About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, February 15, 2011

BANGLADESH,Untold Facts

13-2-11
BANGLADESH,Untold Facts
.فضل حسین اعوان
 مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے الگ ہوجانا وہ گھاﺅ ہے جس نے عام پاکستانی کی روح کو گہرائی تک گھائل کردیا ۔ پاکستانیوں کے دل و دماغ سے یہ سانحہ قیامت تک محو نہیں ہوسکتا۔ پاکستان ٹوٹنے کے عمل سے اُس طرف اور اِس طرف کے پاکستانی آج بھی ششدر ہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا گیا! ۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ دل قریب ہوں۔محبت و اخوت ہوتو فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کچھ لوگوں نے پاکستان دشمنی لالچ اور ذاتی مفاداتی سیاست کے باعث دونوں حصوں کے باسیوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کیں۔ پھر ان کو نفرت، کدورت ، کینے اور دشمنی تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ دونوں حصوں کے با اثر حلقوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بے جا و بے سروپا پراپیگنڈا کیا گیا۔ وہاں کی قیادت نے مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آنے کی بات کی تو یہاں کی اشرافیہ کے پروردہ دانشوروں نے جواباً کہا کہ ہماری معیشت پر دھوتی والے بوجھ ہیں۔ دونوں حصوں کے عام لوگ انگریز سے آزادی دلانے اور ہندو کی غلامی سے بچانے پر قائداعظم کے ممنون اور اپنی پاکستانیت پر شاد اور مطمئن تھے۔ پھر امن پیار اور اخوت کے جگنوﺅں اور تتلیوں کی جگہ بھنوروں اور گِدھوں نے لے لی۔ ان کے اندر کا خبث، لالچ اور زہر، خواہش بن کر باہر نکل آیا۔ کہیں سے الگ وطن بنانے اور کہیں سے ان کو سبق سکھانے کی آوازیں آنے لگیں۔ نفرت کی آگ کو حقارت کا تیل چھڑک کر اس کو مزید بھڑکایا گیا ۔ پھر قائداور اقبال کا پاکستان ٹوٹ گیا۔ وہ حصہ الگ ہو گیا جہاں پاکستان کو معرضِ وجود میں لانے کی سزا وار مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔کسی بھی حصے کے لوگ دوسرے حصے والوں سے بڑھ کر پاکستانی تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں عام پاکستانی کا کوئی قصور نہیں۔ یہ سانحہ نااہل حکمرانوں اور اقتدار کی منزل حاصل کرنے کی بے پایاں خواہش کے رسیا دونوں طرف کے سیاستدانوں کی سازش کے باعث رونما ہوا۔ پاکستان ٹوٹنے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ابھی تک اس کے محرکات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے سرکاری سطح پر کوئی تحقیق سامنے نہیں آئی۔ حمود الرحمن کمشن بنا۔ اس نے تحقیقات کی۔ وہ کبھی سرکاری طور پر سامنے نہیں آسکی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی بات ہوتی ہے تو محب وطن پاکستانیوں کا دل کٹ کے اور جگر پھٹ کے رہ جاتا ہے۔کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ وہ زخم بدستور تازہ اور ان سے خون رس رہا ہے۔ اس حوالے سے کوئی انکشاف سامنے آئے تو گویا زخموں پر نمک چھڑک دیا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالم کی کتابBANGLADESH UNTOLD FACTS پڑھنے کا موقع ملا۔مشرقی پاکستان میں شورش کے دوران کیپٹن دالم کوئٹہ میں تعینات تھے۔ ان کے اندر بھی بنگالیوں کیلئے ”جذبہ آزادی“ نے جوش مارا تو کیپٹن موتی اور لیفٹیننٹ نور کے ساتھ بہاولپور بارڈر کراس کرکے اپنی خدمات ”را“ کے حوالے کر دیں۔ کیپٹن دالم پاکستان سے جانے کے بعد میجر بنے۔ شیخ مجیب الرحمن سے بے تکلفی ہوئی شیخ مجیب نے 7آرمی افسروں کو کرپٹ سیاستدانوں کے دباﺅ پر فارغ کیا تو ان میں دالم بھی شامل تھے۔15اگست1975 کو مجیب الرحمن کو ان کے خاندان اور ساتھیوں سمیت قتل کیا گیا۔ان کی جگہ خوندکر مشتاق صدر بنائے گئے۔ان کو ریڈیو سٹیشن قوم سے خطاب کیلئے لایا گیا تو شریف الحق دالم وہاں یونیفارم میں استقبال کیلئے موجود تھے۔مجیب کے قتل کے بہت بعد ان کی بیٹی حسینہ واجد1996میں اقتدار میں آئیں تو اپنے والد کے قاتلوں کی معافی کا قانون ختم کرکے ملزموں پر مقدمہ چلایا گیا 11کو سزائے موت ہوئی۔ لیکن سزا پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ وہ دوسری بار اقتدار میں آئیں تو جنوری2010 میں میجر الہدیٰ،لیفٹیننٹ کرنل محی الدین،لیفٹیننٹ کرنل سید فاروق الرحمن، لیفٹیننٹ کرنل شہریار راشد خان اور لانسر اے کے محی الدین کو پھانسی لگا دیا گیا۔اس کیس میں لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالم ، لیفٹیننٹ کرنل عبدالرشید، لیفٹیننٹ کرنل نور چودھری، کیپٹن مجید،رسالدار مصلح الدین کو بھی سزائے موت سنا ئی گئی تھی لیکن وہ مجیب کی پتری کے ہتھے نہ چڑھ سکے۔ یہ لوگ نہ جانے دنیا کے کس کس کونے میں پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن کب تک۔ 
” بنگلہ دیش اَن ٹولڈ فیکٹس“ کب چَھپی، کہاں چھپی، کس نے چھاپی کتاب میں اس کا ذکر نہیں۔اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ 1990سے قبل چھپی ہے۔اس میں جو کچھ لکھا گیا اس کا زیادہ تر حصہ منظر عام پر پہلے ہی موجود ہے تاہم دالم صاحب کے ذاتی تجزیات کے حوالے سے تھوڑا بہت نیا بھی ہے۔کرنل صاحب ایوب خان کے کردار اور پالیسیوں کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے محرکات قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں یحییٰ خان آخری دم تک پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں گھناﺅنا کردار ہے۔آخر میں اندرا گاندھی نے 5لاکھ فوج کی یلغار کرکے پاکستان توڑنے کا خواب دیکھنے والوں کو اس کی تعبیر دیدی۔
٭٭٭٭



کرنل دالم کیا کہتے ہیں اس پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں ” ایوب خان کا مارشل لاءپاکستان میں جمہوریت کیلئے تباہ کن تھا۔اس نے جمہوریت کو قتل کر دیا۔ایوب کا بنیادی جمہوری سسٹم وسیع پیمانے پر کرپشن کی جڑ بن گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے استحکام کو گزند کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد شفٹ کرنے سے پہنچی۔ ایک تیسرے درجے کے وکیل منعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنادیا گیا۔ طلبا منعم خان کی پالیسیوں کے خلاف تھے منعم کے بیٹے خسرو نے طلبا کے خلاف مسلح گروپ لاکھڑے کئے۔1965 کی جنگ میں مشرقی بازو مغربی سے مکمل طورپر کٹ گیا۔مشرقی پاکستان میں موجود وسائل سے بھارت کی جارحیت کا صرف 3دن مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔مشرقی پاکستان کا مکمل انحصار مغربی پاکستان پر تھا۔ مغربی پاکستان کی معیشت صرف 17روزہ جنگ میں ڈوب گئی تھی۔مجیب الرحمن نے اس تناظر میں 6نکاتی پروگرام پیش کیا جس میں مشرقی پاکستان کی خود مختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا....6نکاتی پروگرام بتدریج مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کا مطالبہ بنتا گیا۔ اچانک6جنوری 1968کو دو سینئر سی ایس پی افسروں سمیت26دوسرے ملٹری اور سول افسروں کو بھارتی قونصلیٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کو مسلح جدوجہد سے توڑنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔17جنوری کو مجیب الرحمن رہا ہوئے تو جیل کے گیٹ پر ان کو مذکورہ سازش میں شریک ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔اس کو اگر تلا سازش کیس قرار دیاجاتا ہے۔لیفٹیننٹ کمانڈر معظم کے ذہن میں بنگالی فوجیوں سے امتیازی سلوک کے باعث مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنے کا آئیڈیا آیا۔ وہی اس منصوبہ بندی کا سرغنہ تھا۔ اسی طرح کے خیالات رکھنے والے لوگوں کی خواہش تھی کہ ایوب خان کے خلاف جاری مہم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کو آزاد کرالیاجائے۔ اگر تلا سازش کیس سے مجیب الرحمن کی مقبولیت میں راتوں رات اضافہ ہوگیا۔22فروری 1969 کو اگرتلا سازش کیس واپس لے کر شیخ مجیب اور ساتھیوں کو رہا کردیا گیا لیکن اس وقت تک وہ بنگالیوں کے ہیرو بن چکے تھے۔ مشرقی پاکستان میں سٹوڈنٹس مجیب الرحمن کے شانہ بشانہ ہوگئے۔مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔معاملات کنٹرول سے باہر ہوتے دیکھ کر ایوب خان نے اقتدار یحییٰ کے حوالے کردیا۔ یحییٰ خان کی پہلی تقریر بڑی حوصلہ افزا تھی جس سے دونوں حصوں میں جاری احتجاج اور ہڑتالیں ختم ہوگئیں۔
یحییٰ خان نے فیئر الیکشن کرائے۔مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن نے قومی اسمبلی کی 162میں سے 160،مغربی پاکستان میں ذوالفقار بھٹو نے 138میں سے 85 نشستوں پر کامیابی حاصل کی.... 23 مارچ 1971 کو یحییٰ خان اور مجیب الرحمن کے درمیان آخری ملاقات ہوئی جس میں مجیب الرحمن نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں الگ الگ قیادت کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔اس پر یحییٰ خان مشتعل ہوئے۔25مارچ کو مجیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا۔تاج الدین اور ساتھیوں نے بھارت جا کر جلا وطن حکومت قائم کرلی جس کا ہیڈ آفس کلکتہ میں تھا۔“
٭٭٭٭
شریف الحق دالم کا تبادلہ کوئٹہ سے کھاریاں اور موتی کا پشاور ہوا تھا۔ دونوں نے اپنی اپنی یونٹ کو آگاہ کیا کہ وہ بائی ائیر جائیں گے۔ اصل میں یہ ملتان ائیر پورٹ سے براستہ بہاولنگر بہاولپور قریب سے راجستھان میں داخل ہونے کا منصوبہ بناچکے تھے ۔تیسرے ساتھی نور نے ٹرین کے ذریعے بہاولنگر ریلوے سٹیشن سے ان کے ساتھ شامل ہونا تھا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی اپریشن جاری تھا۔ مغربی پاکستان میں عام آدمی بنگالیوں کیلئے وہی جذبات رکھتا تھا جو ایک پاکستانی کے دوسرے کیلئے ہونے چاہئیں۔ اس کا ثبوت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تمام بنگالیوں کا بحفاظت وہاں چلے جانا ہے۔دالم لکھتے ہیں کہ اپنے فرار کے منصوبے پر عملدرآمد کی ابتدا کوئٹہ میں اپنی یونٹ سے ائیر پورٹ روانگی سے ہوئی تو ان کے ساتھی افسروں نے ان کو بڑی محبت اور پیار سے الوداع کیا۔ ان کو جیپوں اور کاروں کے قافلے کے ساتھ ائیرپورٹ پہنچایا گیا۔ یہ جہاز کی طرف روانہ ہوئے تو ساتھی افسروں نے انہیں ہیرو کی طرح کندھوں پر اٹھا لیا۔مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسروں کا اپنے لئے یہ والہانہ پن دیکھ کر دالم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ حکمران جو کر رہے ہیں ان کو عام پاکستانی کی حمایت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ دالم اور ساتھی ائیر پورٹ کس جذبے سے گئے اور ساتھی افسر کس محبت سے خدا حافظ کہنے آئے۔ دالم اگر یہ آرٹیکل ملاحظہ کریں تو ان سے اور ان جیسی سوچ کے حامل دیگر بنگالی افسروں سے سوال ہے کہ انہوں نے پاکستان کے تحفظ اور اس سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ اس پاکستان کے تحفظ اور وفاداری کا جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔انہوںنے کیا صرف حلف ہی توڑا یا اسلام سے بھی منہ موڑلیا تھا؟ پاکستان کے تحفظ اور وفاداری کا حلف توڑنے اور ایسا ہی بنگلہ دیش کیلئے حلف اٹھانے تک وہ کس حلف کے تحت رہے ؟ کیا بھارت کے آئین کے تحت ؟




بہرحال تینوں افسر کامیابی سے بارڈر کراس کرتے ہوئے دہلی میں منسٹری آف ایکسٹرنل افیئرز جا پہنچے۔ جہاں ان کو را کے سربراہ جنرل اُبن سنگھ کی مہمانی میں دے دیا گیا۔ جنرل ابن نے تخریب کارانہ تربیت کیلئے ان کو بریگیڈئر نرائن کے حوالے کر دیا۔ را RAW) (پاکستان کے دفاعی معاملات تک رسائی کیلئے اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔اس کو ایجنسیوں کی تلاش میں اپنے جاسوس تک مروانے پڑتے ہیں پھر بھی مطلوبہ معلومات تک مکمل رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ را نے پہلے مرحلے میں پاک فوج کے افسروں اور اپنے مہمانوں سے ذاتی اور خاندانی حوالے سے معلومات حاصل کرتے ہوئے پاکستان کی دفاعی تنصیبات، تربیت لائف سٹائل، بارڈر سیکورٹی سسٹم سمیت تمام معلومات حاصل کیں۔ بریگیڈئر نرائن کی کمانڈ میں دالم موتی اور نور کو دو ہفتے کاکریش کورس کرایا گیا۔ جس میں انسرجنسی، کاﺅنٹر انسرجنسی، گوریلا جنگ، چھوٹے ہتھیاروں، بارود کے استعمال اور بغیر اسلحہ کے لڑنے کی تربیت دی گئی۔ جلا وطن حکومت اور جنرل اُبن کے مابین مشرقی پاکستان سے بارڈر کراس کرکے بھارت آنیوالے مہاجر نوجوانوں کی تربیت کیلئے کوآرڈی نیشن تھا۔ بھارت بنگلہ دیش لبریشن فورس بھی تیار کرنا چاہتا تھا جو مجیب الرحمن کی دست راست ہوتی اور اس کے بل بوتے پر مجیب، فوج اورپیرا ملٹری فورس سے بے نیاز ہوکر حکمرانی کرتے۔
دالم لکھتے ہیں کہ بھارت میں مہاجر کیمپوں میں موجود ایک لاکھ نوجوانوں کو گوریلا وار کی تربیت دی گئی ایک موقع پر صدر جنرل یحییٰ خان نے عام معافی کا اعلان کیا تو بھارت نے جلا وطن حکومت کو پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ کرنے سے منع کردیا۔
اندرا گاندھی نے بنگالیوں کو آزادی دلانے کے نام پر مشرقی پاکستان پر 5لاکھ فوج کے ساتھ حملہ کیا اس کی معاونت کیلئے دو لاکھ بھارت کے تربیت یافتہ گوریلے بھی ساتھ تھے۔ 5 لاکھ فوج کو فضائیہ اور بحریہ کی مدد حاصل تھی۔ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے موقع پر جلا وطن حکومت کے آرمی چیف اور مکتی باہنی کے کمانڈرکرنل عثمانی کو ریس کورس میں برپا ہونے والی اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا جس میں جنرل نیازی نے سرنڈر کیا تھا۔یہ تقریب جنرل اروڑا کا ون مین شو تھا جس کا مقصد دنیا پر واضح کرنا تھا کہ اس جنگ کا واحد فاتح بھارت ہے۔
جنگ ختم ہوئی تو تاج الدین کی قیادت میں جلا وطن حکومت ڈھاکہ منتقل ہوگئی۔ مجیب الرحمن رہا ہوکر لندن گئے وہاں سے بنگلہ دیش آنے کے بجائے اندرا گاندھی کے چرن چھونے اور آزادی دلانے کا شکریہ ادا کرنے بھارت چلے گئے۔ بنگلہ دیش آئے تو تاج الدین کو حکومت سے الگ کردیا۔پھر مجیب کے قدم آمریت کی طرف قدم بڑھتے چلے گئے۔ بنگالیوں نے مجیب کے ایجنڈے کو سپورٹ ضرور کیا تھا پاکستان توڑنے اور اسے بھارت و روس کا باجگزار بنانے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ 1972ءکے شروع میں ہی نو زائدہ ملک میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہو گئی۔ لوٹ مار، قتل و غارت اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا۔ ملک میں بھارت اور راکی پالیسیوں پر عمل درآمد ہورہا تھا۔بھارتی فوج واپس جاتے ہوئے فیکٹریوں اور گھروں سے سامان اٹھا کر لے گئی۔ ملک کو ناجائز اسلحہ سے پاک کرنے کی ذمہ داری فوج کو سونپی گئی۔ مجیب کے ساتھیوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو مجیب الرحمن چیخ اٹھے آپریشن بند اور گرفتار شدگان کو رہا کر دیا۔ 
ہر کسی کی خواہش تھی کہ ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیاجائے ۔ لیکن چند ماہ میں ہی یقین ہونے لگا کہ بہتری کی خواہش اور ”آزادی“ کیلئے جو خون اور پسینہ بہایا گیا اس سے معمولی سی بھی تبدیلی نہیں آنیوالی۔اس کی وجہ سیاسی قیادت کا قومی کے بجائے ذاتی مفادات کا تحفظ تھا۔پاکستان سے علیحدگی کے محض دو سال کے اندر لوگ بھوک سے مر رہے تھے مغربی ٹی وی چینل بھوک سے مرنے والوں کے لاشوں کے ڈھانچے دکھا رہے تھے۔ جو زندہ تھے وہ سوختہ جسم لئے پھرتے تھے اس کے ساتھ ہی اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات غربت کا مذاق اڑاتے تھے۔ طاقت اور دولت کے حصول کیلئے کامریڈ آپس میں گتھم گتھا تھے۔آپ1972کا کوئی اخبار اٹھا لیں اس میں قتل، ڈکیتی، اغوا قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے سوا کوئی خبر نظر نہیں آتی۔ بنگلہ دیش میں ہر طرف دہشت اور وحشت کی حکمرانی تھی۔ دنیا بھوکوں کیلئے خوراک بھیجتی تو یہ سرکاری سرپرستی میں دوسرے ممالک کو سمگل کردی جاتی تھی۔لوگ بھوک سے بد حال تھے توایسے موقع پر شیخ برادران سونے کے تاج سجا کر شادی رچا رہے تھے مولانا بھاشانی نے اس بد نظمی اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں حکومت نے چین اور پاکستان کا ایجنٹ قراردیدیا۔ مجیب کی ذاتی فوج راکھی باہنی نے ملک میں الگ سے غدر مچا رکھا تھا۔ایک موقع ایسا آیا کہ شیخ مجیب الرحمن کی پالیسیوں سے تنگ آکر ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروپ نے ان سے بنگلہ بندھو ”قوم کا باپ“ کا خطاب واپس لے لیا۔ مجیب الرحمن بنیادی طورپر موقع پرست بزدل اور ڈرپوک تھا۔ جس نے بالآخر ملک میں جمہوریت کا خون کردیا اس نے کئی بار کہا کہ وہ پاکستان کو کسی صورت ٹوٹنے نہیں دے گا۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اس نے کہا کہ وہ شروع سے ہی متحدہ پاکستان کے خلاف تھا۔ اُس نے اگر تلا سازش کیس میں ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا۔
