About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, February 22, 2011

سفارت.... شرافت یا شرارت

 منگل ، 22 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
قوموں، معاشروں اور افراد کی اصالت، اصلیت و حقیقت انکے قول و فعل اور کردار و عمل سے واضح ہوتی ہے۔ ہمارے لئے اسوہ ¿ رسول ضابطہ حیات ہے۔ ریاست مدینہ کو ہمہ وقت دشمنوں سے خطرات کا سامنا ہے۔ حضور نے دشمنوں پر نظر رکھی۔ انکے منصوبوں اور عزائم کا کھوج لگانے کیلئے خفیہ مشن بھی ترتیب دئیے لیکن کسی سفیر سے کبھی جاسوسی کا کام نہیں لیا۔ سفیر کاکام دوسرے ملک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا۔ متعین ملک میں اپنے ہم وطنوں کے حقوق کا تحفظ اور تجارتی و سفارتی تعلقات کو جدید تقاضوں کے مطابق فروغ دینا ہوتا ہے۔ نہ صرف سفیر کے ساتھ تعینات عملے سے بلکہ دوروں پر آئے شہریوں سے بھی سفیر جیسے کردار کی توقع رکھی جاتی ہے لیکن سامراجی، استعماری قوتوں اور نراجی خواہشوں کی حامل طاقتوں نے سفارت کو شر، شرارہ، شرارت، بنا دیا ہے۔ جاسوسی کو سفارتکاری کا لبادہ اوڑھا کر اسے نفرت، حقارت اور خباثت کی علامت بنا دیا۔ نجابت اور شرافت کو رذالت اور ذلالت کے گڑھے میں پھینک دیا۔ اب ثبوت سامنے آرہے ہیں کہ ریمنڈ سی آئی اے کا قائم مقام چیف تھا۔ اسے سفارتخانے یا امریکی قونصلیٹ کا عام ملازم قرار دیا جا رہا ہے جو خاص ہیں وہ کیا گل کھلاتے اور پاکستان کی جڑیں کس طرح کھوکھلی کرتے ہوں گے! امریکہ پاکستانی حکمرانوں کو آج نہیں عرصہ سے اپنے اچھے برے مقاصد کیلئے استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ 1957ءمیں وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے روس کی جاسوسی کیلئے صدر آئزن ہاور کی درخواستِ تعاون کو پذیرائی بخشی۔ جس طرح آج بلیک واٹر، میرینز اور دیگر کاریگر اور بازیگر سفارتی لبادے میں پاکستان آرہے ہیں، آئزن ہاور کے ”نیک مقاصد“ کیلئے بھجوایا، عملہ بھی سفارتکاری کیلئے ہی آیا تھا۔ پشاور ائربیس سے امریکی پروازیں روسی فضا میں داخل ہوکر اپنا کام کرتی رہیں۔ پھر یکم مئی 1960ءکو امریکی یوٹو روس نے گرالیا لیکن اسکی خبر جاری نہ کی۔ جھوٹ، فریب، دغا بازی، دھونس اور ہٹ دھرمی اس بزعم خویش ہمہ صفت موصوف کی گھٹی میں پڑی ہے۔ 4 مئی کو جاسوسی طیارہ مار گرانے کا اعلان کیا تو امریکہ نے کہا اسکا ترکی سے اڑنے والا موسمی طیارہ لاپتہ ہوا ہے۔ پائلٹ نے آخری بار آکسیجن کا مسئلہ درپیش آنے کی کال کی تھی۔ ہوسکتا ہے وہی طیارہ راستہ بھٹک کر روسی حدود میں جاگرا ہو۔ اسکے ساتھ اسی قسم کے ایک جہاز کو ناسا کا رنگ و روغن کرکے اور مونو لگا کر میڈیا کو دکھا دیا گیا۔ 7 مئی کو امریکیوں کے جھوٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب روسی وزیراعظم خروچیف نے کہا کہ پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا گیا ہے اور وہ صحتمند و تندرست ہے۔ اس سے روسی کرنسی 7500 روبل‘ خواتین کے زیورات اور اسلحہ ملا ہے جبکہ جہاز کے اندر سے جاسوسی کیمرے اور حساس مقامات کی تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آئزن ہاور نے معافی مانگنے سے انکار کیا جس کے باعث خروشیف پیرس میں ایسٹ ویسٹ سمٹ ادھوری چھوڑ کر چلے آئے۔
روس کو جاسوسی پروازوں کا علم ہوا تو اس نے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے جہاز گرایا اور پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو بچایا۔ روسی انجینئروں نے یوٹو جہاز کے سپیڈ سسٹم کو کنٹرول کرکے سپیڈ زیرو کردی۔ جہاز نیچے آرہا تھا کہ زمین سے ٹکرانے سے قبل پائلٹ بیل آﺅٹ کرگیا۔ اسکے آدھے گھنٹے بعد وہ روسیوں کی حراست میں تھا۔ اسکو بھی سائنائڈ کا کیپسول تھمایا گیا تھا لیکن وہ ایسی جبلت، فطرت اور سرشت کی حامل نسل سے تعلق رکھتا تھا جو اپنے مقاصد کی خاطر لاکھوں انسانوں کا قلع قمع تو کر سکتی ہے‘خود اپنے ہاتھوں اپنی جان نہیں لے سکتی۔ ویسے کوئی آفت آئے یا کوئی قہر بن کر ٹوٹ پڑے تو بے شک چند لمحوں میں تین چار ہزار خاک اور راکھ کا ڈھیر بن جائیں‘ اسے پروا نہیں۔ 
جہاز بنانے، ان میں جدت لانے اور انکو گرانے کا سلسلہ لگ بھگ ایک صدی سے جاری ہے۔ کم از کم سات سال سے امریکہ کے ڈرون جہاز پاکستان پر یلغار کر رہے ہیں۔ اب 23 جنوری کے بعد کل تقریباً ایک ماہ بعد حملہ ہوا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے ان حملوں کا مہرہ ریمنڈ تھا۔ وہ پکڑا گیا تو حملے بند ہوگئے۔ ڈرون حملوں میں ریمنڈ کا کچھ نہ کچھ کردار تو ہوسکتا ہے، امریکہ اور سی آئی اے کا اس پر یا کسی بھی ایک شخص پر مکمل انحصار نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس خبر میں صداقت ہوسکتی ہے کہ طالبان اور القاعدہ کو ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوگئی ہے جس کے ذریعے وہ ڈرونز کی فریکوئنسی کو ڈسٹرب کرکے مار گراتے ہیں۔ 23 جنوری کے بعد چھ ڈرونز کو اہداف تک پہنچنے سے قبل مار گرایا گیا۔یہ اسی سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے روس نے امریکہ کا جاسوس طیارہ یوٹو گرایا تھا۔ یوں سمجھئے طالبان اور القاعدہ کے ہاتھ کروز میزائل آگیا ہے جو مجاہدین کے ہاتھوں روس کی تباہی بربادی ذلت آمیز شکست اور انتشار کا سبب بنا تھا۔ اب اِکا دُکا ڈرون ہی حملہ کے بعد بچ پایا کرینگے۔شاید اب تاریخ خود کو دہرانے چلی ہے اور مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کا بھی وہی حال ہونیوالا ہے جو اس خطے میں روس کا ہوا تھا۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment