About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, May 31, 2012

شہدائے گیاری سیکٹر


 جمعرات ، 31 مئی ، 2012

شہدائے گیاری سیکٹر
فضل حسین اعوان ـ
پاک فوج نے گیاری سیکٹر سیاچن کے محصورین برف کو شہید قرار دیدیا۔ یہ فیصلہ بڑے کرب و درد اور فخر کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ کیا گیا۔ فوج کے مطابق سانحہ کی نوعیت، شدت اور حالات کے باعث وہاں کسی فوجی کے زندہ ہونے کا امکان نہیں۔ فوج نے ان محصورین برف کو تمام مکتبہ فکر کے علماءکی مشاورت کے بعد شہید قرار دیا۔ گیاری سیکٹر میں 7 اپریل 2012ءکو 139 فوجیوں پر ایک مربع کلو میٹر کا 80 فٹ اونچا تودا گر گیا تھا۔ اب فوج نے بتایا ہے کہ دبنے والوں کی تعداد 140 تھی۔ پوری دنیا کی ماہر ٹیموں کی مدد و معاونت سے پاک فوج کے سپوتوں کو برآمد و بازیاب کرنے کی اپنی سی تگ و دو کی۔ سانحہ کو دو ماہ ہونے کو ہیں کہ صرف تین شہدا کی نعشیں مل سکی ہیں تاہم فوج آخری سپاہی کو بازیاب کرانے تک امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہے۔ 
سیاچن برف سے ڈھکی چوٹیوں اور یخ بستہ وادیوں کی روح پرور اور پاکیزہ سرزمین ہے جو بھارت کی جارحیت اور توسیع پسندانہ مذموم عزائم کے باعث گدلا اور گدرا رہی ہے، اس کا ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ جنرل کیانی نے سیاچن گلیشیرز کو دریاوں کی خوراک قرار دیا ہے جو بھارت کی خودسری و سرکشی کے باعث برباد ہو رہی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے اس علاقے پر اپریل 1984ءمیں قبضہ کیا اس کے بعد سے وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کا عزم لئے ہمارے 4 ہزار فوجی اپنی جانیں نچھاور کر چکے ہیں۔ کچھ مدمقابل فوج کے ساتھ مقابلے میں جان جانِ آفریں کے سپرد کر گئے اکثر موسم کی شدت کی نذر ہو گئے۔ بہرحال سیاچن میں ہر فوجی کی شہادت کا ذمہ دار بھارت ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر 10 لاکھ مسلمانوں کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟ وہی بھارت جس کے پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ناپاک منصوبوں میں کبھی کجی و کمی نہیں ہوئی، مقبوضہ کشمیر میں اس کی ساڑھے سات لاکھ سفاک سپاہ لاکھوں کشمیریوں کو خاک اور خون میں ملا چکی ہے۔ معصوم بچوں اور خواتین سمیت کوئی بھی کشمیری بھارتی فوج کی ظالمانہ و جابرانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ اقوام متحدہ کو بھی اعتراف ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ وادی میں ہوتی ہیں اور پھر اس دشمن اسلام اور پاکستان کے علاقہ سیاچن پر قبضہ اور شاہراہ ریشم تک پہنچنے کی جستجو --- پاکستان کی طرف سے بروقت اقدامات نہ کئے جاتے تو بھارتی افواج کے ناپاک قدم سیاچن میں ہر برفیلی چوٹی تک پہنچ چکے ہوتے۔ برف پوش پہاڑوں اور یخ بستہ، پُرسکون و خاموش وادیوں کو محاذ جنگ میں بدل کر بارود کی بُو بھارت نے پھیلائی۔ قبل ازیں یہی دشمن سرکریک، جوناگڑھ، مناوادر اور حیدر آباد دکن کو اپنے مقبوضات میں شامل کر چکا تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی ناقابل فراموش ہزیمت بھی اسی کی خباثت ہے۔ بلوچستان اور فاٹا میں اس کے افغانستان میں موجود قونصل خانے بدامنی اور شورش کی آگ بھڑکائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ہر حصے میں اس کی دہشت گردی، تخریب کاری کے زندہ ثبوت کشمیر سنگھ اور سربجیت سنگھ جیسے ہزاروں ’را‘ کے تربیت یافتہ غنڈے ہیں۔ ازلی و ابدی دشمن کے پاکستان دشمنی پر مبنی منصوبے، سازشیں اور اقدامات کے پیش نظر ہر محب وطن پاکستانی کے روئیں روئیں سے انتقام ، انتقام اور انتقام کی صدا آتی ہے۔ بدقسمتی سے جن کے ہاتھ میں قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار ہے وہ اور ان کے کاسہ لیس اسی دشمن سے انعام، انعام اور انعام کے طلبگار و خواستگار ہیں۔ اسی دشمن سے تجارت جاری ہے، تعلقات کو مزید بلندیوں پر لے جایا جا رہا ہے۔ دوستی اور پیار کی خواہش، والہانہ پن اور وارفتگی کی حسرت انتہاوں کو چُھو رہی ہے۔ ہمارے ہی خون سے کشید کی ہوئی بجلی مہنگے داموں خریدنے کی بے قراری ہے۔ اب بھارت کی پٹرولیم مصنوعات پسند آ گئی ہیں، بھارت خود ایسی مصنوعات کا محتاج ہے پاکستان کو کیا دے گا۔ بلور بھارت کو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ساتھ کنفیڈریشن میں پرونے کے متمنی ہیں، اس میں اکھنڈ بھارت کی تکمیل کی آرزو چھپی محسوس ہوتی ہے۔ 
بھارت کے ساتھ سرنگوں کر کے معاہدے، تجارت، تعلقات، دوستی اور اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے اقدامات! کہاں گیا ہمارا دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے کا عزم، کہاں گیا ہمارا قومی وقار اور تفاخر؟ کیا یہ سب تحریک آزادی، کشمیر، پاکستان بھارت جنگوں اور سب سے بڑھ کر سیاچن گیاری سیکٹر کے شہدا کے خون کے ساتھ غداری نہیں؟ اگر غداری ہے تو غدار کون ہے؟ کیا قوم یا فوج کا ہاتھ ان غداروں کے گریبانوں تک پہنچے گا؟ پہنچے گا تو کب؟ جب بچنے اور بچانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا؟ 
جب تک برف تلے دبنے والوں کی زندگی کی موہوم سی بھی امید تھی‘ ہم نے انہیں غازی سمجھا اور شہید قرار نہ دیا۔ اب جبکہ گیاری کے محصورین برف کو شہید قرار دیدیا گیا ہے۔ ان کے لئے قوم کو کسی جمعہ کے روز یومِ دعا منانا چاہئے جس کا اعلان حکومت فوج کے مشورے سے کرے۔ اس دن کو کوئی یومِ سوگ یا یومِ افسوس کہہ لے۔


