About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, December 9, 2013

غداری کیس …تضادات اور شبہات

غداری کیس …تضادات اور شبہات

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
19 نومبر 20130
Print  
غداری کیس …تضادات اور شبہات
حکومت میں آ کر مت ماری جاتی ہے یا ہمارے سیاستدان ہیں اتنے جوگے کہ اپنے بیانات اور اقدامات سے سیدھے سادے معاملے کو کتے کی دُم بنا دیتے ہیں۔ اچھے کام کو بُرے طریقے سے کرنے کی لت پڑ چکی ہے۔ انکے انہی خصائص کے باعث کرسٹل کلیئر اور واضح صورتحال پر بھی شکوک و شبہات کی گرد چڑھ جاتی ہے۔ 
جنرل پرویز مشرف کی ججز نظربندی، اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو قتل کیسوں میں ضمانت ہوئی تو چک شہزاد کے ’’تاج محل‘‘ سے باہر قدم رکھنے سے قبل انکی لال مسجد اپریشن اور غازی عبدالرشید قتل کیس میں گرفتاری ڈال دی گئی، اس کیس میں بھی عدالت نے ضمانت لے لی۔ انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے ای سی ایل سے نام نکلوانے کیلئے رجوع کر رکھا ہے۔ اس دوران وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں جنرل مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس تضادات کا مجموعہ ہے۔ سُنا تھا جو انسان زیادہ بولتا ہے وہ غلطیاں بھی زیادہ کرتا ہے‘ اب دیکھ بھی لیا ہے۔ انہوں نے جوشِ خطابت میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو فوجی انقلاب قرار دیا اور سچ بھی یہی ہے تاہم انہوں نے کسی صحافی کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے اس اقدام کو فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون قرار دیا۔ 12 اکتوبر کا اقدام یقیناً آئین شکنی، فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون تھا۔ ایسے اقدامات کامیاب ہو جائیں تو انقلاب‘ اگر ناکام ٹھہریں تو بغاوت کہلاتے ہیں۔ مشرف کے اقدام کو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دیا تو وہ بغاوت کے ضمن میں سے نکل کر انقلاب کے سانچے میں ڈھل گیا ۔ اس انقلاب کی کوکھ سے بڑے بڑے پارلیمنٹرین نے جنم لیا جو آج بھی پارلیمنٹ کا حصہ اور بہت سے نواز شریف کے کندھے سے کندھا ملا کر جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ایسا انقلاب پھر کبھی آیا تو یہ انقلابی لیڈر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرینگے۔ صدارت کیلئے پیپلز پارٹی نے میاں محمد اجمل کا نام دیا، اس پر نواز لیگ نے ناک بھوں چڑھائی کہ وہ مشرف کے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے موقع پر سیکرٹری قانون تھے۔ اس کو تضاد کے کس درجے میں فٹ کیا جائے کہ اس دور کے وزیر قانون زاہد حامد کو نواز لیگ میں لے لیا گیا، انکو ایم این اے کا ٹکٹ دیا اور کامیاب ہونے پر وزارت قانون ہی کا قلمدان بھی تھما دیا گیا، شور اُٹھا تو انکی وزارت بدل دی۔ امیر مقام مشرف کا پستول بدل بھائی ہے، الیکشن میں ہار گیا تو بھی نواز شریف کے دل میں امیر مقام کی الفت کا چراغ اُسی طرح روشن رہا جس طرح مشرف کے دل میں جلتا رہا تھا۔ آج امیر مقام وزیراعظم کے مشیرکا عہدہ انجوائے کر رہا ہے۔ 
مشرف کیخلاف 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کی پاداش میں غداری کی کارروائی شروع ہو رہی ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول حکومت چیف جسٹس کو تین رکنی خصوصی عدالت کی تشکیل کی استدعا کر رہی ہے۔ 3 نومبر کے اقدام سے متعلق ایف آئی اے کی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ مشرف نے بیماری کی بات کر کے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا مگر سرٹیفکیٹ پیش نہ کر سکے۔ چودھری نثار یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ذاتی رنجش اور تلخی جو جنرل مشرف کے ساتھ تھی وہ صاف کر دی، مگر آئین اور قانون کی جس طرح خلاف ورزی ہوئی اور پاکستان کی عدلیہ کو پابند سلاسل کیا گیا، ججز کے بال نوچے گئے مگر پاکستان کے آئین اور قانون کے سامنے جوابدہ ہے۔ چودھری صاحب لمبی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں یا چکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 3 نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کو سپریم کورٹ آئین شکنی قرار دے چکی ہے۔ججز کو نظر بند کرنے کا الگ سے کیس چلا جس میں مشرف کی ضمانت ہوئی۔ بال نوچنا توہین اور تضحیک آمیز اقدام ہے کیا یہ بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے؟ چودھری نثار نے فخریہ فرمایا ’’کہا جاتا ہے کہ کوئی غریب جرم کرے تو کارروائی کی جاتی ہے بڑے آدمی کیخلاف نہیں ہوتی، ہم نے نئی روایت قائم کی ہے۔‘‘ آپ نے نئی روایت قائم نہیں کی، پرانی کو ہی نبھایا ہے۔ زرداری، گیلانی اور راجہ جیسے بڑے لوگوں نے ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا، انکے احتساب کا آپ نعرہ لگاتے رہے، انکی لوٹ مار خزانے میں واپس لا کر نئی روایت قائم کریں۔ 
خنزیر اور کتے کا گوشت کیا کسی بھی حالت میں ہمارے دستر خوان پر آ سکتا ہے؟ مولانااحمد رضا خان بریلویؒ نے تحریک موالات کے دوران اپنے فتوے میں کہا تھا ’’سور کو بکری بنا کر نہیں نگلاجا سکتا‘‘ لیکن پاکستان میں ایسا کر دیا گیا ہے۔ جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے سے بڑی آئین شکنی نہیں ہو سکتی۔ 12 اکتوبر کو جو ہوا کچھ عرصہ بعد سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ نے اسے ’’حلال‘‘ قرار دے دیا۔ 3 نومبر کے اقدام پر عدلیہ اور پارلیمنٹ جائز جائز پڑھ دیتی تو آج مشرف دودھوں نہائے پائے جاتے۔ پاکستانیوں کی اکثریت آمر کا احتساب چاہتی ہے، آمر اکیلا کچھ بھی نہیں کر سکتا، شریک جرم تو کیا جرم معاف کرنیوالے بھی معافی کے مستحق نہیں۔ معافی مجرم کے قبولِ جرم کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے۔ کیا مشرف اور انکے ساتھیوں نے 12 اکتوبر کا جرمِ بغاوت قبول کر لیا تھا؟ 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات غیر آئینی تھے تو ان کو کامیابی سے ہمکنار کرنیوالوں کے اقدامات کیا آئین اور قانون کیمطابق تھے؟ آمریت کے راستے ہمیشہ کیلئے روکنے ہیں تو 12 اکتوبر کی آئین شکنی کو ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا۔ نواز حکومت 12 اکتوبر کے اقدام کا نوٹس تو ہرگز نہیں لے گی۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے حوالے سے کارروائی بھی ڈرامہ نظر آتی ہے۔ شایدیہ آمر کو انجام تک پہنچانے نہیں اسے بچانے کیلئے سٹیج سجایا جا رہا ہے۔ حکمران جلد از جلد مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے بے قرار ہیں تاکہ ضامنوں کے ریال اور ڈالر ز کی برکھا برسنے لگے۔ 
چودھری نثار کی پریس کانفرنس کے تضادات واضح اور انکی طرف سے اتوار کو چھٹی کے روز ہنگامہ کانفرنس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا -- - جو کارروائی حکومت کے آنے کے فوراً بعد شروع ہونا تھی اس میں چھ ماہ کی تاخیر کر دی گئی اور اب ایک دن میں معاملہ’’ منطقی انجام‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور تاثر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا دیا جا رہا ہے ۔

