About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, February 26, 2011

27-2-11مولا یا صلے و سلم

خون کا حساب

ۃ 26 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے جرا ¿تمندانہ اور بے باکانہ موقف اپنانے پر آج کل شاہ محمود قریشی کا جاہ و جلال قابل دید ہے۔ عوامی پذیرائی پہ انکے زمین پر قدم نہیں ٹکتے، ہواﺅں میں اڑتے اور خوابوں کی دنیا میں بستے ہیں۔ استثنیٰ کے جبر کو قبر بنانے کیلئے پرعزم، ریمنڈ کو مجرم ثابت کرنے پر مائل، سزا دلانے کے قائل ہیں۔ ریمنڈ کے حوالے سے عوامی جذبات کے ترجمان اور قوم کی قیادت کے خواہاں لگتے ہیں۔ عوامی غیرت زندہ، ضمیر روشن ہیں۔ جن کا احساس مر چکا، ضمیر خوابیدہ، انہیں آئینہ دکھا رہے ہیں۔ قریشی صاحب جرا ¿ت کے نشان، قومی غیرت کے ترجمان بن کر دم بدم، قدم قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ سیاست کو نئی جہت دئیے جا رہے ہیں، اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑے جا رہے ہیں۔ اپنے لئے نیا مقام نئی دنیا نیا زمانہ پیدا کررہے ہیں۔ بھٹکا ہوا آہو سوئے حرم جا رہا ہے۔ زرداری حکومت نے اٹھا کر وزارت سے باہر پھینکا تو میڈیا نے زمین پر گرنے سے قبل ہاتھوں پر اٹھایا، کئی طبقوں نے آنکھوں پر بٹھایا۔ میڈیا کے کچھ لوگ جو ان کو نااہل قرار دیتے تھے، ان پر اچانک وہ خوبیاں بھی عیاں ہوگئیں جو ان میں کبھی تھیں بھی کہ نہیں۔ حکومت کی مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر عمل پیرا لوگ ”پھوک“ دئیے جا رہے ہیں۔ قریشی صاحب اس پھوک سے پھیل اور پھول رہے ہیں۔ نوازشریف کے متوالے سے جیالے بنے۔ اب بھٹو بننے نکلے ہیں۔ ایک طرف فرمایا لوگ کرسی لیکر میں اسے ٹھکرا کر خوش ہوں۔ دوسری طرف کرسی کی حسرت بھی موجود ”آخر میرا قصور کیا ہے، مجھے وزیر خارجہ کیوں نہیں بنایا گیا“۔ ریمنڈ ڈیوس کے استثنیٰ کیخلاف عَلم بلند کرکے خود اپنے بہت سے اعمال سے استثنیٰ حاصل نہیں کرسکتے۔ قوم کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ اِدھر شاہ صاحب روشن ضمیری کی بات کریں، اُدھر سب کچھ بھول جائے۔ فرماتے ہیں بھارت کے ساتھ پانی کا معاملہ انہوں نے پہلی بار اٹھایا۔ گزشتہ سال انہوں نے ہی فرمایا تھا کہ پانی کی کمی کا ذمہ دار بھارت نہیں ہماری اپنی مس مینجمنٹ ہے۔ آپ نے کشن گنگا ڈیم اور دریائے توی پر بنائی جانیوالی جھیل کا کیس عالمی عدالت میں لے جانے سے قبل ہی خراب کردیا ہے۔ نیا فرمان ہے کہ ریمنڈ کا معاملہ مس ہینڈل کیا گیا ہے۔ مجبور کیا گیا تو ذمہ داروں کے نام بتاﺅنگا۔ اگر ضمیر جاگ گیا ہے تو دیر کس بات کی، انتظار کس چیز کا، بتائیں نام، صدر اور وزیراعظم کو تو بدستور مہربان قرار دیتے ہیں۔ باقی ان کی طرح سارے صدر اور وزیراعظم کے چیلے ہیں۔ یہ بھی سنئے ”کیری لوگر بل کا دفاع کیا تو مجھے امریکہ کا چمچہ کہا گیا“ اب قریشی صاحب فارغ ہیں، فوج کے بارے میں جو کچھ بل میں کہا گیا اسے ملاحظہ فرمائیں تو ثابت ہوجائیگا کہ اس بل کا ہر حامی امریکہ کا چمچہ ہے.... وہ تین سال وزیر خارجہ رہے۔ کشمیر پر انہوں نے کیا پیشرفت کی؟ کشمیر کے حوالے سے وزارت خارجہ اور کشمیر کمیٹی کشمیریوں کو نظرانداز کرنے والا بزدلوں اور مفادپرستوں کا ٹولہ بنی ہوئی ہے۔ بیان بازی سے آگے ایک قدم بھی نہیں بڑھایا۔ ملتانی پیر کہتے ہیں کہ امریکی سفیر کا مطالبہ تسلیم نہ کرنے پر میونخ میں ہلیری سے ملاقات منسوخ کی گئی۔ آپ ایک خودمختار، جمہوری اور ایٹمی ملک کے وزیر خارجہ تھے۔ امریکہ کی کسی باجگزار ریاست کے نہیں۔ ہلیری نے ایسا توہین آمیز سلوک کیا تو اسکا سفارتی سطح پر جواب دیا جانا چاہئے۔ موصوف اگلی ملاقات کی تمنائیں لئے اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے رہ گئے۔ ایک اور رنگ بازی ملاحظہ فرمائیے ”امریکہ اس روئیے کی توقع نہ رکھے جو مشرف سے کیا کرتا تھا“۔ امریکہ کی جنگ مشرف سے بھی زیادہ جوش و جذبے سے آج لڑی جا رہی ہے۔ ڈومور کا ہر تقاضا وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ کے توسط سے حقیقت کا روپ دھارتا ہے جس کے کل تک آپ ذمہ دار تھے۔ ریمنڈ نے دو انسانوں کو خود قتل کیا، مزید دو کے قتل کی وجہ بنا۔ ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ گویا ریمنڈ نے چار مرتبہ پوری انسانیت کو قتل کردیا۔ شاہ محمود قریشی عام پاکستانی کی طرح انسانیت کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اچھی سوچ، اچھا عمل اور اقدام ہے۔ امریکی ڈرون حملوں میں بچوں اور خواتین سمیت اڑھائی ہزار افراد موت کی لکیر کے اُس پار چلے گئے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 30 ہزار عام پاکستانی اور 3 ہزار فوجی جاں بحق ہوئے۔ بتائیے انسانیت کتنی ہزار بار قتل ہوئی۔ قریشی بھائی نے ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا، وزارت خارجہ کے منصب کے دوران ایسا ہی رویہ اختیار کرتے، امریکہ کو منہ توڑ جواب دیتے تو انسانیت کو کئی ہزار بار قتل ہونے سے ضرور بچا لیتے۔ تین سال میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر اور ڈرون حملوں میں جو لوگ مارے گئے اسکے ذمہ داروں میں پہلے تین کا نام لیا جائے تو وزیر خارجہ اس میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ انکو بے گناہوں کے خون کا حساب تو دینا ہوگا۔ اس جہاں میں اور اس جہاں میں بھی۔


Friday, February 25, 2011

قائد کے سپاہی اور فدائی

جمعۃالمبارک ، 25 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان ـ
فانی انسان کی یادوں کو اس کا کردار اور عمل لافانی بنا دیتا ہے۔ اقبال اور قائد کی یادیں، ان کی باتیں اور فکر و فلسفہ آج ہمارے لئے اثاثہ اور سرمایہ ہے۔ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہاں انگریز کی غلامی سے آزادی دلائی اور ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا وہیں نوجوان صحافی حمید نظامی سے نوائے وقت کی بنیاد رکھوائی۔ 23مارچ1940ء کو پندرہ روزہ نوائے وقت کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ 1942ء کو یہ ہفت روزہ اور قائد اعظم کے فرمان پر 22جولائی1944ء کو روزنامہ بن گیا۔ گویا قائد محترم کی ہدایت پر حمید نظامی کے ہاتھوں یوم پاکستان کے روز لگایا گیا پودا قیام پاکستان سے قبل بہت سی منزلیں طے کر چکا تھا۔ یہ تحریک آزادی کا ترجمان بنا۔ مسلمانوں کی زبان دو قومی نظریہ کا اعلان اور وطن کے مجاہدوں کا عہدوپیمان بنا۔ حمید نظامی تحریک آزادی کے گرم جوش طالب علم رہنما قائد کے وفادار ساتھی، غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار، آزادی کے لئے ہمہ تن برسرپیکار، خون جگر دینے پر مائل، استعمار کی بیخ کنی کرنے کے قائل تھے۔ پاکستان بنا تو نوائے وقت کو عام آدمی کی صدا نوا دوا، دعا اور ندا بنا دیا۔ مجید نظامی عمر میں حمید نظامی سے 13سال چھوٹے ہیں انہوں نے باپ بن کر پالا تو مجید نظامی صاحب نے بھی بیٹا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ کوئی بھی تقریب فنکشن یا جلسہ ہو پہلے حمید نظامی کا نام آتا ہے۔ مجید نظامی صاحب بھی تحریک آزادی کے مجاہد ہیں۔ لیاقت علی خان نے ان کو مجاہدانہ خدمات پر سند کے ساتھ تلوار عنایت کی۔
قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی نے حق گوئی و بیباکی، بیداری، وطن سے وفا کی علمبرداری کا پرچم اٹھائے اور لہرائے رکھا۔ جس سے انگریز کے کتے نہلانے کے انعام میں جا گیریں اور اقتدار حاصل کرنے والے دیوانوں، مستانوں، دولتانوں اور ٹوانوں کی جھوٹی انا مجروح ہوئی جو نوائے وقت انگریز کی حکمرانی میں بھی مسلسل بلا تعطل شائع ہوتا رہا وہ 1950ء کی دہائی میں کچھ عرصہ کے لئے بند کر دیا گیا۔ 1940ء کے عشرہ میں مجید نظامی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخباری معاملات میں اپنے بھائی جان کی معاونت بھی کیا کرتے تھے۔ حکمرانوں کی درشتی، دھونس اور جبر دونوں بھائیوں کے عزم اور پائے استقلال میں ہلکی سی لرزش اور جنبش بھی نہ لا سکا۔ قائد اعظم کے پاکستان میں 1958ء میں مارشل لاء لگا تو حمید نظامی روح تک لرز گئے۔ کیا لاکھوں جانوں اور آبروئوں کی قربانی یہ دن دیکھنے کے لئے دی گئی تھی؟ مارشل لاء کے باعث حمید نظامی کی صحت گرنے لگی، باقی کسر اخبار کے ساتھیوں نے بے وفائی کرکے پوری کر دی جس کے باعث حمید نظامی صاحب فروری1962ء کو جاں سے گزر گئے۔
اسی روز مجید نظامی کو لندن سے بلوایا گیا۔ نظامی صاحب کے کہنے پر آغا شورش نے انہیں فون کیا۔اس کے بعد اخباری معاملات مجید نظامی کے پاس آئے تو انہوں نے وہیں سے ان کو آگے بڑھایا جہاں سے حمید نظامی صاحب چھوڑ کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے تھے۔ اس کے بعد مجید نظامی صاحب نے چار مارشل لائوں کو جس طرح حق ہوتا ہے اسی طرح بھگتا۔ نوائے وقت شجر سایہ دار تو حمید نظامی کی حیات میں ہی بن گیا تھا۔ اس شجر سایہ دار کو ثمر بار مجید نظامی نے بنایا۔ نوائے وقت اشاعت کے پہلے روز سے کرائے کی عمارت سے نکلتا رہا۔ آج لاہور، کراچی، ملتان، پنڈی میں اس کے اپنے دفاتر ہیں۔ ساتھ ہفت روزہ ندائے ملت، فیملی میگزین، ماہانہ پھول، ڈیلی دی نیشن بھی نوائے وقت کی آگنائزیشنز ہیں۔ تین چار سال سے وقت نیوز چینل بھی اپنی بلڈنگ میں نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔
میری نظر میں مجید نظامی کا کامیاب ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ بہترین منظم ہونا بھی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔بہت سے لوگوں کی محبت نوائے وقت ہے لیکن نوائے وقت والوں کی پہلی محبت اسلام پاکستان اور نظریہ پاکستان ہے۔ مجید نظامی صاحب نوائے وقت پبلیکیشنز کی طرف بڑی توجہ دیتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر مرکوز ہے۔ دفتر آنے سے قبل نظریہ پاکستان جاتے ہیں۔ تن، من دھن سے اس کی خدمت پر تین بائی پاس ہونے کے باوجود کمربستہ ہیں۔ نوائے وقت ملک کا ایک بڑا اشاعتی اور نشریاتی گروپ ہے لیکن اس کے مالک درویشانہ زندگی گزارتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے دو کنال جگہ کھیتوں میںخریدی اور اپنا گھر بنا لیا اسی قدیم وضح کے گھر میں قیام پذیر ہیں۔ وضعدار ایسے کہ ہر ملنے والا سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ کسی پر مہربان نہیں۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا اسے تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ حمید نظامی نے قائد اعظم کے سپاہی اور مجید نظامی نے حمید نظامی کے بھائی اور قائد کے فدائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔

Thursday, February 24, 2011

مہرجان

جمعرات ، 24 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
شہر ہزاروں کی آبادی کا ہو‘ لاکھوں یا کروڑوں کا‘ اسکے امن کو صرف چند شرپسند ہاتھ میں بندوق تھام کر تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔ ان چند ایک بدقماشوں اور بدمعاشوں کو معاشرے کا نمائندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ویسے بھی شر‘ برائی اور غلاظت بغیر زیادہ کوشش کے پھیلتی اور بڑھتی ہیں‘ اچھائی نیکی اور شفافیت کیلئے باقاعدہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ صاف ستھری ریلوے کی بوگی‘ بس یا کسی بھی گاڑی حتیٰ کہ دفتر اور جہاز تک میں بھی گندگی غیرارادی طور پر پھیلتی ہے۔ صفائی ستھرائی کیلئے تردد کرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ چند بداعمال افراد کے ہاتھوں یرغمال بن جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے؟ 
مشرقی پاکستان کا المیہ کچھ اقتدار کے بھوکوں کی وجہ سے پیش آیا‘ اس میں کچھ حصہ نااہل قیادت اور ملک دشمنوں کی سازشوں کا بھی تھا۔ کچھ اِس طرف سے نفرت کی چنگاری اڑائی گئی‘ زیادہ اُس طرف سے آگ دہکائی گئی۔ نفرت کی دیواریں کھڑی کرنیوالے نہ یہاں اکثریت میں تھے‘ نہ وہاں‘ اُس طرف مٹھی بھر شرپسندوں نے مغربی پاکستان کیخلاف زہریلا پروپیگنڈا کرکے نفرتوں کے بیج ضرور بونے کی کوشش کی‘ اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے‘ اسکے باوجود دو قومی نظریے پر ایمان و ایقان رکھنے والے کبھی اقلیت میں نہیں رہے۔ پاک فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان میں اختیارات سے کچھ تجاوز ضرور ہوا ہو گا لیکن اس پر کوئی ذی شعور اعتبار نہیں کر سکتا کہ تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کر دیا گیا اور دو لاکھ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ یہ سب جھوٹ بنگالیوں کو پاک فوج سے متنفر اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کیلئے علیحدگی پسند غداروں نے تواتر کے ساتھ بولا۔ عام بنگالی پاکستان سے محبت کرتا ہے‘ تاہم ایک طبقہ آج بھی نفرت کی فضامیں کمی نہیں ہونے دینا چاہتا۔ حسینہ مجیب کی نفرت کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی‘ شیخ مجیب الرحمان مکافات عمل کا شکار کا ہوا‘ اسکی بیٹی کسی نہ کسی صورت اس کا پاکستان کو بھی ذمہ دار گردانتی ہے۔ پاکستان کی بات کرنیوالوں کو اب بھی جنگی مجرم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں وسیع پیمانے پر بے پایاں خواہش ہے کہ مشرقی اور مغربی بازو پھر سے خواہ ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن سے ہی سہی‘ جڑ جائیں۔ ایسی خواہش دوسری طرف بھی پائی جاتی ہے اس کے باوجود بنگلہ دیش ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے‘ وہاں ایک طبقہ کے اندر بدستور پاکستان کیخلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے‘ اس آگ کو دہکائے رکھنے میں وہاں 25 فیصد ہندو اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کو ”را“ کی ہمیشہ سے آشیرباد حاصل رہی ہے۔ وہ بنگالی مسلمانوں کو اپنی اساس اسلام سے ہٹا کر قومیت پرست بنگالی بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور پاک فوج کےخلاف یہی ہندو اور قومیت پرست پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ آج کل بنگالی فلم ”مہرجان“ انکے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہی ہے‘ یہ فلم گزشتہ ماہ ریلیز کی گئی تھی‘ محبت کے موضوع پر بننے والی اس فلم کی نمائش مٹھی بھر شدت پسندوں نے رکوا دی ہے۔ یہ 1971 ءکی بغاوت کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔ جس میں ایک بنگلہ لڑکی پاکستانی فوجی کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہندو ذہنیت کی پیداوار فلم میں خیرکا تو کوئی پہلو ہو ہی نہیں سکتا‘ اس میں دکھایا گیا ہے کہ یہ فوجی اپنے ساتھی اہلکاروں کی طرف سے مبینہ جنگی جرائم کے ارتکاب میں شمولیت سے انکار کر دیتا ہے جس کے باعث اس کا کورٹ مارشل کردیا جاتا ہے۔ فلم کی ڈسٹری بیوشن کمپنی مبینہ کے مالک حبیب الرحمان کا کہنا ہے کہ 1971ءمیں اس نے مکتی باہنی کا ساتھ دیا تھا‘ آج مہرجان کی ریلیز پر اسے اسکے ساتھی بھی غدار قرار دیتے ہیں۔ ایک فلم جو مکمل طور پر ہندو ذہن کی عکاس ہے‘ اس میں صرف پاکستانی فوجی کا ذکر ہے جو ایک لڑکی کی محبت میں بھگوڑا ہو گیا۔ یہ بھی ہندوانہ سوچ اور ذہنیت کے حامل بنگالی قوم پرستوں کو ناگوار گزر رہی ہے۔ حالانکہ اس فلم پر پاکستان کی طرف سے اعتراض ہونا چاہیے کیونکہ اس میں پاک فوج کو جنگی جرائم کا مرتکب دکھایا گیا ہے۔ 
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ بنگالی جن کی پاکستان کیخلاف مسلسل پروپیگنڈے سے برین واشنگ کی گئی ہے‘ ان تک حقائق پہنچائے جائیں۔ انکی کنفیوژن دور کی جائے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آج انٹرنیٹ اور فیس بک کے ذریعے عرب دنیا میں بے سمت اور شتربے مہار قسم کے انقلاب برپا ہو رہے ہیں‘ پرانی قیادتوں کو اٹھا کر پھینکا جا رہا ہے‘ نئی قیادت موجود ہی نہیں۔ تیونس اور مصر میں انکے صدور گئے پیچھے ہنوز بدامنی ہے۔ لیبیا میں تحریک زوروں پر ہے‘ بس قذافی کو نکالنا ہے اسکے بعد کیا ہو گا‘ مظاہرین کے پاس کوئی لائحہ عمل اور حکمت عملی نہیں ہے.... ہمارے سینما گھروں میں بھارتی فلمیں چل رہی ہیں فلم ساز فارغ ہیں‘ وہ اس طرف آئیں‘ بنگلہ زبان میں حب الوطنی پر مبنی فلمیں بنائیں‘ نوجوان طبقہ خصوصی توجہ اس طرف کرے‘ انٹرنیٹ اور فیس بک کا استعمال کرکے بنگالی بھائیوں کی جس قدر ہو سکے کنفیوژن دور کی جائے۔ ان کو حقائق سے آگاہ کیا جائے ان کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی غلط فہمیوں کی دھند کو ہٹایا جائے انکی یرغمال بنی سوچ کو آزاد کرانے کی کوشش کی جائے‘ اس سے نفرتیں اور دوریاں کم‘ محبتیں اور قربتیں بڑھیں گی۔

Wednesday, February 23, 2011

مزید مہلت

 بدھ ، 23 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
25 مربعوں کے مالک چودھری کا بیٹا اوپر سے امریکہ میں نوکر، تین ساڑھے تین لاکھ تنخواہ۔ شادی شہر میں کی۔ اکثر باراتی کُلّے، لاچے، بوسکی کی قمیضیں اور کھسے پہنے ہوئے تھے۔ بارات فائیو سٹار ہوٹل میں بلائی اور ٹھہرائی گئی۔ وہاں بیرے باراتیوں سے بھی اونچے شملے نکالے ہوئے تھے۔ بہت سے باراتی ان کو اپنے سے بڑا چودھری سمجھ کر دونوں ہاتھ ملاتے رہے… صدر جنرل ضیاء الحق فرانس کے دورے پر گئے۔ قیام ہوٹل میں تھا۔ شام کو دروازے پر دستک ہوئی۔ صدر نے یس کہا، آنیوالے نے سفید یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ سینے اور کندھے پر بہت سے تمغے سجے تھے۔ صدر ضیاء الحق فوراً کھڑے ہو گئے۔ اسے گلے ملے اور گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ قریب بٹھا کر دفاعی اور قومی امور پر گفتگو شروع کر دی۔ جنرل فیض علی چشتی بھی وہاں موجود تھے۔ مہمان نے زیادہ وقت نہیں لیا اور گویا ہوا میں تو ہوٹل کا ویٹر ہوں‘ آپ سے پوچھنے آیا تھا کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔ ضیاء الحق اسے فرانسیسی بحریہ کا ایڈمرل سمجھ بیٹھے تھے۔ 
پاکستان میں بھاری بھرکم کابینائوں کا رواج پرانا ہے۔ ایک وزیراعظم کو صدر نے کابینہ بنا کر دی۔ دوسرے تیسرے روز کابینہ کے اجلاس کی صدارت کیلئے آتے ہوئے وزیراعظم صاحب ایک ڈرائیور کو اپنا وزیر سمجھ کر اس سے بغلگیر ہو گئے… وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے نام 96 وزیروں کی کابینہ کی گئی تو نہ جانے کب تک ان کے نام یاد کرتے رہے۔ مشیر اس کے علاوہ تھے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججوں، افواج کے سربراہوں اور کور کمانڈروں کے نام اور چہرے یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ پرانوں کے نام اور ان کے کام یاد نہیں رہتے نئے آنے والوں کو دل کے کس نہاں خانے میں بٹھائیں اور بسائیں؟ اس قباحت اور دماغ کھپانے سے بچنے کیلئے پرانوں کو اپنی آئینی مدت کے مطابق ایکسٹنشن دے دیتے ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ حکومت نے دس نکاتی ایجنڈے پر کوئی پیشرفت نہیں کی۔ گیلانی صاحب کا دعویٰ ہے کہ 6 پر عمل کر دیا 4 کیلئے مزید وقت چاہئے۔ جن نکات پر عمل ہوا اب ن لیگ انہیں ڈھونڈے رخِ زیبا لیکر۔ یہ بھی پوچھ لے کہ وزیراعظم نکات کس کو سمجھتے ہیں۔ کہیں نوکریوں پرمٹوں اور لائسنسوں کو تو نہیں سمجھتے۔ صدر وزیراعظم نے نوازشریف کے 10 نکاتی ایجنڈے کو کوئی اہمیت دی یا نہیں، ایک نکتے کو ضرور پذیرائی بخشی۔ کابینہ سے کرپٹ وزراء کو فارغ اور کابینہ کا سائز کم کرنے کا مطالبہ مان لیا۔ جن کو صدر اور وزیراعظم نے کرپٹ سمجھا ان کو کابینہ سے نکال دیا۔ جن کو ن لیگ یا کوئی اور کرپٹ سمجھتا تھا وہ صدر وزیراعظم کی نظر میں ایسے پارسا ٹھہرے گویا ع
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں 
اس کا شاید وزیراعظم کو افسوس بھی ہو کہ جب پوری کابینہ کے نام یاد ہوئے تو کابینہ سکیڑ دی گئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کابینہ کا سائز کم ہونے سے کچھ نہ کچھ بچت تو ضرور ہوئی ہے دیکھئے یہ بچت قومی خزانے میں جاتی ہے یا تقسیم پچیس وزیر۔ اب پھر کابینہ میں توسیع کی باتیں ہو رہی ہیں۔ صدر وزیراعظم اسی سائز کی کابینہ پر تکیہ کریں۔ وزیروں کی فوج ظفر موج کی ضرورت نہیں۔ موجودہ کابینہ میں بھی ضرورت سے دس بارہ زیادہ وزیر ہیں۔ ان میں سے ن لیگ جن کو کرپٹ سمجھتی ہے ان کو بھی پچھلوں کی طرح چلتا کریں تو شاید نوازشریف مزید مہلت دے دیں۔


Tuesday, February 22, 2011

سفارت.... شرافت یا شرارت

 منگل ، 22 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
قوموں، معاشروں اور افراد کی اصالت، اصلیت و حقیقت انکے قول و فعل اور کردار و عمل سے واضح ہوتی ہے۔ ہمارے لئے اسوہ ¿ رسول ضابطہ حیات ہے۔ ریاست مدینہ کو ہمہ وقت دشمنوں سے خطرات کا سامنا ہے۔ حضور نے دشمنوں پر نظر رکھی۔ انکے منصوبوں اور عزائم کا کھوج لگانے کیلئے خفیہ مشن بھی ترتیب دئیے لیکن کسی سفیر سے کبھی جاسوسی کا کام نہیں لیا۔ سفیر کاکام دوسرے ملک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا۔ متعین ملک میں اپنے ہم وطنوں کے حقوق کا تحفظ اور تجارتی و سفارتی تعلقات کو جدید تقاضوں کے مطابق فروغ دینا ہوتا ہے۔ نہ صرف سفیر کے ساتھ تعینات عملے سے بلکہ دوروں پر آئے شہریوں سے بھی سفیر جیسے کردار کی توقع رکھی جاتی ہے لیکن سامراجی، استعماری قوتوں اور نراجی خواہشوں کی حامل طاقتوں نے سفارت کو شر، شرارہ، شرارت، بنا دیا ہے۔ جاسوسی کو سفارتکاری کا لبادہ اوڑھا کر اسے نفرت، حقارت اور خباثت کی علامت بنا دیا۔ نجابت اور شرافت کو رذالت اور ذلالت کے گڑھے میں پھینک دیا۔ اب ثبوت سامنے آرہے ہیں کہ ریمنڈ سی آئی اے کا قائم مقام چیف تھا۔ اسے سفارتخانے یا امریکی قونصلیٹ کا عام ملازم قرار دیا جا رہا ہے جو خاص ہیں وہ کیا گل کھلاتے اور پاکستان کی جڑیں کس طرح کھوکھلی کرتے ہوں گے! امریکہ پاکستانی حکمرانوں کو آج نہیں عرصہ سے اپنے اچھے برے مقاصد کیلئے استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ 1957ءمیں وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے روس کی جاسوسی کیلئے صدر آئزن ہاور کی درخواستِ تعاون کو پذیرائی بخشی۔ جس طرح آج بلیک واٹر، میرینز اور دیگر کاریگر اور بازیگر سفارتی لبادے میں پاکستان آرہے ہیں، آئزن ہاور کے ”نیک مقاصد“ کیلئے بھجوایا، عملہ بھی سفارتکاری کیلئے ہی آیا تھا۔ پشاور ائربیس سے امریکی پروازیں روسی فضا میں داخل ہوکر اپنا کام کرتی رہیں۔ پھر یکم مئی 1960ءکو امریکی یوٹو روس نے گرالیا لیکن اسکی خبر جاری نہ کی۔ جھوٹ، فریب، دغا بازی، دھونس اور ہٹ دھرمی اس بزعم خویش ہمہ صفت موصوف کی گھٹی میں پڑی ہے۔ 4 مئی کو جاسوسی طیارہ مار گرانے کا اعلان کیا تو امریکہ نے کہا اسکا ترکی سے اڑنے والا موسمی طیارہ لاپتہ ہوا ہے۔ پائلٹ نے آخری بار آکسیجن کا مسئلہ درپیش آنے کی کال کی تھی۔ ہوسکتا ہے وہی طیارہ راستہ بھٹک کر روسی حدود میں جاگرا ہو۔ اسکے ساتھ اسی قسم کے ایک جہاز کو ناسا کا رنگ و روغن کرکے اور مونو لگا کر میڈیا کو دکھا دیا گیا۔ 7 مئی کو امریکیوں کے جھوٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب روسی وزیراعظم خروچیف نے کہا کہ پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا گیا ہے اور وہ صحتمند و تندرست ہے۔ اس سے روسی کرنسی 7500 روبل‘ خواتین کے زیورات اور اسلحہ ملا ہے جبکہ جہاز کے اندر سے جاسوسی کیمرے اور حساس مقامات کی تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آئزن ہاور نے معافی مانگنے سے انکار کیا جس کے باعث خروشیف پیرس میں ایسٹ ویسٹ سمٹ ادھوری چھوڑ کر چلے آئے۔
روس کو جاسوسی پروازوں کا علم ہوا تو اس نے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے جہاز گرایا اور پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو بچایا۔ روسی انجینئروں نے یوٹو جہاز کے سپیڈ سسٹم کو کنٹرول کرکے سپیڈ زیرو کردی۔ جہاز نیچے آرہا تھا کہ زمین سے ٹکرانے سے قبل پائلٹ بیل آﺅٹ کرگیا۔ اسکے آدھے گھنٹے بعد وہ روسیوں کی حراست میں تھا۔ اسکو بھی سائنائڈ کا کیپسول تھمایا گیا تھا لیکن وہ ایسی جبلت، فطرت اور سرشت کی حامل نسل سے تعلق رکھتا تھا جو اپنے مقاصد کی خاطر لاکھوں انسانوں کا قلع قمع تو کر سکتی ہے‘خود اپنے ہاتھوں اپنی جان نہیں لے سکتی۔ ویسے کوئی آفت آئے یا کوئی قہر بن کر ٹوٹ پڑے تو بے شک چند لمحوں میں تین چار ہزار خاک اور راکھ کا ڈھیر بن جائیں‘ اسے پروا نہیں۔ 
جہاز بنانے، ان میں جدت لانے اور انکو گرانے کا سلسلہ لگ بھگ ایک صدی سے جاری ہے۔ کم از کم سات سال سے امریکہ کے ڈرون جہاز پاکستان پر یلغار کر رہے ہیں۔ اب 23 جنوری کے بعد کل تقریباً ایک ماہ بعد حملہ ہوا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے ان حملوں کا مہرہ ریمنڈ تھا۔ وہ پکڑا گیا تو حملے بند ہوگئے۔ ڈرون حملوں میں ریمنڈ کا کچھ نہ کچھ کردار تو ہوسکتا ہے، امریکہ اور سی آئی اے کا اس پر یا کسی بھی ایک شخص پر مکمل انحصار نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس خبر میں صداقت ہوسکتی ہے کہ طالبان اور القاعدہ کو ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوگئی ہے جس کے ذریعے وہ ڈرونز کی فریکوئنسی کو ڈسٹرب کرکے مار گراتے ہیں۔ 23 جنوری کے بعد چھ ڈرونز کو اہداف تک پہنچنے سے قبل مار گرایا گیا۔یہ اسی سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے روس نے امریکہ کا جاسوس طیارہ یوٹو گرایا تھا۔ یوں سمجھئے طالبان اور القاعدہ کے ہاتھ کروز میزائل آگیا ہے جو مجاہدین کے ہاتھوں روس کی تباہی بربادی ذلت آمیز شکست اور انتشار کا سبب بنا تھا۔ اب اِکا دُکا ڈرون ہی حملہ کے بعد بچ پایا کرینگے۔شاید اب تاریخ خود کو دہرانے چلی ہے اور مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کا بھی وہی حال ہونیوالا ہے جو اس خطے میں روس کا ہوا تھا۔
٭٭٭