Tuesday, May 29, 2012

یوم تکبیرقومی دن کیوں نہیں؟


منگل ، 29 مئی ، 2012

یوم تکبیرقومی دن کیوں نہیں؟
فضل حسین اعوان ـ
یوم پاکستان 23مارچ اور یوم آزادی 14اگست کے بعد پاکستانیوں کے لئے یوم تکبیر 28 مئی ایک بڑا، قابل تفاخر اور عظیم الشان دن ہے۔ 23مارچ 1940ءکو قرار داد پاکستان پیش اور منظور ہوئی۔ اسی قرار داد کی کوکھ سے 14اگست 1947ءکو عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت پاکستان نے جنم لیا۔ 28مئی 1998ءکو پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہوا۔ دنیا میں سب سے بڑی اسلامی مملکت ہونے کے ناطے مملکت خداداد کو دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہر مسلمان اسلام کا قلعہ قرار دیتا تھا۔ 16دسمبر1971ءکو غیروں کی سازش، کچھ اپنوں کی غداری اور کچھ کی نالائقی سے پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے تو وہ قلعہ بھی زمین پر آ گرا جسے ہر خطے کا مسلمان اسلام کا قلعہ سمجھتا تھا۔ غیروں کی سازشیں بدستور جاری رہیں۔ غداران ملک و ملت بھی موجود رہے۔ اقتدار کے ایوان نااہلیت سے کبھی خالی نہیں ہوئے لیکن اب ان سب میں تال میل بھی ہو جائے تو بھی سازشیں اس حد تک پنپ نہیں سکتیں کہ بچے کھچے پاکستان کو 16دسمبر1971ءجیسے نقصان سے دو چار کر سکیں۔ اس کا سبب پاکستان کا ناقابل تسخیر دفاع ہے جو 28مئی 1998ءکو پاکستان کے اعلانیہ ایٹمی قوت بننے پر ہوا۔ یقینا 28مئی کی یوم پاکستان اور یوم آزادی کی طرح اہمیت و حیثیت ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی طرف سے ایٹمی پروگرام کی ابتداءپاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ایک قابل فخر اور شاندار کارنامہ ہے۔ذوالفقار علی بھٹو یقینا پاکستان کے ایٹم بم کے بانی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کے معمار اور پاکستان کو عالم اسلام کی اعلانیہ ایٹمی قوت بنانے کا سہرا میاں محمد نواز شریف کے سر ہے جنہوں نے ہر دباﺅ اور لالچ کو مسترد کرکے بھارت کے 11مئی کے پانچ دھماکوں کے جواب میں سات دھماکے کرکے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دنیا کے ہر مسلمان کے لئے اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر 28مئی 1998ءکے دھماکوں کے دن تک ہر پاکستانی حکمران خراج تحسین کے لائق ہے۔ جنرل محمد ضیاءالحق، بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور غلام اسحق خان اور ان کے ساتھیوں کے دامن پر کرپشن، جمہوریت کوریل ڈی ریل کرنے، جیسے داغ اور الزامات تو ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایٹمی پروگرام پر کسی لمحے بھی کمپرومائز نہیں کیا۔ تا آنکہ پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔
پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا ایک کٹھن منزل تھی جسے سر کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءالحق اور نواز شریف کا اقتدار گیا۔ اوّل الذکر دو کی جان بھی جاتی رہی نواز شریف کی جان خوش بختی سے بچ گئی۔ یوم پاکستان اور یوم آزادی کی سی اہمیت کے حامل یوم تکبیر کو ہمارے سیاستدانوں اور جمہوریت دانوں نے فراموش کرکے رکھ دیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اس دن کو بھی قومی دن کے طور پر اپنایا جائے۔ ایسا کرنے میں کوئی مشکل بھی نظر نہیں آتی۔ مرکز سندھ اور بلوچستان میں ذوالفقار علی بھٹوکی پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے خیبر پی کے میں اس کے اتحادیوں کی حکمرانی ہے۔ پنجاب پر میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن پر جاپت پرجاپال و پرجاپالک ہے۔ افسوس صد افسوس کہ پورے ملک میں پنجاب سمیت یوم تکبیر کو شایان شان طریقے پر منانے کا کوئی سرکاری اہتمام نہیں کیا گیا۔ یوم تکبیر آیا، قومی و سرکاری سطح پر اپنی عدم پذیرائی پر حیراں ہوا اور مسافر پریشاں کی طرح گزر گیا۔ اگلے سال پھر یقینا آئے گا شاید اپنے راستے میں کہکشاں بچھائے جانے کی امید لے کر۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اکابریں کی برتھ ڈے اور برسیاں بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر سندھ میں تعطیل بھی کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کسی سیاسی شہید کی عدم دستیابی کے باعث 12اکتوبر پر یوم سیاہ کا انتظام کرتی ہے لیکن دونوں پارٹیاں یوم تکبیر پر خاموش رہتی ہیں حالانکہ یہ دونوں پارٹیوں کی قیادت کے لئے بہترین خراج تحسین کا دن ہے۔ قومی دن منانے کے لئے تعطیل کی ضرورت نہیں۔ تعطیلات قوم پہلے ہی ضرورت سے زیادہ کر رہی ہے۔ یوم تکبیر سادہ تقریبات، قرآن خوانی و سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لئے دعاﺅں کی محافل سجا کر بھی منایا جا سکتا ہے۔ 1999ءمیاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد یوم تکبیر نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہر سال شایان شان طریقے سے مناتا چلا آ رہا ہے۔ سیاستدانوں کو اس سے ہی کوئی سبق سیکھ کر سرکاری سطح پر منانے کا عہد و پیمان اور انتظام کرنا چاہئے۔ گذشتہ روز میاں نواز شریف نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی یوم تکبیر کی تقریب کے دُلہا تھے۔ اس موقع پر پورے پنجاب کو جشن مناتے ہوئے باراتی ہونا چاہئے تھا۔ امید ہے کہ حکومتی و غیر حکومتی سیاستدان اگلے سال یوم تکبیر قومی دن کے طور پر منانے کا اہتمام فرما دیں گے۔ یوم تکبیر زندہ باد.... پاکستان پائندہ باد!


Sunday, May 27, 2012

دہری شہریت


 اتوار ، 27 مئی ، 2012

دہری شہریت
فضل حسین اعوان ـ
فرح ناز اصفہانی کے آباﺅ اجداد اصفہان ایران سے پاکستان منتقل ہوئے ہوں گے۔ خود ان کی پیدائش کراچی کی ہے۔ ان کے خاوند حسین حقانی پاک فوج کی قیادت کے خلاف جال بننے کا انکشاف ہونے تک امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے۔ ان کی اچھل کود، بازیوں اور قلابازیوں کے باعث پاکستان میں ایک حلقہ موصوف کو امریکہ میں پاکستان کی بجائے امریکہ کا سفیر ہی قرار دیتا تھا۔ آج ان کا فوج اور عدلیہ کے خلاف اگلا جانے والا زہریلا پراپیگنڈہ بھی یہی ثابت کرتا ہے حقانی محترم سفارتکاری کے دوران فوج سے اظہار بیزاری اور سفارتکاری چھن جانے کے بعد عدلیہ پر سنگ باری کر رہے ہیں۔ ان کی سفارتکاری کے دوران ہر تیسرا کالم نگار میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کی بنیاد پر حسین حقانی کی دہری شہریت پر اپنے اپنے طور پر تبصرہ کر رہا تھا تو حقانی صاحب شاید نیند سے ہڑ بڑا کر اٹھے یا کسی کے پٹاخہ چھوڑنے پر نشہ ہرن ہوا تو برادرم اجمل نیازی کو ہرجانے کا نوٹس بھجوانے کی وارننگ دیدی۔ گویا دہری شہریت کو اپنے لئے گالی تصور کیا۔ اب سپریم کورٹ نے ان کی اہلیہ محترمہ کے بیک وقت پاکستانی و امریکی شہری ہونے کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ فرح ناز اصفہانی امریکہ میں پہلے پاکستانی سفیر مرزا ابوالحسن اصفہانی کی پوتی ہیں۔ فرح ناز کا بڑا پن یہ ہے کہ انہوں نے دہری شہریت کا بغیر کسی بہانہ بازی اور حیلہ سازی کے اعتراف کیا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ خالصتاً سیاستدان نہیں ایک صحافی بھی ہیں۔ تاہم یہ معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لانے کا اعزاز ہماری کالم نگار محترمہ طیبہ ضیاءکو حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اصفہانی سے زیادہ حقانی اور ان سے بھی زیادہ زرداری وگیلانی کے مشیران بیانی جھکڑ اور طوفانی چکر چلا رہے ہیں۔ حقانی کا سوال ہے کہ دیگر بہت سے ارکان پارلیمنٹ بھی دہری شہریت کے حامل ہیں تو رکنیت صرف اصفہانی کی کیوں معطل کی گئی ہے؟ ماہرین اس کے جواب میں کہتے ہیں عدلیہ نے دوسروں کو ریلیف تو نہیں دیا کہ ان کی اہلیہ کو بھی دیا جائے؟ دیگر ارکان کی حقانی صاحب دہری شہریت ثابت کریں۔ عدلیہ نوٹس نہ لے تو عدلیہ پر تنقید جائز ہے۔ 
آگے چلنے سے قبل ایک نظر امریکی و برطانوی شہریت کے حلف نامے پر ڈال لیجئے۔ 
امریکی شہریت کا حلف: میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں امریکی شہریت اختیار کرنے کے بعد امریکہ کے علاوہ کسی بھی ملک، حکومت یا ریاست کے ساتھ کسی قسم کی وابستگی نہیں رکھوں گا اور یہ کہ میں کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت سے دستبردار ہو جاﺅں گا۔ یہ کہ میں امریکی ریاست، آئین اور قانون کا اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے تحفظ کروں گا اور ان کا ہر قیمت پر دفاع کروں گا۔ یہ کہ میں امریکی ریاست، آئین اور قانون کا ہمیشہ وفادار رہوں گا۔ یہ کہ میں قانون کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ کے دفاع اور تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھاﺅں گا۔ یہ کہ میں قانون کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکی افواج میں غیر فوجی خدمات کی ادائیگی کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوں گا۔ یہ کہ میں سول حکومت کی ہدایت پر ہر قسم کا قومی فریضہ سرانجام دینے کے لئے دستیاب ہوں گا۔ یہ کہ میں بقائمی ہوش و حواس اپنی آزادانہ مرضی سے یہ حلف اٹھا رہا ہوں اور اس حلف کے مندرجات سے پہلو تہی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ خدا میرا حامی و ناصر ہو۔ 
برطانوی شہریت کا حلف: میں پوری سنجیدگی اور خلوص نیت سے حلف اٹھاتا ہوں کہ برطانوی شہریت اختیار کر کے میں برطانوی قوانین کی پاسداری میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم اور شاہی خاندان کا وفادار رہوں گا۔ میں برطانوی ریاست کا وفادار رہوں گا اور اس کے حقوق و فرائض اور آزادی کی عزت، حفاظت اور احترام کروں گا۔ میں برطانیہ کی جمہوری روایات کو مقدم اور سربلند رکھوں گا۔ برطانوی شہری کی حیثیت سے میں برطانوی قوانین پر مکمل عملدرآمد کروں گا اور اپنے فرائض غفلت کا مرتکب نہیں ہوں گا۔ 
وزیر اعظم گیلانی توہین عدالت کیس میں زخم خوردہ اٹارنی جنرل جناب عرفان قادر کا فرمان ہے کہ امریکی شہریت کا حلف لینے والے پاکستانی یہ حلف مجبوراً اٹھاتے ہیں۔ ان کی ہمدردیاں تو پاکستان کے ساتھ ہیں.... اب دیکھئے کہ ان پاکستانیوں کی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کی کیا مجبوری ہو سکتی؟ ان کے سر پر کسی نے تلوار لہرا ، کرپان لٹکا رکھی ہے کہ حلف اٹھاﺅ ورنہ تلوار گردن پر چلے گی! چلو امریکی و برطانوی شہریت مجبوری ہے یہ عام پاکستانی کی مجبوری تو ہو سکتی ہے حکمرانوں کی کیا مجبوری ہے؟ ارکان پارلیمنٹ کی کیا مجبوری ہے؟
حلف ایک قسم ہے جس طرح کسی کے دو خدا نہیں ہو سکتے اسی طرح بیک وقت دو ملکوں سے وفاداری کا حلف بھی نہیں دیا یا لیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے درست کہا رکن پارلیمنٹ صدر اور وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں اس کی امریکہ و برطانیہ سے وفاداری کی قسم اٹھانے پر پاکستان سے وفاداری کی کیا حیثیت ہو گی؟ وزیر داخلہ رحمن ملک برطانیہ کی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ لانے کے لئے اس طرح چکر چلا رہے جس سے ان کی پارٹی وزیر اعظم گیلانی کا کیس کم از کم آئندہ انتخابات تک لٹکانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ سپریم کورٹ نے بالکل درست ایکشن لیا ہے۔ پارلیمنٹ یا کسی بھی سرکاری عہدے پر دہری شہریت والا ایک بھی فرد نہیں ہونا چاہیے۔ 
ضروری ہے کہ پاکستانی صرف پاکستانی ہو۔ ایک ہی وقت میں پاکستانی اور امریکی و برطانوی نہ ہو۔ حکومت پاکستان میں کرتے ہیں جا کر بیرون ملک مرتے ہیں، دفن پاکستان کرنے کی وصیت کی ہوتی ہے۔ کیا پاکستان صرف حکمرانی اور قبرستانی کے لئے رہ گیا ہے۔ دوہری شہریت والوں کے لئے اگر صرف پاکستان کی شہریت رکھنے کا قانون نہیں بن سکتا تو یہ قانون آسانی سے بن سکتا ہے کہ مرنے کی صورت میں دوہری شہریت والے اس ملک میں دفن ہوں جس کی شہریت لے رکھی ہے۔

Thursday, May 24, 2012

اردگان کی بھی سنیں


جمعرات ، 24 مئی ، 2012

اردگان کی بھی سنیں!
فضل حسین اعوان ـ
عالمی قوتیں Might is Right یعنی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مقولے پر عمل پیرا ہیں اور یہ کلیہ پاکستان جیسے ممالک میں بڑی کامیابی سے آزما رہی ہیں۔ امریکہ کو افغانستان پر چڑھائی کے لئے پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی جو جنرل پرویز مشرف نے بڑی آسانی سے فراہم کر دیا۔ اس کے بعد نیم جمہوری اور پھر موجودہ مکمل جمہوری حکومت وجود میں آئی لیکن پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جنجال اور جال میں پھنستا اور مسائل و مصائب کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ 
ترک وزیراعظم طیب اردگان نے پاکستان کے تین روزہ دورہ کے دوران اپنے تجربات کی روشنی میں پاکستانی سیاستدانوں کو کچھ معاملات میں بالکل واضح اور کچھ میں اشاروں کنایوں میں مشورے دئیے اور کچھ رموز سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو جمہوریت کی اہمیت اور اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ اپوزیشن کو احساس دلایا کہ اس کا کام حکومت گرانا نہیں حکومت کی اصلاح کرنا ہے۔ حکمرانوں کو بھی باور کرایا کہ وہ بھی شعور کے مطابق اندازِ حکمرانی اپنائیں۔ ترک بھی ہماری طرح تین مارشل لاوں کے زیر عتاب اور زیر عذاب رہے۔ وہاں ایک جمہوری وزیراعظم عدنان مندریس کو جرنیلی حکومت نے پھانسی پر چڑھایا تو پاکستان میں بھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جرنیلی آمریت نے تختہ دار تک پہنچایا۔ فوج نے پس پردہ رہ کر نجم الدین اربکان کو وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنے پر مجبور کیا تو یہاں بھی 1993ءمیں اُسی طریقے سے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا۔ طیب اردگان نے درست کہا کہ جمہوریت آسانی سے نہیں ملتی۔ اس کا طیب اردگان کو احساس بھی ہے اور وہ جمہوریت کی آبیاری کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ اقتدار کے لگاتار اور تیسری بار شہسوار ہیں۔ ہمارے ہاں پہلی ٹرم شروع ہوتے ہی حکمرانوں کی ناہنجاری ہر ادارے کی بیماری اور عوامی بیزاری کا باعث بن گئی۔ اب معاملات اس نہج پر ہیں کہ جمہوریت چراغِ سحر معلوم ہوتی ہے۔ آج بُجھا کہ ابھی بُجھا۔ ہمارے سیاستدان شجرِ نوبہار کی اسی شاح کو کاٹ رہے ہیں جس پر خود بیٹھے ہیں۔ شاید طیب اردگان کی کوئی بات ان کے پلے پڑ گئی ہو اور اب کچھ وقت جمہوریت کی بقا، عوامی فلاح کے لئے بھی نکال لیں۔ 
طیب اردگان مائٹ از رائٹ کا اپنے الفاظ میں ”طاقت ور ہمیشہ درست“ کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ، ثابت کرنا ہو گا کہ ”طاقت ور ہمیشہ درست“ مفروضہ غلط ہے۔ وہ تو ثابت کر چکے ہیں۔ جس طرح کا تعاون جنرل پرویز مشرف سے مانگا گیا اُسی طرح کا امریکہ نے عراق پر حملہ کے لئے ترکی سے بھی مانگا تھا۔ ترکی کے عراق کے ساتھ اپنے بھی تنازعات ہیں لیکن اس نے امریکہ کو فوجی اڈے دئیے نہ کرائے پر فوجی دئیے۔ امریکہ اپنا ماز از رائٹ کا اختیار اور حق ذہن اور زمین کی زرخیزی دیکھ کر ہی استعمال کرتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ زرخیزی کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ طیب اردگان نے گو نیٹو سپلائی کی بحالی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ساتھ یہ بھی باور کرا دیا کہ اس مفروضے کو غلط ثابت کرنا ہو گا کہ طاقت ور ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ 
آج ہمارا سب سے بڑا درد ڈرون حملے ہیں جو بچوں اور عورتوں سمیت 3 ہزار افراد کی جان لے چکے ہیں۔ امریکی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں صرف اڑھائی تین فیصد مطلوبہ لوگ تھے باقی سب معصوم افراد موت کے بے رحم پنجوں میں جکڑے گئے۔ 5 ہزار عساکر اور 35 ہزار سویلین اس نامُراد جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں ان میں سے اکثر ڈرون حملوں کے ردعمل میں پروا ن چڑھنے والے خودکش بمباروں کے اشتعال کی نذر ہوئے۔ پاکستان کی طرف سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے ردعمل میں نیٹو سپلائی بند کی گئی تو ایک اُمید کی شمع جلتی محسوس ہوئی کہ اب اس خوفناک جنگ سے چھٹکارا ممکن ہے جس کے سائے موت بن کر ہر پاکستانی کے سر پر منڈلا رہے تھے لیکن اب وہ اُمید دم توڑ گئی ہے اور اُمید کی شمع بُجھا چاہتی ہے۔ امریکہ سے بھی بڑھ کر ہماری قیادتیں سپلائی بحالی کے اعلان کے لئے بے قرار نظر آتی ہیں --- ہاں اعلان کے لئے، عملی طور پر تو سپلائی بحال ہو چکی ہے۔ اعلان قوم کے اشتعال‘ اُبال اور اپنے زوال سے بچنے کے لئے نہیں کیا جا رہا۔ اس کے باوجود بھی اُمید کی جانی چاہئے کہ طیب اردگان کی باتوں، ان کے کردار اور جراتِ اظہار کا ہمارے حکمران پر اثر ہوا ہو گا۔ زرداری صاحب امریکہ سے واپس تشریف لائیں گے تو پوری قیادت مل بیٹھ کر طاقت ور ہمیشہ درست کے فارمولے کو غلط ثابت کرنے کا کوئی لائحہ عمل اپنائے گی۔ خدا نہ کرے کہ طیب اردگان کا دورہ‘ ان کے مشورے اور کہا سُنا بھینس کے آگے بین ثابت ہو۔


Sunday, May 20, 2012

امن کی لاشیں


 اتوار ، 20 مئی ، 2012


امن کی لاشیں
فضل حسین اعوان
وہ بدنصیب باپ جس کے نصیب میں ارضِ پاک پر سجدہ ریز ہونا نہیں لکھا تھا اپنے لختِ جگر کا کٹا سر اُس کے دھڑ سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا پورا خاندان اس کی آنکھوں کے سامنا کٹا، بیٹے کے قتل پر تنہا رہ گیا تو شاید پاگل ہو گیا تھا۔ اتنے میں خودسر قاتلوں کا قافلہ نمودار ہوا تو ہزار لاشوں کے ڈھیر میں ایک کا مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ اب ایک دوسرے کے قریب دو سر اور دو دھڑ پڑے تھے۔ باپ بیٹے کے دھڑ اور سر۔ بیٹے کی آنکھیں باپ نے بند کر دی تھیں باپ کی کھلی آنکھیں آسمان کی طرف بارگاہِ الٰہ میں فریاد کناں تھیں کہ الٰہی میرا قصور کیا تھا؟ --- بچے کی عمر کیا تھی؟ یہ بحث لاحاصل ہے۔ کسی کے باپ اور اس کی ماں سے پوچھیں بیٹا کس عمر میں پیارا لگتا ہے؟ بچپن میں لڑکپن میں یا جوانی میں؟ 
ایک بزرگ بتاتے ہیں کہ ان کے سکھوں کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ اُجاڑے پڑے تو کرتا دھرتا سکھوں نے نمائندہ مسلمانوں کو بلایا کہ آپ کی ہجرت کے لئے آسانی کا لائحہ عمل طے کر لیں۔ 35 عمائدین سکھوں کے ساتھ میٹنگ کے لئے چلے گئے، ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ ان مقتولین کے خاندانوں پر بھی شبِ خون مارا گیا۔ ان میں سے کسی خاندان کا ایک فرد آگ کا قلزم عبور کر کے پاک سرزمین پر پہنچا یا دو پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ آزادی کی دہلیز پر جو قتل و غارت ہوئی وہ اس شعر کی زندہ تعبیر تھی ع 
کہ خولِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
سرزمین ہند لاشوں کا میدان بن چکا تھا۔ ندی نالے اور دریا تک لاشوں سے اٹے ہوئے تھے۔ کنووں میں ظالموں نے زخمیوں کو اُٹھا پھینکا، بعض عزت مآب خواتین آبرو بچانے کے لئے کود گئیں۔ ایسے ایسے مظالم ہوئے جن کو بیان کرنے والا بھی کوئی زندہ نہ بچا۔ بہرحال یہ حقیقت تھی کہ میدان خون سے رنگین اور لاشوں سے اٹے تھے۔ بچوں کی لاشیں، جوانوں کی لاشیں بوڑھوں کی، عورتوں کی لاشیں۔ کسی لاش کی عبا اُدھڑی اور کسی کی قبا اُتری ہوئی تھی۔ کسی کا آنچل چہرے سے سرکا ہوا تو کسی کی ردا سر سے اُتری ہوتی تھی۔ کسی کا دامن تار تار تھا تو کسی کے سینے سے خنجر پار تھا زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدلنے والے ان پر بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ اکثر ایسی لاشیں تھیں جن پر ماتم کرنے والے بھی قریب ہی لاش بنے پڑے تھے۔ پاکستان میں آج بہت سے لوگ ہیں جو ان لاشوں پر آنسو بہاتے ہیں۔ مرنے والے کسی کے ماں باپ تھے، کسی کے بہن بھائی اور مامے چاچے تھے اب وہ شاید دنیا سے رخصت ہو گئے یا ضعیف العمر ہوں گے البتہ ان کی نسلیں اپنے آباءکا غم یقیناً قیامت تک نہ بھلا پائیں گی اور جس نے یہ درد دیا، یہ زخم دیا، روح تک کو گھائل کر دیا کیا ان کو بھلا دیں گے یا معاف کر دیں گے؟ ہم کچھ نہیں کہتے آزادی کے دوران جو ستم ڈھائے گئے اس قسم کی کیفیت یا اس سے کئی گنا کم اذیت سے گزرنے والے بتائیں وہ اذیت سے دوچار کرنے والوں کو معاف کر سکتے ہیں؟ 
تقسیم کی دہلیز پر جو کچھ ہوا وہ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں دہرایا جا رہا ہے، لاشیں گر رہی ہیں، حوا کی بیٹیوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے، اس کے باوجود بھی ایک طبقہ اُس وقت کے آج کے ستم گروں کے ساتھ دوستی کا خواہشمند ہے بلکہ خود تو دوستی نبھا بھی رہا پوری قوم کو بھی دشمن کے ساتھ گلے ملنے اور ایک دستر خوان پر شیر و شکر ہونے کا درس دے رہا ہے۔ 
روشن مستقل اور اپنی زندگی اسلامی اقدار کے مطابق بسر کرنے کی خواہش لئے آگ اور خون کا دریا عبور کرتے ہوئے جو تاریک راہوں میں مارے گئے تھے اُن کے وارث اور لواحقین ہم سب پاکستانی ہیں، جو ان شہدا کے خون سے کسی صورت بے وفائی نہیں کر سکتے۔ آج جن لوگوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات و دوستی کا واویلا مچایا ہوا اور ساتھ ہی تنازعات پُرامن طریقے سے حل کرنے کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ ان کی تاریخ اور خاندانی پس منظر کا جائزہ لیجئے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جن کے خاندان کا آزادی کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی بہا ہو۔ یہی امن کی آشا کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں، یہی بڑھ چڑھ کر بھارت کے ساتھ تجارت، دوستی اور اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی تقریریں اور باتیں کرتے ہیں۔ خدا کے لئے مسلمان نہ سہی انسان تو بنئے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کا خون ہو رہا ہے، انسانیت سسک رہی ہے اس کا خیال کیجئے۔ کم از کم آزادی کشمیر کو ہی بھارت کے ساتھ تعلقات، تجارت اور دوستی سے مشروط کر دیجئے۔ اس سب کے باوجو بھی دشمن کے ساتھ تعلقات و تجارت کی خواہش ہے تو سمجھ لیجئے آپ بے گور و کفن لاشوں پر، ما ¶ں بہنوں کی عصمتوں پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔ گویا آپ کی کاوش امن کے لئے نہیں امن کی لاشیں گرانے اور اٹھانے کے لئے ہے۔


ممتا کے جذبات ۔ اور طاقتور ترین ماں



شفق ۔۔۔ فضل حسین اعوان 
ممتا کے جذبات ۔ اور طاقتور ترین ماں
ماں، بہن، بیٹی‘ بیوی الغرض عورت ہر روپ میں مرقع احترام‘ منبع الفت و محبت اور پیکر حُسن و جمال ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا 
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ 
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں 
کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس مقولے سے کلی اتفاق کریں یا جزوی اختلاف، تاریخ کے مطالعہ سے اس مقولے کے حق میں کافی دلائل تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہو۔ البتہ عورت کی حیثیت اور اہمیت مسلمہ ہے۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کا نامِ نامی اسمِ گرامی سُن اور پڑھ کر سر احترام سے تسلیم خم اس لئے ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کٹھن حالات میں زندگی گزاری اور اپنی اولاد کی اس نہج پر تربیت کی کہ ضرورت پڑنے پر دین کی خاطر کربلا میں باطل کے سامنے سر جھکانے کے بجائے قلم کروا لیا۔ عظیم ما ¶ں کا ذکر آئے گا تو حضرت آمنہ سرِفہرست ہوں گی جنہوں نے وجہ تخلیقِ کائنات کو جنم دیا۔ حضرت حواؑ تو ہم سب کی ماں ہیں۔ حضرت مریمؑ کی ممتا کی گواہی قرآن حکیم نے دی ہے۔ ملکہ سبا کے تذکرے کے بغیر عظیم عورتوں کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ مہر النسا عرف نورجہاں جہانگیر کی دل کی دھڑکن تھی وہ اس کی قربت سے فرقت کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اسی مہر النساءکے کہنے پر جہانگیر نے مجدد الف ثانیؒ کو قید کیا تھا۔ امورِ سلطنت کی انجام دہی کے لئے ملکہ کا ہاتھ بادشاہ کی پُشت پر ہوتا تھا۔ انسانی کھوپڑیوں سے محل تعمیر کرنے والا دنیا کا ظالم ترین انسان ہلاکو خان اپنی ملکہ زرتاج کے پاس جاتا تو تلوار اُلٹی کر کے یوں جھک جاتا جیسے وہ اس کے حضور پیش ہو رہا ہو۔ ملکہ سبا کا بھی بڑا نام ہے۔ اس کی آدھی دنیا میں بادشاہت تھی۔ حضرت سلیمانؑ نے ملکہ سبا کو جھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 
آج نمبر ون، مقبول ترین، مضبوط ترین اور نہ جانے حسین ترین سمیت کیا کیا ترین قرار دینے کی رسم چل نکلی ہے۔ گزشتہ سال کے وسط میں جرمنی کی چانسلر انجلینا مرکل کو دنیا کی بااثر ترین خاتون قرار دیا گیا۔ ہلیری کلنٹن دوسرے نمبر پر رہیں۔ گزشتہ روز ما ¶ں کے عالمی دن کے موقع پر ایک عالمی جریدے فوربز نے طاقتور ما ¶ں کی فہرست جاری کی ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو سب سے بااثر اور طاقتور ماں قرار دیا ہے۔ ہلیری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں اور عمل سے دنیا کو بدل دینے کی طاقت رکھتی ہیں۔ صرف اپنے شوہر کو محبوبہ سے دور رہنے کا حکم نہیں دے سکیں! 
ممتا کے جذبات کیا صرف اپنی اولاد کے لئے ہی ہوتے ہیں؟ انسانیت شاید ممتا کے احساسات اور جذبات کا اوتار ہے۔ دین اسلام میں تو مسلمان کو اخوت کے رشتے میں اس طرح پرو دیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کی تکلیف پر دوسرا اُسی طرح بے چینی محسوس کرتا ہے جس طرح جسم کے ایک حصے میں درد سے پورا جسم بے قرار ہو جاتا ہے۔ عیسائیت میں کہا گیا ہے اگر ایک گال پر کوئی تھپڑ رسید کرے تو دوسرا بھی اس کے آگے کر دو۔ یہ ظلم روکنے کا شاید ایک طریقہ ہے کیونکہ ایسا بے شرم اور خودسر تو کوئی بھی نہیں ہوتا تو ایک تھپڑ مارے سامنے سے جواب نہ آئے تو وہ مزید مارکٹائی شروع کر دے۔ اسلام میں جارحیت کی کبھی تعلیم نہیں دی گئی البتہ دفاع کا بھرپور حق اور اختیار ضرور دیا گیا ہے۔ 
اسلامی ممالک کی تاراجی کا سلسلہ بُش دور میں شروع ہوا۔ افغانستان پر یلغار کرتے وقت بُش نے اسے صلیبی جنگ قرار دیا ، پھر عراق پر دوسری مرتبہ چڑھائی کی۔ لیبیا کی بات نہ بھی کریں صرف عراق اور افغانستان میں 20 لاکھ سے زائد انسان امریکہ کی نامُراد جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں ان میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی ماں کے دل کا چین تھا۔ پاکستان میں 45 ہزار انسان اس کے باوجود بھی مارے گئے کہ پاکستان کا اس جنگ سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ افغانستان‘ عراق اور پاکستان میں مارے جانے والے معصوم بچوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، ان کی رگوں میں بھی ہلیری کی اولاد کی طرح خون گردش کرتا ہے۔ ہلیری کی ممتا ان بچوں کے بموں سے اُڑتے چیتھڑے اور خون سے لتھڑے لاشے دیکھ کر کیوں نہیں جاگتی؟ 
ممتا کا جذبہ صرف خواتین ہی نہیں، جانوروں میں بھی ہوتا ہے جن میں شیر اور بھیڑیے جیسے درندے بھی شامل ہیں۔ البتہ استثنیات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہیں۔ مچھلی اور سانپ اپنے ہی بچوں کو کھا جاتے ہیں۔ بلی کے پا ¶ں کو تپش محسوس ہو تو اپنے بچوں کے اوپر پا ¶ں رکھ لیتی ہے۔ 
امریکہ کی طرف سے انسانوں اور انسانیت کے قتل کا سلسلہ طول پکڑ رہا ہے۔ مدر ڈے پر ہلیری جی کو طاقتور ترین ماں کا اعزاز ملنے کے ناتے امید کی جاتی ہے کہ وہ سانپ اور مچھلی جیسی نہیں، انسانوں کی ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ کو مزید ما ¶ں سے ان کے لختِ جگر مارنے کی پالیسی سے باز رکھنے کی کوشش کریں گی۔ اگر وہ ایسا کر گزرتی ہیں تو یقیناً ان کا نام انسانیت کی خدمت کرنے والی عظیم خواتین میں شامل ہو جائے گا۔ 




