About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, May 1, 2012

سسٹم کے خلاف جنگ


 منگل ، 01 مئی ، 2012

سسٹم کے خلاف جنگ
فضل حسین اعوان ـ 20 گھنٹے 5 منٹ پہلے شائع کی گئی
سپریم کورٹ نے اسلحہ برآمد کیس میں ضمانت خارج کی تو شاہ زین بگٹی نے حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھائے نہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ جا ملے، ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی نہ عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی پر مبنی رویہ اپنایا‘ سپریم کورٹ کے فیصلے اور قانون کا احترام کرتے ہوئے اپنے 26 ساتھیوں سمیت گرفتاری دے کر خود کو عدلیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ دوسری طرف اسلام آباد والوں کا رویہ ملاحظہ فرمائیے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف علم بلند کر رکھا ہے۔ سزا ہوئی، بُھگت بھی لی لیکن اس کے بعد آئین کے مطابق عمل کرنے کی بجائے آئین کی من مانی تشریح کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا کوئی وزیراعظم بھی سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گا۔ ”کوئی“ سے نہ جانے ان کی کیا مُراد ہے کیونکہ وہ تو اقتدار سے الگ ہونے پر تیار ہی نہیں، کوئی تو ان کے جانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ گیلانی صاحب کو جو سزا ہوئی وہ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے باعث توہین عدالت پر ہوئی۔ سزا ملی اور بُھگتی لیکن عدلیہ کے بارے میں جارحانہ رویے میں تبدیلی آئی نہ اصلاح کی کوشش و کاوش نظر آئی۔ وزیر قانون کی توپوں کا رُخ سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی طرف ہے کہ انہوں نے فیصلہ کی کاپیاں سپیکر اور الیکشن کمشن کو کیوں بھجوائیں۔ رجسٹرار نے اپنے اسسٹنٹ کے اقدام کو درست قرار دیا ہے۔ پی پی کے ہی کچھ ذمہ دار فیصلہ سنانے والے ججوں کے خلاف ریفرنس لانے کی بات کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی لے میں ان کے وکیل نے بھی راگ الاپ دیا کہ وزیراعظم کو صرف سپیکر کی طرف سے ہی نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ سپیکر کی طرف سے اسسٹنٹ رجسٹرار کا خط لہرا دینا ان کی جانبداری کا ثبوت بن چکا ہے۔ صاف ظاہر ہے ان کا متوقع فیصلہ کیا ہو گا؟
گورنر لطیف کھوسہ بھی کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کر سکتی ہے۔ سیدھی سی بات آئینی و قانونی ماہرین بڑے سلیقے اور دلیل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ 26 اپریل کے فیصلے کے بعد یوسف رضا گیلانی آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل ہو چکے ہیں، ان کو استعفیٰ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ ملک آج کسی بھی وزیراعظم اور کابینہ کے بغیر چل رہا ہے۔ وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سزا دی تو وہ ایم این کی نشست سے نااہل ہو جائیں گے اس لئے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن فیصلہ آیا تو حسبِ سابق دیگر فیصلوں کی طرح اس فیصلے پر بھی عدلیہ کو آگے لگا لیا۔ جس ملک اور معاشرے میں عدلیہ کے فیصلوں کو اقتدار کے پاوں تلے روندا جائے گا اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ اگر دیوانی و فوجداری کیسوں کے فیصلے پارلیمنٹ کو ہی کرنے ہیں تو عدالتوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ فاروق نائیک کہتے ہیں کہ اسسٹنٹ رجسٹرار تنخواہ دار ہے وہ سپیکر اور الیکشن کمشن کو فیصلے کی نقول نہیں بھیج سکتا۔ جج بھی تنخواہ دار ہیں پھر تو وہ بھی فیصلہ نہیں کر سکتے، خود آپ اور آپ کے حکمران تنخواہوں کے ساتھ دیگر مراعات بھی لیتے ہیں ان کو تو آئین و قانون کو تہہ و بالا کرنے کا حق اور اختیار ہے کسی دوسرے ادارے کو داد و فریاد سُننے تک کا نہیں؟ عجب استدلال ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی حکومت آج جو کچھ کر رہی ہے ایک تو وہ پاکستان کی سیاست کو 90 کی دہائی جیسی محاذ آرائی کی سیاست کی طرف لے گئی ہے دوسرا اس نے سسٹم کے خلاف بھی اعلان جنگ کر دیا ہے۔ اس کا فوج کے ساتھ تلخ رویہ رہا، ججوں کو مانتے ہیں نہ ان کے فیصلوں کو --- جس سے ملک میں جنگل کا قانون نہیں تو اور کیا ہو گا؟ میاں نواز شریف نے آئین کے مطابق چلنے کی بات کی تو ان کی کرپشن کے کیس کھول دئیے گئے۔ کرپشن جرم ہے لیکن اس کو چھپائے رکھنا بھی جرم سے کم نہیں۔ البتہ یہ کہہ کر ن لیگ جان نہیں چُھڑا سکتی کہ رحمن ملک جھوٹوں کے آئی جی ہیں۔ رحمن ملک جو ثبوت دکھا رہے ہیں ان کا مدلل جواب آنا چاہئے محض بیان بازی رحمن ملک کے الزامات پر صداقت کی دلیل تصور ہو گئی۔ 
آج ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے۔ کونسا بحران ہے جس کا ملک و قوم کو سامنا نہیں۔ حکمران اپنی اصلاح کے بجائے اپنے ہی عوام اور عدلیہ کے خلاف ہتھیار اُٹھائے ہوئے ہیں کسی کی سُنتے ہی نہیں ماننے کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ عدلیہ، فوج اور اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی میں ملک کا ککھ ککھ ہو رہا ہے اور نوبت جلد ملک کا ککھ نہ بچنے تک آ جائے گی، آخر اس کا انجام کیا ہو گا؟ ان حکمرانوں کی دستبرد سے اگر کچھ محفوظ ہے تو وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ کیا ملکی مفاد پر نظریں رکھنے والی قوتیں اس کا بھی سودا ہونے کی منتظر ہیں؟ وہ آگے آئیں اور ملک و قوم کو مزید بحرانوں میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اپنا مصلحانہ کردار ادا کریں۔ موجودہ حکمرانوں کی خواہش ہی شاید یہ ہے کہ اپنی باری لے لی اب دوسروں کی کیوں آئے۔ اس لئے تیسری قوت کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ تیسری قوت ان کی خواہش پورا کرنے کے بجائے جمہوریت کو رواں دواں رکھنے اور ملک و قوم کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ویسا ہی کردار جیسا 1988ءسے 1997ءتک ادا کیا۔

No comments:

Post a Comment