Sunday, February 20, 2011

بنگلہ دیش …حسین سپنا …متحدہ پاکستان ِ نو

 اتوار ، 20 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
الائو یکدم نہیں دہکتا‘ الائو کی بنیاد چنگاری ہے‘ چنگاری شعلہ اگلتی ہے‘ جس سے آگ کا الائو اور بھانبھڑ بھڑک اٹھتا ہے۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے کی سوچ پاکستان نیوی کے افسر لیفٹیننٹ کمانڈر معظم حسین کے شیطانی ذہن کی پیداوار تھی۔ معظم نیوی جائن کرنے کے بعد تربیت کیلئے انگلینڈ گیا‘ واپسی 8 نو سال بعد ہوئی۔ آتے ہی اس نے غدارانہ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اپنی سازش کو انجام تک پہنچانے کیلئے اسے مقبول سیاسی قیادت کی ضرورت تھی۔ اسکی نظرِ انتخاب شیخ مجیب الرحمان پر پڑی۔ مجیب سے 1964ء میں ملاقات کرکے اپنی پلاننگ سے آگاہ کیا۔ مجیب نے اتفاق کرتے ہوئے بالواسطہ حمایت پر آمادگی ظاہر کی۔ 26 مارچ 1971ء کو اسے اپنے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ یوں مغربی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا پہلا منصوبہ ساز خود اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کی نذر ہو گیا۔ 
شیخ مجیب الرحمان علیحدگی کی راہ پر گامزن تھا‘ اندرا گاندھی اس کی مدد کو آئی اور 16؍ دسمبر 1971ء کو معظم حسین کی پھینکی ہوئی نفرت کی چنگاری نے شعلہ جوالہ اور پھر الائو بن کے پاکستان کے بدن کو جلا کر ایک حصے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ ملک کے دو حصے ہوئے‘ فائدہ ان کو ہوا جن کے سر پر لیلائے اقتدار کا ہما بیٹھا‘ ایک بنگو بدھو بنا‘ دوسرے کا تاجِ شاہی پہننے کا خواب پورا ہوا جو متحدہ پاکستان کی صورت میں شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ خونِ جگر دیکر جو اسلامی مملکت حاصل کی گئی تھی‘ دونوں حصوں کے مکین اسے اپنی آنکھوں سے بکھرتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اُدھر اور اِدھر کی جس قیادت نے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے‘ ان پر بڑے سے بڑا تبریٰ بھی ادنیٰ معلوم ہوتا ہے۔ ان کو تو انسان کہنے سے بھی گھِن آتی ہے۔ قوم انکے ہاتھوں یرغمال بن گئی اور اپنے ساتھ ہونیوالا تماشا بے بسی‘ بے کسی اور بے چارگی سے دیکھتی رہی۔ انکے دل آج بھی ایک دوسرے سے محبت‘ اخوت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہیں۔
نواز شریف 1997ء میں بنگلہ دیش کے دورے پر گئے‘ جمعہ کی ادائیگی بیت المکرم میں طے پائی‘ پاکستانی صحافی پہلی اذان سے آدھا گھنٹہ قبل مسجد گئے تو عجب منظر دیکھا‘ رمضان المبارک میں بیت الحرام کے اردگرد افطاری کے موقع پرجو ماحول ہوتا ہے‘ ویسا ہی یہاں بھی تھا‘ مسجد کے اردگرد بازاروں اور گلیوں میں بنگالی جانمازیں اور چادریں بچھا کے بیٹھے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے منتظر تھے۔ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر نواز شریف تو بیت المکرم نہ گئے‘ گوہر ایوب نے انکی نمائندگی کی۔ بنگالیوں کے ایوب خان کے بارے میں جذبات ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ اسکے باوجود گوہر ایوب کی پذیرائی قابل دید تھی۔ یہ لوگ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت میں چلے آئے تھے۔ ضیاء دور میں ایک وفد بنگلہ دیش گیا‘ ایک شخص انکے گلے لگ کے زار و قطار رو رہا تھا‘ پتہ چلا کہ وہ متحدہ پاکستان کے آخری سپیکر قومی اسمبلی جسٹس عبدالجبار خان (1902- 1984) تھے‘ ان سے قبل پانچویں سپیکر قومی اسمبلی فضل القادر چودھری تھے‘ انکی بھی پاکستان سے محبت لازوال تھی‘ ان پر بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا گیا‘ وہ 1973ء میں دوران قید چل بسے۔بنگلہ دیش جو بھی پاکستانی گیا‘ بنگالیوں کی محبت سے سرشار ہو کر لوٹا۔ رفیق غوری صاحب سے حج اور عمرہ پر جانے کے حوالے سے سوال کیا جائے تو پرنم آنکھوں سے جواب دیتے ہیں بیت الحرام سے قبل بیت المکرم جانا چاہتا ہوں۔ گویا دونوں طرف محبت کی آگ ہے برابر لگی ہوئی۔ 
17؍ فروری کو ڈھاکہ میں ورلڈ کرکٹ کپ کی افتتاحی تقریب ہوئی‘ بنگلہ دیشی ٹیم سٹیڈیم میں داخل ہوئی تو اس کا والہانہ استقبال ہونا ہی تھا۔ پاکستانی ٹیم آئی تو بنگالیوں کا جوش و خروش اور پاکستان سے محبت کے جذبات عروج پر تھے‘ 35 ہزار بنگالی اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو گئے اگلی ٹیم کے آنے تک سٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔ پھر ارونالیلیٰ نے دمادم مست قلندر‘ سخی شہباز قلندر‘ پنجابی کافی گا کر سماں باندھ دیا۔ کہاں گئے وہ بازی گرجو معصوم بنگالیوں کو مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی مہک آنے کی کہانیاں سنا کر گمراہ کرتے اور اردو زبان کو نفرت کا نشان قرار دیتے تھے۔ آج ڈھاکہ کا بنگو بدھو سٹیڈیم میں بنگالی ‘پنجابی کافی پر جھوم رہے تھے اور گلوکارہ بھی وہ جو علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان منتقل ہو گئی تھی۔ بنگالیوں کی طرف سے پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کے بے پایاں جذبات دیکھ کر بہت سی آنکھیں اشک بار ہو گئیں‘ یٰسین وٹو تو باقاعدہ رو دیئے۔ 
بنگالی ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں لیکن جس انداز سے بچھڑے اسکی یاد آئے تو دل پھٹتا اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان کو مصیبت میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے لیکن خوشی میں دیکھ کر عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہے جسے والہانہ پن کا نام دیا جا سکتا ہے‘ نہ حسد‘ جلن اور افسردگی کا‘ کاش! کوئی مرد کامل دو حصوں کو پھر ایک کر دے۔ یہ حسین سپنا اِدھر اور اُدھر کے کروڑوں مسلمانوں نے آنکھوں میں سجایا اور دل میں بسایا ہوا ہے۔


Saturday, February 19, 2011

اوور ٹائم

 ہفتہ ، 19 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
اس میں کوئی شک نہیں کہ چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلائے جائیں تو انسان بہت سے مسائل سے بچ جاتا ہے۔ پاکستان میں سرکاری طور پر کم از کم تنخواہ سات ہزار مقرر ہے۔ لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں جن کو تین ہزار میں بھی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پوری کوشش کے باوجود بھی کچھ لوگ چادر کے مطابق پاﺅں پھیلانے پر قادر نہیں ہیں۔ محدود آمدنی میں آپ خاندان کی خوراک، صحت، تعلیم کی ضروریات بمشکل پوری کرتے ہیں۔ شادی پر اخراجات میں گریز کیا جاسکتا ہے، مرگ پر جانا لازم ہے۔ ہر شادی سے بھی گریز ممکن نہیں۔ آسان حل قرض سے کام چلانا ہے۔ قرض تو لیا ہی واپس دینے کیلئے جاتا ہے۔ قرض کا مرض لگ جائے تو زندگی اجیرن، بدنامی مقدر بن جاتی ہے۔ جو لوگ نوکری کے ساتھ ساتھ اوور ٹائم لگاتے ہیں انکی زندگی قدرے آسان اور بعض صورتوں میں قابل رشک بھی ہوجاتی ہے۔ اوور ٹائم اپنے ہی ادارے میں کیا جائے تو کہیں تنخواہ کے حساب سے ڈیڑھ گنا، کہیں دو گنا اور تین گنا معاوضہ بھی ملتا ہے۔ بعض ملازمتیں ایسی ہیں جہاں اوور ٹائم کا تصور ہی نہیں، لیکن ضرورت ایجاد کی ماں کے مطابق اگر کچھ کرنے کا ارادہ ہو تو سلیقہ و قرینہ بھی آجاتا ہے۔
بہت پہلے ملیر کینٹ ابھی اتنا پھیلا نہیں تھا۔ ایم ای ایس کے ایس ڈی او کو بھی آمدن اور اخراجات میں تفاوت کا سامنا تھا۔ وہ اس فرق کو پورا کرنے کیلئے شام کو مونگ پھلی، چلغوے، چنے اور دیگر ایسی ہی اشیاءکے پیکٹ بنا کر قریبی سینما لے جاتے۔ آخری شو کے وقفے تک ان کا تمام سامان بک جاتا۔ ایس ڈی او بڑا سرکاری عہدہ ہوتا ہے۔ چاہے تو شام تک لاکھوں روپے کمالے لیکن ایسی کمائی نارِ جہنم ہے اور اس حرام کمائی سے اولاد کی پرورش کی جائیگی تو اس سے ”حرامیت“ کے سوا کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ ان ایس ڈی او صاحب کی اولاد نے جائز کمائی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سب کے سب اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔کام، کاروبار اور اوور ٹائم یا سائیڈ بزنس کیلئے تھوڑی سی عقل اور بہت سی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوج میں اوور ٹائم اور سائیڈ بزنس کا تصور بھی نہیں ہے لیکن یہاں بھی لوگ بڑے طریقے سے اپنے معاملات درست رکھتے ہوئے بہت کچھ کرلیتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کوئٹہ، پشاور یا کراچی میں تعینات ہیں۔ وہ فیصل آباد سے کپڑا خرید کر لے جاتے ہیں یا انکے عزیز بھجوا دیتے ہیں جن کو ضرورت ہوتی ہے، انکو مارکیٹ سے کم نرخوں پر مل جاتا ہے۔ پشاور کے رہنے والے چائے کی پتی اور قہوے وغیرہ سے اپنی روزی میں جائز اضافہ کرتے ہیں۔ چاول پر بڑے شہروں میں تیس سے چالیس روپے کلو منافع بھی لیا جاتا ہے۔ یہ کسی چھاﺅنی یا عام علاقے میں کوئی فوجی یا سویلین پانچ روپے کلو منافع پر فروخت کرے تو ہوسکتا ہے کہ ایک دن میں ایک ٹرک تک بک جائے۔
ہمت کی اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ آپ پہلے گاہک تلاش کریں جو آسانی سے مل سکتے ہیں۔ ایک نیم فوجی ادارے کے اہلکار کی رشک بھری داستان سنئے۔ یہ پشاور سے چائے کی پتی لاہور لاکر چند دکانوں کو سپلائی کرکے خوش تھا۔ اسکا تبادلہ کراچی ہوا تو پریشان ہوگیا لیکن ہمت نہیں ہاری۔ کراچی سے وہ گارمنٹس کا سامان بھجوانے لگا۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو تبادلہ گوادر ہوگیا۔ پریشانی نے ایک مرتبہ پھر گھیرا لیکن خدا کا نام لے کر وہاں بھی قسمت آزمائی کی۔ پراپرٹی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ایک بڑے صنعتکار کو وہاں کچھ زمین کی ضرورت تھی۔ اس نے پراپرٹی ڈیلر سے ملوا دیا۔ سودا طے ہوا تو پراپرٹی ڈیلر نے ڈیڑھ لاکھ روپے کمیشن دیدیا اور خریدار نے چند ماہ بعد گوادر میں ہی کاروبار شروع کیا تو اس نوجوان کو ڈیڑھ لاکھ تنخواہ پر انچارج مقرر کردیا۔ دو سال بعد اس نے مالک سے اجازت چاہی اور اپنا کاروبار شروع کردیا اور آج اسکا لاہور، کراچی، ملتان اور راولنپڈی میں اربوں کا بزنس ہے۔ ضروری نہیں کہ کاروبار کروڑوں اور اربوں سے ہی شروع ہو .... سرکاری محکمے کا نائب قاصد گھر سے دو کلو دودھ شہر میں دکان پر لے جا کر فروخت کر دیتا۔ ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا تو پڑوسیوں سے بھی لے کر جانے لگا۔ اس نے دیانت کا دامن نہ چھوڑا شہر میں خالص دودھ کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ڈیمانڈ اتنی ہوئی کہ بات دس من تک جا پہنچی۔ اب سارا کام اس کے ملازم کرتے ہیں۔ آپ آغاز تو کریں، اللہ نیک نیتی اور خلوص سے شروع کئے کاروبار میں برکت ضرور ڈالتا ہے۔ رزقِ حلال کیلئے یہ کائنات بہت وسیع ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھال کر اسے محدود قرار دیدیں تو اس میں خالقِ کائنات کا کیا قصور....! ذرا سوچئے، غور کیجئے، آپ پر بہت سے در وا ہوجائینگے۔ حالات کو اپنی بدقسمتی قرار دیکر جان دے دینا کوئی بہادری نہیں۔
٭٭٭

Friday, February 18, 2011

تیونس مصر کے بعد؟

جمعۃالمبارک ، 18 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
14 جنوری 2011 کو تیونس میں صدر زین العابدین کی 23 سالہ آمریت کا جنازہ اٹھا تو 11 فروری کو عوام نے مصری صدر حسنی مبارک کو بھی کنویں سے باہر نکال پھینکا، حسنی مبارک کے خلاف پہلا مظاہرہ 23 جنوری کو قاہرہ کے تحریر چوک میں ہوا۔ ساتھ ہی اردن، الجزائر اور یمن بھی مظاہرین اپنے اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین کے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں۔ کرپشن، مہنگائی، بیروزگاری، اقربا پروری اور لاقانونیت۔ عالمی دانشوروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ عرب ممالک کے عوام اب جاگ گئے ہیں۔ تیونس کے بعد دیگر عرب ممالک بھی میں تبدیلیاں ہوں گی۔ انقلابات جنم لیں گے۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں بھی حالات اچھے نہیں۔ بہت سے ممالک میں تبدیلی آ سکتی ہے انقلاب بھی برپا ہو سکتا۔ پرامن بھی اور خونیں بھی۔ لیکن دانشوروں کو صرف عرب ممالک میں تبدیلی اور انقلاب کی ہوا چلتی کیوں نظر آ گئی؟ یہ یقیناً ان کا تجزیہ نہیں بلکہ خواہش ہے۔ جمہوریت آمریت اور ملوکیت میں سے اسی سسٹم کا سلسلہ جاری و ساری رہ سکتا ہے جس میں انسانی حقوق کا احترام ہو۔ عوام کے احساسات، جذبات، عزت نفس اور ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کی تعداد 192 ہے ان میں 57 اسلامی ممالک ہیں چند ایک میں جمہوریت ہے اکثر میں بادشاہت آمریت و ملوکیت ہے کچھ میں جمہوریت و ملوکیت کا ملغوبہ۔ جو اسلامی ممالک جمہوریت کی علمبرداری کے دعویدار ہیں وہاں بھی اس کا ’’نیست اور نشٹ‘‘ مار کے رکھا ہوا ہے۔ پاکستان اس کی درخشاں مثال ہے۔ جمہوریت آمریت سے ملتی جلتی شکل میں رائج ہے۔ ممکن ہے کچھ دوست اس سے بھی اتفاق نہ کریں اور کہیں اللہ کا شکر ادا کرو جمہوریت ہے۔ 
سعودی عرب اور لیبا میں ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ حکمرانوں اور طرزِ حکمرانی سے مطمئن نہ ہوں لیکن وہاں وسیع پیمانے پر کوئی ایسی بے چینی نظر نہیں آتی جس سے کوئی تبدیلی کی آس لگا لے۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان اپنی رعایا کا خیال رکھتا ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے نے قتل کیا تو بدلے میں اس کی بھی گردن تن سے جُدا کر دی گئی۔ ہمارے ہاں قاتل کے خلاف جتنے بھی ثبوت ہوں مقدمے کی طوالت کے باعث وہ معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اکثر اوقات ملزم بے گناہ قرار پاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ مدعی پارٹی اس سے انتقام لیتی ہے یا ملزم مزید لوگوں کو مار کر ایک بار پھر عدالت کو گمراہ کرنے کے لئے کٹہرے میں موجود ہوتا ہے۔ ریمنڈ 2 پاکستانیوں کا قاتل ہے، وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہے۔ اس کے امریکی پشتیبان اور پاکستانی مہربان کہتے ہیں کہ اسے استثنٰی حاصل ہے۔ 1961ء کا ویانا کنونشن اگر یہ کہتا ہے کہ کسی سفارتکار کو اپنا نشانہ چیک کرنے کے لئے دو تین انسانوں کو مارنے کا حق حاصل ہے تو ایسے قانون اور قانون بنانے والوں پر لعنت ہے۔ خون کا بدلہ خون ہے۔ اب تو پولیس نے بھی قرار دیدیا کہ ریمنڈ نے مزاحمت پر قتل نہیں کئے۔ ریمنڈ کو چھوڑنا ہی ہے تو اللہ ہمت دے تو حسین حقانی بھی دو چار امریکیوں پر اپنا نشانہ آزما لیں۔ ان کا تو سفارتی استثنٰی بھی متنازعہ نہیں ہے۔ 
کرنل قذافی گذشتہ 42 سال سے لیبیا کی زمامِِ اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ کرنل قذافی نے خوابیدہ قوم کو بیدار کیا۔ لیبیا کا عالمی سطح پر وقار بلند کیا۔ لیبیا نے اٹلی سے آزادی حاصل کی۔ اطالوی فوج نے تحریک آزادی کے مجاہد 70 سالہ عمر مختار کو پھانسی لگا دی تھی۔ کرنل قذافی نے اس کی 10 ریال کے نوٹ پر تصویر چھپوائی۔ 2009ء میں اٹلی کے دورے پر گئے تو سینے پر عمر مختار کی تصویر چسپاں کی ہوئی تھی۔ ہم بھارتی حکمرانوں کی آمد پر دارالحکومت کی سڑکوں سے کشمیر کے بورڈ بھی اتار دیتے ہیں۔ قذافی، وزیراعظم برلسکونی سے بغلگیر ہوئے تو تصویر گلے میں بدستور موجود تھی۔ یہ قذافی ہی ہیں جنہوں نے مصر اور لیبیا کے ادغام کی تجویز پیش کی۔ بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے لئے بلینک چیک دیا۔ چودھری شجاعت لیبیا گئے تو قذافی نے کہا آپ لوگ کشمیر کی آزادی کی تحریک چلائیں خرچہ میں کروں گا۔ آج اس کے عوام اس سے مطمئن ہیں۔ اسلامی ممالک میں بغاوتوں کی صورت میں انقلاب کا خدشہ و امکان تو کسی بھی وقت موجود رہتا ہے تاہم سعودی اور لیبیائی حکمرانوں سے اب تک تو ان کے عوام مطمئن ہیں۔ وہاں تعلیم، صحت بجلی پانی گیس اور ٹیلی فون تک کی فری یا نہایت کم قیمت پر سہولتیں دستیاب ہیں۔ انصاف کا دور دورہ ہے۔ کسی کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہیں ہوتی تو کیا عوام کا دماغ خراب ہے کہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر جان قربان کرنے چلے آئیں۔