Sunday, May 13, 2012

.مدر ڈے ۔۔۔۔ اور مادر وطن




13-5-12




.مدر ڈے ۔۔۔۔ اور مادر وطن

ماں وہ نعمت اور عظمت ہے جس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں۔ ماں اولاد کے لئے گلاب کی خوشبو‘ پیاس میں ساگر، قدم قدم کی راہبر اور اس کے سوا کیا کچھ نہیں! سب کچھ....
پھولوں کی خوشبو بہاروں کی برسات ماں ہی تو ہے
مہک رہی ہے جس سے میری کائنات ماں ہی تو ہے
سچی ہیں جس کی محبتیں سچی ہیں جس کی چاہتیں
سچے ہیں جس کے پیار کے جذبات ماں ہی تو ہے
جن کے سر سے ماں ا ±ٹھ گئی ان کا سب کچھ ا ±جڑ گیا۔ دنیا تاریک ہو گئی۔ ماں اور خدا کے درمیان رابطہ ٹوٹا تو انسان کو وہ بوجھ خود اٹھانا پڑا جو ماں کی دعاﺅں نے سنبھال رکھا تھا 
حضرت موسٰی کی والدہ کا انتقال ہوا۔ پیغمبر خدا سے ہمکلام ہونے طور پر تشریف لے گئے رب جل جلال نے فرمایا موسٰی! اب ذرا سنبھل کے آنا۔ اب وہ ہستی دنیا میں نہیں رہی جو تمہارے یہاں آنے پر سجدے میں ہم سے دعاگو رہتی تھی ”اے سب جہانوں کے مالک میرے بیٹے سے کوئی چوک ہو جائے تو اسے معاف کر دینا“۔
آج مدر ڈے منایا جا رہا ہے۔ یوں تو ہر دن اور لمحہ ماں کا ہے۔ ماں پر جان نچھاور۔ جس نے یہ دن منانے کی رسم ڈالی اچھا کیا۔ چلو اس بہانے کچھ لوگوں کو ماں کی یاد آ جاتی ہے۔ اس سے محبت کے جذبات میں مزید وارفتگی آتی ہے۔ مدر ڈے ایک ماں کا دن نہیں ماﺅں کا دن ہے۔ تمام ماﺅں کا دن۔ آج آپ جس ہستی کے لئے پھول لا رہے ہیں اس کی قدم بوسی کر رہے اس کی بھی ماں کا دن ہے۔ ہر ذی شعور کی ماں کا دن۔ باپ اور دادا کی بھی ماں کا دن۔ ایک گھر میں ایک ہی چھت تلے کئی ماﺅں کا دن۔ باپ کا دن منائیں گے تو باپ اپنی ماں کا دن کب منائے گا۔ 
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں۔ وہ دنیا کے آدھے تفکرات سے آزاد ہیں۔ ماں کا سایہ نہیں رہتا تو کڑی دھوپ کا احساس ہوتا ہے 
اے دوست ماں کے سائے کی ناقدری نہ کر
دھوپ کاٹے گی بہت جب شجر کٹ جائے گا
ماں کی ایک رات کا بھی بدلہ نہیں دیا جا سکتا۔ جب سردیوں کی رات میں وہ کئی بار بھیگتی بچے کو سنبھالتی اور بغیر کہے دودھ پلاتی ہے۔ جن کی مائیں ہیں وہ ان کی خدمت کریں جن کی چھوڑ کر جا چکی ہیں وہ ان کی بخشش کی دعا کریں 
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش 
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
دین حنیف نے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دے کر جنم دینے والی ہستی کا مقام معراج مقرر فرما دیا ہے.... ایک قابل غور نقطہ ہے۔ ایک ماں یہ ہے جس نے جنم دیا اور پرورش کی۔ ایک ماں وہ ہے جس نے تحفظ دیا‘ شناخت دی‘ دنیا میں نام دیا‘ مقام دیا۔۔۔ وہ ہے دھرتی ماں‘ مادر وطن.... اس کا احترام‘ حفاظت اور اس سے محبت بھی جنم دینے والی ماں کی طرح فرض ہے۔ وطن عزیز میں کونسی نعمت نہیں ہے؟ یہ بھی سچ ہے کہ وسائل کا ناجائز اور بے جا استعمال ہو رہا ہے۔ کچھ خاندان کسی بھی وجہ سے بہت آگے چلے گئے۔ کئی سفید پوش کچھ غربت کی لکیر پر اور بہت سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ آزادی کو سہولتوں کی فراوانی سے نہیں ناپا جا سکتا۔ کتنی بڑی نعمت ہے آزادی‘ اپنا وطن‘ یہی ہر نعمت اور ہر عظمت سے بڑھ کر ہے۔ بھارت بھارت نہیں‘ ہندوستان ہے‘ ہندو ¶ں کے رہنے کی جگہ‘ وہاں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حالت قابل رحم ہے۔ پاکستان کے اکثر گھروں میں کیبل پر انڈین پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔ دکانوں پر‘ بسوں میں ہوٹلوں میں انڈین گانے بجتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں ممکن ہی نہیں کہ کہیں بھی‘ کسی بھی جگہ پاکستانی گلوکاروں‘ فنکاروں اور کھلاڑیوں کی تصویر آویزاں ہوں۔ ارب پتی کاروباری مسلمان اپنی گاڑی یا کاروبار کی جگہ پر تلاوت کلام پاک کی ریکارڈنگ اونچی آواز میں نہیں لگا سکتا۔ ایسا کرے گا تو دہشت گرد ہندو تنظیمیں اسی روز آگ لگا دیں گی۔ بہت سے مغربی ممالک میں نقاب اوڑھنے اور داڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی بھوکے پیٹ سوتا ہے تو اس میں دوسروں کا قصور ہو سکتا ہے اپنا بھی یقیناً دوش ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا انسان غریب پیدا ہوتا ہے تو اس کا قصور نہیں۔ غریب مرتا ہے تو اس کا قصور ہے۔ صحت مند اور تندرست انسان غربت کی چکی میں پسے تو سمجھ لیجئے وہ کام چور ہے۔ محنت سے روزی کے حصول کی کوئی حد مقرر نہیں اور پھر پورے پاکستان میں روزی بکھری ہوئی ہے۔ اسے چننے کے لئے معمولی سی دانش و عقل کی ضرورت ہے۔ آئیے مدر ڈے منانے کے ساتھ ساتھ دھرتی ماں کو خوب سے خوب تر اور خوبصورت ترین بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس نے ہمیں سب کچھ دیا۔ وہ کچھ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور وہ کچھ بھی جس کا ہمیں احساس بھی نہیں ہے۔