رول ماڈلز

رول ماڈلز

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
17 نومبر 20130
Print  
رول ماڈلز
 کراچی کی بد امنی ،لاقانونیت ،دہشت گردی اور قتل و غارت پر قابو پانے کیلئے جنرل نصیر اللہ بابر کے کئے گئے اپریشن کی طرز اپریشن ہی مجرد اور مجرب حل ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ طاقت آگئی وہ مذاکرات کے ذریعے سرنڈر کرنے پر آمادہ کبھی اور قطعی نہیں ہوں گے۔ علیحدگی پسند اور مذہبی جنگجو طاقت کا سمبل بن چکے ہیں۔ حاصل کی گئی طاقت آپ کو نسلر سے واپس لینے کی کوشش کریں گے تو وہ اپنی ذات اور اوقات کے مطابق مزاحمت کریگا۔کونسلر، چیئر مین ، ایم پی اے، ایم این اے، سنیٹر کے انتخابات طاقت کے حصول کا ہی ذریعہ ہے۔ اس کیلئے بے دریغ پیسہ اور خون تک پانی کی طرح بہانے سے دریغ نہیں کیاجاتا۔ ان سے کم تر عہدوں کیلئے اور بھی لوگ دوسروں کی جان لے اور اپنی دے دیتے ہیں۔ طاقت اصولی یا بے اصولی، شرافت یا بد معاشی جس بھی طریقے سے حاصل کی جائے کوئی اس سے رضاکارانہ دستبرداری پر آمادہ نہیں ہوتا۔ملک میں جس قسم کی بھی دہشت گردی ہورہی ہے اس سے نجات کیلئے ہمارے سامنے کئی رول ماڈلز موجود ہیں جیسا کہ کراچی میں جنرل نصیر اللہ بابر نے روڈی جولیانی کے نیو یارک میں کیے گئے اپریشن کی طرز پراپریشن کرکے کراچی کا امن بحال کردیا تھا۔حسین اور جنت نظیر وادی سوات کئی سال بارود کی بُو اور بم و گنوں کے دھویں میں لپٹی رہی، فوج کوجہاں اپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی۔ فوج نے لوگوں کو کیمپوں میں منتقل ہونے پر آمادہ کیا۔تیس لاکھ لوگ گھر بار چھوڑ کر امن کی آرزو لئے کیمپوں میں چلے آئے ۔فوج نے ان میں چھپے شدت پسندوں کو نکالا اور وادی میں موجود جنگجوﺅں پر یلغار کی۔ کوئی گرا کوئی مرا اور کوئی فرار ہوگیا۔اس کے بعد سوات پُر امن ہے۔ تھوڑا سا ملک سے باہر جھانک کر دیکھیں تو سری لنکا میں تامل بلوچستان کے علیحدگی پسندوں ہی کی طرح قتل و غارت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ان کو بالآخر 25 سال بعد ہی سہی نیست کردیا گیا ۔گوریلا کارروائیوں کے توڑ کو ناممکن کی حد تک مشکل سمجھاجاتا ہے دنیا تو اس سے بھی آگے جاچکی ہے۔ جہاں یاسر پیر زادہ کی اس تحقیق پر نظر ڈالی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔” 1972میں میونخ میں اولمپک کھیل منعقد ہوئے۔اس دوران اسرائیلی ٹیم کو ”بلیک ستمبر“ نامی گروہ نے یرغمال بنا لیا۔ اغوا کاروں سے مذاکرات بے نتیجہ رہے اور بالآخر ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں گیارہ اسرائیلی ایتھلیٹ ،کوچ اور ایک جرمن پولیس افسر مارا گیا۔”بلیک ستمبر“ کے آٹھ ارکان بھی ہلاک ہوئے، تین کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں جب ”بلیک ستمبر“ نے لفتھنزائیر لائن کا طیارہ اغوا کیاتو جرمنی کو مجبوراً ان گرفتارشدگان کو بھی رہا کر نا پڑا۔اس سارے واقعے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیر نے خفیہ ایجنسی موساد کو ایک آپریشن شروع کرنے کا ٹاسک دیا جس کے تحت ان تمام لوگوں کو چن چن کر مارنا تھا جو اسرائیلی ٹیم کو یرغمال بنانے کے منصوبہ ساز تھے۔اس آپریشن کی خاص بات یہ تھی کہ موساد کے ان افسران کو موساد سے ”فارغ “ کر کے یہ تاثر دیا کہ ان کا اسرائیلی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موساد نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ آپریشن مکمل کیا۔
ہمارے ہاںدہشتگرد ججوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعصاب پر سوار ہیں۔ ان سے بھی نمٹنے کے کامیاب طریقے دنیا میں آزمائے جا چکے ہیں ۔اٹلی کا سسلین مافیابھتہ خوری، قتل، سمگلنگ اور دھونس دھاندلی سے سرکاری اور غیرسرکاری ٹھیکے حاصل کرنے جیسے جرائم میں ملوث تھا۔ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانا تو دور کی بات ،ان پر ہاتھ ڈالنا ہی نا ممکن تھاکیونکہ مافیا کے جرائم پر بالکل اسی انداز میں پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی جیسے اپنے یہاں آج کل شدت پسندوں،علیحدگی پسندوں اور بھتہ مافیا کا دفاع کرنے والے انہیں ہر واردات کے بعد دودھ سے نہلا کر معصوم بنا دیتے ہیں۔اطالوی مافیا کے خلاف بھی ہر طرح کا ثبوت موجود ہونے کے باوجود کوئی ان کے خلاف ایکشن لینے کی جرات نہیں کرتا تھا کیونکہ مافیا سیاستدانوں، ججوں ، وکلا اور گواہان تک کو اڑا دیتا تھا۔بالآخر 1980میں اٹلی کی حکومت نے مافیا سے نمٹنے کے لئے ایک خاص قانون بنایا جو 1982میں لاگو کر دیا گیا۔اس قانون کی تجویز دینے والے سیاست دان کو مافیا نے قتل کردیا، بے تحاشا خوں ریزی ہوئی اور سینکڑوں افراد کو مافیا جنگ کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے جن میں اٹلی کے کاو¿نٹر ٹیریرزم کے سربراہ کے علاو ہ دیگر بے شماربڑے لوگ بھی شامل تھے۔اٹلی کی حکومت ہل کر رہ گئی۔اس نے ایک اینٹی مافیا پول تشکیل دیا جو تفتیشی مجسٹریٹس پر مشتمل ایک گروپ تھا جس نے جدید خطوط پر مافیا کے خلاف تفتیش شروع کی ،ثبوت اکٹھے کئے اور آپس میں ان تمام معلومات کے تبادلے کو یقینی بنایا تاکہ کسی ایک ممبر کے قتل کی صورت میں بھی تمام معلومات محفوظ رہیں۔اینٹی مافیاکے بنانے والے جج چینیسی روکو،کو بھی مافیا نے 1983میں قتل کردیا۔کئی برسوں کی انتھک محنت کے بعدبالآخر فروری 1986میں مافیا کے خلاف مشہور زمانہ میکسی ٹرائل شروع ہوا ،یہ ٹرائل سسلی کی ایک انیسویں صدی کی کنکریٹ سے تعمیر شدہ جیل کے بنکر میں ہوا۔سخت سیکورٹی میں600صحافیوں کی موجودگی میں یہ ٹرائل اٹلی کی تاریخ میں مافیا کے خلاف سب سے بڑا مقدمہ ثابت ہوا جس میں 475 مافیا ممبران کو اپنا دفاع کرنا تھا۔ 16دسمبر1987کو مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا، 474ملزمان میں سے 360کو سزا سنائی گئی اور انہیں کل ملا کر 2665برس کی قید ہوئی۔ اس کے علاوہ مافیا کے 19سرکردہ لیڈران کو عمر بھر کے لئے جیل میں ڈالا گیا۔ 114ملزمان کو ناکافی ثبوت کی بنا پربری کر دیا گیا جس سے یہ تاثر بھی زائل ہوا کہ یہ ٹرائل محض ایک دکھاوا تھا۔ میکسی ٹرائل نے اطالوی مافیا کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ہم کیوں ایسے اپریشنز اور قوانین و اقدامات سے رہنمائی حاصل کر کے دہشتگردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟

مشرف‘ عدلیہ اور سیاست دان

مشرف‘ عدلیہ اور سیاست دان 

فضل حسین اعوان....شفق

10 نومبر 20130
Print  
مشرف‘ عدلیہ اور سیاست دان … (1/2)
مشرف کی چار مقدمات میں ضمانت ہوئی ہے‘ وہ بری نہیں ہوئے۔ ان کی جس انداز میں گرفتاری ہوئی اور پھر اوپر تلے ہوتی چلی گئی‘ اسے ججوں کے تعصب سے تعبیر کیا گیا۔ مشرف کو ایسے مقدمات میں بھی گرفتار کیا گیا جن میں ان کے ساتھ شریک ملزم کبھی گرفتار نہیں ہوئے ۔ اس حوالے سے بے نظیر اور اکبر بگٹی قتل کیسز کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا۔ بے نظیر اور بگٹی کیسز میں جنرل مشرف کے ملوث ہونے میں ابہام ہو سکتا ہے۔ ججز کی نظربندی اور لال مسجد آپریشن کے پیچھے مشرف کے دو ہاتھوں کے سوا کوئی تیسرا ہاتھ موجود ہی نہیں ۔ ضمانت کے فیصلے شہادتوں ،شواہد اور پولیس انکوائری کی بنیاد پر کئے گئے ۔ یہی ہمارے آئین اور قانون کے لحاظ سے انصاف کا تقاضا تھا۔ ضمانت منظور کرتے ہوئے جج صاحبان تعصب سے بالانظر آئے۔لال مسجد کیس میں 19گواہ تھے ان میں سے صرف تین پیش ہوئے۔ان کی گواہی بھی ادھوری تھی۔کوئی اخبار اور کوئی ٹی وی کی خبروں کی بنیاد پر مشرف کو قاتل قرار دے رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کی اندھیر نگری میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں عدلیہ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف بے لاگ فیصلے دیتی رہی۔ وہ خود اوران کے حامی اسے جسٹس افتخار کا پیپلز پارٹی کے خلاف متعصبانہ رویہ قرار دیتے تھے اور کچھ لوگوں کی طرف نواز لیگی قیادت کیلئے چیف کے نرم گوشے کا اظہار بھی ہوتا رہا۔ اب ن لیگ کو بھی چیف جسٹس سے اپنے پیشرئووں جیسے تحفظات درپیش ہیں۔سول ایوی ایشن کے مشیرشجاعت عظیم سمیت کئی تقرریاں غیر قانونی قرار دی گئی ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی صوبوں نے خود تاریخ دی۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اپنی مجبوریاں بتانے گیا کہ اس کیلئے مقررہ تاریخوں پر الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے صوبوں کی دی گئی تاریخوں پر ہی الیکشن کرانے کا حکم دیا تو اس سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دم پر تیلی گر گئی جس طرح سٹیل مل فروخت کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور یوسف رضا گیلانی کو گھر بھجوانے کے فیصلوں پر ق لیگ اور پی پی پی کی حکومت کی دم پر گری تھی۔ بلدیاتی الیکشن کرانے کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کا خلوص نیت تو چار سال سے ان کو ٹالنے کی پالیسیوں اور اقدامات سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا توقومی اسمبلی میں ساری پارٹیاں متحد ہو کر سپریم کورٹ کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں۔ نیت درست ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔انکی نیت پر عوام کو اعتبار ہے نہ عدلیہ کو۔ حکمرانوں اور عمال کے چہروں پر جسٹس افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ ڈیٹ قریب آنے پر رونق بڑھتی اور اقتدار و اختیار کی خماری چڑھتی جا رہی ہے۔ جسٹس افتخار نے جو Trend سیٹ کر دیا‘ میڈیا کی فعالیت اور عوامی شعور میں قدرے اضافے کے بعد چمڑے کے سکے چلانے کی آرزو رکھنے والے مشکل ہی سے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسی یہ خواہشیں پال رہے ہیں مشرف اور زرداری نے ڈوگر کورٹ سے بھی یہی کام لینا چاہا تھا۔ انکے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انکی طرح تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری عدلیہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور حاشیہ برداری سے ہمیشہ کیلئے نکل چکی ہے۔
 مشرف کیخلاف مقدمات ختم نہیں ہوئے۔ عدالتیں شواہد کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ سابق صدر کی ضمانت پر رہائی کو این آر او سے مستفید ہونے والے ہی این آر او قرار دے رہے ہیں۔ بلاول کو اعتراض ہے کہ ان کے والد آصف علی زرداری پر بی ایم ڈبلیو کیس 90 میں بنا تھا اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا جبکہ مشرف کا 6 ماہ میں ہو گیا۔ پی پی پی والے بچے کو بتائیں کہ اس کے پاپا مقدمات لٹکانے میں کتنی مہارت رکھتے ہیں۔ استثنیٰ استثنیٰ استثنیٰ کا راگ قوم نے کس سے سنا؟گیلانی اب بھی کہتے ہیں کہ ان کو استثنیٰ حاصل ہے ۔مشرف نے اپنے لئے استثنیٰ کی بات نہیں کی۔پیپلز پارٹی کے مستقبل کی امیدآصفہ نے بھی کہا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کے لئے فیصلہ اور، اور آمر کے لئے کچھ اور ہے ۔ ان کا اشارہ شاید اپنے ناناکی طرف ہو۔ مشرف کی ابھی ضمانت ہوئی، کیس چلیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے پیچھے ایک آمر کی قیادت میں پوری مشینری تھی ۔ مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ بھی ہے ۔اس کیس میں محترمہ کے لواحقین جو پانچ سال ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے اور جاتے ہوئے ہر طرف تاریکیاں پھیلا گئے، پیروی سے گریزاں ہی نہیں انکاری بھی رہے۔ مشرف کو بے نظیر بھٹوقتل کیس میں سزا کیسے ہو سکتی ہے جب پی پی پی کی قیادت نے’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا فلسفہ ایجاد کر کے مشرف کو معاف کردیا۔میاں نواز شریف بھی مشرف کو معاف کر چکے ہیں ۔ میاں صاحب نے کئی بار کہا کہ مشرف نے جو انکے ساتھ جو کیا ‘ وہ اس کو بھول چکے ہیں البتہ جو کچھ انہوں کے آئین کے ساتھ کیا وہ اس کیلئے جواب دہ ہونگے۔مشرف کا سب سے بڑا جرم بارہ اکتوبر 1999ءکو اس حکومت کا تختہ الٹنا تھا جس کی کرپشن اور گھمنڈ سے عوام ہی نہیں لیگی خواص بھی تنگ تھے۔اس رات لوگ مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے ۔ایک بھی مسلم لیگی مظاہرے کیلئے سڑک پر نہیں آیا۔دو چار ماہ بعد آدھی سے زیادہ نواز لیگ،آئین شکن مشرف کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہی تھی ۔یہ نواز شریف ہی کا قول ہے” لوگ کہتے تھے قدم بڑھاﺅ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ میں نے قدم بڑھایا ، پیچھے مُڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔“نواز شریف نے مشرف کو اپنے ساتھ کی جانیوالے زیادتیوں پر معاف کردیا جبکہ مشرف کو سب سے بڑے گناہ ،12 اکتوبر 1999ءکو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے اقدام کی معافی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے دیدی۔اُ سی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر مشرف کو آئین میں ترمیم کرکے حکومت اور اسمبلیاں توڑنے سمیت اختیارات کا گھنٹہ گھر بنا دیا تھا۔

مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کی توثیق اور ان کو اختیارات سے مالا مال کرنیوالوں کی اکثریت آج نواز شریف کے شانہ بشانہ ہے۔ اس جرم، ستم یا کرم میں مجلس عمل بھی شریک تھی جسکا حصہ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی اور منور حسن کی جماعت اسلامی بھی تھی۔ ان حضرات کے غیر محتاط رویے سے ”شہید کون“ کی بحث چھڑ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جذبات میں آکریہ کہہ بیٹھے کہ امریکہ کتے کو مار ڈالے تو وہ بھی شہید ہے اب اسکی وضاحت نہیں ہو پا رہی۔ اپنے م¶قف پر ہٹ دھرمی بعض کے نزدیک بے شرمی سے قائم ہیں۔ منور حسن کے خیالات اتنے تباہ کن ہیں جن کا خود ان کو بھی اندازہ نہیں۔ کون شہید اور کون مردود، یہ فیصلہ اللہ کے ہاں ہو گا۔ امریکہ کی دشمنی میں آپ اسلامی شعار روایات اور احکامات کو نہیں بدل سکتے۔ منور حسن کا چہرہ مہرہ اور وضع قطع عبدالستار ایدھی کی طرح مشترع ضرور ہے لیکن وہ مفتی ہیں نہ عالم فاضل۔ انہوں نے سوشیالوجی اور تاریخ میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستگی اور اب سربراہی کے باعث سید منور حسن کو عموماً عالم و فاضل سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے مرنیوالے فوجی شہید نہیں ہیں۔ اس بیان سے فوج کے مورال اور ڈسپلن پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔جماعتِ اسلامی پر قیام پاکستان کی مخالفت کا داغ ابھی تک دُھل نہیں سکا کہ منور حسن نے ایک اور لگا دیا۔مولانا فضل الرحمان اور سیدمنور حسن کے فلسفے اور فتوے کے تناظر میں افغان جہاد کا تجزیہ کیا جائے تو امریکہ کی مدد سے مارے جانیوالے روسی شہید اور جو مجاہدین امریکہ کی حمایت اور اسلحہ سے لڑتے ہوئے روسیوں کے ہاتھوں مارے گئے وہ شہید نہیں تھے۔ آپکی کسی سے بھی محبت اپنی جگہ تاہم پاک فوج جاگتی ہے تو آپ سوتے ہیں اور امریکہ کی اس جنگ میں مشرف نے ہی جھونکا تھا جسکے آپ حامی تھے۔ اب وہ اقتدار سے تہی دامن ہے تو ہر کوئی ان کو تختہ دار پر لٹکانے پر تلا نظر آتا ہے۔ انکے بڑے جرائم معاف کرکے 2007ءکی ایمرجنسی اور اس سے کم تر سطح کے مقدمات میں پھانسی لگانے کی خواہش نظر آتی ہے جن میں ضمانت ہو گئی ۔گواہوں پر اسی طرح کام ہوتارہا اور مدعی اور گواہ سست ، پھانسی لگانے کے آرزو مند بے چُست رہیں تو وہ بری بھی ہو جائینگے۔
 مشرف نے قید کے دوران ایک بار بھی والدہ سے ملنے کے بہانے دبئی جانے کی درخواست نہیں دی۔ ان کی ضدی طبیعت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کو اجازت ملی تو وہ ملک میں اسی طرح آتے جاتے رہیں گے جس طرح آصف علی زرداری ایوان صدر سے رخصتی کے بعد آجا رہے ہیں۔ ویسے بھی مشرف کا شمار ہماری اعلیٰ پاکباز سیاسی قیادت کی صف میں ہونے لگا ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف، گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے لوگوں پر مقدمات ہیں اور وہ آزاد بھی پھر رہے ہیں۔ ذرا مشرف کے دور کا موازنہ پی پی پی کے گذشتہ اور نواز شریف کے موجودہ دور سے کریں تو واضح فرق نظر آئیگا۔ مشرف کے دور میں ڈالر 62 سے اوپر نہیں گیا ۔انکے پیشرو نواز شریف کے دور میں 68 روپے بھی رہا تھا۔آج ڈالر کی سپر میسی بلکہ ڈالر گردی کا دور دورہ ہے ۔مشرف دور میں بھی پٹرول کی قیمتوں میں ا تار چڑھا¶ ہوتا تھا۔ 56 روپے لٹر پٹرول رہا اور یہ 28 روپے کی سطح پر بھی گِرجاتا تھا۔ پاکستان کی سیاست روٹین اور روایات سے زیادہ معجزات و کرشمات کی سیاست ہے۔ جونیجو اور ظفر اللہ جمالی اپنی ا پنی واحد سیٹ کے بل بوتے پر وزیراعظم بنے۔ شوکت عزیز کے پاس ایک بھی نہیں تھی۔ مشرف بھاگنے والے نہیں ہیں۔ ان پر آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کی آج کی لیڈر شپ میں جرا¿ت ہی نہیں ہے۔ کسی بھی وقت کوئی کرشمہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عہدہ جلیل سے جیل اور جیل سے جلیل القدر منصب پر تعیناتی کی روایتیں موجود ہیں جس کو مشرف کی صورت میں تاریخ دہرا سکتی ہے۔