Tuesday, February 15, 2011

یا صاحب الجمال و یا سید البشر

 بدھ ، 16 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
ہم مسلمان شکووں کے خوگر‘ گِلوں کے پیکر‘ مجسمہ شکایات و اعتراضات بنے رہتے ہیں‘ اپنی ادائوں پر غور کرتے ہیں‘ نہ اپنے اعمال‘ افعال اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں‘ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم غیروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں؟ انکے غیض و غضب کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں‘ اس قدر لاچار‘ بیکار‘ بے بس‘ بے کس‘ مجبور و مقہور‘ بدنام‘ بے نام کیوں ہیں؟ وجہ بڑی سادہ سی ہے‘ ہمارے آباء جب سر پر کفن باندھ کر دنیا میں اسم محمدؐ سے اجالا کرنے نکلتے تو پہاڑ انکے راستے کی دیوار بنتے‘ نہ سمندر و دریا رکاوٹ‘ وہ طوفان کی مانند بڑھتے چلے جاتے۔ 
ہم حیران اور پریشان ہیں کہ بدر کی طرح آج فرشتے ہماری مدد کو کیوں نہیں آتے ہیں؟ فرشتے آج بھی مدد کیلئے کمربستہ ہیں‘ آپ معرکہ بدر تو برپا کریں‘ ہماری خواہش ہے ہم گھروں میں سر بسجود رہیں‘ فرشتے ہمارے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں اور کامرانی کا علم ہمیں تھما دیں…؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی 
فضائے بدر پیدا کرنے کیلئے صاحب لولاک‘ سیاحِ ارض و افلاک‘ سرور کشور رسالتؐ کے نقشِ پا سے رہنمائی اور دانائی حاصل کرنا ہو گی۔ خدا تک رسائی کیلئے اسکے محبوب کا دامن تھامنا ہو گا…؎
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آج ہماری دنیا میں ذلت و رسوائی‘ پستی و بے توقیری کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے اسوہ رسولؐ سے منہ موڑ کر ان سے رشتہ جوڑ لیا جن کے بارے میں قرآن اور صاحبِ قرآن کا ارشاد ہے‘ ’’یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔ جب ہم نے اپنا کعبہ ہی بدل لیا تو صاحبِ کعبہ سے شکوہ و شکایت کیوں؟ ہم شمشیر و سناں سے تائب‘ طائوس و رباب کے قائل ہو کر رہ گئے‘ تن آسانی کیلئے اپنا ضمیر بیچا‘ جاہ و جلال بیچا‘ خودی اور خودداری بیچی‘ شجاعت و کمال بیچا‘ پھر اپنے حال پر نظر دوڑاتے ہیں تو دل کے کسی نہاں خانے میں پڑی چنگاری‘ تاب ناک ماضی کی یاد دلاتی ہے تو دل سے نکلے ہوئے الفاظ آنسوئوں کی صورت میں بہتے لگتے ہیں…؎
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے 
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے 
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے 
امت پہ جو عجب وقت پڑا اور دین غریب الغربا ہوا‘ اس میں دوش کس کا ہے؟ جب امت مباحات سے کنارہ کرکے خرافات میں کھو جائے‘ لغویات کو اپنالے‘ آمادہِ فسادات ہو‘ تو ٹھنڈی ہوائوں اور منزہ فضائوں کی توقع عبث ہے۔ کیا ہم نے دین کو اوجِ ثریا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا؟ وہ کردار یہ ہے…؎
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے 
نبیوں کے تاجور‘ محبوب اکبر و عزوجل‘ شہنشاہ خوش خصال‘ پیکر حسن و جمال‘ دافعِ رنج و ملال نے بگڑے ہوئے معاشرے کو چند سال میں راہِ راست پر لا کر دنیا کا رہنماء و رہبر بنا دیا‘ صاحب التاجِ والمعراج نے دنیا کو ایک دستور‘ ضابطہ حیات اور آئین دیا‘ اس ہستی اطہرو مطہر کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے منزل عظمت و عزیمت کا نشان ہے…؎
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے 
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا 
ہم گرد و غبار نہیں‘ انسان ہیں‘ اشرفِ مخلوق ہیں‘ اس نورمجسم کے امتی جو طواف کریں تو حرم بھی وجد میں آجائے‘ ہماری ٹھوکر میں دنیا سما سکتی ہے‘ پہاڑ رائی بن سکتے ہیں‘ ضرورت نبی محترم و مکرمؐ کے قدموں کی دھول کو سرمہ بنا لینا ہے‘ خیرالبشر کے اسوہ کو اپنا لینا ہے‘ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کہہ کر افغانستان میں مجاہدین نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو ادھیڑ کر اور بکھیر کر رکھ دیا‘ ہم پاکستانی بھی سید عرب والعجمؐ کا نام لے کر نکلیں‘ اپنے دشمن کو پہچانیں‘ اس پر وار کریں‘ یلغار کریں تو اپنا کھویا ہوا مقام‘ عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ پیار سے مشرقی پاکستان کو ساتھ ملا سکتے ہیں‘ تلوار سے کشمیر آزاد کرا سکتے ہیں‘ اس کیلئے سر پر کفن باندھنا ہوگا‘ جان ہتھیلی پر رکھنا ہو گی‘ سر بکف ہونا ہو گا‘ اسلام صرف نماز اور روزے میں ہی پوشیدہ نہیں…؎
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا 
ہمارے مصائب مسائل پستی و درماندگی‘ دکھوں‘ دردوں کا ایک درماں ہے‘ دامنِ مصطفیٰ تھام لیں‘ درِ خیرالانعام سے وابستہ ہو جائیں‘ اسکی رحمتوں سے پیوستہ ہو جائیں…؎
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نورالقمر 
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر


BANGLADESH,Untold Facts

13-2-11
BANGLADESH,Untold Facts
.فضل حسین اعوان
 مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے الگ ہوجانا وہ گھاﺅ ہے جس نے عام پاکستانی کی روح کو گہرائی تک گھائل کردیا ۔ پاکستانیوں کے دل و دماغ سے یہ سانحہ قیامت تک محو نہیں ہوسکتا۔ پاکستان ٹوٹنے کے عمل سے اُس طرف اور اِس طرف کے پاکستانی آج بھی ششدر ہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا گیا! ۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ دل قریب ہوں۔محبت و اخوت ہوتو فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کچھ لوگوں نے پاکستان دشمنی لالچ اور ذاتی مفاداتی سیاست کے باعث دونوں حصوں کے باسیوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کیں۔ پھر ان کو نفرت، کدورت ، کینے اور دشمنی تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ دونوں حصوں کے با اثر حلقوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بے جا و بے سروپا پراپیگنڈا کیا گیا۔ وہاں کی قیادت نے مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آنے کی بات کی تو یہاں کی اشرافیہ کے پروردہ دانشوروں نے جواباً کہا کہ ہماری معیشت پر دھوتی والے بوجھ ہیں۔ دونوں حصوں کے عام لوگ انگریز سے آزادی دلانے اور ہندو کی غلامی سے بچانے پر قائداعظم کے ممنون اور اپنی پاکستانیت پر شاد اور مطمئن تھے۔ پھر امن پیار اور اخوت کے جگنوﺅں اور تتلیوں کی جگہ بھنوروں اور گِدھوں نے لے لی۔ ان کے اندر کا خبث، لالچ اور زہر، خواہش بن کر باہر نکل آیا۔ کہیں سے الگ وطن بنانے اور کہیں سے ان کو سبق سکھانے کی آوازیں آنے لگیں۔ نفرت کی آگ کو حقارت کا تیل چھڑک کر اس کو مزید بھڑکایا گیا ۔ پھر قائداور اقبال کا پاکستان ٹوٹ گیا۔ وہ حصہ الگ ہو گیا جہاں پاکستان کو معرضِ وجود میں لانے کی سزا وار مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔کسی بھی حصے کے لوگ دوسرے حصے والوں سے بڑھ کر پاکستانی تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں عام پاکستانی کا کوئی قصور نہیں۔ یہ سانحہ نااہل حکمرانوں اور اقتدار کی منزل حاصل کرنے کی بے پایاں خواہش کے رسیا دونوں طرف کے سیاستدانوں کی سازش کے باعث رونما ہوا۔ پاکستان ٹوٹنے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ابھی تک اس کے محرکات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے سرکاری سطح پر کوئی تحقیق سامنے نہیں آئی۔ حمود الرحمن کمشن بنا۔ اس نے تحقیقات کی۔ وہ کبھی سرکاری طور پر سامنے نہیں آسکی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی بات ہوتی ہے تو محب وطن پاکستانیوں کا دل کٹ کے اور جگر پھٹ کے رہ جاتا ہے۔کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ وہ زخم بدستور تازہ اور ان سے خون رس رہا ہے۔ اس حوالے سے کوئی انکشاف سامنے آئے تو گویا زخموں پر نمک چھڑک دیا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالم کی کتابBANGLADESH UNTOLD FACTS پڑھنے کا موقع ملا۔مشرقی پاکستان میں شورش کے دوران کیپٹن دالم کوئٹہ میں تعینات تھے۔ ان کے اندر بھی بنگالیوں کیلئے ”جذبہ آزادی“ نے جوش مارا تو کیپٹن موتی اور لیفٹیننٹ نور کے ساتھ بہاولپور بارڈر کراس کرکے اپنی خدمات ”را“ کے حوالے کر دیں۔ کیپٹن دالم پاکستان سے جانے کے بعد میجر بنے۔ شیخ مجیب الرحمن سے بے تکلفی ہوئی شیخ مجیب نے 7آرمی افسروں کو کرپٹ سیاستدانوں کے دباﺅ پر فارغ کیا تو ان میں دالم بھی شامل تھے۔15اگست1975 کو مجیب الرحمن کو ان کے خاندان اور ساتھیوں سمیت قتل کیا گیا۔ان کی جگہ خوندکر مشتاق صدر بنائے گئے۔ان کو ریڈیو سٹیشن قوم سے خطاب کیلئے لایا گیا تو شریف الحق دالم وہاں یونیفارم میں استقبال کیلئے موجود تھے۔مجیب کے قتل کے بہت بعد ان کی بیٹی حسینہ واجد1996میں اقتدار میں آئیں تو اپنے والد کے قاتلوں کی معافی کا قانون ختم کرکے ملزموں پر مقدمہ چلایا گیا 11کو سزائے موت ہوئی۔ لیکن سزا پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ وہ دوسری بار اقتدار میں آئیں تو جنوری2010 میں میجر الہدیٰ،لیفٹیننٹ کرنل محی الدین،لیفٹیننٹ کرنل سید فاروق الرحمن، لیفٹیننٹ کرنل شہریار راشد خان اور لانسر اے کے محی الدین کو پھانسی لگا دیا گیا۔اس کیس میں لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالم ، لیفٹیننٹ کرنل عبدالرشید، لیفٹیننٹ کرنل نور چودھری، کیپٹن مجید،رسالدار مصلح الدین کو بھی سزائے موت سنا ئی گئی تھی لیکن وہ مجیب کی پتری کے ہتھے نہ چڑھ سکے۔ یہ لوگ نہ جانے دنیا کے کس کس کونے میں پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن کب تک۔ 
” بنگلہ دیش اَن ٹولڈ فیکٹس“ کب چَھپی، کہاں چھپی، کس نے چھاپی کتاب میں اس کا ذکر نہیں۔اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 1990سے قبل چھپی ہے۔اس میں جو کچھ لکھا گیا اس کا زیادہ تر حصہ منظر عام پر پہلے ہی موجود ہے تاہم دالم صاحب کے ذاتی تجزیات کے حوالے سے تھوڑا بہت نیا بھی ہے۔کرنل صاحب ایوب خان کے کردار اور پالیسیوں کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے محرکات قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں یحییٰ خان آخری دم تک پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں گھناﺅنا کردار ہے۔آخر میں اندرا گاندھی نے 5لاکھ فوج کی یلغار کرکے پاکستان توڑنے کا خواب دیکھنے والوں کو اس کی تعبیر دیدی۔
٭٭٭٭



