منگل ، 01 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
پاکستان نے امریکہ کی ایک جنگ 80ء کی دہائی میں لڑی، دوسری اب لڑ رہا ہے۔ اُس جنگ میں روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ پاکستان کے علاوہ افغان مجاہدین بھی شریک تھے۔ امریکہ 80ء کی دہائی میں برسرِ بازار ساتھ دینے والے مجاہدین سے آج برسرِ پیکار ہے اور امریکہ کی اس یلغار میں پاکستان مجاہدین کا دشمن اور ان کو تہہ تیغ کرنے میں امریکہ کا یار اور وفادار ہے۔ وہ جنگ پاکستان نے بڑے وقار اور خودداری سے لڑی تھی۔ آج بڑی ذلت تضحیک اور تذلیل کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ قومی وقار، خودداری اور خودمختاری دائو پر لگے ہیں اور ملکی استحکام اور سالمیت گروی رکھ دی گئی۔ آج حکمران کشکول اٹھائے جنگ کا کرایہ مانگ رہے ہیں اُس دور میں امریکہ ڈالر لئے پیچھے پیچھے بھاگتا تھا۔ اُس جنگ میں صرف فوج کا ایک ونگ آئی ایس آئی معمولی تعداد کے ساتھ عظیم تر استعداد دکھا رہا تھا آج ڈیڑھ لاکھ فوج اپنے ہی لوگوں کے سامنے لا کھڑی کر دی گئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں آپ کچھ بھی کہہ لیں کردار کے حوالے سے ان پر دشنام دھریں۔ بعض تو ان کو منافق تک قرار دیتے ہیں۔ ہر کسی کی رائے اپنی جگہ لیکن ان کا کردار مشرف اور موجودہ حکمرانوں کی طرح خصوصی طور پر امریکہ کے سامنے کبھی بزدلانہ چاپلوسانہ اور خوشامدانہ نہیں تھا۔ وہ بھٹو کی طرح امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے تھے شاید دونوں کو امریکہ نے اسی وجہ سے عبرت کا نشان بنا دیا۔ لگتا ہے مشرف اور جاں نشینوں نے بھٹو اور ضیاء کے انجام سے عبرت پکڑی ہے…آئیے ذرا ماضی کے اوراق الٹتے ہیں… یہ ان دنوں کا تذکرہ ہے جب افغان مجاہدین امریکہ کے دل میں بستے تھے۔ گلبدین حکمت یار جنرل ضیاء کے کافی قریب اور دونوں ایک دوسرے کے نقیب بھی تھے۔ ان کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ 7 رکنی وفد کے ساتھ امریکہ پہنچے۔ کئی اجلاسوں میں شرکت اور اہم لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ امریکی انتظامیہ نے صدر ریگن سے ملاقات کا اہتمام کیا لیکن حکمت یار نے صاف انکار کر دیا وجہ یہ بتائی گئی کہ ملاقات سے سوویت یونین کے اس پراپیگنڈا کو تقویت ملے گی کہ مجاہدین امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حکمت یار کو پتہ تھا کہ یہ امریکہ کی شان میں گستاخی ہے اور امریکی گستاخوں کو معاف کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ اس پر امریکیوں نے حکمت یار کیخلاف پراپیگنڈے کا محاذ کھول دیا اور پاکستان پر دبائو ڈالا کہ وہ گلبدین حکمت یار سے دوری اختیار کر لے۔ حکمت یار حسبِ معمول امریکہ سے سیدھے پاکستان آئے خدشہ تھا فوجی حکومت منہ لگانے کے بجائے منہ بسورے گی۔ لیکن ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب صدر جنرل ضیاء الحق خود حکمت یار کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ صدر ضیاء حکمت یار کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر آرمی ہائوس لے گئے جہاں وہ چار دن مہمان رہے۔ اس سے امریکہ کو باور ہو گیا کہ ضروری نہیں پاکستان وہی کچھ کرے جو امریکہ کی تمنا اور آرزو ہو… یہ بھی ضیا دور میں ہی ہوا کہ امریکی سفیر کو براہِ راست افغان کمانڈروں سے رابطہ کرنے سے سختی سے روک دیا گیا اور واضح کیا کہ سفیر اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ ملاحظہ فرمائیے مشرف کی پالیسیوں نے جن پر آج بڑے جوش و خروش سے عمل جاری ہے، پاکستان کو عزت و وقار کے کس درجے پر پہنچا دیا۔ ڈرون حملے، امریکیوں کی پاکستان کے اندر گھُس کر کارروائیاں، سفارتکاروں کا شہر شہر نگر نگر بلا روک ٹوک دندناتے پھرنا اور ہمارے حکمرانوں کا ہر مطالبے پر سر تسلیم خم کئے چلے جانا جرأت و غیرت کی پستی کی عجب داستان ہے۔
لاہور میں دہشت گردی میں ملوث ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے حکومت نے سخت، بھرپور اور قوم کی امنگوں کے عین مطابق موقف اختیار کیا ہے کہ دبائو کے باوجود ملزم کو نہیں چھوڑیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ ہمارے حکمرانوں کا وعدوں اور دعوئوں کے حوالے سے ریکارڈ کوئی روشن اور قابلِ رشک نہیں ہے۔ اپنی بات سے پھر جانا اور مکر جانا وطیرہ رہا ہے۔ تاہم کسی کا بھی ضمیر جاگنے، قومی غیرت کے لوٹ آنے اور حمیت کے عود آنے میں دیر نہیں لگتی۔ شاید ضمیر روشن ہو گئے ہوں، غیرت و حمیت لوٹ آئی ہو۔
No comments:
Post a Comment