About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, February 15, 2011

روگ

منگل ، 15 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان 
امریکہ کے 35ویں صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی اہلیہ جیکولین کے ساتھ 1961ء میں 31 مئی سے تین جون تک فرانس کا دورہ کیا۔ اس وقت کینیڈی کی عمر 44 اور جیکولین کی 32 سال تھی۔ اس دورے کا کلائمیکس نوجوان جوڑے کے اعزاز میں ورسائی میں دیا جانیوالا سٹیٹ ڈنر تھا۔ اس ڈنر کی خاص بات یہ تھی کہ نوجوان امریکی صدر کینیڈی اور 71 سالہ فرانسیسی صدر ڈیگال کے درمیان ٹرانسلیٹر کے فرائض جیکولین نے ادا کئے تھے۔ اسے فرنچ زبان پر مکمل عبور حاصل تھا… ایک موقع پر فرانسیسی خاتون اول نے صدر کینیڈی کی گھڑی کی تعریف کی تو کینیڈی نے گھڑی اتار کر یونے ڈیگال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ہم امریکیوں کی روایت ہے کہ میزبان کو کوئی چیز پسند آ جائے تو اسے گفٹ کر دیتے ہیں۔ اس مکالمے سے ڈیگال نے محظوظ ہوتے ہوئے کینیڈی سے کہا مسٹر پریذیڈنٹ آپ کی اہلیہ بڑی خوبصورت ہیں!
صدر کینیڈی کو سود خوروں نے 22 نومبر 1963ء کو قتل کرا دیا۔ جیکولین کو بھرپور جوانی میں بیوگی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ 1968ء میں جان ایف کینیڈی کے بھائی رابرٹ کینیڈی کو بھی قتل کر دیا گیا تو جیکولین کو اپنی اور بچوں کی سکیورٹی کی فکر لاحق ہوئی اس نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اُس دور کے دنیائے جہازرانی کی صنعت کے بے تاج بادشاہ یونان سے تعلق رکھنے والے ارسطو اوناسس سے شادی کر لی۔ اوناسس کی عمر اُس وقت 68 سال تھی۔ اس نے شادی پر جیکولین کو تین ملین ڈالر اور اس کے دونوں بچوں کو ایک ایک ملین دئیے تھے۔ 
ارسطو اوناسس جس کی دولت کا خود اسے اندازہ نہیں تھا۔ آخری عمر میں اس کی آنکھوں پر اوپر سے ماس ڈھلک آیا تھا۔ کچھ بھی دیکھنے کے لئے اسے آنکھیں ہاتھ سے کھولنا پڑتی تھیں۔ اس سے کسی نے سوال کیا کہ اس قدر دولت رکھنے کے باوجود کوئی ایسی خواہش جو بدستور دل کے نہاں خانے میں موجود ہے؟ اس پر اوناسس کی آواز بھرائی اور آنکھوں کے اوپر چڑھے گوشت کے دبیز پردوں کے کسی کونے سے آنسوئوں کی پانی میں ڈھلتی ہوئی پتلی سی لکیر نمودار ہو کر رخسار پر آ گئی۔ اس نے کہا ’’میری خواہش ہے کہ میں آنکھیں جھپک سکوں‘‘۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ’’اس کے عوض آپ کیا دے سکتے ہیں‘‘ تو اوناسس نے حسرت بھرے لہجے میں کہا ’’آدھی دولت بلکہ اس سے بھی زیادہ‘‘۔ 
انسان ہیرے جواہرات سے مرصع کروڑوں روپے کا بیڈ خرید سکتا ہے تختِ طائوس بنوا سکتا ہے۔ اطلس حریر کے بستر لگوا سکتا ہے لیکن نیند نہیں خرید سکتا۔ بڑا دولت مند ہو گا تو مہنگی ترین ادویات تک دسترس پا لے گا، دنیا کے بہترین ڈاکٹروں تک رسائی حاصل کر لے گا بڑے سے بڑا ہسپتال خریدنے کی استطاعت بھی ہو سکتی لیکن صحت قیمتاً نہیں مل سکتی۔ فرعون نے جنت بنا لی، مشرف نے چک شہزاد میں قلعہ تعمیر کرا لیا۔ کسی نے سرے محل اور فرانس میں ولا بنوا لیا۔ پام سٹی میں بنگلے خرید لئے لیکن یہ خدا کی مرضی کہ ان میں ایک دن بھی بسر کرنا نصیب نہ ہو۔ جائیدادیں بے شمار، دولت کے انبار اندرونِ و بیرونِ ملک اکائونٹس کی بھرمار مگر کیا گارنٹی کہ ایک روپیہ بھی استعمال کرنا مقدر میں ہو۔ آج دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ احترام شخص وہی ہے جو دنیا کا امیر ترین بھی ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی اضطراب ہے نہ بے سکونی۔ یہ بل گیٹس ہے۔ اس کے اثاثوں کی مالیت 80 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس نے محلات، قلعے، بنگلے اور پلازے کھڑے نہیں کئے۔ وہ فلاحی رفاعی اور سماجی کاموں کے لئے 29 ارب ڈالر کے عطیات دے چکا ہے۔ اس نے اپنی وصیت میں اولاد کے لئے صرف اتنا حصہ مقرر کیا ہے جس سے آسانی سے زندگی بسر کی جا سکے باقی فلاحِ انسانیت کے لئے وقف کر دیا ہے۔ 
یہاں انسانیت سسکتی اور بلکتی ہے۔ ایک طرف بقعہ نور بنے ہوئے محلات تو دوسری طرف ٹپکتی تاریک اور ہَوا کے دوش پر کھڑی جھونپڑیاں، ایک طرف کتوں اور گھوڑوں کے لئے انواع و اقسام کی خوراکیں دوسری طرف دو وقت کی سوکھی روٹی کے بھی لالے۔ ایک طرف طائوس و رباب، شہنائیوں کی گونج، زندگی رقصاں، بسنت کا ارمان ویلنٹائن ڈے کا سامان، دوسری طرف دکھوں اور غموں کے نالے۔ ہمارے ملک کے امرا کو بل گیٹس کے اقدام کو فالو کرنا چاہئے جس نے حضورؐ کی تعلیمات کی پیروی کی۔ اوناسس کی طرح کسی پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے۔ جب معمولی بیماری زندگی کا روگ بن جائے۔ جس کا ازالہ پوری دولت سے بھی ممکن نہ ہو سکے۔


No comments:

Post a Comment