کرنل دالم کیا کہتے ہیں اس پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں ” ایوب خان کا مارشل لاءپاکستان میں جمہوریت کیلئے تباہ کن تھا۔اس نے جمہوریت کو قتل کر دیا۔ایوب کا بنیادی جمہوری سسٹم وسیع پیمانے پر کرپشن کی جڑ بن گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے استحکام کو گزند کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد شفٹ کرنے سے پہنچی۔ ایک تیسرے درجے کے وکیل منعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنادیا گیا۔ طلبا منعم خان کی پالیسیوں کے خلاف تھے منعم کے بیٹے خسرو نے طلبا کے خلاف مسلح گروپ لاکھڑے کئے۔1965 کی جنگ میں مشرقی بازو مغربی سے مکمل طورپر کٹ گیا۔مشرقی پاکستان میں موجود وسائل سے بھارت کی جارحیت کا صرف 3دن مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔مشرقی پاکستان کا مکمل انحصار مغربی پاکستان پر تھا۔ مغربی پاکستان کی معیشت صرف 17روزہ جنگ میں ڈوب گئی تھی۔مجیب الرحمن نے اس تناظر میں 6نکاتی پروگرام پیش کیا جس میں مشرقی پاکستان کی خود مختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا....6نکاتی پروگرام بتدریج مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کا مطالبہ بنتا گیا۔ اچانک6جنوری 1968کو دو سینئر سی ایس پی افسروں سمیت26دوسرے ملٹری اور سول افسروں کو بھارتی قونصلیٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کو مسلح جدوجہد سے توڑنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔17جنوری کو مجیب الرحمن رہا ہوئے تو جیل کے گیٹ پر ان کو مذکورہ سازش میں شریک ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔اس کو اگر تلا سازش کیس قرار دیاجاتا ہے۔لیفٹیننٹ کمانڈر معظم کے ذہن میں بنگالی فوجیوں سے امتیازی سلوک کے باعث مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے کا آئیڈیا آیا۔ وہی اس منصوبہ بندی کا سرغنہ تھا۔ اسی طرح کے خیالات رکھنے والے لوگوں کی خواہش تھی کہ ایوب خان کے خلاف جاری مہم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کو آزاد کرالیاجائے۔ اگر تلا سازش کیس سے مجیب الرحمن کی مقبولیت میں راتوں رات اضافہ ہوگیا۔22فروری 1969 کو اگرتلا سازش کیس واپس لے کر شیخ مجیب اور ساتھیوں کو رہا کردیا گیا لیکن اس وقت تک وہ بنگالیوں کے ہیرو بن چکے تھے۔ مشرقی پاکستان میں سٹوڈنٹس مجیب الرحمن کے شانہ بشانہ ہوگئے۔مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔معاملات کنٹرول سے باہر ہوتے دیکھ کر ایوب خان نے اقتدار یحییٰ کے حوالے کردیا۔ یحییٰ خان کی پہلی تقریر بڑی حوصلہ افزا تھی جس سے دونوں حصوں میں جاری احتجاج اور ہڑتالیں ختم ہوگئیں۔
یحییٰ خان نے فیئر الیکشن کرائے۔مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن نے قومی اسمبلی کی 162میں سے 160،مغربی پاکستان میں ذوالفقار بھٹو نے 138میں سے 85 نشستوں پر کامیابی حاصل کی.... 23 مارچ 1971 کو یحییٰ خان اور مجیب الرحمن کے درمیان آخری ملاقات ہوئی جس میں مجیب الرحمن نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں الگ الگ قیادت کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔اس پر یحییٰ خان مشتعل ہوئے۔25مارچ کو مجیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا۔تاج الدین اور ساتھیوں نے بھارت جا کر جلا وطن حکومت قائم کرلی جس کا ہیڈ آفس کلکتہ میں تھا۔“
٭٭٭٭
شریف الحق دالم کا تبادلہ کوئٹہ سے کھاریاں اور موتی کا پشاور ہوا تھا۔ دونوں نے اپنی اپنی یونٹ کو آگاہ کیا کہ وہ بائی ائیر جائیں گے۔ اصل میں یہ ملتان ائیر پورٹ سے براستہ بہاولنگر بہاولپور قریب سے راجستھان میں داخل ہونے کا منصوبہ بناچکے تھے ۔تیسرے ساتھی نور نے ٹرین کے ذریعے بہاولنگر ریلوے سٹیشن سے ان کے ساتھ شامل ہونا تھا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی اپریشن جاری تھا۔ مغربی پاکستان میں عام آدمی بنگالیوں کیلئے وہی جذبات رکھتا تھا جو ایک پاکستانی کے دوسرے کیلئے ہونے چاہئیں۔ اس کا ثبوت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تمام بنگالیوں کا بحفاظت وہاں چلے جانا ہے۔دالم لکھتے ہیں کہ اپنے فرار کے منصوبے پر عملدرآمد کی ابتدا کوئٹہ میں اپنی یونٹ سے ائیر پورٹ روانگی سے ہوئی تو ان کے ساتھی افسروں نے ان کو بڑی محبت اور پیار سے الوداع کیا۔ ان کو جیپوں اور کاروں کے قافلے کے ساتھ ائیرپورٹ پہنچایا گیا۔ یہ جہاز کی طرف روانہ ہوئے تو ساتھی افسروں نے انہیں ہیرو کی طرح کندھوں پر اٹھا لیا۔مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسروں کا اپنے لئے یہ والہانہ پن دیکھ کر دالم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ حکمران جو کر رہے ہیں ان کو عام پاکستانی کی حمایت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ دالم اور ساتھی ائیر پورٹ کس جذبے سے گئے اور ساتھی افسر کس محبت سے خدا حافظ کہنے آئے۔ دالم اگر یہ آرٹیکل ملاحظہ کریں تو ان سے اور ان جیسی سوچ کے حامل دیگر بنگالی افسروں سے سوال ہے کہ انہوں نے پاکستان کے تحفظ اور اس سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ اس پاکستان کے تحفظ اور وفاداری کا جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔انہوںنے کیا صرف حلف ہی توڑا یا اسلام سے بھی منہ موڑلیا تھا؟ پاکستان کے تحفظ اور وفاداری کا حلف توڑنے اور ایسا ہی بنگلہ دیش کیلئے حلف اٹھانے تک وہ کس حلف کے تحت رہے ؟ کیا بھارت کے آئین کے تحت ؟




بہرحال تینوں افسر کامیابی سے بارڈر کراس کرتے ہوئے دہلی میں منسٹری آف ایکسٹرنل افیئرز جا پہنچے۔ جہاں ان کو را کے سربراہ جنرل اُبن سنگھ کی مہمانی میں دے دیا گیا۔ جنرل ابن نے تخریب کارانہ تربیت کیلئے ان کو بریگیڈئر نرائن کے حوالے کر دیا۔ را RAW) (پاکستان کے دفاعی معاملات تک رسائی کیلئے اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔اس کو ایجنسیوں کی تلاش میں اپنے جاسوس تک مروانے پڑتے ہیں پھر بھی مطلوبہ معلومات تک مکمل رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ را نے پہلے مرحلے میں پاک فوج کے افسروں اور اپنے مہمانوں سے ذاتی اور خاندانی حوالے سے معلومات حاصل کرتے ہوئے پاکستان کی دفاعی تنصیبات، تربیت لائف سٹائل، بارڈر سیکورٹی سسٹم سمیت تمام معلومات حاصل کیں۔ بریگیڈئر نرائن کی کمانڈ میں دالم موتی اور نور کو دو ہفتے کاکریش کورس کرایا گیا۔ جس میں انسرجنسی، کاﺅنٹر انسرجنسی، گوریلا جنگ، چھوٹے ہتھیاروں، بارود کے استعمال اور بغیر اسلحہ کے لڑنے کی تربیت دی گئی۔ جلا وطن حکومت اور جنرل اُبن کے مابین مشرقی پاکستان سے بارڈر کراس کرکے بھارت آنیوالے مہاجر نوجوانوں کی تربیت کیلئے کوآرڈی نیشن تھا۔ بھارت بنگلہ دیش لبریشن فورس بھی تیار کرنا چاہتا تھا جو مجیب الرحمن کی دست راست ہوتی اور اس کے بل بوتے پر مجیب، فوج اورپیرا ملٹری فورس سے بے نیاز ہوکر حکمرانی کرتے۔
دالم لکھتے ہیں کہ بھارت میں مہاجر کیمپوں میں موجود ایک لاکھ نوجوانوں کو گوریلا وار کی تربیت دی گئی ایک موقع پر صدر جنرل یحییٰ خان نے عام معافی کا اعلان کیا تو بھارت نے جلا وطن حکومت کو پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ کرنے سے منع کردیا۔
اندرا گاندھی نے بنگالیوں کو آزادی دلانے کے نام پر مشرقی پاکستان پر 5لاکھ فوج کے ساتھ حملہ کیا اس کی معاونت کیلئے دو لاکھ بھارت کے تربیت یافتہ گوریلے بھی ساتھ تھے۔ 5 لاکھ فوج کو فضائیہ اور بحریہ کی مدد حاصل تھی۔ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے موقع پر جلا وطن حکومت کے آرمی چیف اور مکتی باہنی کے کمانڈرکرنل عثمانی کو ریس کورس میں برپا ہونے والی اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا جس میں جنرل نیازی نے سرنڈر کیا تھا۔یہ تقریب جنرل اروڑا کا ون مین شو تھا جس کا مقصد دنیا پر واضح کرنا تھا کہ اس جنگ کا واحد فاتح بھارت ہے۔
جنگ ختم ہوئی تو تاج الدین کی قیادت میں جلا وطن حکومت ڈھاکہ منتقل ہوگئی۔ مجیب الرحمن رہا ہوکر لندن گئے وہاں سے بنگلہ دیش آنے کے بجائے اندرا گاندھی کے چرن چھونے اور آزادی دلانے کا شکریہ ادا کرنے بھارت چلے گئے۔ بنگلہ دیش آئے تو تاج الدین کو حکومت سے الگ کردیا۔پھر مجیب کے قدم آمریت کی طرف قدم بڑھتے چلے گئے۔ بنگالیوں نے مجیب کے ایجنڈے کو سپورٹ ضرور کیا تھا پاکستان توڑنے اور اسے بھارت و روس کا باجگزار بنانے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ 1972ءکے شروع میں ہی نو زائدہ ملک میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہو گئی۔ لوٹ مار، قتل و غارت اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا۔ ملک میں بھارت اور راکی پالیسیوں پر عمل درآمد ہورہا تھا۔بھارتی فوج واپس جاتے ہوئے فیکٹریوں اور گھروں سے سامان اٹھا کر لے گئی۔ ملک کو ناجائز اسلحہ سے پاک کرنے کی ذمہ داری فوج کو سونپی گئی۔ مجیب کے ساتھیوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو مجیب الرحمن چیخ اٹھے آپریشن بند اور گرفتار شدگان کو رہا کر دیا۔ 
ہر کسی کی خواہش تھی کہ ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیاجائے ۔ لیکن چند ماہ میں ہی یقین ہونے لگا کہ بہتری کی خواہش اور ”آزادی“ کیلئے جو خون اور پسینہ بہایا گیا اس سے معمولی سی بھی تبدیلی نہیں آنیوالی۔اس کی وجہ سیاسی قیادت کا قومی کے بجائے ذاتی مفادات کا تحفظ تھا۔پاکستان سے علیحدگی کے محض دو سال کے اندر لوگ بھوک سے مر رہے تھے مغربی ٹی وی چینل بھوک سے مرنے والوں کے لاشوں کے ڈھانچے دکھا رہے تھے۔ جو زندہ تھے وہ سوختہ جسم لئے پھرتے تھے اس کے ساتھ ہی اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات غربت کا مذاق اڑاتے تھے۔ طاقت اور دولت کے حصول کیلئے کامریڈ آپس میں گتھم گتھا تھے۔آپ1972کا کوئی اخبار اٹھا لیں اس میں قتل، ڈکیتی، اغوا قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے سوا کوئی خبر نظر نہیں آتی۔ بنگلہ دیش میں ہر طرف دہشت اور وحشت کی حکمرانی تھی۔ دنیا بھوکوں کیلئے خوراک بھیجتی تو یہ سرکاری سرپرستی میں دوسرے ممالک کو سمگل کردی جاتی تھی۔لوگ بھوک سے بد حال تھے توایسے موقع پر شیخ برادران سونے کے تاج سجا کر شادی رچا رہے تھے مولانا بھاشانی نے اس بد نظمی اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں حکومت نے چین اور پاکستان کا ایجنٹ قراردیدیا۔ مجیب کی ذاتی فوج راکھی باہنی نے ملک میں الگ سے غدر مچا رکھا تھا۔ایک موقع ایسا آیا کہ شیخ مجیب الرحمن کی پالیسیوں سے تنگ آکر ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروپ نے ان سے بنگلہ بندھو ”قوم کا باپ“ کا خطاب واپس لے لیا۔ مجیب الرحمن بنیادی طورپر موقع پرست بزدل اور ڈرپوک تھا۔ جس نے بالآخر ملک میں جمہوریت کا خون کردیا اس نے کئی بار کہا کہ وہ پاکستان کو کسی صورت ٹوٹنے نہیں دے گا۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اس نے کہا کہ وہ شروع سے ہی متحدہ پاکستان کے خلاف تھا۔ اُس نے اگر تلا سازش کیس میں ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا۔
حکومتی پالیسیوں سے تنگ آکر کرنل ضیاءالدین نے مقامی ہفت روزہ میں حکومت کے خلاف ایک سخت آرٹیکل لکھا جس میں کہا گیا ہم مجیب الرحمن کے بغیر لڑے اور جیت گئے اگر 



ضرورت پڑی تو ہم اس کے بغیر پھر لڑیںگے۔ گو ضیاءالدین نے اس کے بعد استعفیٰ دیدیا لیکن ان کی سوچ کو فوج اور سول میں خوش آمدید کہا گیاپھر فوج کے اندرسینا پرشاد کے نام سے ایک خفیہ تنظیم بنائی گئی جس میں بیورو کریٹس با اثر سویلین اور ریٹائرڈ فوجی بھی شامل تھے۔ اسی تنظیم نے بالآخر15اگست1975 کو مجیب الرحمن کے پورے خاندان کو سوائے دو بیٹیوں کے قتل کر دیا۔ 15اگست کی تاریخ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر شیخ مجیب الرحمن اپنی تا حیات صدارت کا اعلان کرنے والے تھے۔ 
٭٭٭٭
پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ قدرت کاملہ کا عظیم شاہکار ہے۔ جو لاکھوں جانوں کی قربانی اور خدا کی نصرت کے باعث دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ یہ ریاست مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی ریاست ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ربّ کائنات کا خاص کرم ہے کہ پاکستان رمضان المبارک کی ستائیسویں اور جمعة الوداع کے روز آزاد ہوا۔ پاکستان سے جس نے جیسا کیا اُسے ویسا ہی بدلا بھی ملا۔
قدرت کا اپنا نظام، انتظام اور طریقہ انتقام ہے۔ کسی محفل میں پاکستان توڑنے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بحث ہورہی تھی۔کوئی عدالتی ٹربیونل اور کوئی پارلیمانی کمشن تشکیل دینے کی بات کر رہا تھا۔کوئی حمود الرحمن کمشن رپورٹ کے سامنے لانے کی۔ ایک دانشور نے کہا ”خدا نے سانحہ مشرقی کے مجرموں کا تعین کرکے ان کو کیفر کردار تک بھی پہنچادیا۔اب آپ آسانی سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ بڑا مجرم کون دوسرے اور تیسرے نمبر کا کون ہے۔ محفل میں موجود تقریباً ہر آدمی چونک گیا ایک نے زور دیکر وضاحت کی درخواست کی تو دانشور نے بتانا شروع کیا”جن لوگوں کو ہم سانحہ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ان کے نام مخفی نہیں ہیں تعین سب سے بڑے دوسرے اور تیسرے نمبر کے مجرم کا کرنا ہے۔اس سانحہ کی سازش میں ملوث سب سے پہلے مجیب پھر بھٹو اور اندرا گاندھی قتل ہوئیں۔ اس سے بھی آپ مجرموں کے تعین میں کسی مخمصے کا شکار ہوں تو یہ بھی دیکھ لیجئے کہ مجیب الرحمن کے خاندان کے 7افراد کی موت غیر فطری ہوئی۔بھٹو صاحب سمیت 4 اور اندرا گاندھی کے خاندان کے ان سمیت 3افراد غیر طبعی موت مرے۔ مجیب الرحمن قتل ہوا تو سعودی اخبار شرق الاوسط نے تصویر کے ساتھ صرف اتنا لکھا ”مَن قَتَلَ باکستان قُتِلَ“ جس نے پاکستان کو قتل کیا قتل ہو گیا اندرا گاندھی کے قتل اور بھٹو صاحب کی پھانسی پر بھی ان کی تصاویر لگا کر یہی سرخی جمائی تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جو فوجی افسر پیش پیش تھے انہوں نے مجیب کو قتل کیا۔ پاکستان توڑنے کے سب سے بڑے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا لیکن انہوں نے یہ سب پاکستان کی محبت میں نہیں کیا۔ ان کا پاکستان توڑنے میں کردار اپنی جگہ، اس کی کسی کو سزا موت کی صورت میں ملی اور کسی پر اس وطن کی زمین تنگ ہوگئی جس کیلئے انہوں نے وہ سب کچھ کیا جس کی ان کا دین اجازت نہیں دیتا تھا۔اب وہ دربدر ہیں۔ اب اس جج اور اس کے خاندان کا المیہ ملاحظہ فرمائیے ؛ جسٹس قاضی غلام رسول نے مجیب کے قتل میں ملوث فوجیوں کو حسینہ واجد کے دباﺅ پر سزا سنائی وہ خود ان کی اہلیہ اورتین بیٹیاں پاگل ہوگئےں“۔ دانشور کی باتیں واقعی قابل غور تھیں۔
مشرقی پاکستان کے لوگ مغربی پاکستان والوں کی طرح ہی محب وطن تھے۔ بلکہ ہم سے بھی کچھ بڑھ کر۔ہم میں سے کتنے لوگوں کو بنگالی آتی ہے؟۔ وہاں آج بھی پچاس فیصد سے زائد بنگالی اردو بول سکتے ہیں۔یہاں اور وہاں ابھی تک طبقاتی تقسیم ختم نہیں ہوئی۔ عوام اور حکمران دو الگ الگ طبقات ہیں۔ دونوں کے رہن سہن میں فرق‘ کلچر میں فرق اور سوچ میں فرق ہے۔ بنگلہ دیش جانے والے پاکستانی واپسی پر بنگالیوں کی پاکستان اور پاکستانیوں سے والہانہ محبت کی کہانیاں سناتے ہیں۔ نالائق نااہل اور جاہل قیادت کے احکامات پر فوج سے اپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ زیادتی ضرور ہوئی لیکن شاید اس وسیع پیمانے پر نہ ہوئی ہو جس کا اُس وقت پراپیگنڈہ کیا گیا اور بنگلہ دیش میں موجود ایک طبقہ بدستور کر رہا ہے۔ جس میں مجیب کی بیٹی سرفہرست ہے۔ مجیب کو پاک فوج نہیں خود ان کی اپنی فوج نے قتل کیا۔ پاک فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان میں اگر کوئی غیر انسانی اقدامات کئے گئے تو ایسا کرنے والوں کو ہرگز معاف نہیں کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی ایسے لوگوں کو بھی عبرت کا نشان بنانا چاہئے۔ جنہوں نے دونوں بازﺅوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں اور حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ اقبال اور قائد کا ملک بکھر کر رہ گیا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان دین اسلام کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے جو بھارت نے توڑ دی۔کوئی مرد حق ہو تو آ ج بھی دونوں کو ایک لڑی میں پرو سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا سب سے بڑا ہاتھ ہے بھارت حملہ نہ کرتا تو پاکستان کا ٹوٹنا ناممکن تھا۔ پھر حالات کسی وقت بھی پٹڑی پر چڑھ سکتے تھے۔ کیا ہم ملک ٹوٹنے میں بھارت کا کردار بھول گئے؟ ۔آج اس کے ساتھ وفود کے تبادلے اور تجارت ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود بھی کہ وہ کشمیر پر بدستور قابض اور کشمیریوں کو نشانہ ستم بنائے ہوئے ہے۔ ہمارے اندر اتنی تو قوت ایمانی‘ غیرت اور حمیت ہونی چاہئے کہ اگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بدلہ نہیں لے سکتے تو کم از کم کشمیریوں کی خونریزی بند ہونے اور ان کی آزادی تک تو بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے‘ وفود کے تبادلوں اور تجارت سے صبر کر لیں۔
















