بدھ ، 16 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
ہم مسلمان شکووں کے خوگر‘ گِلوں کے پیکر‘ مجسمہ شکایات و اعتراضات بنے رہتے ہیں‘ اپنی ادائوں پر غور کرتے ہیں‘ نہ اپنے اعمال‘ افعال اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں‘ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم غیروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں؟ انکے غیض و غضب کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں‘ اس قدر لاچار‘ بیکار‘ بے بس‘ بے کس‘ مجبور و مقہور‘ بدنام‘ بے نام کیوں ہیں؟ وجہ بڑی سادہ سی ہے‘ ہمارے آباء جب سر پر کفن باندھ کر دنیا میں اسم محمدؐ سے اجالا کرنے نکلتے تو پہاڑ انکے راستے کی دیوار بنتے‘ نہ سمندر و دریا رکاوٹ‘ وہ طوفان کی مانند بڑھتے چلے جاتے۔
ہم حیران اور پریشان ہیں کہ بدر کی طرح آج فرشتے ہماری مدد کو کیوں نہیں آتے ہیں؟ فرشتے آج بھی مدد کیلئے کمربستہ ہیں‘ آپ معرکہ بدر تو برپا کریں‘ ہماری خواہش ہے ہم گھروں میں سر بسجود رہیں‘ فرشتے ہمارے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں اور کامرانی کا علم ہمیں تھما دیں…؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
فضائے بدر پیدا کرنے کیلئے صاحب لولاک‘ سیاحِ ارض و افلاک‘ سرور کشور رسالتؐ کے نقشِ پا سے رہنمائی اور دانائی حاصل کرنا ہو گی۔ خدا تک رسائی کیلئے اسکے محبوب کا دامن تھامنا ہو گا…؎
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آج ہماری دنیا میں ذلت و رسوائی‘ پستی و بے توقیری کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے اسوہ رسولؐ سے منہ موڑ کر ان سے رشتہ جوڑ لیا جن کے بارے میں قرآن اور صاحبِ قرآن کا ارشاد ہے‘ ’’یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔ جب ہم نے اپنا کعبہ ہی بدل لیا تو صاحبِ کعبہ سے شکوہ و شکایت کیوں؟ ہم شمشیر و سناں سے تائب‘ طائوس و رباب کے قائل ہو کر رہ گئے‘ تن آسانی کیلئے اپنا ضمیر بیچا‘ جاہ و جلال بیچا‘ خودی اور خودداری بیچی‘ شجاعت و کمال بیچا‘ پھر اپنے حال پر نظر دوڑاتے ہیں تو دل کے کسی نہاں خانے میں پڑی چنگاری‘ تاب ناک ماضی کی یاد دلاتی ہے تو دل سے نکلے ہوئے الفاظ آنسوئوں کی صورت میں بہتے لگتے ہیں…؎
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
امت پہ جو عجب وقت پڑا اور دین غریب الغربا ہوا‘ اس میں دوش کس کا ہے؟ جب امت مباحات سے کنارہ کرکے خرافات میں کھو جائے‘ لغویات کو اپنالے‘ آمادہِ فسادات ہو‘ تو ٹھنڈی ہوائوں اور منزہ فضائوں کی توقع عبث ہے۔ کیا ہم نے دین کو اوجِ ثریا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا؟ وہ کردار یہ ہے…؎
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
نبیوں کے تاجور‘ محبوب اکبر و عزوجل‘ شہنشاہ خوش خصال‘ پیکر حسن و جمال‘ دافعِ رنج و ملال نے بگڑے ہوئے معاشرے کو چند سال میں راہِ راست پر لا کر دنیا کا رہنماء و رہبر بنا دیا‘ صاحب التاجِ والمعراج نے دنیا کو ایک دستور‘ ضابطہ حیات اور آئین دیا‘ اس ہستی اطہرو مطہر کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے منزل عظمت و عزیمت کا نشان ہے…؎
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
ہم گرد و غبار نہیں‘ انسان ہیں‘ اشرفِ مخلوق ہیں‘ اس نورمجسم کے امتی جو طواف کریں تو حرم بھی وجد میں آجائے‘ ہماری ٹھوکر میں دنیا سما سکتی ہے‘ پہاڑ رائی بن سکتے ہیں‘ ضرورت نبی محترم و مکرمؐ کے قدموں کی دھول کو سرمہ بنا لینا ہے‘ خیرالبشر کے اسوہ کو اپنا لینا ہے‘ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کہہ کر افغانستان میں مجاہدین نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو ادھیڑ کر اور بکھیر کر رکھ دیا‘ ہم پاکستانی بھی سید عرب والعجمؐ کا نام لے کر نکلیں‘ اپنے دشمن کو پہچانیں‘ اس پر وار کریں‘ یلغار کریں تو اپنا کھویا ہوا مقام‘ عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ پیار سے مشرقی پاکستان کو ساتھ ملا سکتے ہیں‘ تلوار سے کشمیر آزاد کرا سکتے ہیں‘ اس کیلئے سر پر کفن باندھنا ہوگا‘ جان ہتھیلی پر رکھنا ہو گی‘ سر بکف ہونا ہو گا‘ اسلام صرف نماز اور روزے میں ہی پوشیدہ نہیں…؎
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
ہمارے مصائب مسائل پستی و درماندگی‘ دکھوں‘ دردوں کا ایک درماں ہے‘ دامنِ مصطفیٰ تھام لیں‘ درِ خیرالانعام سے وابستہ ہو جائیں‘ اسکی رحمتوں سے پیوستہ ہو جائیں…؎
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نورالقمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
No comments:
Post a Comment