امن کا جھانسہ




فضل حسین اعوان
 ـ 10 مئی ، 2012


امن کا جھانسہ
 امن کی آشا ایک بار پھر سر چڑھ کر بولی ہے۔اب کے لاہور میں تو کچھ زیادہ ہی غلغلہ رہا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کیس میں اپنے خلاف فیصلہ آنے سے ایک روز قبل خوب گرجے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو غیر ریاستی عناصر سے خطرہ ہے۔ بھارت میں غیر ریاستی کا عناصر سرغنہ بال ٹھاکرے ہے۔جس کی نَس نَس سے مسلم اور پاکستان دشمنی ٹپکتی ہے۔ملتانی مرشد فرمائیں ایسا پاکستان میں کون ہے جس سے بھار ت کو خطرہ ہو؟ ان کا مزید فرمان ہے کہ مشترکہ دشمنوں سے مل کر لڑنا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دشمن کون ہے؟ بھارت تو پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔اس کا دوسرا بڑا دشمن چین ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں پر بھارت قابض ہے۔ کشمیر‘ جونا گڑھ‘ مناوادر‘ حیدرآباد دکن‘ سرکریک اور سیاچن اس کی مثالیں ہیں۔ چین کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں۔ بھارت کے سوا پاکستان کی پوری دنیا میں کسی ملک کے ساتھ دشمنی نہیں۔ پل صراط سے گزرنے والے وزیراعظم بھارت کے ساتھ مل کر کس دشمن کے ساتھ لڑنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں؟ اگر وہ دشمن کسی ملک کو نہیں سمجھتے تو غربت پسماندگی اور جہالت کو دشمن قرار دیا ہوگا جو یقیناً دونوں ممالک کے عوام کے دشمن ہیں۔ اس دشمن کو تو بھارت نے پال رکھا ہے۔نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم ہوتے نہ ان کو عملی صورت میں پنپتے دیکھنے کی خواہش مچلتی، نہ وہ اسلحہ و گولہ بارود کے ڈھیر لگا نے پر اپنے وسائل جھونکتا۔نہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہوتی اور نہ اس کی کوکھ سے غربت افلاس جہالت اور پسماندگی جنم لیتی۔
تجارت کا حجم بڑھا کر12 ارب ڈالر کرنے کی امیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت میں سوا ارب ڈالر کا خسارہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز ملک بھرمیں 16سے 20 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی اور یہ معمول بن چکا ہے۔ آدھا ہفتہ صنعتوں کو گیس کی سپلائی معطل رہتی ہے۔ زمامِ اقتدار جن ہاتھوں میں ہے‘ ان میں ہی اگلی ٹرم کیلئے رہی تو ہو سکتا ہے ہم مکمل طورپر اندھیروں میں ڈوب جائیں۔ تجارت 12 ارب ڈالر کرنے کی جستجو تو بڑی ہے۔ آپ ایکسپورٹ کیا کریں گے؟ کیا بھارت سے 12 ارب ڈالر کی صرف درآمدات ہی ہوں گی؟
لاہور کی اقتصادی کانفرنس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جذباتی ہوئے اور مائیک اچھالے بغیر فرمایا کہ پاکستان اور بھارت کے پاس دوستی کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ تلخ یادیں بھلانا ہوں گی۔ آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کرنا ہوں گے۔ میاں شہباز شریف نے جو کچھ کہا بھارت کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ باتیں شاید ایک صدی بعد کرنے کی تھیں۔ 
آپ کس کس تلخ یاد کو بھلائیں گے؟ تقسیم ہند کے موقع پر مسلمانوںکی قتل و غارت‘ خواتین کی بے حرمتی‘ سانحہ مشرقی‘ کشمیر‘ جونا گڑھ‘ مناوادر، حیدرآباد دکن سرکریک اور سیاچن پر تسلط جما کر مقبوضات کو مضبوط کرنے کے عمل کو‘ پاکستان کا جگر.... مشرقی پاکستان کو اُچک لینے کے اقدام کو‘ کشمیر پر روا رکھے گئے مظالم‘ کشمیریوں کی آج قبا محفوظ ہے نہ عزت مآب خواتین کی ردا۔ بلوچستان میں بھارت کی شرپسندی فاٹا میں را کے ایجنٹوں کی کارروائیاں۔ تلخ یادیں بھلانے کے حامی ایک لکیر کھینچ دیں کہ اس سے قبل کی تلخ یادیں بھلادی جائیں۔ اس کے آگے پھر نئی زندگی کا آغاز کریں۔ وہ بھی اس صورت میں کہ تمام تنازعات طے کر لئے جائیں۔ آغاز مسئلہ کشمیر سے ہو۔ امن کی آشا کے پرچارک کیا بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ بھارت کا خبث باطن پڑھنے اور اس کی منافقانہ چالیں سمجھنے کیلئے عقل سقراط اور دانشِ افلاطون کی ضرورت نہیں۔ اس نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو بھارت کا صوبہ ڈیکلیئر کر لیا ہے۔ وہ تو اسے اپنا اٹوٹ حصہ بنا چکا ہے پھر اس کے مذاکرات منافقت نہیں توکیا ہے! اس کی طرف سے امن کی آشا صرف اور صرف امن کا جھانسہ ہے۔ 
آج پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدگی اور پیچیدگی کی راہ پر ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ سلالہ چیک پوسٹ پر کی گئی جارحیت پر معافی مانگے۔ امریکہ اس طرف آنے پر تیار نہیں.... پاکستان پر سب سے بڑی قیامت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ٹوٹی تھی۔ ہمیں ملی تاریخ کی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا ذمہ دار بھارت تھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات‘ تجارت اور اسے من پسند قوم کا درجہ دینے اور تلخ یادیں بھلانے کی بات کرنے والے بتائیں کہ بھارت کو اپنے اس گھناﺅنے کردار پر پاکستان سے معافی نہیں مانگنی چاہئے؟ پاکستان کے ساتھ تعلقات اسی صورت بہتر ہو سکتے ہیںکہ بھارت‘ کشمیر‘ سیاچن سرکریک سمیت دیگر پاکستانی علاقوں سے اپنا تسلط ختم کرے اور سانحہ مشرقی میں اپنے قبیح فعل پر پاکستان سے معافی مانگے۔ دوسری صورت میں دونوں ممالک کسی صورت دوست ہو سکتے ہیں نہ دونوں کے مابین تجارت اور نہ ہی پائیدار تعلقات قائم رہ سکتے ہیں۔ جب بھی کوئی قائداعظم جیسا حکمران نصیب ہوا معاملات پھر وہیں شروع ہوں گے جہاں قائداعظم چھوڑ کر راہی عدم مسافر ہو گئے تھے۔ اب تو مسلح افواج کے تمام سربراہان پاکستانی ہیں کوئی جنرل گریسی ہے نہ اُس جیسا ہے۔

Sunday, May 6, 2012

محصورینِ برف۔ گیاری کے شہدا؟


 اتوار ، 06 مئی ، 2012

محصورینِ برف۔ گیاری کے شہدا؟
فضل حسین اعوان 
آج گیاری سیکٹر سیاچن میں ملک و ملت کی ناموس پر مرمٹنے کا عزم کرنیوالے 139سپوتوں کو برف کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ایک ماہ ہونے کو ہے۔ یہ قدرتی آفت اور نا گہانی افتاد تھی یاپاکستان دشمنوں کی سازش،اس بارے میں ہنوز کوئی تحقیق ہوئی ہے نہ ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکی ہے۔ اس معاملے میں غورو خوض تحقیق ،تفتیش وقت گزرنے کے ساتھ ہوتی رہے گی فی الحال پاک فوج کی پہلی ترجیح اور فوری طورپر کرنے کاکام برف تلے دبے مردانِ حق کی بازیابی ہے جس کیلئے سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں۔نہ صرف پاک فوج اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تمام تر وسائل استعمال کر رہی ہے بلکہ دنیا کی ماہر ترین ٹیمیں بھی ہر ممکن امداد اور تعاون فراہم کر رہی ہیں....سیاچن میں درجہ حرارت منفی 170ڈگری تک گر جاتا ہے۔ برف سے ڈھکے فلک بوس پہاڑوں کی وادی میں ہی برف کے پہاڑ اُگے ہوئے ہیں۔یہاں کسی ذی روح کیلئے یخ بستہ موسم کا سامنا کرنا ممکن نہیں۔ قدرت نے یہ علاقہ شاید انسانوں کی سیاحت کیلئے تو بنایا ہے مستقل بودوباش اوررہائش کیلئے نہیں۔ انسانی جسم کا جو حصہ خصوصی لباس سے باہر رہ گیا وہ چند ثانیے بعد ناکارہ ہوجاتا ہے۔انسانی سانس تک جم جاتی ہے ایسے میں کسی فرد کا برف تلے دب کر چند دن بھی زندہ رہنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ ناممکنات اگر ممکنات کا روپ دھارلیں تو انہیں معجزے کا نام دیا جاتا ہے۔ایسے معجزات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ رواں سال فروری کے شروع میں سبزہ زار لاہور کی ایک فیکٹری بوائلر دھماکے سے گری۔ جس میں درجنوں مزدور لقمہ اجل بن گئے، اس دوران آگ کے بگولے اور ملبے کے ڈھیر سے صالحہ بی بی خاتون 31 گھنٹے بعد زندہ سلامت نکل آئی تھی۔ 2005 کے زلزلہ میں نقشہ بی بی 40 سالہ خاتون کو جرمن امدادی ٹیم نے65 دن بعد بسلامت نکال لیا۔ حضرت علی احمد صابر کلیری کا واقعہ تو مشہور ہے کہ ان کے ماموں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے ان کو لنگر تقسیم کرنے پر مامور کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کئی برس تک لوگوں کو کھانا کھلاتے رہے خود نہیں کھایا۔ ایک روز بابا فرید نے ان کی نحیف و نزار جسمانی حالت دیکھ کر پوچھا کہ تم کھانا نہیں کھاتے؟ بھانجے نے بڑے ادب سے جواب دیا کہ مجھے مہمانوں کو کھلانے کا حکم دیا گیا تھا خود کھانے کو نہیں کہا تھا۔اس روایت کو مختصر دہرانے کا مطلب ہے کہ قدرت چاہے تو انسان بھوک کی حالت میں برسو ں زندہ رہ سکتا ہے۔اصحابِ کہف300سال کچھ کھائے بغیر زندہ رہے۔ ایسا ہی معجزہ اور کرامت گیاری سیکٹر کے محصورین برف کیلئے بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بم دھماکوں،قدرتی آفات اوردیگر واقعات میں مرنیوالوں کا سوگ قومی سطح پر منایاجاتا ہے۔سیاچن کے مذکورہ فوجیوں کیلئے کیوں نہیں؟ سوگ مرنیوالوں کا ہوتا ہے۔ہم ہنوز رحمتِ خداوندی سے مایوس نہیں ہوئے۔ جب تک محصورین برف کے زندہ بازیاب ہونے کی موہوم سے امید باقی ہے ان کو شہید تسلیم کیسے کر لیں۔ جس بدن میں خون کی گردش جاری اور سانسیں چل رہی ہوں تو ان کو شہید سمجھ کر سوگ منانا عقل سے ماورا سوچ ہے۔محصورین برف کے لئے سانس کب برف بنے اس کا تعین بھی نہیںکرناچاہئے۔ فوج کو امدادی کام کرنے دیاجائے بازیابی کی صورت میں حتمی نتیجہ سامنے آجائےگا۔
آرمی چیف جنرل کیانی امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے کیلئے تیسری مرتبہ گیاری سیکٹر گئے تو انہوں نے وہاں بتایا کہ بھارت نے سیاچن پر اپنی پوزیشن کافی مضبوط کی ہے۔اب حد بندی کی بات کی جارہی ہے۔ جنرل کیانی کے اس بیان کے بعد بھارت کے خبثِ باطن کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔سیاچن کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔اس نے پاکستانی حکمرانوں اور اُس دورکی فوجی قیادت کی غفلت سے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان اور چین کے درمیان ایک دیوار چننے کی کوشش کی اس میں اسے کامیابی نہ مل سکی۔ 1984 میں ہی بھارت کو اس کی جارحیت کا جواب دیاجاناچاہئے تھا ۔بودی اور بھونڈی دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان مغربی محاذ(افغان جنگ) میں مصروف تھا۔اس لئے دوسرا محاذ نہ کھولا ۔ملکی سلامتی اور سالمیت داﺅ پر لگی ہوتو محاذوں کی تعداد نہیں گنی جاتی خود مختاری کے تحفظ کیلئے سب کچھ داﺅ پر لگانا پڑتا ہے۔صحیح وقت پر صحیح فیصلہ اور راست اقدام نہ کرنے پر بھارت کو سیاچن پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع مل گیا۔گزشتہ دنوں میاں نواز شریف نے بہ تکرار یہ کہا کہ پاکستان سیاچن سے فوج واپس بلانے میں پہل کرے۔ جس پر بھارت خوش ہوا۔ نواز شریف کے ایک رتن نے تردید کی تو بھی بھارت کو یہاں نواز شریف کی نیت پر شک نہیں گزرا۔ جنرل کیانی نے دونوں ممالک کو بیک وقت انخلا کی تجویز دی۔اس پر بھی بھارت نے اطمینان کا اظہار کیا۔انخلا کی صورت میں بھارت کو اپنے مذموم ادھورے ناپاک منصوبے کی تکمیل کا موقع مل جائیگا۔سیاچن پاکستان کا حصہ ہے جس سے بھارت کو انخلا پر مجبور کیا جائے یا بیدخل کرنے کو جو بھی کرنا پڑے کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بھی پاک فوج سیاچن کی حفاظت کیلئے وہاں موجود رہے۔ سیاچن میں بھارت حصہ دار نہیں۔ جو وہ تاثر دے رہا ہے!


Thursday, May 3, 2012

نورے


جمعرات ، 03 مئی ، 2012

نورے
فضل حسین اعوان
اکبر بادشاہ کے نورتنوں کی طرح ہمارے حکمرانوں نے بھی کئی کئی رتن رکھے ہوئے ہیں۔ ایوب خان کے کئی رتنوں میں دو اہم ذوالفقار علی بھٹو اور امیر محمد خان المعروف نواب آف کالا باغ تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ایوب خان کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے اور جان نثاری جتاتے تھے۔ بھٹو صاحب ایوب کو ڈیڈی کہتے تو نواب کالا باغ دوستوں کو باور کراتے ”اُتے خدا تے تھلے ایوب“۔ دونوں میں کوئی اور قدر مشترک ہو نہ ہو ایک ضرور تھی۔ دونوں کے نوکروں کا نام نورا تھا۔ یہ نورے بھی اپنے اپنے آقا کے رتن ہی تھے۔ وفادار اور جاں نثار۔ بھٹو اور نواب کالا باغ کو ایوبی اقتدار کا سورج غروب ہونے تک نورتنی کا اعزاز حاصل نہ رہا۔ البتہ دونوں کے نورے موت کی دہلیز تک وفادار رہے۔ ہم عموماً نورا کشتی کا لفظ سنتے رہتے ہیں۔ یہ کہاں سے آیا۔ کیسے ایجاد ہوا؟ اس کے بارے میں کوئی ثقہ روایت نہیں ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو اور نواب کالا باغ کے نورے ایوبی دور میں ایک دوسرے سے کشتی کرتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے یہ کشتی ان کے آقا بھی دیکھتے ہوں۔ کشتی برابر رہنے۔ باری باری چِتکرنے اور چِت ہونے پر کسی نے محسوس کیا ہو کہ یہ دونوں ملی بھگت سے کشتی کرتے ہیں تو یہیں سے ملی بھگت کو نورا کشتی کا نام دے دیا گیا ہو۔ ایک نورا لبنانی ڈانسر بھی ہے۔ اس کا چونکہ کشتی وغیرہ سے تعلق نہیں ہو سکتا اس لئے ڈانسر نورا کو نورا کشتی میں گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے.... کہتے ہیں نورا کالا باغیا کی شخصیت نواب صاحب کی طرح باوقار اور رعب دار تھی۔ قد کاٹھ ڈیل ڈول مونچھیں اور شکل بھی کسی حد تک نواب سے ملتی تھی۔ نواب صاحب کو گاڑی چلانے کا شوق چراتا تونورے کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر اپنی جگہ بٹھا دیتے جس کا عموماً کسی کو پتہ نہ چل سکتا۔ بھٹو صاحب نورے پر بلا کا اعتماد کرتے‘ مشورے کیلئے اگر کوئی فوری طور پر دستیاب ہوتا تو وہ نورا ہی تھا۔ پیپلز پارٹی کے کئی عام لیڈروں کو بڑا لیڈر بنانے میں نورے کا بڑا ہاتھ ہے۔ تیسرے درجے کے ایک لیڈر نے بھٹو کے قربت کی خواہش ظاہر کی تو نورے نے اسے مشورہ دیا کہ بھٹو صاحب ناشتہ کرکے ہوٹل سے باہر نکلا کریں تو تم میرے پیچھے پیچھے آجایا کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا جس سے دیکھنے والوں تاثر لیا کہ یہ صاحب بھٹو کے اتنے قریب ہیں کہ ان کے ساتھ ناشتہ کرتے ہیں! پیپلزپارٹی کے بڑے لیڈر بھی یہی سمجھنے لگے اور ان صاحب کا شمار محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں نورے کی خدمت بجا لانے کے باعث بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ ہمیں ان نوروں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ آج کی سیاست میں نورا کشتی کی اصطلاح کا بڑا چرچا ہے۔ محض ”نورا کشتی“ اصطلاح کی ایجاد یا دریافت تک پہنچنے کی کوشش تھی۔
میاں نواز شریف کی پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن قرار دیا جاتا ہے۔ میاں صاحب نے اس تاثر کو ختم کرنے کی بڑی کوشش کی۔ مرکزی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج لگایا تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پارٹی کے طور پر پنجاب حکومت کا حصہ تھی۔ عدلیہ کے حکم پر گورنر راج کا خاتمہ ہوا شہباز شریف کابینہ سمیت بحال ہوئے تو بھی گورنر راج لگانے والی پارٹی ان کے ہمرکاب تھی۔ کیا یہ نورا کشتی تھی؟ عمران خان مرکزی حکومت کی کرپشن کے خلاف تحریک لے کر اٹھے تو ن لیگ نے بھی گو زرداری گو کا نعرہ لگا دیا۔ جواب میں پی پی والے بھی پھنکارتے رہے۔ عمران خان کا خطرہ ٹلا یا تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے تو گو زرداری گو کی تحریک رشوت لینے اور دینے والوں کے ضمیر کی طرح سو چکی تھی۔ شاید یہ نورا کشتی نہ ہو! اب گیلانی توہین عدالت کی زد میں آئے ہیں تو ان کا اقتدار ریت کی دیوار نظر آتا ہے۔ عمران اور منور حسن کی پارٹیاں گیلانی کی بے دخلی کے لئے لانگ مارچ کی بات کر رہی تھیں کہ میاں نواز شریف نے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا لیکن لانگ مارچ کی تاریخ نہیں دی۔ اب پاکستانیوں کی نظریں عمران خان منور حسن کی مجوزہ تحریکوں سے بٹ کرمیاں صاحب کے لانگ مارچ پر لگ چکی ہیں۔ نواز شریف کے ایک رتن چودھری نثار ”اِب کے مار“ کی طرز پر تین بار وزیراعظم گیلانی کو پارلیمنٹ میں آ کر دکھائیں کہہ کر روپوش ہونے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ شہباز شریف زرداری سے کرپشن اور لوٹ مار کے پیسے نکلوانے اور ان کو بھاٹی گیٹ میں گھسیٹنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اس پر زرداری کے رتنوں کا ترکی بہ ترکی جواب آتا ہے۔ ن لیگ والے وضاحت فرما دیں تو بہتر ہو گا کہ زرداری صاحب کی ہستی ان کے لئے کب تک برگزیدہ تھی؟ کیا ان کی کرپشن مرکز سے وزارتیں چھوڑنے یا پنجاب سے پی پی سے وزارتیں چھڑانے کے بعد عیاں ہوئی؟ گیلانی کی 30 سیکنڈ کی سزا کے بعد تو دونوں طرف جذباتی بیانات اور ایک دوسرے پر نئے پرانے الزامات کی ایک آگ سی لگی ہوئی ہے۔ معاملات 90 کی دہائی کی طرح بگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ ایک بار پھر پروبھٹو اور اینٹی بھٹو گروپ میں تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جس کا فائدہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ہو گا۔ پَتّہ کس کا کٹے گا؟ اس کا جو دونوں کی چوریوں کی بات کرتا ہے۔ عمران خان کو سیاسی ”گیم سے باہر رکھنے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین نظر آنے والی 1990ءکی طرز کی یہ محاذ آرائی نورا کشتی تو نہیں ہے؟ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو قدرت قوم کو نوروں سے محفوظ رکھے۔