Wednesday, November 6, 2013

اہلیت اورکنفیوژن

اہلیت اورکنفیوژن 

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
07 نومبر 20130
Print  
اہلیت اورکنفیوژن
ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں‘ حالات کو دیکھیں‘ اپنے اوپر جو بیت رہی ہے‘ اس پر سوچیں تو لگتا ہے کہ ہمیں آج ہی آزادی ملی اور ہمیں کٹا پھٹا، زخموں سے چور ملک تھما دیا گیا ہے جس کی ہر کل کو سیدھا کرنے کی ضرورت ہے۔ اوپر سے قیادت ایسی کہ اس سے اپنی تمبی اور دھوتی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ دانشوروں کی رائے میں ہمارے مسائل کی جڑ ہی قیادت کا فقدان ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کرپٹ تھی۔ کرپشن میں ہی اس نے اپنی اہلیت ثابت کی۔ ملک میں انارکی کی بنیاد اس کرپشن سے پڑی۔ آج کے حکمران اپنے پیشروؤں کے درجے کے کرپٹ تو نہیں ہیں تاہم ملک چلانے کیلئے جس اہلیت ،قابلیت اور وژن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے بڑی حد تک تہی دامن ہیں۔ انہوں نے توانائی کی قلت کو دور کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کو باالترتیب اپنی پہلی اور دوسری ترجیح قرار دیا تھا۔ آج دونوںسون چڑی بن چکی ہیں۔ انرجی بحران میں کمی کے بجائے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ کر دیا گیاجس سے فطری طور پر ہر چیز کی قیمت بڑھنا تھی۔ حکمرانوں کی دلچسپیوں اور عوامی مسائل سے لاتعلقی کو دیکھتے ہوئے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے میدان خالی دیکھا تو عوام کی چمڑی ادھیڑنے لگے۔ عام آدمی کیلئے زندگی کی گاڑی کا پہیہ رواں رکھنا سہل نہیں رہا۔ ٹماٹر ڈیڑھ سے اڑھائی سو روپے، آلو 100 روپے کلو ہوگئے ۔بلاشبہ ان کا استعمال ناگزیر نہیں ہے۔ 60روپے کلو کے پیاز کے بغیر بھی سانسیں چل سکتی ہیں۔ روٹی تو بنیادی ضرورت ہے۔ یہ بھی مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے اسکی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا حالانکہ اس دوران بجلی مہنگی ہوئی نہ پٹرولیم مصنوعات۔گندم کے ریٹ بھی نہیں بڑھے۔ آٹا فروشوں نے حکمرانوں کی بے خبری میں عوام پر ستم ڈھادیا۔ کچھ لوگ کھانا ہضم کرنے کیلئے دواؤں کا استعمال اور واک وغیرہ کرتے ہیں اور اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کو پیٹ بھرنے کو روٹی میسر نہیں۔ ایک مزدور کہہ رہا تھا کہ پہلے میںتین روٹیاں کھاتا تھا ‘اب دو کھاتا ہوں۔ پانی بھی خریدنا پڑے تو ایک روٹی پر آنا پڑے۔ نواز لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد ابھی کوئی بڑی فصل کسانوں نے نہ اٹھائی نہ مارکیٹ میں آئی۔ ٹماٹر پیاز اور سبزیاں آئیں تو ان کا قحط نظر آتا ہے۔ شوگر ملیں چلنے والی ہیں۔ چینی اور لوہا ’’شاہی خاندان‘‘ کی من پسند ٹریڈ ہے۔ عوام شُکر کریں کہ لوہا کھانے کی چیز نہیں ۔شَکراور پسندیدہ میں بڑا تال میل رہا ہے۔ہم وطنوں کے حصے میں لوہا چینی جتنی چینی آئیگی ۔ دکاندار حکمران، کسانوں کو مایوس کرر ہے ہیں جب اقتدار کا خمار‘ نااہلی کی بھرمار اور وژن بیمار ہو تو نتیجہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو ہر شعبہ انار کے اس باغ کی مانند سرسبز اور ثمربار نظر آتا ہے جس کے باغبان نے بادشاہ کو انار کا جوس پلایا تھا۔ گندم کی فصل ابھی دور ہے۔ حکمرانوں کی نیت دیکھ کر اس کے سوتے خشک ہو سکتے ہیں۔ قحط کا سماں بھوت کی طرح دندناتا نظر آرہا ہے۔خدا خیر کرے۔
 اہلیت‘ قابلیت اور دانش و حکمت میں باقی سیاستدان بھی حکمرانوں سے کم نہیں البتہ سخن طرازی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پوری قوم متفق لیکن اسکے خاتمے کا طریقہ کار اپنا ہے۔ کوئی اسے دہشتگردوں کو ختم کرکے ختم کرنا چاہتا ہے کوئی ان کو اپنا ہمنوا بنا کر،کوئی اسے امریکہ کی حمایت سے کوئی امریکہ کو دشمن بنا کر۔ ایک طبقہ حکم اللہ محسود کو ظالم تو دوسرا مظلوم کہتا ہے۔ کسی کو اعتراض ہے کہ اسے امریکہ نے کیوں مارا ہم خود مارتے۔ قائدین ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ امریکہ نے بم برسا کر مذاکرات کا عمل سبوتاژ کر دیا۔ طالبان کا موقف ہے کہ محسود کے قتل کا منصوبہ نواز اوباما ملاقات میں بنا۔ حکومتی اور بے حکومتی سیاستدان مذاکرات کا عزم دہراتے دہراتے دُہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ محسود کی ہلاکت اور بقول منور حسن اور فضل الرحمن شہادت پر فوج خاموش ہے۔ حکومت فوج کی طرف سے مذاکرات کی کامیابی کیلئے کردار ادا کرنے کا تواتر سے اظہار کرتی رہی۔ ڈرون حملے پر فوج بولی نہ اسکی طرف سے حکومت نے کچھ کہا۔ سوچنے کیلئے یہ بھی بہت ہے کہ 29 نومبر کو کیانی ریٹائر ہو رہے ہیں ان کا متبادل سامنے آیا نہ انہوں نے فوجی یونٹوں کے الوداعی دورے شروع کئے۔ جنرل کیانی کی قیادت میں فوج اور امریکہ کا طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ڈرون حملوں کے حوالے سے موقف متضاد نہیں۔ ضروری نہیں حکمرانوں کا ظاہر و باطن بھی ایک ہو۔ جو لوگ فوج کو مار رہے ہیں ڈرون ان پر ہی گرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کو جنرل کیانی بڑی کامیابی سےtowکر رہے ہیں ۔نواز شریف امریکہ کا دورہ بھی کر آئے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانی اور اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے فیصلے‘ کہا جاتا ہے واشنگٹن میں ہوتے ہیں۔ کیانی کو کیا مزید ایکسٹنشن مل جائیگی؟ یہ سوال اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر پھر سامنے آگیا ہے۔
 ہم ایک کنفیوژ قوم اور ہماری تقدیر کے فیصلے کرنیوالے قوم سے زیادہ کنفیوژ ہیں۔فتویٰ گری کا فن کوئی ہم سے سیکھے ۔مولانا فضل الرحمن نے فرمایا کہ امریکہ کتے کو قتل کر دے وہ بھی شہید ہے۔منور حسن کے محسود کیلئے شہید کے فتوے پر بلاول نے ارشاد فرمایا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بنگلہ دیش جیسا سلوک کیا جائے۔ کیا تماشا لگا ہے‘ ایک اجلاس سینٹ کے اندر‘ دوسرا اسکے باہر ہو رہا تھا۔ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر کہا گیا ’’امریکہ کو بتادیا جائے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے قبول نہیں‘‘ گویا مذاکرات سے قبل اور مابعد قبول ہیں۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ اور گورنر صوبے میں امن قائم کرنے میں ناکام ٹھہرے توایک علیحدگی پسندوں سے ملاقات کا ملتجی دوسرا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی دہشتگردی کو حقوق کی جنگ قرار دیتا ہے۔ مشرف کے معاملے میں بھی مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ ایک طبقہ انہیں پھانسی لگانا چاہتا ہے دوسرا ملک سے چلے جانے کیلئے بحفاظت راستہ دینے کا حامی ہے۔ کراچی میں اپریشن ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے‘ دو دن میں تیس لوگ مارے گئے۔ حالات واقعات کا ایمانداری سے تجزیہ کریں تو حکمران اپنے منشور اور انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں پر عمل میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ کسی بحران کے حل کا کوئی سرا انکے ہاتھ نہیں لگ رہا۔ ہر گزرتے انکے ساتھ عوامی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ عوام آخر کب تک بہتری کی امید رکھیں؟ پانچ سال بعد؟ اس وقت تک کتنے لوگ روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھ سکیں گے۔ ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ نواز لیگ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک،خدا جانے بھوک افلاس‘ دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ میں انسانیت کتنی بار قتل ہو چکی ہوگی ۔

محسود ،ڈرون اورمذاکرات ڈرامہ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان


حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں مارے جانے کی غیر مصدقہ خبر ہر ٹی وی چینل پر اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے تبصروں کے ساتھ چل رہی تھی تو کئی کی حافظوں پر کرنل امام کے قتل کی ویڈیونے بھی دستک دی ہوگی۔جنوری 2011ءکو کرنل امام کو طالبان کی حراست کے دوران فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔کلاشنکوف بردار کے سامنے کھڑا کرنے سے قبل کرنل اما م پہاڑی علاقے میں بیٹھے دکھائے گئے انکے سر پر حکیم اللہ محسود کھڑے تھے۔انہوں چند آیات کی تلاوت کی اوربڑے جذباتی انداز میں انکے جرائم بتائے تھے۔پھر ایگ گولی کے بعد کرنل امام کو گرتے ہوئے اور پھر چندفائر کرنے کے بعد اور ان کا سر ایک طرف ڈھلکتے دکھایا گیا ۔یہ سب کچھ حکیم اللہ محسود کی موجودگی میں ہوا۔
ڈرون حملے کے ایک ڈیڑھ گھنٹے ہی میں بیت اللہ محسود کے مارے جانے کی تصدیق ہو گئی۔اس حملے میں کمانڈر طارق محسود اور عبداللہ بہار سمیت 6 افراد لقمہ اجل بنے۔ محسود شمالی وزیرستان کے گاﺅں ڈانڈے درپہ خیل جو تحریک طالبان کا گڑھ ہے‘ میں طالبان شوریٰ کے اجلاس کی سربراہی کر رہے تھے جس میںحکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق حتمی فیصلہ ہونا تھا۔
قومی و بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حکیم اللہ محسود 1979ءمیں جنوبی وزیرستان کے علاقے تکئی میں پیداہوئے ، ان کا اصل نام جمشید محسود ہے‘ وہ کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈر بیت اللہ محسود کے ڈپٹی بھی رہے۔ وہ پہلی مرتبہ 2007 ءمیں پاکستان فوج کیخلاف حملوں کی وجہ سے ایک بے رحم شدت پسند کے طور پر ابھرے۔ 23 اگست2009 ءمیں امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے ۔وہ تحریک طالبان کی قیادت سنبھالنے سے قبل کرم ایجنسی اور خیبر ایجنسی میں طالبان جنگجوو¿ں کے قائد تھے ۔ یہ حکیم اللہ محسود ہی تھے جنہوں نے دو ہزار سات میں دو سو پچاس پاکستانی فوجیوں کو یرغمال بنایا۔ انکی قیادت کے دوران جی ایچ کیو ، پریڈ لائن مسجد، مہران نیول بیس،کامرہ ایئر بیس،آئی ایس آئی اورایف آئی اے کے دفاتر سمیت انگنت مقامات اور تنصیبات پر خود کش حملے ہوئے ‘جن میں عام شہریوں ،افواج کے افسروں ،جوانوں اور بچوں کی اموات کیساتھ ساتھ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور عالمی سطح پر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو بھی تقویت ملی۔ان چند اہم واقعات سمیت دیگر بہت سے واقعات کی ذمہ داری حکیم اللہ محسود کی تنظیم کی طرف سے قبول کی گئی۔ حالیہ دنوں میںجب حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے معاملات طے ہورہے تھے تو جنرل ثناءاللہ نیازی کو بارودی سرنگ کے دھماکے میں اُ ڑا دیا گیا جس کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی۔ اس پر حکومتی حامیوں نے تنقید کی تو طالبان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ کسی معاہدے پر پہنچنے تک اپنی کارروائیوں میں آزاد ہیں۔ طالبان کے اس مو¿ قف کی انکے حامیوں نے بھی تائید کی۔اگر طالبان ایسا کرنے میں آزاد ہیں تو جس فریق کے ساتھ وہ برسرِ پیکار ہیں وہی بھی یہی مو¿قف دہرا رہا ہے ۔حکیم اللہ محسود بھی ایسی ہی کارروائی کی زد میں آگئے۔
حکیم اللہ محسود امریکہ کو تحریکِ طالبان پاکستان کے القاعدہ اور افغان طالبان کے ساتھ رابطوں کے باعث مطلوب تھا۔حکیم اللہ محسود کے بعد سب سے طاقتور کمانڈر لطیف محسود کو چند ہفتے قبل امریکی سپیشل فورسز نے افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کی حراست اس وقت چھین لیا جب وہ اسے کابل میں خفیہ ملاقات کیلئے لے جا رہے تھے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پاکستانی طالبان رہنما لطیف محسود کی گرفتاری کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان حکومت لطیف محسود کے ذریعے پاکستانی طالبان کو پاک فوج کیخلاف کارروائیوں کیلئے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ این ڈی ایس کو بھارتی ایجنسی RAW نے ٹرینڈ کیا اوروہ اسی کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے اور کس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔محسود بیک وقت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب تھے ۔ امریکہ نے انکے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر پاکستان نے پانچ کروڑ روپے لگا رکھی تھی۔
یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ ڈرون حملے اب بھی پاکستان کی مرضی سے ہی ہو رہے ہیں۔اس حوالے سے اہم ترین بیان امریکی کانگرس میں ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن ایلن گریسن کا ہے جس کی پاکستانی حکام نے تردید نہیں کی۔ انہوںنے کہا کہ ”اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل بند ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی ایئر فورس اپنی فضائی حدود پر پابندی لگا کر ڈرونز کو روک سکتی ہے۔ پاکستان کی منظوری کے بغیر اس طرح کے حملے نہیں ہو سکتے۔“ سینٹ میں ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کے جو اعداد و شمار پیش کئے وہ بھی دنیا پر ڈرون حملوں کا جواز ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔وزارت دفاع کی طرف سے سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ 2008ءسے لیکر 2013ءتک 5 سال کے عرصے میں 317 ڈرون حملے کئے گئے جن کے نتیجے میں 67 عام شہری اور 2160 شدت پسند جاںبحق ہوئے ۔ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود اور ساتھیوں کے مارے جانے کاحکومت کو تو بجا طورپر کریڈٹ لینا چاہیئے جس نے وہ مقصد حاصل کر لیا جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بھی شاید حاصل نہ ہو سکتا۔ مذاکرات کیلئے حکومت کی ظاہر ی کو ششیں بھی شاید ڈرامہ ہوں جس میں حکومت کامیاب رہی۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے طالبان کو شدید نقصان پہنچا۔ انکے اتحاد میں بھی شاید دراڑیں پڑ جائیں۔ اس کا ریاست کو اسی صورت فائدہ ہو سکتا ہے کہ حکمران ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں۔ قوم کو حکمران اتحاد، اتفاق، یکجائی اور یکجہتی کا درس دیسے ہیں جبکہ خود دو کشتیوں میںسوار ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو دوسری طرف شدت پسندوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے۔ حکمران شائد اپنی جانیں بچانے کیلئے حملے کی مذمت کر رہے ہیں۔



