جیسا بھی کالم لکھ دیا اور ٹی وی پر جو بھی کہہ دیا‘ آپ کے ساتھی اسے بوجوہ شاندار‘ بے مثال‘ اعلیٰ و عمدہ ترین قرار دینگے۔ آپکے سامنے تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے بیوقوف بنائیں گے اور پیٹھ پیچھے مذاق اڑائیں گے۔ معاشرتی رویے کے مدنظر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ساتھیوں اور واقف کاروں میں دل سے آپکی صلاحیت کو سراہنے والوں کی تعداد ایک فیصد سے زیادہ نہیں‘ باقی سب منافقت ہے۔ اصل فیڈ بیک وہ ہے جو غیرجانبدار لوگوں کی طرف سے آتی ہے، جن کا آپ سے کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ پروگراموں کے دوران ہونیوالی دھینگا مشتی کو کتنے لوگ سراہتے ہیں؟ پھر یہ بھی جاری ہیں کیونکہ ساتھی اور خوشامدی ہلہ شیری دیتے ہیں،99 فیصد محض آپکو خوش رکھنے کیلئے تعریف کرتے ہیں اور اس کا تسلسل ٹوٹنے نہیں دیتے۔ جب تک میڈیا میں حادثاتی اور کمالاتی طور پر آنیوالے موجود ہیں میڈیا کی بدنامی جاری رہے گی۔ تاآنکہ وہ پروفیشنل بن جائیں۔ ان لوگوں کا پروفیشنل کہاں تک ممکن ہے جنہوں نے اپنے کاروبار کو تحفظ دینے اور مفادات کو مزید بڑھانے کے لئے میڈیا سنٹر کھول رکھے ہیں گویا یونہی امن کی آشا کا تماشا لگا رہے گا‘ معاشرہ گمراہی کی منزل کو حق و صداقت کی منزل سمجھ کر اسکی طرف گامزن رہے گا‘ البتہ قلیل ہی سہی‘ ایسے میڈیا گروپس بھی موجود ہیں‘ سچائی جن کا اوڑھنا بچھونا ہے جو معاشرے کی بُرائیوں‘ سیاست کے ناسُوروں پر نشتر زنی کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا کی آبرو انکے ہی دم قدم سے ہے۔ اینکرز میں بھی کچھ سمجھدار ہیں جو ریٹنگ کے چکر میں پڑے بغیر اپنا کام کرتے ہیں۔ ان کے شاباش
آج میڈیا اس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ اسکی حدود کا تعین ممکن نہیں‘ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ میڈیا حدود سے باہر ہو چکا ہے‘ کسی حد تک ایسا ہے جو فی الوقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ وسیع تر میڈیا سے مُراد خبروں اور اطلاعات کےلئے روایتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو ہے ہی اب غیر روایتی ”خودرو“ سوشل میڈیا بڑا فعال ہے۔ اس میں ویب سائٹس ‘ ای میل‘ فیس بک ‘ ٹوئٹر اور سکائپ وغیرہ ہیں۔ موبائل فونز بھی آج رائے عامہ کے سلجھانے یا بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میسجز کے ذریعے خیراور شر کو اپنی مرضی سے پھیلایا جا رہا ہے۔ موبائل پیغامات کے ذریعے اچھے یا بُرے مقاصد روایتی میڈیا کے مقابلے میں کہیں بڑھ کر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ موبائل میڈیا کو نیک مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کیلئے ایک کاوشِ مسلسل کی ضرورت ہے۔ غیر روایتی میڈیا نے اپنی حیثیت برما میں مسلمانوں پر بدھوں‘ بدھ فوج اور پولیس کے مظالم پوری دنیا پر آشکار کرکے منا لی ہے۔ آج ایک اور تحریک سوشل میڈیا پر شروع ہوئی ہے ”ہمیں الیکشن نہیں‘ تبدیلی چاہیے“ یہ خطرناک تحریک ہے جو ہمارے سیاست دانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر یہ روایتی میڈیا میں بھی آ گئی تو اس کی پذیرائی یقینی ہے پر بہت کچھ ہو سکتا ہے جو طالع آزماﺅں کیلئے تو خوشگوار ہو گا لیکن مروجہ جمہوریت اور جمہوریت دانوں کے لئے نہیں۔ غیر روایتی میڈیا پر اس جمہور دشمن تحریک کا مقابلہ کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ !

Wednesday, August 1, 2012

سعودی حکمران بند گلی میں؟



     
سعودی حکمران بند گلی میں؟ 











کالم نگار  |  فضل حسین اعوان




29 جولائی 2012 1  

آل سعود ’سعودی عرب کا شاہی خاندان ہے‘ جدید مملکت سعودی عرب کی بنیاد 1932ءمیں پڑی۔ اسکے بانی عبدالعزیز بن سعود تھے۔ موجودہ خاندان سعود تقریباً 25 ہزار ارکان پر مشتمل ہے۔ جن میں شہزادوں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ سعود خاندان کے بادشاہوں نے اس ترتیب کے ساتھ اپنے سر پر تاج سجایا۔ عبدالعزیز بن سعود‘ سعود بن عبدالعزیز‘ فیصل بن عبدالعزیز‘ خالد بن عبدالعزیز‘ فہد بن عبدالعزیز‘ عبداللہ بن عبدالعزیز۔ 60 سال میں چھ بادشاہ‘ ان میں سے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اول الذکر عبدالعزیز دیگر کے والد گرامی ہیں‘ امریکی جریدے اکانومسٹ نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا کہ عبدالعزیز کے تین درجن بیٹوں میں سے سب سے چھوٹے بیٹے مقرن کی عمر ستر سال کے قریب ہے۔ ان پر دو مرتبہ دل کا حملہ ہو چکا ہے‘ جن کے بارہ میں سے دو بیٹے اسی بیماری سے اپنی جاں‘ جانِ آفرین کے سپرد کر چکے ہیں۔ موجودہ بادشاہ‘ شاہ عبداللہ کی عمر 89 سال اور وہ کمر کی شدید درد میں مبتلا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ولی عہد شہزادہ سلطان علالت کے باعث انتقال کر گئے‘ انکی عمر 80 سال سے زائد تھی۔ آج کے ولی عہد شہزادہ نائف بھی 80 سال کے ہونے والے ہیں‘ دی اکانومسٹ نے مزید لکھا کہ بادشاہت جب تک ہے‘ سعود خاندان میں ہی رہے گی اور شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں پر اس کا پہلا حق ہے۔ جن میں سے ہر کوئی 70 سال سے زائد عمر کا ہے اور اکثر کسی نہ کسی بیماری کے شکار ہیں۔ دی اکانومسٹ کی رپورٹ غیرجانبدارانہ ہے یا تعصب پر مبنی‘ بہرحال سربراہ مملکت کی عمر رسیدگی اور بیماری سے ضروری نہیں ہے کہ ریاست بھی بیمار ہو جائے۔ ریاست کو بیماری نوجوان اورصحت مند قیادت کی موجودگی میں بھی لگ سکتی ہے۔ ریاست کی ترقی و خوشحالی کا مکمل دارومدار لیڈر شپ کی اہلیت‘ قابلیت اور اسکی نیک نیتی پر ہوتا ہے۔ جب تک قیادت نئے نظریات تخلیق کرکے ان پر زمانے کی جدت اور عصری تقاضوں کے مطابق عمل پیرا رہتی ہے ترقی و خوشحالی کے مزید در کھلنے کے ساتھ ریاست اندرونی و بیرونی خطرات سے بھی محفوظ رہتی ہے۔ 
آج کے جدید دور میں سعودی عرب کو اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے‘ دونوں محاذوں پر مخصوص حالات کے باعث ماحول سازگار نہیں‘ دوسری صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی ریاست یا بادشاہت کےخلاف دو سطحوں پر سازشیں ہو رہی ہیں۔ تاہم دونوں سطحوں پر ایک بے چینی بھی موجود ہے‘ جسے سازش کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ سعودی عرب اور اسکے حکمران‘ دونوں کا دیگر ممالک اور انکے حکمرانوں کے مقابلے میں ایک بہت بڑا امتیاز ہے۔ سعودی عرب ،خانہ خدا اور مسکن نبوی ہونے کے باعث مسلمانوں کیلئے عزیز ازصد جان ہے۔ یقیناً انکے ظاہری پاسباں اور نگہباں انکی حفاظت‘ ادب اور احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ اس لئے ان کو بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا مسلمان بڑی عزت اور احترام سے دیکھتا ہے۔ گویا سرزمین حجاز کے حکمرانوں کو مسلمان اپنے دل کے قریب سمجھے جاتے‘ اس لئے ان پر لازم ہے کہ اپنی پالیسیوں خصوصی طور پر خارجہ پالیسی کے باعث کسی مسلمان کے آئینہ دل پر بال نہ آنے دیں۔ 
آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے جس میں ہر ملک کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ خصوصی طور پر وسائل سے بھرپور اور ترقی یافتہ ممالک کی‘ سعودی عرب بھی ان میں سے ایک ہے‘ اسے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیتے وقت اپنی خصوصی حیثیت و مقام کے باعث دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک کی انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلمانوں کے حوالے سے ایک پرخاش انکی پالیسیوں اور اقدامات سے واضح ہو جاتی ہے۔ افغانستان‘ عراق پر حملہ‘ پاکستان میں ڈرونز کے ذریعے ہلاکتیں‘ لیبیا کی تاراجی اور اب شام پر بھی ایسی ہی یلغار کی تیاری‘ مغرب کی اسلام دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ تیونس‘ مصر اور یمن کے مغرب نواز حکمرانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اس پر امریکہ اور اسکے ساتھیوں کی خاموشی بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاید ان کا بھی طویل عرصہ سے اقتدار میں موجود حکمرانوں سے دل بھر چکا تھا۔ سعودی عرب میں تو سعود خاندان 1932ءسے تخت پر موجود ہے جس کا تختہ کرنے کی ایسی ہی کوشش ہو رہی ہے۔ جیسی مصر‘ تیونس اور یمن میں ہوئی۔ عالم اسلام میں سعودی ریاست اور اسکے حکمرانوں کے خصوصی مقام اور احترام کے باعث ایسا کرنا چونکہ آسان نہیں ہے اس لئے اپنے عزائم کو عمل کی صورت دینے کیلئے بھی خصوصی اہتمام کیا گیانظر آتا ہے۔ آج سعودی حکمران مغرب خصوصاً امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال 2011ءمیں سعودی عرب نے امریکہ سے ساٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا‘ سعودیہ کی خارجہ پالیسی پر بھی امریکہ کے اثرات واضح ہیں‘ شام اور بحرین میں سعودی عرب اور امریکہ کی پالیسی ایک جیسی ہے۔ ایران کے حوالے سے بھی کوئی واضح تضاد نہیں ہے۔ سعودی عرب کو ایرانی‘ شامی اور بحرینی عوام کے سامنے متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ آج ان ممالک میں سعودی عرب کو چاہنے اور نہ چاہنے والے دو گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ تعداد کسی بھی گروہ کی کم زیادہ ہو سکتی ہے ۔دیگر تمام اسلامی ممالک میں بھی سعودی پالیسیوں کو اسکی ایران‘ شام اور بحرین کے حوالے سے پالیسی یا اقدامات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ گویا سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اکثر اسلامی ممالک کے لوگوں میں ایک بے چینی سی پائی جاتی ہے۔ خواہ ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہو۔ سعودی حکمران اپنے مقام اور احترام کے باعث ایسی کسی سوچ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ 