روگ

منگل ، 15 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
امریکہ کے 35ویں صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی اہلیہ جیکولین کے ساتھ 1961ء میں 31 مئی سے تین جون تک فرانس کا دورہ کیا۔ اس وقت کینیڈی کی عمر 44 اور جیکولین کی 32 سال تھی۔ اس دورے کا کلائمیکس نوجوان جوڑے کے اعزاز میں ورسائی میں دیا جانیوالا سٹیٹ ڈنر تھا۔ اس ڈنر کی خاص بات یہ تھی کہ نوجوان امریکی صدر کینیڈی اور 71 سالہ فرانسیسی صدر ڈیگال کے درمیان ٹرانسلیٹر کے فرائض جیکولین نے ادا کئے تھے۔ اسے فرنچ زبان پر مکمل عبور حاصل تھا… ایک موقع پر فرانسیسی خاتون اول نے صدر کینیڈی کی گھڑی کی تعریف کی تو کینیڈی نے گھڑی اتار کر یونے ڈیگال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ہم امریکیوں کی روایت ہے کہ میزبان کو کوئی چیز پسند آ جائے تو اسے گفٹ کر دیتے ہیں۔ اس مکالمے سے ڈیگال نے محظوظ ہوتے ہوئے کینیڈی سے کہا مسٹر پریذیڈنٹ آپ کی اہلیہ بڑی خوبصورت ہیں!
صدر کینیڈی کو سود خوروں نے 22 نومبر 1963ء کو قتل کرا دیا۔ جیکولین کو بھرپور جوانی میں بیوگی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ 1968ء میں جان ایف کینیڈی کے بھائی رابرٹ کینیڈی کو بھی قتل کر دیا گیا تو جیکولین کو اپنی اور بچوں کی سکیورٹی کی فکر لاحق ہوئی اس نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اُس دور کے دنیائے جہازرانی کی صنعت کے بے تاج بادشاہ یونان سے تعلق رکھنے والے ارسطو اوناسس سے شادی کر لی۔ اوناسس کی عمر اُس وقت 68 سال تھی۔ اس نے شادی پر جیکولین کو تین ملین ڈالر اور اس کے دونوں بچوں کو ایک ایک ملین دئیے تھے۔ 
ارسطو اوناسس جس کی دولت کا خود اسے اندازہ نہیں تھا۔ آخری عمر میں اس کی آنکھوں پر اوپر سے ماس ڈھلک آیا تھا۔ کچھ بھی دیکھنے کے لئے اسے آنکھیں ہاتھ سے کھولنا پڑتی تھیں۔ اس سے کسی نے سوال کیا کہ اس قدر دولت رکھنے کے باوجود کوئی ایسی خواہش جو بدستور دل کے نہاں خانے میں موجود ہے؟ اس پر اوناسس کی آواز بھرائی اور آنکھوں کے اوپر چڑھے گوشت کے دبیز پردوں کے کسی کونے سے آنسوئوں کی پانی میں ڈھلتی ہوئی پتلی سی لکیر نمودار ہو کر رخسار پر آ گئی۔ اس نے کہا ’’میری خواہش ہے کہ میں آنکھیں جھپک سکوں‘‘۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ’’اس کے عوض آپ کیا دے سکتے ہیں‘‘ تو اوناسس نے حسرت بھرے لہجے میں کہا ’’آدھی دولت بلکہ اس سے بھی زیادہ‘‘۔ 
انسان ہیرے جواہرات سے مرصع کروڑوں روپے کا بیڈ خرید سکتا ہے تختِ طائوس بنوا سکتا ہے۔ اطلس حریر کے بستر لگوا سکتا ہے لیکن نیند نہیں خرید سکتا۔ بڑا دولت مند ہو گا تو مہنگی ترین ادویات تک دسترس پا لے گا، دنیا کے بہترین ڈاکٹروں تک رسائی حاصل کر لے گا بڑے سے بڑا ہسپتال خریدنے کی استطاعت بھی ہو سکتی لیکن صحت قیمتاً نہیں مل سکتی۔ فرعون نے جنت بنا لی، مشرف نے چک شہزاد میں قلعہ تعمیر کرا لیا۔ کسی نے سرے محل اور فرانس میں ولا بنوا لیا۔ پام سٹی میں بنگلے خرید لئے لیکن یہ خدا کی مرضی کہ ان میں ایک دن بھی بسر کرنا نصیب نہ ہو۔ جائیدادیں بے شمار، دولت کے انبار اندرونِ و بیرونِ ملک اکائونٹس کی بھرمار مگر کیا گارنٹی کہ ایک روپیہ بھی استعمال کرنا مقدر میں ہو۔ آج دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ احترام شخص وہی ہے جو دنیا کا امیر ترین بھی ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی اضطراب ہے نہ بے سکونی۔ یہ بل گیٹس ہے۔ اس کے اثاثوں کی مالیت 80 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس نے محلات، قلعے، بنگلے اور پلازے کھڑے نہیں کئے۔ وہ فلاحی رفاعی اور سماجی کاموں کے لئے 29 ارب ڈالر کے عطیات دے چکا ہے۔ اس نے اپنی وصیت میں اولاد کے لئے صرف اتنا حصہ مقرر کیا ہے جس سے آسانی سے زندگی بسر کی جا سکے باقی فلاحِ انسانیت کے لئے وقف کر دیا ہے۔ 
یہاں انسانیت سسکتی اور بلکتی ہے۔ ایک طرف بقعہ نور بنے ہوئے محلات تو دوسری طرف ٹپکتی تاریک اور ہَوا کے دوش پر کھڑی جھونپڑیاں، ایک طرف کتوں اور گھوڑوں کے لئے انواع و اقسام کی خوراکیں دوسری طرف دو وقت کی سوکھی روٹی کے بھی لالے۔ ایک طرف طائوس و رباب، شہنائیوں کی گونج، زندگی رقصاں، بسنت کا ارمان ویلنٹائن ڈے کا سامان، دوسری طرف دکھوں اور غموں کے نالے۔ ہمارے ملک کے امرا کو بل گیٹس کے اقدام کو فالو کرنا چاہئے جس نے حضورؐ کی تعلیمات کی پیروی کی۔ اوناسس کی طرح کسی پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے۔ جب معمولی بیماری زندگی کا روگ بن جائے۔ جس کا ازالہ پوری دولت سے بھی ممکن نہ ہو سکے۔


Sunday, February 13, 2011

’’مچھیروں سے رہنمائی‘‘

اتوار ، 13 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان ـ 6 گھنٹے 33 منٹ پہلے شائع کی گئی
بحث اس جوش و خروش سے ہورہی تھی، یوں جانئے زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ ایک سیانے نے روایتی بات دہرائی کہ ’’غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہورہا ہے۔ ایک طرف بلند و بالا محلات ایوان و شبستان ہیں تو دوسری طرف فاقہ مست انسان اور انکے ٹوٹے پھوٹے گھروندا نما مکان اور ایسے مکان بھی سب کی قسمت میں کہاں؟ دولت کا ارتکار چند ہاتھوں میں ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان مال و دولت کی وسیع خلیج ہے جو نفرت میں بدل رہی ہے۔ لوٹ مار کلچر کے باعث ایک طرف شاہانہ زندگی ہے تو دوسری طرف بھوک، ننگ اور افلاس کی گہماگہمی ہے‘‘… ان صاحب کی بات کاٹتے ہوئے دوسرے دانشور نے کہا حضور، بیماریوں کی نشاندہی ہوچکی…ع
علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
سیانے نے کہا ’’ہاں ہے بالکل ہے۔ سب سے بڑی بیماری لوٹ مار، کرپشن، بے ایمانی، رشوت ستانی، ہیرا پھیری‘ ذخیرہ اندوزی وغیرہ ہے۔ اسی کے سبب معاشرے میں بگاڑ ہے۔ اسکا خاتمہ صرف ایک اقدام سے کیا جاسکتا ہے، صرف ایک سے‘‘… جہاں پہنچ کر سیانے نے توقف کیا تو ہر گوش ہمہ تن اور ہر نظر اسکے چہرے پر گڑ گئی۔ تھوڑی دیر مزید خاموشی اختیار کی تو ایک بے چین آواز ابھری ’’وہ کیا؟‘‘ سیانے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’کرپشن ہونے دیں، لوٹ مار جاری رہے، جو بھی جو کچھ کر سکتا ہے، جائز ناجائز‘ اسے کرنے دیں، صرف معاشرے میں بے لاگ انصاف کی فراہمی یقینی بنا دیں تو ہر برائی کا خاتمہ ہوجائیگا۔ جس طرح ایک برگزیدہ شخص نے جھوٹ چھڑوا کر ایک گناہگار کو پارسا بنا دیا تھا‘‘۔
’’دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز، غربت میں اضافے اور آجر اور اجیر کے درمیان بلند اور مضبوط ہوتی نفرت کی دیوار کے ڈھا دئیے جانے کا بھی کوئی حل ہے…؟‘‘ محفل میں بیٹھے ایک اور زمانہ ساز نے پوچھا۔ اس پر سیانا خاموش رہا تو لباس اور وضع قطع سے جدت پسند نظر آنیوالے نوجوان خاموشی کو توڑنے ہوئے بولا ’’جی ہاں، اس حوالے سے ہمیں مچھیروں سے رہنمائی لینی چاہئے‘‘… ’’مچھیروں سے؟‘‘… نوجوان کی بات پر تین چار نے یک زبان ہو کر کہا، ’’ہاں مچھروں سے، میری اس حوالے سے کافی معلومات ہیں۔ کراچی کے ساحل سے ماہی گیر سمندر میں کشتی ڈالتے ہیں تو اس پر 40 سے 50 اور کبھی اس سے زائد افراد سوار ہوتے ہیں۔ ان کا مہینے بھر کا راشن بھی موجود ہوتا ہے۔ چھوٹی موٹی کشتی کی بات نہیں ہورہی، ٹرالر کی بات کررہا ہوں۔ ٹرالر میں مچھلی کی گنجائش بارہ تیرہ سو من ہوتی ہے۔ سڑکوں پر چلتے ٹرکوں میں اس سے زیادہ بوجھ لدا ہوتا ہے۔ اتنا ہی ٹرالی پر گنا بھی لاد دیا جاتا ہے۔ مچھیرے سمندر میں اپنی مرضی کی مچھلی کی تلاش میں رہتے ہیں اور اسی جستجو میں دوسرے ممالک کی حدود میں داخل ہونے پر پکڑے بھی جاتے ہیں۔ انکو مرضی کی مچھلی مل جائے تو اندازہ کیجئے وہ کتنے فائدہ میں رہیں گے؟‘‘ سب اپنے اپنے اندازے لگا رہے تھے کہ نوجوان نے بتایا ’’ہوسکتا ہے کہ مچھیروں کو پہلے دن ہی مچھلیوں کے غول مل جائیں اور وہ دوسرے دن ٹرالر بھر کر واپس چلے آئیں۔ دو، چار، دس دن اور مہینہ بھی لگ سکتا ہے۔ اگر مرضی کی مچھلی مل جائے تو اسکی قیمت ایک کروڑ اور اس سے زائد بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ اس پر محفل کے تمام شرکاء چونکے اور وضاحت طلب نظروں سے اپنی جگہ کسمساتے ہوئے نوجوان کی طرف دیکھا ’’ٹرالر میں پچاس ہزار کلو (1250 من) مچھلی آسانی سے سما سکتی ہے۔ آپ اپنے ہاں مچھلی کی قیمتوں کا اندازہ کیجئے۔ دو سو تین سو سے کم نہیں ملتی۔ بہترین مچھلی کی قیمت پانچ چھ سو روپے کلو ہے۔ ماہی گیر اگر دو سو روپے کلو بھی فروخت کریں تو رقم ایک کروڑ بنتی ہے۔ ہم بات مچھلی کے کاروبار کی نہیں، دولت کے ارتکاز اور نفرتوں کے خاتمے کی کررہے ہیں۔ اس ایک کروڑ کا کوئی ایک مالک نہیں ہوتا۔ کشتی پر سوار کشتی کا مالک بھی مزدور ہوتا ہے۔ 
ایک ضابطے کے مطابق حصے مقرر کئے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ کشتی کے حصے ہیں جس میں تیل، پانی اور خوراک کے اخراجات بھی آجاتے ہیں۔ ڈرائیور، مزدور، خانسامے اور بیرے ہر ایک کا حصہ مقرر ہے۔ جب غول نظر آئے تو ہر مزدور اس پر لپکتا اور جھپٹتا ہے۔ اپنی جان لڑا دیتا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اسکی مزدوری طے نہیں، اسے حصہ ملے گا۔ جتنی زیادہ مچھلی جال میں آئیگی اتنی زیادہ اسکی زندگی میں خوشحالی آئیگی۔ آپ یہ سسٹم روزمرہ زندگی میں سمندر کے باہر بھی آزما کر دیکھ لیں۔ جہاں ممکن ہے وہاں تنخواہوں کے بجائے آمدن میں سے حصہ مقرر کردیں تو مزدور، چپڑاسی سے منیجر تک اپنے خون پسینے کا ایک ایک قطرہ کاروبار کو انتہا تک پہنچانے کی خاطر بہانے پر جوش و جذبے کے ساتھ آمادہ و مائل ہوگا‘‘۔ سیانے اور نوجوان نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے۔