Thursday, October 31, 2013

ڈالرنگ ، ڈارلنگ

ڈالرنگ ، ڈارلنگ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
31 اکتوبر 20130
Print  
ڈالرنگ ، ڈارلنگ
نواز لیگ نے توانائی، دہشت گردی اور لاقانونیت جیسی ابتلاﺅں میں مبتلا ریاست کی پشت پر سواری شروع کی تو انرجی کرائسز کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا، دوسری ترجیح دہشت گردی سے نجات تھی ۔ سردیوں کا آغاز ہو چکا، کل یکم نومبر ہے۔ اکثر گھروں، کاروباری مراکز اور دفتروں کے اے سی بند ہو چکے ہیں۔ حکومت نے آتے ہی 480 ارب روپے کا گردشی قرض بھی چکا دیا تھا لیکن لوڈشیڈنگ کا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آج کی خبر ملاحظہ فرمائیے ”موسم کی صورتحال میں بہتری کے باوجود بجلی کا شارٹ فال بڑھ کر 3200 میگا واٹ سے تجاوز کر گیا۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانہ 10 سے 14 گھنٹے تک پہنچ گیا۔ این ٹی ڈی سی حکام کے مطابق مجموعی طلب 12800 جبکہ پیداوار 9500 میگاواٹ کی کم ترین سطح پر آ گئی۔“خدا نخواستہ انرجی بحران کا خاتمہ اگر پہلی ترجیح نہ ہوتا تو کیا ہوتا! دوسری ترجیح بھی اسی طرح سسک رہی ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر امریکہ سے اجازت ، برطانیہ سے آشیرباد لی جا رہی ہے۔ نواز شریف نے شام کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری وزیر داخلہ چودھری نثار کے سپرد کی تو انہوں نے جادو کی چھڑی لہرائی اور شام ڈھلے خوشخبری سُنا دی کہ ہوم ورک مکمل کر لیا‘ مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔ اُدھر مولانا فضل الرحمن کی اُچھل کود قابل دید ہے، وہ جان کیری کی موجودگی میں افغانستان گئے واپسی پر بڑے فخر سے خوشخبری سنائی ” ہم نے افغان امریکہ معاہدہ نہیں ہونے دیا۔“ اب اس دورے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اپنے کردار سے منسلک کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ فضل الرحمن ”مولوی “ نہ ہوتے تو سب سے بڑے سیاستدان ہوتے۔ ایک شاعر انڈیا گئے کسی نے انہیں غالب سے بڑا شاعر کہا تو انہوں نے یقین کر لیا۔ ایک اور شاعر کو ایران میں کسی نے حافظ شیرازی کے ہم پلہ قرار دیا تو وہ اسی زعم میں مبتلا ہو گئے۔ مولانا خود کو ”غیر مولانا“ کی شرط پوری کئے بغیر سب سے بڑا سیاستدان سمجھ رہے ہیں۔ ان کا چہرے اور سر سے کلین شیو نیا ترجمان دنیا کو شاید یہی باور کرا رہا ہے کہ ہم اتنے بھی ”مولانا“ نہیں ،آزما کر تو دیکھو۔ وہ اپنی اہمیت بڑھانے، سیاست کو چار چاند لگانے اور وزارتیں پانے کے درپے جبکہ نواز شریف انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پُل سمجھ بیٹھے ہیں۔ آج ہی حکیم اللہ محسود نے کہا ہے ” جنگ بندی ڈرون حملوں کے خاتمے سے مشروط ہے اور ڈرون حملے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔“ امریکی رکن کانگریس گرے سن نے یہی بات ذرامختلف انداز میں کہی ” ڈرون حملے غیر قانونی ہیں لیکن پاکستان کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہو سکتے ۔ میاں نواز شریف کے امریکہ کے دورے کے موقع پر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا ”دورے کا ایجنڈا ڈرون نہیں معیشت ہے۔“ یہی طالبان نے ان الفاظ میں کہا تھا ” نواز شریف ڈرون حملے بند کرانے نہیں امداد کیلئے امریکہ گئے ہیں۔“ وزیراعظم نواز شریف امریکہ سے لندن آئے تھوڑی سی ریسٹ کے بعد پاکستان تشریف لائے اور ویک اینڈ گزار کر پھر برطانیہ چلے گئے۔ جہاں فرمایا” طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے جب بھی بات آگے بڑھتی ہے کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔“ اب کیا گارنٹی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہو گا؟ فریقین مخلص ہوں تو کوئی واقعہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ مذاکرات کیلئے قوم ایک پیج پر ہے نہ فوج مذاکرات کی حامی۔ ایسے مذاکرات کا کیا آغاز ہو گا اور کیا اختتام!!۔ ان حالات میں معالات کو خوش اسلوبی سے لیکر آئے بڑھنا اور منطقی انجام تک پہنچانا ہی سیاسی قیادت کی اہلیت کی آزمائش ہے کئی حلقوں کے نزدیک اس سے حکمران عاری ہیں جس کا ثبوت ان کی خود مقررکردہ ترجیحات کا حال ہے۔ البتہ پھرتیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس میں مہارت کا آپ کو قائل ضرور ہونا پڑیگا۔ میاں نواز شریف لندن میں اور برادر خورد برلن میں پائے جاتے ہیں وہ بھی اس موقع پر والد محترم کی برسی تھی۔ کسی صحافی نے خودکار خبر لگا دی کہ 29 ستمبر کو برسی شایان شان طریقے سے رائیونڈ میں منائی جائیگی۔ جس میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی شریک ہوں گے۔ برسی شایان شان طریقے سے نہیں عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ شریف فیملی کے ہاں ابّا جی کا بدرجہ اتم احترام پایا جاتا تھا، وہ بڑے بڑے فیصلوں کو ایک ناں میں مسترد کرتے تو اس پر عمل ہوتا۔ قوم آج مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بحرانوں کا رونا روتے ہوئے واوایلا کر رہی ہے کہ نواز لیگ اپنے وعدے بھول گئی۔ عوام کا گِلہ بے جا یوں کہ جو لوگ اقتدار کی چکا چوند اور غلام گردشوں میں گم ہو کر اپنے دیوتا جیسے والد کی برسی بھول گئے ان کیلئے یہ عوام کس باغ کی مولی ہیں۔ انہوں نے تو خیر برسی کو بھلایا ہے امیر حیدر ہوتی زندہ جاوید والد اعظم ہوتی کے خلاف اے این پی کے مو¿قف کا پرچم لہرا رہے ہیں۔اے این پی کی قیادت سیاسی آلائش کی چھینٹوں سے باپ بیٹے کے رشتہ کے تقدس کو داغدار نہ کرتی تو بہتر تھا تاہم امیر حیدر مُنہ میں چوسنی نہیں عقلِ سلیم رکھتے ہیں ،اسے استعمال کر لیتے۔ انہوں نے گھر کے کپڑے سرعام دھونے کا فیصلہ نجانے کیا سوچ کر ہی کیا۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر نواز شریف صاحب کا مشیر خاص کون ہے؟ وہ کس کی مانتے ہیں کہ معاملات سلجھانے کا سرا ہاتھ نہیں آرہا۔ جواب عجب طرح کے ملتے ہیں۔ ایک نے اہلیت کو موضوع بنایا کہ موجودہ وسائل کو بروئے لا کر بحرانوں کے خاتمے کو ہی اہلیت و قابلیت کہتے ہیں، ٹیکس لگا کر مال دولت جمع کر کے تو نتھوخیراامور چلا لے گا لیکن یہاں تو بے تحاشا ٹیکس لگا کر بھی کہیں ریلیف نظر نہیں آتا۔ کسی نے کہا آجکل میاں صاحب کے سو رتن ہیں نہ نو رتن، ان کے تین دُلارے اور پانچ پیارے بھی نہیں البتہ سات ستمگرضرور ہیں لیکن ان کا میاں صاحب کو گائیڈ یا مس گائیڈ کرنے میں کوئی ہاتھ نہیں۔ میاں صاحب کیلئے آج ایک ہی شخص سقراط، بقراط اور افلاطون ہے۔ اوپر کارسازِزمانہ ربّ پروردگار اور نیچے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہے۔ڈار صاحب کی طبیعت میں ڈالرنگ کا عنصر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، قرض دینے والے ممالک اور اداروں کے لئے وہ ڈارلنگ ہیں۔عوام ڈالرنگ اورڈارلنگ کے درمیان پس سے گئے ہیں۔ اگر میاں صاحب اسحاق ڈار کے سحر سے باہر نہ آئے تو نواز لیگ کی سیاست مزید نفرت کا نشانہ بن سکتی ہے۔ شاید اسی خوف سے بلدیاتی انتخابات کے غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد کیلئے کمر باندھ رکھی ہے۔ کل مشرف کی غازی عبدالرشید کیس میں ضمانت  پرسوں ملک سے پُھر ہونے کا بھی امکان ہے ۔