اندرونی طور پر آپکی پالیسیاں اور گورننس جس قدر بھی شفاف ہو‘ باہر سے نقصان پہنچانے والے اپنی ”کارگزاری “دکھا گزرتے ہیں۔ جدید دور میں میڈیا پر قدغنوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انٹرنیٹ کی سکرین پر پوری دنیا سکڑ کر سما گئی ہے۔ دنیا میں اگر کہیں عملی طور پر اسلام کا مکمل یا کسی حد تک نفاذ نظر آتا ہے تو وہ واحد مملکت سعودیہ ہے۔ اب جدید میڈیا کے ذریعے مغرب کہہ لیں یابیرونی عوامل‘ ایک خاص سوچ کے تحت اسلام پر کاربند معاشرے کی سوچ کو اپنی سوچ میں ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے نوجوان نسل میں گمراہی کے جراثیم کسی حد تک سرایت کرتے ہیں تو آزادی کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ خواتین ڈرائیونگ‘ ذاتی بزنس‘ بیرونی ممالک کے دوروں کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔ کسی کو شخصی آزادی اور کسی کو جمہوریت کا تاپ چڑھا ہواہے۔ وہ ہمارے ہاں سے جمہوریت مستعار لے کر جمہوریت کا حسن دیکھ لیں۔ 
سعودی حکمرانوں نے جدید تقاضوں کو محسوس ضرور کیا ہے اس کیلئے جو اقدامات کئے ہیں‘ اس پر بھی اندرون ملک اور بیرون ممالک ایک تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک طبقہ خواتین کو وہ آزادی دینے کے حق میں نہیں جس کا مطالبہ اندرون ملک ایک مٹھی بھر خواتین پر مشتمل گروہ کرتا ہے۔ اکثر مسلمان چونکہ سعودی نظام اسلام کو آئیڈیل سمجھتے ہیں‘ وہ بھی خواتین سمیت ہر مسلمان کیلئے قائم اسلامی حدود کو لازم قرار دیتے ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ‘ بزنس‘ بیرونی ممالک دوروں اور عالمی کھیلوں میں شرکت کی اجازت‘ ان کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ سعودی حکمرانوں کے خلاف ہونیوالی سازشوں کو سمجھنے کیلئے عالمی میڈیا میںپھیلائی جانیوالی افواہوں کا اندازہ ذیل کی رپورٹس سے لگایاجاسکتا ہے۔ امریکہ کی بیرونی تعلقات کونسل( Foreign Relations Council ) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے سعودی عرب کی کل آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور بقول اس ادارے کے ، شیعہ مسلمانوں کا تناسب 15فیصد ہے اور اس حساب سے اس ملک میں شیعہ آبادی چالیس لاکھ افراد کے لگ بھگ ہے جو کویت،قطر،بحرین اور امارات کی مقامی عرب آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔
     
سعودی حکمران بند گلی میں؟
01 اگست 2012 0  

 یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ولی عہد شہزادہ سلطان امریکہ کے ایک ہسپتال میں 87سال کی عمر میں انتقال کرگئے ان کی جگہ شہزادہ نائف کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا وہ علاج کی غرض سے سوئٹزرلینڈ میں تھے کہ 16جون 2012کو چل بسے ان کی جگہ سلمان بن عبدالعزیز نے لے لی جو شاہ عبداللہ سے دس سال چھوٹے ہیں ان کو دو مرتبہ سٹروک ہوا جبکہ ان کے بارہ میں سے دو بیٹے دل کے عارضہ کے باعث فوت ہوچکے ہیں۔سعودی حکمرانوں کے خلاف ہونیوالی سازشوں کو سمجھنے کیلئے عالمی میڈیا میںپھیلائی جانیوالی افواہوں کا اندازہ ذیل کی رپورٹس سے لگایاجاسکتا ہے۔ امریکی کی بیرونی تعلقات کونسل( Foreign Relations Council ) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے سعودی عرب کی کل آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور بقول اس ادارے کے ، شیعہ مسلمانوں کا تناسب 15فیصد ہے اور اس حساب سے اس ملک میں شیعہ آبادی چالیس لاکھ افراد کے لگ بھگ ہے جو کویت،قطر،بحرین اور امارات کی مقامی عرب آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔
 ادھر ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں زوردے کرکہا کہ سعودی عرب کی شیعہ آبادی کو بے روزگاری کی وجہ سے سخت دشواریوں کا سامنا ہے اور آل سعود کا امتیازی سلوک یہاں تک ہے کہ کوئی مقامی شیعہ باشندہ فوجی اکیڈمیوں کے قریب جانے کا مجا ز تک ہیں۔دوسری طرف ” بزنس ویک“ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکیوں اور امتیاز طرہ سلوک کی بنا پر کوئی شیعہ باشندہ جج نہیں بن سکتا اور سرکاری یا فوجی اداروں میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔
 عربی سعودی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں 2011کا بجٹ سرپلس تقریباً 49ارب ڈالر رہا جو اس ملک کی جی ڈی پی کا 9.1حصہ بنتا ہے لیکن اس کے باوجود معتبر بین الاقوامی جریدے ”اکانومسٹ“ نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں بیروزگاری کی شرح بدستور35فیصد ہے گو کہ آل سعود کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس ملک میں بیروزگاری کی شرح10.6فیصد ہے!۔ امریکہ کی جارج ٹاﺅن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی 22فیصد آبادی غربت و افلاس کا شکار ہے اور جریدہ ” ٹائم“ کے مطابق ہر سات سعودیوں میں سے ایک ” پڑھنا لکھنا نہیں جانتا یعنی ملک کی 14.28فیصد آبادی ناخواندہ ہے “۔
ہوسکتا ہے ان رپورٹس میں کوئی حقیقت بھی ہو۔دونوں صورت میں سعودی حکام کو ان کا تدارک کرناچاہئے۔مغربی میڈیا کی ایسی رپورٹس کو بڑھا چڑھا کر چند اسلامی ممالک بڑے زور شور اور اہتمام کے ساتھ پھیلائی جارہے ہیں۔وجہ اس کی بھی وہی، امریکہ کے زیر اثر سعودی پالیسیاں ہیں۔ ملک کے تمام اہم عہدے سعود خاندان کے پاس ہیں۔یوں سمجھئے کہ گورننس پر شاہی خاندان کی مکمل گرفت ہے اور شاید سعودی شہری نفسیاتی طورپر شاہی خاندان کی حکومت پر مضبوط گرفت سے مرعوب بھی ہیں اسی تناظر میں دی اکانومسٹ نے اپنے ایک آرٹیکل The long day closes میں جو لکھا وہ سعودی حکمرانوں اور شہریوں کیلئے ایک پیغام ہے۔” السعود تو شائد اپنے آپ کو نئی دنیا کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق ڈھال لیں لیکن ان کے اپنے لوگوں میں سے بہت سے اس حوالے سے مشکوک و شہبات کا شکارہیں۔ جدہ کے ایک وکیل نے اپنے آراستہ اور جھنڈیوں سے سجے دفتر میں بیٹھے ایک قرآنی آیت کے حوالے سے حضرت سلمان علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جن ان کے تابع تھے جن کو انہوں نے عبادت گاہوں اور تالابوں کی تعمیر پر لگا رکھا تھا۔جن محنت مشقت کرتے اور وہ اپنے عصا سے ٹیک لگائے کھڑے دیکھتے رہتے تاوقتیکہ دیمک لگنے سے عصا ٹوٹ گیا اور وہ گر پڑے، تب جنوں کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔حضرت سلمان علیہ السلام تو کب کے انتقال کر چکے اور وہ ان کو زندہ سمجھ کر کام میں جُتے رہے۔آج سعودی عرب میں حکمرانوں کیخلاف ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ مظاہرے کر رہے ہیں‘ وہ بھی کسی بیرونی طاقت کے اشارے کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ گویا آج سعودی حکمران ایک بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں‘ اس سے سرخرو ہونے کیلئے 1932ءکے بعد کسی بھی دور سے زیادہ حکمت‘ دانش اور اہلیت و قابلیت اور اس کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔         (ختم شد)