سعودی حکمران بند گلی میں؟
کالم نگار | فضل حسین اعوان
29 جولائی 2012 1
آل سعود ’سعودی عرب کا شاہی خاندان ہے‘ جدید مملکت سعودی عرب کی بنیاد 1932ءمیں پڑی۔ اسکے بانی عبدالعزیز بن سعود تھے۔ موجودہ خاندان سعود تقریباً 25 ہزار ارکان پر مشتمل ہے۔ جن میں شہزادوں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ سعود خاندان کے بادشاہوں نے اس ترتیب کے ساتھ اپنے سر پر تاج سجایا۔ عبدالعزیز بن سعود‘ سعود بن عبدالعزیز‘ فیصل بن عبدالعزیز‘ خالد بن عبدالعزیز‘ فہد بن عبدالعزیز‘ عبداللہ بن عبدالعزیز۔ 60 سال میں چھ بادشاہ‘ ان میں سے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اول الذکر عبدالعزیز دیگر کے والد گرامی ہیں‘ امریکی جریدے اکانومسٹ نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا کہ عبدالعزیز کے تین درجن بیٹوں میں سے سب سے چھوٹے بیٹے مقرن کی عمر ستر سال کے قریب ہے۔ ان پر دو مرتبہ دل کا حملہ ہو چکا ہے‘ جن کے بارہ میں سے دو بیٹے اسی بیماری سے اپنی جاں‘ جانِ آفرین کے سپرد کر چکے ہیں۔ موجودہ بادشاہ‘ شاہ عبداللہ کی عمر 89 سال اور وہ کمر کی شدید درد میں مبتلا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ولی عہد شہزادہ سلطان علالت کے باعث انتقال کر گئے‘ انکی عمر 80 سال سے زائد تھی۔ آج کے ولی عہد شہزادہ نائف بھی 80 سال کے ہونے والے ہیں‘ دی اکانومسٹ نے مزید لکھا کہ بادشاہت جب تک ہے‘ سعود خاندان میں ہی رہے گی اور شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں پر اس کا پہلا حق ہے۔ جن میں سے ہر کوئی 70 سال سے زائد عمر کا ہے اور اکثر کسی نہ کسی بیماری کے شکار ہیں۔ دی اکانومسٹ کی رپورٹ غیرجانبدارانہ ہے یا تعصب پر مبنی‘ بہرحال سربراہ مملکت کی عمر رسیدگی اور بیماری سے ضروری نہیں ہے کہ ریاست بھی بیمار ہو جائے۔ ریاست کو بیماری نوجوان اورصحت مند قیادت کی موجودگی میں بھی لگ سکتی ہے۔ ریاست کی ترقی و خوشحالی کا مکمل دارومدار لیڈر شپ کی اہلیت‘ قابلیت اور اسکی نیک نیتی پر ہوتا ہے۔ جب تک قیادت نئے نظریات تخلیق کرکے ان پر زمانے کی جدت اور عصری تقاضوں کے مطابق عمل پیرا رہتی ہے ترقی و خوشحالی کے مزید در کھلنے کے ساتھ ریاست اندرونی و بیرونی خطرات سے بھی محفوظ رہتی ہے۔
آج کے جدید دور میں سعودی عرب کو اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے‘ دونوں محاذوں پر مخصوص حالات کے باعث ماحول سازگار نہیں‘ دوسری صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی ریاست یا بادشاہت کےخلاف دو سطحوں پر سازشیں ہو رہی ہیں۔ تاہم دونوں سطحوں پر ایک بے چینی بھی موجود ہے‘ جسے سازش کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ سعودی عرب اور اسکے حکمران‘ دونوں کا دیگر ممالک اور انکے حکمرانوں کے مقابلے میں ایک بہت بڑا امتیاز ہے۔ سعودی عرب ،خانہ خدا اور مسکن نبوی ہونے کے باعث مسلمانوں کیلئے عزیز ازصد جان ہے۔ یقیناً انکے ظاہری پاسباں اور نگہباں انکی حفاظت‘ ادب اور احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ اس لئے ان کو بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا مسلمان بڑی عزت اور احترام سے دیکھتا ہے۔ گویا سرزمین حجاز کے حکمرانوں کو مسلمان اپنے دل کے قریب سمجھے جاتے‘ اس لئے ان پر لازم ہے کہ اپنی پالیسیوں خصوصی طور پر خارجہ پالیسی کے باعث کسی مسلمان کے آئینہ دل پر بال نہ آنے دیں۔
آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے جس میں ہر ملک کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ خصوصی طور پر وسائل سے بھرپور اور ترقی یافتہ ممالک کی‘ سعودی عرب بھی ان میں سے ایک ہے‘ اسے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیتے وقت اپنی خصوصی حیثیت و مقام کے باعث دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک کی انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلمانوں کے حوالے سے ایک پرخاش انکی پالیسیوں اور اقدامات سے واضح ہو جاتی ہے۔ افغانستان‘ عراق پر حملہ‘ پاکستان میں ڈرونز کے ذریعے ہلاکتیں‘ لیبیا کی تاراجی اور اب شام پر بھی ایسی ہی یلغار کی تیاری‘ مغرب کی اسلام دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ تیونس‘ مصر اور یمن کے مغرب نواز حکمرانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اس پر امریکہ اور اسکے ساتھیوں کی خاموشی بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاید ان کا بھی طویل عرصہ سے اقتدار میں موجود حکمرانوں سے دل بھر چکا تھا۔ سعودی عرب میں تو سعود خاندان 1932ءسے تخت پر موجود ہے جس کا تختہ کرنے کی ایسی ہی کوشش ہو رہی ہے۔ جیسی مصر‘ تیونس اور یمن میں ہوئی۔ عالم اسلام میں سعودی ریاست اور اسکے حکمرانوں کے خصوصی مقام اور احترام کے باعث ایسا کرنا چونکہ آسان نہیں ہے اس لئے اپنے عزائم کو عمل کی صورت دینے کیلئے بھی خصوصی اہتمام کیا گیانظر آتا ہے۔ آج سعودی حکمران مغرب خصوصاً امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال 2011ءمیں سعودی عرب نے امریکہ سے ساٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا‘ سعودیہ کی خارجہ پالیسی پر بھی امریکہ کے اثرات واضح ہیں‘ شام اور بحرین میں سعودی عرب اور امریکہ کی پالیسی ایک جیسی ہے۔ ایران کے حوالے سے بھی کوئی واضح تضاد نہیں ہے۔ سعودی عرب کو ایرانی‘ شامی اور بحرینی عوام کے سامنے متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ آج ان ممالک میں سعودی عرب کو چاہنے اور نہ چاہنے والے دو گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ تعداد کسی بھی گروہ کی کم زیادہ ہو سکتی ہے ۔دیگر تمام اسلامی ممالک میں بھی سعودی پالیسیوں کو اسکی ایران‘ شام اور بحرین کے حوالے سے پالیسی یا اقدامات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ گویا سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اکثر اسلامی ممالک کے لوگوں میں ایک بے چینی سی پائی جاتی ہے۔ خواہ ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہو۔ سعودی حکمران اپنے مقام اور احترام کے باعث ایسی کسی سوچ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اندرونی طور پر آپکی پالیسیاں اور گورننس جس قدر بھی شفاف ہو‘ باہر سے نقصان پہنچانے والے اپنی ”کارگزاری “دکھا گزرتے ہیں۔ جدید دور میں میڈیا پر قدغنوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انٹرنیٹ کی سکرین پر پوری دنیا سکڑ کر سما گئی ہے۔ دنیا میں اگر کہیں عملی طور پر اسلام کا مکمل یا کسی حد تک نفاذ نظر آتا ہے تو وہ واحد مملکت سعودیہ ہے۔ اب جدید میڈیا کے ذریعے مغرب کہہ لیں یابیرونی عوامل‘ ایک خاص سوچ کے تحت اسلام پر کاربند معاشرے کی سوچ کو اپنی سوچ میں ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے نوجوان نسل میں گمراہی کے جراثیم کسی حد تک سرایت کرتے ہیں تو آزادی کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ خواتین ڈرائیونگ‘ ذاتی بزنس‘ بیرونی ممالک کے دوروں کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔ کسی کو شخصی آزادی اور کسی کو جمہوریت کا تاپ چڑھا ہواہے۔ وہ ہمارے ہاں سے جمہوریت مستعار لے کر جمہوریت کا حسن دیکھ لیں۔
سعودی حکمرانوں نے جدید تقاضوں کو محسوس ضرور کیا ہے اس کیلئے جو اقدامات کئے ہیں‘ اس پر بھی اندرون ملک اور بیرون ممالک ایک تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک طبقہ خواتین کو وہ آزادی دینے کے حق میں نہیں جس کا مطالبہ اندرون ملک ایک مٹھی بھر خواتین پر مشتمل گروہ کرتا ہے۔ اکثر مسلمان چونکہ سعودی نظام اسلام کو آئیڈیل سمجھتے ہیں‘ وہ بھی خواتین سمیت ہر مسلمان کیلئے قائم اسلامی حدود کو لازم قرار دیتے ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ‘ بزنس‘ بیرونی ممالک دوروں اور عالمی کھیلوں میں شرکت کی اجازت‘ ان کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ سعودی حکمرانوں کے خلاف ہونیوالی سازشوں کو سمجھنے کیلئے عالمی میڈیا میںپھیلائی جانیوالی افواہوں کا اندازہ ذیل کی رپورٹس سے لگایاجاسکتا ہے۔ امریکہ کی بیرونی تعلقات کونسل( Foreign Relations Council ) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے سعودی عرب کی کل آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور بقول اس ادارے کے ، شیعہ مسلمانوں کا تناسب 15فیصد ہے اور اس حساب سے اس ملک میں شیعہ آبادی چالیس لاکھ افراد کے لگ بھگ ہے جو کویت،قطر،بحرین اور امارات کی مقامی عرب آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔
سعودی حکمران بند گلی میں؟
01 اگست 2012 0
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ولی عہد شہزادہ سلطان امریکہ کے ایک ہسپتال میں 87سال کی عمر میں انتقال کرگئے ان کی جگہ شہزادہ نائف کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا وہ علاج کی غرض سے سوئٹزرلینڈ میں تھے کہ 16جون 2012کو چل بسے ان کی جگہ سلمان بن عبدالعزیز نے لے لی جو شاہ عبداللہ سے دس سال چھوٹے ہیں ان کو دو مرتبہ سٹروک ہوا جبکہ ان کے بارہ میں سے دو بیٹے دل کے عارضہ کے باعث فوت ہوچکے ہیں۔سعودی حکمرانوں کے خلاف ہونیوالی سازشوں کو سمجھنے کیلئے عالمی میڈیا میںپھیلائی جانیوالی افواہوں کا اندازہ ذیل کی رپورٹس سے لگایاجاسکتا ہے۔ امریکی کی بیرونی تعلقات کونسل( Foreign Relations Council ) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے سعودی عرب کی کل آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور بقول اس ادارے کے ، شیعہ مسلمانوں کا تناسب 15فیصد ہے اور اس حساب سے اس ملک میں شیعہ آبادی چالیس لاکھ افراد کے لگ بھگ ہے جو کویت،قطر،بحرین اور امارات کی مقامی عرب آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔
ادھر ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں زوردے کرکہا کہ سعودی عرب کی شیعہ آبادی کو بے روزگاری کی وجہ سے سخت دشواریوں کا سامنا ہے اور آل سعود کا امتیازی سلوک یہاں تک ہے کہ کوئی مقامی شیعہ باشندہ فوجی اکیڈمیوں کے قریب جانے کا مجا ز تک ہیں۔دوسری طرف ” بزنس ویک“ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکیوں اور امتیاز طرہ سلوک کی بنا پر کوئی شیعہ باشندہ جج نہیں بن سکتا اور سرکاری یا فوجی اداروں میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔
عربی سعودی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں 2011کا بجٹ سرپلس تقریباً 49ارب ڈالر رہا جو اس ملک کی جی ڈی پی کا 9.1حصہ بنتا ہے لیکن اس کے باوجود معتبر بین الاقوامی جریدے ”اکانومسٹ“ نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں بیروزگاری کی شرح بدستور35فیصد ہے گو کہ آل سعود کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس ملک میں بیروزگاری کی شرح10.6فیصد ہے!۔ امریکہ کی جارج ٹاﺅن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی 22فیصد آبادی غربت و افلاس کا شکار ہے اور جریدہ ” ٹائم“ کے مطابق ہر سات سعودیوں میں سے ایک ” پڑھنا لکھنا نہیں جانتا یعنی ملک کی 14.28فیصد آبادی ناخواندہ ہے “۔
ہوسکتا ہے ان رپورٹس میں کوئی حقیقت بھی ہو۔دونوں صورت میں سعودی حکام کو ان کا تدارک کرناچاہئے۔مغربی میڈیا کی ایسی رپورٹس کو بڑھا چڑھا کر چند اسلامی ممالک بڑے زور شور اور اہتمام کے ساتھ پھیلائی جارہے ہیں۔وجہ اس کی بھی وہی، امریکہ کے زیر اثر سعودی پالیسیاں ہیں۔ ملک کے تمام اہم عہدے سعود خاندان کے پاس ہیں۔یوں سمجھئے کہ گورننس پر شاہی خاندان کی مکمل گرفت ہے اور شاید سعودی شہری نفسیاتی طورپر شاہی خاندان کی حکومت پر مضبوط گرفت سے مرعوب بھی ہیں اسی تناظر میں دی اکانومسٹ نے اپنے ایک آرٹیکل The long day closes میں جو لکھا وہ سعودی حکمرانوں اور شہریوں کیلئے ایک پیغام ہے۔” السعود تو شائد اپنے آپ کو نئی دنیا کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق ڈھال لیں لیکن ان کے اپنے لوگوں میں سے بہت سے اس حوالے سے مشکوک و شہبات کا شکارہیں۔ جدہ کے ایک وکیل نے اپنے آراستہ اور جھنڈیوں سے سجے دفتر میں بیٹھے ایک قرآنی آیت کے حوالے سے حضرت سلمان علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جن ان کے تابع تھے جن کو انہوں نے عبادت گاہوں اور تالابوں کی تعمیر پر لگا رکھا تھا۔جن محنت مشقت کرتے اور وہ اپنے عصا سے ٹیک لگائے کھڑے دیکھتے رہتے تاوقتیکہ دیمک لگنے سے عصا ٹوٹ گیا اور وہ گر پڑے، تب جنوں کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔حضرت سلمان علیہ السلام تو کب کے انتقال کر چکے اور وہ ان کو زندہ سمجھ کر کام میں جُتے رہے۔آج سعودی عرب میں حکمرانوں کیخلاف ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ مظاہرے کر رہے ہیں‘ وہ بھی کسی بیرونی طاقت کے اشارے کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ گویا آج سعودی حکمران ایک بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں‘ اس سے سرخرو ہونے کیلئے 1932ءکے بعد کسی بھی دور سے زیادہ حکمت‘ دانش اور اہلیت و قابلیت اور اس کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ (ختم شد)
No comments:
Post a Comment