اتوار ، 06 فروری ، 2011
آخری قسط
فضل حسین اعوان
مصر کا مردِ آہن عوامی سیلاب کے باعث مردِ بیمار بن گیا۔ اس کا جانا ٹھہر گیا، وہ صحرا میں خزاں رسیدہ شجر کی مانند تنہائی کا شکار، بے یار و مددگار اور بے رحم طوفانوں کے رحم و کرم پر ہے۔ چراغِ سحر کی طرح بجھنے سے قبل پوری قوت سے ٹمٹما رہا ہے۔ آخری حربے کے طور پر خانہ جنگی کی طرف مائل ہے مظاہرین کے خلاف اپنے پروردہ لوگوں کو مسلح کر کے حملے کرائے جا رہے ہیں۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ حسنی مبارک آج گیا یا کل، اُس نے خود بھی شکست تسلیم کر لی ہے۔ ستمبر 2011ء میں الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا جاں نشیں بیٹا جمال مبارک اپنی اہلیہ اور بچوں سمیت مصر چھوڑ کر برطانیہ جا چکے ہیں۔ حسنی کی بیگم صاحبہ سوزا نے بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ہے۔ سوزا نے انگریز ہے اس لئے اسے اپنے آبائی وطن سیٹل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ویسے بھی حسنی مبارک نے 30 سال میں 25 ارب پائونڈ جمع کئے ہیں۔ 82 سالہ ’’نوجوان حسنی‘‘ اور ’’گڑیا سوزانے‘‘ اس رقم سے ’’زندگی بھر‘‘ موج مستی کر سکتے ہیں۔ حسنی مبارک نے 30 سال میں اپنے عوام کا صدقہ 25 ارب پائونڈ کی صورت میں جمع کیا۔ ہمارے حکمران اتنی رقم پانچ سال میں اڑانے کا عزم لئے ہوئے۔ تیونس کے زین العابدین کی رفیقہ حیات اپنے وطن سے بھاگتے ہوئے 42 من سونا جہاز میں لاد کے لے گئی۔ کھربوں ڈالر مالیت کے کوئلے اور 1300 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے سونے کے ذخائر جہازوں میں لاد کر لے جانا ہمارے حکمرانوں کے بس میں نہیں۔ بس اسی بے بسی پر یہ پریشاں، پشیماں بلکہ ماتم کناں ہیں۔ حسنی مبارک 25 ارب پائونڈ کا کیا کرے گا؟ اگر اس نے قوم کے خون پسینے کی کمائی سے لندن کے پوش علاقے نائٹ برج میں 85 لاکھ پائونڈ کی مالیت کا محل نہ بنوایا ہوتا اور 25 ارب پائونڈ اپنے لوگوں کی فلاح پر مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے استعمال کئے ہوتے تو آج مصری عوام مظاہرے کرنے کے بجائے اس کی ڈھال بن چکے ہوتے۔ اس کی حفاظت کے لئے جانثار ہوتے۔
مصر میں اب معاملات صرف تبدیلی تک محدود نہیں رہیں گے۔ انقلاب برپا ہونے کو ہے۔ اسلامی انقلاب۔ ایران کی طرح کا انقلاب۔ امریکہ اور اسرائیل کے لئے جان لیوا اور خوفناک انقلاب۔ تبدیلی سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس کے لئے اسلامی انقلاب دہشت ناک اور وحشت ناک ہے۔ اسی لئے مصر سے آخری امریکی تک کے انخلا کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسرائیل مصر میں برپا ہونے والے ممکنہ انقلاب سے جو ہمارے نزدیک یقینی ہے، امریکہ سے بھی زیادہ خوفزدہ ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو تو اس خیال سے ہی ہڑبڑا جاتا ہے۔ دو روز قبل جرمن چانسلر انجلا مرکل کے ساتھ مقبوضہ بیت المقدس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اندر کے خوف پر قابو نہ رکھ سکا اور برملا اظہار کر دیا کہ حکومت مخالف مظاہروں سے فائدہ اٹھا کر انتہا پسند مصر پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ایران کی نوعیت کا انقلاب جنم لے سکتا ہے۔ اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے اس موقع پر کہہ دیا مصر میں جمہوریت کے بجائے ڈکٹیٹرشپ تسلیم کر سکتے ہیں۔ صدر حسنی مبارک کے نظام کی جگہ اسلام پسند جماعتوں کو کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے۔ یہی سوچ امریکہ کی بھی ہے لیکن وہ اپنی زبان پر نہیں لاتا۔
صدر حسنی مبارک نے ستمبر 2011ء کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا 47 سالہ بیٹا جمال مبارک بھی انتخاب نہیں لڑے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ مصر کے کنویں میں حسنی مبارک زیادہ سے زیادہ مزید 6 ماہ موجود رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد خس کم جہاں پاک۔ حسنی کے اقتدار کا خاتمہ بالجبر ہو چکا ہوتا تاہم وقتی ریلیف اس لئے مل گیا کہ امریکہ و اسرائیل کو اخوان المسلمین اس کی جگہ لیتے نظر آنے لگے۔ دوسرے جمال مبارک کی جاں نشینی کا معاملہ ٹھپ ہوا تو آرمی چیف جنرل عبدالسمیع اپنے سر پر تاج شاہی سجنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مصر میں اسلامی انقلاب آیا تو یہیں تک محدود نہیں رہے گا اس انقلاب کی ٹھنڈی اور مسحور کن ہوائیں بہت سے اسلامی ممالک کی طرف بھی چل نکلیں گی۔ مسلمان سامراجیت اور استعماریت سے بہت تنگ ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کامیابی و کامرانی کی منزلیں طے کرتا چلا آ رہا ہے۔ افغانستان میں لوگوں کو ملا عمر اور طالبان کا برپا کردہ اسلامی انقلاب نہیں بھولتا جب غریب ملک کے عوام ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن تھے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شب خون مار کر ایک غریب اور نہتے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اب اسلامی ممالک میں اسلامی انقلاب کی راہیں ہموار ہو رہیں، اسلامی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ یہ سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آ سکتی ہے۔ خدا کرے
No comments:
Post a Comment