About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, February 24, 2011

مہرجان

جمعرات ، 24 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
شہر ہزاروں کی آبادی کا ہو‘ لاکھوں یا کروڑوں کا‘ اسکے امن کو صرف چند شرپسند ہاتھ میں بندوق تھام کر تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔ ان چند ایک بدقماشوں اور بدمعاشوں کو معاشرے کا نمائندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ویسے بھی شر‘ برائی اور غلاظت بغیر زیادہ کوشش کے پھیلتی اور بڑھتی ہیں‘ اچھائی نیکی اور شفافیت کیلئے باقاعدہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ صاف ستھری ریلوے کی بوگی‘ بس یا کسی بھی گاڑی حتیٰ کہ دفتر اور جہاز تک میں بھی گندگی غیرارادی طور پر پھیلتی ہے۔ صفائی ستھرائی کیلئے تردد کرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ چند بداعمال افراد کے ہاتھوں یرغمال بن جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے؟ 
مشرقی پاکستان کا المیہ کچھ اقتدار کے بھوکوں کی وجہ سے پیش آیا‘ اس میں کچھ حصہ نااہل قیادت اور ملک دشمنوں کی سازشوں کا بھی تھا۔ کچھ اِس طرف سے نفرت کی چنگاری اڑائی گئی‘ زیادہ اُس طرف سے آگ دہکائی گئی۔ نفرت کی دیواریں کھڑی کرنیوالے نہ یہاں اکثریت میں تھے‘ نہ وہاں‘ اُس طرف مٹھی بھر شرپسندوں نے مغربی پاکستان کیخلاف زہریلا پروپیگنڈا کرکے نفرتوں کے بیج ضرور بونے کی کوشش کی‘ اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے‘ اسکے باوجود دو قومی نظریے پر ایمان و ایقان رکھنے والے کبھی اقلیت میں نہیں رہے۔ پاک فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان میں اختیارات سے کچھ تجاوز ضرور ہوا ہو گا لیکن اس پر کوئی ذی شعور اعتبار نہیں کر سکتا کہ تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کر دیا گیا اور دو لاکھ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ یہ سب جھوٹ بنگالیوں کو پاک فوج سے متنفر اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کیلئے علیحدگی پسند غداروں نے تواتر کے ساتھ بولا۔ عام بنگالی پاکستان سے محبت کرتا ہے‘ تاہم ایک طبقہ آج بھی نفرت کی فضامیں کمی نہیں ہونے دینا چاہتا۔ حسینہ مجیب کی نفرت کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی‘ شیخ مجیب الرحمان مکافات عمل کا شکار کا ہوا‘ اسکی بیٹی کسی نہ کسی صورت اس کا پاکستان کو بھی ذمہ دار گردانتی ہے۔ پاکستان کی بات کرنیوالوں کو اب بھی جنگی مجرم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں وسیع پیمانے پر بے پایاں خواہش ہے کہ مشرقی اور مغربی بازو پھر سے خواہ ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن سے ہی سہی‘ جڑ جائیں۔ ایسی خواہش دوسری طرف بھی پائی جاتی ہے اس کے باوجود بنگلہ دیش ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے‘ وہاں ایک طبقہ کے اندر بدستور پاکستان کیخلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے‘ اس آگ کو دہکائے رکھنے میں وہاں 25 فیصد ہندو اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کو ”را“ کی ہمیشہ سے آشیرباد حاصل رہی ہے۔ وہ بنگالی مسلمانوں کو اپنی اساس اسلام سے ہٹا کر قومیت پرست بنگالی بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور پاک فوج کےخلاف یہی ہندو اور قومیت پرست پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ آج کل بنگالی فلم ”مہرجان“ انکے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہی ہے‘ یہ فلم گزشتہ ماہ ریلیز کی گئی تھی‘ محبت کے موضوع پر بننے والی اس فلم کی نمائش مٹھی بھر شدت پسندوں نے رکوا دی ہے۔ یہ 1971 ءکی بغاوت کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔ جس میں ایک بنگلہ لڑکی پاکستانی فوجی کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہندو ذہنیت کی پیداوار فلم میں خیرکا تو کوئی پہلو ہو ہی نہیں سکتا‘ اس میں دکھایا گیا ہے کہ یہ فوجی اپنے ساتھی اہلکاروں کی طرف سے مبینہ جنگی جرائم کے ارتکاب میں شمولیت سے انکار کر دیتا ہے جس کے باعث اس کا کورٹ مارشل کردیا جاتا ہے۔ فلم کی ڈسٹری بیوشن کمپنی مبینہ کے مالک حبیب الرحمان کا کہنا ہے کہ 1971ءمیں اس نے مکتی باہنی کا ساتھ دیا تھا‘ آج مہرجان کی ریلیز پر اسے اسکے ساتھی بھی غدار قرار دیتے ہیں۔ ایک فلم جو مکمل طور پر ہندو ذہن کی عکاس ہے‘ اس میں صرف پاکستانی فوجی کا ذکر ہے جو ایک لڑکی کی محبت میں بھگوڑا ہو گیا۔ یہ بھی ہندوانہ سوچ اور ذہنیت کے حامل بنگالی قوم پرستوں کو ناگوار گزر رہی ہے۔ حالانکہ اس فلم پر پاکستان کی طرف سے اعتراض ہونا چاہیے کیونکہ اس میں پاک فوج کو جنگی جرائم کا مرتکب دکھایا گیا ہے۔ 
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ بنگالی جن کی پاکستان کیخلاف مسلسل پروپیگنڈے سے برین واشنگ کی گئی ہے‘ ان تک حقائق پہنچائے جائیں۔ انکی کنفیوژن دور کی جائے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آج انٹرنیٹ اور فیس بک کے ذریعے عرب دنیا میں بے سمت اور شتربے مہار قسم کے انقلاب برپا ہو رہے ہیں‘ پرانی قیادتوں کو اٹھا کر پھینکا جا رہا ہے‘ نئی قیادت موجود ہی نہیں۔ تیونس اور مصر میں انکے صدور گئے پیچھے ہنوز بدامنی ہے۔ لیبیا میں تحریک زوروں پر ہے‘ بس قذافی کو نکالنا ہے اسکے بعد کیا ہو گا‘ مظاہرین کے پاس کوئی لائحہ عمل اور حکمت عملی نہیں ہے.... ہمارے سینما گھروں میں بھارتی فلمیں چل رہی ہیں فلم ساز فارغ ہیں‘ وہ اس طرف آئیں‘ بنگلہ زبان میں حب الوطنی پر مبنی فلمیں بنائیں‘ نوجوان طبقہ خصوصی توجہ اس طرف کرے‘ انٹرنیٹ اور فیس بک کا استعمال کرکے بنگالی بھائیوں کی جس قدر ہو سکے کنفیوژن دور کی جائے۔ ان کو حقائق سے آگاہ کیا جائے ان کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی غلط فہمیوں کی دھند کو ہٹایا جائے انکی یرغمال بنی سوچ کو آزاد کرانے کی کوشش کی جائے‘ اس سے نفرتیں اور دوریاں کم‘ محبتیں اور قربتیں بڑھیں گی۔

No comments:

Post a Comment