Saturday, February 12, 2011

ریمنڈ کی رہائی کیلئے آپریشن ممکن

 ہفتہ ، 12 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
پانامہ وسطی امریکہ کا چھوٹا سا ملک ہے۔ آزاد اور خودمختار ملک، 1986ءمیں امریکہ نے پانامہ کے آرمی چیف جنرل مینوئل نوریگا پر منشیات کی سمگلنگ اور اپوزیشن لیڈر کے قتل کا الزام لگایا۔ پانامہ کے صدر ایرک ارتورو ڈل ول نے نوریگا کیخلاف کارروائی کی کوشش کی تو یک ایوانی پارلیمنٹ قومی اسمبلی نے صدر ایرک کو فارغ کردیا۔ یہ امریکہ کی شان میں گستاخی اور ناقابل معافی جرم تھا۔ دسمبر 1989ءمیں قومی اسمبلی نے نوریگا کو انتہائی اہم لیڈر قرار دیا جس پر امریکہ بپھر گیا اور پانامہ پر حملہ کرکے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی پارلیمنٹ کی طرف سے اہم قرار دئیے گئے لیڈر کو 3 جنوری 1990ءکو گرفتار کرلیا۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کسی ملک کی خودمختاری کا کتنا خیال رکھتا ہے اور جو اس کے سامنے ذرا گردن اٹھا کے چلنے کی کوشش کرے اسے اسکے ملک سے بھی اٹھا لاتا ہے، خواہ وہ اس ملک کا صدر اور آرمی چیف ہی کیوں نہ ہو۔ صدام کو تو اسکے گھر میں گھس کر پھانسی لگا دی گئی۔ آج وہ ایک بظاہر معمولی ملازم کیلئے استثنیٰ مانگ رہا ہے۔ خود اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کے اہم رہنماﺅں سے بھی جنگی مجرموں جیسا سلوک کرتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے یوں لگتا ہے امریکہ آتش فشاں پہ بیٹھا ہے۔ بے قرار، بے چین اور انتہائی زیادہ مضطرب، دن کو چین نہ رات کو سکون، اُس کے بڑوں کا صدر پاکستان اور وزیراعظم کو فون، اُدھر ہلیری کی شاہ محمود قریشی سے کُٹی اور جنرل کیانی سے ریمنڈ ڈیوس کی فوری رہائی کا مطالبہ، کیمرون منٹر کا تو جیسے گرم توے پر پاﺅں آگیا۔ کراﺅلی کی ریمنڈ ڈیوس کی بات کرتے ہوئے منہ سے جھاگ بہہ رہی ہوتی ہے۔ واشنگٹن میں وزارت خارجہ کی طرف سے حسین حقانی کو بار بار ڈیرے پر بلا کر کمیوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے امریکہ کا آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ہے۔ ہمارے حکمران امریکہ کو جو جواب دیتے ہیں انکا دل انکی زبان کا ساتھ نہیں دیتا تاہم عوامی دباﺅ ہے جو ابھی تک اس موقف پر کانپتی ٹانگوں سے قائم ہیں کہ استثنیٰ کا فیصلہ عدالت کریگی۔ دو روز قبل کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کا کیس عدالت میں ہے، وہی فیصلہ کریگی۔ عسکری قیادت کے اس عزم سے سیاسی قیادت کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں۔ عسکری قیادت کے اس عزم سے سیاسی قیادت کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں۔ قوم کا پہلے ہی یہ مطالبہ ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں بہت کچھ سامنے آچکا ہے۔ اس سے جو اسلحہ اور دستاویزات ملی ہیں اس سے تو وہ دہشت گردوں کا سرپرست ثابت ہوتا ہے۔ دو پاکستانیوں کو اس نے چلتی گاڑی سے ونڈ سکرین کے دوسری طرف جس طرح نشانہ بنایا یہ عام آدمی کا کام نہیں۔ وہ انتہائی ماہر نشانہ باز ہے۔ سفارتکار کیلئے ایسی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ امریکہ کی بے چینی سے بھی ریمنڈ ڈیوس کی انتہائی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ امریکیوں کو شاید یہ خدشہ بھی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کہیں اب کچھ اگل نہ دے جس سے امریکی منصوبہ بندی طشت ازبام نہ ہوجائے۔ اگر واقعتاً ایسا ہی ہے اور پاکستانی حکومت رہائی پر آمادہ نہیں ہوتی تو امریکہ ایک تو اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے خاتمے اور 2ارب ڈالر کی امداد روکنے کی دھمکی پر عمل کرسکتا ہے، دوسرا وہ ریمنڈ ڈیوس کی جبری رہائی کی کوشش۔ اگر وہ ریمنڈ ڈیوس کی زندگی کو اپنے منصوبوں پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے تو اسے ٹھکانے لگانے سے بھی گریز نہیں کریگا۔ ریمنڈ ڈیوس کیلئے کوٹ لکھپت جیل میں تمام سہولتوں سے مزین کمرے کی آرائش ہوچکی ہے۔ یہ جیل شہر سے باہر ہے۔ یوں سمجھئے چوزے کو چھت پر بٹھا دیا، اب اسے بلی لپکے یا چیل اچکے۔ جہاں جنرل نوریگا کو اٹھانے والا آپریشن ”Nifty Package“ آسانی سے ہوسکتا ہے۔ امریکہ اس حوالے سے اپنے لے پالک اسرائیل سے بھی تعاون حاصل کرسکتا ہے جس کے کمانڈوز نے 27 جون 1976ءکو ائر فرانس کا ہائی جیک ہونیوالا یوگنڈا کے ائرپورٹ پر کھڑا جہاز چھڑا لیا تھا۔ وہ کمپاﺅنڈ میں موجود 104 اسرائیلی مسافروں کو اسی جہاز
میں واپس لے آئے تھے۔ تمام کے تمام فلسطینی اغوا کار مارے گئے۔ تین مسافر اور ایک اسرائیلی کمانڈو ہلاک ہوئے تھے۔ فلسطینی نوجوان جہاز اغوا کرکے غفلت کا شکار ہوگئے۔ اگر ہشیار اور خبردار رہتے تو ایک بھی اسرائیلی کمانڈو زندہ بچ کر نہ جاتا۔
یہاں امریکی ڈرون طیارے بلا کسی روک ٹوک پاکستانی حدود میں داخل ہو کر جہاں چاہتے ہیں بمباری کرکے چلے جاتے ہیں۔ اگر امریکہ موجودہ حالات میں کسی فضائی آپریشن یا زمینی کارروائی میں جیل پولیس سے ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر لاہور میں موجود اپنے قونصل خانے میں لے جاتا ہے تو کیا ہماری حکومت اسے بازیاب کراکے پھر قید کرلے گی؟ ذرا غور کریں جس گاڑی نے نوجوان عباد الرحمن کو کچل کر مار ڈالا وہ گاڑی اسی قونصل خانے میں کھڑی ہے، وہ گاڑی برآمد ہوئی نہ اسکا ڈرائیور اور نہ اس میں سوار ریمنڈ ڈیوس کے ساتھی بازیاب ہوئے ہیں۔ ریمنڈ واردات کے بعد قونصل خانے چلا جاتا یا اب اسے کسی بھی طریقے سے یہاں لایا جاتا ہے تو سمجھئے وہ پاکستان میں نہیں امریکہ پہنچ چکا ہے۔ ریمنڈ کو پکڑا ہے تو اسکی حفاظت میں ایسی سستی نہیں ہونی چاہئے جیسی فلسطینی نوجوانوں سے ہوئی تھی۔
ریمنڈ ہوسکتا ہے کہ پولیس کو سب کچھ بتا چکا ہو جسے پولیس سمجھنے سے قاصر ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس سے تفتیش آئی ایس آئی کرے۔ یہ آئی ایس آئی کی تحویل میں ہوگا تو اسکو اٹھا لے جانے کا چانس نہیں رہے گا۔ کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا تو امریکہ کو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ موقع ملنے پر وہ جیل کی سلاخیں فوری پھلانگ جائیگا۔

Friday, February 11, 2011

آگ

جمعۃالمبارک ، 11 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
آگ اور پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں، لیکن جب آگ لپکتی جھپٹتی، بے قابو ہوتی اور پانی بپھرتا ہے تو انسان انکی لپیٹ اور لہروں کی زد میں آجاتا ہے یا اپنے اثاثے اور عزیزوں کو آگ اور پانی کی نذر ہوتے بے بسی سے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ لاہور میں آگ کی لپیٹ میں ایک پلازہ آیا۔ بروقت اقدامات نہ ہونے کے باعث آگ پھیلتی چلی گئی۔ چار پلازے اور پانچ گھر تو سرے سے اپنا وجود ہی برقرار نہ رکھ سکے تاہم 14 پلازوں اور بہت سے گھروں میں شعلے سب کچھ خاکستر کرگئے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق 600 دکانیں اور گودام تباہ ہوئے۔ تباہ ہونیوالے اس علاقے سے 20 ہزار افراد کا روزگار وابستہ تھا۔
اندرون لاہور مارکیٹوں میں یہ آتشزدگی کیا تھی، آگ کا دریا تھا، آگ کا قلزم تھا جس میں کسی کی دکان جل رہی تھی، کسی کا مکان، کسی کا جسم و جان جل رہا تھا۔ کسی کی جان کسی کے جذبات جل رہے تھے، کسی کا زمین آسمان او سارا جہان جل رہاتھا۔ پاکستان میں کاروبار کتنا مشکل ہے؟ اسکا آپکو اندازہ ہے۔ لوگ گھر بار، زمین جائیداد اور زیورات بیچ کر کاروبار کرتے ہیں۔ کوئی عزیزوں، رشتہ داروں سے قرض لیتا، کوئی بینک سے اور کوئی سود خور ساہو کاروں سے۔ پھر جب ایسی آفت آئے کہ یک بیک انسان اپنی بربادی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ اسکا اندازہ کرنے کیلئے اپنے آپکو اس تاجر کی جگہ کھڑا کرکے سوچئے جس کی آنکھوں کے سامنے 32 گھنٹے تک آگ شعلہ بار تھی۔ اسکی ایک نظر الائو کی طرف دوسری ریسکیو کی کھٹارہ گاڑیوں، آگ بجھانے کے غیرمعیاری آلات کی طرف اور ہاتھ بارگاہِ رب العزت کے سامنے اٹھے اور سر جھکا ہوا تھا۔ زبان پر ’’خدایا رحم، خدایا کرم‘‘ کی آواز آنسوئوں اور سسکیوں کے درمیان آرہی تھی۔ لیکن جو ہوا اور 32 گھنٹے تک مسلسل ہوتا رہا یہ بہت سوں کی شامتِ اعمال کا ہی نتیجہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پلازے غیرقانونی طور پر تعمیر کئے گئے تھے۔ آتشزدگی کی جگہ پر تنگ گلیوں کے باعث ریسکیو آپریشن میں دشواریاں پیش آئیں۔ غیرقانونی پلازے راتوں رات زمین سے نہیں اُگے۔ دکان کے باہر سٹول رکھ دیا جائے تو متعلقہ عملہ سٹول اٹھوانے نہیں اسے مستقل وہاں پر رکھنے کیلئے مُک مُکا کرنے چلا آتا ہے۔ سڑک پر گاڑی یا موٹر سائیکل کھڑی کردی جائے تو اسے اٹھانے والا محکمہ بھی موجود ہے۔ غیرقانونی پلازے بنانیوالوں سے زیادہ بنوانے والے محکمے مجرم ہیں۔ کاروبار کیا یہ سوچ کر کیا جائے کہ یہاں فائر بریگیڈ کی گاڑی پہنچ سکتی ہے یا نہیں؟ دکانداروں پر سو طرح کے ٹیکس لاگو ہیں۔ انکو تحفظ بھی فراہم کیا جانا چاہئے۔ دنیا ترقیوں کے آفتاب و ماہتاب کو چھو رہی ہے۔ ہمارے ہاں آگ پر قابو پانے والی گاڑیاں اور آلات اپنا قدیم اور بوسیدہ ’’کلچر و تشخص‘‘ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ خوابیدہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ اپنا سسٹم جدید خطوط پر استوار کریں۔ لاہور، کراچی، ملتان، راولپنڈی، پشاور، حیدر آباد، فیصل آباد اور کوئٹہ جیسے شہروں میں مکان اور دکان دو فٹ کی گلی اور مین روڈ سے پانچ سو گز دور ہے تو بھی وہاں پر آسانی سے ریسکیو آپریشن ہوسکے۔ یہ حکام کی نااہلی، نالائقی، غفلت اور کوتاہی سے جس کا غیرقانونی پلازوں اور تنگ گلیوں کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
زمین بوس ہونیوالے گھر، دکانیں اور پلازے دنوں میں تعمیر ہوسکتے ہیں نہ مرمت اور پھر ان میں رہنے اور کاروبار کرنیوالوں کا سب کچھ لٹ گیا۔ گو حکومت پنجاب نے جلد داد رسی کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ کام جنگی بنیادوں پر فوری اقدامات کا متقاضی ہے۔ متاثرہ تاجر بھیک نہیں مانگتے، اپنے نقصان کا ازالہ چاہتے ہیں۔ ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھے۔ دکھی لوگوں کو اپنے روئیے سے مزید دکھی نہ کرے۔ تاجر تنظیمیں بھی ماتھے پر خون لگا کر شہیدوں کی صف میں شامل ہونیوالوں سے ہشیار اور خبردار رہیں۔ خدا کرے آگ کسی کے تن کو لگے نہ جاں کو، کسی کے اثاثوں کو لگے نہ ساماںکو، کسی کے گھر کو لگے نہ آشیاں کو۔

Wednesday, February 9, 2011

امریکہ کی بے قراری

 بدھ ، 09 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنٰی حاصل تھا جس کا امریکہ نے قطعاً احترام نہیں کیا۔ امریکی فوجیوں نے انہیں پشاور سے اپنی حراست میں لیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا، جنوری کے یخ بستہ موسم میں چھُری سے کپڑے پھاڑ کر برہنہ کر دیا پھر اسی حالت میں ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر افغانستان لے گئے۔ ملا ضعیف نے کسی کو قتل کیا نہ اغواءنہ ہی ان پر کسی قسم کا کوئی مقدمہ تھا۔ وہ طالبان حکومت کے سفیر تھے بس یہی ان کا قصور ٹھہرا۔ اتنا بڑا قصور کہ امریکہ نے عالمی قوانین کی بھی پروا نہ کی۔ آج امریکہ کے لئے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ امریکہ اسے سفارتکار ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اس کی فوری رہائی کے لئے بے تاب اور بے قرار ہے۔ اتنا بے چین کہ کیری لوگر بل کی سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد بھی دو پاکستانیوں کے قاتل کی رہائی سے مشروط کر دی ہے۔ حکومت اب دو پاٹوں کے درمیان ہے۔ ایک طرف امریکہ سرکار دوسری طرف اپنے عوام امریکہ کے حکم کو قانون مان لیتے ہیں عوام کے بے قابو ہونے کا خطرہ، اپنے قوانین پر عمل کرتے ہیں تو امریکہ کی یلغار اور تیز دھار تلوار نظر آ رہی ہے۔ پاکستانی عوام دو سال بعد حساب لیں گے۔ قاتل کے پروردہ موقع پر حساب بے باک کر دیں گے۔ سب سے بڑا نقصان امداد کی ترسیل پر پابندی ہے جس سے جان جاتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے جو وہ فیصلہ کرے اس کا عمل ہو گا۔ دیکھئے حکومت کب تک اس موقف پر قائم رہتی ہے۔ امریکہ دنیا میں کئی ممالک میں جنگیں لڑ رہا ہے۔ کئی ممالک کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ کئی میں بغاوتیں کھڑی کرا رہا ہے، کئی ممالک کے حصے بخرے کرا دیا ہے اتنی مصروفیت کے باوجود اس کی پوری توجہ ڈیوس کی رہائی پر ہے۔ رہائی کی صورت میں مشتعل پاکستانی رہائی کے ذمہ داران پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کو گلیوں اور بازاروں میں گھسیٹتے ہیں۔ امریکہ کو اس کی پروا نہیں۔ اسے بس ڈیوس چاہئے۔ ابھی، کھڑے پیر۔ ڈیوس کو پھانسی نہیں لگنے لگی کہ امریکہ رہائی کے لئے اتنا مضطرب ہے۔ ابھی تو ملزم ریمانڈ پر ہے۔ مقدمہ چلنا ہے ہو سکتا عدالت اسے بے گناہ قرار دے دے۔ مجرم ثابت ہونے پر پھانسی کی سزا سنائی جا سکتی ہے لیکن ہماری حکومتیں ایسے قاتلوں کے لئے بڑی فراخ دل ثابت ہوئی ہیں۔ کشمیر سنگھ مستند دہشتگرد تھا۔ اس نے نہ صرف پورے پاکستان کی فضا میں آگ اور بارود بکھیر دیا بلکہ وہ اکیلا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا 60 فیصد سے زیادہ ذمہ دار تھا۔ اسے سزائے موت ہوئی کئی سال تک وہ موت کی کوٹھڑی میں رہا بالآخر اسے وزیر انسانی حقوق انسانی ہمدردی کی بنا پر پورے پروٹوکول کے ساتھ اس کے گھر چھوڑ آئے۔ سربجیت سنگھ نے بم دھماکوں میں درجنوں پاکستانیوں کی جان لی۔ سینکڑوں کو معذور کیا۔ اسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے اس پر ہنوز عملدرآمد نہیں ہوا۔ شاید کسی وزیر انسانی حقوق کا انتظار ہے۔ ریمنڈ ڈیوس، کشمیر سنگھ اور سربجیت کی طرح دہشتگرد نہیں ہے۔ اس سے تو معصومیت میں دو پاکستانی قتل ہو گئے۔ امریکہ پاکستانی حکمرانوں کی نازک پوزیشن کا احساس کرے ان کی رحمدلی پر اعتبار کرے۔ ڈیوس کو مہمان کی طرح رکھا گیا ہے۔ اس کا ٹرائل ہونے دے۔ سزا ہوئی تو کشمیر سنگھ کی طرح ڈیوس کو بھی معاف کیا جا سکتا ہے۔ ایک مقتول کی اہلیہ نے خودکشی کر لی باقی دو چار بھی کر لیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم پاکستانیوں کا خون بڑا سستا ہے۔ وہ ڈرون حملوں میں بہے یا ڈیوس کی بندوق سے، ایک ہی بات ہے۔ 
ایک صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر حاکموں کے بیٹے امریکی کے ہاتھوں قتل ہو جاتے تو پھر بھی کیا ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا جیسا اب ہے؟ یعنی وہ رہائی کے لئے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا جواب ہے۔ ہاں، بالکل ایسا ہی ہوتا۔ عوام اور روایتی حکمران کی سوچ میں فرق ان کے احساسات و جذبات میں فرق۔ روایتی حکمران کی زندگی کا ایک ہی مقصد اقتدار اور صرف اقتدار، ہر صورت میں اقتدار اس کے حصول کے لئے باپ کی لاش گر جائے یا بیٹے کی میت اٹھ جائے۔ ماضی قریب میں جھانکیں یا ماضی بعید کو کھنگالیں بہت سی مثال سامنے آ جائیں گی۔ حکمران، حکمران ہوتا ہے۔ ماضی قریب کا ہو یا بعید کا، حال کا ہو یا مستقبل کا۔ اگر اقتدار کے لئے انسان اس حد تک جا سکتا ہے تو ڈیوس کی رہائی تو مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے۔ روایتی حکمران ملک کی عزت بحال کرا سکتے ہیں نہ قوم کا وقار، ان کی ڈکشنری میں غیرت حمیت خودداری عظمت کا لفظ ہی نہیں ہوتا۔ آج ہم ذلت و رسوائی کی جس پستی میں آ گرے ہیں اس سے ٹیپو جیسے سلطان اور قائد جیسے حکمران ہی نکال کر اوجِ ثریا تک پہنچا سکتے ہیں۔ ایسے نابغہ روزگار زمین سے اگیں گے نہ آسمان سے ٹپکیں گے انہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ضمیر جاگ جائیں تو یہی ٹیپو اور قائداعظم کے جاں نشیں بن سکتے ہیں۔ (ختم شد)

