About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, February 20, 2011

بنگلہ دیش …حسین سپنا …متحدہ پاکستان ِ نو

 اتوار ، 20 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
الائو یکدم نہیں دہکتا‘ الائو کی بنیاد چنگاری ہے‘ چنگاری شعلہ اگلتی ہے‘ جس سے آگ کا الائو اور بھانبھڑ بھڑک اٹھتا ہے۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے کی سوچ پاکستان نیوی کے افسر لیفٹیننٹ کمانڈر معظم حسین کے شیطانی ذہن کی پیداوار تھی۔ معظم نیوی جائن کرنے کے بعد تربیت کیلئے انگلینڈ گیا‘ واپسی 8 نو سال بعد ہوئی۔ آتے ہی اس نے غدارانہ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اپنی سازش کو انجام تک پہنچانے کیلئے اسے مقبول سیاسی قیادت کی ضرورت تھی۔ اسکی نظرِ انتخاب شیخ مجیب الرحمان پر پڑی۔ مجیب سے 1964ء میں ملاقات کرکے اپنی پلاننگ سے آگاہ کیا۔ مجیب نے اتفاق کرتے ہوئے بالواسطہ حمایت پر آمادگی ظاہر کی۔ 26 مارچ 1971ء کو اسے اپنے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ یوں مغربی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا پہلا منصوبہ ساز خود اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کی نذر ہو گیا۔ 
شیخ مجیب الرحمان علیحدگی کی راہ پر گامزن تھا‘ اندرا گاندھی اس کی مدد کو آئی اور 16؍ دسمبر 1971ء کو معظم حسین کی پھینکی ہوئی نفرت کی چنگاری نے شعلہ جوالہ اور پھر الائو بن کے پاکستان کے بدن کو جلا کر ایک حصے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ ملک کے دو حصے ہوئے‘ فائدہ ان کو ہوا جن کے سر پر لیلائے اقتدار کا ہما بیٹھا‘ ایک بنگو بدھو بنا‘ دوسرے کا تاجِ شاہی پہننے کا خواب پورا ہوا جو متحدہ پاکستان کی صورت میں شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ خونِ جگر دیکر جو اسلامی مملکت حاصل کی گئی تھی‘ دونوں حصوں کے مکین اسے اپنی آنکھوں سے بکھرتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اُدھر اور اِدھر کی جس قیادت نے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے‘ ان پر بڑے سے بڑا تبریٰ بھی ادنیٰ معلوم ہوتا ہے۔ ان کو تو انسان کہنے سے بھی گھِن آتی ہے۔ قوم انکے ہاتھوں یرغمال بن گئی اور اپنے ساتھ ہونیوالا تماشا بے بسی‘ بے کسی اور بے چارگی سے دیکھتی رہی۔ انکے دل آج بھی ایک دوسرے سے محبت‘ اخوت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہیں۔
نواز شریف 1997ء میں بنگلہ دیش کے دورے پر گئے‘ جمعہ کی ادائیگی بیت المکرم میں طے پائی‘ پاکستانی صحافی پہلی اذان سے آدھا گھنٹہ قبل مسجد گئے تو عجب منظر دیکھا‘ رمضان المبارک میں بیت الحرام کے اردگرد افطاری کے موقع پرجو ماحول ہوتا ہے‘ ویسا ہی یہاں بھی تھا‘ مسجد کے اردگرد بازاروں اور گلیوں میں بنگالی جانمازیں اور چادریں بچھا کے بیٹھے پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے منتظر تھے۔ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر نواز شریف تو بیت المکرم نہ گئے‘ گوہر ایوب نے انکی نمائندگی کی۔ بنگالیوں کے ایوب خان کے بارے میں جذبات ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ اسکے باوجود گوہر ایوب کی پذیرائی قابل دید تھی۔ یہ لوگ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت میں چلے آئے تھے۔ ضیاء دور میں ایک وفد بنگلہ دیش گیا‘ ایک شخص انکے گلے لگ کے زار و قطار رو رہا تھا‘ پتہ چلا کہ وہ متحدہ پاکستان کے آخری سپیکر قومی اسمبلی جسٹس عبدالجبار خان (1902- 1984) تھے‘ ان سے قبل پانچویں سپیکر قومی اسمبلی فضل القادر چودھری تھے‘ انکی بھی پاکستان سے محبت لازوال تھی‘ ان پر بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا گیا‘ وہ 1973ء میں دوران قید چل بسے۔بنگلہ دیش جو بھی پاکستانی گیا‘ بنگالیوں کی محبت سے سرشار ہو کر لوٹا۔ رفیق غوری صاحب سے حج اور عمرہ پر جانے کے حوالے سے سوال کیا جائے تو پرنم آنکھوں سے جواب دیتے ہیں بیت الحرام سے قبل بیت المکرم جانا چاہتا ہوں۔ گویا دونوں طرف محبت کی آگ ہے برابر لگی ہوئی۔ 
17؍ فروری کو ڈھاکہ میں ورلڈ کرکٹ کپ کی افتتاحی تقریب ہوئی‘ بنگلہ دیشی ٹیم سٹیڈیم میں داخل ہوئی تو اس کا والہانہ استقبال ہونا ہی تھا۔ پاکستانی ٹیم آئی تو بنگالیوں کا جوش و خروش اور پاکستان سے محبت کے جذبات عروج پر تھے‘ 35 ہزار بنگالی اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو گئے اگلی ٹیم کے آنے تک سٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔ پھر ارونالیلیٰ نے دمادم مست قلندر‘ سخی شہباز قلندر‘ پنجابی کافی گا کر سماں باندھ دیا۔ کہاں گئے وہ بازی گرجو معصوم بنگالیوں کو مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی مہک آنے کی کہانیاں سنا کر گمراہ کرتے اور اردو زبان کو نفرت کا نشان قرار دیتے تھے۔ آج ڈھاکہ کا بنگو بدھو سٹیڈیم میں بنگالی ‘پنجابی کافی پر جھوم رہے تھے اور گلوکارہ بھی وہ جو علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان منتقل ہو گئی تھی۔ بنگالیوں کی طرف سے پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کے بے پایاں جذبات دیکھ کر بہت سی آنکھیں اشک بار ہو گئیں‘ یٰسین وٹو تو باقاعدہ رو دیئے۔ 
بنگالی ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں لیکن جس انداز سے بچھڑے اسکی یاد آئے تو دل پھٹتا اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان کو مصیبت میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے لیکن خوشی میں دیکھ کر عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہے جسے والہانہ پن کا نام دیا جا سکتا ہے‘ نہ حسد‘ جلن اور افسردگی کا‘ کاش! کوئی مرد کامل دو حصوں کو پھر ایک کر دے۔ یہ حسین سپنا اِدھر اور اُدھر کے کروڑوں مسلمانوں نے آنکھوں میں سجایا اور دل میں بسایا ہوا ہے۔


No comments:

Post a Comment