Tuesday, October 29, 2013

حصار اور حفاظت

حصار اور حفاظت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
29 اکتوبر 20130
حصار اور حفاظت
سر تا پا سیاہ برقعوں میں ملبوس تین خواتین جس انداز سے پارک میں داخل ہوئیں اس پر توجہ کا مرکوز ہونا فطری امر تھا۔ چھوٹی سی پارک کی آج کل ایک ہی انٹرنس ہے۔ پارک میں صبح دسیوں لوگ سیر کیلئے آتے ہیں ان میں خواتین مردوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتیں۔ سرسبز پارک کے گرد چار سو میٹر کاچار پانچ فٹ چوڑا کچا ٹریک ہے جس پر سیر، واک یا جوکنگ کرنے والے ایک ہی سمت چلتے ہیں۔ ڈونگی پارک میں اُترتے ہی لوگ ٹریک پر رواں ہو جاتے ہیں۔ یہ خواتین اس کے برعکس گراﺅنڈ کے اندر داخل ہوئیں۔ یہ عید کے چوتھے روز صبح چھ سوا چھ بجے کا واقعہ ہے۔ ابھی سورج نے اپنی کرنیں نہیں بکھیریں تھیں، گھاس پر اوس کے قطرے موتیوں کی طرح موجود تھے۔ یہ عورتیں گھاس پر چند قدم چلتے ہوئے رکیں، اپنے نقاب اٹھائے تو چہرے برقعے جیسے کالے کپڑے سے سوائے آنکھوں کے ڈھانپے ہوئے تھے ۔انہوں نے ایک ہی ایکشن میں نقاب اٹھایا اورپلک جھپکتے میں پھر گرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی گراﺅنڈ کے بیچوں بیچ چلنا شروع کر دیا۔ اس پارک کے کبھی دو داخلی راستے ہُوا کرتے تھے، دوسرا حافظ سعید کی سکیورٹی کے باعث بندجزوی طورپر کر دیا گیا۔ اس انٹرنس کے ساتھ ہی مسجد توحید اور اس کے ارد گرد کہیں حافظ صاحب کا گھر ہے۔ جس کے گرد 2008ءکے ممبئی حملوں اور اس کا الزام حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں پر لگائے جانے کے بعدسکیورٹی ٹائٹ کرتے ہوئے پولیس تعینات کر دی گئی۔ حافظ صاحب کو نظر بندی کی صورت میں ان کا سرکاری عوضانہ،اعزازیہ یا خرچہ مقرر کر کے شاید یہیں رکھا جاتا ہے۔ پولیس کی اس پبلک پارک پر بھی نظر ہوتی ہے۔ پولیس سیر کیلئے آنے والوں کے معمولات میں مخل نہیںہوتی۔ ۔۔چند منٹ یہ خواتین مسجد کے سامنے کھڑی رہیں اور پھر چل دیں۔ یہ کوئی غیر معمولی باتنہیں تھی اس کا سیر کرنے والوں نے اگر نوٹس بھی لیا تو وہ سرسری سا تھا۔ وہ جس راستے سے داخل ہوئیں وہاں پہنچنے والی تھیں کہ پارک میں ایک ہلچل سی محسوس ہوئی، چند لمحوں بعد دیکھا کہ ایک بندوق بردار پولیس اہلکار اور ایک سول کپڑوں میں ملبوس نوجوان ان کی طرف بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی طرف متوجہ دو معززین نے بتایا کہ خواتین مسجد کی فوٹو گرافی کر رہی تھیں ان کے ساتھ دو مرد بھی تھے۔ پولیس اہلکار کے ساتھ جانے والا نوجوان جماعت الدعوة کا مجاہد تھا۔ انہوں نے اس قافلے کو روکا تو انہوں نے بتایا کہ وہ قریب ہی رہتے ہیں، کرائے کے گھر میں منتقل ہوئے دو تین ماہ ہوئے ہیں۔ ہم لوگ جہاں سیر کے لئے آئے تھے بچی نے اگر تصویر بنا لی ہے تو کیا ہُوا۔ یہ دونوں حضرات باریش تھے۔اس وقت تک مزید پولیس اہلکاراور ذمہ دار بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ پتہ چلا کہ موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو ڈیلیٹ کر دی گئی اور ان کو جانے دیا گیا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ پہلے یہ دو حضرات پارک میں داخل ہوئے، انہوں نے کلیرنس دی تو خواتین آگے بڑھیں۔ اس پارک سے عید سے قبل بھی ایک مشکوک شخص پکڑا گیا تھا۔
حافظ سعید کا بھارت کو مطلوب شخصیات کی فہرست میں سب سے اوپر نام ہے، وہ کشمیر میں حریت پسندی کو دہشت گردی کا نام دیکر اس میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس نے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان، آئی ایس آئی، حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں پر ڈالی تھی۔ بھارت نے دنیا میں اس حوالے سے اس قدر واویلا کیا کہ امریکہ جیسا ملک بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اس نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورے کے موقع پر خود صدر اوباما نے بھارتی مو¿قف کی تائید اور وکالت کرتے کی۔ سینیئر امریکی حکام نے کہا کہ حافظ سعید کے بارے میں پاکستان کو ٹھوس ثبوت دے دئیے ہیں۔ پاکستان جماعة الدعوة پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کا احترام کرے۔
بھارت حافظ سعید کی سانسوں سے بھی خائف اور ان کو چھین کیلئے سرگرداں ہے، اس کی ایجنسیاں حافظ صاحب کے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔ حافظ صاحب تک رسائی میں ناکام رہیں تو جماعةالدعوہ کے فعال رہنما خالد بشیر کو رواں سال مئی کے وسط میں لاہور سے اغوا کیا اورسفاکانہ طریقے سے قتل کر کے نعش شیخوپورہ نہر میں پھینک دی۔ان کے ناخن کھنچے ہوئے ، ہڈیاں ٹوٹی ہوئیںاور آنکھوں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔قاتل گرفتار ہوئے۔ تحقیق اور تفتیش سے ثابت ہُوا کہ قتل کا ماسٹر مائنڈ دبئی میں اور پلاننگ ”را“ نے کی تھی۔ ”را“ جیسی ایجنسیاں ایسی کارروائیاں کرتی رہتی ہیں لیکن جو کچھ سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے کیا ایسا کوئی فوج نہیں کرتی۔ وی کے سنگھ نے حافظ سعید تک رسائی کیلئے فوج میں”ٹیکنیکل سروسز ڈویژن“ کے نام سے ایک یونٹ بنایاتھا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سابق آرمی چیف وی کے سنگھ کی جانب سے 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بنائے جانے والے انٹیلی جنس یونٹ (ٹیکنیکل سروسز ڈویژن) نے حافظ سعید کے قریبی ساتھیوں تک رسائی کے لئے پاکستان میں تعلقات قائم کررکھے تھے اور اس یونٹ نے پاکستان میں کئی خفیہ آپریشنز بھی کئے۔ سابق بھارتی آرمی چیف کا کہناہے کہ ہم حافظ سعید تک پہنچنے والے تھے کہ وہ یونٹ ختم کر دیا گیا۔ یہ یونٹ موجودہ بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ان الزامات پر توڑا کہ اس میںکرپشن ہوئی ۔ سابق آرمی چیف کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔
اوباما نے حافظ سعید اور جماعت الدعوة کے خلاف پابندیوں کی بات بغیر تحقیق کے کر دی، شاید بھارت کو خوش کرنا مقصود تھا۔ عالمی سطح پر حافظ سعید اور ان کے متعدد ساتھیوں پر پابندی ہے، ان کی جماعت کے اکاﺅنٹس نہیں کھل سکتے، اسلحہ لائسنس کا اجرا ممنوع اور ٹریولنگ پر پابندی ہے۔ پاکستان میں بھی ان عالمی پابندیوں کا اطلاق ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جماعت الدعوة کو دینی جماعت قرار دیا گیا ہے اس رو سے اسے اجتماعات اور فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت بھی ہے۔ بہرحال حکومتی اور جماعتی سطح پر حافظ سعید کی ممکنہ حد تک حفاظت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھارت کی تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ بھارت نے زیادہ زور دیا تو امریکہ شاید ڈرون برسانے پر آمادہ ہو جائے۔ پاکستان کی طرف ایسا اقدام ہضم نہ ہونے کے خدشے کے باعث شاید امریکہ بھارت کی محبت میں اس حد تک نہ جائے۔ بھارت البتہ دیگر ذرائع استعمال کر سکتا ہے اور یقیناً کر بھی رہا ہو۔
آج دنیا کی چار ارب میں سے ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے اگر غداری کا عنصر مائنس ہوتا تو بلاشبہ آج یہ آبادی نصف سے زیادہ ہوتی۔ حافظ صاحب کا حفاظتی حصار بڑا مضبوط ہے ۔دشمن اس میں نقب لگانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔ غداروں کی خدمات کے بغیر دشمن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جماعت الدعوة کو حفاظتی حصار کی ایک ایک اینٹ پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