About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, August 17, 2012

What If Pakistan And India Could Unite ?


جمعہ ,17 اگست ,2012

     
What  If  Pakistan  And  India  Could  Unite ?

فضل حسین اعوان
 ہندو لیڈر شپ نے اکھنڈ بھارت کی بنیاد تقسیم ہند کے ساتھ ہی رکھ دی تھی۔اس کا پہلا پتھر اس نے کشمیر پر قبضے کی صورت میں رکھا پھر اس میں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ مناوادر کی مسلمان ریاستوں پر قبضے سے توسیع ہوتی چلی گئی۔ایک مضبوط پاکستان کی موجودگی میں اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیردینا ناممکن ہے۔ 1971ءمیں مشرقی پاکستان کو الگ کرکے پاکستان کو دولخت کردیا گیا۔ پاکستان ایک بازوکے الگ ہونے سے یقینا کمزور ہوا لیکن جلد ہی ایٹمی قوت بن کر پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوا اور اسکا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوگیا۔1984 میں بھارت کی سیاچن پر جارحیت بھی اکھنڈ بھارت کی خواہش کی تکمیل کی ایک کڑی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک اکھنڈ بھارت کو عملی شکل دینے کے حوالے سے بنیا قیادت کا خبثِ باطن پوشیدہ نہیں رہ پایا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اس کا مذاکرات کی میز پر آنا سراسر منافقت ہے جبکہ اسکی اصل پالیسی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا ہے۔بھارت کی طرف سے کشمیر کو متعدد بار متنازعہ ایشو قرار دیا گیا۔اسے بینظیر بھٹو، نواز شریف ، مشرف اور اسکی پروردہ حکومتوں نے بھارت کی طرف سے کشمیر کو متنازعہ قرار دینے کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے دعوے کئے کہ ہم نے بھارت سے ” پہلی بار“ کشمیر کے متنازعہ ہونے کا اعتراف کرایا ہے۔ بھارت کی نظرمیں وہ علاقے متنازعہ ہیں جو آزاد کشمیر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔دو روز قبل بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے لوک سبھا میں اپنا تحریری بیان داخل کرایا جس میں کہا گیا ہے ” بھارت ہمسایہ ملک کے ساتھ معاملات کو دو طرفہ اور پُر امن طورپر حل کرناچاہتا ہے۔پاکستان کی طرف سے جموں و کشمیر کے علاقوں پر غیر قانونی اور زبردستی قبضے کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ پاکستان کے غیر قانونی اور جبری تسلط میں ہے۔ سیاچن کا علاقہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے “ انتھونی کے اس بیان کے بعد ان لوگوں کو ڈوب مرناچاہئے جو کہتے ہیں کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے کشمیر کا ز پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔بھارت کی کشمیر پر واضح پالیسی یا اسے سیاچن اور آزاد کشمیر سمیت اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کے بعد بھارت کے ساتھ تجارت تعلقات اور دوستی کو فروغ دینے اور امن کی آشا کا راگ الاپنے والے کیا اکھنڈ بھارت کے پکھنڈ میں پکھنڈی بن چکے ہیں؟ یہ سب کچھ نادانستہ نہیں دانستہ ہورہا ہے۔ اگر نادانستہ ہورہا تو بھی ایسا کرنے والوں پر لکھ لعنت ہے جو اقبال اور قائد کے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
 پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے سے بھارت جارحیت کے ذریعے اکھنڈ بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے سے قاصر ہے۔البتہ جو کام وہ جارحیت سے نہیں لے سکتا تھا وہ سازشوں سے لے رہا ہے۔ بلور صاحب جیسے اس کے نمک خوار پاکستان بنگلہ دیش افغانستان اور بھارت پر مشتمل کنفیڈریشن بنانے کی تجویز دیتے رہتے ہیں۔اس سوچ کے پیچھے بھی اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا ہے۔گزشتہ روز پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر رامیش ٹھاکر کا آرٹیکل آن لائن نیوز پیپر The ottawa citizen میں شائع ہوا جو ایک انگریزی معاصر نے لفٹ کرکے یوم آزادی کے دوسرے روز شائع کیا۔
مضمون نگار رامیش ٹھاکر آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی، کینبرا، آسٹریلیا کے کرانورڈ سکول آف پبلک پالیسی کے سنٹر فار نیوکلیئر نان پرولیفریشن اینڈ ڈس آرمامنٹ کا ڈائریکٹر ہے۔ علاوہ ازیں گرفتھ یونیورسٹی، کوئنز لینڈ آسٹریلیا کے انسٹی ٹیوٹ آف ایتھکس، گورننس اینڈ لاءمیں عارضی پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔ رامیش ٹھاکر ٹیپیکل ہندو ہے۔ اس نے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی ترقی، خوشحالی کی پڑی میں لپیٹ کر نئی تجویز پیش کی ہے۔ what if pakistan and india could unite? کے زیر عنوان مضمون میں کہا گیا ہے کہ” پاکستان اور بھارت اپنی آزادی کی سالگرہ 14 اور 15 اگست کو منا رہے ہیں مگرا ن دونوں کی باہمی مخاصمت نے نہ صرف بھارت کا ایک عالمی طاقت بننے کا خواب چکناچور کر دیا ہے بلکہ پاکستان کی عالم اسلام کا ایک درخشاں ستارہ بننے کی خواہش کو بھی ملیامیٹ کر دیا ہے۔ کیا 2047ءمیں بھی ان دونوں ممالک کے تعلقات یونہی سردمہری کا شکار رہیں گے یا پھر یہ اپنے اختلافات کو بھلا کر مشترکہ خوشحالی اور استحکام کےلئے مل جل کر کام کر سکیں گے کیونکہ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر جنوبی ایشیا کے تمام باشندوں کی قسمت کا انحصار ہو گا۔ تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے کیلئے دونوں ممالک میں انتہائی دوراندیش قیادت کا ہونا ضروری ہو گا جو فی الحال کمیاب ہے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی پوزیشن بڑی کمزور اور نازک ہے اور طاقت کے اصل مراکز تین "M" یعنی ملٹری، ملی ٹینٹس اور ملا ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سویلین صدر اور وزیراعظم کو خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سرحد کے دوسری جانب بھارت میں بھی پائی جاتی ہے جہاں حصول آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کا سب سے غیر موثر وزیراعظم منموہن سنگھ براجمان ہے۔ اگر 2047ءتک دونوں ممالک کے اچھے تعلقات میں حائل تمام مشکلات ختم ہو جائیں تو جنوبی ایشیا میں ایک اکنامک یونین وجود میں آ جائے گی اور اقتصادیات کے تمام شعبوں میں بہتری پیدا ہو جائےگی۔ عین ممکن ہے کہ ایک مشترکہ کرنسی وجود میں آ جائے....
جب دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے تو کشمیر میں لائن آف کنٹرول بے معنی ہو جائےگی۔ دونوں مملکتوں کی دفاعی افواج میں خاطر خواہ کمی کر کے انہیں ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر قیام امن اور قدرتی آفات کے دوران امدادی سرگرمیوں کےلئے استعمال کیا جا سکے گا۔ ان سب خوابوں کو تعبیر عطا کرنے کیلئے ہمیں ہمت، حوصلے اور یقین رکھنے والی قیادت درکار ہے۔ “
رامیش کے آرٹیکل کا ایک ایک لفظ اکھنڈ بھارت کی سوچ سے آلودہ اور اس سے تقسیم ہند کی نفی کا تعفن اُٹھ رہا ہے۔افسوس کہ اس آرٹیکل کو اس اخبار نے بڑے اہتمام سے شائع کیا جو تحریک پاکستان کے بہت بڑے کارکن ہی نہیں‘ داعی اور ایم ایس ایف کے بانی صدر کی وراثت کا دعویدار ہے۔
رامیش ٹھاکر کا آرٹیکل خلوص سے خالی اور ایک مخصوص سوچ کا عکاس ہے۔ بھارت کے عالمی طاقت بننے کا خواب اگر دونوں ممالک کی مخاصمت سے چکنا چور ہوا ہے تو اس مخاصمت کا ذمہ دار کون ہے؟۔ خطے میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں اس نے نہ صرف مسلمان ریاستوں پر جارحیت بلکہ ہمالیاتی ریاست سکم میں بادشاہت کا خاتمہ کرکے اس پر بھی قبضہ کیا۔ وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی اختیار کرتا تو عالمی طاقت بنتا یا نہ بنتا البتہ خطہ امن اور خوشحالی کا گہوارہ ضرور ہوتا ۔ 71ءمیں پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی پاکستان عالم اسلام کے آسمان پر درخشندہ ستارہ نہیں بلکہ مہ تاب و آفتاب کی مانند دمک رہا ہے۔ حکمرانوں کی بزدلی آڑے نہ آئی ہوتی تو پاکستان یقیناً عالم اسلام کی قیادت کرتا جس کی خواہش عرب عجم افریقہ و ایشیاءکے ہر مسلمان کے دل میں ہے۔مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان بنیادی اور بڑا تنازع ہے۔ یہ ایشو بھارت نے کھڑا کیا اور اسکے حل میں رکاوٹ بھی وہی ہے۔ 63 سال اس نے مذاکرات کی ڈرامہ بازی میں گزار دیئے۔ بھارتی ہٹ دھرمی اور چالوں کو دیکھتے ہوئے واضح ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر 2047 یعنی تقسیم ہند کے سو سال بعد تو کیا قیامت تک حل نہیں ہو گا۔ البتہ ایٹم بم کا بٹن دبانے سے شاید صدیوں کا فاصلہ چند ساعتوں میں طے ہو جائے۔
مضمون نگار کو زرداری اور منموہن کی کمزور حیثیت نظر آ گئی۔ اسے ان کی دور اندیشی پر بھی شک ہے۔ ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف تو مضبوط حیثیت کے مالک تھے۔ بھٹو صاحب دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں انکے ادوار میں ہی اندرا گاندھی، مرار جی ڈیسائی جیسے حکمران رہے اور سب سے بڑھ کر قائداعظم، لیاقت علی خان اور دوسری طرف جواہر لعل نہرو جیسے مضبوط اور جہاندیدہ حکمران ایک ہی دور میں موجود تھے۔ ان وقتوں میں پاکستان اور بھارت قریب کیوں نہ آئے؟ دونوں ممالک کے درمیان مثالی اور قابل رشک تعلقات قائم کیوں نہ ہوئے؟ اسکی وجہ بھارت کے حکمرانوں کی بنیا سوچ، اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل اور علاقے کا چودھری بننے کا خبط تھا۔ بنیے کی سوچ میں ہنوز کوئی فرق نہیں آیا بلکہ عیاری و مکاری میں پہلے سے دو چار گام آگے بڑھ گیا ہے۔ پاکستان میں ملٹری، ملٹی ٹینٹس اور ملا کو طاقت کا مرکز قرار دینا محض ایک درفنطنی ہے۔ ایسے الفاظ زیب داستان کےلئے استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی ایشو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو بنیے مہاراج کو خواب میں ڈرانے والے طاقت کے یہ مراکز گنگا و جمنا کی موج کی طرح بے ضرر نظر آئینگے۔