Tuesday, February 8, 2011

استثنیٰ

منگل ، 08 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
یہ ممکن بھی ہے تاہم آپ فرض کیجئے اگر امریکہ، روس کی طرح ٹوٹ جائے، برطانیہ افغانستان کی طرح مقبوضہ ہو جائے تو کیا ان ممالک کے سفیروں کو پکڑ کر دریا میں دھکا دیدیا جائے، کسی دشت و ویرانے میں چھوڑ دیا جائے یا احمدی نژاد اور ہوگو شاویز کے حوالے کر دیا؟ آپ ان کو دریا بُرد کر سکتے ہیں۔ نہ خونخوار جانوروں کے سپرد اور نہ ہی کسی دشمن کے حوالے۔ وہ اس لئے کہ جنیوا کنونشن کے تحت ہر سفارتکار کا تحفظ آپ پر لازم ہے۔ اس کا احترام اور ادب آپ پر واجب اور اسے بحفاظت جہاں وہ چاہے پہنچانا آپ کا فرض ہے۔ عالمی قوانین کی نظر میں بلاامتیاز کسی ملک کے امیر غریب یا سپر پاور و بے پاور ہونے کے تمام سفارتکاروں کا سٹیٹس یکساں ہے۔ لیکن 2002 میں پاکستان میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں عالمی قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہماری اولیں و آخریں ترجیح امریکہ سرکار کی خوشنودی ہے امریکہ عالمی قوانین پر عمل کرائے تو بسم اللہ، عالمی قوانین کی دھول اڑائے، سبحان اللہ
یہ جنوری 2002ء کی داستانِ الم ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں بدستور پاکستان میں رہنے کا حق حاصل ہے۔ ملا ضعیف کے مطابق ان کے پاسپورٹ پر ابھی 6 ماہ کا ویزہ موثر تھا۔ وہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ ایف ٹین سیکٹر میں پاکستانی حکام کی زیر نگرانی تھے۔ پھر ایک دن کو گھر سے اٹھا کر پشاور میں ایک سیکورٹی ایجنسی کی قید میں دیدیا گیا۔ دو دن بعد پاکستان میں افغانستان کے سفیر، مہمان اور سب سے بڑھ کر ایک مسلمان جِسے جنیوا کنونشن اور عالمی قوانین کے تحت بطور سفیر ہر قسم کا تحفظ بھی حاصل تھا، انکی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ باندھ کر امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس وقت کے بیورو کریٹس میں سے شاید کوئی مر گیا، کوئی کھپ گیا ہو تاہم ضمیر کی خلش اور غیرتِ ایمان کے باعث کوئی بھی نہیں مرا ہو گا۔ اکثر آج بھی انہی سیٹوں پر یا ترقی پا کر اگلے عہدوں پر براجمان ہونگے۔ 
امریکیوں کی تحویل میں آنے کی دیر تھی کہ سفارتی استثنٰی کی بھی پاکستانی حکمرانوں اور متعلقہ بیورو کریٹس کے مردہ ضمیروں کی طرح موت واقع ہو گئی۔ ملا عبدالسلام ضعیف پر تشدد کیا گیا۔ چھریوں سے بدن کے کپڑے تار تار کر کے برہنہ کر دیا گیا اور اس حالت میں جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے ان کو ہیلی کاپٹر میں سوار کر کے یخ بستہ موسم میں افغانستان میں قائم امریکی عقوبت خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضعیف کئی سال گوانتاموبے میں عبرت کا نشان بنائے جاتے رہے۔ رہائی ملی تو 2008ء میں پاکستان میں انہوں نے کیس کیا ہے کہ انہیں حکومتِ پاکستان نے کس قانون کے تحت امریکی حکام کے حوالے کیا جبکہ انہیں سفارتی استثنٰی اور موثر ویزہ حاصل تھا۔ دوسرا نوٹس انہوں نے امریکی سفارتخانے کو دے رکھا ہے کہ کس بنیاد پر وہ ایک تسلیم شدہ سفیر کو دوسرے ملک سے گرفتار کر سکتے ہیں۔ 
آج امریکہ کا پورا زور تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر ہے۔ اسے سفارتی استثنٰی دلانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ خود امریکیوں کی سفارتی استثنٰی کے حوالے سے عالمی قوانین کا احترام ملا ضعیف کے واقعہ سے واضح ہو جاتا ہے۔ امریکہ خود سفارت کاروں کو سفارتی استثنٰی کس طرح دیتا ہے اس کی مثال پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم ہیں۔ 2002ء میں ان کی اپنی گرل فرینڈ مارجینا سے لڑائی ہو گئی۔ امریکی خاتون نے پولیس بلالی پاکستانی سفیر اندر ہو گئے۔ پاکستان نے سفارتی استثنٰی مانگا تو امریکہ نے پاکستان کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔ منیر اکرم کو سفارتی استثنٰی نہیں، خاتون سے صلح کے باعث رہائی ملی۔ (جاری ہے)

Monday, February 7, 2011

افواہ


NOT PUBLISHED
برائے 11-2-8 
فضل حسین اعوان

تنویر زمانی کو کل تک کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب وہ اِدھر آئی اُدھر شہرت کے آسمان پر چھائی، کوئی اسے حسن کا غرور اور کوئی دلبری کا نازکہہ رہا ہے، کوئی دل کے تاروں کو چھڑنے والا نغمہ و ساز۔ زمانی کی عمر 40 سال، امریکی شہریت کی حامل، گُنوں کی پوری، مالی حالت مضبوط، کسی کے بھی احساسات و جذبات تک خریدنے کے قابل، اردو اور انگلش خطاب پر یکساں عبور حاصل، لہجے کی لے، آواز کے سروں اور ناز ادا سے مجلس و مجمع پر سحری طاری کر دے۔ پیشہ ڈاکٹری اور برطانیہ سے عالمی سیاست میں پی ایچ ڈی کی حاصل کرنے کی دعویدار.... صدر پاکستان آصف علی زرداری سے شادی کی افواہ نے انٹرنیٹ اور میڈیا میں طوفان برپا کر دیا۔ صدر صاحب کے عقدِثانی کی راہ میں کوئی شرعی، اخلاقی اور سیاسی رکاوٹ نہیں ہے صدر صاحب تو وہ بات بھی کھلے بندوں کہہ دیتے ہیں جو سات پردوں میں رکھے جانے کی متقاضی ہوتی ہے۔ مثلاً وعدے اور معاہدے قرآن تو نہیں ہوتے، ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا افسوس نہیں.... بادی النظر میں اس افواہ کا کوئی سر پیر نہیں۔ پاکستانی سیاست میں گردوغبار اس لئے زمین سے اٹھ کر آسمان تک پہنچ گیا کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ، ملک کے اعلیٰ ترین منصب کے حامل بھٹو خاندان کے جاں نشین اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے شوہر نامدار سے یہ خبر اطلاع یا افواہ منسوب تھی۔ زمانی اور زرداری کی شادی کی افواہ جتنے زور سے گردش میں آئی صدر کے ترجمان اس سے بڑھ کر جوش سے میدان میں آئے۔ اِدھر فرحت اللہ بابر اور فرح ناز اصفہانی افواہ پر لپکے تو اُدھر زمانی کے ملک میں بیٹھے حسین حقانی جھپٹے، جہانگیر بدر، فوزیہ وہاب اور کائرہ سمیت بہت سے پارٹی قائدین اور فدائین نے اپنا اپنا فرض، قرض سمجھ کر ادا کیا۔ زرداری صاحب نے ہر جیالے کے دل کی بات کی ”میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کا داماد ہوں کسی اور کا داماد کیسے بن سکتا ہوں“ یہ افواہ کہاں سے آئی کس نے پھیلائی؟ اس راز کو پا لینے کے لئے باریک بینی و دور بینی کی ضرورت ہے نہ خلائی سائنس اور دانش و عقلیات کی معراج کی۔ میڈیا رپورٹس پر غور کر لیں تو غبار جھپٹ جاتا ہے۔ افواہ یونہی اڑی تو زمانی کے فیس بک پر دیئے گئے فون نمبر پر ایک معاصر کے ذمہ دار نے رابطہ کیا۔ شادی کے حوالے سے تردید یا تصدیق کرنے کو کہا تو زمانی نے فرمایا ۔ ”میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہوں گی، مشاورت اور قانونی تجاویز طلب کر لی ہیں۔“ ”مشاورت کس لئے“؟ اس کا جواب دیا۔ ” پہلے ہمیں مہنگائی کی صورت حال کو دیکھنا ہے، بلاول کو متعارف کرانا ہے، ذاتی باتوں کی بات بعد میں آئے گی۔“ جب پوچھا گیا آپ زرداری کی اہلیہ ہیں تو جواب تھا۔ ”میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہوں گی“ پھر جب پارٹی نے دباﺅ بڑھایا تو تین دن بعد زمانی نے کہا ” زرداری سے شادی کی اطلاعات بے بنیاد ہیں ان سے ملاقات تک نہیں ہوئی۔ افواہوں کی تردید اس لئے نہیں کی کہ یہ میری شان کے خلاف تھا“ ملاحظہ فرمائیے شان اور شانِ نیازی! .... طیبہ ضیا چیمہ کا مختصر سا تجزیہ ملاحظہ فرمائیے۔ ”صدر زرداری کے ساتھ شادی کی خبر انہوں نے خود انٹرنیٹ پر لگوائی، یہ خاتون نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، پارٹی ذرائع کے مطابق زمانی نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایک سال سے انٹرنیٹ پر مہم چلا رکھی ہے۔“ 
آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور جہانگیر بدر سیکرٹری جنرل ہیں۔ بدر صاحب الیکشن میں بلال یٰسین کو مات دے دیتے تو شاید وزیراعظم ہوتے عہدے کے لحاظ سے زرداری صاحب کے بعد سب سے بڑے جیالے ہیں۔ ان سے زرداری کی دوسری شادی کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب تھا ”زرداری کی شادی بی بی شہید کے مشن سے ہو چکی ہے۔“ بڑا خصائص سے لبریز اور نقائص سے مبرا جواب ہے، بھٹو اور بے نظیر کے مشن کی تکمیل کے نعرے لگانے والے سارے جیالے ہی بھٹو اور ان کی شہید دختر کے مشن سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ اگر بدر صاحب کا بیان لا یعنی اور بے معنی نہیں ہے تو اس سے متفق جیالے مار بھگائیں اپنی بیگمات کو اور بھٹوز کے مشن سے شادی کر کے زرداری صاحب کی روایت کی آبیاری کریں۔ مذکورہ خبر کی اشاعت پر ایک قومی اخبار کو دس کروڑ ڈالر کا قانونی نوٹس بھجوایا گیا ہے اس خبر سے واقعی زرداری اور بھٹو خاندان اور خصوصی طور پر زرداری اور محترمہ کی اولاد کو صدمہ پہنچا۔ نوٹس بھجوانے کی بھی یقیناً یہی وجہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ صدمے والی وہ خبریں اور اربوں کی کرپشن کے سکینڈل ہیں جن میں صدر، وزیراعظم بہت سے وزراءاور متعدد کے خاندانوں تک کو ملوث قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے الزامات پر قانونی نوٹس کیوں نہیں بھجوائے جاتے؟ کیا اس سے عزت نفس مجروح، شہرت داغدار اور ساکھ متاثر نہیں ہوتی اولاد اور خاندانوں کو صدمہ نہیں پہنچتا؟

سیاسی منزل

 پیر ، 07 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
نئی نسل معیاری تعلیم سے آراستہ اور اعلی تربیت سے پرداختہ ہو تو ملک و قوم یقیناً ترقی و خوشحالی کی منزل اولٰی پر پہنچ سکتے ہیں۔ آج کے، عمر رسیدہ اشخاص بھی کبھی نئی نسل تھے۔ ان میں سے کئی کے آباء نے ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں دی، تبھی ان کے ہاتھوں اپنی اولاد کی عمدہ تربیت کا اہتمام نہیں ہو سکا۔ اس میں صرف ہر دور کے والدین کا ہی قصور نہیں، حکومتوں اور حکمرانوں کی غفلت اور کوتاہی بھی شامل ہے۔ عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنا ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان تو اسلامی جمہوریہ ہے یوں ریاست کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جن کے ہاتھوں میں بار بار قوم کی تقدیر آتی ہے وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اکثر اقتدار کے ایوانوں میں آنے والے بھی چونکہ تعلیم و تربیت کے حوالے سے کورے ہیں تو ان سے معاشرے میں تعلیم یا کسی بھی شعبے میں انقلاب کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ معاشرہ کُل ہُم ان پڑھ، اُجڈ اور گنوار ہے۔ معاشرے میں اہل دانش، عالم فاضل، جینئس اور لیجنڈ بھی موجود ہیں لیکن تعداد میں آٹے میں نمک کے برابر۔ ان کو آگے آنے کا موقع دیا جاتا ہے نہ ہی ان میں خود بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش مچلتی ہے اگر کسی کو آگے لانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو ہمارے ہاں مروجہ سیاسی سسٹم ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ 
الیکشن ہوتے ہیں سیاسی پارٹیوں کو اپنا پروگرام یا منشور پیش کرنے سے زیادہ دلچسپی جیت کی اہلیت رکھنے والے امیدواروں سے ہوتی ہے۔ جیت کی پوزیشن میں بھی وہی ہوتا ہے جو ووٹر کے مسائل کو سمجھتا اور حل کرنے میں دن رات ایک کر دیتا ہے۔ اپنے حلقے کے لوگوں کو کورٹ کچہری میں مضبوط اور تھانے سے محفوظ رکھتا ہے۔ سڑکیں گلیاں نالیاں اس کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔ بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ سکول کا قیام، اس کی اپ گریڈیشن، ڈسپنسری، ہسپتال کی تعمیر بھی سیاسی رہنما کی ذمہ ہے۔ عوامی نمائندے کا اصل کام قانون سازی ہے جس سے عام ووٹر کو عموماً کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اسے اپنے کاموں اور مسائل کے حل کی ضرورت ہوتی ہے جو جائز ناجائز کام کرے وہ جیت کر ملک کو لوٹ کر کھا جائے یا اپنی تجوریاں بھرے ووٹر کی بلا سے۔ 
ہر حلقے سے صحیح، ایماندار، دیانتدار اور تعلیم یافتہ نمائندہ منتخب کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک اسلامی فلاحی اور رفاعی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ممکنہ حد تک تمام سہولیات پانی، بجلی، گیس، انصاف، صحت، تعلیم اور دیگر پہنچائے۔ لوگ کسی بھی مسئلے کیلئے کسی شخصیت کے محتاج نہ ہوں۔ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں ایک ایک نشست کیلئے دو کے درمیان مقابلہ شاذ شاذ ہی ہوتا ہے، عموماً ڈیڑھ سے دو درجن تک امیدوار بھی مدمقابل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک آدھ تو عوام اور قوم و ملک کا درد رکھنے والا ہو گا۔ اس کے سامنے آنے کا امکان تبھی ہے اگر مسائل سے مبرا ہو لوگ ووٹ بغیر کسی لالچ کے ڈالیں گے۔ یہی ہماری سیاسی منزل ہے۔