حکومتی پالیسیوں سے تنگ آکر کرنل ضیاءالدین نے مقامی ہفت روزہ میں حکومت کے خلاف ایک سخت آرٹیکل لکھا جس میں کہا گیا ہم مجیب الرحمن کے بغیر لڑے اور جیت گئے اگر 



ضرورت پڑی تو ہم اس کے بغیر پھر لڑیںگے۔ گو ضیاءالدین نے اس کے بعد استعفیٰ دیدیا لیکن ان کی سوچ کو فوج اور سول میں خوش آمدید کہا گیاپھر فوج کے اندرسینا پرشاد کے نام سے ایک خفیہ تنظیم بنائی گئی جس میں بیورو کریٹس با اثر سویلین اور ریٹائرڈ فوجی بھی شامل تھے۔ اسی تنظیم نے بالآخر15اگست1975 کو مجیب الرحمن کے پورے خاندان کو سوائے دو بیٹیوں کے قتل کر دیا۔ 15اگست کی تاریخ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر شیخ مجیب الرحمن اپنی تا حیات صدارت کا اعلان کرنے والے تھے۔ 
٭٭٭٭
پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ قدرت کاملہ کا عظیم شاہکار ہے۔ جو لاکھوں جانوں کی قربانی اور خدا کی نصرت کے باعث دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ یہ ریاست مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی ریاست ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ربّ کائنات کا خاص کرم ہے کہ پاکستان رمضان المبارک کی ستائیسویں اور جمعة الوداع کے روز آزاد ہوا۔ پاکستان سے جس نے جیسا کیا اُسے ویسا ہی بدلا بھی ملا۔
قدرت کا اپنا نظام، انتظام اور طریقہ انتقام ہے۔ کسی محفل میں پاکستان توڑنے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بحث ہورہی تھی۔کوئی عدالتی ٹربیونل اور کوئی پارلیمانی کمشن تشکیل دینے کی بات کر رہا تھا۔کوئی حمود الرحمن کمشن رپورٹ کے سامنے لانے کی۔ ایک دانشور نے کہا ”خدا نے سانحہ مشرقی کے مجرموں کا تعین کرکے ان کو کیفر کردار تک بھی پہنچادیا۔اب آپ آسانی سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ بڑا مجرم کون دوسرے اور تیسرے نمبر کا کون ہے۔ محفل میں موجود تقریباً ہر آدمی چونک گیا ایک نے زور دیکر وضاحت کی درخواست کی تو دانشور نے بتانا شروع کیا”جن لوگوں کو ہم سانحہ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ان کے نام مخفی نہیں ہیں تعین سب سے بڑے دوسرے اور تیسرے نمبر کے مجرم کا کرنا ہے۔اس سانحہ کی سازش میں ملوث سب سے پہلے مجیب پھر بھٹو اور اندرا گاندھی قتل ہوئیں۔ اس سے بھی آپ مجرموں کے تعین میں کسی مخمصے کا شکار ہوں تو یہ بھی دیکھ لیجئے کہ مجیب الرحمن کے خاندان کے 7افراد کی موت غیر فطری ہوئی۔بھٹو صاحب سمیت 4 اور اندرا گاندھی کے خاندان کے ان سمیت 3افراد غیر طبعی موت مرے۔ مجیب الرحمن قتل ہوا تو سعودی اخبار شرق الاوسط نے تصویر کے ساتھ صرف اتنا لکھا ”مَن قَتَلَ باکستان قُتِلَ“ جس نے پاکستان کو قتل کیا قتل ہو گیا اندرا گاندھی کے قتل اور بھٹو صاحب کی پھانسی پر بھی ان کی تصاویر لگا کر یہی سرخی جمائی تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جو فوجی افسر پیش پیش تھے انہوں نے مجیب کو قتل کیا۔ پاکستان توڑنے کے سب سے بڑے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا لیکن انہوں نے یہ سب پاکستان کی محبت میں نہیں کیا۔ ان کا پاکستان توڑنے میں کردار اپنی جگہ، اس کی کسی کو سزا موت کی صورت میں ملی اور کسی پر اس وطن کی زمین تنگ ہوگئی جس کیلئے انہوں نے وہ سب کچھ کیا جس کی ان کا دین اجازت نہیں دیتا تھا۔اب وہ دربدر ہیں۔ اب اس جج اور اس کے خاندان کا المیہ ملاحظہ فرمائیے ؛ جسٹس قاضی غلام رسول نے مجیب کے قتل میں ملوث فوجیوں کو حسینہ واجد کے دباﺅ پر سزا سنائی وہ خود ان کی اہلیہ اورتین بیٹیاں پاگل ہوگئےں“۔ دانشور کی باتیں واقعی قابل غور تھیں۔
مشرقی پاکستان کے لوگ مغربی پاکستان والوں کی طرح ہی محب وطن تھے۔ بلکہ ہم سے بھی کچھ بڑھ کر۔ہم میں سے کتنے لوگوں کو بنگالی آتی ہے؟۔ وہاں آج بھی پچاس فیصد سے زائد بنگالی اردو بول سکتے ہیں۔یہاں اور وہاں ابھی تک طبقاتی تقسیم ختم نہیں ہوئی۔ عوام اور حکمران دو الگ الگ طبقات ہیں۔ دونوں کے رہن سہن میں فرق‘ کلچر میں فرق اور سوچ میں فرق ہے۔ بنگلہ دیش جانے والے پاکستانی واپسی پر بنگالیوں کی پاکستان اور پاکستانیوں سے والہانہ محبت کی کہانیاں سناتے ہیں۔ نالائق نااہل اور جاہل قیادت کے احکامات پر فوج سے اپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ زیادتی ضرور ہوئی لیکن شاید اس وسیع پیمانے پر نہ ہوئی ہو جس کا اُس وقت پراپیگنڈہ کیا گیا اور بنگلہ دیش میں موجود ایک طبقہ بدستور کر رہا ہے۔ جس میں مجیب کی بیٹی سرفہرست ہے۔ مجیب کو پاک فوج نہیں خود ان کی اپنی فوج نے قتل کیا۔ پاک فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان میں اگر کوئی غیر انسانی اقدامات کئے گئے تو ایسا کرنے والوں کو ہرگز معاف نہیں کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی ایسے لوگوں کو بھی عبرت کا نشان بنانا چاہئے۔ جنہوں نے دونوں بازﺅوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں اور حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ اقبال اور قائد کا ملک بکھر کر رہ گیا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان دین اسلام کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے جو بھارت نے توڑ دی۔کوئی مرد حق ہو تو آ ج بھی دونوں کو ایک لڑی میں پرو سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا سب سے بڑا ہاتھ ہے بھارت حملہ نہ کرتا تو پاکستان کا ٹوٹنا ناممکن تھا۔ پھر حالات کسی وقت بھی پٹڑی پر چڑھ سکتے تھے۔ کیا ہم ملک ٹوٹنے میں بھارت کا کردار بھول گئے؟ ۔آج اس کے ساتھ وفود کے تبادلے اور تجارت ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود بھی کہ وہ کشمیر پر بدستور قابض اور کشمیریوں کو نشانہ ستم بنائے ہوئے ہے۔ ہمارے اندر اتنی تو قوت ایمانی‘ غیرت اور حمیت ہونی چاہئے کہ اگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بدلہ نہیں لے سکتے تو کم از کم کشمیریوں کی خونریزی بند ہونے اور ان کی آزادی تک تو بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے‘ وفود کے تبادلوں اور تجارت سے صبر کر لیں۔
















No comments:

Post a Comment