پاکستان دو قومی نظریے کے تحت وجود میں آیا۔ پاکستان اسلامی جمہوری فلاحی ریاست ہے۔ بھارت خود کو سیکولرزم کہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تر تنازعات پرامن اور خوش اسلوبی سے طے ہو جائیں پھر بھی دونوں ممالک کا الگ الگ تشخص برقرار رہے گا۔ پاکستان اور بھارت کی صرف سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اسکے سوا کون سی بات مشترک ہے؟۔ نہ تہذیب نہ تمدن نہ کلچر و ثقافت نہ زبان اور مذہب، نہ ہمارے ہیرو سانجھے ہیں نہ ولن مشترک ہیں۔ لہٰذا کوئی یونین بنانے کی ضرورت ہے نہ کنفیڈریشن کی‘ البتہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل ہونے کی صورت میں دونوں ممالک اچھے پڑوسیوں کی طرح ضرور رہ سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے تقسیم سے قبل محمد علی اور رام داس پڑوسی ہو تے تھے۔ کیا رام ،علی کے ساتھ بیٹھ کر ایک برتن میں کھا پی لیتا تھا؟۔ علی پوتر جل پینے اور رام گائے کا گوشت کھانے پر آمادہ تھا؟ ہندو اور مسلم تہذیبوں میں بعد المشرقین ہے یہ فرق کبھی نہیں ختم سکتا ہے‘ اس لئے اِدھر اور اُدھر کے امن کے پجاریوں کی خواہش پر لاکھوں مسلمانوں کے خون سے کھینچی ہوئی لکیر کبھی نہیں مٹ سکتی۔ کبھی نہیں۔ آج جو اعتماد سازی کے اقدامات کے نام پر بوجوہ قربتیں بڑھائی جا رہی ہیں انکی حیثیت مٹی پر کھینچی لکیر اور پانی کے بلبلے سے زیادہ ہرگز نہیں ہے۔ یہ کسی بھی وقت انقلابی سوچ کی جوتوں کی ٹھوکر سے دھول بن جائیں گی۔ دونوں ممالک نے ملنا ہی ہوتا تو لاکھوں جانوں کی قربانی دینے، عزتیں لٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بنیے کے دل میں مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا انتقام جوش میں آتا ہے تو اسے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیریں پہنانے کےلئے کئی تدبیریں سوجھتی ہیں۔ یونین اور کنفیڈریشن کی تجویزیں بھی اسی کی کڑیاں ہیں۔ آج خونیں لکیر کو مٹانے کی نہیں اس پر دیوار تعمیر کر کے اس کو اتنا اونچا کرنے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہمارے ملک میں جاسوس، دہشت گرد اور تخریب کار داخل کرنا تو ایک طرف وہ اس دیوار کے پار جھانک بھی نہ سکے۔ آخر تقسیم ہند کو ہی اَن ڈو کرنے کی خواہش کیوں پائی جاتی ہے؟ گردش ایام کا ماضی کی طرف اس طرح سے لوٹنا ممکن نہیں جس طرح کبھی انگریز راج لوٹ کر نہیں آسکتا۔ اسی طرح تقسیم ہند کی منسو خی اور اکھنڈ بھارت کی سوچ کبھی بھی عملی شکل اختیار نہیں کرسکتی۔
 پاکستان بھی توٹوٹا اس کو جوڑنے کی کوئی کوشش سامنے آتی ہے نہ خواہش، پاکستان ٹوٹنے میں ذوالفقارعلی بھٹو کا نام بھی لیاجاتا ہے۔تاہم مشرقی پاکستان کے بارے میں بھٹو صاحب کی سوچ ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ہونی چاہئے یہ 10اپریل 1973 کا دن ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے دستوز ساز اسمبلی سے آئین کی منظوری کے دن اپنے تاریخی خطاب میں کہا تھا ” وہ وقت ضرور آئےگا جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پھر بھائیوں کی طرح آملیں گے اور اسلا م کی عظمت اور باہمی دوستی کی ایسی یادگار تعمیر کرینگے جو لافانی ہوگی یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے۔
 اسلام کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی ہوکر رہے گی“ اور پھر بھٹو نے ہی پاکستان کی شہ رگ کشمیر کیلئے ہزار سال جنگ لڑنے کی بات کی تھی۔ اب اسکے جانشین بے شک بھارت کے شردھالو بنتے پھریں۔ (پاکستان زندہ باد)

No comments:

Post a Comment