ہفتہ ، 12 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
پانامہ وسطی امریکہ کا چھوٹا سا ملک ہے۔ آزاد اور خودمختار ملک، 1986ءمیں امریکہ نے پانامہ کے آرمی چیف جنرل مینوئل نوریگا پر منشیات کی سمگلنگ اور اپوزیشن لیڈر کے قتل کا الزام لگایا۔ پانامہ کے صدر ایرک ارتورو ڈل ول نے نوریگا کیخلاف کارروائی کی کوشش کی تو یک ایوانی پارلیمنٹ قومی اسمبلی نے صدر ایرک کو فارغ کردیا۔ یہ امریکہ کی شان میں گستاخی اور ناقابل معافی جرم تھا۔ دسمبر 1989ءمیں قومی اسمبلی نے نوریگا کو انتہائی اہم لیڈر قرار دیا جس پر امریکہ بپھر گیا اور پانامہ پر حملہ کرکے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی پارلیمنٹ کی طرف سے اہم قرار دئیے گئے لیڈر کو 3 جنوری 1990ءکو گرفتار کرلیا۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کسی ملک کی خودمختاری کا کتنا خیال رکھتا ہے اور جو اس کے سامنے ذرا گردن اٹھا کے چلنے کی کوشش کرے اسے اسکے ملک سے بھی اٹھا لاتا ہے، خواہ وہ اس ملک کا صدر اور آرمی چیف ہی کیوں نہ ہو۔ صدام کو تو اسکے گھر میں گھس کر پھانسی لگا دی گئی۔ آج وہ ایک بظاہر معمولی ملازم کیلئے استثنیٰ مانگ رہا ہے۔ خود اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کے اہم رہنماﺅں سے بھی جنگی مجرموں جیسا سلوک کرتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے یوں لگتا ہے امریکہ آتش فشاں پہ بیٹھا ہے۔ بے قرار، بے چین اور انتہائی زیادہ مضطرب، دن کو چین نہ رات کو سکون، اُس کے بڑوں کا صدر پاکستان اور وزیراعظم کو فون، اُدھر ہلیری کی شاہ محمود قریشی سے کُٹی اور جنرل کیانی سے ریمنڈ ڈیوس کی فوری رہائی کا مطالبہ، کیمرون منٹر کا تو جیسے گرم توے پر پاﺅں آگیا۔ کراﺅلی کی ریمنڈ ڈیوس کی بات کرتے ہوئے منہ سے جھاگ بہہ رہی ہوتی ہے۔ واشنگٹن میں وزارت خارجہ کی طرف سے حسین حقانی کو بار بار ڈیرے پر بلا کر کمیوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے امریکہ کا آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ہے۔ ہمارے حکمران امریکہ کو جو جواب دیتے ہیں انکا دل انکی زبان کا ساتھ نہیں دیتا تاہم عوامی دباﺅ ہے جو ابھی تک اس موقف پر کانپتی ٹانگوں سے قائم ہیں کہ استثنیٰ کا فیصلہ عدالت کریگی۔ دو روز قبل کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کا کیس عدالت میں ہے، وہی فیصلہ کریگی۔ عسکری قیادت کے اس عزم سے سیاسی قیادت کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں۔ عسکری قیادت کے اس عزم سے سیاسی قیادت کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں۔ قوم کا پہلے ہی یہ مطالبہ ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں بہت کچھ سامنے آچکا ہے۔ اس سے جو اسلحہ اور دستاویزات ملی ہیں اس سے تو وہ دہشت گردوں کا سرپرست ثابت ہوتا ہے۔ دو پاکستانیوں کو اس نے چلتی گاڑی سے ونڈ سکرین کے دوسری طرف جس طرح نشانہ بنایا یہ عام آدمی کا کام نہیں۔ وہ انتہائی ماہر نشانہ باز ہے۔ سفارتکار کیلئے ایسی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ امریکہ کی بے چینی سے بھی ریمنڈ ڈیوس کی انتہائی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ امریکیوں کو شاید یہ خدشہ بھی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کہیں اب کچھ اگل نہ دے جس سے امریکی منصوبہ بندی طشت ازبام نہ ہوجائے۔ اگر واقعتاً ایسا ہی ہے اور پاکستانی حکومت رہائی پر آمادہ نہیں ہوتی تو امریکہ ایک تو اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے خاتمے اور 2ارب ڈالر کی امداد روکنے کی دھمکی پر عمل کرسکتا ہے، دوسرا وہ ریمنڈ ڈیوس کی جبری رہائی کی کوشش۔ اگر وہ ریمنڈ ڈیوس کی زندگی کو اپنے منصوبوں پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے تو اسے ٹھکانے لگانے سے بھی گریز نہیں کریگا۔ ریمنڈ ڈیوس کیلئے کوٹ لکھپت جیل میں تمام سہولتوں سے مزین کمرے کی آرائش ہوچکی ہے۔ یہ جیل شہر سے باہر ہے۔ یوں سمجھئے چوزے کو چھت پر بٹھا دیا، اب اسے بلی لپکے یا چیل اچکے۔ جہاں جنرل نوریگا کو اٹھانے والا آپریشن ”Nifty Package“ آسانی سے ہوسکتا ہے۔ امریکہ اس حوالے سے اپنے لے پالک اسرائیل سے بھی تعاون حاصل کرسکتا ہے جس کے کمانڈوز نے 27 جون 1976ءکو ائر فرانس کا ہائی جیک ہونیوالا یوگنڈا کے ائرپورٹ پر کھڑا جہاز چھڑا لیا تھا۔ وہ کمپاﺅنڈ میں موجود 104 اسرائیلی مسافروں کو اسی جہاز
میں واپس لے آئے تھے۔ تمام کے تمام فلسطینی اغوا کار مارے گئے۔ تین مسافر اور ایک اسرائیلی کمانڈو ہلاک ہوئے تھے۔ فلسطینی نوجوان جہاز اغوا کرکے غفلت کا شکار ہوگئے۔ اگر ہشیار اور خبردار رہتے تو ایک بھی اسرائیلی کمانڈو زندہ بچ کر نہ جاتا۔
یہاں امریکی ڈرون طیارے بلا کسی روک ٹوک پاکستانی حدود میں داخل ہو کر جہاں چاہتے ہیں بمباری کرکے چلے جاتے ہیں۔ اگر امریکہ موجودہ حالات میں کسی فضائی آپریشن یا زمینی کارروائی میں جیل پولیس سے ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر لاہور میں موجود اپنے قونصل خانے میں لے جاتا ہے تو کیا ہماری حکومت اسے بازیاب کراکے پھر قید کرلے گی؟ ذرا غور کریں جس گاڑی نے نوجوان عباد الرحمن کو کچل کر مار ڈالا وہ گاڑی اسی قونصل خانے میں کھڑی ہے، وہ گاڑی برآمد ہوئی نہ اسکا ڈرائیور اور نہ اس میں سوار ریمنڈ ڈیوس کے ساتھی بازیاب ہوئے ہیں۔ ریمنڈ واردات کے بعد قونصل خانے چلا جاتا یا اب اسے کسی بھی طریقے سے یہاں لایا جاتا ہے تو سمجھئے وہ پاکستان میں نہیں امریکہ پہنچ چکا ہے۔ ریمنڈ کو پکڑا ہے تو اسکی حفاظت میں ایسی سستی نہیں ہونی چاہئے جیسی فلسطینی نوجوانوں سے ہوئی تھی۔
ریمنڈ ہوسکتا ہے کہ پولیس کو سب کچھ بتا چکا ہو جسے پولیس سمجھنے سے قاصر ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس سے تفتیش آئی ایس آئی کرے۔ یہ آئی ایس آئی کی تحویل میں ہوگا تو اسکو اٹھا لے جانے کا چانس نہیں رہے گا۔ کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا تو امریکہ کو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ موقع ملنے پر وہ جیل کی سلاخیں فوری پھلانگ جائیگا۔
No comments:
Post a Comment