Tuesday, May 1, 2012

سسٹم کے خلاف جنگ


 منگل ، 01 مئی ، 2012

سسٹم کے خلاف جنگ
فضل حسین اعوان ـ 20 گھنٹے 5 منٹ پہلے شائع کی گئی
سپریم کورٹ نے اسلحہ برآمد کیس میں ضمانت خارج کی تو شاہ زین بگٹی نے حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھائے نہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ جا ملے، ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی نہ عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی پر مبنی رویہ اپنایا‘ سپریم کورٹ کے فیصلے اور قانون کا احترام کرتے ہوئے اپنے 26 ساتھیوں سمیت گرفتاری دے کر خود کو عدلیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ دوسری طرف اسلام آباد والوں کا رویہ ملاحظہ فرمائیے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف علم بلند کر رکھا ہے۔ سزا ہوئی، بُھگت بھی لی لیکن اس کے بعد آئین کے مطابق عمل کرنے کی بجائے آئین کی من مانی تشریح کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا کوئی وزیراعظم بھی سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گا۔ ”کوئی“ سے نہ جانے ان کی کیا مُراد ہے کیونکہ وہ تو اقتدار سے الگ ہونے پر تیار ہی نہیں، کوئی تو ان کے جانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ گیلانی صاحب کو جو سزا ہوئی وہ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے باعث توہین عدالت پر ہوئی۔ سزا ملی اور بُھگتی لیکن عدلیہ کے بارے میں جارحانہ رویے میں تبدیلی آئی نہ اصلاح کی کوشش و کاوش نظر آئی۔ وزیر قانون کی توپوں کا رُخ سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی طرف ہے کہ انہوں نے فیصلہ کی کاپیاں سپیکر اور الیکشن کمشن کو کیوں بھجوائیں۔ رجسٹرار نے اپنے اسسٹنٹ کے اقدام کو درست قرار دیا ہے۔ پی پی کے ہی کچھ ذمہ دار فیصلہ سنانے والے ججوں کے خلاف ریفرنس لانے کی بات کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی لے میں ان کے وکیل نے بھی راگ الاپ دیا کہ وزیراعظم کو صرف سپیکر کی طرف سے ہی نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ سپیکر کی طرف سے اسسٹنٹ رجسٹرار کا خط لہرا دینا ان کی جانبداری کا ثبوت بن چکا ہے۔ صاف ظاہر ہے ان کا متوقع فیصلہ کیا ہو گا؟
گورنر لطیف کھوسہ بھی کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کر سکتی ہے۔ سیدھی سی بات آئینی و قانونی ماہرین بڑے سلیقے اور دلیل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ 26 اپریل کے فیصلے کے بعد یوسف رضا گیلانی آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل ہو چکے ہیں، ان کو استعفیٰ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ ملک آج کسی بھی وزیراعظم اور کابینہ کے بغیر چل رہا ہے۔ وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سزا دی تو وہ ایم این کی نشست سے نااہل ہو جائیں گے اس لئے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن فیصلہ آیا تو حسبِ سابق دیگر فیصلوں کی طرح اس فیصلے پر بھی عدلیہ کو آگے لگا لیا۔ جس ملک اور معاشرے میں عدلیہ کے فیصلوں کو اقتدار کے پاوں تلے روندا جائے گا اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ اگر دیوانی و فوجداری کیسوں کے فیصلے پارلیمنٹ کو ہی کرنے ہیں تو عدالتوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ فاروق نائیک کہتے ہیں کہ اسسٹنٹ رجسٹرار تنخواہ دار ہے وہ سپیکر اور الیکشن کمشن کو فیصلے کی نقول نہیں بھیج سکتا۔ جج بھی تنخواہ دار ہیں پھر تو وہ بھی فیصلہ نہیں کر سکتے، خود آپ اور آپ کے حکمران تنخواہوں کے ساتھ دیگر مراعات بھی لیتے ہیں ان کو تو آئین و قانون کو تہہ و بالا کرنے کا حق اور اختیار ہے کسی دوسرے ادارے کو داد و فریاد سُننے تک کا نہیں؟ عجب استدلال ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی حکومت آج جو کچھ کر رہی ہے ایک تو وہ پاکستان کی سیاست کو 90 کی دہائی جیسی محاذ آرائی کی سیاست کی طرف لے گئی ہے دوسرا اس نے سسٹم کے خلاف بھی اعلان جنگ کر دیا ہے۔ اس کا فوج کے ساتھ تلخ رویہ رہا، ججوں کو مانتے ہیں نہ ان کے فیصلوں کو --- جس سے ملک میں جنگل کا قانون نہیں تو اور کیا ہو گا؟ میاں نواز شریف نے آئین کے مطابق چلنے کی بات کی تو ان کی کرپشن کے کیس کھول دئیے گئے۔ کرپشن جرم ہے لیکن اس کو چھپائے رکھنا بھی جرم سے کم نہیں۔ البتہ یہ کہہ کر ن لیگ جان نہیں چُھڑا سکتی کہ رحمن ملک جھوٹوں کے آئی جی ہیں۔ رحمن ملک جو ثبوت دکھا رہے ہیں ان کا مدلل جواب آنا چاہئے محض بیان بازی رحمن ملک کے الزامات پر صداقت کی دلیل تصور ہو گئی۔ 
آج ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے۔ کونسا بحران ہے جس کا ملک و قوم کو سامنا نہیں۔ حکمران اپنی اصلاح کے بجائے اپنے ہی عوام اور عدلیہ کے خلاف ہتھیار اُٹھائے ہوئے ہیں کسی کی سُنتے ہی نہیں ماننے کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ عدلیہ، فوج اور اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی میں ملک کا ککھ ککھ ہو رہا ہے اور نوبت جلد ملک کا ککھ نہ بچنے تک آ جائے گی، آخر اس کا انجام کیا ہو گا؟ ان حکمرانوں کی دستبرد سے اگر کچھ محفوظ ہے تو وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ کیا ملکی مفاد پر نظریں رکھنے والی قوتیں اس کا بھی سودا ہونے کی منتظر ہیں؟ وہ آگے آئیں اور ملک و قوم کو مزید بحرانوں میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اپنا مصلحانہ کردار ادا کریں۔ موجودہ حکمرانوں کی خواہش ہی شاید یہ ہے کہ اپنی باری لے لی اب دوسروں کی کیوں آئے۔ اس لئے تیسری قوت کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ تیسری قوت ان کی خواہش پورا کرنے کے بجائے جمہوریت کو رواں دواں رکھنے اور ملک و قوم کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ویسا ہی کردار جیسا 1988ءسے 1997ءتک ادا کیا۔