منگل ، 29 مئی ، 2012
یوم تکبیرقومی دن کیوں نہیں؟
فضل حسین اعوان ـ
یوم پاکستان 23مارچ اور یوم آزادی 14اگست کے بعد پاکستانیوں کے لئے یوم تکبیر 28 مئی ایک بڑا، قابل تفاخر اور عظیم الشان دن ہے۔ 23مارچ 1940ءکو قرار داد پاکستان پیش اور منظور ہوئی۔ اسی قرار داد کی کوکھ سے 14اگست 1947ءکو عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت پاکستان نے جنم لیا۔ 28مئی 1998ءکو پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہوا۔ دنیا میں سب سے بڑی اسلامی مملکت ہونے کے ناطے مملکت خداداد کو دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہر مسلمان اسلام کا قلعہ قرار دیتا تھا۔ 16دسمبر1971ءکو غیروں کی سازش، کچھ اپنوں کی غداری اور کچھ کی نالائقی سے پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے تو وہ قلعہ بھی زمین پر آ گرا جسے ہر خطے کا مسلمان اسلام کا قلعہ سمجھتا تھا۔ غیروں کی سازشیں بدستور جاری رہیں۔ غداران ملک و ملت بھی موجود رہے۔ اقتدار کے ایوان نااہلیت سے کبھی خالی نہیں ہوئے لیکن اب ان سب میں تال میل بھی ہو جائے تو بھی سازشیں اس حد تک پنپ نہیں سکتیں کہ بچے کھچے پاکستان کو 16دسمبر1971ءجیسے نقصان سے دو چار کر سکیں۔ اس کا سبب پاکستان کا ناقابل تسخیر دفاع ہے جو 28مئی 1998ءکو پاکستان کے اعلانیہ ایٹمی قوت بننے پر ہوا۔ یقینا 28مئی کی یوم پاکستان اور یوم آزادی کی طرح اہمیت و حیثیت ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی طرف سے ایٹمی پروگرام کی ابتداءپاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ایک قابل فخر اور شاندار کارنامہ ہے۔ذوالفقار علی بھٹو یقینا پاکستان کے ایٹم بم کے بانی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کے معمار اور پاکستان کو عالم اسلام کی اعلانیہ ایٹمی قوت بنانے کا سہرا میاں محمد نواز شریف کے سر ہے جنہوں نے ہر دباﺅ اور لالچ کو مسترد کرکے بھارت کے 11مئی کے پانچ دھماکوں کے جواب میں سات دھماکے کرکے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دنیا کے ہر مسلمان کے لئے اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر 28مئی 1998ءکے دھماکوں کے دن تک ہر پاکستانی حکمران خراج تحسین کے لائق ہے۔ جنرل محمد ضیاءالحق، بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور غلام اسحق خان اور ان کے ساتھیوں کے دامن پر کرپشن، جمہوریت کوریل ڈی ریل کرنے، جیسے داغ اور الزامات تو ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایٹمی پروگرام پر کسی لمحے بھی کمپرومائز نہیں کیا۔ تا آنکہ پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔
پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا ایک کٹھن منزل تھی جسے سر کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءالحق اور نواز شریف کا اقتدار گیا۔ اوّل الذکر دو کی جان بھی جاتی رہی نواز شریف کی جان خوش بختی سے بچ گئی۔ یوم پاکستان اور یوم آزادی کی سی اہمیت کے حامل یوم تکبیر کو ہمارے سیاستدانوں اور جمہوریت دانوں نے فراموش کرکے رکھ دیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اس دن کو بھی قومی دن کے طور پر اپنایا جائے۔ ایسا کرنے میں کوئی مشکل بھی نظر نہیں آتی۔ مرکز سندھ اور بلوچستان میں ذوالفقار علی بھٹوکی پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے خیبر پی کے میں اس کے اتحادیوں کی حکمرانی ہے۔ پنجاب پر میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن پر جاپت پرجاپال و پرجاپالک ہے۔ افسوس صد افسوس کہ پورے ملک میں پنجاب سمیت یوم تکبیر کو شایان شان طریقے پر منانے کا کوئی سرکاری اہتمام نہیں کیا گیا۔ یوم تکبیر آیا، قومی و سرکاری سطح پر اپنی عدم پذیرائی پر حیراں ہوا اور مسافر پریشاں کی طرح گزر گیا۔ اگلے سال پھر یقینا آئے گا شاید اپنے راستے میں کہکشاں بچھائے جانے کی امید لے کر۔
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اکابریں کی برتھ ڈے اور برسیاں بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر سندھ میں تعطیل بھی کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کسی سیاسی شہید کی عدم دستیابی کے باعث 12اکتوبر پر یوم سیاہ کا انتظام کرتی ہے لیکن دونوں پارٹیاں یوم تکبیر پر خاموش رہتی ہیں حالانکہ یہ دونوں پارٹیوں کی قیادت کے لئے بہترین خراج تحسین کا دن ہے۔ قومی دن منانے کے لئے تعطیل کی ضرورت نہیں۔ تعطیلات قوم پہلے ہی ضرورت سے زیادہ کر رہی ہے۔ یوم تکبیر سادہ تقریبات، قرآن خوانی و سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لئے دعاﺅں کی محافل سجا کر بھی منایا جا سکتا ہے۔ 1999ءمیاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد یوم تکبیر نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہر سال شایان شان طریقے سے مناتا چلا آ رہا ہے۔ سیاستدانوں کو اس سے ہی کوئی سبق سیکھ کر سرکاری سطح پر منانے کا عہد و پیمان اور انتظام کرنا چاہئے۔ گذشتہ روز میاں نواز شریف نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی یوم تکبیر کی تقریب کے دُلہا تھے۔ اس موقع پر پورے پنجاب کو جشن مناتے ہوئے باراتی ہونا چاہئے تھا۔ امید ہے کہ حکومتی و غیر حکومتی سیاستدان اگلے سال یوم تکبیر قومی دن کے طور پر منانے کا اہتمام فرما دیں گے۔ یوم تکبیر زندہ باد.... پاکستان پائندہ باد!
No comments:
Post a Comment