About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, May 13, 2012

امن کا جھانسہ




فضل حسین اعوان
 ـ 10 مئی ، 2012


امن کا جھانسہ
 امن کی آشا ایک بار پھر سر چڑھ کر بولی ہے۔اب کے لاہور میں تو کچھ زیادہ ہی غلغلہ رہا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کیس میں اپنے خلاف فیصلہ آنے سے ایک روز قبل خوب گرجے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو غیر ریاستی عناصر سے خطرہ ہے۔ بھارت میں غیر ریاستی کا عناصر سرغنہ بال ٹھاکرے ہے۔جس کی نَس نَس سے مسلم اور پاکستان دشمنی ٹپکتی ہے۔ملتانی مرشد فرمائیں ایسا پاکستان میں کون ہے جس سے بھار ت کو خطرہ ہو؟ ان کا مزید فرمان ہے کہ مشترکہ دشمنوں سے مل کر لڑنا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دشمن کون ہے؟ بھارت تو پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔اس کا دوسرا بڑا دشمن چین ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں پر بھارت قابض ہے۔ کشمیر‘ جونا گڑھ‘ مناوادر‘ حیدرآباد دکن‘ سرکریک اور سیاچن اس کی مثالیں ہیں۔ چین کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں۔ بھارت کے سوا پاکستان کی پوری دنیا میں کسی ملک کے ساتھ دشمنی نہیں۔ پل صراط سے گزرنے والے وزیراعظم بھارت کے ساتھ مل کر کس دشمن کے ساتھ لڑنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں؟ اگر وہ دشمن کسی ملک کو نہیں سمجھتے تو غربت پسماندگی اور جہالت کو دشمن قرار دیا ہوگا جو یقیناً دونوں ممالک کے عوام کے دشمن ہیں۔ اس دشمن کو تو بھارت نے پال رکھا ہے۔نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم ہوتے نہ ان کو عملی صورت میں پنپتے دیکھنے کی خواہش مچلتی، نہ وہ اسلحہ و گولہ بارود کے ڈھیر لگا نے پر اپنے وسائل جھونکتا۔نہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہوتی اور نہ اس کی کوکھ سے غربت افلاس جہالت اور پسماندگی جنم لیتی۔
تجارت کا حجم بڑھا کر12 ارب ڈالر کرنے کی امیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت میں سوا ارب ڈالر کا خسارہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز ملک بھرمیں 16سے 20 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی اور یہ معمول بن چکا ہے۔ آدھا ہفتہ صنعتوں کو گیس کی سپلائی معطل رہتی ہے۔ زمامِ اقتدار جن ہاتھوں میں ہے‘ ان میں ہی اگلی ٹرم کیلئے رہی تو ہو سکتا ہے ہم مکمل طورپر اندھیروں میں ڈوب جائیں۔ تجارت 12 ارب ڈالر کرنے کی جستجو تو بڑی ہے۔ آپ ایکسپورٹ کیا کریں گے؟ کیا بھارت سے 12 ارب ڈالر کی صرف درآمدات ہی ہوں گی؟
لاہور کی اقتصادی کانفرنس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جذباتی ہوئے اور مائیک اچھالے بغیر فرمایا کہ پاکستان اور بھارت کے پاس دوستی کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ تلخ یادیں بھلانا ہوں گی۔ آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کرنا ہوں گے۔ میاں شہباز شریف نے جو کچھ کہا بھارت کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ باتیں شاید ایک صدی بعد کرنے کی تھیں۔ 
آپ کس کس تلخ یاد کو بھلائیں گے؟ تقسیم ہند کے موقع پر مسلمانوںکی قتل و غارت‘ خواتین کی بے حرمتی‘ سانحہ مشرقی‘ کشمیر‘ جونا گڑھ‘ مناوادر، حیدرآباد دکن سرکریک اور سیاچن پر تسلط جما کر مقبوضات کو مضبوط کرنے کے عمل کو‘ پاکستان کا جگر.... مشرقی پاکستان کو اُچک لینے کے اقدام کو‘ کشمیر پر روا رکھے گئے مظالم‘ کشمیریوں کی آج قبا محفوظ ہے نہ عزت مآب خواتین کی ردا۔ بلوچستان میں بھارت کی شرپسندی فاٹا میں را کے ایجنٹوں کی کارروائیاں۔ تلخ یادیں بھلانے کے حامی ایک لکیر کھینچ دیں کہ اس سے قبل کی تلخ یادیں بھلادی جائیں۔ اس کے آگے پھر نئی زندگی کا آغاز کریں۔ وہ بھی اس صورت میں کہ تمام تنازعات طے کر لئے جائیں۔ آغاز مسئلہ کشمیر سے ہو۔ امن کی آشا کے پرچارک کیا بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ بھارت کا خبث باطن پڑھنے اور اس کی منافقانہ چالیں سمجھنے کیلئے عقل سقراط اور دانشِ افلاطون کی ضرورت نہیں۔ اس نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو بھارت کا صوبہ ڈیکلیئر کر لیا ہے۔ وہ تو اسے اپنا اٹوٹ حصہ بنا چکا ہے پھر اس کے مذاکرات منافقت نہیں توکیا ہے! اس کی طرف سے امن کی آشا صرف اور صرف امن کا جھانسہ ہے۔ 
آج پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدگی اور پیچیدگی کی راہ پر ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ سلالہ چیک پوسٹ پر کی گئی جارحیت پر معافی مانگے۔ امریکہ اس طرف آنے پر تیار نہیں.... پاکستان پر سب سے بڑی قیامت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ٹوٹی تھی۔ ہمیں ملی تاریخ کی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا ذمہ دار بھارت تھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات‘ تجارت اور اسے من پسند قوم کا درجہ دینے اور تلخ یادیں بھلانے کی بات کرنے والے بتائیں کہ بھارت کو اپنے اس گھناﺅنے کردار پر پاکستان سے معافی نہیں مانگنی چاہئے؟ پاکستان کے ساتھ تعلقات اسی صورت بہتر ہو سکتے ہیںکہ بھارت‘ کشمیر‘ سیاچن سرکریک سمیت دیگر پاکستانی علاقوں سے اپنا تسلط ختم کرے اور سانحہ مشرقی میں اپنے قبیح فعل پر پاکستان سے معافی مانگے۔ دوسری صورت میں دونوں ممالک کسی صورت دوست ہو سکتے ہیں نہ دونوں کے مابین تجارت اور نہ ہی پائیدار تعلقات قائم رہ سکتے ہیں۔ جب بھی کوئی قائداعظم جیسا حکمران نصیب ہوا معاملات پھر وہیں شروع ہوں گے جہاں قائداعظم چھوڑ کر راہی عدم مسافر ہو گئے تھے۔ اب تو مسلح افواج کے تمام سربراہان پاکستانی ہیں کوئی جنرل گریسی ہے نہ اُس جیسا ہے۔

No comments:

Post a Comment